آفتاب نے یه تین الفاظ شفا کے منه پر مارے.
شفا حیران نظروں سے اسے دیکھ رھی تھی.
اب دفا ھو جاؤ میرے گھر سے.
آفتاب شفا کو دھکا دے کر کمرے سے چلا گیا.
یه تین الفاظ سننے کے باوجود کچھ بھی تو شفا کو محسوس نھیں ھوا.
وه ھر احساس سے آری بے یقینی کی کیفیت میں زمین پر بیٹھی ھوئ تھی.
وه صرف یهی سوچ رهی تھی آخر کهاں اس سے غلطی ھو گئ.
بھت مشکل سے اپنے آپ کو کھڑا کر کے وه اپنا سامان پیک کرنے لگ گئ.
***************************
شفا تھکے قدموں سے اپنے گھر میں داخل ھوئ.
ارے میری بچی آئ ھے.
آمنه بیگم نے شفا کو گھر کے اندر آتے دیکھا تو فورا اس کے پاس آئ.
بیٹا آفتاب نھیں آیا اور یه اتنا ساره سامان.
آمنه بیگم نے شفا کے ھاتھوں میں اٹیچیاں دیکھیں تو ھیرانی سے پوچھا.
شفا نے کھالی نظروں سے انھیں دیکھا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئ.
شفا میں تم سے کیا پوچھ رھی ھوں آفتاب کهاں ھے اور تم اکیلی اتنے سارے سامان کے ساتھ آئ ھو.
آمنه بیگم کو کئ خدشوں نے آگھیرا.
امی-------
شفا ان کے گلے لگ کر رونے لگ گئ.
کیا ھوا ھے بیٹا اب تم مجھے پریشان کر رھی ھو سیدھا سیدھا بتاؤ کیا ھوا ھے.
آمنه بیگم نے دھکتے دل کے ساتھ پوچھا.
امی مجھ مجھے طل طلاق ھو گئ ھے.
شفا نے روتے ھوۓ بتایا.
کیا بکواس کر رھی ھو شفا دماغ تو ٹھیک ھے تمھارا.
آمنه بیگم نے بے یقینی سی کیفیت میں کها.
امی آپکی شفا بھت بد نصیب ھے کوئ خوشی مجھے راس نھیں آتی.
شفا نے آمنه بیگم کی گود میں سر رکھتے ھوۓ کھوۓ ھوۓ لهجے میں بولا.
نھیں بیٹا بد نصیب تم نھیں بلکه وه ھے جس نے ھیرے کو نھیں پھچانا. دیکھنا بھت پچھتاۓ گا وه ایک دن.
آمنه بیگم نے اپنے آنسوں صاف کرتے ھوۓ کھا.
اچھا تم آرام کرو میں تمھارے لیۓ کچھ کھانے کو لاتی ھوں.
نھیں امی میں کچھ دیر آرام کرنا چاھتی ھوں.آپ کمرے کی لائٹ آف کر دیں.
ٹھیک ھے بیٹا تم آرام کرو اور ذیاده ٹینشن نھیں لینا جو ھونا تھا وه ھو گیا لیکن میں زاهره سے پوچھوں گی ضرور آخر کیا کمی تھی میری بیٹی میں .
یه کھ کر آمنه بیگم کمرے سے چلی گئ.
****************************
شفا دیکھوں اگر تم کمزور پڑ جاؤ گی تو آنٹی کو کون سنبھالے گا.
دعا کب سے شفا کو سمجها رھی تھی اور وه بالکل چپ کھالی آنکھوں سے اسے دیکھ رھی تھی.
سب کچھ میری وجه سے ھوا ھے نا میں یه رشته کرواتی اور نا یه سب کچھ ھوتا.
نور نے نم آنکھوں سے کها.
نھیں آپی اس میں آپکی کوئ غلطی نھیں ھے.
بس جو میرے نصیب میں تھا وه ھو گیا اور اب اس ٹاپک پر دوباره کوئ بات نا کرے.
یه کھ کر شفا کمرے سے چلی گئ.
***********************
چند ماه بعد
ماشاءالله سے بھت پیاری لگ رھی ھو الله تمھیں نظر بد سے بچاۓ
شفا نے دلھن بنی دعا کو
دیکھ کر کها جو ڈیپ ریڈ کلر کے شرارے میں موجود برائیڈل میک اپ میں نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رھی تھی.
تم بھیت ذیاده پیاری لگ رھی ھو.
دعا نے شفا کو بولا جو ڈارک بلو کلر کی میکسی میں بھت ذیاده پیاری لگ رھی تھی.
آنٹی کی تبعیت کیسی ھے اب .
دعا نے پوچھا .
بس ویسی ھی ھے.شفا نے بتایا.
شفا کو جب سے اپنے اوپر کسی کی نظریں محسوس ھو رھی تھی لیکن اس نے اپنا وھم سمج کر ذیاده دیھان نھیں دیا.
جی امی ٹھیک ھے میں آتی ھوں .
کس کا فون تھا .
شفا نے جیسے ھی فون بند کیا دعا نےاسے پوچھا.
یار امی کا فون تھا وه بلا رھی ھیں شاید ان کی طبعیت خراب ھو رھی ھے.
شفا نے بتایا.
ایک دم حال میں بارات کے آنے کا شور مچ گیا.
بارات بھی آگئ ھے.تم تھوڑی دیر اور رک جاتی یار.
رکنے کا تو میرا بھی دل کر رھا ھے لیکن تمھیں پتا تو ھےامی گھر میں اکیلی ھیں اسی لیۓ مجھے جانا ھوگا.
اچھا کیسے جاؤ گی تم.
دعا نے پریشانی سے پوچھا .
فکر نا کرو میں نے کیب بلائ ھے اور کل آؤ گی میں ناشته لے کر اپنا خیال رکھنا .خدا حافظ.
شفا یه کھ کر حال سے باھر آگئ.
***********************
اف الله اب یه کیب کھاں ره گئ.
شفا گلی میں کھڑی کیب کا انتظار کر رھی تھی.
کھی تھوڑی آگے نا کھڑی ھو.
شفا یه سوچ کر تھوڑا آگے آئ ھی تھی کے اسے پیچھے سے کچھ لڑکوں کی آوازیں آنے لگ گئ.
اسنے پیچھے دیکھے بغیر تیز تیز چلنا شروع کردیا.
کھا جا رھی ھو وه بھی اکیلے اکیلے.
ایک دم تین لڑکے اسکے سامنے آکر کھڑے ھو گۓ.
شفا نے ڈر کر ادھر اودھر دیکھا لیکن گلی سنسان پڑی تھی.
شفا پیچھے بھاگنے کے لیۓ مڑی ھی تھی کے ایک لڑکے نے اس کا ھاتھ پکڑ لیا.
اس سے پهلے شفا کچھ بولتی کسی نے زور سے اس لڑکے کے منه پر مکا مارا اور وه دور جا کے گرا.
شفا نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا جھاں کوئ بلیک ھڈ پهنے ان تینوں کو مارے جا رھا تھا.
بس کر دیں مر جاۓ گے یه لوگ.
شفا نےجب ان تینوں کی اچھی خاصی بری حالت دیکھی تو بول اٹھی.
شفا کی بات پر اس نے اپنے ھاتھ روک دیۓ.
اس نے جیسے ھی ھاتھ روکے ان تینوں نے موقع
غنیمت جانا اور وھاں سے بھاگ گۓ.
اس سے پھلے شفا اس کا شکریه ادا کرتی وه فورا وھاں سے چلا گیا.
اسی وقت کیب آکر شفا کے پاس رکی.
شفا دل ھی دل میں الله کا شکر ادا کرتی جس نے آج اسے اتنی بڑی مصیبت سے بچا لیا تھا کیب میں بیٹھ گئ.
***********************
دعا اسٹیج پر بیٹھی ھوئ تھی جب اس کچھ عورتوں کی آوازیں آنے لگ گئ.
تمھیں پتا ھے اس لڑکی کی منگنی تو بچپن سے ھوئ وی تھی لیکن اس کا منگیتر باھر سے شادی کر کے آ گیا.
پتا نھیں ایسی کون سی بات ھو گئ جس کی وجه سے اس نے بچپن کا رشته ھی توڑ دیا.
ھاں بھئ الله جانے ایسا کیا کیا تھا اسنے جس جی وجه سے اس لڑکے نے اتنا بڑا فیصله کیا
وه لوگ آپس میں باتیں کرنے میں لگی ھوئ تھیں یه جانے بغیر کے کسی کو انکی باتوں سے کتنی تکلیف ھو رھی ھے.
دعا انھی کی باتوں کو سوچے جا رھی تھی اسے یه تک پتا نھیں چلا کے کب مولوی صاحب آۓ اور کب نکاح شروع ھوا.
آپی جواب دو.
لاریب نے اسکا کندھا ھلا کر کھا .
بیٹا کیا آپ کو یه نکاح قبول ھے مولی صاحب نے دوباره پوچھا
جی قبول ھے.
دعا نے کھوۓ ھوۓ کھجے میں کھا.
اسکے زھن میں ابھی بھی ان عورتوں کی باتیں چل رھی تھیں.وه سوچ رھی تھی کے کیسے لوگ حقیقت جانے بغیر اپنی طرف سے باتیں بنا لیتے ھیں.
نکاح ھونے کے تھوڑی دیر بعد کی رخستی کا شور مچ گیا.
***********************
دعا کو ابھی تھوڑی دیر پهلے ھی کمرے میں لا کر بٹھایا گیا تھا.
وه اپنی سچوں میں گم تھی جب دروازه کھلنے اور بند کرنے کی آواز آئ لیکن اس نے سر نھیں اٹھایا.
اسلام و علیکم.
کمرے میں مردانه آواز گونجی.
شناسا سی آواز پر دعا نے فورا سر اٹھا کر دیکھا.
اور سامنے موجود شخص کو دیکھ کر وه خیرانی سے اسے دیکھنے لگ گئ.
دیکھو مجھے پتا ھے میں بھت اچھا لگ رھا ھو لیکن اس کا مطلب یه نھیں کے تم مجھے نظر ھی لگا دو.
دانیال نے جب دعا کو اسے ایسے ھی گھورتے دیکھا تو شرارت سے بولا.
آ آپ ...
دعا کے منه سے صرف یهی نکلا.
جی جان دانیال میں.
دانیال نے اس محبت سے دعا کے ھاتھ پکڑتے ھوۓ کھا.
دعا نے اپنی عقل پر ماتم کیا کے کلثوم بیگم کے بولنے کے باوجود اسنے تصویر دیکھنے سے منا کر دیا اور نکاح کے وقت بھی وه اتنی کھوئ گوئ تھی کے اس نے دانیال کے نام پر غور ھی نھیں کیا.
تمھیں پتا ھے دعا مجھے لگتا ھے میں آج مکمل ھو گیا ھوں.تمھیں پتا ھے تمھارے بغیر جینے کا خیال ھی سوھان روح تھا.
جب مجھے پتا چلا کے زوھیب نے تمھیں چھوڑ دیا ھے تو میں اتنا خوش تھا جس کی کوئ انتھا نھی تھی.پهر میں نے فورا امی کو تمھارے گھر رشتے کے لیۓ بھیج دیا.
اور پهر تمھاری عقل دیکھو تم نے میری تصویر تک نھی دیکھی.پهر میں نے اس راز کو راز ھی رھنے دیا تاکے آج کے دن تمھیں ھیران کر سکوں جیسا تھوڑی دیر پھلے تم ھو گئ تھی.
دانیال نے اس کا چھوٹا سا ناک دبا کر کها.
اتنی محبت کرتے ھیں آپ مجھ سے.
دعا نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ھوۓ کها.
دعا میں تم سے اتنی محبت کرتا ھوں کے اگر تم مجھ سے میری جان بھی مانگو تو وه بھی حاضر ھے.
دانیال کی بات پر دعا نے تڑپ کر دیکھا اور غصے سے کها.
خبردار جو آئنده آپ نے مرنے کی بات کی .
اچھا بابا نھیں کرو گا اور ھاں میں تو بھول ھی گیا.
دانیال نے اپنی جیب سے ایک ڈبیا نکالی اور اس میں سے ایک بھت خوبصورت سا برسلیٹ نکال کر دعا کے ھاتھ میں پهنایا.
کیسا لگا.
دانیال نے پوچھا.
بھت بھت ذیاده خوبصوت.
دعا نے سچے دل سے کھا.
دعا میں آج تم سے وعده کرتا ھو پوری زندگی تمھیں میری طرف سے کبھی کوئ تکلیف نھیں ھو گی اور زندگی کے ھر مقام پر تم مجھے اپنے ساتھ پاؤ گی.
دانیال نے دعا کے ھاتھ پکڑ کر بھت محبت سے کھا.
دانیال کی بات سن کر دعا کی آنکھوں میں آنسوں آ گۓ.
دانیال آپ بھت اچھے ھیں.
دعا نے سچے دل سے اعتراف کیا.
خبردار جو روئ .
دانیال نے دعا کے آنسوں صاف کرتے ھوۓ کھا.
دانیال مجھے نھیں پتا تھا کے میں اتنی خوش نصیب ھوں.
دعا یقین کرو میں تم سے زیاده خوش نصیب ھوں جو مجھے تم مل گئ ھو.
دانیال کی بات. پر دعا نے اپنا سر دانال کے کندھے پر رکھ دیا. .دانیال نے مسکرا کر اپنا سر دعا کے سر پر رکھ دیا.
***********************