شفا کیا ھوا ھے.بتاؤ مجھے.
آزر نے اسکے سامنے بھیٹتے ھوۓ پوچھا.
شفا ھنوز اسکی پوزیشن میں بیٹھی ھوئ تھی.آنسوں آنکھوں سے جاری تھے.
شفا میں میں کچھ پوچھ رھا ھوں جواب دو.
شفا کو اسی طرح چپ دیکھ کر آزر نے اس کے دونوں بازو پکڑ کر ھلاتے ھوۓ غصے سے کها.
ام امی........
کیا هوا ھے آنٹی کو.
آزر نے نرمی سے پوچھا.
آ آزر امی کو ھا ھارٹ اٹیک آیا ھے.
شفا یه کھ کے پهوٹ پھوٹ کر رو دی.
کچھ نھیں ھوگا آنٹی کو تم حوصله رکھو اور سنبھالو خود کود کو.
آزر نے اسے سھاره دے کر کھڑے کرتے ھوۓ کھا اور وه لوگ ھسپتال چلے گۓ .
****************************
فضیله آنٹی کیا ھوا ھے امی کو.
شفا نے سامنے کھڑی اپنی پڑوسن سے بے چینی سے پوچھا جنھوں نے اسے فون کر کے بلایا تھا.
پتا نھیں بیٹا میں جب آمنه سے ملنے آئ تو وه اپنے کمرے میں زمیں پر گری ھوئ تھیں.
میں نے اسے بھت اٹھانے کی کوشش کی لیکن وه حوش میں نا آئ پهر میں اسے یھاں ھاسپٹل لے آئ تو ڈاکٹر نے بتایا کے اسے ھارٹ اٹیک آیا ھے.
فضیله نے شفا کو تفصیل سے بتایا.
انکی بات سن کر شفا سر تھام کر بیٹھ گئ.
آزر ڈاکٹر سے بات کرنے کے لیۓ گیا ھوا تھا.
****************************
ڈاکٹر کیسی حالت ھے آنٹی کی.
آزر نے ڈاکٹر سے پوچھا.
دیکھے هم اپنی پوری
کوشش کر رھے ھیں لیکن ان کی کنڈیشن بھت سیریس ھے آپ انکے لیۓ دعا کریں.
پیشه ورانه انداذ میں کھ کر وه چلا گیا.
کیسی ھیں امی.
شفا نے سامنے سے آتے آزر سے فورا پوچھا.
ڈاکٹرز اپنی پوری کوشش کر رھے ھیں. تم بس دعا کرو.کچھ نھیں ھوگا آنٹی کو.
آزر نے تسلی دی.
انشاءالله.
شفا ھه کھ کر وضو کرنے چلی گئ.
****************************
یا الله پاک پلیز میری ماں کو بچا لیں.آپ کے بعد وھی میرا سھاره ھے.اگر ان کو کچھ ھو گیا تو میں مر جاؤ گی.
یا الله میری ماں کو صحت دے دیں .بے شک آپ دعا سنتے اور قبول کرتے ھیں.
شفا دعا مانگ کر اٹھی اور آپریشن روم کے سامنے بیٹھ گئ.
شفا یه لو کچھ کھالو.صبح سے تم نے کچھ نھیں کھایا.
آزر نے سینڈویچ شفا کو پکڑاتے ھوۓ کھا.
نھیں میرا دل نھیں چاه رھا.
شفا اگر تم اپنا خیال نھیں رکھو گی تو آنٹی کو کون سنبھالے گا.
آزر امی ٹھیک تو ھو جائیں گی نا.
شفا نے پر یقین لھجے میں پوچھا.
آزر کو شفا اس وقت کوئ چھوٹی بچی لگی.
ھاں شفا آنٹی بالکل ٹھیک ھو جائیں گی.تم فکر مت کرو اور تم نے نور آپی کو فون کیا.
ھاں میں نے ان کو بتادیا لیکن وه کھ رھی تھیں کے کوئ فلائٹ نھیں مل رھی ابھی لیکن وه لوگ جلدی آنے کی کوشش کر رھے ھیں.
آپ لوگ پیشنٹ کے کیا لگتے ھیں .
ڈاکٹر نے باھر آکر پوچھا.
میں انکی بیٹی ھوں.
شفا نے کھڑے ھوتے ھوۓ کھا.
آپ ان سے آکر مل لیں ان کے پاس وقت بھت کم ھے.
ڈاکٹر کی بات سن کر شفا گرنے ھی والی تھی جب آزر نے اسے سنبھالا.
یه کیا کھ رھے ھیں آپ.
شفا نے بڑی مشکل سے کھا .
دیکھیں یه سب الله کے کام ھیں اس میں همارا کوئ عمل دخل نھیں .آپ حوصله کریں.
یه کھ کر ڈاکٹر چلا گیا.
***********************
شفا بھت حمت کرکے اپنے آنسوں پر قابو رکھ کرآمنه بیگم کے سامنے آئ.
وه بیڈ پر آنکھیں بند کر کے لیٹی ھوئ تھیں.
اامی....
شفا نے آمنه بیگم کاھاتھ پکڑ کر پکاره.
آمنه بیگم نے بھت مشکل سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا.
ششف شفا.
انھوں نے بھت مشکل سے پکاره.
جی امی میں یھی ھوں آپ کے پاس.
شفا گڑیا م میررے بععد تم تمھارا کیا ھوگا.
مجھے ت تو اتنی محلت بھ بھی نا ملی کے م میں تمھیں اپنے گھر کا کر ددیتی.
آمنه بیگم کو بولنے میں تکلیف ھو رھی تھی.
امی کچھ نھیں ھوگا آپ کو.دیکھنا ابھی تھوڑی دیر تک آپ بالکل ٹھیک ھو جائیں گی.
شفا نے بھرائ ھوئ آواز میں کھا.
اس سے آنسوں روکنا بھے مشکل ھو رھا تھا.
بیٹا مجھے پتا ھے م میرا بچ بچنا نا ممکن ھے.تو کھاں جائیں گی.اک اکیلے گھر میں کیسے رھے گی..مج مجھے تیری فکر کھاۓ جا رھی ھے.نور کی س ساس تجھے وھاں رھنے بھی نھیں دے گی.
آمنه بیگم نے روتے ھوۓ کھا.
امی بس کردیں کیوں ایسی باتیں کر رھی ھیں کچھ نھیں ھوگا آپ کو.
آنٹی ڈاکٹر نے آپ کو ذیاده بولنے سے منا کیا ھے.
آزر نے روم کے اندر آ کر کها.
آزر بیٹا ادھر آؤ.
آمنه بیگم نے جب آزر کو دیکھا تو اس اپنے پاس بلایا.
جی آنٹی بولیۓ میں سن رھا ھوں.
بیٹا م میری شفا کو اپنا لو میرے سوا اس کا کوئ نھیں ھے.بیٹا مجھے تمھارے بارے میں کچھ نھیں پتا لیکن تم مجھے پھلی ملاقات میں ب بھت اچھے لگے تھے.بیٹا میری بچی سے نکاح کرلو تا تاکے میں بھی سکون سے مر سکو.
آمنه بیگم نے ھاتھ جوڑتے ھوۓ کھا.
امی یه کیا که رھی ھیں آپ.میں ایسا کچھ نھیں کرو گی اور کچھ نھیں ھو رھا آپ کو.آپ میرے پاس ھیں مجھے کسی اور کی ضرورت نھیں.
شفا نے ان کے ھاتھ نیچے کرتے ھوۓ کھا.
تم چپ کرو شفا.بیٹا تم بتاؤ اپناؤ گے میری بیٹی کو.
آمنه بیگم نے بھت آس سے آزر سے پوچھا.
آنٹی میں تیار ھوں.مجھے کوئ اعتراض نھیں.
آزر سے آمنه بیگم کی بے بسے دیکھی نا گئ وه ایک مرتے ھوۓ انسان کی آخری امید توڑنا نھیں چاھتا تھا.
خوش رھو بیٹا .مجھے یقین ھے تمھیں اس سے کبھی کوئ شکایت نھیں ھوگی.
امی میں یه نکاح نھیں کرو گی اور اس شخص سے تو بالکل نھیں.
شفا نے کھا.
شفا تم اسے اپنی ماں کی آخری خواھش سمجھو یا پھر میرا حکم لیکن تمھیں یه نکاح ابھی آزر سے کرنا ھوگا تاکے میں بھی سکون سے مر سکو.
آمنه بیگم کھا.
شفا آمنه بیگم کی بات سن کر بے بس ھوگئ تھی.اس نے اپنی ماں کی آج تک کوئ بات رد نھی کی تھی تو پھر وه آج کیسے رد کر سکتی تھی جب وه ذندگی اور موت کے درمیان تھیں.
ٹھیک ھے امی مجھے آپ کا فیصله قبول ھے.
شفا نے جس دل سے کها تھا یه صرف وھی جانتی تھی.
***********************
آزر نے نکاح خواه اور اپنے .چند دوستوں کو بلایا
ھسپتال کے اندر ھی ان دونوں کا نکاح ھوا.
شفا نے لرزتے ھاتھوں سے نکاح نامے پر سائن کیا.
بیٹا آزر کو کبھی شکایت کا موقع مت دینا .
آزر بیٹا میری بچی کا. خیال رکھنا بھت دکھ دیکھیں ھے اسنے.
الله تم دونوں کو ھم ھمیشه خوخوش ررکھے.
آمنه بیگم نے دونوں کے سر پر ھاتھ رکھا اور ایک دم ان کے ھاتھ نیچے گر گۓ.
شفا نے ایک دم سر اٹھا کر انھیں دیکھا جن کی آنکھیں بند ھو گئ تھیں کبھی نا کھلنے کے لیۓ.
اام امی....
شفا نے ھلکی آواز میں پکڑا .
لیکن اب وه اسے جواب دینے کے لیۓ اس دنیا میں موجود نا تھیں.
امییییی......
شفا نے چیختے ھوۓ انھیں ھلایا.
شفا سنبھالو خود کو.
آزر نے شفا کو پکڑا.
آزر امی اٹھ کیو نھیں رھی ھیں انھیں بولو نا مجھے جواب دیں .
شفا نے آزر کا کالر پکڑ کر کھا.
شفا سنبھالو خود کو آنٹی ھمیں چھوڑ کر چلی گئ ھیں.
آزر کا اتنا کھنا تھا اور شفا آزر کے ھاتھوں میں جھول گئ.
***********************