اسکے چاروں طرف اندھیرا تھا، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کون ہے؟ اسکا نام کیا ہے؟ وہ کیوں ہے یہاں؟ دماغ کام نہیں کررہا تھا۔ اندھیرے میں ایک ہیویلا سا بنے لگا۔ اور پھر مٹ گیا۔ وہ روشنی کا ہیویلا بار بار بنتا پھر مٹ جاتا۔ پھر وہ ہیویلے بہت سے چہروں میں تبدیل ہونے لگے۔ وہ کچھ سمجھنے اور نہ سمجھنے کی کیفیت سے میں گھری تھی۔ کانوں میں کوٸ آواز گونج رہی تھی
”مرجان!۔۔۔۔۔میری گڑیا! پلیز آنکھیں کھولو“ یہ آواز کس کی تھی؟ کون تھا جو اسے مرجان کہہ کر مخاطب کر رہا تھا؟ اسکا نام تو فاطمہ تھا۔۔۔۔۔۔۔
”مرجان پلیز! ایک بار آنکھیں کھول دو“ وہ آواز پھر سے کانوں میں گونجی اور اسی وقت اسکے ذہہن میں ایک جھماکہ ہوا اور دماغ کے پردے پر ایک فلم سی چلنے لگی۔۔۔۔بہت کچھ یاد آنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*----------*-------------*------------*
صبح آٹھ بجے کا وقت تھا جب مرجان لاہور پہنچی۔ وہ اٸیر پورٹ سے گھر آٸ تو حسب توقع دادی کو اپنا منتظر پایا۔
”اسلام و علیکم! دادی کیسی ہیں آپ؟“ اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی دادی کو گلے لگایا
”میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔سب سے پہلے تو تم مجھے یہ بتاٶ کہ میری بہو سے ملی؟“ انہوں نے بےقراری سے پوچھا تو مرجان نے منہ بنا لیا
”نہیں نہ دادی۔۔۔۔وہ کسی دعوت میں گٸ ہوٸ تھیں تو میں مل نہیں سکی اور اوپر سے بھاٸ۔۔۔۔۔۔۔۔اتنا بولا انکا کے تصویر ہی دکھا دیں پر نہیں انہوں نے قسم کھاٸ ہے کہ سامنے سے ملواٶں گا مگر تصویر نہیں دکھاٶ گا“ اس نےمنہ بسور کر کہا تو دادی کو ہنسی آگٸ۔
”اچھا رو مت۔۔۔۔۔میرا بچہ اگر کہہ رہا ہے کہ وہ اسے لاہور لے کر آۓ گا تو پھر اس میں ضرور کوٸ خاص بات ہوگی جب ہی تو وہ تصویر کے بجاۓ سامنے سے ملوانا چاہتا ہے“ دادی نے سمجھانے والے انداز میں کہا
”اچھا تم منہ ہاتھ دھو لو، جب تک میں ناشتہ لگوا دیتی ہوں۔ پھر تم آرام کر لینا“ وہ سر ہلاتی اٹھ گٸ۔ منہ ہاتھ دھو کر واپس آٸ تو دادی ناشتہ لگوا چکی تھیں۔ وہ بیٹھ کر ناشتہ کر رہی تھی۔ سامنے نیوز چینل کھلا ہوا تھا جسے وہ کوٸ خاص توجہ نہیں دے رہے تھی۔
”آپ کو ایک تازہ خبر دیتے چلے کہ ٹراٸ اسٹار کمپنی کے اونر حنان شاہ آج صبح ہی ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگۓ ہیں۔۔۔ہمارے رپورٹر آپ کو گاڑی کی تصویر دیکھاتے چلے جو کہ جل کر بلکل ہی راکھ ہوچکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔“ اینکر ناجانے کیا کیا بول رہی تھی لیکن مرجان سن ہو چکی تھی، جو اس نے سنا کیا وہ سچ تھا؟
”دادی۔۔۔۔۔۔۔“ وہ چیخی، اور جلدی سے ریموٹ اٹھا کر آواز تیز کی
”کیا ہوا کیوں چیخ رہی ہو؟“ وہ گھبراتی ہوٸ اسکے پاس آٸیں
”دادی بھاٸ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“اس نے رونا شروع کردیا
”یااللّٰہ کیا ہوگیا؟ کیوں رورہی ہو؟“ وہ پریشان ہوگٸ۔ اس سے پہلے کہ مرجان کچھ بولتی دادی کی نظر خود ہی ٹی۔وی پر پڑ گٸ۔ اور انکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگلے ہی لمحے وہ بےہوش ہوکر صوفے پر گر گٸ
------------*--------------*----------*
”دادی! ہوش کرے نا پلیز۔۔۔۔۔یہ خبر غلط بھی تو ہوسکتی ہے“ مرجان دادی کا ہاتھ تھامے روتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے ہی ڈاکٹر انکا معاٸنہ کرکے گۓ تھے۔ محلے والے بھی تھوڑی دیر پہلے ہی گۓ تھے۔۔۔۔۔۔
”اگر خبر غلط ہوتی تو اسکا فون آف کیوں تھا۔ مجھے اس سے بات کر وادو“ وہ رو رہی تھیں اور مرجان انہیں چپ بھی نہ کراسکتی تھی
رات کا دوسرا پہر تھا جب لاٶنج میں کھٹکا ہوا، وہ اٹھ کر باہر آٸ تو سامنےکھڑے شخص کو دیکھ کر اسکےپیروں تلے زمین نکل گٸ
”تت۔۔۔تم“
”ہاں جی۔۔۔میں“ وہ گن ہاتھ میں لیا شیطانیت سے بولا۔ وہ بشارت کا بھاٸ وزیر تھا
”نکل جاٶ میرےگھر سے“ اس نے غصے سے کہا
”ارے نکل جاۓ گے۔۔۔۔۔نکل جاۓ گے، ہم کون سا یہاں رہنے آۓ ہیں“ وہ کہہ کر خباثت سے ہنسا تو اسکے پیچھے کھڑے اسکے تین چار آدمی بھی ہنسے
”لیکن۔۔۔۔۔تمہیں یہاں سے لے کر جاۓ گے کیونکہ بشارت بھاٸ نے کہا ہے کہ تمہیں انکے سامنے حاضر کروں“ اس نے آگے بڑھ کر اسے بازو سے پکڑا اور باہر کی جانب کھنچنے لگا
”چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔۔۔میں جان سے مار دوں گی تمہیں“ مرجان کی بات پر وہ ایک بار پھر سے ہنسا
”جس کے سہارے تو اچھل رہی تھی نا وہ تو مرگیا۔۔۔۔۔اب یہ دھمکی کسی اور کو دینا سمجھی“ وہ اسے گھسیٹنے لگا
”چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔۔“ اسکی چیخ و پکار سن کر اسکی دادی بھی باہر آٸ
”ہاۓ! میری بچی۔۔۔۔۔۔کہاں لے جارہے ہو؟ چھوڑو اسے۔۔۔۔۔“ وہ چیختے ہوۓ اسکے پاس آٸ اور مرجان کو اسے چھڑوانےلگی لیکن اسی وقت اسکے ایک آدمی نے انہیں اتنی زور سے دھکا گیا کہ وہ لڑکھڑاتے ہوۓ نیچے گریں اور انکا سر دیوار سے ٹکرایا تو وہ بےہوش ہوگٸیں۔
”دادی۔۔۔۔۔۔“مرجان چلاٸ لیکن وزیر اسے باہر لے آیا اور اپنے ایک آدمی کو ہاتھ سے کوٸ اشارہ کیا تو اس نے سر ہلادیا۔وزیر نے مرجان کو دھکا دے کر گاڑی میں بیٹھایا اور گاڑی چلادی۔ آخری چیز جو اس نے گاڑی کے شیشے سے دیکھی تھی وہ آگ کے آسمانوں کو چھوتے شعلے تھے
------------*----------*--------------*
وہ زار و قطار رو رہی تھی۔ پہلے بھاٸ اور اب دادی کی موت۔۔۔۔۔۔وہ آخری بار دونوں کا چہرہ ہی نہ دیکھ پاٸ تھی۔ وزیر اسے ہاٸ وے کے راستے سے کراچی لے آیا تھا۔ مرجان کے حواس معطل ہوۓ ہوۓ تھے۔تھوڑی دیر میں وزیر نے ایک بنگلے کے آگے گاڑی روکی۔ مرجانے نے سر اٹھایا۔ سامنے کی طرف خالی میدان تھا۔ بارش چھاج و چھاج برس رہی تھی۔ وزیر گاڑی سے اترا اور اسکی طرف کا دروازہ پکڑ کے اسے باہر نکالا۔ اچانک ہی مرجان کے ذہہن نے کام کرنا شروع کیا اور اس نے پوری قوت سے وزیر کو دھکا دیا، وہ اس حملے کے لۓ تیار نہ تھا اس لۓ لڑکھڑاتے ہوۓ نیچے گرا۔ اس نے مرجان کا ہاتھ پکڑ کے اسے روکنے چاہا پر وہ تیزی سے اس سے ہاتھ چھڑاتی بھاگ نکلی۔
وزیر کا انگھوٹے کا ناخن لوہے کا تھا جس پر ایک تیز دھار آلہ فٹ تھا۔ اس دھکم پیل میں وہ ناخن مرجان کی ہتھیلی سے گھستا ہوا گیا جسکے باعث اس سے خون رسنے لگا۔ لیکن وہ بنا کسی پرواہ کےبھاگ رہی تھی۔ وزیر کے آدمی بھی اسکے پیچھے آرہے تھے۔ بھاگتے بھاگتے وہ ایک کھلے میدان میں آگٸ، اسکا پاٶں کسی پتھر سے ٹکرایا تو وہ ٹھوکر کھا کر زمین پر گرنے کےسے انداز میں بیٹھ گٸ۔ اسکے سر سے ڈوپٹا غاٸب تھا۔ بارش تڑ تڑ برس رہی تھی۔ اور وہ اس میں پوری بھیگ چکی تھی۔ ہتھیلی سے خون بہہ رہا تھا پر اسے اس وقت اپنے زخموں کی فکر نہ تھی۔ بھاگتے قدموں کی دھمک اسےاپنے پیچھے سناٸ دی تو وہ اٹھی اور پھر سے بھاگنا شروع کردیا۔ وہ اندھا دھند بھاگ رہی تھی۔
کبھی کبھی بجلی کڑکتی تو اسکا دل دہل جاتا تھا
بھاگتے قدموں کی آواز شاید دور ہوگٸ تھی اس لۓ وہ رکی اور ہانپنے لگی۔ وہ کافی دیر تک گھٹنوں پر ہاتھ رکھی جھکی رہی اور گہرے گہرے سانس لیتی رہی۔تھوڑی دیر بعد جب اسکی حالت بہتر ہوٸ تو وہ سیدھی ہوٸ۔ لیکن اسی وقت کوٸ بھاری چیز اسکے سر پر لگی اور اسکی چیخ نکل گٸ۔ وہ تیورا کر گر پڑی
”بشارت سے ہوشیاری۔۔۔۔۔۔۔۔“ بشارت نے ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا ہوا میں لہراتے ہوۓ کہا
”اٹھاٶ اسے“ اس نے اپنے آدمیوں سے کہا
----------*-----------------*---------*
اسکی آنکھیں کھلی تو سب کچھ یاد کرنے میں اسے دس منٹ لگ گۓ۔ وہ بشارت کا اڈا تھا، اور مرجان اس وقت کسی کمرے میں قید تھی۔ اس نے یہاں وہاں سر گھمایا تو اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔اس کمرے میں مزید بیس باٸیس لڑکیاں تھیں۔ سب کے منہ پر کپڑے بندھے تھے اور ہاتھ زنجیروں میں قید تھی۔ اس نے اپنا ہاتھ ہلانے
کی کوشش کی، اب جاکے اسے نظر آیا تھا کہ اسکے ہاتھ بھی زنجیروں میں جکڑے ہیں۔ وہ دو دن تک بھوکی پیاسی اسی کمرے میں پڑی رہی۔ دو دنوں میں کمرے سے پانچ لڑکیاں غاٸب ہو چکی تھیں۔ وہ کہاں گٸ؟ ان کے ساتھ کیا ہوا کسی کو معلوم نہیں تھا؟ لیکن اتنا اندازہ ضرور تھا کہ انکے ساتھ کچھ برا ہوا ہے۔ جب بھی کوٸ دروازہ کھولتا تو سب کے چہروں پر دہشت نظر آتی۔ سب کی آنکھوں میں ایک ہی سوال ہوتا کہ۔۔۔۔۔۔۔آج کس کی باری ہے؟
مرجان کو وہاں تیسرا دن تھا، بھوک و پیاس اور کمزوری سے اس پر طاری تھی۔ جب ہی کسی نے کمرے کا دروازہ کھولا، دو نقاب پوش اندر داخل ہوۓ سب کے چہروں پر خوف امڈ آیا۔ ان دونوں نے ایک نظر تمام لڑکیوں پر ڈالی پھر ایک ایک قدم اٹھاتے مرجان کیرف بڑھنے لگے، اسکے پاس پہنچ کر اسکے ہاتھ کھولے اور اسے گھسیٹتے ہوۓ باہر لے جانے لگے۔ اسکی آنکھیں کھلی ہوٸ تھیں لیکن نقاہت کے مارے وہ کوٸ مزاحمت نہ کر پارہی تھی۔باہر لاکر ایک آدمی نے اسکے منہ پر پانی سے بھرا گلاس پھینکا تو وہ ہربڑا کہ سیدھی ہوٸ۔
”اے اٹھ۔۔۔۔۔۔۔“ اس آدمی نے کہا اور مرجان کو دوبارہ سے گھسیٹنے لگا
”کک۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں لے کر جارہے ہو مجھے۔۔۔۔۔۔۔چھوڑو“ وہ چیخی مگر انکو کوٸ فرق نہ پڑا وہ دسے گھسیٹتے ہوۓ ایک بڑے سے ہال میں لے آۓ۔
ہال میں بہت سی کرسیاں تھیں جن پر مختلف لوگ بیٹھے تھے۔ سب کے سب مرد تھے۔ اور جس بات نے مرجان کو حیرت میں ڈالا وہ یہ تھی کہ وہ سب کے سب عربی شیخ ٹاٸپ کے کپڑے پہنے ہوۓ تھے۔ ان دونوں آدمیوں نے مرجان کو دو طرف سے پکڑ رکھا تھا کہ کہیں وہ بھاگ نہ جاۓ۔ تھوڑی دیر بعد ایک سربراہی کرسی پر بیٹھے آدمی نے ان سب کو مخاطب کیا
”بولی لگانے کا وقت شروع ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔جس کی بولی سب سے زیادہ ہوگی وہ ہی۔۔۔۔۔۔۔۔“ وہ رکا اور مرجان کی طرف مڑا تب مرجان نے دیکھا کہ وہ بشارت تھا
” وہ ہی اس لڑکی کا مالک ہوگا“ اس نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو مرجان کنگ ہوگٸ۔۔۔۔۔۔مطلب۔۔۔۔۔اسکا سودا ہورہا تھا۔ نہیں یہ نہیں ہوسکتا!!!
”اللّٰہ۔۔۔۔۔۔۔“ اس نے دل ہی دل میں اللّٰہ کو پکارا، بولی لگنا شروع ہوگٸ تھی
”دس ہزار درہم“ ایک آدمی کا اٹھ کر بولا۔۔۔۔ ہر شیخ کے ساتھ ایک ایک ترجمان بھی موجود تھا جو بولی لگا رہا تھا
”دس ہزار درہم ایک۔۔۔۔۔۔۔۔دس ہزار درہم دو۔۔۔۔۔“بشارت نے کنتی شروع کی
”پندرہ ہزار درہم“ کسی دوسرے نے کہا
”اللّٰہ مجھ پر رحم کر۔۔۔۔۔۔میری مدد کر اللّٰہ۔۔۔۔مجھے ان درندوں سے بچالے“ وہ پوری شدت سے اللّٰہ کو پکارا
”بیس ہزار درہم۔۔۔۔۔۔۔“
”بیس ہزار درہم ایک۔۔۔۔۔۔۔بیس ہزار درہم دو۔۔۔۔۔۔“
”اللّٰہ مجھےموت دے دینا مگر مجھے رسوا نہ کرنا“
”پچس ہزار درہم۔۔۔۔۔۔“ یہ آخری آواز تھی اسکے بعد جو آواز آٸ وہ شیشے ٹوٹنے اور گولیاں چلنے کی آواز تھی
” ہینڈز اپ!!! کوٸ اپنی جگہ سےنہ ہلے“ پولیس والوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ جو جہاں تھا وہیں کھڑا رہ گیا
”گرفتار کرلو سب کو“ ایس پی نے سب کو حکم دیا
”اوکے سر“ وہاں موجود تمام لوگوں کو پولیس والوں نے گرفتار کرند شروع کردیا۔ کچھ پولیس کے جوان بنگلے کی تلاشی لینے لگے جس سے وہاں موجود باقی لڑکیاں بھی بازیاب ہوگٸ۔ مرجان نے سکھ کا سانس لیا، لیکن۔۔۔۔۔۔۔ اسی وقت ایک پولیس والی خاتون اسکے جانب بڑھی اور اسکے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا دیں۔۔۔۔۔۔وہ حیرانی سے اسکا منہ دیکھنے لگی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ وہاں موجود باقی لڑکیوں کو بھی ہتھکڑیاں لگاٸ جاچکی تھیں۔
--------*--------------*--------------*
وہ ایک کال کوٹھری میں بند تھی۔ دو دن سے وہ یہیں تھی۔ پہلے اسے لاک اپ میں رکھا گیا تھا باقی لڑکیوں کے ساتھ، پھر ایک ایک کرکے ہر لڑکی کو اسکے گھر والے لے گۓ، مرجان کے علاوہ صرف دو لڑکیاں تھیں جن کا کوٸ نہ تھا۔ انہیں بھی الگ الگ کال کوٹھریں میں قید کردیا گیا تھا۔ دن میں دو بار ایک عورت کھانا دے جاتی تھی۔ مرجان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے کس جرم میں یہاں قید کیا گیا ہے۔ وہ بس گھٹنوں میں سر دیۓ زار و قطار روتی رہتی۔ اسکی صحت دن بہ دن گرتی جارہی تھی، اسکے ہاتھ کھلے ہوۓ تھے
وہ بیٹھی رو رہی تھی جب ہی کوٹھری کا دروازہ کھلا اور ایک عورت اندر داخل ہوٸ۔
”اے اٹھو۔۔۔۔۔۔“اس نے مرجان کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا
”چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔اور خبردار، ایک آواز مت نکالنا“ اس نے مرجان کو سختی سے کہا
”کک۔۔۔۔۔کہاں لے جارہی ہو مجھے۔۔۔۔۔۔پلیز، میری بات سنو۔۔۔۔۔تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو“ وہ روتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔ وہ عورت اسے گھسیٹتے ہوۓ باہر لے آٸ
”تم سے کہا ہے ناں! خاموش رہو۔۔۔۔۔اگر جاں پیاری ہے تو اب منہ بند رکھنا“ وہ عورت اسے ایک رہداری سے گزارنے لگی۔ رہداری تنگ اور قدرے اندھیری تھی۔ وہاں ہر تھوڑے فاصلے پر ایک دروازہ تھا جیسے اس رہداری میں مزید کالکوٹھریاں ہوں۔ وہ غورت اسے تقریباً کھسیٹتے ہوۓ لے جارہی تھی۔بلاآخر رہداری ختم ہوٸ اور وہاں ایک بڑا سا دروازہ آیا۔ وہ اسے دروازے سے باہر لاٸ تو مرجان کو معلوم ہوا کہ وہایک بڑا سا میدان ہے۔ دن کا وقت تھا اور میدان میں ایک گاڑی کھڑی تھی۔ وہ اسے گاڑی کے پاس لے جانے لگی تو مرجان نے ایک بار پھر مزاحمت کی
”مجھے جانے دو پلیز!۔۔۔دیکھو تمہاری اپنی بھی تو بیٹیاں ہونگی، رحم کھاٶ مجھ پر“ مرجان نے خود کو اسکی منت کرتے ہوۓ پایا۔ پر اس عورت نے اسکی ایک نہ سنی اور اسے گاڑی کے اندر دھکا دے کر بٹھایا پھر خود ڈراٸیونگ سیٹ سنبھال لی۔
”پلیز کچھ تو پتاٶ کون ہو تم۔۔۔۔۔۔۔“ مرجان نے پھر اس سے پوچھا پر وہ خاموش رہی، پورے راستے اس عورت نےخاموشی جب کہ مرجان نےروتے ہوۓ گزارے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے گاڑی روکی اور مرجان کی طرف دیکھا
”جاٶ۔۔۔۔۔۔۔“اس نے حکمیہ لہجے میں کہا تو مرجان حیرت سے اسکا منہ دیکھنے لگی
”کک۔۔۔۔۔کہاں جاٶں؟“ مرجان نے کہنے ساتھ ہی کھڑکی کے باہر دیکھا۔ آس پاس چھوٹے چھوٹے اسٹول لگے تھے جن میں جاۓ نماز، چادر، پھولوں کا ہار اور نہ جانے کیا کیا بک رہا تھا اور لوگ انہیں خرید رہے تھے۔ کافی مصروف علاقہ تھا جب کہ سڑک کے دوسری جانب مزار تھا ”حضرت عبداللّٰہ شاہ غازیؒ“ کا مزار۔۔۔۔۔۔
”آپ مجھے یہاں کیوں لاٸیں ہیں؟“ اس ایک بار پھر اس عورت سے پوچھا
”میری بات غور سے سنو۔۔۔۔ تم اور تمہارے جیسی دو اور لڑکیاں جن کے آگے پیچھے کوٸ نہیں ہے، انکے سر پر ایک بہت بڑی تلوار لٹک رہی ہے۔ میں سب کی مدد تو نہیں کرسکتی تھی لیکن چونکہ تم میرے انڈر میں ہو اس لۓ میں تمہاری مدد کررہی ہوں“
”کیسی مدد؟ میں سجھی نہیں۔۔۔۔۔۔“
”تمہارے جیسی لڑکیاں جن کے آگے پیچھے کوٸ نہیں ہوتا وہ جیل کے حوالدار کرپٹ ایم این ایز کے ہاتھوں بیج دی جاتیں ہیں، لیکنوچونکہ میں خود ایک عورت ہوں اس لۓ تمہارے ساتھ ایسا نہیں کرسکتی اور تمہیں ان لوگوں سے بچانے کے لۓ وہاںسے بھگا لاٸ ہوں۔۔۔۔۔“
”پر میں کہاں جاٶں گی؟“
”یہ میں نہیں جانتی، میں بس اتنی ہی مدد کرسکتی تھی تمہاری۔۔۔۔اب تم جہاں جاٶ تمہاری مرضی، پولیس تمہیں زیادہ سے زیادہ ایک یا دو دن ڈھونڈے گی لیکن پھر خود ہی پیچھے ہٹ جاۓ گی۔ اور ہاں! کسی کو بھی اپنا اصلی نام نہ بتانا کیونکہ پولیس مرجان نام کی لڑکی کی تلاش کرے گی۔۔۔۔چلو اب جاٶ“ اس نے کہتے ساتھ ہی مرجان کی طرف کا دروازہ کھول دیا ناچار اسے اترنا ہی پڑا
اسکے اترتے ہی وہ پولیس والی خاتون گاڑی بھگا لے گٸ۔ روڈ کے سامنے مزار تھا۔ وہ سر پر ایک دھول مٹی سے اٹی چادر ڈالے فوتھ پات پر کھڑی سامنے بنے مزار کو دیکھ رہی تھی
شام کا وقت تھا مزار کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ بہت سے لوگ مزار آجارہے تھے، وہ بھی سڑک پار کرکے مزار کی جانب آٸ اور پرسوچ نظروں سے مزار کی سیڑھیاں دیکھنے لگی، جےسے فیصلہ نہ کرپارہی ہو کہ اسے اندر جانا چاہیۓ یا نہیں۔ کافی دیر وہ اسی کشمکش میں مبتلا رہی پھر چھوٹے چھوٹے قدموں سے مزار کی سیڑھیاں چڑھ کر اندر آگٸ۔ اندر بہت سے لوگ قرآن پڑھ رہے تھے۔ ایک جانب دیوار سے ٹیک لگاۓ ایک ملنگ بیٹھا”حق،حق“ کا نعرہ لگا رہا تھا
وہ مزار کے صحن میں آگٸ۔ وہاں لنگر کھل رہا تھا، بہت سے لوگ قطار میں لگے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ وہ دو دن سے بھوکی تھی۔ جیل میں صرف ایک ہی وقت کا کھانا آتا تھا جسے وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتی تھی۔ اپنی چادر سے چہرہ چھپاتی وہ عورتوں کی لاٸن کی جانب بڑھنے لگی جیسے اسے ڈر ہو کہ کوٸ اسے وہاں دیکھ نہ لے۔ وقدم من من بھاری ہورہے تھے۔ وہ بھی قطار میں لگ گٸ اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔ چہرہ چادر سے چھپایا ہوا تھا اس لۓ کوٸ دیکھ نہ سکا کہ وہ رورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ہاں!۔۔۔۔۔وہ رو رہی تھی۔بھیک میں ملا کھانا پہلی بار جو کھارہی تھی۔
اسکی بار آگٸ تو وہ ایک تھیلی لۓ لنگر دینے والے کے سامنےجا کھڑی ہوٸ، اس نے تھیلی آگے کی تو لنگر دینے والے نے دیگ سے ایک بڑا چمچ بھر کر نکالا اور اسکی تھیلی میں ڈال دیا، اور اسے آگے بڑھنے کا اشرہ کردیا۔ وہ خاموشی سے ایک ساٸیڈ پر جا کے بیٹھ گٸ جہاں اور بھی بہت سی عورتیں بیٹھی کھانا کھارہی تھیں۔ اپنے گردآلود اور پھٹے پرانے کپڑوں سے وہ انہیں جیسی لگتی تھی۔ اس نے کھانے کے لۓ چہرے سے چادر ہٹاٸ تو وہاں بیٹھی دیگر عورتیں حیران رہ گٸ۔ شریف اور پڑھے لکھے مہذب لوگوں کی یہی تو خامی ہوتی ہے کہ وہ چاہے جتنے بھی گندے کپڑے پہن لے لیکن اپنی شکل سے وہ پہچان میں آجاتے ہیں کہ وہ اچھے گھر کے ہیں۔
مرجان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ وہ اپنی شکل اور اپنے انداز سے اچھے گھر کی لگتی تھی۔ کھانا کھایا نہیں جارہا تھا لیکن وہ پھر بھی کھارہی تھی۔ وہ روتی جاتی تھی اور کھاتی جاتی تھی۔ کھانا ختم کر کے وہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گٸ تھی۔ آگے کوٸ راستہ نظر نہیں آرہا تھا
”اے اللّٰہ! میری مدد کریں، مجھے سیدھا راستہ دکھا دیں“ وہ آنکھیں موندیں دیوار سے ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی۔ مزار پر کہیں پر میوزک سسٹم لگا تھا جس میں وقفے وقفے سے قوالیاں بج رہیں تھیں
تاجدار حرم، ہو نگاہ کرم
ہم غریبوں کے دن بھی سنور جاۓ گے
ہامیِ بےکساں کیا کہے گا جہاں
آپ کے در سے خالے اگر جاۓ گے
”میں مزاروں پر دعاٸیں مانگنے والوں میں سے نہیں ہوں اللّٰہ، کیونکہ مزاروں پر منت ماننا توہمات ہے۔ میں صرف آپ سے مانگوں گی۔ مجھے اپنے در سے خالی مت لوٹانا“
کوٸ اپنا نہیں، غم کے مارےہیں ہم
آپ کے در پہ فریاد لاۓ ہیں ہم
ہو نگاہِ کرم ورنہ چوکھٹ پہ ہم
آپ کا نام لے لے کہ مر جاۓ گے
”مجھے یہاں سے نکال لیں اللّٰہ! میں کسی کے آگے ہاتھ پھیلا کر یا بھیک مانگ کر زندگی نہیں گزار سکتی۔۔۔۔۔میں نہیں گزار سکتی ایسی زندگی“ وہ رو رہی تھی
خوفِ طوفان ہے بجلیوں کا ہے ڈر
سخت مشکل ہے آقا کدھر جاۓ ہم
آپ ہی گر نہ لے گے ہماری خبر
ہم مصیبت کے مارے کدھر جاۓ گے
”میں کہاں جاٶں میرے مالک؟ میرا کوٸ نہیں ہے اس دنیا میں سودۓ آپ کے مجھے یہاں سے نکال لے۔ مجھےایک عزت والی زندگی دے دے میرے میرے مولا“ وہ روتی رہی
شام کے ساۓ رات میں ڈھل گۓ۔ مزار پر مزید رش بڑھ گیا۔ وہ اب رونا بند کر چکی تھی کیونکہ اب شاید اس میں آنسو بہانے کی ہمت بھی نہ تھی، اپنے بےساٸبان ہونے کا احساس شدت سے ہورہا تھا۔ لنگر ایک مرتبہ پھر کھل چکا تھا لیکن اس بار وہ لنگر سے کھانا کھانے نہیں گٸ تھی۔ ابھی وہ اسی طرح دیوار سے سر ٹکاۓ بیٹھی تھی جب کوٸ اسکے برابر آکے بیٹھا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہی پولیس والی عورت تھی جو اسے یہاں چھوڑ کہ گٸ تھی
”آپ؟۔۔۔۔۔“مرجان نے حیرت سے پوچھا
”ہاں! تم یہاں چھوڑ کر جانے کے بعد مجھے چین نہیں آرہا تھا۔ بار بار یہ سوچ پریشان کررہی تھی کہ تمہارے تو گے پیچھے کوٸ بھی نہیں ہے تو تم جاٶگی کہاں؟ بس مجھ سے رہا نہ گیا تو تمہارے پاس واپس آگٸ“
”پر آپ کو میریاتنی فکر کیوں ہورہی ہے؟“
”پتہ نہیں۔۔۔۔۔میں خود نہیں جانتی کہ اللّٰہ نے میرے دل میں تمہارے لۓ اتنا رحم کیوں ڈال دیا ہے؟ شاید وہ میرے ذریعے تمہاری مدد کروانا چاہتا ہے۔۔۔۔اب زیادہ سوال مت کرو اور چلو میرے ساتھ“ اس نے ہاتھ دے کر مرجان کو اٹھایا اور اپنے ساتھ گاڑی میں لے آٸ۔ اسکے بعد وہ نرجان کو اپنے گھر لاٸ اور اپنی بیٹی کے صاف ستھرے کپڑے اسے دے کر کہا کہ وہ جاکر نہا آۓ۔ مرجان نے ویسا ہی کیا، پھر رات کا کھانا کھانے کے بعد اس عورت نے اسے اپنے ساتھ چلنا کا کہا
اب کہاں جارہے ہیں؟“ گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ مرجان نے پوچھا
”تمہارے رہنے کا بندوبست کرنے“ عورت نے مسکراتے ہوۓ کہا
”آپ کا نام کیا ہے؟“ مرجان کو اب اسکا نام پوچھنے کا خیال آیا
”شگفتہ“ اس نے گاڑی ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے روکی
”یہ ہم کہاں آۓ ہیں“
”یہ میری خالہ کا گھر ہے۔ انکا نام زہرہ بیگم ہے۔ انکا ایک ہے بیٹا ہے سعد جو کہ دو سال سے سعودیہ میں ہے۔ جانا تو خالہ نے بھی سعودیہ ہی تھا پر انکے ویزے کا کوٸ مسلہ ہے تو ایک دو سال تک وہ یہی ہیں اور اپنے گھر میں ایک کمرہ کراۓ پر کسی لڑکی کو دےنا چاہتی ہیں۔ اب میرے بات غور سے سنو۔۔۔۔۔میں خالہ کو یہ بتاٶں گی کہ تم میری دوست کی بہن ہو اور یہاں رہنے جاب کرنے آٸ ہو۔ وہ تمہیں کراۓ پر رکھ لیں گی۔ اور ہاں! انکو اپنا نام مرجان مت بتانا“
”وہ سب تو ٹھیک ہے پر میرے پاس کراۓ کے پیسے نہیں ہیں“
”اسکی فکر تم مت کرو تمہارا تین مہینے کا کرایا میں بھر دونگی، اس دوران تم کوٸ نوکری وغیرہ ڈھونڈ لینا اور جب تمہارے پاس ہو تو میرے پیسے واپس کردینا“ گاڑی میں ہی شگفتہ نے مرجان کو ساری بات سمجھادی اس نے صرف ہاں میں سرہلادیا۔ گھر میں آکر شگفتہ وہی سب باتیں زہرہ بیگم کے سامنے دہرا دی، وہ کچھ حیران اور کچھ پریشان نظروں سے مرجان کو دیکھتی رہی
”تمہارا نام کیا ہے بیٹی؟“ اس نے شفقت سے پوچھا
”جی مر۔۔۔۔۔میرا نام فاطمہ خان ہے“ اور اس دن سے وہ مرجان سے فاطمہ ہوگٸ۔
”بیٹی تمہارا سامان وغیرہ کہاں ہے؟“ انہوں نے اسے خالی ہاتھ دیکھ کر پوچھا تو وہ گڑبڑا گٸ
”خالہ اسٹیشن پر اسکا سامان گم ہوگیا تھا“ شگفتہ نے فوراً سے بات سنبھالی
”اچھا۔۔۔۔۔میں چاۓ لے کر آتی ہوں“ وہ کہتی ہوٸ کچن میں چلی گٸ۔ انکے جانے کے بعد شگفتہ نے فاطمہ کے کان میں سرگوشی نما آواز میں کہا
”سنو۔۔۔۔تم کہہ رہی تھی کہ تمہارا بھاٸ کسی کمپنی کا اونر ہے، تم مجھے اس کمپنی کا نام بتاٶ میں اسکے بارے میں پتہ کراتی ہوں“
”ٹراٸ اسٹار“ فاطمہ نے جواب دیا تو اس نے سرہلادیا۔
یوں فاطمہ نے وہاں رہنا شروع کردیا لیکن چند دنوں میں ہی زہرہ بیگم کو محسوس ہوگیا کہ اسکے ساتھ کوٸ مسلہ ہے نہ وہ سوتی تھی نہ کچھ بولتی تھی۔ سوتی تھی تو راتوں کو ڈر کر اٹھ جایا کرتی تھی۔ ایک دن زہرہ بیگم نے پوچھ ہی لیا۔ اور فطمہ چھپا نہ پاٸ اور سب بتادیا انہیں بہت دکھ ہوا۔
”بیٹا اب تم خود کو اکیلا مت سمجھنا میں تماری ماں جیسی ہوں اور اگر تم بھی سعد کی طرح مجھے امی کہو تو مجھے اچھا لگے گا“ اس دن کے بعد سے اس نے زہرہ بیگم کو امی کہنا شروع کردیا
------------*------------*------------*
اس دوران ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا۔ مارکیٹ میں ٹراٸ اسٹار نامی دو کمپنی تھی۔ ایک کے مالک شیخ برادرز تھے اور ایک شہریار اور علی وغیرہ کی کمپنی تھی، حنان کی ایکسیڈنٹ کی خبر نیوز پر چلنےکے بعد شیخ برادرز کے بہت سے کلاٸینٹ نے انکو تعزیتی فون کرنے شروع کردیا تو وہ پریشان ہو گۓ۔ تب جاکے یہ راز کھلا ٹراٸ اسٹار نامی دو کمپنی تھی۔ پھر فیضان شیخ اور اذلان شیخ دونوں بھاٸ شہریار اور علی کے پاس آۓ اور انتہاٸ شاٸستگی سے ان سے اپنی کمپنی کا نام بدلنے کی درخواست کی کیونکہ وہ لوگ پیچانوے سال سے مارکیٹ میں تھے جب کے علی لوگوں کی کمپنی کہ مارکیٹ میں تیس سال ہی ہوۓ تھے لہذا انہوں نے ایک لمبے پروسیس سے گزر کر، نٸے سرے سے میمورینڈم تیار کرنے اور اخبار میں اشتہار دینے کے بعد انہوں نے کمپنی کا نام ٹراٸ اسٹار سے تبدیل کرکے ٹراٸ سرکل کردیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شیخ برادز ان پر عدالت میں کیس بھی کرسکتے تھے۔ اور انکے کیس ہارنے کے پورے سو فیصد جانسز تھے کیونکہ انہیں مارکیٹ میں زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔
جب شگفتہ نے ٹراٸ اسٹار کمپنی کے بارے میں معلومات کرانی چاہی تب تک اسکا نام سوشٸیل میڈیا سے لے کر آفیشیل ویب ساٸیڈ تک نام تبدیل ہوچکا تھا۔ اسطرح اسے حنان کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوپایا۔ اس دوران فاطمہ نے اپنی ایک یونیورسٹی فیلو کی مدد سے اپنی تمام ڈگریاں نکلوا کر کراچی منگوالی۔ جب اسے کراچی کے راستے صیح سے یاد ہوگۓ۔ تو وہ حنان کے گھر گٸ وہاں دروازے پر بڑا سا تالا لگا ہوا تھا۔ اس نے پڑوسی کے گارڈ سے پوچھا تو اس نے صرف اتنا کہا کہ
”پتہ نہیں بی بی۔۔۔میں تو ابھی آیا ہوں بس اتنا جانتا ہوں کہ اس گھر کے مالک کا آٹھ دس مہینے پہلے ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا“ اس دن فاطمہ کی ساری امیدیں دم توڑ گٸ۔ اس نے دل سے تسلیم کرلیا کہ اسکا بھاٸ مر چکا ہے۔ اور اسے ڈھونڈنا ترک کردیا۔
اور قسمت کا کرنا یہ ہوا کہ جب اس نے جاب کے لۓ اپلاٸ کیا تو اسکو ٹراٸ سرکل کمپنی کی طرف سے ہی آفر آٸ۔ ایمپلاٸز کا انٹرویو لینے کا کام کمال صاحب کا تھا۔ اس نے سی وی پر تو اپنا ندم مرجان ہی لکھا لیکن انٹرویو کے دوران دانستہ اپنا نام فاطمہ خان بتایا یوں وہ پورے آفس میں فاطمہ کے نام سے جانی گٸ۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ موجودہ ٹراٸ اسٹار کمپنی کا مالک اسکا بھاٸ ہی ہے
اسکی ملازمت کے دوران ہی حنان کوما سے باہر آگیا لیکن دو ماہ تک فیزیو تھراپی وغیرہ کی وجہ سے وہ کمپنی نہیں آیا۔ اسکے بعد جب اس نے کمپنی جواٸن کی تو وہ ورکرز اور ایمپلاٸز کے سامنے ہی نہیں آیا اور یوں کسی کو اسکے برے میں معلوم نہ ہوا۔ جب اس نے ایمپلاٸز کے سامنے اپنی شادی کی خوشخبری سناٸ تب تک فاطمہ ریزاٸن دے چکی تھی یوں وہ دونوں ایک دوسرے سے نہ مل سکے
فاطمہ نے اپنی زندگی کو محدود کرلیا تھا۔ نہ اسکا کوٸ دوست تھا نہ رشتہ دار۔ وہ بس زندگی گھسیٹ رہی تھی۔ وہ اپنی ذات میں اتنا مگن تھی کہ کبھی کسی کہ بارے میں سوچا ہی نہیں لیکن پہلی بار علی کو انکار کرکے وہ اسے یاد کررہی تھی نہ ہی اسے بھلا پارہی تھی۔ اوپر سے زہرہ بیگم بھی اس سے ناراض تھی ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ڈپریشن میں چلی گٸ
-------------*------------*-----------*
اندھیرے میو بننے والے چہروں کو وہ اب پہچاننے کے قابل ہوٸ تھی۔ وہ چہرے دادی، امی، حنان اور علی کے تھے۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ کسی گہری کھاٸ میں گر رہی ہے۔ اور اپنے آپ کو اس کھاٸ میں گرنے سے روک نہیں پارہی ہے۔ تب ہی اسکے کانوں کے پاس ایک آواز گونجی
”مجھے جھوڑ کر مت جانا مرجان ورنہ میں مر جاٶں گا“ کچھ تو تھا اس آواز میں اسکی ساری حسیات اور ساری قوت پھر سے زندہ ہوگٸ
نہیں۔۔۔۔۔اب وہ اپنے بھاٸ کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جاۓ گی۔۔۔۔کبھی نہیں
اور اسی وقت اس نے اپی ساری طاقت لگا کر اپنے آپ کو اس گہری کھاٸ سے نکال لیا اور آنکھیں کھول دیں۔
”مرجان۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔“ حنان اسے آنکھیں کہولے دیکھ کر چیخا پھر ڈاکٹر کو آوازیں دینے لگا۔ ڈاکٹرز نے جلدی سے پہلے اسکے منہ پر آکسیجن ماکس لگایا تاکہ اسے سانس لینے میں دشواری نہ ہو پھراسکا چیک اپ کرنے لگے۔
”امیزنگ۔۔۔۔۔اٹس مریکل۔۔۔۔یہ تو معجزہ ہوگیا“ ڈاکٹر کچھ خوشی اور کچھ حیرت کے ملے جلے تاثرات سے کہہ رہا تھا، مرجان نے گردن موڑ کر حنان کو دیکھا اور بہت دیر تک دیکھتی رہی پھر اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا۔ حنان جلدی سے اسکے قریب گیا
”ہاں مرجان بولو۔۔۔۔“ اس نے فاطمہ کا ہاتھ تھامتے ہوۓ پوچھا۔ فاطمہ نے آکسیجن ماکس منہ سے ہٹایا
”مت ہٹاٶ اسے“ حنان نے اسے روکنا چاہا پر اس نے نہیں سنا
”ببھ۔۔۔۔بھاٸ آپ۔۔۔۔۔۔آپ کک۔۔۔۔کہاں چلے گۓ تھے۔۔۔۔۔آپ کو۔۔۔۔۔۔۔پتہ ہے میں۔۔۔۔۔مر رہی تھیں“ اس نے اٹک اٹک کر کہا شاید اسے بولنے میں دشواری ہورہی تھی۔ حنان کا دل کٹ گیا۔ اس سے پہلے وہ کوٸ جواب دیتا فاطمہ بےہوش ہوگٸ
”ذاکٹر۔۔۔۔“ اس نے فکر مندی سے ڈاکٹر کو دیکھا
”ڈونٹ وری۔۔۔۔۔یہ دواوں کی وجہ سے بےہوش ہوگٸ ہیں۔اب یہ بلکل ٹھیک ہیں“ ڈاکٹر صاحب نے کہا تو حنان وہیں فرش پر سجدہ ریزہ ہوگیا
-----------*-------------*------------*