دانیال دعا کے بالکل پهچھے کھڑا تھا.جب اسکی ایک کزن نے آ کر کر بتایا کے زوھیب بھائ کا فون آیا تھا وه کھ رھے تھے کے اگلے ھفتے تک وه آرھے ھیں.دعا کو یے سن کر کچھ بھی محسوس نھیں ھوا.نا خوش نا غم.وه ھر احساس سے عاری تھی.
جب دانیال نے یه سنا تو اس کی رگے تن گئ.آخر کھا برداشت تھی اس میں اپنی محبت کو کسی اور کا ھوتے دیکھنے کی.وه لمبے لمبے دگ بھر کر وھاں سے چلا گیا.
دعا دانیال کو وھاں سے غصے میں جاتا ھوا دیکھ کر سمجھ گئ تھی کے اسنے سب سن لیا ھے.ایک ٹھنڈی آه بھر کر وه اسٹیج کی طرف چلی گئ.
شادی کا فنگشن ختم ھو گیا تھا.لاریب رخصت ھو کر چلی گئ تھی.شفا,آزر اور دانیال اجازت مانگ کر اپنے اپنے گھر چلے گۓ تھے.دعا بھت خوش تھی کے لاریب اپنے گھر کی ھو گئ تھی.
شفا مجھے تم سے ضروری بات کرنی ھے.نور نے شفا کو مخاطب کیا.
نور آج صبح ھی آئ تھی اور شفا اس کے آنے کا مطلب اچھی طرح سمجھ رھی تھی.جی بولیئے.شفانےکھا.دراصل شفا آصف کے آفس میں انکا ایک دوست ھے.آصف کئ بار اسکے گھر بھی جا چکے ھیں.بھت اچھے لوگ ھیں.وه آنا چاه رھے ھیں تمھیں دیکھنے میں نے سوچا کے تمھیں بتا دوں.امی تو راضی ھیں وه تو کھ رھیں ھیں کے کل ھی بولا لو میں ان لوگوں کو.لیکن میں نے کھا پھلے تم سے پوچھ لو.نور نے شفا سے پوچھا.
آپی مجھے آپ کو کچھ بتانا تھا.شفا کو سمجھ نھیں آیا کے وه کیسے کھے.ھاں کھو.آپی میری یونی میں ایک لڑکا تھا.آزر نام ھے اسکا.آپی هم دونوں ایک دوسرے سے بھت مھبت کرتے ھیں.میں صرف اسی سے شادی کروں گی.شفا نے نظریں نیچی کر کے نور کو سب بتا دیا.
مجھے تم سے یه امید نھیں تھی شفا.هم نے تمھیں پڑھنے بھیجا تھا نا کے یه سب کرنےاور امی کو کتنادکھ ھو گا یھ سب سن کر.نور نے افسوس سے کھا.
پلیز آپی میں آزر کے بنا نھیں ره سکتی.شفا نے روتے ھوۓ کھا.ٹھیک ھے تمھارے پاس صرف ایک ھفته ھےشفا.اگر وه اپنے پیڑنٹس کو لےکر آجاتا ھے تو ٹھیک هے ورنه تمھیں وھی شادی کرنی پڑے گی جھاں امی کھیں گیں.نور نے کھا. جی ٹھ ٹھیک ھے.شفا نے آنسؤں کے بیچ کھا.نور یه کھ کر چلی گئ اور نور کے جاتے ھی شفا نے آزر کا نمبر ملایا******
نور کے جانے کے بعد شفا نے آزر کو فون ملایا.
ھاں بولو.شفا کیابات ھے.آزر نے فون اٹھاکرکھا.آآزر.شفا روتے ھوۓ بولی.شفا کی آواز سن کر آزر پریشان ھوگیا.آزر کھاں ھو تم.شفا نے پوچھا.
میں تو ابھی گاؤں پهنچنے والا ھوں.شفا کیا ھوا ھے تمھیں.کیوں رو رهی ھو.آزر پریشانی سے بولا.آزرپلیزجلدی واپس آجاؤ.امی اور آپی رشته والوں کو بلانا چاه رهی ھیں.مجھے بھت ڈر لگ رھا ھے.آپی نے مجھے ایک ھفتے کاوقت دیا ھے.اگرتم ایک ھفتے کے اندر اندر اپنے پیرنٹس کو لے کرنھیں آئے تو وه میرارشته تے کر دیں گی اور میں کچھ نھیں کر پاؤں گی.پلیز آزر جلدی آجاؤ.شفا نے روتے ھوۓ کھا.
شفا کی بات سن کر آزر کا غصے سے برا حال ھو گیا.اس نے بھت زبت سے کھا.تم فکر نا کرو.میں دو دن میں آتا ھوں اپنے پیرنٹس کو لے کر.تم میرا انتظار کرنا.اور میری بات کان کھول کر سن لو تم صرف میری ھو.اگر تم نے مجھے چھوڑنے کا سوچا بھی تو مجھ سے برا کوئ نھیں ھوگا.
آزر آپکے پیڑنٹس مان جائیں گے اس رشتے کے لیے.جو بات شفا کو کافی ٹائم سے پریشان کر رهی تھی آخر وه زبان پر آ ھی گئ.
دیکھو شفا مما بابا نے آج تک میری کوئ بات رد نهیں کی.مجھے یقین ھے انھیں میری پسند پر ناز ھوگا.آزر کی بات سن کر شفا کوکافی اطمینان محسوس ھوا.اچھا شفا گھر آ گیا ھے میں تم سے باد میں بات کرتا ھوں اور پریشان مت ھونا کوئ تمھیں مجھ سے الگ نھیں کرسکتا.آزر نے یه کھ کر فون بند کر دیا.آزر کی بات پر شفا اپنے آپ کو هلکا پھلکا محسوس کر رھی تھی.
دعا آپی کیا ھوا آپ اداس کیوں لگ رھیں ھیں.لاریب نے دعا کا اداس چھرا دیکھ کر کھا.شادی کے بعد لاریب آج سب سے ملنے آئ تھی.کچھ نھی.میں کیوں اداس ھوں گی بھلا.دعانے مسکرانے کی کوشش کرتے ھوۓ کھا.ھاں یه بات تو ھے اب تو زوھیب بھائ بھی کل آنے والے ھیں.آپ تو.بھت خوش ھو گی نا.لاریب نے دعا کو چھیرتے ھوۓ کھا.
دعا خاموش ھی رھی.
بات ھوئ تمھاری آزرسے.کیا کھا اسنے.
نور نے شفا سے پوچھا.جی وه کھ رھے تھے کے دو دن میں آجائیں گے وه اپنے پیرنٹس کے ساتھ رشته لینے.شفا نے آھستگی سے کھا.
شفا میری بات سن لو.اگر آزر اس ویک نھیں آیا تو ھم رشته والوں کو بلا لیں گےاور ویسے بھی مجھے نھیں لگتا کے وه آۓ گا.اگر وه آگیا تو ٹھیک ھے ورنا تم بغیر کسی بحس کے ھاں کر دو گی.
جی.شفا صرف اتنا ھی که پائ.
آپی آپ ابھی تک تیار نھیں ھوئ.میں نے کیو تیار ھونا ھے.دعا نے لاریب سے پوچھا.ویسے حد کرتی ھیں آپ.بھول گئ کیا آج زوھیب بھائ نے آنا ھے اور آپ ابھی تک ایسے ھیں بیٹھی ھیں.اٹھیں تیار ھو جائیں.لاریب نے دعا کا ھاتھ پکڑ کر اٹھاتے ھوۓ کھا.
لاریب میرا ھاتھ چھوڑو دعا نے چڑ کر کھا.میرا بالکل موڈ نھیں ھے تیار ھونے کا اسی لیے اب تم مجھے دوباره مت کھنا.دعا نے غصے سے کھا.
لاریب افسوس سے سر ھلا کر وھاں سے چلی گئ.
بنده ایک فون ھی کر دیتا ھے پهنچ کے.دانیال نے آزر کو فون کیا تھا اور اب وه اس پر غصه ھو رھا تھا.کیوں تم میری محبوباھو.جو میں تمھیں بتاؤ.آزر نے دانیال کو چڑا نے کےکیلۓ کھا.
بکول شفا کےتو ھوں.اس واسطے تمھیں مجھے بتانا چاھیے تھا.دانیال نے بھی آزر کے انداز میں کھا.شفا کانام سن کر آزر اداس ھو گیاتھا.کیا ھوا آزر تم خاموش کیو ھو گۓ سب خیریت ھے نا.دانیال نے پریشانی سے کھا.
دانیال کی آواز سن کر آزر واپس ھوش میں آیا.ھان یار سب خیریت ھے بس شفا کی وجه سے پریشان ھوں.آزر نے کھا.
کیوں کیا ھوا ھے شفا کو.دانیال پریشان ھوا.
اگر میں دو دن میں شفا کے گھر رشته لے کر نھیں گیا تو وه لوگ اسکی شادی کھیں اور کر دیں گیں.آزر نے کھا.
آزر پھر تو تمھیں جلدی جانا چاھیے کھیں دیر نا ھوجاۓ.دانیال.نے کھا.
ھاں میں نے شفا کو فون کر کے بتا دیا تھا کے میں کل آؤ گا مما بابا کے ساتھ.آزر نے کھا.اچھا تم بتاؤ تمھارا کیا ھال ھے.آزر نے دانیال سے پوچھا.
دعا کا کزن آنے والا ھے.اس سے شادی کرنے کے لیۓ.دانیال نے افسوس سے کھا.
تم فکر مت کر یار اگر وه تمھارے نصیب میں ھوئ تو وه تمھیں ضرور ملے گی.اور اگر نا ملی تو یقینن اس میں تمھارے لیے کوئ بھتری ھو گی.آزر نے دانیال کو حوصله دیا.
امی.شفا نے آمنه بیگم کو مخاطب کیا.
بولو.آمنه بیگم شفا سے خفا تھیں.انھیں دکھ تھا اتنے اچھے رشته کو چھوڑنے کا.
امی آزر کھ رھے تھے کے کل وه اپنے پیڑنٹس کے ساتھ آیئں گیں.شفا نے کے کھا.
ٹھیک ھے.اور تم یه بات سن لو اگر مجھے وه لوگ پسند نھیں آۓ تو میں ھر گز تمھارا رشته وھاں نھیں کروں گی.جی شفا صرف اتنا ھی که پائ.اور دل میں دعا کرنے کرنے لگی کے وه لوگ امی کو پسند آجائیں