تیسرا صفحہ پلٹا تو وہاں لکھا تھا۔۔۔۔
جو ہم محسوس کرتے ہیں
آگر تم تک پہنچ جائے
تو بساتنا سمجھ لینا
یہ ان جزبوں کی خشبو ہے
جسے ہم کہہ نہی سکتے
مگر تم جو اجازت دو
تو چند لفظوں میں کہ ڈالیں
کے تم بن جی نہی سکتے
تم بن مر نہی سکتے۔
صباجیسے جیسے پڑھتی جارہی تھی اسکی حیرانی بڑھتی جارہی تھی۔۔۔۔کیا کوئی اس قدر بھی پاکیزہ محبت کرسکتا ہے۔ وہ سوچتے ہوئے صفحہ پلٹنے لگی۔
ہر صفحہ پر ہردن کا ایک ایک منظر تھا آج اس نے یہ پہنا یہ کہا۔۔مجھے دیکھ منہ پھیر لیا۔ آج اس نے یہ کہا۔ ہر بات لکھی تھی۔۔۔۔
اُسے میں کیوں بتائوں
میں نے اس کو کتنا چاہا ہے
بتایا جھوٹ جاتا ہے
کے سچی بات کی خوشبو
تو خود محسوس ہوتی ہے
میری باتیں میری سوچیں
اُسے خود جان جانے دو
آبھی کچھ دن مجھے
میری محبت ازمانے دو💖
اسکے بعد لکھا تھا۔ ۔۔۔۔پتہ ہے امیمہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں میں چاہوں بھی تو تمہارے آگے اظہار نہی کرسکتا ہوں۔
مجھے ڈر لگتا ہے کہی تم میرے سچے جزبوں کی توہین نہ کردو۔ ۔۔اسکے بعد میں شائد جی نا پائوں۔
آج بھی وہ میرے ساتھ کالج آنے کی ضد کرنے لگی۔۔
میں نے منع کرنے کی کوشش کی لیکن اسنے امی کو بیچھ میں گھسیٹ لیا اورامی مجھے امیمہ کو لیکر جانے کیلئے منانے لگی۔۔۔۔امی کی بات میں کیسے رد کرتا سو مجبوراً اسے اپنے ساتھ کالج لیکر جانا پڑھا لیکن میں نے بائیک کو اتنا تیز چلایا کے امیمہ کے آنکھوں میں پانی جمنے لگا۔۔۔۔۔اب وہ شائد کبھی بھی میری بائیک پر نہ بیٹھے گی۔۔۔۔۔
صبا نے ڈائری بند کردی تھی۔۔۔۔
ازلان شاہ تم تو پورے گھنے نکلے۔۔۔۔۔اتنی محبت امیمہ کیلئے اپنے دل میں چھپائے بیٹھے ہو۔۔۔۔اور اسکی ہوا تک کسی کو لگنے نہی دیا۔۔۔
صبا دوسرے دن کالج آئی تو اسے ازلان کچھ پریشان ساادھر سے ادھر گھومتا نظر آیا تھا وہ سمجھ چکی تھی۔
اس لئے خاموشی سے اسکے پاس آگئی۔۔۔ازلان شاہ۔
وہ نظر اُٹھا کر دیکھنے لگا۔آپ یہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
ازلان اسکے ہاتھ میں اپنی ڈائری دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا۔۔۔۔سنجیدگی سے اسے دیکھتا پوچھنے لگا۔
آپ نے اسے پڑھا تو نہی ہے۔۔۔۔
جی نہی وہ کل لائبریری میں مجھے ملی تھی۔میں تو اسے بیگ میں رکھ کر بھول گئی تھی۔ابھی آپکو دیکھا تو یاد آیا اسلئے سوچا آپکو آپکی امانت لوٹادوں اس لئے چلی آئی۔۔۔ تھیانک یو۔۔۔۔۔
نو نیڈ۔ ۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہوئے اپنی کلاس کی جانب چلی آئی تھی۔
امیمہ کے بڑے بھائی کی شادی تھی تو آج کل رقیہ بیگم اکثر وہاں جایا کرتی تھی۔۔۔۔آج بھی صبح صبح وہ ہاشم ہائوس آگئی تھی۔
امیمہ نے آج کالج سے چھٹی کرلی تھی۔
سب بیٹھے چیزوں کو پیکنگ کررہے تھے۔
پھو پھو کا فون بجنے لگا۔ ۔۔۔۔۔امیمہ نے کال رسئیو کیا تھا۔
ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام وعلیکم
وعلیکم اسلام کون بات کررہا ہے۔
امی کو فون دو۔ دواری طرف وہی روکھا پیکھا لہجہ تھا۔ کھروس انسان کبھی تو ڈھنگ سے بات کرلیا کرو۔
امیمہ جلتے ہوئے کہنے لگی۔
میں بیکرار لوگوں سے بات نہی کرتا۔ وہ چڑانے لگا۔
امیمہ کو گویا تلوئوں سے لگی سر پر جاکر بجھی تھی۔
تم بیکر ازلان شاہ تمہاری باتیں بیکار اور تم پورے کے پورے انسان بیکار ہو۔۔۔۔اس نے جھٹکے سے فون بند کردیا تھا۔ ۔۔۔اسکا موڈ خراب ہوچکا تھا۔
ذلیل انسان سمجھتا کیا ہے خود کو دیکھ لوں گی تمہیں ازلان شاہ۔۔۔وہ پیر پٹکتی اپنے کمرے میں آگئی تھی۔
پھر شام تک اسکا موڈآف ہی رہا تھا۔۔۔
ْازلان جانتا تھا کے وہ ناراض ہوگئی ہے اس لئے جب وہ شامکو اپنی امی کو لینے آیا تو اسکی فیورٹ آئسکریم بھی لیکر آیا تھا۔
اس وقت وہ اپنے کمرے میں تھی۔ وہ نیچے بیٹھا کئی دیر انتظار کرتا رہا تھا۔
کئی دیر بعد وہ باہر آئی تو ازلان کو دیکھ منہ پھیر گئی تھی۔ ازلان مسکرانے لگا۔
وہ اسے نظر انداز کرتی ہوئی ممی کے پاس جاکر بیٹھ گئی تھی۔
پھو پھو آج یہی رک جائیں نا۔۔۔۔۔آپ کبھی نہی رکتی ہیں۔
آرے میری بچی میں کونسا دور دیس میں رہتی ہوں۔
یہی رہتی ہوں صبح آجائوگی۔
نہی پھوپھو آج آپ یہی رہینگی۔ سب انہیں منانے لگے تھے۔رقیہ بیگم کو سب کی ماننی پڑی تھی۔
وہ یہی رک گئی تھی۔ ازلان اکیلا ہی گھر آگیا تھا۔
اگلے دن کالج وہ کالج آگیا تھا۔۔۔۔ ازلان اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا کچھ ڈسکس کررہا تھا۔
جب روشنی چلی آئی تھی۔ روشنی کی جانب ازلان کی پشت تھی۔روشنی مسکراتے ہوئے ازلان کی پشت سے لگ گئی تھی۔۔۔۔گڈ مارننگ ازلان۔۔۔۔۔۔
ازلان بل۔کھاتا ہوا مڑا تھا اور ایک زوردار تھپڑ روشنی کے چہرے پر مارا تھا۔۔۔۔ان کے آس پاس سے گزرتے لڑکے اور لڑکیاں وہی جم سے گئے تھے۔
Keep your hands under u r control....
وہ اپنی شہادت کی انگلی سے تنبیہہ کرتے ہوئے کہنے لگا۔
روشنی اپنے گال پر ہاتھ رکھے پھٹی پھٹی نظروں سے ازلان کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
میں نے ایسا کیا کردیا جو تم نے مجھ پر ہاتھ اُٹھایا۔
یہ تمہارے لئے شائد کوئی عام بات ہوگی لیکن میرے لئے یہ نہایت ہی گھٹیا حرکت ہے۔
میں اپنے آپ کو چھونے کا حکم صرف اپنی بیوی کو دے سکتاہوں نا کے کسی اجنبی اور غیر لڑکی کو دے سکتا ہوں۔۔۔۔
یو نوواٹ ازلان شاہ تمہاری سوچ بھی تمہاری طرح ڈمب ہے۔۔۔۔۔وہ یہ کہتی کالج سے باہر نکلتی چلی گئی تھی۔
ازلان بھی سر جھٹک کر اپنی کلاس کی جانب بڑھ گیاتھا۔ دور کھڑی صبا اور امیمہ اس تماشہ کو دیکھتی حیران ہوئی تھی۔۔۔۔
افف اس نے اس بیچاری کے ساتھ کتنا روڈلی بیہیو کیا ہے۔۔۔۔امیمہ تاصف سے سر ہلاتی ہوئی کلاس کی جانب بڑھ گئی تھی۔
صرف صبا ہی جانتی تھی ازلان کی فیلینگس کو اس لئے وہ بھی خاموشی سے امیمہ کے ساتھ چلی گئی تھی