یار اتنا اندهیرا کیوں ھو رھا ھے.
دانیال کھاں ھویار
.دیکھو شرافت سے آجاؤ اور کم از کم میری آنکهوں سے یه پٹی تو ھٹا دو.
ھیپی برتھ ڈے ٹو یو, ھیپی برتھ ڈے ٹو یو, ھیپی برتھ ڈے ٹو یو.
کسی نے پیچھے سے آکر اسکی آنکهوں سے پٹی ھٹائ.
اسکو پهچاننے میں ایک منٹ بھی نا لگا کے یه کون ھے.
شفا.آزر نے شفا کی کلائ پکڑ کر اس کو اپنے سامنے کھڑا کیا.
اور نظر اٹھا کر سامنے دیکھا جھاں دعا اور دانیال اسی کو دیکھ کر مسکرا رھے تھے.
وه لوگ اس وقت دانیال کے گھر کے لاؤنچ میں کھڑے تھے.
لاؤنچ کو بھت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا.
ھیپی برتھ ڈے برو.دانیال نے آزر کو گلے لگاتے ھوۓ کھا.
تو یه تم تینوں کی کارستانی ھے.
آزر نے تینوں کو گھورتے ھوۓ کھا.
ھمارے سوا یھ کوئ کر سکتا ھے کیا.شفا نے ایک ادا سے کھا.
دانیال نے رات کے 12 بجے آزر کو ایمرجنسی میں اپنے گھر بلایا تھا.
آزر جلدی میں اسکے گھر آیا.
آزر جب دروازے پر پهنچا تو کسے نے پیچھے سے آکر اسکی
آنکھوں پر پٹی باندھ دی.
اچھا چلو اب کیک کاٹ لیں.دعا نے سب کی توجه کیک کی طرف کروائ.
------------------------------------------
یھی کھڑے رھنا ھے پورا دن کیا.
آفتاب کی آواز نے شفا کو ماضی سے حال میں لا پٹخا.
شفا نے کلیینڈر سے نظر ھٹا کر آفتاب کو دیکھا اور سر جھٹک کا فریش ھونے چلی گئ.
****************************
امی جھے آپ سے ضروری بات کرنی ھے.ناشتے کے دوران شفا نے اپنی ساس سے بولا.
کهو بیٹا کیا بات ھے.
امی دراصل آج میری بھن جیسی دوست کی منگنی ھے.اسنے مجھے لازمی آنے کا کھا ھے اگر آپ.کی اجازت ھو تو میں چلی جاؤ.
شفا نے اپنی ساس سے پوچھا.جو بھی تھا لیکن وه دل سے اپنی ساس کی عزت کرتی تھی.
کوئ ضرورت نھیں جانے کی.
زاهره بیگم(شفا کی ساس) کے بولنے سے پھلے ھی آفتاب بول پڑا.
شفا نے خونخوار نظروں سے آفتاب کو گھورا اور پهر معصوم سی شکل بنا کر زاهره بیگم کو دیکھا.
شفا کی اس حرکت پر آفتاب عش عش کر اٹھا.
ارے کیوں نھیں جاۓ گی میری بچی.ضرور جاۓ گی یه.آفس سے آکر تم اسے اسکی دوست کے گھر چھوڑ کر آؤ گے.
شفا کی معصوم سی شکل دیکھ کر زاهره بیگم نے محبت سے کھا.
زاهره بیگم کی بات سن کر آفتاب غصے سے شفا کو دیکھ کر آفس کے لیۓ چلا گیا.
****************************
هیپی برتھ ڈے دانیال نے ھاتھ میں پکڑا بوکے سامنے لیٹے وجود کی طرف برھاتے ھوۓ کھا.
کمزوری کی وجه سے اسنے بھت مشکل سے آنکھیں کھول کر سامنے کھڑے دانیال کا دیکھا اور ھلکا سا مسکرایا.
کیسا ھے میرا جگر اور کب تک یھاں رھنے کا اراده ھے.تمھیں پتا ھے میں تمھیں بھت مس کر رھا ھوں.
دانیال نے اسکے پاس بیٹھتے ھوۓ کھا.
شفا نھیں آئ.
آزر کی بات پر دانیال کے چھرے پر ایک رنگ آیا اور گیا. لیکن پهر وه سنبھل کر بولا.
آئ تھی وه لیکن اس وقت تو سو رھا تھا اسی لیۓ تمھیں تنگ نھیں کیا اسنے.
دانیال نے بات بناتے ھوۓ کھا.
یار وه تو بهت پریشان ھو رھی ھو گی نا.
آزر کی بات سن کر دانیال کو بھت تکلیف ھوئ.
ھاں اسی لیۓ تو میں کھ رھا ھوں کے تم جلدی سے ٹھیک ھو جاؤ.
دانیال نے مسکراتے ھوۓ کھا.
اچھا تم آرام کرو میں ذرا ڈاکٹر سے بات کر کے آتا ھوں.
یه کھ کر دانیال روم سے چلا گیا.
***********************
پنک کلر کی کلیوں والی فروک میں اور لائٹ سے میک اپ میں وه بھت ذیاده پیاری لگ رھی تھی.
ذیور کے نام پر اسنے صرف کانوں میں ٹوپس اور گلے میں لوکٹ پهنا تھا.
ابھی وه سینڈل پھن رھی تھی جب آفتاب دروازه کھول کر اندر آیا.
***********************
آفتاب جب دروازه کھول کر اندر آیا تو سامنے تیار هوئ وی شفا کو دیکھ کر غصے سے اسکی جانب بڑھا.
میں نے جب تمھیں منا کر دیا تھا کے تم نھیں جاؤ گی تو پهر تم کس خوشی میں تیار ھوئ ھو.
آفتاب نے شفا کا بازو دبوچتے ھوۓ کھا.
پیچھے ھٹو اور امی نے اجازت دے دی تھی اسی وجه سے میں جا رھی ھوں باقی مجھےکسی کی اجازت سے فرق نھیں پڑتا.
شفا نے آفتاب سے اپنا بازو چھڑواتے ھوۓ کھا.
بھت ذیاده زبان نھیں چل رھی تمھاری اسکا بندوبست تو کرنا پڑے گا.
آفتاب غصے سے بولا.
کیا کر لیں گے آپ.شفا نے بھی اسی کے انداز میں کھا.
چٹاخ_ _ _ _
اگلےھی لمحے منه پر پڑنے والے تھپڑ کی وجه سے شفا نیچے گر گئ.
آفتاب---------
زاهره بیگم جو انکی لڑائ کی آواز سن کر کمرے میں آئ تھیں آفتاب کی اس حرکت پر اس پر چیخی.
شرم آنی چاھیۓ تمھیں اپنی اس حرکت پر.یه تربیت کی ھے میں نے تمھاری.
زاهره بیگم نے غم و غصے سے کھا.
بیٹا مجھے معاف کر دینا.چلو اپنا حلیه درست کرو ڈرائیور تمھیں چھوڑ آۓ گا.
زاهره بیگم نے سر جھکاۓ خاموش کھڑی شفا سے کھا.
آفتاب ایک نفرت بھری نگاه شفا پر ڈال کر کمرے سے چلا گیا.
****************************
یا الله ایسا کون سا گناه مجھ سے ھو گیا ھے جس کی سزا کی صورت میں آفتاب جیسا شوھر مجهے ملا ھے.
مجھے معاف کر دے میرے مالک میری آزمائش ختم کر دے.
بی بی جی گھر آگیا ھے.
شفا اپنے خیالوں میں گم تھی جب ڈرائیور کی آواز سے وه حوش میں آئ.
اس نے کھڑکی سے باھر دیکھا جھاں دعا کا گھر روشنیوں میں نھایا ھوا تھا.
شفا نے دل سے دعا کے اچھے نصیبوں کی دعا کی اور گھر کی جانب چل پڑی.
****************************
کیسی ھو.
شفا نے دعا سے گلے ملتے ھوۓ کھا.
سی گرین کلر کی میکسی اور لائٹ میک اپ میں وه نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رھی تھی.
میں تو بالکل ٹھیک ھو اور اب ناراض ھونے کی باری میری ھے یه بتاؤ لیٹ کیوں آئ ھو.
دعا نے ناراضگی سے کھا.
اب کیا بتاؤ تمھیں لیٹ آنے جی وجه.
شفا نے دل میں سوچا.
یار وه آفتاب آج آفس سے تھوڑے لیٹ ھوگۓ تھے.اسی وجه سے لیٹ ھو گئ.
شفا نے مصنوئ مسکراھٹ سے جواب دیا.
اچھا ویسے آفتاب بھائ کھیں نظر نھیں آرھے ھیں.
دعا نے شفا سے پوچھا.
ھاں وه آنے والے تھے لیکن اینڈ ٹائم پر کسی ایمرجنسی کی وجه سے نھیں آ پاۓ.اچھا انھیں چھوڑو یه بتاؤ تمھارے اس سڑے ھوۓ کزن کی سڑی ھوئ بیگم کھاں ھے.
شفا نے بات بدلی.
وه لڑ کر واپس چلی گئ ھے.
دعا نے بتایا
اچھا...
شفا صرف اتنا ھی که سکی.
منگنی کی رسم شروع ھوئ.
لڑکے کی ماں نے دعا کو انگھوٹی پهنائ.
اگلے مھینے کی تاریخ شادی کے لیۓ طے پائ
***********************
دانیال تم نے شفا کو بتا دیا ھے نا کے میں گھر آگیا ھوں.
آزر نے دانیال سے پوچھا.
ھاں میں نے اسے بتا دیا تھا.
دانیال نے نظریں چرا کر کها.
دانیال کو پتا تھا کے شفا کی شادی ھو گئ ھے لیکن ابھی اس میں یه بات آزر کو بتانے کی ھمت نھیں تھی.وه جانتا تھا آزر شفا کے لیۓکس قدر جزباتی ھے اگر اسے شفا کی شادی کے بارے میں پتا چل جاۓ گا تو نا جانے یه کیا کرے گا
دابیال صرف سوچ کر ھی ره گیا
-----دانیال
آزر کی آواز پر وه اسکی طرف متوجه ھوا.
یار کتنے دن ھو گۓ میں نے شفا کو نھیں دیکھا.
مجھے اس سے بھت ساری باتیں بھی کرنی ھیں .بس میں جلدی سے ٹھیک ھو جاؤ تو فورا شفا کے گھر رشته لے جاؤ گا.
آزر کی بات پر دانیال صرف ٹھنڈی آه بھر کر ره گیا.
***********************
شفا جب گھر پهنچی تو آفتاب کسی سے فون پر بات کر رھا تھا.
شفا اسے نظر انداز کر کے ڈریس چینج کرنے چلی گئ.
ھاں ٹهیک ھے جان میں تم سے بعد میں بات کرتا ھوں
شفا جب باھر آئ تو آفتاب فون بند کر کے رکھ رھا تھا.
شفا نے چپ چاپ تکیه اٹھایا اور صوفے پر لیٹ گئ.
تم یه سوچتی ھو گی نا کے میں نے تمھیں منه دکھائ میں کچھ نھیں دیا.
آفتاب کی آواز شفا کے کانوں میں پڑی .
لیکن وه چپ چاپ لیٹی رھی.
چلو فکر نا کرو بھت جلد طلاق کے پیپرز منه دکھائ کی صورت میں تمھیں دو گا
آفتاب نے زھریلے لهجے میں کھا.
آپ جیسے مرد اپنی بیویوں کو اس چیز کے علاوه کچھ دے بھی نھیں سکتے ھیں.
اور آپ سے مجھے اس چیز کے علاوه کسی اور چیز کی امید بھی نھیں ھےاور مجھے انتظار رھے گا اپنی منه دکھائ کا.
شفا کی بات سن کر آفتاب غصے سے مٹھیاں بھینچ کر ره گیا.
یه کھ کر شفا منه موڑ کر لیٹ گئ اور الله سے اپنے کیۓ صبر مانگنے لگی .
***********************