صادقے نے سوچا، عجیب بے مہر دن چڑھا ہے۔ حرام ہے جو صبح سے ایک پیسے کی بوہنی ہوئی ہو۔
سارا دن وہ میاں میرؒ کے مزار کے سامنے اپنے گل فروشی کے اڈے پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا تھا۔ جب سورج ڈوباتوحسب معمول مال روڈ پر واقع نہر کے پل پر آ گیا، مگر پیہم کوشش کے باوجود ابھی تک ایک ہار نہیں بکا تھا۔
گل فروشی کے لیے یہ بہترین وقت تھا۔ جونہی رات کا ڈولا اُترتا، مال کی رونقیں دوبالا ہو جاتیں۔ چم چم کرتی گاڑیوں میں سجی سنوری بیگمات اور حسین و خوش ادا دوشیزائیں سیر سپاٹے یا شبینہ دعوتوں میں شرکت کے لیے نکلتیں تو مشامِ جاں کو معطر کر دینے والے پھول دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں چمک اور ہاتھوں میں لپک پیدا ہوتی۔ فوٹریس سے شاپنگ یا ہوٹلنگ کر کے لوٹنے والے جوڑے بھی مزید لطف و کرم کی جستجو میں موتیا کے ہار اور گجرے ضرورخریدتے۔ لیکن آج نرم ہوا کے ہاتھوں خوشبو کا سندیسہ پا کر بھی کسی خوش ذوق کے دل میں پھول لینے کی آرزو پیدا نہیں ہو رہی تھی۔
کچھ دیر مزید خواری کے بعد اس نے پھول ململ کے گیلے کپڑے میں لپیٹے اور اپنی خستہ حال سائیکل کے پیڈل مارتا، نہر کے ساتھ ساتھ، اپنی بستی کی سمت روانہ ہوا۔
رات اپنے ماتھے پر تاروں کا جھومر سجائے دھرتی کے رخسار پر پیار سے جھکی ہوئی تھی۔ نہر کے سبک رو پانی میں اس کے سحر انگیز حسن کا عکس رقص کر رہا تھا۔ مگر صادقا اس دلفریب منظر سے بے نیاز اپنی ہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں چلا جا رہا تھا۔ اس کے ذہن کے گنبد میں ایک ہی واہمہ کسی چمگادڑ کی طرح بار بار چکر کاٹ رہا تھا۔
’’تُو نے صبح ماں کی شان میں گستاخی کی تھی۔ یہ اسی کی سزا ہے۔ جلدی گھر پہنچ اور ماں کے پیر پکڑ لے۔ جانتا نہیں ماں روٹھ جائے تو رب بھی روٹھ جاتا ہے۔‘‘
صادقا اپنی بیوہ ماں سے بہت محبت کرتا تھا۔ مفلسی اور بیماری کی رگیدی ہوئی عورت کا بطن نشتر سے چیرا گیا تو اسے دنیا میں پہلا سانس نصیب ہوا۔ اسے پالنے کے لئے بھی محنت کش ماں کو بڑے جتن کرنے پڑے۔ شرابی باپ تو گویا اسے دنیا میں لانے کی عیاشی کر کے اپنے تئیں سرخرو ہو چکا تھا۔ اس ہڈ حرام کی مثال کھجور کے پیڑ جیسی تھی جو دھوپ لگے تو سایہ نہیں دیتا اور بھوک لگے تو پھل دست رس سے دُور۔ ستم گر جب تک جیا بیوی کے لئے باعث آزار ہی بنا رہا۔ وہ دن کے اجالے میں اسے سب کے سامنے بے رحمی سے مار پیٹ کر اپنی مردانگی کا اظہار کرتا۔ مگر جب رات اپنے پر پھیلاتی اور خلقت چُپ کی لوئی اوڑھ کر سو جاتی توکپی چڑھا کر مطلب براری کے لئے اس کے پاؤں پڑ جاتا۔ دھتکار اور خود غرضانہ پیار کے دو پاٹوں کے بیچ پستا ہوا اس کا لاغر وجود موت و زیست کے درمیان کسی خلا میں معلق ہو کر رہ گیا تھا۔ فرشتۂ اجل اس ظالم کو اچانک ہی نہ آ دبوچتا تو خدا جانے بیچاری کا کیا حشر ہوتا۔
دشتِ زیست کی باقی مسافت اس نے اکیلے ہی طے کی۔ نکاح ثانی کا طوق گلے میں ڈالنے کا تصور ہی اسے لرزا کر رکھ دیتا تھا۔ جو راستہ اس نے منتخب کیا وہ دشوار تھا اور پر خار بھی۔ مگر بیٹے کی صورت میں ایک نخل امید اس آبلہ پا کو آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتا رہا۔ اپنی ذات پر جھیلے ہوئے جورو ستم کا لاشعوری ردّ عمل ہی ہو گا کہ وہ اسے پڑھا لکھا کر پولیس انسپکٹر بنانا چاہتی تھی۔ مگر وہ پرلے درجے کا نا لائق اور کند ذہن نکلا۔ اس نے بڑی مشکل سے پرائمری پاس کی اور پھر ماسٹر وں کی مار سے ڈر کر بھاگ نکلا۔ ماں کی یہ خواہش تو تشنۂ تکمیل ہی رہی کہ وہ اپنے کندھوں پر پھول سجائے، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ پھول بیچنے والا بن گیا۔
اب ماں کے من میں نئی آرزو کی کونپل پھوٹی۔ چاند سی بہو کی تلاش اسے کشاں کشاں خادو کمہار کے در پر لے گئی۔ اس کی بڑی بیٹی پروین کے حسن کا بڑا چرچا تھا۔ چاک سے اُترے ظروف کے درمیان بیٹھی وہ خود بھی کسی مشاق فنکار کی صناعی کا شاہکار دکھائی دیتی۔ ماں نے جھولی پھیلائی تو واجبی رد و قدح کے بعد سات بچیوں کے بوجھ تلے دبے باپ نے ہاں کر دی۔
وہ بڑے شگنوں سے بہو کی ڈولی گھر لائی۔ گلی محلے کی عورتوں کے سامنے اس کی تعریفیں کرتی نہ تھکتی۔ بات بات پرصدقے واری جاتی۔ مگر چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات کے مصداق جلد ہی ساس بہو کے درمیان نوع بہ نوع اختلافات جنم لینے لگے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بحث و تکرار روز مرہ کا معمول بن گئی۔ صادقا دونوں کی چخ چخ سے ناکوں ناک آیا ہوا تھا۔ آج صبح جونہی ملا کھڑا شروع ہوا، صادقے کا میٹر گھوم گیا۔ بیوی کو تو وہ اکثر ہی ڈانٹتا تھا، آج ماں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ روزانہ نور پیر کے ویلے گھر میں کیا تماشا شروع کر دیتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جس بہو کو چند مہینے پہلے خود پسند کر کے، بڑے ارمانوں سے بیاہ کر لائی اور صبح شام جس کے قصیدے پڑھتی تھی، اب اسی میں دنیا جہان کے کیڑے نظر آنے لگے ہیں؟ سعادت مند بیٹا جو ماں کے سامنے آنکھ نہ اُٹھاتا تھا، سُرخ ڈیلے نکال کر گُستاخ لہجے میں بولا تو ماں برداشت نہ کر سکی اور چادر میں منہ چھپا کر زار زار رونے لگی۔ صادقے نے بے پرواہی سے دروازہ پٹخا اور بکتا جھکتا باہر نکل گیا۔ مگر اب بار ندامت سے اس کی کمر ٹوٹ رہی تھی۔ وہ جلد از جلد گھر پہنچ کر ماں سے اپنی تقصیر کی معافی مانگنا چاہتا تھا۔ ریلوے پھاٹک پار کر کے وہ پٹڑی کے ساتھ نشیبی راستے پر اُترا تو افغانیوں کے ٹال پر رکھوالی کے لئے بندھے ہوئے خونخوار کُتے اسے دیکھ کر بھونکنے لگے۔ صادقے نے ایک موٹی سی گالی ان کی طرف اچھالی اور کیبن کے قریب سے گزر کر اپنی بستی میں داخل ہو گیا۔
پٹڑی کے دونوں اطراف دُور تک کچے پکے مکانوں اور گھاس پھونس کے جھونپڑوں کا لا متناہی سلسلہ تھا جہاں شہر بھر کے مزدور، محنت کش، کوچوان۔ رکشہ ڈرائیور،ٗ مکینک اور خوانچہ فروش رہائش پذیر تھے۔ ریلوے کے کاغذوں میں یہ بستی ناجائز تجاوزات کے زمرے میں آتی تھی۔ جب کبھی حکام خوابِ خرگوش سے بیدار ہوتے تو بستی کے مکینوں پر ’’کلین اپ اپریشن‘‘ کا قہر ٹوٹ پڑتا۔ احتجاجی دھرنے، جلسے جلوس اور خود سوزیاں رنگ لاتیں تو مسمار شدہ گھروں کے ملبے سے تعمیر نو کا عمل شروع ہو جاتا۔ آبادی کے بیچ جا بجا کیمیکل کے گودام تھے جن سے زہریلے دخان اٹھتے رہتے۔ قریبی لوکو ورکشاپ کی چمنیاں ہمہ وقت زہریلا دھواں اگل کر پہلے سے مسموم شدہ فضا کو مزید زہر آلود بنا ڈالتیں۔ پٹڑی کے قریب جو جگہیں ہنوز خالی تھیں وہاں کارپوریشن نے کچرا گھر بنا کر تعفن کے پھیلاؤ میں رہی سہی کسر بھی پوری کر دی تھی۔ سارا دن لاتعداد چیلیں، کوے، کتے، بلیاں اورافلاس زدہ انسا نر زق کی تلاش میں ان کچرا گھروں کے ارد گرد منڈلایا کرتے اور کنٹینروں میں قید غلاظت دُور دُور تک پھیلانے کا سبب بنتے۔ اگر پٹڑی سے دن رات گزرتی ریل گاڑیوں اور شنٹنگ میں مصروف انجنوں کا شور بھی اہل بستی پر نازل ہونے والے عذابوں میں شمار کر لیا جاتا تو ان کا کیس اس قابل ضرور بنتا تھا کہ روز محشر مولا کریم سے انہیں بغیر حساب بخش دینے کی پر زور اپیل کی جائے .
گھر کے دروازے پر پہنچ کر صادقے نے حسبِ عادت سائیکل کی گھنٹی بجائی۔ پھر نیچے اُتر کر اگلے پہیے سے کواڑ دھکیلا، مگر خلافِ معمول دروازہ بند ملا۔ دستک دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ماں نے کنڈی کھولی۔
’’سلام ماں جی!‘‘ اس نے ادب سے کہا اور گدی کے نیچے ہاتھ ڈال کر سائیکل اندر دھکیلی۔
’’والیکم سلام۔‘‘ ماں نے بے دلی سے جواب دیا اور سلیپر گھسیٹتی برآمدے میں بچھی چارپائی پر جا لیٹی۔
سائیکل دیوار کے ساتھ ٹکا کر اس نے دستی نلکے سے منہ لگا کر پانی پیا اور قمیض کے کف سے منہ پونچھتا ماں کی طرف بڑھا۔
’’تو ابھی تک مجھ سے ناراض ہے؟‘‘ وہ پائینتی بیٹھ کر بڑے دلار سے بولا۔
ماں نے لبوں پر چُپ کا جندرا ڈال لیا مگر اس کی آنکھوں میں لرزتے ہوئے آنسوؤں کی چمک صادقے کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔
’’ مجھے معاف کر دے ماں۔ لگتا ہے میری باتوں سے تجھے بہت دکھ پہنچا ہے۔‘‘اس نے ماں کے پاؤں پکڑ لئے۔ ’’میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم دونوں سلوک و اتفاق سے رہو۔ ہمارے گھر میں بھی سکھ چین ہو۔ میں ساری دیہاڑ کا تھکا ہوا گھر واپس آتا ہوں تو تم دونوں کی روٹھی ہوئی شکلیں دیکھ کر بڑی کوفت ہوتی ہے۔ صبح گھر سے نکلتے ہوئے بھی یہی دیکھتا ہوں کہ تم دونوں میں لڑائی ہو رہی ہے اور گلی محلے کے لوگ ہنس رہے ہیں کہ صبح صبح دنگل شروع ہے!‘‘
’’دنگل تمہاری چہیتی کی حرکتوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔۔!‘‘
ماں پھنکاری اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔
’’اب تم تھکے ہارے باہر سے آئے ہو۔ اس کا فرض نہیں بنتا کہ اٹھ کر کنڈی کھولے۔ تمہارے آگے روٹی رکھے۔ لیکن نہیں۔ بیگم صاب بن کر سوئی ہوئی ہے۔ اس کی جوتی کو بھی پرواہ نہیں۔ پرواہ میرے بچے اسی کو ہوتی ہے جس نے نو ماہ پیٹ میں رکھ کر تکلیف سے جنا ہوتا ہے!‘‘
’’تمہیں تو پتا ہے ماں آج کل اس کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ لیڈی ڈاکٹر نے آرام کا مشورہ دیا ہے۔‘‘ اس نے بیوی کا دفاع کیا۔
’’بس بس! رہنے دے یہ چونچلے۔ انوکھا بچہ نہیں جننے لگی!‘‘
وہ باورچی خانے کا رُخ کرتے ہوئے تلخی سے بولی۔
’’میں نے روٹی نہیں کھانی۔ دوست کے ساتھ کھا لی تھی۔‘‘ صادقے نے اسے منع کیا۔
’’سچ کہہ رہا ہے؟‘‘ ماں نے اسے شبہ بھری نظروں سے دیکھا۔
’’ہاں ماں۔ تیری قسم۔‘‘
اس نے یقین دلایا تو ماں رک گئی۔
کمرے سے پروین کی کھانسی کی آواز بلند ہونے لگی تھی۔ اس میں پوشیدہ تنبیہ کو بھانپ کر صادقا اٹھ کھڑا ہوا اور جمائی لیتے ہوئے بولا۔
’’اچھا ماں! میں اب آرام کرتا ہوں۔ سخت نیند آ رہی ہے۔‘‘
وہ کمرے میں داخل ہوا تو بیوی منہ پھلائے بیٹھی نظر آئی۔ اسے یہ رنج تھا کہ صادقا جو صبح ماں کے سامنے سانپ بن کر پھنکار رہا تھا، رات پڑتے ہی کیچوا کیوں بن گیا تھا؟ اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے اسے ہزار جتن کرنے پڑے۔ خدا خدا کر کے اس معاملے سے گلو خلاصی ہوئی تو وہ پسینے میں بھیگی ہوئی قمیص اتار کر سونے کے لیے لیٹ گیا۔ چند لمحوں بعد اس کے خراٹے کمرے میں گونجنے لگے۔
ابھی سورج کا انار چھوٹے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ساس بہو کے درمیان پھر جھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔ صادقے کی نیند اچاٹ ہو گئی۔ بے بسی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے رب کریم سے فریاد کی۔
’’مولا! تو ہی انہیں ہدایت دے۔ میرے سمجھانے کا تو ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا!‘‘
کچھ دیر وہ یونہی کسل مندی سے کروٹیں بدلتا رہا۔ جب فطری تقاضے نے مجبور کیا تو چار پائی کے نیچے پڑی سوفٹی چپل پاؤں میں اڑس کر باہر نکلا۔ اسے دیکھ کر دونوں نے مصلحتاً سیز فائر کر لیا۔ وہ انہیں قہر آلود نگاہوں سے گھورتا ہوا سیڑھیوں کے نیچے بنی تنگ سی لیٹرین میں گھس گیا مگر دھیان ادھر ہی تھا۔ جملہ فطری مراحل کے دوران بھی مسلسل اصلی و نقلی کھانسی کا غلغلہ بلند کر کے گوش بر آواز ہونے کا تاثر دیتا رہا۔ لیٹرین سے نکل کر اس نے چارپائی کھرے کے سامنے کھڑی کی اور اس پر بستر کی میلی چادر ڈال کر عارضی غسل خانہ تیار کیا۔ پھر دستی نلکے کے نیچے نہانے بیٹھ گیا۔ اس دوران پروین نے دھلی ہوئی شلوار میں ازار بند ڈالا اور اسے چارپائی پر لٹکا کر ناشتہ بنانے کی غرض سے باورچی خانے میں چلی گئی۔ جب صادقا نہا دھو کر پیڑھی پر آ بیٹھا تو اس نے توے سے پراٹھا چنگیر میں اتارا اور اس پر آم کا اچار ڈال کر خاوند کے سامنے رکھا۔ وہ خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔ چائے کا پیالہ پی کر جب اٹھنے لگا تو پروین نے پوچھا:
’’دوپہر کے لئے ایک پراٹھا ساتھ نہ باندھ دوں؟‘‘
’’ہے تو باندھ دے۔‘‘
’’ہے کیوں نہیں۔‘‘
وہ بڑی اپنائیت سے بولی تو صادقے نے اسے غور سے دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے پوچھا
’’پینو! یہ بتا، تمھیں مجھ سے کتنی محبت ہے؟‘‘
’’ یہ تُو کیوں پوچھ رہا ہے، آج؟‘‘ وہ اچھنبے سے بولی۔
’’پوچھنا ضروری ہے۔‘‘ وہ یاس بھرے لہجے میں کہنے لگا ’’میرا خیال ہے جس عورت کو اپنے خاوند سے واقعی محبت ہوتی ہے۔ اسے ہر وقت احساس رہتا ہے کہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے خاوند پریشان ہو۔‘‘
’’تو میں نے کیا کیا ہے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
صادقے نے گہری سانس لی۔ ’’ماں سے آڈا نہ لگایا کر۔ بزرگوں کو نہیں سمجھایا جا سکتا۔ کم از کم تو ہی احساس کر لے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اپنے سائیکل کی طرف بڑھا اور اسے کپڑے سے صاف کرنے لگا۔ پروین خاموشی سے کھانا باندھنے لگی۔ مگر وہ اندر ہی اندر اس نصیحت پر پیچ و تاب کھا رہی تھی۔
ماں کو حوائج ضروریہ نے منظر سے وقتی طور پر غائب کر دیا تھا۔ صادقا سائیکل لے کر باہر نکلا تو وہ فراغت پا کر باورچی خانے کی طرف بڑھی۔ بہو نے اس کے لئے ناشتہ بنانے کی زحمت گوارا نہیں کی اور اپنا ناشتہ لے کر کمرے میں چلی گئی تھی۔ خالی چنگیر اور چائے کا خالی پتیلا دیکھ کر اس کا پارہ چڑھ گیا:
’’میں تمھیں اس لئے بہو بنا کر نہیں لائی تھی کہ تو رانی بن کر رہے، اور میرا پُتر تیری ناز برداریوں میں لگا رہے۔۔۔‘‘
’’نی بڈھیئے پھاپھا کٹنیئے! میرا خاوند میری ناز برداریاں کیوں نہ کرے۔ تم نے کبھی اپنے خصم سے ناز برداریاں نہیں کروائی تھیں۔ آخر تمہیں ساڑا کس بات کا ہے، مجھ سے جلتی کیوں ہو؟‘‘ بہو نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’تجھ سے جلتی ہے میری جوتی! حرام زادیے، تیری بے جا فرمائشوں کی وجہ سے وہ روز بارہ بارہ، چودہ چودہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ صحت دیکھی ہے اس کی؟ نچوڑا ہوا نمبو لگنے لگا ہے۔ یہ دیکھ۔ رحم کر اس پر۔۔۔‘‘ ساس نے تالی بجانے کے انداز میں ہاتھ جوڑے۔
’’جب شادی ہوئی تھی، اس وقت بھی کوئی شہزادہ گل فام نہیں تھا۔‘‘ بہو نے ہاتھ نچائے۔
’’جب اس کے چونچ جیسے منہ پر چار لڑیوں کا سہرا ڈال کر، تم اس کی بارات لائی تھیں تو سہیلیوں نے جو مخول کئے تھے وہ میں جانتی ہوں یا میرا خدا۔ تیلا، سوکھا گنا اور پتہ نہیں کیا کیا نام رکھے تھے سب نے۔‘‘
’’تو نہیں بیٹھنا تھا ناں ڈولی میں۔ ماں سے کہنا تھا کہ تجھے کوئی رس دار گنا ڈھونڈ دے۔۔۔‘‘
’’دیکھ، دیکھ۔ میری ماں بہشتن تک نہ پہنچ۔‘‘
’’بہشتن! سبحان اللہ! جیسی تو بہشتن ہے، ویسی ہی وہ بھی ہو گی۔ دن بھر چڈّے کھلار کر چار پائی پر پڑے رہنا تیری گھٹی میں داخل ہے۔ وضو نہ غسل، نماز نہ روزہ۔ گندی، بے شہرتی!‘‘
’’تو ہے گندی! تو ہے بے شہرتی اور بے غیرت! بیٹے اور بہو کے غسلوں کا حساب رکھنے والی! تو نے میرا منہ کھلوا ہی دیا ہے تو پھر سنیں گوانڈنیں۔۔۔‘‘
وہ دونوں اطراف دیواروں کے ساتھ چارپائیاں کھڑی کر کے، لڑائی کا تماشا دیکھنے والی ہمسائیوں سے مخاطب ہوئی۔
’’نی اڑیو! یہ عورت میری ساس نہیں سوکن ہے! ہم میاں بیوی جب کمرے کی کنڈی لگا کر، پنکھا چلا کر سوتے ہیں تو یہ مارے حسد کے باہر سے بجلی کا فیوز نکال دیتی ہے! اس سے کہو، اگر اس بڑھاپے میں بھی اس کے دل میں کوئی حسرت باقی رہ گئی ہے تو مجھے صادقے سے طلاق دلوا کر خود اس سے نکاح پڑھوا لے!‘‘
’’توبہ توبہ! یا اللہ توبہ!‘‘ کئی عورتوں نے بہو کی زبان درازی پر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے چارپائیوں سے چھلانگیں لگا دیں۔ ساس، بہو کے اس وار کی تاب نہ لا سکی اور غش کھا کر گر پڑی۔ مودے کوچوان کی بیوی جو ان کے دروازے کا ٹاٹ پکڑے کھڑی تھی، اسے گرتے دیکھ کر چلائی:
’’ہائے میں مر گئی! نی گشتیو، نٹھ کے آؤ۔ ماسی سکینہ نوں کج ہو گیا جے!‘‘
ہمسائیاں دوڑی آئیں۔ انہوں نے اسے اٹھا کر چار پائی پر ڈالا اور چمچ سے منہ میں پانی ڈالنے لگیں۔ مگر اسے ایسا دندل پڑا کہ کھلنے ہی میں نہیں آ رہا تھا۔ مودے کوچوان کی بیوی نے بستی کے واحد ’’ ڈاکٹر‘‘ جھجے کمپاونڈر کی طرف بچہ دوڑایا۔ گلی کی نکڑ پر اس کا کلینک تھا۔ وہ فوراً آ پہنچا۔ اس کی مساعی سے آدھے گھنٹے کے اندر صادقے کی ماں کی طبیعت بحال ہو گئی۔ کلینک لوٹتے ہوئے بزرگ کمپاؤنڈر نے ساس اور بہو دونوں کو نصیحت کی۔
’’ نیک بختو! لڑائی جھگڑا چھوڑ دو۔ تم دونوں کی چپقلش بازی سے صادقا اعصابی مریض بنتا جا رہا ہے۔ جب بھی مجھ سے ملتا ہے، کوئی سکون آور گولی مانگتا ہے۔ سوچو۔ اسے کچھ ہو گیا تو تم دونوں کا کیا بنے گا؟‘‘
رات ہوئی اور صادقا واپس آیا تو گلی میں لکن میٹی کھیلنے والے بچوں نے اسے سب کچھ بتا دیا۔ اس نے غصے میں آ کر بیوی کو پیٹ ڈالا۔ صبح سویرے وہ روٹھ کر میکے چلی گئی۔ ساس نے برملا اظہارِ مسرت کیا کہ اچھا ہے خود ہی دفع ہو گئی ہے۔ اب میں صادقے کے لئے نئی دلہن لاؤں گی اور اس کو پکا کاغذ بھجواؤں گی۔
صادقا چند روز تو غصے میں بپھرا پھرتا رہا، مگر آہستہ آہستہ اس کے غضب کا لاوا ٹھنڈا پڑ گیا۔ بیوی کے بغیر گھر اسے سونا سونا لگتا۔ خالی بستر بچھو کی طرح کاٹتا۔ وہ اسے منا کر واپس لانا چاہتا تھا مگر ماں کے سامنے اظہار کرتے ڈرتا تھا۔ ایک روز ہمت کر کے مدعا زبان پر لایا ہی تھا کہ ماں نے سر پیٹ ڈالا۔
’’پھر اس بد ذات کے عشق کا بھوت تیرے سر پر چڑھ بیٹھا ہے؟ میرے لئے اس گشتی نے اتنی گندی زبان استعمال کی۔ اس کے بعد بھی تم اسے بسانا چاہتے ہو؟ یاد رکھو۔ اب وہ یہاں رہے گی یا میں۔ اگر تم اسے واپس لائے، تو میں یہ گھر چھوڑ کر کہیں چلی جاؤں گی!‘‘
’’کیسی باتیں کر رہی ہو ماں۔ گھر چھوڑ کر جائیں تمہارے دشمن۔‘‘
’’آمین۔۔۔!‘‘ ماں کے لبوں پر زہریلی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
صادقے کی ہنسی چھوٹ گئی۔
’’پتہ نہیں۔ تم نے اس نمانی کو اپنا دشمن کیوں سمجھ لیا ہے؟‘‘
’’وہ نمانی نہیں، بڑی کتی چیز ہے۔ سائیں کالے سے ٹونہ کرواتی رہی ہے کہ تم مجھ سے جدا ہو جاؤ۔ میں کس طرح یہ حرکت برداشت کر سکتی ہوں۔۔۔؟‘‘
’’اگر اس نے واقعی ٹونہ کروایا تھا تو میں تم سے جدا کیوں نہیں ہوا؟‘‘ صادقے نے بھنویں اچکائیں۔
’’میں نے جوابی ٹونہ جو کروایا تھا۔۔۔‘‘
’’ چلو حساب برابر ہو گیا! اب یہ قصہ ختم کرو۔‘‘ اس نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’یہ قصہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہو سکتا‘‘۔ ماں نے گہری سانس لی ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس گھر میں میرا وجود برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ سمجھتی ہے، اب تم پر میرا کوئی حق باقی نہیں رہا۔ سارے حق اسی کے ہیں۔‘‘
’’نہیں نہیں دونوں کا برابر کا حق ہے۔۔۔‘‘ صادقا جھجے کمپاؤنڈر سے سنے ہوئے جملے تھیٹر کے کسی ایکٹر کی طرح دہرانے لگا۔۔۔ ’’تم دونوں کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ تمھیں اپنا اپنا حق ایک ہی چھت کے نیچے اکٹھے رہ کر حاصل کرنا ہے۔ میں اپنے آپ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے سے تو رہا کہ ایک کے ساتھ تم رہو اور دوسرے کے ساتھ میری بیوی‘‘۔
اس نے قدرے توقف کیا اور لجاجت سے بولا:
’’ماں! میں چاہتا ہوں کہ تو پینو کو معاف کرد ے۔ مجھے یقین ہے مہینہ بھر باپ کے در پر پڑے رہنے سے اس کی عقل ٹھکانے آ گئی ہو گی۔‘‘
’’اس طرح سے تو میں اسے معاف نہیں کروں گی۔ اسے گوانڈنوں کے سامنے مجھ سے معافی مانگنا ہو گی۔۔۔‘‘ ماں نے نتھنے پھیلائے۔
’’ اچھا میں اسے کہوں گا کہ تم سے معافی مانگے۔۔۔‘‘ صادقے نے یقین دہانی کروائی۔
تھوڑی بحث و تکرار اورمنت سماجت کے بعد ماں مان گئی۔ اسی شام صادقا سسرال گیا اور بیوی کو منا کر لے آیا۔ اگلے دن کا بیشتر حصہ دونوں عورتوں کے مابین گلے شکوے دُور کرانے میں گزرا۔ ماں کی خواہش کے مطابق معافی تلافی بھی ہو گئی۔ جب جمعرات آئی تو صادقا داتا صاحبؒ کے مزار پر سلام کرنے گیا اور وہاں گڑ گڑا کر دعا مانگی کہ آئندہ اس کی ماں اور بیوی میں کبھی جھگڑا نہ ہو۔ لڑائی کے تصور ہی سے اس کے دل میں ہول اٹھنے لگتا تھا۔
دعا کی برکت سے چند دن امن سے گزرے گئے۔ مگر پھر ایک روز ساس بہو میں ایسی زور دار لڑائی ہوئی کہ سارا محلّہ اکٹھا ہو گیا۔ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئیں اور ایک دوسری کے بال نوچ ڈالے۔ اس روز صادقے کی طبیعت ناساز تھی اور وہ گھر پر ہی تھا۔ ماں اور بیوی کو باہم دست و گریباں دیکھ کر وہ ایسا دل گرفتہ ہوا کہ خاموشی سے باہر نکلا اور شنٹنگ کرتے ہوئے انجن کے سامنے چھلانگ لگا دی۔ تیز رفتار انجن کے بے رحم پہیوں نے اس کے جسم کے دو ٹکڑے کر دئیے۔
’’صادقے نے خود کشی کر لی، صادقے نے خود کشی کر لی۔۔۔‘‘ ایک عینی شاہد زور سے چلُّایا۔
عورتیں، مرد، بچے سب ریلوے لائن کی طرف دوڑ پڑے۔ ان میں صادقے کی ماں اور بیوی بھی شامل تھیں۔ جب دونوں نے اس کی کٹی ہوئی لاش دیکھی تو سینہ کوبی کرنے لگیں۔
’’اب کیوں روتی ہو؟‘‘ جھجا کمپاؤنڈر گلو گیر آواز میں بولا۔۔۔‘‘
’’اُٹھا لو آدھا آدھا۔۔‘‘
٭٭٭