میں بہت رنجیدہ تھا۔ باس سے دفتری معاملہ پر معمولی سی تکرار ہوئی تھی جس کی پاداش میں اس نے میرا تبادلہ مری سے ملتان کر یا تھا۔ میری کیفیت اس شخص کی سی تھی جسے جنت سے دیس نکالا دے کر جہنم میں جھونکا جا رہا ہو۔
میں گذشتہ پانچ سال سے مری میں تعینات تھا۔ ملکۂ کوہسار اور گلیات سے مجھے عشق تھا۔ یہاں کے سربلند پہاڑ، ان کے سینے پر سر رکھ کر سوئی ہوئی سڑکیں، چیل اور دیودار کے گھنے جنگل اور ان سے سرگوشیاں کرتے سرمئی بادل میرے من کو بھا گئے تھے۔ یہاں کا خوبصورت رومان پرور موسم مجھے افسانہ لکھنے پر اُکساتا تھا۔ پی سی بھوربن کی کافی شاپ میں کسی ہمدم دیرینہ کے ساتھ بیٹھ کر کافی پینا، کلب سینڈوچ کھانا اور دنیا بھر کے ادب پر گفتگو کرنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ وہاں مناف جیسے مصور نے بھی ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ وہاں آنے والے سیاحوں کی فرمائش پر وہ ان کے چار کول سکیچ منٹوں میں سکالٹر شیٹ پر بناتا اور خاصے نوٹ اور داد سمیٹتا تھا۔ ادھر پر ہجوم مال پر بہتا زندگی کا دھارا، بے فکرے نوجوانوں کی ہلڑ بازیاں، نوخیز لڑکیوں کی جھینپی جھینپی مسکراہٹیں، جہاں دیدہ عورتوں کی ملامت آمیز گھوریاں، سڑک پر سرکتی ہوئی بادلوں کی مہین چادر اور اس کے پلو سے بندھی محبتوں کی کہانیاں، سب کچھ کتنا اچھا اور دل فریب تھا۔ میں نے دل ہی دل میں ہمیشہ کے لیے اس شہر میں بس جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ چنانچہ جب میرے زود رنج اور سخت گیر باس نے یہ ستم ڈھایا تو میں بلبلا اُٹھا۔
میں نے بڑے ہاتھ پاؤں مارے، اپنے مزاج کے برخلاف باس سے معذرت تک کی، چند سینئرز سے سفارش بھی کروائی مگر سنگ دل شخص کا ذرا دل نہ پسیجا۔ آخر حضور والا کا سالا بروئے کار آیا۔ اس کی جانب سے یہ مژدۂ جاں فزا سننے کو ملا کہ بھائی جان نے مشروط آمادگی ظاہر کی ہے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ وہاں چلا جائے، چارج لے لے، جلد ہی واپس بلا لوں گا۔
موت سامنے نظر آ رہی ہو تو انسان بخار پر راضی ہو جاتا ہے۔
میں مہینہ بھر بعد واپسی کی اُمید پر ملتان جانے کی تیاری کرنے لگا۔
جاتے ہوئے اہلیہ اور بچوں کو ان کے ننھیال میں چھوڑنا تھا۔ وہ گڑھی شاہو میں رہتے ہیں۔ قریب ہی نہر کے پاس دھرم پورہ میں نور والوں کا ڈیرہ ہے۔ میں گاہے وہاں حاضری دیتا ہوں۔ بابا جی فضل شاہ صاحبؒ یہاں آرام فرما رہے ہیں۔ ان کو سلام کرنے جاتا ہوں۔ عصر کے بعد وہاں گیا۔ دل کا حال ابھی کہا نہیں تھا کہ کسی نے کان میں سرگوشی کی:
’’شہر تو لوگوں سے ہوتے ہیں۔‘‘
پلٹ کر دیکھا۔ میں وہاں اکیلا کھڑا تھا۔ آس پاس کوئی نہیں تھا۔ فاتحہ کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور لب سی کر چلا آیا۔
چہار تحفہ است از ملتان، گرد، گرما، گدا و گورستان۔ یہ کہاوت جیسی سنی تھی، پہلی نظر میں شہر کو میں نے ویسا ہی پایا۔ خیبر میل سہ پہر کے وقت ملتان پہنچی تھی۔ پھر بھی اس بلا کی گرمی تھی کہ چیل انڈا چھوڑ دے۔ ایئر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ سے باہر قدم رکھا تو سر چکرا گیا۔ ایک قلی نے میرا بیگ جھپٹ لیا۔ اس کے تعاقب میں مجھے تیز چلنا پڑا۔ سٹیشن کی عمارت سے باہر نکلا تو چلچلاتی دھُوپ میں دھُواں اُگلتے رکشوں کا شور طبیعت پر مزید ستم ڈھانے لگا۔ ہر رکشا ڈرائیور سواری بٹھانے میں دوسروں سے سبقت لے جانے میں کوشاں تھا، مگر من مانے کرائے پر۔ دو تین میری جانب بھی لپکے، مگر وہ جو کرایہ طلب کر رہے تھے، میری دانست میں یکسر ناجائز تھا۔ اس لیے میں نے معذرت کر لی۔
چند قدم دُور درختوں کے نیچے ایک رکشا سب سے الگ تھلگ کھڑا تھا۔ میرے قدم خودبخود اُس کی جانب اُٹھ گئے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر ایک دھان پان سا باریش بابا بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے سلیٹی رنگ کی چار خانے کی دھوتی اور ململ کا سفید کرتا پہن رکھا تھا، جو پسینے میں بھیگ کر اس کے استخوانی بدن سے چپکا ہوا تھا۔ اس کے سر پر سفید رنگ کا ڈھیلا صافہ تھا۔ پاؤں میں پلاسٹک کی سوفٹی چپل۔ اردگرد کے ماحول سے اس کی بے نیازی دیکھ کر میں مخمصے میں پڑ گیا کہ رکشا اس کا ہے بھی یا نہیں؟ اور اگر ہے تو شاید گرمی یا کسی اور وجہ سے وہ سواری بٹھانے کے موڈ میں نہیں۔ میں نے جھجکتے ہوئے سوال کیا:
’’بابا! فورٹ کالونی چلیں گے؟‘‘
’’انشاء اللہ ضرور چلیں گے۔ نوکری جو کرنی ہے۔ جدھر کوئی کہتا ہے چل دیتے ہیں۔‘‘
اس نے ہشاش بشاش لہجے میں جواب دیا۔
’’کرایہ کیا لیں گے؟‘‘
’’جو آپ کا دل چاہے دے دینا‘‘
میں نے سوچا، بابا انہی روایتی رکشا ڈرائیوروں میں سے ہے، جو سواری سے زیادہ کرایہ بٹورنے کے لیے اس قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ منزل پر پہنچ کر سواری اخلاقی دباؤ میں نہ آئے اور ان کی توقع کے مطابق کرایہ ادا نہ کرے تو جھگڑنے لگتے ہیں۔ بہتر ہے پیشگی کرایہ طے کر لیا جائے۔
’’نہیں۔ آپ کرایہ بتا دیں۔‘‘
’’سرکار کہہ جو دیا، جتنا دل ہوا اتنا دے دینا۔ میں نے جھگڑا تھوڑی کرنا ہے۔‘‘
’’اچھا، میں تو پھر پچیس روپے دوں گا۔ آپ لے لیں گے؟‘‘
میں نے تنک کر کہا۔ مجھے معلوم تھا کہ فورٹ کالونی تک جائز کرایہ پچاس روپے بنتا ہے۔ میں تو محض اُسے زیر کرنا چاہتا تھا۔ مگر توقع کے برعکس اس نے مجھے چاروں شانے چت کر دیا۔
’’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اتنا ہی کرایہ بنتا ہے تو پھر پچیس بھی ٹھیک ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں بیٹھ تو گیا مگر کچھ شرمندہ سا تھا۔ میرا ضمیر مجھے کچوکے لگا رہا تھا کہ میں نے خواہ مخواہ اس غریب کے پچیس روپے مار لیے ہیں۔
بابے نے جب رکشا چلایا ہے تو مجھے یوں لگا جیسے میں پھولوں کے ہنڈولے میں ہوں، جو ہوا کے دوش پر اُڑا چلا جا رہا ہے۔ سڑک جگہ جگہ سے اُدھڑی ہوئی تھی مگر مجھے کوئی دھکا لگ رہا تھا، نہ جھٹکا۔ اس کا رکشا عام رکشوں کی نسبت خاصا آرام دہ تھا۔ علاوہ ازیں عقبی شیشے کے ساتھ اس نے موتیا کے ہار لٹکا رکھے تھے، جس کے سبب رکشے کی اندرونی فضا معطر اور خوشگوار ہو گئی تھی۔۔۔ وہ خود بھی ہشاش بشاش دکھائی دے رہا تھا اور زیرلب نعت شریف گنگناتے ہوئے رکشا چلا رہا تھا۔ میرے جی کا ملال پہلے سے سوا ہوا جا رہا تھا۔ جب مجھ سے یہ بوجھ سہارنا مشکل ہو گیا تو میں نے آگے ہو کر اُسے مخاطب کیا:
’’بابا جی! ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’ضرور پوچھیں۔‘‘
اس نے عقبی شیشے سے میری آنکھوں میں جھانکا۔
’’باقی رکشا والے پینسٹھ، ستر کی بات کر رہے تھے۔ میں نے پچیس روپے کہے، آپ پھر بھی مان گئے۔ کس بات نے آپ کو میری بات ماننے پر مجبور کیا؟‘‘
وہ مسکرایا۔
’’صوفی صاحب! سارا کھیل ہی ماننے اور منوانے کا ہے۔ آدمی مان لے یا منوا لے۔ جہاں منوانے کی پوزیشن نہ ہو وہاں مان جانا بہتر ہوتا ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر لمحہ بھر کے لیے میرا پورا وجود سُن ہو گیا۔ میں گنگ اور دم بخود تھا۔
’’کس طرف مڑنا ہے؟‘‘
اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ دیکھا تو رکشا فورٹ کالونی کے مرکزی گیٹ پر پہنچ چکا تھا۔
میں نے ہاتھ سے دائیں جانب اشارہ کر دیا۔
پھر میں اسے کبھی بائیں، کبھی دائیں موڑتا رہا اور وہ بلا حجت تعمیل کرتا رہا یہاں تک کہ میری رہائش گاہ آ گئی۔
’’بابا جی ایک چھوٹی سی عرض کرنی ہے۔‘‘
نیچے اُتر کے میں نے لجاجت سے کہا۔
’’اگر آپ مان لیں تو مجھے خوشی ہو گی۔‘‘
میرے دل پر پڑنے والا بار اور احساسِ ندامت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ’’نہیں سرکار! آپ افسر لوگ ہیں۔ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے۔ جائیں اپنا وقت بچائیں۔ ہم نے تو نوکری کرنی ہے۔ ابھی آپ کی، کی ہے۔ اب کسی اور کی کریں گے۔‘‘
میرے پیہم اصرار پر کہ سامنے گھنا سایہ دار دخت ہے، چند منٹ کے لیے سستا لیں اور ٹھنڈا پانی پی لیں، وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔
’’یہ تو کرائے میں نہیں مُکا تھا۔‘‘
’’بالکل! یہ واقعی ہمارے درمیان طے نہیں ہوا تھا۔ مگر آپ مان لیں گے تو آپ کی مہربانی ہو گی۔ یوں بھی حدیث ہے کہ کسی کی دعوت ردّ نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
’’شریعت دی اڑنگی توں چنگی لا لینا اے۔‘‘
اس نے خوش دلی سے کہا اور رکشے سے نیچے اُتر آیا۔
اردلی رکشا کی آواز سن کر باہر آ گیا تھا۔ میں نے اسے دو کرسیاں لانے اور شربت بنانے کی ہدایت کی۔
جب ہم بیٹھ گئے تو میں نے کہا:
’’بابا جی! ماننے اور منانے کا گُر کہاں سے ہاتھ آیا؟‘‘
’’اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔‘‘
اس نے آہ بھری۔
’’شور کوٹ میں ایک بزرگ ہیں۔‘‘
’’حیات ہیں یا وصال فرما گئے؟‘‘
’’وصال ہو یا حیات، فقیروں کے لیے ایک ہی بات ہے۔
مرشد سدا حیاتی باہو
اوہو خضر خوازہ ہو
’’وہ شور کوٹ میں ہیں۔ ان کی عمر سو سال ہے۔‘‘
’’کیا اُنہوں نے ڈیوٹی لگائی ہے، اتنی گرمی میں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ وہ مسکرایا: ’’سائیں کی بات ماننے کا اپنا ہی لُطف ہے۔ اُنہوں نے حکم فرمایا تھا کہ ملتان بہت پیاری جگہ ہے۔ اولیاء اللہ کا شہر ہے۔ وہاں جا کر لوگوں کی خدمت کرو۔ کوئی جو دے، لے لو۔ تکرار نہ کرو۔ اقرار کو اختیار کرو۔ تکرار اور انکار سے ابلیس اور اقرار سے انسان بنتا ہے۔‘‘
میرا وجود ایک بار پھر سُن ہو گیا۔
’’۔۔۔ تب سے کوشش کر رہا ہوں کہ سائیں سے کیا ہوا وعدہ پورا کر سکوں۔ صوفی صاحب دُعا کریں کہ ثابت قدم رہوں۔ وعدہ نبھا سکوں۔‘‘
مجھے گم صم دیکھ کر اس نے میرا گھٹنا دبایا اور کہنے لگا:
’’صوفی صاحب! میری گٹھڑی تو آپ نے کھلوا لی۔ پھولوں کی ڈالی اُٹھائے پھرتے ہو، ہمیں بھی تو اس کی زیارت کرواؤ۔‘‘
میں نے بابا فضل شاہؒ کی چند باتیں اُسے سنائیں تو وہ آبدیدہ ہو گیا۔
پھر اس نے حضرت سلطان باہوؒ کے یہ اشعار ترنم سے سنائے اور مجھے بھی رُلا ڈالا:
الف اللہ چنبے دی بوٹی، مرشد من وِچ لائی ہُو
نفی اثبات دا پانی ملیس، ہر رگے ہر جائی ہُو
اندر بوٹی مُشک مچایا، جاں پھلاں پر آئی ہُو
چر جگ جیوے مرشد باہو، جیں بوٹی من لائی ہو
جب ہم اس کلام کے سحر اور سرور سے باہر نکلے تو وہ مجھ سے پوچھنے لگا:
’’صوفی صاحب کیسی گزر رہی ہے؟‘‘ نہ میں سیر نہ پا چھٹاکی، نہ پوری سرسائی ہُو
نہ میں تولا نہ میں ماشا، گل رتیاں تے آئی ہُو
’’ہاں! سب اس کے فضل کے محتاج ہیں۔۔۔ سبھی!‘‘
اس نے آہ بھری۔ پھر رمزیہ انداز میں پوچھا۔
’’یہ پکا ٹھکانا ہے یا مہمان ہو؟‘‘
’’مہمان تو ہم سبھی ہیں۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے رُکے ہیں۔ میں شاید زیادہ دیر رُکوں۔‘‘
’’کہاں کے ارادے ہیں؟‘‘
چل بھلیا چل اوتھے چلیے جتھے لوکی سارے انھّے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے، نہ کوئی ساہنوں منّے
اس نے شعر کا دوسرا مصرعہ دہرا دیا۔ پھر ٹھنڈی سانس لے کر اُٹھ کھڑا ہوا:
’’اچھا صوفی صاحب! اب اجازت دیں، ہمارے اور تمہارے بچھڑنے کا ویلا ہو گیا ہے۔ مجھے کسی اور کا بوجھ اُٹھایا ہے اور آپ کو اپنے بال بچوں کی نوکری کرنی ہے۔‘‘
میں نے بٹوے سے پچاس کا نوٹ نکال کر اس کی جانب بڑھایا۔
’’ٹھنڈے درخت کے نیچے بٹھایا، ساہ کڈھایا اور لال شربت (روح افزا) بھی پلایا اور اب دگنے پیسے۔ آپ نے تو پچیس کا وعدہ کیا تھا؟‘‘
’’بابا جی، پہلے بھی آپ نے مانی ہے، اب بھی مان جائیں۔ مجھے منوانے کی عادت ہے، آپ کو مان جانے کی۔‘‘
’’چلو پھر بھی شکر ہے، آپ کو منوانے کا وَل تو آتا ہے۔‘‘
وہ ہنستے ہوئے بولا۔
اس کے بعد ہم بے اختیار بغل گیر ہو گئے۔ میری بانہوں کے حصار میں ہڈیوں کا ڈھانچا تھا، ہلکا پھلکا۔ میں نے اسے خود سے الگ کر کے بڑی عزت سے رکشے میں بٹھایا۔
اس نے رکشا سٹارٹ کیا تو میں نے پوچھا۔
’’آپ کا رات کا ٹھکانا کہاں ہے؟‘‘
’’ریلوے سٹیشن کے قریب میدان میں تپڑی واسوں کی جھگیاں ہیں، ان میں ایک جھگی کے باہر میرا رکشا بھی کھڑا ہوتا ہے۔‘‘
’’وہاں آؤں تو کیا نام لے کر پوچھوں؟‘‘
’’پوچھنا کہ بابا رکشے والا کہاں ہے، نشان دہی ہو جائے گی۔‘‘
’’وہ جانے لگا تو دل ایک دم اُمنڈا کہ وہ نہ جائے۔ میں نے بے اختیار ہاتھ کا اشارہ کیا تو رکشا ٹھہر گیا۔
’’کیا کوئی اُدھار باقی ہے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ بس پوچھنا تھا کہ وہاں ڈیرہ لگانے کا یہی سبب ہے ناں کہ بقدرِ ضرورت کھا لیا کہ یہ ڈھانچا چلتا پھرتا رہے۔۔۔ جو بچ رہا تپڑی واسوں کے بچوں کو کھلا دیا، موج کرا دی۔۔۔؟‘‘
اس کے لبوں پر مخصوص مسکراہٹ پھیل گئی۔ منہ سے کچھ نہیں کہا۔ پھر رکشا ہوا ہو گیا۔
جب میں پلٹا تو سرشار تھا۔ یکایک مجھے یوں لگا جیسے لُو کے تھپیڑے، بادِ بہاری کا رُوپ دھارنے لگے ہیں۔ دھرتی پر ابر سایہ فگن ہے اور دھوپ کی تمازت راحت بخش چھاؤں میں بدل گئی ہے۔ ملتان مری بن گیا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر بہار آفریں ہو گیا ہے۔ میں ایسے شہر کو چھوڑ کر واپس کیسے جا سکتا تھا؟
٭٭٭