آآزر-----
شفا کے لب ھلے.
مس شفا کیا آپ نے وھیں کھڑے رھنا ھے یا اندر آنے کی زحمت کریں گی.
آزر کی سرد آواز اسکے کانوں میں پڑی.
ج جی.
شفا نظریں نیچے رکھتے ھوۓ اسکے سامنے کھڑی ھو گئ.
شفا کا دل چاه رھا تھا کے وه یهاں سے بھاگ جاۓ آزر کی نگاهوں سے کهیں اوجھل ھو جاۓ.شفا کے اندر بھت سے سوال اٹھ رھے تھے اس کا دل چاه رھا تھا کے وه اس کا گریبان پکڑ کے پوچھے آخر میں نے ایسی کیا غلطی کر دی تھی جو مجھے یو بیچ راه میں چھوڑ کر چلے گۓ تھے لیکن وه بس چپ کھڑی لب کاٹتی رھی.
کافی دیر کمرے میں خاموشی رھی.اسے اپنے اوپر آزر کی نظریں محسوس ھو رھی تھیں لیکن اس میں ھمت نھیں ھوئ کے وه نظر اٹھا کر دیکھ لے.
جائیں مس شفا ھمارے نیکسٹ پروجیکٹ کی فائل لے کر آئیں.
اسی سرد آواز میں کھا گیا.
ج جی سر .
یه کھ کر شفا فورا کمرے سے باھر بھاگی .
باھر آکر شفا لمبے لمبے سانس لے رھی تھی.اس نے کبھی خواب میں بھی سوچا نھیں تھا کے اسکا سامنا آزر سے یو اس طرح ھوگا.
میں یھاں ک کیسے کام کر سکتی ھوں.ن نھیں میں نھیں کر سکتی یھاں کام.میں یه جوب چھوڑ دوں گی.
کتنا بیگانا رویه تھا کتنا سرد لهجه تھا اپنی غلطی ھونے کے باوجود یو بی ھیو کر رھا تھا جیسے ساره قصور میرا تھا.
تمھیں ایک بار اس سے پوچھنا چاھیۓ کے آخر اس نے ایسا کیوں کیا.دل کے کسی کونے سے آواز آئ.
نھیں میں کوئ سوال نھیں پوچھوں گی کیا کھو گی اس سے کیوں مجھ کو چھوڑا کیوں مجھ سے شادی نھیں کی جب کے اس نے مجھے کھ دیا تھا کے وه مجھ سے محبت نھیں کرتا.نھیں پوچھوں گی میں اس سے کوئ سوال. اب میں اپنی ذات کا مذید تماشه نھیں بنواؤ گی.
آنسوں صاف کر کے وه فائل لینے چلی گئ.
****************************
سر آپکی فائل.
میز پر فائل رکھتے ھوۓ کھا.
نظریں ھنوز جھکی ھوئ تھیں.
سر مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی.
ھمت جمع کر کے پوچھا.
فرمایۓ.
سر میں یه جاب چھوڑنا چاھتی ھو میں ریزائن دیتی ھوں.
یه لی جیۓ مس شفا.
آزر نے ایک پیپر شفا کو دیتے ھوۓ کها.
یه کیا ھے.
یه وه پیپر ھے جس پر آپنے جاب شروع کرنے سے پهلے سائن کیۓ تھے اور اس پیپر کے مطابق ایک سال سے پهلے آپ جاب نھیں چھوڑ. سکتی اور جاب چھوڑنے کی صورت میں آپ کو فائن دینا ھوگا.
ک کتنا فائن ھو.شفا نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا.
Only 5 lac.
آزر کی بات سن کر شفا کو لگا کے کسی نے آسمان اس کے سر پر گرا دیا ھے.
اب آپ جا سکتی ھیں مس شفا اور اگر آپ کو جاب چھوڑنی ھے تو پھلے فائن پے کر دیجیئے گا.
اطمینان سے کها گیا.
جی.
اتنا که کر شفا باھر آگئ.
***********************
پانچ لاکھ
کھاں سے لاؤ گی میں لیکن میں آزر کی کمپنی میں جاب بھی نھیں کر سکتی میں اس شخص کی شکل بھی نھیں دیکھنا چاھتی لیکن اتنے پیسوں کا انتظام میں کھاں سے کروں گی. یا الله میری مدد فرما .
شفا جب سے آفس سے آئ تھی سوچوں میں گم تھی.
کیا سوچ رھی ھے میری بچی اور کیسا رھا آفس کا پھلا دن.
آمنه بیگم نے شفا کو مخطب کیا جو سوچو میں گم تھی.
جی امی ٹھیک تھا.
شفا نے بجھے دل سے کها.
اچھا کھانا لاؤ تمھارے لیۓ.
نھیں امی میں کچھ دیر ریسٹ کروں گی.
چلو جیسے تمھاری مرضی.
***********************
بیٹا کیا بات ھے.آج دوسرا دن ھو گیا ھے تم آفس نھیں گئ. طبعیت تو ٹھیک ھے نا تمھاری.
آمنه بیگم نے شفا سے پوچھا جو دو دن سے آفس نھی گئ تھی.
جی وه بس طبعیت کچھ ٹھیک نھیں سر میں درد ھے.
شفا کو سمجھ نھیں آیا کے وه کیا بھانا کرے.
اتنے میں ردوازه بجنے لگ گیا.
کون تھا امی .
آمنه بیگم جب اندر آئ تو شفا نے پوچھا.
پتا نھیں بیٹا کوئ آدمی تھا یه لفافه دے کر گیا ھے.
آمنه بیگم نے لفافه شفا کی جانب بڑھاتے ھوۓ کھا.
شفا نے جب دیکھا تو وه آفس کی جانب سے بھیجا گیا نوٹس تھا جس میں اسے واپس وافس آنے یا پھر فائن جمع کرنے کا کھا گیا تھا.
جسے پڑھ کر شفا کا ھلک خشک ھو گیا تھا.
کیا لکھا ھے اس میں.
کچھ نھیں امی وه بس آفس آنے کا نوٹس ھے .
شفا نے سنبھلتے ھوۓ کھا.
پھر کب سے جانے کا اراده ھے.
آمنه بیگم نے پوچھا.
امی کل سے جاؤ گی.
شفا نے بےدلی سے جواب دیا.
***********************
مس شفا یه میرا آفس ھے آپکا گھر نھیں کے جب دل کیا آپ آئیں اور جب دل کیا نھیں آئیں.
شفا نے جیسے ھی آفس میں قدم رکھا آزر کی گرج دار آواز اسکے کانوں میں پڑی.
سوری سر .میری طبعیت ٹھیک نھیں تھی.
شفا نے غصه ضبط کرتے ھوۓ دھیمے لھجے میں کها.
اگر اب آپ نے دوباره بغیر بتاۓ چھٹی کی تو میں بھت برے طریقے سے پیش آؤ گا .ناؤ یو کین گو.
آزر نے غصے سے کها.
شفا اپنی آنکھ میں آئ ھوئ نمی کو چھپاتے ھوۓ روم سے چلی گئ.وه اس کے سامنے کمزور نھیں پڑنا چاھتی تھی.
اس کے جاتے ھی آزر سر پکڑ کر بیٹھ گیا.
اس نے آج تک شفا سے اس طرح سے بات نھیں کی تھی اور آج شفا سے اس لھجے میں بات کر کے اس کو بھت دکھ ھو رھا تھا.
کاش شفا تم نے میرے ساتھ ایسا نا کیا ھوتا.میرا بھروسه میرا یقین توڑنے کی سزا تمھیں ضرور ملے گی.
سرخ ھوتی آنکھوں سےآزر کھا.
****************************
سر آپ نے بلایا.
جی مس رانیه.مس شفا کھاں ھیں.
سر وه تو آج آفس ھی نھیں آئ.
ان کی مدر کی کال آئ تھی وه کھ رھیں تھی کے مس شفا کو بھت تیز بخار ھے جس کی وجه سے وه آج آفس نھیں آئیں گی.
رانیه نے آزر کو بتایا.
چلے ٹھیک ھے آپ جا کر اپنا کام کریں.
اوکے سر.
شفا کو بخار ھے پتا نھیں کیسی طبعیت ھو گی اس کی.
مجھے کیا لگے جیسی بھی ھو.
آزر نے اپنی سوچ کو جھٹکا.
******************************
شفا بیٹا تھوڑا سا کھا لو دیکھو ابھی دوائ بھی لینی ھے.
نھیں امی میرا بالکل دل نھیں چاه رھا.
بیٹا کیو مجھے پریشان کر رھی ھو دیکھو بخار بھی کتنا تیز ھو رھا ھےمیں نے گاڑی منگوائ ھے وه آتی ھے تو هم ھاسپٹل جاتے ھیں.
نھیں امی میں ٹھیک ھوں بس تھوڑا سا بخار ھے کل تک ٹھیک بھی ھو جاۓ گا.
چپ کرو تم جب سے مجھے پریشان کر رھی ھو نور بھی دبئ اپنی نند کی بیٹی کی شادی میں گئ ھوئ ھے ورنه اسے ھی بلا لیتی وھی تمھیں ٹھیک کرتی میری تو سن ھی نھیں رھی ھو.
آمنه بیگم نے کها.
اچھا امی نھی تنگ کرتی میں آپ کو لاۓ دیجیۓ کھانا.شفا نے مشکل سے بیٹھتے ھوۓ کھا.
بخار اور کمزوری کی وجه سے اسے چکر آرھے تھے.
آمنه بیگم نے سھارا دے کر اسے بٹھایا اور کھانا کھلانے لگی.
****************************
اندر جاؤ یا نھی.
آزر نے شفا کے گھر کے باھر گاڑی روکتے ھوۓ سوچا.دل کے ھاتھوں مجبور ھو کر وه یھاں آ تو گیا تھا لیکن اس میں اندر جانے کی ھمت نھیں ھو رھی تھی
نھیں مجھے نھیں جانا اسے دیکھنے.میں اس سے نفرت کرتا ھوں دھوکے باز ھے وه کتنی محبت کی تھی میں نے اس سے لیکن اس نے مجھے دھوکے کے علاوه دیا ھی کیا ھے.
کتنا کھا تھا میں نے کتنی بار بولا تھا میں نے کے چاھے کچھ بھی ھو جاۓ مجھے کبھی نھیں چھوڑنا. میرا انتظار کرنا لیکن اس نے کیا کیا.
آزر نے دل میں سوچا اور جانے کے لیۓ گاڑی اسٹارت کی.
تم تو اس سے محبت کے دعوے کرتے تھے.اس کی چھوٹی سی تکلیف پر تم تڑپ اٹھتے تھے.
تو آج کیا ھوا کھاں گئ وه محبت.آج وه بیمار ھے تو تم اسے ایک نظر دیکھنے کے بھی روادار نھیں.تم نے اس سے کچھ پوچھے بنا ھی قصور بنا دیا اسے.
دل کے کسی کونے سے آواز آئ.
دل کے ھاتھوں مجبور ھو کر آزر نے دروازے پر دستک دی.
****************************
امی بس کریں کھا لیا میں نے.
شفا نے آمنه بیگم کا ھاتھ پکڑتے ھوۓ کها.
اچھا ٹهیک ھے.اب تم لیٹ جاؤ.
آمنه بیگم نے برتن سمیٹتے ھوۓ کها.
اتنے میں دروازه بجنے لگ گیا.
لگتا ھے گاڑی آگئ ھے میں دیکھ کر آتی ھوں آمنه بیگم برتن چھوڑ کر دروازے کی جانب چل پڑی.
بیٹا آپ کون.
آمنه بیگم نے اپنے سامنے کھڑے آزر سے پوچھا.
آنٹی میں شفا کا باس ھوں. مجھے پتا چلا کے
ان کی طبعیت خراب ھے تو اسی لیۓ دیکھنے آگیا.
اچھا آپ شفا کے باس ھیں. اندر آئیں آپ .
آمنه بیگم نے دروازے سے ھٹتے ھوۓ کھا.
امی کون آیا ھے.
شفا تمھارے باس آۓ ھیں.
آمنه بیگم کی بات سن کر شفا کو کافی حیرت ھوئ پهر جلدی سے اٹھ بیٹھی.
کیسی ھیں آپ مس شفا.
آزر نے شفا کے سامنے بیٹھتے ھوۓ پوچھا.
کیا دیکھ نے آۓ ھو ذنده ھو یا مرگئ.
شفا نے دل میں سوچا.
جی ٹھیک ھو.
شفا نے بے رخی سے جواب دیا.
اسے سمجھ نھیں آرھا تھا کے وه آخر یھاں آیا ھی کیوں ھے.
شفا بیٹا گاڑی آ گئ ھے چلو شاباش اٹھو.
آمنه بیگم نے شفا کو کها.
سوری بیٹا آپ ابھی آۓ تھے لیکن گاڑی آگئ ھے شفا کو ڈاکٹرکے پاس لے کر جانا ھے..
آمنه بیگم نے معزرت کی.
کوئ بات نھیں آنٹی.میں بس ان خیریت پوچھنے آیا تھا وه پوچھ لی اب میں چلتا ھوں.
شفا ابھی کھڑی ھی ھوئ تھی جب چکر آنےسے وه گرنے ھی والی تھی کے آزر نے اسے سنبھالا.
شفا نے اس کا ھاتھ جھٹکا. اور آمنه بیگم کا سھارا لے کر گاڑی تک گئ.
مس شفا جب آپ ٹھیک ھو جائیں تو آفس آجایۓ گا.
شفا گاڑی میں بیٹھنے والی تھی جب آزر نے کھا.
جی سر.
شفا کھ کر گاڑی میں بیٹھ گئ.
***********************
بیٹا دعا کب تک آۓ گی.
امی پتا نھیں ابھی تو وه اور دانیال بھائ لندن گۓ ھیں ایک دو ھفتے تو لگ ھی جائیں گے.
شفا نے جواب دیا.
بیٹا تمھارا باس تو بھت ھی اچھا ھے.بھت اچھا لگا تھا مجھے وه لڑکا کتنا تمیزدار تھا .
آمنه بیگم نے آزر کی تعریف کرتے ھوۓ کھا.
شفا آمنه بیگم کی بات پر جل کر ره گئ.
اچھا امی نور آپی کب تک آئیں گی.
شفا نے بات بدلتے ھوۓ کھا.
پتا نھیں بیٹا بات ھوئ تھی اس سے کھ رھی تھی کے ٹائم لگ جاۓ گا آنے میں.
آمنه بهگم نے بتایا.
اچھا بیٹا آفس کب سے جانے کا اراده ھے.اب تو ماشاءالله سے تمھاری طبعیت بھی بالکل ٹھیک ھوگئ ھے.
جی امی کل سے جاؤ گی.
شفا نے جواب دیا.
***********************
کیا بات ھے امی آپ اتنی خاموش کیوں ھیں.
شفا جب سے آفس سے گھر آئ تھی آمنه بیگم کو اتنا خاموش دیکھ کو پوچھا.
کچھ نھیں بیٹا میں بس یه سوچ رھی تھی کے لوگ دوسروں کو برباد کر کے خود کیسے آباد ھو جاتے ھیں.
کیا ھوا ھے امی .
رضیه بتا رھی تھی کے آفتاب نے دوسری شادی کر لی ھے.
آمنه بیگم نے بتایا.
اچھا.شفا صرف اتنا ھی کھ سکی.
بیٹا میں سوچ رھی ھوں تمھارے لیۓ بھی کوئ رشته دیکھ لو .زندگی کا کیا بھروسه آج میں زنده ھوں کل نھیں. مجھے یه پریشانی کھاۓ جا رھی ھے میرے بعد تمھارا کیا ھوگا. نور بھی اپنے گھر کی ھے اور اس کی ساس کا تو پتا ھی ھے تمھیں.اپنی زندگی میں ھی تمھیں تمھارے گھر کا کرنا چاھتی ھو.
امی کیسی باتیں کر رھی ھیں آپ. کچھ نھیں ھو رھا آپ کو اور جھاں تک رھی شادی کی بات تو میں دوباره شادی نھیں کروں گی ایک تجربا کافی ھے.
بیٹا ضروری تو نھیں کے جو پهلے ھوا وه اس دفع بھی ھو.
آمنه بیگم نے اسے سمجھانا چاھا.
امی میں اس ٹاپک پر بات نھیں کرنا چاھتی میں سونے جا رھی ھوں کل آفس بھی جانا ھے .
شفا آمنه بیگم کے گلے لگ کر کھتی ھوئ کمرے میں چلی گئ.
***********************
سر یه فائل میں نے چیک کر لی ھے سارے پوائنٹس کلیر ھیں اس میں.
شفا نے فائل آزر کو پکڑاتے ھوۓ کها.
اوکے مس شفا یه فائل بھی آپ چیک کر لیں.
آزر نے دوسری فائل شفا کو پکڑائ.
موبائل بجینے پر شفا نے جب کال اٹھائ تو اگلے بندے کی بات سن کر موبائل شفا کے ھاتھ سے چھوٹ کر گر گیا.اور وه زمین پر بیٹھتی چلی گئ.
کیا ھوا ھے شفا.
آزر پریشانی میں اس کی طرف بڑھا.
***********************