خدا کو ہمیں زندہ رکھنا منظور تھا۔ اس لئے جہاز تیرتا ہوا بھنور سے دور نکل آیا۔ جہاز سے لٹکتے ہوئے رسوں کی مدد سے ہم اوپر چڑھے اور آخری ملاح نے جلدی جلدی بادبان کھول دیئے۔ جیک نے بھی اس کا ہاتھ بٹایا اور پھر آدھ گھنٹے کے اندر اندر ہم خطرے سے باہر ہو گئے۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں نے کوئی بھیانک خواب دیکھا ہو۔ میں بار بار مڑ کر اس مقام کو دیکھ رہا تھا جہاں کچھ دیر پہلے ایک جزیرہ تھا مگر اب وہاں کچھ بھی نہ تھا سوائے جھاگ اڑاتے ہوئے پانی کے! کچھ دیر بعد ذرا سکون ہوا اور جہاز اپنی ہلکی رفتار سے سمندر میں چلنے لگا تو میں سوچنے لگا کہ اب تک ہمارے ساتھ کیا حالات پیش آئے ہیں! پرانی باتوں کو یاد کر کے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یکایک جان کو پہلی بار یہ خیال آیا کہ جتنے آدمی تھے وہ سب جہاز میں آ گئے یا نہیں؟ اور جب اس نے دیکھا کہ کبڑا اور ایک ملاح جہاز میں موجود نہیں ہے تو فوراً گھبرا کر بولا۔
"چتین اور دوسرا ملاح کہاں ہے فیروز؟"
یہ سن کر ملاحوں کے چوتھے ساتھی نے بھی حیرت سے چاروں طرف دیکھا مگر کبڑا اور تیسرا ملاح ہوتا تو کہیں نظر آتا کیونکہ ان دونوں کی تو لاشیں بھی سمندر کی مچھلیاں کھا چکی تھیں۔۔۔!
یہ دراصل خدا کا انصاف تھا اس نے ایک ظالم شخص کو کیسی عبرت ناک سزا دی؟ پتھر کے ہاتھوں سے کچلوا کر اسے سمندر کی تہہ میں ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔ اب بھلا کسے معلوم تھا کہ پندرہ دن کے بعد وہ جزیرہ ابھرے گا بھی یا نہیں؟ کیوں کہ زہروی باشندے کے بتائے ہوئے پروگرام کے مطابق تو وہ جزیرہ آنے والی آدھی رات کے وقت ڈوبنا چاہئے تھا۔ مگر اب تو وہ پورے چوبیس گھنٹے پہلے ڈوب گیا تھا! اس کا مطلب یہی ہوا کہ زہروی باشندوں نے ریڈیائی لہروں کے ذریعہ اسے وقت سے پہلے ڈبو دیا۔ جب وہ اس جزیرے کو اپنی مرضی کے مطابق پہلے سے ڈبو سکتے ہیں تو اسے ایک نامعلوم عرصے کے لئے پانی میں رکھ بھی سکتے ہیں!
"تم کیا سوچ رہے ہو فیروز! بتاؤ آخر کبڑا کہاں ہے؟" جیک نے مجھے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔
"کبڑا اب کبھی نہیں آئے گا۔ اس کو اس کے کئے کی سزا مل گئی۔۔۔۔" میں نے آہستہ سے جواب دیا :
"وہ اب بہت دور چلا گیا ہے۔"
"کیا مطلب۔۔۔؟" جان نے چونک کر پوچھا۔
اور تب میں نے انہیں شروع سے آخر تک سب باتیں تفصیل سے بتا دیں۔ جوں جوں وہ کبڑے کی حیرت انگیز داستان سنتے جاتے تھے اتنے ہی ان کے چہرے زرد پڑتے جاتے۔ ملاح غریب تو بالکل ادھ مرا ہو کر بیٹھ گیا۔ بڑی دیر تک خاموشی رہی آخر جان نے ہلکی آواز میں کہنا شروع کیا۔
"سوبیا کے ذخیرے پر قبضہ کرنے کے بعد وہ احمق ہم سب کو باری باری ختم کر دیتا۔ فیروز ٹھیک کہتا ہے۔ یقیناً اس کی یہی اسکیم ہوگی مگر خدا کو یہ منظور نہیں تھا۔ کیوں کہ کبڑے کی قسمت میں لکھا ہی یہ تھا کہ وہ ایک پتھر کے دیوزاد کی مٹھی میں آ کر کچلا جائے۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب سوچنا یہ ہے کہ آگے کیا کرنا چاہئے؟"
جیک کچھ دیر تک خاموش رہ کر سوچتا رہا اور پھر آہستہ سے بولا :
"پروگرام کے مطابق اب ہمیں وہ جزیرہ تلاش کرنا چاہئے، جہاں پہنچ کر ہمارا یہ سفر ختم ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ جزیرہ اس مقام سے کہیں قریب ہی ہوگا۔ اس کے بارے میں بھی یہی مشہور ہے کہ چاند رات کو وہ سمندر میں سے ابھرتا ہے، مگر آج کے چاند کو دیکھ کر پتہ لگتا ہے کہ چودھویں رات کم از کم دس دن بعد آئے گی یہ دس دن ہم کہاں اور کس جگہ گزاریں گے! دراصل یہی سوچنا ہے۔"
"جگہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔" میں نے درمیان میں کہا:
"ہم زمین پر نہیں سمندر میں ہیں اور دس دن کا یہ عرصہ ہمیں یقیناً سمندر کی سطح ہی پر گزارنا ہوگا۔"
"تم بھی ٹھیک کہتے ہو فیروز۔۔۔" جان نے دوربین اپنی آنکھوں سے ہٹانے کے بعد کہا:
"مگر اس کے علاوہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن کے بارے میں ہمیں سوچنا ہے۔ دس دن تو ہم سمندر ہی میں ادھر ادھر گھومتے ہوئے گزار دیں گے، لیکن دیکھنا یہی ہے کہ یہ دن ہم کیسے گزاریں گے؟ ہمارے پاس کھانے کے لئے بہت کم سامان ہے۔ پانی کے پیپے بھی اب خالی ہو چکے ہیں۔ پینے کا پانی کہاں سے آئے گا اور ہم کھائیں گے کیا؟ یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ سمندر کا پانی پینے کے لائق تو ہوتا نہیں، دیکھو کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ پانی کے سینے پر چلتے ہوئے بھی ہم پانی سے محروم ہیں!"
"اگر اس جزیرے کے علاوہ کوئی اور جزیرہ نظر آ جائے تو بات کچھ بن سکتی ہے۔ ہم اس جزیرے کی زمین کھود کر اس میں سے پینے کا پانی نکال سکتے ہیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے مسٹر جان کہ ایسا جزیرہ ہمیں مل بھی گیا تھا، مگر وہاں ایسے عجیب و غریب واقعات پیش آئے کہ پانی تلاش کرنے یا زمین کھود کر پانی نکالنے کا خیال بھی ذہن میں نہ آ سکا۔" جیک نے مایوس لہجے میں کہا:
"خیر تمہیں چاہئے کہ ہمت نہ ہارو۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ پانی ہمیں ضرور ملے گا اور کھانے کے لئے ہم جزیرے کے جنگلی پھلوں کو استعمال کر سکتے ہیں۔ دُعا یہ مانگنی چاہئے کہ وہ جزیرہ، جس کی ہمیں تلاش ہے، اب ہمیں جلد سے جلد نظر آ جائے۔" جان نے سب کو تسلی دے کر کہا۔ جب کہ وہ خود ناامید نظر آ رہا تھا۔
تسلی ملنے سے دل کو ڈھارس تو ہوئی لیکن میں سوچنے لگا کہ پہلے جزیرے کی طرح کیا اس جزیرے پر ہمیں اتنی مہلت مل جائے گی کہ ہم پانی تلاش کر سکیں اور جنگلی پھلوں سے اپنا پیٹ بھر سکیں۔ کیوں کہ جیسا کہ میری یہ بھیانک داستان پڑھنے والوں کو معلوم ہے۔ پہلے جزیرے کے بارے میں ہمارا خیال یہی تھا کہ وہاں ہم اطمینان کا سانس لے سکیں گے۔ مگر کیا ایسا ہوا۔۔۔؟ سبز آنکھوں والے دیوؤں اور چٹانوں کے بنے ہوئے محافظوں نے ہمارا ناک میں دم کر دیا تھا۔ پھر بھلا اب ہم یہ کس طرح سوچ سکتے تھے کہ آئندہ ملنے والے کسی جزیرے پر ہم آرام سے رہ سکیں گے اور ہمیں وہاں کوئی حادثہ پیش نہ آئے گا؟ یہ سوچ کر میں نے جان سے اپنے دل کی بات بتاتے ہوئے مری ہوئی آواز میں کہا۔
"دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ ابھی تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ خدا کرے کہ اب جو بھی جزیرہ ہمیں ملے وہاں ہم مطمئن ہو کر اتر سکیں۔"
"تمہارا خدشہ درست ہے فیروز۔" جان نے کہنا شروع کیا:
"میں اچھی طرح سمجھ رہا ہوں کہ تم کیا سوچ رہے ہو۔ اس جزیرے پر دیوزاد مکھی کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ اسے کس طرح تلاش کیا جائے اور اس سے کیسے بچا جائے۔ کیوں کہ یہ تو تم دوںوں کو معلوم ہی ہے کہ مکھی بہت بڑی ہے اور اس کے نتھنوں سے شعلے نکلتے ہیں۔ میرے والد ولیم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ شعلے پتھر تک کو پگھلا دیتے ہیں۔ پھر بھلا ہم انسانوں کی کیا حقیقت ہے؟"
"جب وہ مکھی اتنی خطرناک ہے تو پھر ہم اسے پکڑیں گے کس طرح؟" میں نے پوچھا۔
"فیروز نے ٹھیک سوال کیا ہے۔" جیک نے تعریفی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا:
"بہتر ہوگا کہ آپ اس خوفناک مکھی کے بارے میں ہمیں اور تفصیل سے بتائیں۔ کیونکہ ابھی تک ہمارے پاس پوری معلومات نہیں ہیں۔"
"تفصیل میں اس سے زیادہ اور کیا بتا سکتا ہوں جو پہلے بتا چکا ہوں۔ کتاب میں اتنا ہی درج ہے جو میں نے تمہیں سنایا ہے۔ وہ درست ہے یا غلط یہ تو وہیں جزیرے میں چل کر پتہ لگے گا۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ہم اسے کس طرح پکڑیں گے؟ تو بس میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ابھی میرے ذہن میں اس کا کوئی جواب نہیں ہے، آگ ہمیشہ پانی سے بجھتی ہے مگر یہاں الٹا معاملہ ہے۔ وہ خطرناک مکھی سمندر میں رہتی ہے اور جزیرے کے ساتھ ہی پانی میں غرق ہو جاتی ہے۔ اسے پکڑنے یا مارنے کا طریقہ سوچنا کچھ آسان نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جب ہم اس جزیرے پر پہنچیں، خدا ہمارے دل میں خود ہی کوئی ایسی بات ڈال دے جس کی مدد سے ہم مکھی کو ہلاک کر سکیں۔"
یہ بڑی ناامیدی کا وقت تھا۔ اب تک میں سمجھتا آیا تھا کہ جان اس مکھی کو ختم کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ جانتا ہے۔ مگر خود اس کی زبانی یہ سن کر کہ اسے خود بھی نہیں معلوم کہ مکھی کس طرح ہلاک ہوگی، میرا جسم سن ہو گیا۔ ہاتھ پیروں کا دم سا نکلتا ہوا معلوم ہوا اور میں بالکل ہی خاموش ہو گیا۔ دل ہی دل میں خدا سے دعا مانگنے لگا کہ وہ ہمیں آنے والی مصیبتوں سے بچائے!
جیک نے کافی دیر خاموش رہنے کے بعد ایک لمبی سی ٹھنڈی سانس بھری اور پھر مرے ہوئے لہجے میں بولا۔
"مکھی کو ہلاک کرنے کا طریقہ معلوم ہو سکتا ہے، مگر پہلے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس مکھی میں کیا کیا خاصیتیں ہیں۔ آپ کے کہے ہوئے الفاظ کے مطابق مکھی کی خاصیتیں یہ ہیں کہ وہ ایک دیوزاد قسم کی بہت بڑی مکھی ہے، جس قسم کے دیوؤں سے بچ کر ہم آ رہے ہیں، اندازاً انہیں کے سیارے کی مکھی معلوم ہوتی ہے۔ آپ نے اس کا قد اونٹ جتنا بتایا ہے مگر خیال میں اس سے بھی بڑی ہوگی۔ لمبائی میں گینڈے سے لمبی اور ہاتھی سے بھی زیادہ موٹی ہے۔ یہ آپ نے ہی کہا ہے کہ اس کے پر دو بڑے ہوائی جہاز جیسے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب وہ اڑتی ہوگی تو آس پاس کے علاقے میں زبردست طوفان آ جاتا ہوگا اور درخت ہوا کے زور سے زمین سے اکھڑ جاتے ہوں گے۔ اس کی ناک سے لمبے لمبے شعلے نکلتے ہیں، جس سے ظاہر ہوا کہ وہ جہاں اڑتی ہوگی، وہاں آگ بھی لگ جاتی ہو گی! وہ سمندر میں رہتی ہے اور چودھویں رات کو جب کہ چاند پورا ہوتا ہے وہ جزیرہ سمندر میں سے ابھرتا ہے اور مکھی شکار کی غرض سے ہوا میں اڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جزیرے میں اسی کی جسامت کے جانور بھی کافی تعداد میں ہوں گے جن کا وہ شکار کرتی ہے۔ لیکن آپ کہتے ہیں کہ جزیرے میں کوئی جانور نہیں ہے۔ ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس کا پکڑنا آسان نہیں ہے۔ شکار وہ کس چیز کا کرتی ہے، اس کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ ظاہر ہے کہ جانوروں کا شکار نہیں کرتی ہوگی۔ کیوں کہ جانور تو اس جزیرے میں نہیں رہ سکتے جو پندرہ دن بعد سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ اس لئے ہماری عقل اس معاملہ میں بالکل بے بس ہے کہ وہ کیا کھاتی ہے اور کیا شکار کرتی ہے؟"
جیک نے اتنا کہنے کے بعد لمبا سانس لیا، اور میں چونکہ بہت دیر سے ایک بات کہنے کے لئے بے چین تھا، اس لئے موقع ملتے ہی میں نے جلدی سے کہا:
"ایک بات میں آپ کو ٹھیک ٹھیک بتا سکتا ہوں سر۔ اور وہ یہ کہ ہم اب اس جزیرے کو آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں۔"
"کیسے۔۔۔۔؟" تقریباً سب ہی نے اشتیاق سے پوچھا۔
"اتنی خطرناک اور آتشی مکھی سمندر میں جس جگہ رہتی ہوگی اس جگہ کا پانی یقیناً گرم ہوگا۔ اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں گرم ہی نہیں بلکہ کھولتا ہوا ہوگا۔ لہذا اس مقام پر بھاپ ضرور دکھائی دینی چاہئے۔"
میری یہ بات سن کر جان نے جوش کے عالم میں میری کمر تھپتھپائی اور خوش ہو کر بولا "تم نے واقعی ایک کام کی بات معلوم کی ہے۔ اس طرح یقیناً ہم وہ جزیرہ تلاش کر لیں گے۔"
جیک نے بھی خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا:
"حقیقت یہ ہے کہ یہ بات تو ہم نے سوچی ہی نہیں تھی، واقعی اب جزیرہ تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، ہاں البتہ مکھی کو مارنے میں بڑی مصبیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔"
"اس کی بھی کوئی نہ کوئی ترکیب سوجھ ہی جائے گی وقت پر۔۔۔" جان نے دوربین آنکھوں سے لگا کر دور کسی مقام کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
"جس طرح لوہا لوہے کو کاٹتا ہے، ہو سکتا ہے کہ آگ کو ختم کرنے کے لئے آگ ہی کام میں آئے۔ میرے ذہن میں مکھی کو ختم کرنے کا ایک ہلکا سا خاکہ ہے تو سہی، مگر جب تک میں اس کے بارے میں پوری طرح سوچ نہیں لیتا اور خود مطمئن نہیں ہو جاتا، تمہیں بتانے سے کچھ فائدہ نہیں۔"
ملاح خاموش بیٹھا ہوا ہماری باتیں سن رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اب اسے کسی بات کا خوف نہیں ہے۔ خطروں میں رہ کر اس کا خوف ایک حد تک دور ہو چکا تھا اور اب وہ کوئی نئی بات سن کر چونکتا نہیں تھا۔ شام ہو رہی تھی اس لئے ہم تینوں نیچے کیبن میں چلے گئے، کھانے کا سامان اب بہت کم رہ گیا تھا، اس لئے ہم نے بہت تھوڑی مقدار میں کھانا کھایا اور تھوڑا سا کھانا ملاح کے لئے لے کر جیک اوپر چلا گیا۔ ہم تھکے ہوئے تھے، مدت کے بعد تنہائی اور اطمینان نصیب ہوا تھا اس لئے ہم فوراً ہی سو گئے اور پھر اس کے بعد معلوم نہیں کیا ہوا۔ ہاں جب آنکھ کھلی تو سورج آہستہ آہستہ سمندر میں سے طلوع ہو رہا تھا۔ پانی بالکل پر سکون تھا۔ ہلکی ہلکی لہریں اٹھ رہی تھیں اور جہاز آہستہ آہستہ ہوا کے زور سے کسی نامعلوم سمت میں چلا جا رہا تھا۔ ملاح سو رہا تھا اور جہاز کا رخ پلٹنے والے آلے کا ڈنڈا جیک کے ہاتھ میں تھا۔ وہ رات بھر جاگتا رہا تھا اس لئے اس کی آنکھیں نیند کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں۔ جان نے سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ دوڑ کر آلے کا ڈنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور جیک سے کہا کہ وہ اب سو جائے۔ جب جیک وہیں ڈیک پر تختے کا سہارا لے کر سو گیا تو جان نے ملاح کو جگایا وہ جلدی سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور فوراً اس بات کی معافی مانگنے لگا کہ وہ بغیر اجازت لئے سو گیا تھا مگر جان نے کہا کہ کوئی بات نہیں، تم بھی تھک گئے ہوگے۔
کھانا چوں کہ اب کم رہ گیا تھا اس لئے جان نے ملاح کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ سمندر سے مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرے۔ ساتھ ہی اس نے مجھے ایک چھوٹا سا جال دیا یہ ایسا جال تھا جس سے بچے تتلیاں وغیرہ پکڑا کرتے ہیں اور کہا کہ اگر ہو سکے تو میں سمندر کے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پکڑنے کی کوشش کروں۔ کام بے شک مشکل ہے مگر ہو سکتا ہے کہ کوئی نہ کوئی پرندہ پھنس ہی جائے، اس طرح مچھلی کے علاوہ ہم بھنا ہوا گوشت بھی کھا سکیں گے! تازہ گوشت کھانے کو میں بھی بہت ترس رہا تھا کیوں کہ سمندر میں سفر کرتے ہوئے ہم ڈبوں میں بند کیا ہوا گوشت کھاتے رہے تھے۔ اس لئے میں نے فوراً جال ہاتھ میں لے لیا اور پرندوں کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا، ادھر ملاح نے ایک نوکیلے نیزے کی مدد سے سمندری مچھلیاں پکڑنی شروع کر دیں۔ جیسے ہی کوئی مچھلی سمندر کی سطح پر آتی، وہ نیزہ زور سے اس کی طرف پھینکتا اور نیزہ مچھلی کو چھید کر رکھ دیتا یہ نیزہ ایک قسم کا ہارپون بن گیا تھا جسے بڑی مچھلیوں کے شکاری عموماً استعمال کرتے ہیں۔ بڑی مشکل اور اچھل کود کے بعد میں نے بھی صرف ایک لمبی چونچ والا پرندہ پکڑا۔ خدا جانے اس کا نام کیا تھا؟ بہرحال وہ پرندہ تو ضرور تھا۔ ہم یہ خوراک لے کر نیچے کیبن میں آئے اور لکڑی کے خالی ڈبوں کو توڑ توڑ کر ان سے ایندھن کا کام لیا۔۔۔ مچھلیاں اور پرندہ بھون کر کھا لینے کے بعد ہم پھر اوپر آ گئے۔ جان نے دوربین لگا کر چاروں طرف دیکھا مگر خشکی کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ کھانا کھانے کے بعد پیاس بری طرح لگ رہی تھی اور جو پانی ہمارے پاس تھا ہم اسے برے وقت کے لئے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے ہمیں کسی نہ کسی جزیرے کی سخت ضرورت تھی، کوئی ٹاپو یا چھوٹی سی زمین بھی ہمیں مل جاتی تو ہم وہاں زمین کھود کر پانی نکال سکتے تھے، مگر سمندر کے سینے پر زمین نام کی کوئی چیز دور دور تک دکھائی نہ دیتی تھی!
پیاس کے مارے میرے حلق میں کانٹے پڑے جا رہے تھے۔ زبان اتنی خشک ہو گئی تھی کہ باتیں کرتے وقت تالو سے چپک کر رہ جاتی تھی۔ ہر ہر قدم پر مصیبت، ہر گھڑی آفت و الجھن۔ سکون کس چڑیا کا نام ہے؟ راحت کسے کہتے ہیں؟ یہ ہمیں بالکل معلوم نہ تھا۔ حالاں کہ جان ایسے خطرناک سفر میں بھی جواں مردی اور ہمت سے کام لے رہا تھا۔ مگر صرف میں ہی یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے چہرے پر بے چینی اور بے اطمینانی بری طرح چھائی ہوئی تھی ہم لوگ کہیں زیادہ نہ سہم جائیں اس لئے وہ اپنی پریشانی کو ظاہر نہیں کر رہا تھا۔ مگر اس کے ہر انداز اور ہر بات سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بے حد پریشان ہے۔ بادبان کے ستون سے سہارا لے کر وہ خاموش بیٹھ گیا اور ایک ہی سمت ٹکٹکی لگائے دیکھتا رہا۔