نور بیٹا مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی.آمنه بیگم نے نور کو بولا.جی امی کیا بات ھے.نور آمنه بیگم کی طرف متوجه هوئ.بیٹا میں شفا کی وجه سے پریشان ھوں.اب تو اس کی graduation مکمل ھونے والی ھے تو میں سوچ رھی تھی کے کیوں نا کوئ اچھا سا رشتا دیکھ کر اس فرض سے فارغ هو جاؤ.آمنه بیگم نے نور سے مشوره کیا.جی امی میں بات کروں گی آصف سے کے کوئ اچھا سا لڑکا ھو اس کی نظر میں تو بتاۓ.شفا جو ابھی گھر آئ تھی نور کی بات پرشفا کے قدم وھیں تھم گۓ.شفا کو سمجھ نهیں آ رھا تھا کے وه اب کیا کرے.آزر کے علاوه وه کسی دوسرے کو تصور بھی نھیں کر سکتی تھی.اس نے آزر سے اس بارے میں بات کرنے کا سوچا.
وه چاروں اس وقت ساحل پر کھڑے تھے.شفا تو پانی کو دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ھو رھی تھی.اور آزر اس کی خوشی میں خوش تھا.شفا آزر کا ھاتھ پکڑ کر آگے پانی کی طرف چلی گئ.دعا کسی گھڑی سوچ میں ڈوبی ھوئ تھی.دانیال کی نظریں بارباردعاکی طرف اٹھ رھی تهیں دانیال کو وه اداس شام کا ھی حصا لگی.
آزر مجھے تم سے ضروری بات کرنی ھے.دعا نے بھت سوچ کر آزر کو مخاطب کیا.ھاں کھو.آزر نے مسکرا کر کھا.آزر دراصل وه.شفا کو سمجھ نھیں آیا کے وه کیا کھے.کیا بات ھے شفا کھل کر کھو.آزر نے سنجیدگی سے کھا.امی اور نور آپی میرے رشتے کی بات کر رهے تهے.میری graduation کے بعد کوئ اچھا سا رشتا دیکھ کر میری شادی کرنے کا سوچ رھیں ھیں وه لوگ.شفا نے کھ کر جب آزر کی آنکهوں میں دیکھا تو خوف کی ایک لھڑ اس میں سرایت کر گئ.آزد کی آنکھیں حد سے ذیاده سرخ ھو رھیں تھیں.آزر نے شفا کا بازو دبوچ کر اسے اپنے قریب کیا.شفا کو لگاکےاس کا بازو ٹوٹ جاۓ گا.شفا نے ڈر کے مارے اپنی آنکھیں بند کر لی.
پهلے بھی میں نے تمھیں سمجھایا تھا اور آج بھی سمجھا رھا ھوں کے آئنده تم نے مجھ سے دور جانے کی بات کی تو میں وه کروں گا کے تم سوچ بھی نھیں سکتی.تم صرف میری ھو.پیپرز کے بعد میں فورا تمھارے گهر رشته لے کر آ جاؤ گا.آزر نے شفا کا گال تھپتھپا کر کھا.شفانے آج پھلی بار آزر کی آنکھوں میں اتنا جنون دیکھا تھا.اب آگے کیا ھونے والا تھا یه تو وقت ھی بتاۓ گا.
دانیال ھمت کر کے دعا سے بات کرنے کا فیصلا کر کے اسکی سمت چل پڑا.
دانیال کی نظریں بار بار دعا کی طرف اٹھ رھیں تھیں.اس نے سوچا کے آج دعا سے بات کرکے ھی رھےگا.دعا مجھے تم سے بات کرنی ھے.دانیال نے دعا پاس جا کر کھا.جی بولیں.دعا کے دل کو ڈھڑکا ھوا.دعا میں تم سے محبت نهیں عشق کرتا ھوں.مجھے لگتا ھے اگر تم مجھے نا ملی تو میں مر جاؤ گا.میں تم سے شادی کرنا چاھتا ھوں دعا.دانیال نے دعا کو دیکھ کر بھت محبت سے کھا.ھو گئ آپ کی بکواس تو میں جاؤ.دعا یه کھ کر جانے ھی لگی تھی کے دانیال نے اس کا ھاتھ پکڑ کر اسے روکا.آپ کی ھمت کیسے ھوئ مجھے ھاتھ لگانے کی.دعا نے غصے سے کھا.کیوں دعا آخر کیوں تمھیں میری آنکھوں میں سچائ نظر نھیں آتی.آخر کیا وجه ھے جو تم میرے ساتھ ایسا کر رھی ھو.دانیال نے انتھائ بے بسی سے کھا.وجه جانی ھے نا آپ نے تو یه ھے وه وجه.یه کھ کر دعا نے اپنا انگھوٹی والا ھاتھ آگے کیا.کسی اور کی امانت ھوں میں.بچپن سے کسی کے نام پر بیٹھی ھوئ ھوں.اب شاید آپ کو سمجھ آ گیا ھو.خدا کے لیے میری زندگی میں مشکلات پیدا مت کریں.یه کھ کر دعا پلٹ کر چلی گئ.ایک آنسوں دعا کے گال پر گرا.یے تو صرف وهی جانتی تھی کے اس نے یھ سب کس دل سے کھا تھا.دعا کی بات سن کر دانیال کا دل خون کے آنسوں رو رھا تھا.
واپسی پر چاروں خاموش تھے.سارے اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے.ھر کسی کے دل میں کسی کو کھونے کا ڈر تھا.
****************************
امی مجھے آپ سے بات کرنی ھے.دعا نے کلثوم بیگم سے کھا.ھاں بولو کیا بات ھے.امی آپ لاریب کی شادی کر دیں.لیکن بیٹا بڑی کے ھوتے ھوۓ میں چھوٹی کی پھلے کیسے کر دوں.امی اس سے کچھ فرق نھیں پڑتا.ابھی پتا نھیں زوھیب بھیں کب آئیں گے.اگر کیا میں ساری زندگی آپ کی ھی دهلیز پر بیٹھی رهوں تو کیا آپ میری وجه سے لاریب کو بھی بیٹھاۓ رکھے گیں.دعا کی بات سن کر کلثوم بیگم کے دل کو کچھ ھوا.خدا نا کرے کے کچھ ایسا ھو.اچھا میں کرتی ھوں تمھارے ابا سے بات.کلثوم بیگم نے دعا کے سر پر ھاتھ رکھتے ھوۓ کھا.
************************************
دعا کی باتیں سوچ کر دانیال کا سر پھٹا جا رھا تھا.آخر کیوں دعا کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا.میں نے تو سچے دل سے تم سے محبت کی تھی.میری اتنی سی غلطی کی سزا اتنی بڑی کیوں.وه ھاتھوں میں چهرا چھپا کر بلک بلک کر رونے لگا.روتے روتے اسے پتا ھی نھیں چلا کب وه غنودگی میں چلا گیا.
********