خداکی قسم میں آج آزر کا سر پھاڑ دو گی حد ہوتی ہے ہر چیز کی میں پچھلے آدھےگھنٹے سے یونی کے گیٹ پر کھڑی اس کا انتظار کر رہی ہوں اور وہ نواب کا بچا آنےکا نام نہیں لے رہا آنے دو اسے دیکھ لو گی میں۔ شفا کادودھ جیسا رنگ کچھ گرمی اور غصے کی وجہ سے لال ہو گیا تھا ۔اچھا اب بس بھی کرو نا۔دعا نے شفا کا چھوٹا سا ناک دبا کر کہا۔لیکن اگلے ہی پل اس نے شفا کی خونخوار نظریں دیکھ کر اپنی زبان دانتوں تلےدبا لی۔
اچھا وہ دیکھو آگیا وہ تمھارا نواب ذادہ ۔دعا نے اس کا دیھان پیچھے سے آتے آزر کی طرف کروایا جوانہی کی طرف آ رہا تھا اسی وقت شفا نے دعا کا ہاتھ پکڑا اور کلاس کی طرف چل پڑی۔
آزر بھاگتا ہوا آکر دعا کے سامنے کان پکڑ کر کھڑا ہوگا ۔اچھا سوری نا یار پلیز مجھے معاف کردو پلییییز۔ آزر نے اتنا معصوم منہ بنا کر کہا کہ شفا کو اپنی ہنسی روکنا مشکل ہو گیا لیکن ا س نےظاہر نہیں کیا۔
آزر ابھی اور اسی وقت میرے سامنے سے دفع ہو جاؤ ورنہ میں تمھارا سر پھاڑ دوں گی۔شفا نے غصے سے آزر کو کہا۔
یار معافی تو مانگ رہا ہوں نا پلیز لاسٹ ٹاۂم معاف کردو آزر نے کہ کر مدد طلب نظروں سے دعا کو دیکھا جو بڑےمزے سے دونوں کو لڑتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔آزر کا اشارہ سمجھ کر رعا فورا بولی ۔شفا اب بس بھی کرو آزر بیچارہ جب سے تو معافی مانگ رہا ہے اب معاف بھی کردو اسے دعا نے شفا کو سمجھاتےہوۓ کہا
ٹھیک ھے تمھارے پاس صرف ایک منٹ ہے جلدی سے اپنے لیٹ آنے کی وجہ بتاؤ اور تمھارا وقت شروع ہوتا ھے اب۔ شفا نے آزر کو آنکھیں دکھا کر کہا
یار تمھیں پتا تو ہے اس دانیال کے بچے کا سارہ کیا دھرا اس کا ہے میں نے ا سے بہت کہا کہ جلدی کرو شفا میرا انتظار کر رہی ہوگی لیکن اس عذاب کی تیاریاں ہی ختم نہیں ہو رہی تھی اب بتاؤ اس میں میرا کیا قصور ہے آزر نے معصومیت سے کہا
تو ابھی بھی آنے کی کیا ضرورت تھی رہ جاتے اپنی اسی محبوبہ کے پاس شفا نے آنکھیں گھما کر کہا
(دانیال اور میری محبوبہ استغفار)
آزر نےفورااپنی سوچ کوجھٹکا
جاؤ معاف کیا تم بھی کیا یاد کرو گے کہ کس سخی سے پالا پڑا ہے تمھارا ایک ادا سے کہتی وہ دعا ک ہاتھ پکڑ کر کلاس کی طرف چل پڑی
آزر شفا کی بات پر مسکرا ہی رہا تھا کہ کسی نے زور سے اس کے کندھے پر مکا رسید کیا
دانیال کتنی مرتبہ کہاہے کہ ایسے نہ مارا کر لیکن تم نہایت ڈھیٹ قسم کے انسان ہو آزر نے دانیال کو
****************************
وه دونوں کلاس لے کر کینٹین میں بیٹھی ھوئ تھیں.
شفا یار سر اقبال تو بھت ذیاده ھیں کھڑوس ھیں.قسم سے آج اتنی بےعزتی کردی صرف اسی لۓ کے مجھے ٹیسٹ نھیں یاد تھا.
دعا نے منه بنا کر کھا.
شفا نے حیرت سے دعا کو دیکھا جو اب مزے سے برگر کے ساتھ انصاف کر رهی تھی.
ویسے دعا میں ھیران ھوں تمھاری ڈھٹائ پر.تم نے نا تو پچھلا ٹیسٹ یاد کیا تھا اور نا ھی اس دفعه کا اور تمھیں کیا لگا کے سر تمھاری اس ھرکت پر واری صدقے ھوتے یا تمھاری بلائیں لیتے.شفا نے دعا کو غیرت دلانی چاھی.
یار میں مصروف تھی.دعا نے معصومیت سے کھا.
اچھا ذرا مجھے بھی تو پتا چلے تمھاری آج کل کی مصروفیت کے بارے میں.
شفا نے دلچسپی سے پوچها .
میں نے تمھیں بتایا تو تھا کے میں نے آب حیات ناول پڑھنا شروع کیا ھے.
لیکن میں نے تو تم سے تمھاری مصروفیت کے بارے میں پوچھا هے .شفا نے هیران هو کر کها.
تو ناول پڑهنے سے بھی کوئ بڑی مصروفیت ھو سکتی ھے .
دعا نے ھیرانی سے کھا.
اور اس کی مصروفیت کے بارے میں سن کر شفا کا دل کیا کے اپنا سر پیٹ لے.
بھاڑ میں جاؤ تم اور تمھارے ناول.آگ لگے تمھارے ان ناولوں
کو.
شفا نے غصے سے کھا.
اوۓ خبردار جو میرے ناولوں کو کچھ کھا تم نے.
دعا کو گویا صدما ھوا.
ابھی شفا جوابی کاروائ کرنے ھی والی تھی کے سامنے سے آتے آزر اور اس کی محبوبا (دانیال) کو دیکھ کر خاموش ھو گئ.
وه دونوں کسی ریاست کے شھزادے لگ رهے تهے.ان کی مغرورانه چال اور personality دیکھ کر آس پاس کی لڑکیاں مڑ مڑ کر انھیں دیکھ رهیں تهیں.
شفا کا بس نهی چل رھا تھا کے ان لڑکیوں کا سر پهاڑ دے.آخر اسے کھاں برداشت تھا کسی کا یوں آزر کو دیکھنا.
وه دونوں آکر ان کے سامنے بیٹھ گۓ.
دعا کو دا نیال کی نظریں ھمیشا پریشان کرتی تھی .ابھی بھی وه اس کی تپش دیتی نظروں کو محسوس کر کے رخ موڑ کر بیٹھ گئ.
دانیال کو دعا کا یوں اسے نظر انداز کرنا برا لگا.
اور کیا هو رھا هے .آزر نے شفا اور دعا سے پوچھا.
کڑکٹ کھیل رهے هیں ھم دونوں .اندھے ھو دکھ نھیں رھا کے برگر کھا رھے ھیں. یه تو وه بات ھوئ که سوۓ ھوۓ بندے کو اٹھا کر پوچھا جاۓ کے سو رھے تھے کیا.
شفا نے آزر کو آنکھیں دکھاتے ھوۓ کھا .
اچھا بس بس بھئ کیا ھو گیا اک تو ھر وقت تم لڑاکا عورتوں کی طرح لڑنے کے لۓ تیار رھا کرو.میں نے تو
****************************
اور کیا هو رھا هے .آزر نے شفا اور دعا سے پوچھا.
کڑکٹ کھیل رهے هیں ھم دونوں .اندھے ھو دکھ نھیں رھا کے برگر کھا رھے ھیں. یه تو وه بات ھوئ که سوۓ ھوۓ بندے کو اٹھا کر پوچھا جاۓ کے سو رھے تھے کیا.
شفا نے آزر کو آنکھیں دکھاتے ھوۓ کھا .
اچھا بس بس بھئ کیا ھو گیا اک تو ھر وقت تم لڑاکا عورتوں کی طرح لڑنے کے لۓ تیار رھا کرو.میں نے تو بس غلطی سے که دیا.
اچھا اب بس بھی کرو تم دونوں .ابھی شفا نے کچھ کھنے کے لۓ منه کھولا ھی تھا کے دعا بیچ میں بول پڑی.
آزر ایک بات پوچھوں.تھوڑی دیر بعد شفا نے آزر کو مخاطب کیا.
دانیال جلدی سے مجھے تھپڑ مار.آزر نےدانیال کا کندھا هلاتے ھوۓ کھا.
اب تمھیں کیا ھو گیا ھے .دانیال نے ھیرانی سے پوچھا.
وه دراصل شفا نے مجھ سے بات کرنے کی اجازت مانگی ھے اسی لۓ مجهے یقین نھیں آ رھا .آزر نے ڈرامے بازی سے کھا.
سیدھا سیدھا بولو کے تمھیں عزت راس ھی نھیں ھے.شفا نے آنکھیں گھوما کر کھا.
اچھا بتاؤ کیا پوچھنا ھے .آزر نے نرمی سے کھا.
وه دراصل تم مجھے کچھ دنوں سے پریشان نظر آ رھے تھے تو سوچا پوچھ لوں.
نھیں یار وه بس بابا کی کال آئ تھی وه گاؤں بولا رھے ھیں .شاید زمینوں کا کچھ مسلأ ھوگیا ھے .
اچھا پھر کب جانے کا اراده ھے.آزر کے جانے کا سن کرشفا اداس ھو گئ تھی.
نهیں ابھی تو پیپرز ھونے والے ھیں اس کے بعد دیکھی جاۓ گی.آزر نے شفا کو جواب دیا.
اچھا ایک بات تو بتاؤ دعا نے دونوں سے پوچھا .ھاں کھو.شفا نے کھا.
دیکھو اب تو ھم سب کی graduation بھی complete ھونے والی ھے پھر آگے کیا سوچا ھے تم لوگوں نے شادی کے بارے میں.
سوچنا کیا ھے graduation کے بعد اپنا بزنسس اسٹارٹ کروں گا اور پھر کسی اچھی اور حسین لڑکی سے شادی کر لوں گا.آزر نے شفا کو چڑانے کے لۓ کھا.لیکن وه بھی شفا حیدر تهی.
هان اچها پلین ھے.میں بھی سوچ رھی ھوں کے کوئ اچھا سا رشتا دیکھ کر امی کو ھان کھ دوں.شفا بھی کھا پیچھے رھنے والوں میں سے تھی.
آج کھ دیا لیکن آئندا کے بعد شفا میں تمھارے منه سے یه الفاظ نا سنوں.اگر میرے علاوه تم نے کسی دوسرے کے ساتھ شادی کرنے کے بارے میں سوچا بھی تو انجام کی ذمهدار تم خود ھو گی.
آزر کے لھجے میں موجود ضد دیکھ کر شفا اندر تک کانپ اٹھی.لیکن پهر سنبھل کر بولی,آزر میں صرف مذاق کر رھی تھی.