”چاچو! کیسی ہے شہی؟ کوریڈور میں کھڑے ارتضٰی صاحب کو دیکھتے ہی شہریار نےپوچھا
”پتہ نہیں بیٹا۔ ابھی تک ڈاکٹرز اندر ہے ہیں کچھ بتا ہی نہیں رہیں“ انہوں نے کہا
”میں پوچھتا ہوں“ اس نے کہا اور اس سے پہلے کے وہ کمرے کی طرف بڑھتا ڈاکٹرز خود ہی باہر آگۓ
”شی از آل راٸٹ ناٶ! ہم نے معدہ واش کردیا ہے۔ اب وہ خطرہ سے باہر ہیں۔ ہاں! انہیں ہوش میں آنے میں تھوڑا ٹاٸم لگے گا۔ “ ڈاکٹر نے بتایا اور آگے بڑھ گیا۔ ارتضٰی صاحب وہیں بیٹھ گۓ۔ تھوڑی دیر بعد شہرذاد کو روم میں شفٹ کردیا تو وہ اس سے ملنے چلے گۓ البتہ شہریار وہیں کھڑا رہا
”ابھی تک ساٸکاٹرسٹ بھی اسکا مسلہ نہیں سمجھ پاۓ کیا؟“ حنان نے شہریار سے پوچھا
”ساٸیکاٹرسٹ تب سمجھیں گے نہ جب وہ کچھ بولے گی۔ پر وہ تو ڈاکٹر کے سامنے جا کہ ایسی بن جاتی ہے جیسے اسکو کچھ بولنا ہی نہ آتا ہو۔ ڈاکٹرز نے اسے ڈاٸری بھی دے دی کہ اگر تم منہ سے نہ بتانا چاہو تو اس میں لکھ دو۔ مگر وہ اس میں بھی کچھ نہیں لکھتی اب تم ہی بتاٶ اسطرح کیسے اسکا علاج ہوگا؟“ شہریار نے بتایا تو وہ تھوڑی دیر کے لۓ خاموش ہوگیا پھر چند ایک ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ لوگ چلیں گۓ۔
”چاچو اب آپ بھی گھر جاۓ“ ان کے جانے کے بعد وہ کمرے میں آیا اور ارتضٰی صاحب سے کہا شہرذاد کی طرف اس نے دیکھا بھی نہیں۔
”لیکن بیٹا۔۔۔۔۔۔“
”لیکن ویکن کچھ نہیں اب آپ گھر جارہے ہیں اور صبح آجاٸ گا بھلے سے“ اس نے کہا تو انہیں ماننا ہی پڑا۔ ان کے جانے کے بعد شہریار روم میں رکھے کاٶچ پر بیٹھ گیا اور موباٸل ہاتھ میں لۓ اس میں کچھ دیکھنے لگا۔ وہ شہرذاد کو مکمل نظرانداز کر رہا تھا اور یہ بات شہرذاد نے نوٹ کرلی تھی
”شیری۔۔۔۔۔!“شہرذاد نے پکارا۔
”ہونہہ۔۔۔۔“اس نے نظریں اٹھاۓ بغیر کہا۔
”شیری آپ ہم سے ناراض ہیں نہ“
”نہیں میں کیوں تم سے ناراض ہونگا۔ میرا کیا حق بنتا ہے تم پر۔ اور ناراض ہو بھی گیا تو کون سا میری ناراضگی کی کوٸ اہمیت ہے تمہارے نزدیک“ اسکی بات پر وہ تڑپ گٸ
”ایسے مت کہیں شیری۔۔۔۔ہمارے لۓ آپ بہت اہم ہیں بلکہ سب سے زیادہ اہم ہیں“
”جھوٹ۔۔۔اگر تمہارے نزدیک میری کوٸ اہمیت ہوتی تو تم اپنی جان لینے کی کوشش نہ کرتی حالانکہ تم نے پچھلی بار مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تم ایسی کوٸ حرکت دوبارہ نہیں کروگی۔ تمہاری جان تمہارے لۓ اہم ہو نہ ہو مگر میرے لۓ اور چاچو کے لۓ ہے۔ لیکن تمہیں اس بات سے کوٸ فرق ہی نہیں پڑتا“ اس نے بے حد سخت لہجے اور اونچی آواز میں کہا تو شہرذاد ساکت رہ گٸ وہ پہلی بار اس پر چلا رہا تھا
”ہمیں معاف کردیں۔ ہم جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتے بس وہ بھیا۔۔۔۔۔“ شہریار نے اسکی بات کاٹ دی
”کیا بھیا؟ جس انسان کو مرے ہوۓ اتنا عرصہ ہو چکا ہے اسکی خاطر تم اپنی جان دینا چاہتی ہو۔ اور جو لوگ زندہ ہیں انکی کوٸ ویلیو ہی نہیں تمہارے نزدیک؟ کیوں کرتی ہو تم ایسا؟ تمہیں ایک بار بھی میرے خیال نہیں آتا؟“ آخر میں اسکا لہجہ نم ہوگیا وہ شاید رو دینے کو تھا۔ شہرذاد کا دل کٹ گیا۔
”ہم آٸندہ ایسا نہیں کریں گے“
”اب تم جو بھی کرو مجھے کوٸ فرق نہیں پڑتا۔ اب مجھے تم سے کوٸ بات نہیں کرنی“ وہ سرد لہجے میں کہتا باہر نکل گیا
”شیری۔۔۔۔۔شیری ہماری بات تو سن لیں۔۔۔۔شیری۔۔۔۔۔“وہ پیچھے سے اسے پکارتی رہی پر وہ نہیں رکا۔ زندگی میں پہلی بار شہریار نے اسے ڈانٹا تھا، اس پر غصہ ہوا تھا۔ اور زندگی میں پہلی بار اس سے ناراض ہوا تھا یہی بات اب شہرذاد کے جان پر بن گٸ تھی
----------*--------------*------------*
اگلے دن شہرذاد ڈسچارج ہوکر گھر آگٸ اور علی اور حنان بھی لاہور کے لۓ نکل گۓ۔ شہریار نھیں جاسکا زبان سے وہ لاکھ شہرذاد سے ناراض ہو مگر اسے اسکی فکر تھی جبھی وہ ان دونوں کے ساتھ نہیں گیا۔ اس وقت وہ اپنے آفس میں تھا جب اسکے پاس مصطفٰی صاحب کی کال آٸ
”اسلام و علیکم! کیسا ہے میرا بیٹا؟“ اس آواز میں نہ جانے کیسا جادو ہوتا تھا کہ وہ اپنی ساری پریشانی ہی بھول جاتا تھا
”آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے ڈیڈ کے مجھے کس وقت آپکی ضرورت ہوتی ہے؟“ اس نے مسکڑاتے ہوۓ پوچھا تو وہ ہنس دیۓ
”گدھے! باپ ہوں تمہارا۔ تمہارے دل کی آواز سن لیتا ہوں“ انہوں نے محبت سے کہا
”شہرذاد کی وجہ سے پریشان ہو“
”جی ڈیڈ۔۔۔۔“
”اللّٰہ اس بچی کو صحت دے“ وہ کافی دیر تک شہریار سے بات کرتے رہے پھر کہیں جاکے انہوں نے فون رکھا۔ ان سے بات کرنے کا یہ نتیجا نکلا کے شہریار تھوڑی دیر کے لۓ اپنی ساری پریشانی بھول گیا
----------*-----------*---------------*
وہ سب سے پہلے قبرستان گیا اور اپنی دادی کی قبر ڈھونڈتے ہوۓ اس تک پہنچا۔ وہ آخری بار انکا چہرہ بھی نہ دیکھ پایا تھا۔ قبر پر کھڑے ہو کر اس نے انکی مغفرت کی دعا مانگی اور پھر علی کے ساتھ اپنے گھر گیا جو کہ اب کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا تھا۔
”کیا کرنا ہے حنان؟“ وہ اپنے جلے ہوۓ گھر کو دیکھ رہا تھا جب علی نے اس سے پوچھا
”ہمارے پڑوس میں ایک انکل رہتے ہیں اور ان کی ہم سے کافی اجھی بات چیت ہے۔ ہو سکتا ہے انہیں کچھ معلوم ہو“ حنان نے کہا
”ٹھیک ہے پھر پہلے وہیں چلتے ہیں“ علی نے آنکھوں پہ گاگلز لگاۓ اور برابر والوں کے گھر کے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ دو بار بیل بجانے کے بعد ایک ضعیف سے آدمی باہر آۓ اور حنان کو دیکھ کر چونک اٹھے۔
”حنان بیٹا تم۔۔۔۔۔۔۔تم زندہ ہو؟“ وہ تیزی سے آگےبڑھیں اور اسکے گلے لگ گۓ وہ بار بار اسکا چہرہ دیکھتے تھے جیسے اسکے زندہ ہونے کا یقین کررہے ہوں۔
”کہاں چلے گۓ تھے تم؟ تمہارے جانے کے بعد تو تمہارے گھر والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی“ وہ آنسو پونچھتے ہوۓ اس سے الگ ہوۓ
”میں آپ سے وہی بات کرنے آیا ہوں۔ کیا میں اندر آسکتا ہوں“ اس نے ان سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے ساٸیڈ پر ہوکر ان دونوں کو اندر آنے کا راستہ دیا اور انہیں ڈراٸنگ روم میں لے آۓ۔
”بیٹا کیا لو گے“ انہوں نے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ پوچھا
”کچھ بھی نہیں انکل مجھے بس آپ یہ بتاۓ کے مرجان کے بارے میں آپ کو کچھ معلوم ہے کیا؟“ اس نے بے چینی سے پوچھا
”ہاں۔۔۔۔۔“
”کیا معلوم ہے؟ کہاں ہے وہ؟“
”اسے بشارت کا بھاٸ اٹھا کر لے گیا ہے“ اسکے پیروں تلے زمین نکل گٸ
”کیا۔۔۔۔۔۔؟“ وہ بس اتنا ہی کہہ پایا
دراصل بشارت ایک غنڈہ تھا اور مرجان سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اس نے حنان کو دھمکی دی تھی کہ سیدھی طرح اپنی بہن کی شادی مجھ سے کروادو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔ لیکن تب وہ حنان کو جانتا نہیں تھا۔ حنان نے اپنے وہ اثر رسوخ استعمال کۓ کہ وہ منہ بند کرکے بل میں چھپ گیا اور پھر اس کی دوبارہ مرجان پر نظر ڈالنے کی بھی ہمت نہیں ہوٸ۔ پھر جس دن حنان کا ایکسیڈنٹ ہوا اس دن میڈیا پہ یہ خبر چل گٸ کہ حنان شاہ حادثے میں جاں بحق ہوگیا ہے۔ بس پھر کیا تھا اس کے دل سے سارا خوف اڑن چھو ہوگیا۔ اب اسے مرجان سے شادی نہیں کرنی تھی بس اپنی بےعزتی کا بدلہ لینا تھا۔ اس نے اپنے بھاٸ کو مرجان کو اٹھوانے کا حکم دے دیا۔ بشارت کا بھاٸ اپنے بندوں کے ساتھ ایک رات ان کے گھر میں کود پڑا اور زبردستی مرجان کو اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ اسکی دادی مزاحمت کرنے کے لۓ بیچ میں آٸیں تو اس کے ایک بندے نے انہیں اتنی زور سے دھکا دیا کہ وہ گر پڑیں اور انکا سر دیوار سے ٹکرا گیا۔ بشارت کے بھاٸ نے پورے محلے کے سامنے مرجان کو گاڑی میں ڈالا اور اسے ساتھ لے گیا۔ پیچھے اسکے بندوں نے حنان کے گھر کے چاروں جانب پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ اس ستم ظریفی پر وہاں کھڑے لوگوں نے اف تک نہیں کیا کیونکہ انہیں اپنی جان اور عزت پیاری تھی
”وہ۔۔۔۔۔۔وہ میری بہن کو۔۔۔۔۔۔میری مرجان کو سب کے سامنے سے اٹھا کر لے گیا اور کسی نے۔۔۔۔۔۔کسی نے کچھ بھی نہیں کیا“ صدمے کی شدت سے اسکے منہ سے الفاظ نہیں نکل پارہے تھے۔ قریب تھا کہ وہ رو دیتا۔
”بیٹا مجھ بوڑھے میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ انہیں روکتا میں کیا کرتا؟“ وہ شرمندہ شرمندہ سے کہہ رہے تھے۔ حنان ایک جھٹکے سے اٹھا اور وہاں سے باہر نکل گیا۔
”آپ کے تعاون کا شکریہ انکل“ علی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ باہر آیا تو دیکھا کہ حنان ایک ہاتھ گاڑی پر رکھے گہری گہری سانس لیتا خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ علی نے اسکے پاس جاکر اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا
”حنان تمہیں بشارت کا گھر معلوم ہے کیا؟“
”ہاں۔۔۔۔۔۔“
”ٹھیک ہے ہم ابھی اسکے گھر جاۓ گے اور چاہے اسکے ساتھ جو بھی سلوک کرنا پڑے ہم مرجان کو لۓ بغیر واپس نھیں آۓ گے“
”ہاں۔۔۔۔ٹھیک ہے ابھی چلو“ حنان نے کہا اور وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گۓ
---------*-----------*---------------*
”کیا سوچ رہی ہے ہماری بٹیا۔۔۔۔“وہ کسی گہری سوچ میں گم تھی جب ارتضٰی صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ پیار سے پوچھا
”بابا ہم شیری کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے پچھلے دو دنوں سے انہوں نے ہم سے کوٸ بات نہیں کی۔ نہ ہی ہمیشہ کی طرح گھر آتے ہی ہمارے بارے میں پوچھا۔ وہ ہم سے سخت خفا ہیں بابا“
”تو بیٹا آپ انہیں منا لیں“ انہوں نے شہرذاد کو مشورہ دیا۔ وہ کافی عرصے بعد اپنے مرے ہوۓ بھاٸ کے علاوہ بھی کسی اور کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ یہ ایک اچھی بات تھی۔
”ہم کوشش تو کررہے ہیں بابا۔۔۔۔ پر کیا کریں وہ ہماری کوٸ بات سننے کو تیار ہی نہیں ہیں“ اس نے بے بسی سے کہا تو وہ خاموش ہوگۓ تھوڑی دیر بعد اس خاموشی کو شہرذاد نے توڑا
”بابا۔۔۔۔۔۔اگر ہم کسی کی جان لے لیں، مثال کے طور پر آپ کے بھاٸ کی جان لے لیں اگر تو کیا آپ ہمارا ساتھ دیں گے“ اس کے پراسرار سے لہجے نے انکے رونگھٹے کھڑے کردیۓ
”شہرذاد بیٹا یہ کیسی باتیں کررہی ہیں آپ؟“
”نہیں دیں گے ناں۔۔۔۔ہمیں پتہ تھا“ وہ عجیب سے لہجے میں ہنسی تھی ارتضٰی صاحب دم سادھے اسے دیکھ رہے تھے
”لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر ہم کسی کی جان لے لیں اور اسکے جرم میں ہمیں پھانسی کی سزا ہو جاۓ تب بھی شہریار اس دنیا میں وہ واحد انسان ہونگے جو آخری وقت تک ہمارا ساتھ دی گے۔“ وہ سانس لینے کو رکی اور پھر سے گویا ہوٸ ”وہ ایسی ہی اندھا دھند محبت کرتے ہیں ہم سے، ہم اگر غلط بھی ہوں نہ تب بھی وہ ہم سے ناراض تو ہوجاۓ گے مگر ہمارا ساتھ دینا نہیں چھوڑے گے اور ہم سے محبت کرتے رہیں گے۔ پھر چاہے ساری دنیا ہی کیوں نہ انکے خلاف کھڑی ہوجاۓ“ وہ پھر سے رکی اور چہرہ اٹھا کر اپنے باپ کو دیکھا جو اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے ”کیا آپ کرتے ہیں ہم سے اتنی محبت؟“ اس نے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوٸ جواب دیتے شہریار گھر میں داخل ہوا۔
”اسلام و علیکم“ اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی سب کو سلام کیا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا
”بیٹا ہم سونے جارہے ہیں آپ شہریار کو کھانا دے دی گا“ ارتضٰی صاحب اسے ہدایت دیتے ہوۓ اپنے کمرے کی جانب چل پڑے۔ شہرذاد کی باتوں نے انکا دماغ الجھادیا تھا۔ جب تک شہرذاد نے ٹیبل پر کھانا لگایا تب تک شہریار بھی چینچ کر کے آگیا تھا۔ وہ کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھا اور ڈاٸننگ ٹیبل پر رکھی ڈشزز سے کھانا نکالنے لگا۔ شہرذاد کو وہ مکمل نظر انداز کر رہا تھا
”شیری۔۔۔۔آپ کا کام کیسا جا رہا ہے؟“ اس نے بات کرنے کی غرض سے پوچھ لیا
”ٹھیک“ مختصر سا جواب دے کر وہ کھانے میں ہی مصروف رہا
”اچھا کل ہمیں ایک ایگزیبیشن میں جانا ہے کیا آپ ہمارے ساتھ چلیں گے؟ آپ کو تو پتہ ہے ناں کہ ہم اکیلے۔۔۔۔۔۔۔۔“
”مجھے کل بہت سے کام ہیں میں نہیں جا سکتا“ شہریار نے اسکی بات کاٹتے ہوۓ کہا اور اٹھ کر سنگ میں برتن رکھنے لگا
”شیری ہم جانتے ہیں کہ آپ ہم سے ناراض ہیں۔ اب بس بھی کردیں“
”میں نہیں ہوں تم سے ناراض“ اس نے بے تاثر لہجے میں کہا
”تو پھر آپ ہم سے پہلے کی طرح کیوں نہیں بات کرتے؟“ شہریار نے کوٸ جواب نہ دیا
”شیری۔۔۔۔۔کیوں کر رہے ہیں آپ ہمارے ساتھ ایسا؟“ اس نے جھنجھلاتے ہوۓ پوچھا
”مجھے تم سے کوٸ بات نہیں کرنی ہے شہی۔۔۔۔۔جاٶ جاکر سو جاٶ“ اس نے سنجیدگی سے کہا اور اپنے کمرے کی جانب چل دیا اور شہرذاد اس کو روٸ روٸ آنکھوں کے ساتھ جاتے ہوۓ دیکھ رہی تھی
----------*--------------*------------*
وہ دونوں بشارت کے گھر میں داخل ہوۓ گارڈ نے ان دونوں کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں رکے اور اندر داخل ہوگۓ۔
”اے۔۔۔کون ہو تم“ اندر صوفے پر بیٹھے بشارت کے بھاٸ نے علی کو دیکھتے ہوۓ کہا لیکن اس نے آگے بڑھ کر بشارت کے بھاٸ کو گریبان سے پکڑ کر کھڑا کیا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ بھی بولتا اس نے اسکے منہ پر ایک گھونسا دے مارا۔ اس نے غصے سے کچھ کہنا جاہا پر پیچھے سے آتے حنان کو دیکھ کر اسکی بولتی بند ہوگٸ
”تت۔۔۔۔۔تم زندہ۔۔۔۔۔کیسے؟“ اس نے ہکلاتے ہوۓ پوچھا۔ کسی گارڈ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ حنان کو کچھ بھی کہہ پاتے کیونکہ وہ حنان کی پہنچ اور اثر رسوخ سے اچھی طرح واقف تھے
”میری بہن کہاں ہے؟“ حنان نے اسکے منہ پر ایک زور کا گھونسا مارا جس سے وہ صوفے پر ڈھے گیا۔ اسکے منہ سے خون کی ایک باریک لکیر بہہ نکلی۔
”مم۔۔۔۔مجھے نہیں معلوم“ اس نے کہا تو علی نے اسے الٹے ہاتھ کا تھپڑ رسید کیا۔
”میں۔۔۔سچ کہہ ۔۔۔۔۔۔رہا ہوں مجھے نہیں پتہ“ علی اور حنان نے اس پر تھپڑوں اور گھونسوں کی بارش کردی تھی۔ اسکے بندے وہاں سے کھسک گۓ تھے اور گارڈز خاموش کھڑے تھے اور وہ خود اپنے دفاع میں کچھ نہیں کرپارہا تھا۔ جب ان دونوں نے مار مار کر اسکا برا حال کردیا تو اس نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دیۓ
”پلیز۔۔۔۔۔۔مجھے مت مارو۔۔۔۔۔۔۔میں سب بتاتا ہوں“ اس نے خوفزدہ لہجے میں کہا تو ان دونوں نے اسے چھوڑ دیا
”میں نے اسے یہاں سے اٹھوا کر کراچی بھجوا دیا تھا بشارت بھاٸ کے پاس۔ بشارت بھاٸ کا لڑکیوں کو باہر ملک اسمگل کرنے کا کاروبار ہے۔ وہ پہلے ہی تمہاری بہن کا سودا کر چکے تھے۔ لیکن جس دن اسے ان لوگوں کے حوالے کرنا تھا ٹھیک اسی دن بشارت بھاٸ کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا اور انہیں اور وہاں موجود تمام لڑکیوں کو پولیس گرفتار کرکے لے گٸ۔ بشارت بھاٸ تو ایک ہفتے بعد ہی جیل سے فرار ہوکر دبٸ بھاگ گۓ لیکن وہاں موجود لڑکیوں کے بارے میں مجھے کوٸ معلومات نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سچ کہہ رہا ہوں مجھے بس اتنا ہی پتہ ہے“ اس کی تمام بات سن کر حنان کا سر گھوم گیا۔ وہ چکراتے سر کے ساتھ ہی وہاں سے باہر نکل گیا۔ علی نے ایک اور تھپڑ اسکے منہ پر مارا تو وہ بے ہوش ہوگیا۔ اس نے ایک اسکے گرے ہوۓ وجود پر ایک ٹھوکر ماری اور وہاں سے باہر آگیا- باہر حنان غصے سے پاگل ہورہا تھا۔ اسکے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ غصے میں اس نے دو تین بار گاڑی کے بونٹ پہ لات ماری، اس سے پہلے کے وہ خود کو کوٸ نقصان پہنچاتا علی اسکے پاس پہنچا۔
”حنان۔۔۔۔۔حوصلہ کرو یار۔۔۔۔“علی نے اسے پکڑ کر گاڑی سے دور کیا
”کیسے حوصلہ کروں؟۔۔۔۔علی۔۔۔۔میرے بہن“ وہ اپنا ضبط کھو رہا، آنکھوں سے آنسو نکل پڑیں تھے علی نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔ وہ رونے لگا تھا
”حنان پلیز یار۔۔۔۔ایسے تو مت کرو۔ ہم واپس کراچی جاۓ گے۔ شہریار کےچاچو سے مدد لیں گے وہ شہر کے ڈی آٸ جی ہیں۔ تمام پولیس اسٹیشن میں جاۓ گے جو ہم سے ہو سکا وہ کریں گے بس تم ہمت مت ہارو“ علی اسے تسلیاں دے رہا تھا اور اس وقت وہ بس یہی کر سکتا تھا
-------------*--------------*---------*
ڈاکٹر صاحب کافی دیر سے عابد محمد کی ٹیسٹ رپورٹ اور ایکسرے کا مطالعہ کر رہے تھے۔ بلآخر انہوں نے نظریں اٹھاٸ اور اپنے سامنے بیٹھے عابد صاحب کو دیکھا
”مجھے اسی بات کا شک تھا۔ آپ کا ٹیومر پھیل کر دماغ میں ایسی جگہ پر آگیا ہے جہاں سے اسے سرجری کرکے نکالا گیا تو آپ کی جان جانے کے نوّے فیصد چانسز ہیں۔“ ڈاکٹر صاحب روکے پھر بولے ”اور اگر نہ نکالہ تو آپ اس ٹیومر کے ساتھ زیادہ دن سرواٸیو نہیں کر پاٸیں گے“
”کتنا وقت ہے میرے پاس؟“ بنا کوٸ تاثر دیۓ انہوں نے پوچھا
”بمشکل چار ہفتے، شاید اس سے زیادہ سرواٸیو نہ کر پاۓ آپ ۔ باقی جو اللّٰہ کو منظور ہو“ ڈاکٹر نے انکے سر پر بم پھاڑا تھا۔ کچھ لمحے تک کمرے میں خاموشی چھاٸ رہی پھر عابد صاحب جانے کے لۓ اٹھ کھڑے ہوۓ
”ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب، بہت شکریہ آپ کا“ وہ جانے کےلۓ مڑے
”آپ اپنے بیٹے کو بتا کیوں نہیں دیتے اتنی بیماری کے بارے میں؟“ ڈاکٹر صاحب کی آواز پر ان کے قدم تھمے
”نہیں بتا سکتا، مجھے اسکی محبت چاہیے ہمدردی نہیں۔ اب بس میں یہی چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے میرا بیٹا مجھے معاف کردے“ انہوں نے کہا اور روم سے باہر نکل گۓ۔ ڈاکٹر صاحب افسوس سے انہیں جاتے ہوۓ دیکھ رہے تھے۔
----------*--------------*------------*
وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھامے صوفے پر بیٹھا تھا۔ کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ زندگی میں کبھی شہرذاد سے ناراض نہیں ہوا تھا لیکن اب اس سے ناراض ہو کر وہ خود بھی خوش نہیں تھا۔ بار بار اسکی روٸ روٸ آنکھیں یاد آرہی تھیں۔ تب ہی اسکا موباٸل بجنے لگا۔ اس نے بغیر دیکھے ہی کال ریسیو کرلی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کس کی کال ہوگی
”کیسا ہے میرا شہزادہ؟“ محبت میں ڈوبی آواز شہریار کے لۓ کسی مرہم کا کام کرگٸ تھی
”ٹھیک ہوں ڈیڈ“ اس نے تھکے تھکے سے لہجے میں کہا
”کیا بات ہے بیٹے؟ آج پھر پریشان لگ رہے ہو“
”کوٸ بھی بات نہیں ہے میں ٹھیک ہوں“
”ابھی تک ناراض ہو شہرذاد سے؟“ اس نے کوٸ جواب نہیں دیا
”اس سے ناراض ہو اور خود بھی خوش نہیں ہو۔ صیح کہا نہ میں نے؟“ وہ ان سے کچھ نہیں چھپا سکتا تھا
”ہاں۔۔۔۔۔“اس نے مختصر سا جواب دیا
”تو پھر ختم کرو یہ ناراضگی، جب تم خود اس پرسکون نہیں ہو تو“
”نہیں ڈیڈ۔۔۔۔۔یہ اسکے لۓ ضروری ہے۔ آپ جانتے ہیں میں جب سے اس سے ناراض ہوں تب سے اس نے پہلے کی طرح ہر کام میں دلچسپی لینی شروع کی ہے صرف مجھے منانے کی خاطر۔ دو دن سے کھانا بھی اسی نے پکایا ہے، میری واڈروب بھی اسی نے سیٹ کی اور آج تو کسی ایگزیبیشن میں بھی جانے کی بات کررہی تھی۔ وہ زندگی کی معمولات میں حصہ لے رہی ہے ڈیڈ“
”ہونہہ۔۔۔۔۔تو وہ یہ سب تمہیں منانے کے لۓ کررہی ہے۔ مطلب اسے تمہاری ناراضگی کی فکر ہے اور اسکے نزدیک تمہاری اہمیت ہے۔ اور اگر اس نے اتنے دنوں سے اپنے بھاٸ کو یاد نہیں کیا تو یہ ایک خوش آٸند بات ہے“
”ہاں۔۔۔۔۔وہ اگر خود چاہے تو ٹھیک ہو سکتی ہے مگر وہ خود ایسا نہیں چاہتی جبھی تو بیمار رہتی ہے۔“
”ٹھیک ہے لیکن اسے پہلے جیسا کرنے کے لۓ کہیں زیادہ دن ناراض مت رہ جانا اس سے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں میرا بیٹا خود بھی اسکے بغیر خوش نہیں رہ سکتا“ آخر میں انہوں نے شرارت سے کہا تو وہ مسکرادیا
”اچھا میں فون رکھتا ہوں۔ خدا حافظ“
”اوکے ڈیڈ اپنا خیال رکھیۓ گا“ اس نے فون رکھ دیا اب وہ بہتر محسوس کر رہا تھا۔ شہریار کے لۓ اسکے ڈیڈ دوست کی حیثیت رکھتے تھے اور دوسری طرف علی کے لۓ اپنے باپ سے بڑا اور کوٸ دشمن نہ تھا۔
--------*--------------*--------------*
صبح تک تو موسم اچھا تھا ، دوپہر ہوتے ہوتے تیز بارش شروع ہوٸ اور شام تک وہ شدید طوفانی بارش میں تبدیل ہوگٸ۔ آفس کے ایمپلاٸز کو چھٹی دے دی گٸ تھی۔ پورے شہر کی بجلی بند ہو چکی تھی اوپر سے تیز ہواٶں اور بجلی کی کڑکدار آواز نے لوگوں کے دلوں میں ہیبت ڈال رکھی تھی سب ہی جلدی جلدی گھر جانا چاہتے تھے۔
ایسے میں وہ تینوں بھی آفس کے میٹینگ روم میں بیٹھے جلدی جلدی اپنا کام مکمل کر رہے تھے۔ ویسے تو آج انہیں شہر کے پولیس اٹیشنز میں جانا تھا مرجان کے متعلق معلومات اکھٹی کرنے، مگر اس خوفناک موسم کی وجہ سے پروگرام کینسل کرنا پڑا
”میرا کام ہوگیا ہے علی میں اب گھر جارہی ہوں“ اسی وقت میٹینگ روم کا دروازہ کھلا اور ماہین اندر داخل ہوٸ لیکن اندر شہریار کے ساتھ بیٹھے حنان پر نظر پڑتے ہی اسکی بولتی بند ہوگٸ۔ حنان نے صرف ایک نظر اسے دیکھا تھا لیکن پھر اپنے کام میں مشغول ہو گیا
”تمہارے گھر کا راستہ تو بارش میں خراب ہو جاتا ہے کیسے جاٶ گی تم؟“ شہریار نے پوچھا۔ حنان اسے اس طرح نظرانداز کر رہا تھا جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہو۔ ماہین کے لۓ وہاں کھڑا ہونا مشکل ہوگیا تھا
”میں چلی جاٶنگی تم فکر نہ کرو“ وہ کہہ کر اسکا جواب سننے کے لۓ رکی نہیں اور فوراً وہاں سے نکل گٸ۔ اسکے جاتے ہی حنان نے فاٸل بند کرکے ساٸیڈ پر کی اور علی کی طرف دیکھا جس کے موباٸل کی اسکرین ہر دو منٹ کے بعد روشن ہوتی اور دس سکینڈ تک روشن رہنے کے بعد بند ہوجاتی۔ موباٸل ساٸلینٹ تھا اس لۓ آواز نہیں آرہی تھی۔
”علی تمہارا موباٸل بج رہا۔ کال آرہی ہے کسی کی شاید“ اس نے علی سے کہا
”مجھے پتہ ہے“ اس نے عام سے انداز میں جواب دیا
”تو تم اٹھا کیوں نہیں رہے“
”کیونکہ میں فون اٹھانا نہیں چاہتا“ اس نے بےزاری سے کہا تو حنان اور شہریار دونوں سمجھ گۓ کے کال اسکے بابا کی ہی ہے
”علی۔۔۔۔۔۔موسم بہت خراب ہے وہ تمہارے لۓ پریشان ہونگے“ شہریار نے کہا
”ہونے دو پریشان“
”یار۔۔۔۔ایک بار اٹھا کے بتادو انہیں کہ تم بس گھر کے لۓ نکل ہی رہے ہو نہیں تو ایک میسج ہی بھیج دو۔ میرے نہیں خیال کہ ایسا کرنے سے تمہاری انا کو ٹھیس پہنج جاۓ گی“ حنان نے کہا تو علی نے ماتھے پر تیوریاں چڑھا کر اسے دیکھا
”انا۔۔۔۔۔؟ سریٸسلی؟ تمہیں نہیں پتا مجھ سے منافقت نہیں ہوتی“ وہ کہتے ہوۓ اپنی گاڑی کی چابی اور موباٸل وغیرہ اٹھانے لگا۔ شہریار نے حنان کو آنکھ کے اشارے سے منع کیا کہ وہ اس ٹوپک پر بات نہ کرے لیکن حنان آج پکا ارادہ کۓ بیٹھا تھا علی سے لڑنے کا
”علی میری ایک بات سنو“ حنان نے اسے پکارا تو اس نے سخت کوفت سے اسے دیکھا
”اتنا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب تو تمہیں انہیں معاف کردینا چاہیۓ“ علی کو کرنٹ لگا تھا اس بات پر اس نے سخت نظروں سے حنان کو دیکھا۔ دوسری طرف شہریار کا سانس اٹک گیا تھا وہ جانتا تھا کہ حنان نے بہت بڑے طوفان کو دعوت دی ہے، جانتا تو حنان بھی تھا پر پتہ نہیں اسے آج کیا سوجھی تھی
”ایسے مت دیکھو مجھے علی۔ میں صیح کہہ رہا ہوں، تمہیں اب تو انہیں معاف کر ہی دینا چاہۓ“
”ٹھیک ہے مگر تم پہلے ماہین کو معاف کردو“ حنان کی بولتی بند ہوگٸ تھی۔
”نہیں کر سکتے نہ اسے معاف۔ میں بھی نہیں کرسکتا“ اسے خاموش دیکھ کر علی نے کہا اور غصے سے اپنی گاڑی کی چابیاں اٹھا کر دروازے کو زور سے بند کرتا ہوا باہر نکل گیا۔ اس وقت حنان اور علی دونوں ہی نہیں جانتے تھے کہ ہمیشہ غلطی کرنے والا ہی نہیں پچھتاتا۔ کبھی گبھی یہ پچھتاوے معاف نہ کرنے والے، اور معافی نہ دینے والوں کا نصیب بھی بنتے ہے
----------*------------*--------------*