"اف خدا۔ یہ ہے وہ خوف ناک مکھی!"
"کہاں ہے۔؟" ہم تینوں نے ایک ساتھ گبھرا کر پوچھا۔
"ابھی تو نہیں ہے، مگر رات کو وہ ضرور آئی تھی۔ زمین میں پڑے ہوئے یہ گڑھے دراصل اس کے پیروں کے نشان ہیں۔ نشانوں کی گہرائی سے تم اس کے وزن کا اندازہ لگا سکتے ہوں۔ ساتھ ہی یہ بھی نوٹ کرو کہ ہر پیر کی موٹائی کتنی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہاتھی نے اپنے پاؤں جگہ جگہ رکھے ہیں۔ خیر اب میری سمجھ میں سب کچھ آ گیا ہے۔"
"کیا سمجھ میں آ گیا ہے؟" جیک نے دریافت کیا۔
"اس جزیرے کی کاہی پرندے بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ مگر کاہی میں کچھ ایسی نشہ کی خاصیت ہے کہ پرندے یہ کاہی کھاتے ہی بےہوش ہو جاتے ہیں۔ تب رات کو وہ خوف ناک مکھی شعلے اگلتی ہوئی اپنے غار میں سے باہر نکلتی ہے اور ان پرندوں کو چٹ کر جاتی ہے۔ پہلے میں سوچا کرتا تھا کہ اتنی بڑی دیوزاد مکھی بھلا کس طرح اڑتی ہو گی۔؟ مگر اب یہاں آ کر اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہ اڑ نہیں سکتی۔ البتہ مینڈک کی طرح کچھ فاصلے تک پھدک ضرور سکتی ہے۔ جو مکھی اڑ کر اپنا شکار تلاش نہ کر سکے اس کے لئے قدرت نے خوراک حاصل کرنے کا یہ انوکھا انتظام کر دیا ہے کہ پرندے دور دور سے اس کا شکار بننے کے لئے خود بخود کھچے چلے آتے ہیں!"
"شاید ہم بھی اسی لئے آ گئے ہیں۔" ملاح نے خوف سے لرزتے ہوئے کہا "کہ اس دیوزاد مکھی کی خوراک بنیں۔"
"احمق نہ بنو۔" جان نے اسے ڈانٹا "ہم اس مکھی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا طریقہ سوچ لیں گے۔ فی الحال تو یہی بہتر ہے کہ ہم رات کو اپنے اس غار میں سے کہیں باہر نہ نکلیں۔ ہمارے حق میں یہی سب سے اچھا ہے۔ دن کو ہم پورے جزیرے میں گھوم کر اس مکھی کا گھر تلاش کریں گے اور پھر اسے ختم کرنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالیں گے۔ ہمیں یہ کام چودہ دن کے اندر اندر کرنا ہے۔ کیا میری اس بات کو سب سمجھ گئے؟"
"جی ہاں سمجھ گئے۔ اب چوں کہ دن نکل آیا ہے لہذا آئیے اب اس مکھی کا گھر تلاش کر لیں۔" میں نے کہا۔
"میرا بھی یہی خیال ہے۔" جان نے میری بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔ "مگر ایک بات پہلے سب سن لیں، اور وہ بات یہ ہے کہ اگر اتفاق سے ہمارا سامنا اس مکھی سے ہو گیا تو سب سے پہلا کام ہمیں یہ کرنا ہو گا کہ پوری طاقت سے دوڑتے ہوئے سمندر کا رخ کریں گے۔ سمندر کے اندر پہنچ کر ہی ہم اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں ورنہ اور کوئی طریقہ اس سے بچنے کا نہیں ہے۔"
ہم نے اپنی گردنیں ہلا کر جان کو بتایا کہ ہم ایسا ہی کریں گے۔ اس کے بعد ہم آہستہ آہستہ جزیرے کی دوسری سمت میں چلنے لگے۔ بار بار مڑ کر اِدھر اُدھر دیکھتے بھی جاتے تھے کہ کہیں کوئی خطرہ تو نہیں ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں پستول تھے۔ دل بری طرح دھڑک رہے تھے اور ہمارے جسموں سے پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ سب ننگے جسم تھے۔ پتلونیں نیکر بن چکی تھیں اور اب یہ نیکر بھی چیتھڑے بن گئے تھے۔ کوئی ہمیں اس وقت دیکھتا تو یقیناً یہی سمجھتا کہ ہم آج سے لاکھوں سال پہلے کے جنگلی انسان ہیں جو تہذیب سے بالکل نا آشنا تھے اور جنہوں نے کپڑے پہننا بھی نہ سیکھا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ اس سفر میں میرے پاس کیمرہ نہیں تھا ورنہ آپ اس موقع کی ہُوبہُو تصویریں دیکھ سکتے تھے (اب بھی اپنے تخیل کی مدد سے میں نے ایک مصور سے خاص خاص موقعوں کی تصویریں بنوائیں ہیں) خیر تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہم پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے برابر آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ جس طرف اس خطرناک مکھی کے پیروں کے گڑھے جا رہے تھے ہمارا رُخ بھی اسی طرف تھا۔
کچھی ہی دیر بعد ہمیں اپنے سامنے دو اونچے پہاڑ دکھائی دیئے۔ ان پہاڑوں کے درمیان ایک راستہ تھا۔ راستہ کیا بلکہ گلی کہہ لیجئے اسے جس طرح گلی کے دونوں طرف اونچے مکان ہوتے ہیں اسی طرح یہ دو پہاڑ تھے۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ دائیں طرف کے پہاڑ کی چوٹی پر ایک بہت بڑی چٹان ٹھیری ہوئی تھی۔ ایک تو یہ معلوم کرنے کا شوق کہ یہ چٹان چوٹی پر کس طرح جمی ہوئی ہے، دوسرے یہ سوچ کر کہ ممکن ہے اس پہاڑ پر چڑھ کر ہمیں اس خوف ناک مکھی کا غار نظر آ جائے، ہم نے یکایک پہاڑ کی طرف بھاگنا شروع کر دیا اور پھر چاروں اس پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ پہاڑ کافی اونچا تھا اور ہم چاروں بڑی دقت کے بعد اس پر چڑھے دقت یوں ہوئی کہ اس پہاڑ پر بھی کاہی جمی تھی جس کی وجہ سے پھسلن تھی۔ مگر ایک لمبی رسی کو اپنی کمروں سے لپیٹ کر ہم اوپر چڑھتے ہی گئے۔ جان سب سے پہلے وہاں پہنچا اور رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اس کے بعد ہم بھی آہستہ آہستہ اوپر پہنچ گئے۔
وہاں پہنچ کر ہم نے دور دور تک نظر دوڑائی۔ کافی فاصلے پر نیلا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ہوا میں گرمی بڑھتی ہی جا رہی تھی اس خوفناک مکھی کے پیروں کے نشان جس سمت میں جا رہے تھے، ہم نے ادھر اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہم سے کافی دور۔ تقریباً چار فرلانگ کے فاصلے پر ایک بہت بڑا اور گہرا گڑھا ہے اور یہ عجیب سے نشان اسی گڑھے میں جا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گڑھے میں سے بھاپ بھی اٹھ رہی تھی۔ کبھی کبھی یہ بھاپ آگ کی لپٹ میں بھی بدل جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر جان نے ہمیں بتایا کہ دراصل وہ خطرناک مکھی اسی گڑھے میں رہتی ہے۔ صبح کے وقت وہ گڑھے سے باہر آتی ہے اور پرندوں کو اپنی ناک سے نکلنے والے شعلوں سے بھون کر کھا جاتی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جب تک ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں، اسے ختم کرنے کا طریقہ ہمارے ذہن میں نہیں آ سکتا۔ اس لئے بہتر ہے کہ ہم اپنے غار میں واپس چلیں اور اگلے دن اس مکھی کو کسی چٹان کی آڑ میں چھپ کر دیکھیں۔ اتنا کہہ کر جان نے سہارے کے لئے اپنا ہاتھ اس چٹان سے لگایا جو اس پہاڑ کی چوٹی پر ادھر ٹکی تھی۔ اچانک ایک زوردار گڑگڑاہٹ ہوئی اور وہ چٹان اس طرح ہلنے لگی جیسے ربڑ کی بنی ہوئی ہو۔ ہم حیرت سے کھڑے اسے ہلتے ہوئے دیکھتے رہے۔ کم از کم دس منٹ تک وہ اسی طرح ہلتی رہی۔ مگر پھر ہم نے زیادہ دیر وہاں کھڑے رہنا مناسب نہ سمجھا اور چٹان کو ہلتا چھوڑ کر پہاڑ سے نیچے اترنے لگے اور کچھ ہی دیر بعد ہر سمت کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے ہم واپس اپنے غار میں آ گئے۔
راستے ہی میں ہم نے کچھ مرے ہوئے پرندے چن کر اٹھا لئے تھے اور جھاڑیوں میں سے آگ لے لی تھی۔ اس لئے غار میں پہنچنے کے بعد ہم نے پرندے بھون کر کھائے۔ اتفاق سے مجھے کچھ بھنی ہوئی مچھلیاں زمین پر پڑی ہوئی مل گئیں۔ میں نے مرے ہوئے پرندے نہیں کھائے بلکہ ان مچھلیوں کو کھا کر پیٹ کی آگ بجھائی۔ بھوک بے حد لگ رہی تھی اس لئے دو منٹ ہی میں میرے تینوں ساتھیوں نے سولہ پرندوں کا صفایا کر ڈالا۔ غار کے باہر ہی ایک گڑھے میں پینے کا پانی بھرا ہوا تھا۔ یہ پانی کسی سوت سے آ رہا تھا۔ اس کا اندازہ ہم پہلے ہی لگا چکے تھے اور ہم نے یہ پانی پیا بھی تھا۔ اس لئے مچھلیاں اور پرندے کھانے کے بعد ہم نے خوب سیر ہو کر پانی پیا۔ پانی گرم تو تھا مگر پیاس بجھ گئی تھی۔ پانی پینے کے بعد جان نے کہا۔
"اس مکھی کو ختم کرنے کا ایک نرالا اور انوکھا طریقہ مجھے سوجھ گیا ہے۔"
"کون سا طریقہ؟" سب نے ایک ساتھ پوچھا۔
"ہو سکتا ہے کہ خدا نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہو۔ اگر وہ طریقہ کار آمد ہو گیا تو ہم بغیر کسی محنت اور تکلیف کے اس خوف ناک مکھی کو ختم کر سکتے ہیں ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ آج شام کو جو پرندے اس جزیرے کا رخ کریں اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ وہ ضرور شام کو اس طرف کاہی کھانے آئیں گے تو ہم انہیں اس جزیرے میں بسیرا نہ کرنے دیں اور کوشش کریں کہ وہ کاہی نہ کھائیں۔۔۔۔"
"مگر یہ کس طرح ممکن ہے!" جیک نے تعجب سے کہا۔ "پرندے تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں!"
"ممکن تو ہے۔ ہمیں شام ہوتے ہیں درختوں کی لکڑیاں جمع کر کے ان میں آگ لگا دیںی چاہئے پرندے خواہ کتنی ہی تعداد میں ہوں مگر آگ دیکھ کر کوئی پرندہ بھی اس طرف کا رخ نہ کرے گا۔۔۔" جان نے جواب دیا۔
"مگر اس کا فائدہ کیا ہو گا۔؟" میں نے پوچھا۔
"یہ میں اس وقت بتاؤں گا۔ فی الحال تو یوں سمجھو کہ میں ایک جوا کھیل رہا ہوں۔ اگر جیت گیا تو واہ وا۔ ورنہ موت تو ہر حالت میں سامنے کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔۔۔" جان نے سامنے کی طرف صاف میدان کو دیکھتے ہوئے کہا "ابھی وقت ہے، اس لئے سب سے پہلے ایک کام اور کرنا ہے آؤ میں تمہیں بتاؤں۔"
اتنا کہہ کر وہ ہمیں اس میدان میں لے گیا اور سب کو قطار میں کھڑے ہونے کو کہا۔ بعد میں خود بھی اسی قطار میں کھڑا ہو گیا۔ پھر کہنے لگا "ہمیں اس وقت دوڑ کا مقابلہ کرنا ہے۔"
"کیا مطلب۔ آپ کہیں مذاق تو نہیں کر رہے!" جیک کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"مذاق نہیں جیک، میں سنجیدہ ہوں۔ یوں سمجھو کہ ہمارے پیچھے وہ خوفناک مکھی آ رہی ہے اور ہمیں بھاگ کر اپنی جان بچانی ہے۔ کون ہم میں سے تیز دوڑ کر آگے بھاگ جاتا ہے، یہی دیکھنا ہے۔" سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے خود بھی یہ عجیب بات سن کر اتنی حیرت ہوئی کہ شاید کبھی نہ ہوئی ہو گی۔ کیا واقعی یہ مذاق کا موقع تھا! مگر جان کی شکل دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس معاملہ میں بالکل سنجیدہ ہے۔ ہم نے کچھ کہنا چاہا مگر اس نے اس کا موقع ہی نہ دیا۔ اور آخرکار مجبوراً ہمیں یہ دوڑ کا مقابلہ کرنا ہی پڑا۔ ایک دو تین کہہ کر ہم چاروں بڑی تیزی سے سامنے کی طرف بھاگے اور پھر بھاگتے ہی چلے گئے جان تو بےچارہ جلد ہی تھک گیا۔ اس کے بعد ملاح ہانپنے لگا۔ صرف میں اور جیک آگے بھاگتے گئے، مگر جیک میں اور مجھ میں بڑا فرق تھا۔ مانا کہ وہ بہت طاقت ور تھا، مگر میرے مقابلے میں تیز نہ بھاگ سکا اور پھرجلد ہی مجھ سے پیچھے رہ گیا۔ جان کی آواز سن کر ہم واپس آئے تو دیکھا کہ وہ بہت افسردہ بیٹھا ہوا ہے۔
"کیا بات ہے سر، کیا آپ کو میرے جیتنے کا رنج ہوا۔؟" میں نے آتے ہی پوچھا۔
"ہاں رنج ہوا ہے۔ فیروز! میں نہیں چاہتا تھا کہ تم اس دوڑ میں اول آتے مگر کیا کر سکتا ہوں، ہماری تقدیر!"
"آخر بات کیا ہے مسٹر جان، آپ معّموں میں باتیں کیوں کر رہے ہیں؟" جیک نے پوچھا۔
"بات سنانے کی نہیں۔ جب عمل کا وقت آئے گا تو تم میری دور اندیشی کے ضرور قائل ہو جاؤ گے؛ میں چاہوں تو تمہیں ابھی سب طریقہ سمجھا دوں مگر اب وقت نہیں ہے، شام ہو رہی ہے اور ہمیں جلد از جلد اس مقام پر آگ جلا کر کہیں چھپ جانا چاہئے۔ یہ تو ہم معلوم کر ہی چکے ہیں کہ مکھی صرف اسی مقام پر آتی ہے جہاں ہم کھڑے ہوئے ہیں اور جس کے آس پاس کی چٹانوں پر وہ کاہی جمی ہوئی ہے۔ اس لئے آگ ہمیں تقریباً پچاس گز کے قطر میں جلانی پڑے گی۔"
"مگر اس طرح تو ہمارا وہ غار بھی لپیٹ میں آ جائے گا جہاں ہم رات بسر کریں گے۔" جیک بولا۔
"یقیناً ایسا ہو گا۔" جان نے جواب دیا "مگر ہم آج رات وہاں سوئیں گے ہی نہیں بلکہ اس پہاڑ کی چوٹی پر آرام کریں گے، جس کے اوپر وہ ہلتی ہوئی چٹان رکھی ہے۔ ہم آج غار میں پناہ نہ لیں ہمارے حق میں یہی بہتر ہے۔ اگر خدا کو منظور ہوا تو کل دن میں ہم اس خوف ناک مکھی سے نجات حاصل کر لیں گے۔۔"
"یہ تو سب سے اچھی بات ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہم اس جزیرے سے جلد سے جلد نکل جائیں گے۔" جیک نے کہا۔
"اس غلط فہمی میں مت رہو جیک۔" جان نے کہا "ہمیں پورے تیرہ دن یہاں اور گزارنے پڑیں گے۔ جزیرے کے ڈوبنے کا انتظار ہر حال میں کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ اس کے ڈوبنے کے بعد ہی ہمارا جہاز واپس پانی کی سطح سے لگ سکتا ہے۔"
قدم قدم پر مشکلات کھڑی تھیں۔ آفتوں اور مصیبتوں نے ہمیں ہر طرف سے گھیر لیا تھا۔ خدا ہی بہتر جانتا تھا کہ ہمارا کیا حشر ہونے والا تھا۔ عقل کام نہ کرتی تھی اور نہ جانے کیوں ایک گبھراہٹ سی ہر شخص پر حاوی تھی، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی جو ایک کہہ دیتا تھا وہ سب مان لیتے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے جان کا کہنا مان لیا تھا! مختصر یہ کہ جلدی جلدی ہم نے مل کر لکڑیاں کاٹیں۔ گھاس پھوس اکٹھا کیا۔ ہر چیز گیلی تھی اس لئے بڑی مصیبتوں کے بعد ہم نے آگ جلائی اور پھر اس آگ کو دور دور پھیلا دیا تاکہ شام کو ہر سمت دھواں ہی دھواں بھر جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری محنت اکارت نہ گئی۔ آگ جل گئی اور لپٹیں اٹھنے لگیں۔ ادھر سورج نے بھی سمندر میں اپنا مونہہ چھپانا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر جان نے کہا۔
"اپنا سامان اٹھا کر اب اس پہاڑ کی طرف چلو۔"
جان کا حکم مان کر ہم نے اپنا سامان اٹھایا اور پھر احتیاط سے ہر طرف دیکھتے بھالتے اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے، جہاں وہ دوسرا ہلتا ہوا چھوٹا پہاڑ ٹکا ہوا تھا۔ یہاں اتنی جگہ ضرور تھی کہ ہم دیوزاد اور خوف ناک مکھی کی نظر سے چھپ کر آرام کر سکتے تھے۔ ابھی ہم نے وہاں اپنا سامان رکھا ہی تھا کہ جان نے مجھ سے کہا کہ میں اس مقام کو دیکھوں جہاں ہماری لگائی ہوئی آگ بھڑک رہی ہے۔
پرندے اب آہستہ آہستہ ہر سمت سے اس جزیرے میں کاہی کھانے کے لئے آ رہے تھے۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ شاید سورج ڈوبنے کے بعد ہی اس کاہی کی مہک ہوا کے ذریعے ہر طرف پھیلتی ہو گی اسی لئے پرندے شام کو آتے تھے! جزیرے کی طرف آتے ہی وہ آگ دیکھ کر اوپر پھڑپھڑاتے رہے۔ مگر نیچے اترنے کی ہمت کسی میں نہ ہوئی۔ سورج ڈوبتا جا رہا تھا اور پرندے برابر آتے جا رہے تھے۔ مگر ان میں سے ایک پرندہ بھی نیچے نہیں اترتا تھا۔ آخر کار رات ہو گئی۔ پرندے واپس لوٹنے لگے۔ مگر ان کی بے قراری بڑھتی ہی گئی۔ واپس جاتے ہوئے انہوں نے اتنا شور کیا کہ پورا جزیرہ گونج گیا۔ کچھ دیر بعد جان نے دوربین لگا کر دیکھا اور ہمیں بتایا کہ اب آسمان پر ایک بھی پرندہ نہیں ہے!
"اب کیا ہو گا۔؟" میں نے جان سے دریافت کیا۔
"اب یہ ہو گا فیروز کہ۔" جان نے سب کو باری باری دیکھتے ہوئے کہا "کہ رات ہم اسی چوٹی پر بسر کریں گے، مگر صبح کے چار بجے جاگ جائیں گے اور تب ہم اس خوف ناک مکھی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کیوں کہ اپنا شکار کھانے کے لئے وہ ضرور اپنے گھر میں سے نکل کر ان پہاڑوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی اس مقام تک جائے گی جہاں آگ جل رہی ہے۔ شکار نہ پا کر وہ بہت بے چین ہو گی اور پورے جزیرے میں ماری ماری پھرے گی۔ آخر تنگ آ کر وہ واپس اپنے غار میں جانے کی کوشش کرے گی اور تب ہی ہم اسے مار ڈالیں گے۔"
"مگر کس طرح مار ڈالیں گے؟" جیک نے پوچھا۔
"پہلے میں مکھی دیکھ لوں۔ مارنے کا طریقہ پھر بتاؤں گا۔ وقت سے پہلے میں اس لئے کچھ کہنا نہیں چاہتا کہ ممکن ہے میرا سوچا ہوا غلط ثابت ہو جائے۔"
رات ہم نے اسی چوٹی پر بسر کی اور پھر شاید صبح کے چار بجے ہی کا وقت تھا کہ جان نے ہم سب کو جگا دیا اور اشارے سے کہا ہم بالکل چپ رہیں اور اس غار کو دیکھیں جہاں مکھی کا گھر ہے۔ ہم آنکھیں ملتے ہوئے اس مقام کی طرف دیکھنے لگے جہاں مکھی کا گھر تھا اور جہاں اب ہلکی سی روشنی ہو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ روشنی بڑھنے لگی۔ اور پھر بڑھتے بڑھتے اتنی تیز ہو گئی کہ ہمیں چندھیا کر اس طرف دیکھنا پڑا۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے اچانک ایک تیز شعلہ آسمان کی طرف لپکا۔ اور پھر وہی ریل کے انجن جیسی تیز سیٹی سنائی دی۔ بڑی تیز گڑگڑاہٹ کی خوف ناک آواز آنے لگی۔ غار میں سے بار بار وہی شعلہ سا باہر لپکنے لگا۔ ہمارے دلوں کا اس وقت بس خدا ہی حافظ تھا۔ ہمارے اس سفر کا سب سے بڑا خطرہ اب ہمارے سامنے تھا۔ جو کچھ بھی ہماری قسمت کا لکھا تھا، بس اب چند سیکنڈ کے اندر ہی اندر ہو جانے والا تھا!
شعلہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد غار سے باہر لپکتا تھا۔ ساتھ ہی اوپر کا حصہ روشن ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے کوئی آتش فشاں پھٹنے والا ہے۔ ہم آنکھیں پھاڑے حیرت سے اس مقام کو دیکھے جا رہے تھے اور پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے ہاتھی کے پیروں سے بھی موٹے دو پیر اس غار سے باہر آئے ۔۔۔