اسے توقع تو تھی مگر یقین سے کچھ کہنا مشکل تھا۔ کمپی ٹیشن ہی بہت تھا۔ آخری وقت تک امید و بیم کی سولی پر لٹکا رہا۔ دفترسے اس نے دو روز کی رخصت لے لی تھی۔ اچھی یا بری خبر وہ اپنے گھر پر ہی سننا چاہتا تھا۔
دوپہر دو بجے کے قریب ایک سینیئر نے فون پر خوش خبری سنائی تو سرشاری و شادمانی کی ایک لہر ایکا ایکی سارے وجود میں دوڑ گئی۔ احساس تفاخر سے سینہ تن گیا۔ قد آدم آئینے میں اپنا سراپا دیکھتے ہوئے مسکرا کرکہا:
” Old chap! you really deserved it! "
اپنی سرکاری کوٹھی میں وہ اس وقت اکیلا تھا۔ دونوں بیٹے اور بیوی سکول گئے ہوئے تھے۔ وہ بیکن ہاؤس میں پڑھاتی تھی۔ بے چینی سے ان کا انتظار کرنے لگا تاکہ خوشی کی یہ خبر شیئر کر سکے۔ مگر تھوڑی ہی دیر بعد ایک بے نام سی اداسی اس کے قلب و ذہن پر چھانے لگی۔ بالکل ایسے جیسے سورج ڈوبتے ہی تاریکی آسمان کے زینے سے دھیرے دھیرے نیچے اترتی اور زمین کی ہر شے کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ ماضی کی ایک تلخ یاد نے اسے آزردہ کر دیا تھا۔
ابھی وہ افسردگی کی لپیٹ میں آیا ہی تھا کہ سیاہ رنگ کی اسٹاف کار کوٹھی کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔ بیوی بچوں کی جھلک دیکھتے ہی ساری اداسی کافور ہو گئی۔ اس نے انہیں پورچ ہی میں جا لیا اور خوش خبری سنا ڈالی۔ لڑکوں نے جب سناکہ بابا جنرل بن گئے ہیں، تو دونوں نے یا ہو کا نعرہ بلند کیا۔ بیوی بے پایاں مسرت سے رونے لگی۔ جب بھی اسے کوئی خوشی ملتی، وہ اس کا اظہار رو کر کرتی تھی۔
وہ اندر داخل ہوئے تو فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ دوست احباب کی جانب سے مبارک باد کی کالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ وہ ایک کال اٹینڈ کر کے فارغ ہوتا تو دوسری آ جاتی۔ بیوی سارے گھر میں دوڑی پھر رہی تھی۔ نوکروں کو ہدایات دے رہی تھی کہ جلدی باہر لان میں بہت سی کرسیاں لگوائیں۔ شام پڑتے ہی افسران اپنی بیگموں سمیت مبارک دینے پہنچنے لگیں گے۔ چائے کے انتظام کے لئے اس نے میس سیکریٹری کو فون کروا دیا تھا اور مٹھائی کا ٹوکرا لانے کے لئے ڈرائیور کو ’’فریسکو سویٹس‘‘ روانہ کر دیا تھا۔
مبارک باد دینے والوں کی آمد کا سلسلہ عصر کی نماز سے شروع ہوا اور عشاء تک جاری رہا۔ اس دوران پھر یاسیت کی کیفیت عود کر آئی۔ وہ بظاہر ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے ہر ایک سے مل رہا تھا، مگر اندر سے دکھی تھا۔ وہ حسرت و یاس کی جس حالت سے گزر رہا تھا، اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا تھا۔ اس کی بیوی بھی نہیں۔
رات گئے جب آخری مہمان کو رخصت کر کے وہ اپنی خواب گاہ میں آیا تو خاصا تھکا ہوا تھا۔ مگر اس کی جواں سال بیوی اب بھی فریش دکھائی دیتی تھی۔ خواب گاہ میں خاوند کی آمد سے پہلے ہی اس نے شب خوابی کا مہین لباس پہن لیا تھا اور بستر پر نیم دراز تھی۔ ٹیبل لیمپ کی ہلکی اور ٹھنڈی روشنی میں کمرے کا ماحول بہت رومان پرور لگ رہا تھا۔ وہ جب سلیپنگ سوٹ پہن کر بستر پر لیٹا تو وہ اس کے قریب کھسک آئی۔ یوڈی کلون کی لطیف سی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ بیوی کی شوخ آنکھوں میں چھپا پیغام اس نے پڑھ لیا تھا، مگر تھکاوٹ کا عذر کر کے کروٹ بدل لی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
مگر نیند آنکھوں سے روٹھی ہوئی تھی۔
بائیس سال پہلے جب وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تو وہ پچیس چھبیس برس کا دبلا پتلا اور سانولا سا کپتان تھا جبکہ زارا بائیس تئیس سال کی اپنے حسن پر نازاں ایک خود پسند لڑکی۔ یہ ایک ارینجڈ میرج تھی مگراس کا محرک زارا سے اس کی مجنونانہ محبت تھی۔
نیلی آنکھوں اورسنہرے بالوں والی اس گوری چٹی، پر کشش لڑکی کو جب اس نے پہلی بار دیکھا تو آنکھیں جھپکنا بھول گیا۔
’’الٰہی! اگر تو ایسی من موہنی صورتیں بنانے پر قادر ہے تو تو خود کس قدرحسین ہو گا!‘‘
بے ساختہ یہ کلمات اس کے لبوں سے پھسل پڑے تھے۔
وہ دو سہیلیوں کے ساتھ صنعتی نمائش دیکھنے آئی تھی اورسبھی مردوں، بالخصوص نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ دیگر نوجوانوں کی طرح وہ بھی تھوڑا فاصلہ رکھ کر مسمرائزڈ معمول کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ جب شوفر ڈرائیون مرسڈیز میں بیٹھ کر وہ اپنے گھر روانہ ہوئی تو اس کی سوزوکی بھی تعاقب میں تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے پتا چلا لیا کہ گاڑی جس بنگلے میں داخل ہوئی ہے، وہ وزارت دفاع کے جوائنٹ سیکریٹری کا گھر ہے۔ تیسرے چوتھے روز والدہ کے ہاتھ رشتے کا پیغام بھیج دیا۔ جواب ملا کہ ابھی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے۔ جلد شادی کا ارادہ نہیں ہے۔
’’نا صرف لڑکی بلکہ اس کی ماں بھی خود پسندی اور دوسروں کو کمتر سمجھنے کی بیماری میں مبتلا ہے۔‘‘ماں نے متنبہ کیا۔ ’’نعمان بیٹا! حسن پرنہ جاؤ، یہ لڑکی تمہارے لائق نہیں ہے۔‘‘
مگر اس کے سرپر تو عشق کا بھوت سوار تھا۔ فیصلہ سنا دیا کہ شادی کرے گا تو صرف زارا سے۔ ورنہ ساری عمر کنوارا رہے گا۔ والدہ نے اس کی ضد دیکھی تو وعدہ کیا کہ وہ ہفتے عشرے کے بعد ایک کوشش اور کریں گی۔ مگر اسے بہت جلدی تھی۔ خود میدان عمل میں کودنے کی ٹھان لی۔ پہلے پہل تو اس نے کپتان کو کوئی لفٹ نہیں کرائی۔ مگر جب صبح و شام اسے یونیورسٹی اور گھر کے گرد منڈلاتے دیکھا تو ایک دن پوچھ لیا۔
’’کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’فقط آپ کی نگاہ کرم!‘‘
’’میں فلرٹ کرنے والے لڑکوں کو پسند نہیں کرتی۔‘‘
’’فلرٹ کون کر رہا ہے۔ میں انتہائی سنجیدہ ہوں۔ والدہ کے ہاتھ رشتے کا پیغام بھیجا تھا۔ شاید آپ کو یاد نہیں۔‘‘
’’انہیں جو جواب دیا گیا تھا وہ شاید آپ کو یاد نہیں۔‘‘
’’یاد ہے اور منہ زبانی یاد ہے۔ مگر قبول نہیں۔ بندہ شادی آپ ہی سے کرے گا، ورنہ کنوارہ مر جائے گا!‘‘
’’پرانا ڈائیلاگ ہے۔ صبیحہ اور سنتوش کی کسی فلم کا۔۔‘‘
’’محترمہ۔ آپ میری محبت کا مذاق نہ اڑائیں، بے شک آزما لیں۔ میں کڑی سے کڑی آزمائش پر پورا اتروں گا۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔ آج پوری رات میری کوٹھی کے گیٹ کے سامنے بیٹھ کر گذار دو تو مجھے یقین آ جائے گا کہ تم واقعی مجھ سے سچی محبت کرتے ہو۔‘‘
دسمبر کی طویل رات اور اسلام آباد کی کڑاکے دار سردی۔ مگر گرمیِ عشق نے اسے سرخرو کیا۔ اونی شلوار قمیص اور فوجی جیکٹ زیب تن کر کے سر پر پٹی کی ٹوپی پہنی اور گردن کے گرد گرم مفلر لپیٹ لیا۔ ہاتھ میں ڈنڈا اور ٹارچ پکڑ کر چوکیدار کا روپ دھارا اور گاہے گلی کا چکر کاٹ کر اور گاہے سڑک کنارے آگ تاپتے ہوئے رات گزار دی۔ زارا نے کھڑکی کا پردہ سرکا کر جب بھی دیکھا، اسے کوٹھی کے سامنے موجود پایا۔ اگلے روز اس نے داد طلبی کے لئے فون کیا تو ہنستے ہوئے بولی۔
’’میں بھول گئی تھی کہ فوجی افسر کے لئے یہ سرے سے کوئی آزمائش ہی نہیں۔ کاکول اکیڈمی میں تم لوگوں کو کھلے آسمان تلے رات بھر جاگنے اور ریگنگ کرنے کا خوب تجربہ ہو جاتا ہے۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’پھر یہ کہ تمہارے لئے یہ روٹین میٹر تھا، اس لئے کچھ اور کر کے دکھاؤ۔‘‘
اس نے اگلے روز خون سے لکھا ہوا لو لیٹر بھیجا تو کہنے لگی:
’’مجھے کیا پتا۔ یہ تمہارا خون ہے یا کوئی معصوم کبوتر تمہاری چالاکی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔۔‘‘
’’اچھا! جلد ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا۔‘‘ اس نے شکستہ دل کے ساتھ کہا اور فون بند کر دیا۔
اسی شب اس نے بلیڈ سے اپنی کلائی کی نس کاٹ کر نیچے سادہ کاغذ رکھ دیا۔ سیاہی مائل سرخ گاڑھا خون ساری رات قطرہ قطرہ اس کاغذ پر ٹپکتا رہا۔ صبح سویرے خون میں تر کاغذ لفافے میں بند کر کے اسے پوسٹ کر دیا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ نقاہت سے دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ ایک کزن بر وقت سی ایم ایچ نہ پہنچاتا تو شاید آج لوگ اسے شہید محبت کے لقب سے یاد کر رہے ہوتے۔
ماں اپنے لخت جگر کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ اٹھی۔ زارا کے گھر جا کر فریادی لب و لہجے میں کہا ’’ کیا آپ میرے بچے کی جان لے کر راضی ہوں گے۔ آخر چاہتے کیا ہیں؟ بیٹی کہیں تو بیاہنی ہے۔ ہم آسودہ حال، شریف اور خاندانی لوگ ہیں۔ بیٹا ماشاء اللہ کپتان ہے، آگے بھی اس کی ترقی کے چانس ہیں۔ بیشک پتہ کروا لیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ آپ کی لڑکی کو دل و جان سے چاہتا ہے۔ اسے بہت خوش رکھے گا۔‘‘
اس بار ان کا رویہ قدرے حوصلہ افزا تھا۔ کہنے لگے ’’ہمیں سوچنے کے لئے تھوڑا وقت چاہئے۔‘‘
چوتھے پانچویں دن زارا کے والد نے اس سے ملاقات کی، جس کے بعد رشتہ منظور ہو گیا۔
شادی کے بعد وہ اسے ہنی مون پر یورپ لے گیا۔ یہ تیس روز اس کی زندگی کے سب سے خوبصورت اور ناقابل فراموش دن تھے۔ وہ لندن، پیرس، روم، میلان، وینس اور فلورنس میں سیاحوں کے لئے پرکشش، ہرمشہور مقام پر گئے۔ بکھنگم پیلس، مومی مجسموں کا عجائب گھر، پکاڈلی سرکس، آئفل ٹاور، شانزے لیزے، ویٹی کن کے قدیم گرجا گھر، فلورنس کے میوزیم، وینس کی نہریں، پیسا کا ٹیڑھا مینار، جھیل نیپلز، پمپئی کے کھنڈرات اورسمندرکے کنارے کیپری پہاڑ پر آباد کیپری کارومان پرور شہر۔ زارا کی معیت میں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ اس کی زندگی کا قیمتی سرمایہ تھا۔ ایک ایسا خزانہ جسے آج بھی اس نے اپنے دل کے نہاں خانے میں چھپا رکھا تھا۔ وہ جہاں جاتے زارا نو بیاہتا جوڑوں کے Rituals کی ادائیگی ہرگز نہ بھولتی۔ روم کے فواروں میں اس نے دلہنوں کو اپنے اور شوہر کے ناموں کے سکے پھینکتے دیکھا تو خود بھی ایسا کرنے کو مچل اٹھی۔ پیرس کا پیگال چرچ دیکھنے گئی تو اپنے اور اس کے نام کی موم بتی جلائے بغیر باہر نہیں نکلی۔ ہر نئی جگہ وہ کسی نہ کسی دیوار، پہاڑی پتھر یا درخت کے تنے پرزارا+نعمان، ضرور لکھتی تھی۔ نیچے کوئی نہ کوئی خوبصورت جملہ یا ریمارک درج ہوتا۔ وہ کشتیوں اور گنڈولوں میں دریا کی سیر کرتے ہوئے ان کے چوبی تختوں، راستے میں آنے والے پلوں کے ستونوں اور ساحلوں کی گیلی ریت پربھی اپنا اور اس کا نام رقم کیا کرتی۔ کیپری پہاڑ پر کھڑے ہو کر اس نے دور تک پھیل ہوئے خوبصورت شہر پر نگاہ ڈالی اور ایک بڑی چٹان پرZara loves Nauman لکھ کر نیچے تاریخ ڈال دی۔ کہنے لگی:
’’میں یہاں اپنی محبت کی گواہی رقم کر رہی ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ کبھی قسمت دوبارہ ہمیں اس خوبصورت شہر اور پہاڑ پر لائی تواس چٹان پر میری تحریر کا کوئی نہ کوئی نقش ضرور باقی ہو گا۔‘‘
مگر یہ موقع کبھی نہیں آیا۔ جب وقت اور حالات نے کروٹ لی تو دیواروں، پتھروں، درختوں، کشتیوں اور گنڈولوں، پلوں کے ستونوں اورساحلوں کی ریت پر لکھی ہوئی کوئی تحریر اور کیپری پہاڑ کی چٹان پر لکھی ہوئی محبت کی کوئی گواہی انہیں ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچا نہیں سکی۔۔
وہ ہنی مون کی چھٹیاں گزار کرواپس پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کی یونٹ سیاچن جا رہی ہے۔
اس نے سنا تو رو دی۔
’’میں تمہیں وہاں نہیں جانے دوں گی۔ کئی سرونگ جنرل پاپا کے دوست ہیں۔ ان سے کہہ کر تمہاری پوسٹنگ راولپنڈی کی کسی یونٹ میں کروا دوں گی۔‘‘
’’کیسی بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو۔ میں آزمائش کی گھڑی میں اپنی یونٹ کو چھوڑ کر تمہارے پہلو سے لگ کر بیٹھ جاؤں؟ ایسی شرمناک حرکت کرنے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’اگروہاں تمہیں کچھ ہو گیا تو؟‘‘
’’اگرسب افسروں کی بیویاں تمہاری طرح سوچنے لگیں توہم لڑ چکے جنگیں!‘‘
’’انسانوں سے جنگ لڑی جا سکتی ہے، موسم سے نہیں۔ جانتے ہو وہاں کیا ہوتا ہے؟ دشمن سے لڑتے ہوئے جانیں نہیں جاتیں، شدید سردی سپاہیوں کو مار ڈالتی ہے۔ بعض تو عمر بھر کے لئے معذور ہو جاتے ہیں۔ فراسٹ بائٹ کی وجہ سے۔۔‘‘
’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرا ایمان ہے کہ میری تقدیرمیں اگر کوئی مصیبت لکھی ہوئی ہے تو میں اس سے بچ نہیں سکتا، خواہ کسی محفوظ قلعے میں خود کو قید کر لوں۔ تدبیر سے انسان کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔ البتہ دعا سے ضرور اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کروائی جا سکتی ہے۔ تم میرے لئے دعا کرتی رہنا۔ انشاء اللہ مجھے کچھ نہیں ہو گا۔‘‘
وہ دیر تک اسے سمجھاتا رہا۔ آخر اس نے آنسو پونچھ ڈالے اور مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔
’’معلوم ہے تم سے پہلی بار ملنے کے بعد تمہارے بارے میں پاپاکے کیا تاثرات تھے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کہنے لگے۔ نعمان بہت ٹیلنٹڈ لڑکا ہے، کاکول سے سورڈآف آنر (Sword of Honour) لے چکا ہے۔ اب تک کے سارے کورسوں میں ٹاپ پوزیشن لی ہے۔ ساری اے سی آرز (ACRs) آؤٹ اسٹینڈنگ ہیں۔ بہت آگے جائے گا۔ دیکھنا ایک روز یہ جنرل بنے گا۔۔‘‘
’’لپیٹو بھئی، لپیٹو!‘‘ وہ ہنسا۔
’’سچ مچ! انہوں نے بڑے وثوق سے کہا تھا۔ آخراتنا تجربہ ہے ان کا۔ کئی جنرل ان کے قریبی دوست ہیں۔ ان کی اسی بات کو سن کر تو میں نے شادی کے لئے ہاں کی تھی، ورنہ میں نہیں تھی کسی للو پنجو سے کپتان کو گھاس ڈالنے والی۔۔‘‘
وہ اس کی بات سن کرتا دیر ہنستا رہا۔ پھر بولا:
’’میں تو سمجھا تھا، میری قربانیاں رنگ لائیں۔ خون سے بھرا ہوا میرا خط دیکھ کر تم مجھ سے شادی پر آمادہ ہوئی تھیں۔۔‘‘
’’میں کبھی کسی کی اموشنل بلیک میلنگ emotional black mailing میں نہیں آتی۔۔۔‘‘
اسی اثناء میں اچانک ایک دوست ملنے آ گیا اور بات ادھوری رہ گئی۔
سیاچن گلیشیئر۔۔ دنیا کا سب سے بلند محاذ جنگ، ایک سرد جہنم کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہٹ دھرم دشمن اپنی سپاہ کو شدید سرد موسم میں وہاں بٹھا کر آخر حاصل کیا کر رہا ہے؟ یہ موسم سے جنگ تھی، مد مقابل سے نہیں۔ اسے بتایا گیا تھا کہ تقسیم ہند کے وقت سے یہ بے آباد برفانی علاقہ مسلمہ طور پر پاکستان کے کنٹرول میں رہا ہے۔ دنیا بھر کے سیاح اور کوہ پیما اس علاقے میں آنے کے لئے سفری دستاویزات اور اجازت نامے پاکستان ہی سے حاصل کرتے رہے ہیں۔ پھر خدا جانے تین دہائیوں کے بعد دشمن کو اچانک یہ خیال کیسے آیا تھا کہ یہ علاقہ اس کی ملکیت ہے؟ بہر کیف پاک فوج کی جوابی کاروائی نے دشمن کی مزید پیش قدمی روک دی تھی۔ اپنے دفاع کو مضبوط بنانا اور موقع پاتے ہی کھوئی ہوئی چوکیوں کو دشمن سے واپس چھیننا، اس کی یونٹ کا مشن تھا۔
آخر ایک روز پلٹن کو وہ موقع میسر آ ہی گیا۔ منصوبہ پہلے سے تیار تھا۔ اس مشن کی تکمیل کے لئے وہ اپنا نام شروع دن سے والنٹیئرز کی لسٹ میں لکھوا چکا تھا۔ جونہی دیوالی کے روز دشمن کی چوکی پر نفری کم ہونے کی اطلاع موصول ہوئی، اس سمیت پانچ فوجیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے رسے سے لٹکا کر باری باری اس چوٹی پر کامیابی سے اتار دیا گیا۔ دشمن کے ڈیوٹی پر موجود سپاہیوں نے شدید مزاحمت کی۔ رائفلوں اور مشین گنوں سے ایک دوسرے پر گولیوں کی بوچھاڑ کے بعد سنگینوں سے لڑائی ہوئی۔ جب ہیلی کاپٹر چھٹے اور آخری جوان کو اتار رہا تھا اس وقت اس پر ایک راکٹ داغا گیا اور وہ فضا ہی میں تباہ ہو گیا۔ رسی سے لٹکا ہوا جوان کئی سو فٹ گہری کھائی میں جا گرا۔ اس سوئی سائیڈ مشن کی کامیابی کے امکانات دس فی صد سے بھی کم تھے مگر اللہ نے ان کے نصیب میں فتح لکھ دی تھی۔ اس روز اس چوٹی پر صرف دو آدمی زندہ بچے۔ وہ خود اور اس کا وائرلیس آپریٹر، سپاہی پائندہ خان۔ دشمن کا ایک لفٹین اور دس سپاہی مارے گئے تھے۔ پائلٹ سمیت اس کے اپنے پانچ ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ وہ خود بری طرح زخمی تھا۔ اس کی دائیں ٹانگ پر مشین گن کی بوچھاڑ پڑی تھی۔ خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ سپاہی پائندہ خان نے اس کی ٹانگ پر شیل ڈریسنگ باندھ کر خون کو روکنے کی اپنی سی کوشش کی مگر بے سود۔ بٹالین کمانڈر کو وائرلیس پر مشن کی کامیاب تکمیل کی اطلاع دیتے ہوئے وہ صرف اتنا کہہ پایا۔
"Sir, we have achieved it!”
اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہیں رہا۔
جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے خود کو سی ایم ایچ راولپنڈی کے آفیسر وارڈ میں پایا۔ اس کی فراسٹ بائٹ سے متاثر زخمی ٹانگ گھٹنے سے ذرا نیچے کاٹ دی گئی تھی۔ دائمی معذوری کے خیال نے اسے وقتی طور پر غم زدہ ضرور کیا، مگر یہ خبر اس کے لئے باعث طمانیت تھی کہ چوٹی اب پاک فوج کے مستحکم قبضے میں ہے۔ مفتوحہ چوکی کا نام اس کے نام کی نسبت سے ’’نعمان پوسٹ‘‘ رکھ دیا گیا تھا۔ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر نے ہائی کمان سے اسے بہادری کا اعلیٰ فوجی اعزاز عطا کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔
اسے دیکھنے، اس کی بیمار پرسی اور تیمار داری کے لئے گھر والے، عزیز و اقارب، دوست، کولیگ، جونئیر و سینئر افسر اور جوان بڑی تعداد میں آئے۔ اس کے بیڈ کے سرہانے پھولوں کے ان گنت بوکے، دعائیہ کارڈ، پھلوں کی ٹوکریاں اور تحفے پڑے ہوئے تھے۔ مگر وہ جس کا منتظر تھا وہ نہیں آئی۔ اس کی شریک زندگی، اس کی زارا، اسے ایک بار بھی دیکھنے نہیں آئی تھی۔ اس کی ساس اور سسر صاحب ضرور آئے مگر تھوڑی دیر رک کر اور اسے دلاسا دے کر چلے گئے۔ اسے بتایا گیا کہ زارا کی طبیعت بہت خراب ہے اور وہ سخت شاک میں ہے۔ اسی سبب وہ اسے ساتھ نہیں لائے۔ مگر آہستہ آہستہ اصل حقیقت اس پر کھلنے لگی۔ وہ اسے فون کرتا تو اٹینڈ نہ کرتی، گھر والے بہانہ کر دیتے کہ دوا کھا کر سوئی ہوئی ہے۔ اس کے عجیب و غریب رویے نے اسے اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ براہ راست تو نہیں، مگر ادھر ادھر سے اس کے والدین کو باور کرا دیا گیا کہ یہ شادی مزید نہیں چل سکے گی۔ اس کے والدین ان لوگوں کی منت سماجت کرنے ان کے گھر پہنچ گئے، مگر آگے سے معذرت خواہانہ سا جواب ملا کہ اگر ان کی اکلوتی بیٹی ایک معذور شخص کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تو وہ اسے مجبور نہیں کر سکتے۔ مہینہ بھر بعد جب وہ ابھی پوری طرح صحت یاب بھی نہ ہوا تھا، اسے زارا کی طرف سے خلع کا نوٹس موصول ہو گیا۔
علیحدگی سے پہلے، اس کی خواہش پر اس نے بمشکل ایک مرتبہ اس سے ملنے کی حامی بھری اور وہ بھی بس کھڑے کھڑے۔ چٹان جیسا مضبوط کپتان اسے دیکھ کر سسک پڑا۔
’’ میری غلطی تو بتاؤ زارا۔۔ آخر میرا قصور کیا ہے؟ کہاں گئے تمہارے محبت کے دعوے، تمہاری الفت کی وہ سب گواہیاں جو تم ہنی مون کے دوران پتھروں، درختوں اور ساحلوں کی ریت پر لکھتی رہیں؟‘‘
’’آئی ایم سوری نعمان! تم خواہ مخواہ جذباتی ہو رہے ہو۔ میں ایک حقیقت پسند لڑکی ہوں۔ جذبات سے زیادہ عقل کو اہمیت دیتی ہوں۔ خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لو۔
I had married a future general , not a disabled captain!
یہ کہہ کر وہ تیزی سے پلٹی اور اپنے باپ کی مرسڈیز میں جا بیٹھی۔ وہ اس کی جاتی ہوئی گاڑی کو دور تک دیکھتا رہا۔
مہینوں وہ صدمے کی کیفیت سے دوچار رہا، پھر رفتہ رفتہ خود کو سنبھال لیا۔
زارا سے بندھن ٹوٹنے کے بعد اس نے ہمیشہ کے لئے شادی کا خیال دل سے نکال دیا۔ اس کی یونٹ اب ملک کی ایک دور دراز چھاؤنی میں تھی۔ وہ میس میں تنہا رہتا اور پیشہ ورانہ فرائض سے جو وقت بچتا، اسے گالف کھیلنے یا کتب بینی میں صرف کر دیتا۔ فوج کے ماہر ڈاکٹروں نے امپورٹڈ مصنوعی ٹانگ لگا کر اسے چلنے پھرنے، حتیٰ کہ بھاگنے دوڑنے کے قابل بنا دیا تھا۔ سرسری نظر سے دیکھنے والا بالکل نہیں جان پاتا تھا کہ اس کی ایک ٹانگ مصنوعی ہے۔
اپنی وردی پر جرنیلی کے بیج سجانے کے لئے اس نے برسوں جان توڑ محنت کی تھی۔ یہ آرزو کہ وہ جرنیل بن کر رہے گا، اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن گیا تھا۔ ایک سوز دروں تھا جو اسے مسلسل کچوکے لگاتا رہتا۔ جرنیلی یوں ہی تو نہیں مل جاتی۔ بالخصوص ایسے افسر کو جو ایک ٹانگ سے معذور بھی ہو۔ مگر وہ اپنی دھن کا پکا تھا۔ معذوری کو اس نے کبھی اپنی کمزوری نہیں بننے دیا۔ برسہا برس تک اس نے جنگلوں، میدانوں، صحراؤں، سنگلاخ پہاڑوں اور برف پوش وادیوں میں اپنی پلٹن کے شانہ بشانہ ہر طرح کی عسکری خدمات سرانجام دیں۔ وہ اپنی مصنوعی ٹانگ کے ساتھ بہت سے صحت مند افسروں اور جوانوں سے زیادہ تیز بھاگتا تھا۔ اسالٹ کورس، فیلڈ فائرنگ، روٹ مارچ، کراس کنٹری ریس، غرضیکہ ہر ایونٹ میں شمولیت اس نے خود پر لازم ٹھہرا لی تھی۔ سینئر افسران اس کی پیشہ ورانہ قابلیت، ذہانت، محنت و لگن اور جوش و جذبے کے معترف تھے۔ جونیئر افسر اور جوان بھی اسے بہت پسند کرتے تھے۔ یہی سبب تھا کہ رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہوا وہ آج میجر جرنل کے عہدے تک آ پہنچا تھا۔
بارہ برسوں پر محیط تنہائی کی زندگی گزارنے کے بعد نکاح ثانی کا فیصلہ اسے با امر مجبوری کرنا پڑا۔ بسترمرگ پر پڑی ضعیف والدہ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تو انکار کا یارا نہ رہا۔ ماں کی پسند، عمر میں اس سے پندرہ سال چھوٹی بیوی بہت سمجھ دار اور اچھی شریک زندگی ثابت ہوئی۔ وہ نا صرف اس سے پیار کرتی تھی بلکہ اس کا احترام بھی کرتی تھی۔ وہ بھی اس کی محبت کا جواب محبت سے دینے کی کوشش کرتا تھا۔
رات کے پچھلے پہر نیم خوابیدہ بیوی نے شوہر کے منہ سے بڑبڑاہٹ سنی تو اس کی آنکھ کھل گئی۔
’’زارا۔ دیکھو میں۔۔ میں جنرل بن گیا ہوں۔ پلیز مجھے چھوڑ کے مت جاؤ۔ پلیز ڈونٹ لیو می!‘‘
وہ کہنی کے بل اوپر اٹھی اور اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ آنسوؤں کی پتلی دھار اس کی آنکھ کے گوشے سے نکل کر رخسار پر بہہ رہی تھی اور وہ گہری نیند سویا ہوا تھا۔
٭٭٭