مائی جنداں کو انہیں پکارنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑی۔ مرغیاں اس کے ہاتھوں میں چنگیر دیکھ کر خود ہی دوڑی چلی آئیں۔ کچھ یوں کہ آدھا راستہ پنجوں کے بل طے کیا، تاکہ جلدی پہنچیں اور دوسریوں کی نسبت زیادہ حصہ وصول کریں۔ انہیں باسی روٹی کے ٹکڑے ڈالتے ہوئے غریب بیوہ افسردگی سے سوچنے لگی:
’’بس چار ہی باقی رہ گئی ہیں۔ ایک جنگلی بلے نے پھاڑ کھائی۔ ایک تاری کو ٹھنڈ لگی تو یخنی بنانے کے لئے ذبح کرنا پڑی اور ایک رات کو جیون جوگے، جیون خان اور اس کے بیلی کی خاطر پکانا پڑی ہے۔۔۔ مگراس کا مجھے کوئی غم نہیں۔ وہ نمانا پہلی بار میرا مہمان بنا ہے۔ ہمیشہ اسی نے مجھے دیا ہے۔ آج تک لیا کچھ نہیں۔ کپڑے لتے، اناج اور نقدی سے مدد کرتا رہتا ہے۔ شاداں کی شادی کے موقع پر چار ریشمی جوڑے، سونے کی بالیاں اور ڈھیر سارے پیسے بھی دئیے۔ میرے سر کا سائیں بھی زندہ ہوتا تو اس سے زیادہ کبھی نہ کر سکتا۔۔‘‘
چنگیر سنبھال کر وہ بھینس کی کھرلی کی جانب چل دی تاکہ اسے چارہ ڈال سکے۔
سورج شرینہہ کے اونچے پیڑ کے عقب میں چمک رہا تھا۔ فضا میں ڈنگروں کے پیشاب، گوبھر، بھس اور کھلی کی بو رچی ہوئی تھی۔ جب وہ بھینس کو چارہ ڈال رہی تھی تو تھان پر بندھا جیون خان کا گھوڑا کنڈا کر کے، گردن کو قوس نما بناتے ہوئے، نتھنوں سے پھرر پھر رکی آوازیں نکالنے لگا۔
’’ڈالتی ہوں، تجھے بھی ڈالتی ہوں!‘‘
وہ ڈنگر بولی سمجھ کر آپی آپ ہنسنے لگی۔ اس کے منہ میں دو ہی دانت تھے۔ جب وہ ہنستی تو اس کے پوپلے منہ سے ہنسی کم اور تھوک آمیز ہوا زیادہ خارج ہوتی۔
جانوروں کو چارہ ڈالنے سے فراغت پا کر وہ کھرے میں بیٹھ گئی اور رات کے جوٹھے برتن راکھ سے مانجھنے لگی۔ اسی اثنا ء میں صحن کا دروازہ دھڑ سے کھلا اور اس کی بڑی بیٹی حفظاں کا آٹھ نو سالہ بیٹا تاری دوڑتا ہوا اندر داخل ہوا۔
’’نانی پلس! نانی پلس!‘‘
وہ اپنی گھگھو جیسی آواز میں جیسے کوئی خبر نشر کر رہا تھا۔
لمحہ بھر کے لئے مائی جنداں کا ذہن ماؤف ہو گیا۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ پوری ہوش مندی سے اسے پھٹکارنے لگی:
بوتھاڑ بند کر! دانتوں تلے زبان دے!‘‘
برتن وہیں چھوڑ کر اس نے رسی سے میلی چادر اتار کر اپنا مہندی سے رنگا ہوا سر ڈھانپا اور صحن کے اس کونے کی طرف لپکی جہاں چھکڑے کا پرانا پہیہ دیوار کے ساتھ ٹکا ہوا تھا۔ قریب ہی تندور کا چبوترہ تھا۔ اس پر چڑھ کر اس نے سوکھے کھیتوں کی طرف نگاہ دوڑائی تو دل دھک سے رہ گیا۔
کچی سڑک پر پولیس کا گھوڑ سوار دستہ دھول اڑاتا گاؤں کی سمت بڑھ رہا تھا۔ تھری ناٹ تھری بندوقوں سے مسلح پولیس کے جوانوں نے خاکی برجسیں، طرے دار پگڑیاں اور لس لس کرتے کالے چمڑے کے لانگ بوٹ پہن رکھے تھے۔ ان کے کیل کانٹے سے لیس، سجے سجائے صحت مند گھوڑے، دلکی چال کی ٹاپ دیتے، لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہے تھے۔
’’میرے مولا رحم کر!‘‘
وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے گڑگڑائی۔
وہ دعا بھی کرتی جاتی اور مضطرب نگاہوں سے کبھی پولیس اور گاہے اس کوٹھڑی کی طرف بھی دیکھتی جاتی، جس میں جیون خان اور اس کا ساتھی سوئے ہوئے تھے۔ اگر پولیس کا دستہ سر پر نہ پہنچ چکا ہوتا تو وہ دونوں کو خبردار کر دیتی۔ راہ فرار اختیار کرنے میں ان کی پوری مدد کرتی۔ مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ سوائے دعا کے۔
دریائے جہلم اور چناب کے درمیان واقع گوندل بار کا علاقہ کچھ عرصہ سے جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ انگریز سرکار نے مجرموں کی بیخ کنی کے لئے دور افتادہ دیہات کے لئے گھوڑ سوار پولیس کے خصوصی دستے تشکیل دئیے تھے۔ یہ دستے وقتاً فوقتاً متاثرہ دیہات کا گشت کرتے تھے تاکہ رہزن، فراری، ہتھیاچاری اور اسی قبیل کے دیگر مجرم علاقے میں پاؤں نہ جما سکیں۔ جس گھوڑ سوار دستے کو دیکھ کر مائی جنداں کی روح فنا ہو رہی تھی، وہ معمول کی گشت پر تھا۔ سپاہیوں کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ گاؤں کے دیگر مکانوں سے ہٹ کر، دھریک اور شرینہہ کے درختوں میں گھرا جو کچا مکان ہے، اس کے اندرپولیس کو بیسیوں وارداتوں میں مطلوب جیون خان ڈاکو اپنے ساتھی سمیت آرام کر رہا ہے۔
جیون خان جو خوف اور دہشت کی علامت تھا۔
جیون خان جو موت سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے سوتا اور اس کا تمسخر اڑاتے ہوئے بیدار ہوتا تھا۔
وہ امیروں کو لوٹتا اور غریبوں کی مدد کرتا تھا۔ اس لئے غربت و افلاس کے رگیدے ہوئے مزدور اور دہقان اس کی مخبری کرتے تھے نہ اس کی خلاف گواہی دیتے تھے۔
گھوڑسواروں کا دستہ گاؤں سے باہر پیپل والے تالاب کے پاس رک گیا۔
گاؤں کی عورتیں اور الھڑ مٹیاریں پولیس کے جوانوں کے جمال کا نظارہ کرنے کے لئے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والے مرد بھی کسی، درانتی چھوڑ کر ان کی جانب متوجہ ہو گئے۔ بچے تالاب کے اونچے کنارے پر جمع ہو کر قدرے اشتیاق اور یک گونہ خوف کے مارے ایک دوسرے کو دھکیلنے لگے۔
گاؤں کا سفید پوش نمبرداردستے کے استقبال کے لئے سب سے پہلے وہاں پہنچا ہوا تھا۔
دفعتاًسپاہیوں نے حوالدار کے حکم پر اپنی رائفلیں آسمان کے رخ سیدھی کیں اور ’’دستہ فائر!‘‘ کے کاشن پر ایک ساتھ ایک ایک روند ہوا میں فائر کر دیا۔
عورتوں اور بچوں نے ٹھائیں، ٹھائیں کی آوازوں سے سہم کر کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔ درختوں پر بیٹھی ہوئی گھگھیاں، لالیاں، چڑیاں، طوطے اور کوے پر پھڑپھڑا کر فضا میں اڑ گئے اور ان کی چیخ و پکار سے ایک کہرام مچ گیا۔ گاؤں کے کتوں نے بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔
فائر کے بعد سپاہیوں نے اپنی اپنی رائفل زین کی بائیں جانب سخت چمڑے کی میان میں نال کے بل ڈال دی۔ کچھ اس طرح کہ ساری رائفل مستور فقط اس کا دستہ باہر دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے بعد وہ کسی سے بات چیت کئے بغیر اگلے گاؤں کی سمت روانہ ہو گئے۔
چند جوشیلے لڑکے ان کے گھوڑوں کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگے۔ تین چار کتے بھی بھونکتے ہوئے گھوڑ سواروں کے پیچھے لپکے۔ مگر جلد ہی لڑکے تھک گئے اوران کے کتے بھی۔
ادھر مائی جنداں کے مکان کی کوٹھڑی پر موت کی خاموشی طاری تھی۔
وہ تندور کے چبوترے سے اتر کر کوٹھڑی کی جانب لپکی۔ دو بار دستک دینے پر جیون خان کے دوست نے دروازہ کھولا تو وہ ہانپتی ہوئی آواز میں بولی:
’’پلس کا دستہ آیا تھا۔ فائر انہوں ہی نے کیا تھا!‘‘
وہ مسکرایا۔
’’ہمیں اندازہ ہو گیا تھا۔ کیا پلسیے دفعان ہو گئے؟‘‘
’’ہاں، چبہ پھلروان کی طرف چلے گئے ہیں۔۔۔‘‘
’’یہ لوگ اسی طرح اپنی کاروائیاں ڈالتے ہیں۔‘‘ وہ جماہی لیتے ہوئے بولا ’’ہم جیسوں سے ٹکر لینے کی ان میں جرأت ہی نہیں۔ تم اپنا کام کرو۔ ہم تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد یہاں سے نکل جائیں گے۔‘‘
روانگی کا وقت آیا تو گھوڑے پر سوار ہونے سے پہلے جیون خان نے سونے کا ایک قیمتی لاکٹ بڑی بے نیازی سے مائی جنداں کی طرف اچھالا۔
’’ ماسی! یہ رکھ لو۔ تمہاری خدمت کا انعام ہے۔‘‘
طلائی لاکٹ پا کر مائی جنداں کی باچھیں کھل گئیں۔ اپنی میلی چادر بازوؤں پر پھیلا کر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور اسے دعا دی:
’’شالا نظر نہ لگی! شالا لمی حیاتی ہووی! مولا تجھے پلس سے بچا کے رکھے! تیرا ہر ڈاکا کامیاب ہو۔۔۔‘‘
٭٭٭