آفتاب کا نام سن کر شفا نے حیرت سے فون کو دیکھا اور پهر غصے سے کها.
کیوں فون کیا ھے مجھے.
دیکھو شفا میں مانتا ھوں بھت برا کیا ھے میں نے تمھارے ساتھ اور دیکھو اب میں پچھتا رھا ھوں.مریم بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئ ھے.پلیز تم مجھے معاف کردو اور واپس آجاؤ میرے پاس.
آفتاب کی بات سن کر شفا کو اسکی زھنی حالت پر شبه ھوا.
دماغ تو ٹھیک ھے آپ کا.آپ مجھے طلاق دے چکے ھیں اور اب میں کسی اور کی بیوی ھوں.اور آئنده کے بعد مجھے دوباره فون مت کیجیۓ گا.
شفا میری بات سنو.مجھے پتا ھے تمھاری شادی ھو گئ ھے.تم اپنے شوھر سے طلاق لے لو پهر ھم دونوں شادی کر لیں گے.
آفتاب کو جواب دیۓ بنا ھی شفا نے فون بند کر دیا اور غصے سے بیڈ پر پھینک دیا.
نجانے کیو میری زندگی میں سکون نھی آتا.
شفا نے سر تھامتے ھوۓ کھا.
****************************
تمھیں پتا ھے آزر اور شفا کی شادی ھو گئ ھے.
دانیال نے دعا سے کھا.
آج وه لوگ پاکستان واپس آگۓ تھے.
جی مجھے پتا ھے. شفا نے بتایا تھا مجھے.
دعا نے جواب دیا.
دیکھو کتنا اچھا ھے نا آزر .شفا کے دھوکا دینے کے باوجود اسے اپنالیا.
دانیال کی بات سن کر دعا نے حیرت سے اسے دیکھا اور ھاتھ میں موجود کپڑے بیڈ پر پٹخ کر غصے سے اسکے سامنے کھڑی ھو گئ.
کیا مطلب ھے آپکی اس بات کا .کیا کھنا چاھتے ھیں آپ.دھوکا آپ کے دوست نے دیا اور الزام آپ میری دوست کو دے رھے ھیں .واه کیا بات ھے.
دعا نے دونوں ھاتھ کمر پر رکھ کر لڑاکا عورتوں کی طرح کھا.
او بھئ میرے دوست نے کیا کیا ھے.اسنے تو شفا کو انتظار کرنے کو کھا تھا لیکن اسنے کیا کیا فورا شادی کرلی.
دانیال نے بھی فورا اپنے دوست کی سائڈ لی.
واه بھئ کیا بات کھی انتظار کی.موصوف پھلے میسج کرتے ھیں اور پهر منظر سے ھی غائب ھوجاتے ھیں.
کیا مطلب کون سا میسج اور منظر سے غائب وه ھر گز نا ھوتا اگر اسکا اتنا برا ایکسیڈنٹ نا ھوا ھوتا.
دانیال کی ایکسیڈنٹ والی بات سن کر دعا ایک دم خاموش ھوگئ پهر سنبھل کر بولی.
کیا مطلب آپکا آزر کا ایکسیڈنٹ ھوگیا تھا .لیکن ھمیں تو اس بارے میں کچھ معلوم ھی نھی اور شفا آزر کا انتظار لازمی کرتی اگر وه اسے میسج نا کرتا.
کس میسج کی بات کر رھی ھو تم.
دانیال نے پوچھا.
پھر دعا نے اسے ساری بات بتا دی کے آزر کے نمبر سے اسے بھول جانے کا میسج کا آنا اور اسکے بار بار فون ملانے پر نمبر کا بند جانا.
دعا کی بات سن کر دانیال کو شدید حیرت ھوئ اور پهر اسنے بھی ساری بات دعا کو بتا دی کے کیسے آزر شفا کا رشته لینے آرھا تھا اور پر اسکا ایکسیڈنٹ.
دانیال کو سو فیصد یقین تھا کے وه میسج آزر نے نھی کیا ھوگا.
مطلب کے ان دونوں کے بیچ اتنی بڑی غلط فھمی پیدا ھوئ وی ھے.
دانیال.ھمیں ان دونوں بیچ جو بھی غلط فھمی پیدا ھو گئ ھے اسے ختم کرنا ھوگی.
دعا نے کھا.
تم ٹھیک کھ رھی ھو .میں آزر کو سمجھاؤ گا اور تم شفا کو.
دانیال کھ کر آزر سے ملنے کے لیۓ چلا گیا.
***********************
کیا بات ھے دعا جو تم مجھے فون پر نھی بتا سکتی.
شفا نے کھا.
یار بات ھی ایسی ھے جو میں فون پر نھی بتا سکتی.ایک کام کرو آج یا کل تم مجھ سے آکر مل لو.
اچھا ٹھیک ھے .
یه کھ کر شفا نے فون بند کر دیا.اسی وقت آزر کمرے میں آیا.
تم نے کھانا کیو نھی کھایا.
آزر نے شفا کے سامنے بیٹھتے ھوۓ پوچھا.
میرا دل نھی چاه رھا تھا.
شفا نے جواب دیا.
شفا کا موبائل بجنے لگ گیا.
اسنے دیکھا تو آفتاب کے صبح والے نمبر سے کال آرھی تھی.
شفا نے کال کاٹ دی.
موبائل پهر بجنے لگ گیا.
شفا نے پهر کال کاٹ دی.
کس کا فون ھے.
شفا نے جب چوتھی دفع کال کاٹی تو آزر نے پوچھا.
کسی کا نھی .کوئ ان نون نمبر ھے.
شفا نے جواب دیا.
اچھا شفا میرے سر میں بھت درد ھو رھا ھے .ایک کپ چاۓ لادو.
جی.
یه کھ کر شفا چاۓ بنانے چلی گئ.
آزر کسی سوچ میں گم تھا جب دوباره شفا کا موبائل بجنے لگ گیا.
آزر نے کال اٹھا کر موبائل کان سے لگایا.
دیکھو شفا پلیز کال مت کاٹنا .مجھے پتا تم بھی مجھ سے مھبت کرتی ھو .تم اپنے اس شوھر سے
طلاق لے کر میرے پاس آجاؤ.میں تمھیں بھت خوش رکھوں گا.
آزر کے کچھ بولنے سے پهلے ھی آفتاب نے بولنا شروع کردیا.
آفتاب کی باتیں سن کر آزر کی برداشت جواب دے گئ .اسنے پوری قوت سے موبائل دیوار میں دے مارا.
اسی وقت شفا کمرے میں آئ اور آزر کو اتنے غصے میں دیکھ کر دو قدم پیچھے ھوئ.
آزر نے جب شفا کو دیکھا تو غصے میں اسکی طرف بڑھا.
تمھارے پھلے شوھر کا فون تھا .بھت مس کر رھا ھے وه تمھیں اور یقینن تم بھی اسے بھت مس کر رھی ھو گی.
آزر نے طنزیه کھا.
دماغ تو ٹھیک ھے آپکا .کیا فضول بولے جا رھے ھیں آپ.
شفا نے غصے سے کھا.
میرا تو دماغ بالکل ٹھیک ھے .لگتا ھے تمھارا خراب ھو گیا ھے.
اچھا ویسے ایک بات تو بتاؤ جب تم نے اپنی پسند سے شادی کرلی تھی پھر اسے چھوڑا کیوں.
آزر نے غصے سے شفا کا جبڑا پکڑ کر کھا.
جب آپنے اپنی پسند سے شادی کی تو میں نے کچھ کھا اور میں نے جس وجه سے بھی انھیں چھوڑا میں آپ کو جواب دینے کی پابند نھی ھوں.
شفا نے آزر کو پیچھے دھکا دیتے ھوۓ کھا.
تمھیں کیا لگتا ھے سب تمھارے جیسے دھوکے باز ھوتے ھیں.تم نے شادی کی تو تمھیں لگتا ھے کے میں نے بھی کرلی.واه.میں تمھاری طرح دھوکے باز نھی ھوں.
کیا خوب کھی آپنے.خود مجھے دھوکا دے کر آج مجھے دھوکے باز کھ رھے ھیں آپ.اتنی تو آپ میں ھمت نھی تھی کے میرے سامنے آکر مجھ سے شادی سے انکار کرتے.موبائل پر میسج کر کے بھاگ گۓ
شفا نے افسوس سے کھا.
اب تم مجھ پر جھوٹے الزام بھی لگاؤ گی.
خیر اگر تم واپس اپنے شوھر کے پاس واپس جانا چاھتی ھو تو جاؤ.تمھیں بھت جلد طلاق کے پیپرز مل جاۓ گے.
جس دل سے آزر نے کھا تھا یه صرف وھی جانتا تھا.
آزر کی بات سن کر شفا نے حیرت سے اسے دیکھا اور پهر ایک افسوس بھری نظر اس پر ڈالی اور اپنا بیگ اٹھا کر جانے لگی.اب وه اس گھر میں اس کے ساتھ مزید نھی ره.سکتی تھی.
جاتے وقت شفا نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور آزر سے کھا.
یاد رکھنا آزر ایک دن تم بھت پچھتاؤ گے لیکن وقت تمھارے ھاتھ سے نکل گیا ھو گا .
شفا کھ کر آزر کے گھر سے نکل گئ.
شفا کے جاتے آزر زمیں پر بیٹھ گیا.
اسے ایسا لگ رھا تھا جیسے اسنے اپنی کوئ قیمتی شے کھو دی ھے.
***********************
شفا غائب دماغی سے چلی جا رھی تھی.اسکے ذھن میں آزر کے الفاظ گونج رھے تھے.
اسکا رخ دعا کی گھر کی طرف تھا.
آنسوں اسکی آنکھوں سے بھ رھے تھے جسے وه بےدردی سے صاف کر رھی تھی.ابھی وه چل ھی رھی تھی کے ایک تاز رفتار گاڑی اسے ٹکڑ مار کر گزر گئ.شفا دور جا گری.روڈ پر شفا کا خون پھیل رھا تھا.لوگ اسکے اردگرد جمع ھونے لگ گۓ.
جس گاڑی نے شفا کو ٹکڑ ماری تھی وه تھوڑا دور جا کر رک گئ.
گاڑی کا شیشه نیچے ھوا اور اندر بیٹھا شخص اس دردناک منظر سے لطف اندوز ھو رھا تھا.
میں نے کھا تھا نا شفا کے تم نے مجھ پر ھاتھ اٹھا کر اچھا نھی کیا.اب دیکھو تمھیں اس کی سزا مل گئ.
دانش نے ایک قھقه لگایا اور گاڑی کو وھاں سے بھگا لے گیا.
***********************