آزر میں صرف مذاق کر رھی تھی.شفا نے آھسته آواز میں کھا.
ھاں لیکن پھر بھیی میرےساتھ ایسا مذاق مت کیا کرو.آزر نے بھی آرام سے کھا.
اچھا چلو شفا چهٹی بھی هو گئ ھے .دعا موقع کی نزاکت دیکھتے ھوۓبولی.
ھاں چلو شفا یھ کھ کر کھڑی ھو گئ.
شفا اپنا خیال رکهنا.آزر نے شفا کو دیکھتے ھوۓ نرمی سے کھا.
تم بھی. شفا بھی نرمی سے کھ کر آگے کی طرف بڑھ گئ.
***********************
ارے شفا یار وه میں اپنی بک تو لائبریری میں ھی بھول گئ ھوں دعا نے اپنے سر پر ھاتھ مارتے ھوۓ کھا .تم میرا یھی ویٹ کرو میں بس ابھی لے کر آئ.دعا که کر . لائبریری چلی گئ.
دعا جیسے ھی لائبریری سے بک لے کر نکلی سامنے سے آتے دانیال سے بری طرح ٹکڑا گئ.
سو سوری وه میں نے دیکھا نهیں.دانیال نے دعا سے معزرت کی.
کوئ بات نھیں دعا یه کھ کر آگے کی طرف بڑھ گئ.
دعا بات سنا.دانیال نے دعا سے کھا .
جی بولیۓ.دعا دانیال کی طرف متوجه ھوئ.
کچھ نھیں.دانیال نے کھا اور ایک نظر دعا پر ڈال کر آگے کی طرف بڑھ گیا.
ایسا نھیں تھا کے دعا کچھ سمجھتی نهیں تھی.اسکو دانیال کی آنکھوں میں اپنے لۓ محبت صاف صاف نظر آتی تھی.لیکن وه مجبور تھی.
دعا نے ایک نظر اپنی انگلی میں پھنی ھوئ انگهوٹی پر ڈالی اور ٹهنڈی آه بھر کر شفا کی جانب چل پڑی.
****************************
اسلام امی.شفا نے گھر میں آکر سامنے بیٹھی آمنه بیگم کو سلام کیا.
وعلیکم اسلام آگئ میری بچی .چلو جلدی سے فریش ھو جاؤ پهر میں کھانا لگاتی هوں.آمنه بیگم نے پیار سے کھا .اچھا آج کھانے میں کیا هے.شفا نے پوچھا.
تمھاری پسندیده بریانی اور قورمه.
اوۓ هوۓ کیا بات هے.اتنا اھتمام کس خوشی میں کیا گیا ھے .شفا نے چهک کے پوچھا.
ارے میں تو تمھیں بتانا ھی بھل گئ کے آج نور آرهی ھے.
آمنھه بیگم نے کھا.
کیا آپی آرهی ھیں اور آپ نے مجھے بتایا بھی نھیں .شفا نے ناراضگی سے کھا.
اچھا بھئ بھول گئ تھی میں اب تو بتا دیا نا.آمنه بیگم نے مسکرا کر کھا.
جا تجھے معاف کیا
ھر بات بھولنے والی...
شفا شرارت سے کھ کر اپنے کمرے میں چلی گئ.
آمنه بیگم نے دل ھی دل میں اس کی بلاۓ لی. شفا اور نور ھیں تو تھیں ان کی کل کائنات.نور خیر سے اپنے گھر میں بهت خوش تھی.اب انهیں ھر وقت شفا کی شادی کی فکر ستاۓ رکھتی تھی.***
***************************
دعا جیسے ھی گھر میں داخل ھوئ سامنے بیٹھے وجود کو دیکھ کر اداس دل سے مسکرا کر اس کی جانب چل پڑی .اسلام پھپی جان.
ارے آگئ میری بچی میں تو جب سے کلثوم سے یھی پوچھ رهی تهی کے کب آۓ گی میری گڑیا.فرح بیگم نے دعا کو گلے سے لگاتے ھوۓ کھا.
پڑھائ کیسی جا رهی هے تمھاری.فرح بیگم نے محبت سے پوچها.
بھت اچھی بس تهوڑے ٹائم باد پیپرز ھونے والے ھیں.
بھئ میں تو زوھیب کے پیچھے پڑی ھوئ ھوں کے جلدی سے واپس آ جاۓ تاکه میں یه چاند اپنے گھر لے آؤں.
زوهیب کے زکر پر ایک اداس مسکڑاھٹ دعا کے لبوں کو چھو کر گزر گئ.
اچھا پھپی جان میں ذرا فریش ھو کر آجاؤ.دعا کا دل ایک دم سے بوجھل ھو گیا تھا.
ھاں ھاں کیوں نھیں پھر میں اپنی گڑیا سے بھت ساری باتیں کرو گی.فرح بیگم نے دعا کے سر پر شفقت سے رکھ کر کھا.
****************************
اوۓ مجنوں کها گم ھو.آزر نے دانیال کو مخاطب کیا جو کسی سوچ میں گم تھا.وه دونوں اس وقت پارک میں موجود تهے.کهی بھی نهیں.دانیال.نے آزر سے کھا.
دانیال تم مجھ سے جتنا مرضی چھپالو لیکن مجھے پتا ھے کے تم اس وقت دعا کے بارے میں سوچ رھے ھو.آزر نے افسوس سے کھا.
آزر مجھے نهیں پتا کب دعا مجهے اچھی لگنے لگی اور پتا نهیں کب مجھے اس سے محبت ھو گئ.یار مجھے لگتا ھے اگر وه مجھے نا ملی تو میں مر جاؤ گا.دانیال نے بے بسی دے کھا.
وعده کیا تھا خود سے کے کبھی عشق نا کریں گے
لیکن تیری ایک جھلک نے ھمیں دیوانا بنا دیا.......
آزر کو اس کے لۓ افسوس ھوا.لیکن وه اس کے لۓ دعا کے علاوه کچھ نهیں کر سکتا تھا.اس نے سچے دل سے ان دونوں کےملنے کی دعا کی.
*************************************
دعا آپی یه چاۓ ذرا ابو دے آئیں لاریب نے کچن سے آواز دی.
ھاں لاؤ میں دے آتی هوں.دعا یه کھ کر جمال صاحب کے کمرے کی طرف چل پڑی.
جیسے ھی وه دروازے پر پھنچی لیکن اپنے نام پر وھی رک گئ.
دعا جیسے ھی دروازے پر پهنچی لیکن اپنے نام پر وھی رک گئ.اب بس بھت ھو گیا ارفان صاحب.زوھیب تو دبئ جا کر بھول ھی گیا ھے کے اسکے پیچھے کوئ اس کے نام پر بیٹھی ھوئ ھے.اب تو لاریب کے سسرال والے بھی شادی پر زور دے رھیں ھیں لیکن بڑی کے ھوتے ھوۓ چھوٹی کو کیسے بیھا دوں.آج بھی فرح سے بات کی تھی لیکن وھی ھر دفع والے بھانے کے کام کی وجه سے وه ابھی نھی آسکتا.اسی لیئے میں بچپن کی منگنی کے خلاف تھی.لیکن آپ کی والده نے میری ایک نا سنی تھی.اور اب دیکھ لیں میری پهول جیسی بچی کا حال.کلثوم بیگم نا جانے اور بھی کیا کھ رهیں تھیں لیکن دعا کی ھمت جواب دےگئ تھی.وه بھاگ کر اپنے کمرے میں آگئ .آنسوں لڑیوں کی صورت میں اس کی آ نکھوں سے بھنے لگے.اس نے سوچ لیا تھا کے اپنی وجه سے وه لاریب کے لیۓ مشکل پیدا نھیں کرے گی.
شفا دیکھو دروازے پر کون آیا ھے.آمنه بیگم نے کچن سے آواز دی.شفا نے جیسے ھی دروازه کھولا سامنے نور کو دیکھ کر خوشی سے چھک اٹھی.کیسی ھیں آپی اور آصف بھائ کھا ھیں.شفا نے نور کو گلے لگاتے ھوۓ کھا.میں بالکل ٹھیک اور آصف آفس چلے گۓ ھیں.اچھا ساری باتیں دروازے پر ھی کرنی ھے.نور نے کھا.اوه سوری چلیں اندر.شفا نے کھا.امی نور آپی آئ ھیں.شفا نے آمنه بیگم سے کھا.ماں صدقے میری بچی آئ ھے.آمنه بیگم نے نور کو گلے لگاتے ھوۓ کھا.
یار میں سوچ رھی ھوں کے کهیں گهومنے چلتے ھیں.شفا نے دعا سے کھا.ھاں یار پھر پیپرز بھی شروع ھو جائیں گے.دعا نے بولا.کیا ھو رھا ھے.آزر نے بیچ میں تانگ اڑائ.ایک تو تم جن کی طرح نازل ھو جاتے ھو.اور ھم تمھاری برائ کر رهے تھے.شفا نے کھا.یا الله یه سنے سے پھلے میں بھرا بلکے نھیں یه گونگی کیو نھیں ھو گئ.آزر نے ڈرامائ انداز سے کھا.دانیال بھی ان کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا.دانیال کو دیکھ کر دعا پھلوبدل کر ره گئ.اچھا ویسے سچ سچ بتاؤ کیا کھچڑی پک رھی تھی.آزر نے ٹوه لینے والی عورتوں کی طرح کھا.ھم لوگ گهومنے کا پروگرام بنارهیں تهیں.دعا نے جواب دیا.چلو پھر ٹھیک ھے کل ھم سب سی ویو چلیں گے.دانیال نے کھا.ھاں یه ٹھیک ھے.سب مل کے بولے.
شفا جب گھر پهنچی تو اندر سے آتی نور کی آواز پر اس کے قدم وھیں تھم گۓ.
*******