نیا سال بھی دبے پاؤں گزرتاجا رہا تھا مگر سردار کی یورپ یاترا سے واپسی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ اس کی عدیم الفرصتی کے سبب قبیلے کی بیسیوں کنواریاں، بیاہ کے انتظار میں بابل کی دہلیز پر بیٹھی، لو کی ماری امبیوں کی طرح پیلی پڑ رہی تھیں۔ سبھی چپکے چپکے شہید بابا کی زیارت پر جا کر اشک بار آنکھوں سے دعائیں مانگتیں کہ سردار جلدی لوٹ آئے تاکہ ان کی دلی مرادیں بر آنے کی صورت پیدا ہو۔
بارگاہ ایزدی میں سب سے زیادہ عرضیاں بابا بالاچ کی پوتی حجی نے ڈالی تھیں جسے پُنل سے ایسی محبت تھی جیسی چکوری کو چاند سے اور تتلی کو پھول سے ہوتی ہے۔ دونوں کے والدین ان کے سنجوگ پر آمادہ تھے۔ بس سردار کی آمد کا انتظار تھا جسے ڈالی پیش کئے بغیر قبیلے کی کسی کنواری کے ہاتھ پیلے نہیں کئے جا سکتے تھے۔
خدا خدا کر کے وہ مبارک دن طلوع ہوا تو شادی کی امیدوار دوشیزاؤں کے رخساروں پر شفق کی لالی جھلکنے لگی۔ حجی پر تو شادئ مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ پُنل سامنے ہوتا تو وہ خوشی سے دیوانی ہو کر اس کی گردن میں جھول جاتی مگر وہ گاؤں سے بہت دُور کسی نامعلوم مقام پر تھا۔ دونوں نے کئی ماہ سے ایک دوسرے کی صورت نہیں دیکھی تھی۔
اس روز گاؤں میں میلے کا سماں تھا۔ چہار اطراف سے قبائلی مرد، عورتیں اوربچے روایتی ملبوسات زیب تن کئے ٹریکٹر ٹرالیوں، اونٹوں اور خچروں پر سوار ہنستے گاتے چلے آ رہے تھے۔ جن کے گھر زیادہ دُور نہیں تھے وہ پا پیادہ پہنچ رہے تھے۔ الغوزے کی دھن اور ڈھولک کی تال پر رقص جاری تھا۔ کچھ لوگ کلا شنکوفوں سے ہوائی فائرنگ کر کے مسرت کا اظہار کر رہے تھے۔ تقریب کے لئے سردار کی حویلی کے سامنے کھلے میدان میں شامیانے اور قناتیں لگا کرکشادہ پنڈال سجایا گیا تھا۔ عام شرکاء کے لئے فرشی نشست اور عمائدین کے لئے اطراف میں کرسیوں کا انتظام تھا، جبکہ سردار کی خاطر ایک چبوترے پر سُرخ غالیچہ بچھا کر آرام دہ مخملیں منقش کرسی رکھی گئی تھی۔ شادی کی امیدوار کنواریاں گھونگٹ نکالے، اپنے والدین یا سرپرستوں کے ساتھ، چبوترے کے عین سامنے دو قطاروں میں سمٹ کر بیٹھی تھیں۔ ان کے دل انجانے اندیشوں اور وسوسوں سے دھک دھک کر رہے تھے۔
طویل انتظار کے بعد سردار کی آمد کا غلغلہ بلند ہوا۔ ہٹو بچو کی صداؤں اور مسلح محافظوں کے جلو میں شاندار پوشاک میں ملبوس وجیہہ اور با رعب سردار اپنی نشست پر جلوہ افروز ہوا تو منتظم نے تقریب کے باقاعدہ آغاز کی اجازت طلب کی۔ سردار نے با وقار انداز میں سر کو خفیف سی جنبش دی۔
سب سے پہلے ایک نہایت خستہ حال بوڑھا، سانولے رنگ کی مدقوق سی لڑکی کا ہاتھ پکڑے سردار کے روبرو حاضر ہوا۔ لڑکی بری طرح سہمی ہوئی تھی اور تپ لرزاں کے مریض کی طرح کانپ رہی تھی۔ بوڑھے نے ڈرتے ڈرتے، ڈالی کا تھال آگے کیا۔ ایک واقف حال تند خو کارندہ، جو وصولی پر مامور تھا، مستعدی سے اٹھا اور تھال پر پڑا ہوا کپڑا ہٹا کر، نتھنے پھلاتا، اپنی جگہ واپس جا بیٹھا تاکہ سردار سو سوکے چند میلے نوٹوں اور چاندی کے پرانے زیورات پر مشتمل حقیرسا نذرانہ اچھی طرح دیکھ لے۔ مگر سردار نے خلاف توقع ڈالی پر سرسری نگاہ ڈالی اور تھال پر ہاتھ رکھ کر بطور برکت قبولیت کا عندیہ دے دیا۔ اتنی کم ڈالی پر آج تک کسی لڑکی کو براہ راست پیا گھر رخصتی کا پروانہ نہیں ملا تھا۔ اس مہربانی پر بوڑھے کا جھریوں بھرا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ اس نے اپنے استخوانی بازو آسمان کی طرف بلند کر کے پوپلے منہ سے سردار کو ڈھیروں دعائیں دیں اور بیٹی کو لے کر رخصت ہوا۔
اس کے بعد درجنوں ڈالیاں پیش کی گئیں۔ قبائلی اپنی حیثیت سے بڑھ کر نذرانے لائے تھے تاکہ سردار کو راضی کیا جا سکے۔ عام دستور یہ تھا کہ جن کی ڈالی معقول نہ ہوتی، سردار انہیں بیٹی کا گھونگٹ اٹھا کر چہرہ نمائی کا حکم دیتا۔ لڑکی اگر پسند آ جاتی تو وہ ڈالی چھوڑ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا۔ اس کا مفہوم یہ ہوتا تھا کہ جب لڑکی دلہن بنے گی تو اس کی شب زفاف سردار کی خواب گاہ میں گزرے گی۔
قبیلے کے سردارکا یہ مسلمہ حق صدیوں سے رائج چلا آ رہا تھا۔
آخر میں بابا بالاچ نے اپنی بیوہ بہو اور لاڈلی پوتی حجی کے ساتھ سردار کی خدمت میں حاضری دی۔ تھال میں رکھی ہوئی رقم اس کی استطاعت سے کہیں زیادہ تھی جسے وہ بھاری سود پر ساہوکار سے لایا تھا۔ اسے پوری امید تھی کہ سردار اس کی ڈالی بخوشی قبول کر لے گا۔ مگر سردار کی عقابی نگاہوں نے پردے میں چھپی حجی کا حسن تابناک تاڑ لیا۔ اب اس کے لئے ڈالی میں کوئی کشش باقی نہیں رہی تھی۔ اس نے اپنا بے پناہ اشتیاق آواز کی گھمبیرتا میں ملفوف کر کے، چہرہ نمائی کا حکم صادر کیا۔
بابا بالاچ کا منہ ایک ثانیے کے لئے اندھیری گھپا کی طرح کھلا اور پھر بند ہو گیا۔ ماں کا کلیجہ جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا۔ ایک اہلکار نے ڈپٹ کر سردار کا حکم دوہرایا تو وہ جیسے کسی ڈراؤنے خواب سے ہڑبڑا کر بیدار ہوئی اور ہاتھ بڑھا کر بیٹی کا گھونگٹ کھول دیا۔ حجی کا رنگ ہلدی کی طرح پیلا پڑ گیا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے زمین کی بساط اس کے پیروں کے نیچے سے کھینچ لی ہے اور وہ نیچے ہی نیچے کسی گہری پاتال میں گرتی جا رہی ہے۔
سردار نے حجی کے ٹھنڈے پسینے میں تر بتر خوبصورت چہرے اور بے ترتیب سانس سے زیرو زبر ہوتے سینے کے اُبھاروں کو پُر شوق نگاہوں سے پرکھا اور زیر مونچھ مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔
اس شام عورتوں کی ہر منڈلی اور مردوں کے سارے حجروں میں یہی بات موضوع گفتگو تھی۔
اکثر عورتیں آپس میں ٹھٹھے مار کر اس رائے کا اظہار کر رہی تھیں کہ شادی کی پہلی رات پنل جیسے گنوار اور بے ڈھنگے نوجوان کی بجائے، سردار جیسے وجیہہ، طاقت ور اور تجربہ کار مرد کا قرب حجی کے لئے زیادہ پر مسرت اور رومان انگیزثابت ہو گا۔ وہ زندگی بھر اس رنگین اور سنگین شب کی یادیں بھول نہیں پائے گی۔
جہاں دیدہ بوڑھے غریب بالاچ کی قسمت پر رشک کر رہے تھے جو سا ہوکار کی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہو گیا تھا۔
نوجوانوں کو پُنل سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی جسے شادی کی پہلی ہی رات ناقابلِ بیان کرب اور شدید احساس محرومی سے دوچار ہونا تھا۔
بابا بالاچ اور اس کی بہو نے تو حقیقت حال کو قبول کر لیا مگر حجی کی حالت قابل رحم تھی۔ رو رو کر اس کی نرگسی آنکھیں بوٹی کی طرح لال ہو گئی تھیں۔ ماں جب اسے سمجھا سمجھا کر عاجز آ گئی تو چاچی وزیراں کو بلا بھیجا۔ وہ جوانی میں اس نوع کے تجربے سے گزر چکی تھی۔ وہ آئی تو حجی نیم تاریک کوٹھڑی میں میلا سا کمبل اوڑھے چارپائی پر اوندھی پڑی تھی۔ اس کی دبی دبی سسکیاں کمرے کی بوجھل فضا میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔ ’
’ہاں حجی کیا مسئلہ ہے؟‘‘ وہ سرہانے بیٹھ کر پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔
’’میں مر جاؤں گی لیکن خود کو سردار کے حوالے نہیں کروں گی…‘‘ وہ بلکنے لگی۔
’’ جذباتی باتیں مت کرو۔ تمہارے ساتھ کچھ نیا نہیں ہونے جا رہا۔ یہ صدیوں پرانی روایت ہے۔‘‘
’’نہیں چاچی! میں پُنل کی امانت ہوں۔ اس کے علاوہ مجھے کوئی مرد ہاتھ نہیں لگا سکتا…‘‘ وہ سر پٹکنے لگی۔
’پھر وہی احمقانہ باتیں …‘‘ چاچی وزیراں اسے ڈانٹنے لگی۔ ’’نادان۔ تم کیا سمجھتی ہو، تم پُنل کی زندگی میں آنے والی پہلی عورت ہو گی…؟‘‘
’’میرا پُنل ایسا نہیں ہے۔‘‘ اس نے قطعیت سے کہا۔
’’خدا تمہاری خوش گمانی کی لاج رکھے۔ لیکن سچ یہی ہے کہ دنیا کاہر مرد عورتوں کے معاملے میں کتے سے زیادہ حریص اور بلے سے زیادہ موقع شناس ہوتا ہے۔‘‘
’’تم کہنا کیا چاہتی ہو چاچی ….؟‘‘ وہ زچ ہو گئی۔
’’ میں تمہیں یہ سمجھانے آئی ہوں کہ عفت اور عصمت کا فضول تصور اپنے دماغ سے جھٹک دو۔ یقین کرو سردار نے تمہارا انتخاب کر کے تمہاری عزت افزائی کی ہے۔ خواہ ایک رات کے لئے ہی سہی تم غربت و محرومی کے منحوس سائے سے دور، جنت جیسی نعمتوں اور آسائشوں سے پر خوبصورت خواب گاہ میں، خوشبو میں بسے خوبرو مرد کے وصل کا ذائقہ چکھو گی۔ اگلی صبح وہ تمہیں بڑی عزت سے قیمتی تحائف، زیورات اور ریشمی جوڑے دے کر رُخصت کر دے گا۔ .تمہارے لئے وہ رات ہمیشہ کے لئے ایک حسین خواب بن جائے گی۔ تمہاری اولاد بھی اس بات پر فخر کیا کرے گی کہ اس کی رگوں میں اعلا نسل کا خون دوڑ رہا ہے ….‘‘
وہ دیر تک طرح طرح کی دلیلیں دے کر اسے رام کرتی رہی۔ جب اس نے محسوس کیا کہ حجی کچھ نرم پڑ گئی ہے تو چادر سنبھالتی ہوئی اپنے گھر چلی گئ.
جب سے حکومت نے اس دُوراُفتادہ پسماندہ علاقے میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز اور اپنی حاکمیت کے نفاذ کا اعلان کیا تھا، سردار کو اپنی سرداری پر خطرات کے بادل منڈلاتے دکھائی دے رہے تھے۔ تعلیم اور ترقی کے ممکنہ نتائج کو بھانپ کرسر کردہ سرداروں نے سرجوڑے تو مسلح مزاحمت کا فیصلہ ہوا۔ رعیت کو باور کرایا گیا کہ یہ جد و جہد مقامی وسائل کو غیروں کے قبضے سے واگزار کرانے کی سعی ہے۔ قبائل کی عزت، غیرت اور حمیت انہیں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتی کہ وہ اغیار کے زیر تسلط زندگی بسر کریں۔ فراری کیمپ میں زیر تربیت جنگجوؤں میں پُنل بھی شامل تھا۔ اس کی ٹریننگ مکمل ہوئی تو دیگر سا تھیوں کے ساتھ اسے ایک خاص مشن پر بھیجا گیا۔ مخبروں کی اطلاع کے مطابق آئندہ رات ایک فوجی قافلہ شاہراہ سے گزرنے والا تھا۔ اسے ایک خطرناک پہاڑی موڑ پر گھات لگا کر تباہ کرنا تھا۔
وہ دن چڑھے گھر پہنچا تو نکاح کی تیاریاں مکمل تھیں۔ لیکن یہ جان کر اس کی خوشیوں پر اوس پڑ گئی کہ آج شب اس کی دلہن کی ڈولی سردار کی حویلی میں جائے گی۔
اس نے رنج و غم سے بوجھل دل کے ساتھ ایجاب و قبول کی کاروائی میں حصہ لیا اور طے شدہ ملن گاہ کی راہ لی۔
ڈبل کیبن میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھات کے مقام کی طرف جاتے ہوئے وہ گاؤں کے سامنے سے گزرا۔ حجی کے گھر سے ڈھولک بجنے کی آواز آ رہی تھی۔ عورتیں رخصتی کے گیت گا رہی تھی۔ اسے یوں لگا جیسے کوئی گرم گرم سیسہ اس کے کانوں میں انڈیل رہا ہو۔ لمحہ بھر کے لئے اس کا جی چاہا کہ چلتی گاڑی سے چھلانگ لگائے اور حجی کو لے کر کہیں دُور پہاڑوں میں رو پوش ہو جائے۔ لیکن وہ اپنے کمزور ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔ ایک بار اس کے دل سے بدعا نکلی کی خدا کرے قیامت خیز زلزلہ آئے اور سارا گاؤں ملیامیٹ ہو جائے، صرف وہ اور حجی زندہ بچیں۔ مگر فطرت نے، جو ازل سے بقائے برتر کے اصول پر عمل پیرا ہے، اس کی بچگانہ خواہش پر مسکرانے پر اکتفا کیا۔
دھیان بٹانے کے لئے وہ دوسری طرف دیکھنے لگا۔
دن بھر کا تھکا ماندہ سورج پہاڑوں کے عقب میں منہ چھپا رہا تھا۔ خانہ بدوشوں کا ایک قافلہ، جو لق و دق وادی میں انجانی منزل کی سمت محو سفر تھا، شب بسری کے لئے کھلے میدان میں پڑاؤ ڈال چکا تھا۔ مرد خیمے گاڑ نے میں مگن تھے۔ جبکہ عورتیں اور بچیاں خشک جھاڑیاں اور گھاس اکٹھا کر رہی تھیں تاکہ آگ جلا کر رات کا کھانا تیار کر سکیں۔ خانہ بدوشوں کے پالتو کتے اِدھر اُدھر بو سونگھتے پھر رہے تھے۔ وہ وقفے وقفے سے اپنی تھوتھنیاں آسمان کی طرف بلند کر کے کسی غیر مرئی شے کا منہ چڑاتے اور پھر بھونکنے لگتے۔ جب انہوں نے گاڑی دیکھی
تو باؤلے ہو گئے اور بھونکتے ہوئے اس کا تعاقب کرنے لگے۔ وہ اس وقت تک نہیں ٹلے جب تک گاڑی نے گاؤں کی حدود کو پیچھے نہ چھوڑ دیا۔
موقعہ پر پہنچ کر کمانڈر نے سڑک پر بارودی سرنگ نصب کرنے کی ذمہ داری اسے سونپی اور باقی ساتھیوں کو ضروری ہدایات دینے لگا۔ اندھیرا پھیلنے سے پہلے انہوں نے گھات کی تیاری مکمل کر لی۔ اب انہیں فوجی قافلے کا انتظار تھا۔
پُنل ایک چٹان سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ دُور آسمان پر تارے بکھرے ہوئے تھے۔ وہ انہیں دیکھتے ہوئے اپنی قسمت پر غور کرنے لگا۔ کتنا بدنصیب تھا وہ۔ غلامی کی کیسی غیر مرئی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کے اختیار، ارادے، امنگوں اور آرزوؤں کا مالک سردار تھا۔ اس کی مجبوری اور بے بسی کی انتہا یہ تھی کہ عین اپنی شادی کے دن وہ سردار کے حکم کی تعمیل میں جان ہتھیلی پر رکھے، اس ویرانے میں پڑا تھا اور سردار۔۔۔ سردار اس کی حق حلال کی بیوی کے ساتھ شب باشی کی تیاری کر رہا تھا۔۔
اس کا خون کھولنے لگا۔
اسی لمحے کمانڈر کے سٹیلائٹ فون کی گھنٹی بجی اور وہ کسی سے محو گفتگو ہو گیا۔ فون بند ہوا تو وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا:
’’شہر کی جانب سے سردار کی گاڑی آ رہی ہے۔ پُنل بارودی سرنگ ہٹا دو۔ گاڑی گزر جائے تو دوبارہ لگا دینا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ پُنل نے اپنی جگہ سے اٹھ کر نشیب میں اُترتے ہوئے جواب دیا۔
سڑک پر پہنچ کر وہ رکا اور مڑ کر اوپر دیکھا۔ اس کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک سفاک چمک پیدا ہوئی۔ وہ زیرلب مسکرایا اور بارودی سرنگ وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا
٭٭٭