" کیٹس ہاؤس ۔" انہوں نے گویا اس کے سر پر بمب پھوڑا۔ وہ جو ٹیبل پر ہاتھ ٹکائے ان کے جواب کی منتظر تھی لڑکھڑا کر رہ گئی ۔ اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔ کچھ لمحے تک تو وہ ساکت کھڑی انہیں دیکھتی رہی پھر کسی امید کے تحت انہیں دیکھتے ہوئے بولی۔
" آپ نے شاید غلطی سے کیٹس ہاؤس کا نام لیا ہے۔ ہے نا؟"
اس کی آنکھوں کے ساتھ لہجے میں بھی بے یقینی تھی۔
"بالکل بھی نہیں، میں نے پورے ہوش و حواس میں یہی کہا ہے کہ کیٹس ہاؤس پر حملہ ہوا ہے۔ گراونڈ فلور کو کافی نقصان پہنچا ہے مگر خدا کا شکر ہے باقی حصے بچ گئے ہیں۔" انہوں نے مزید تفصیل سے آگاہ کیا۔
" کیسے؟" اس نے گہری سانس لے کر خود کو کمپوز کرتے ہوئے پوچھا۔
" ان سے ملو۔" احمد صاحب نے اپنے دائیں جانب بیٹھے دو اجنبیوں کی طرف اشارہ کیا جس پر دانین انہیں سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
" یہ میرے دوست ہیں ڈی پی او جعفر ملک اور یہ ان کے آفیسر ڈی ایس پی ریاض وڑائچ ۔ انہوں نے کسی کیس کے سلسلے میں مجھ سے کچھ دنوں کے لیے ہمارا اڈا استعمال کرنے کی درخواست کی تھی۔ بقول ان کے کوئی دہشتگردی میں مطلوب تھا اس لیے سب کچھ خفیہ طور پر کرنا تھا تو میں نے ان کو کیٹس ہاؤس استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ اس بات کو ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ کل رات کو کچھ لوگ وہاں داخل ہوئے اور اس آدمی کو وہاں سے چھڑوا کر لے گئے جس کے نتیجے میں بلڈنگ کو نقصان پہنچا ہے اور ان کے آفیسر بھی زخمی ہوئے ہیں۔" احمد صاحب نے اس کو تفصیل سے آگاہ کیا۔
" ہاؤ از اٹ پوسیبل؟ وہاں داخل ہونا اتنا آسان تو نہیں کہ کوئی بھی منہ اٹھا کرچلا جائے۔" وہ کچھ دیر تک سوچنے کے بعد بولی۔
" یہی سب سوچ کر تو میں بھی پریشان ہوں کہ ایسا ہو کیسے سکتا ہے کہ اتنی سخت سکیورٹی کے باوجود بھی وہ لوگ اندر داخل ہو گئے؟" احمد صاحب نے کہا۔
" ڈی پی او صاحب یہ سب کیا ہے؟" اس نے اب اپنا رُخ جعفر صاحب کی جانب کر کے ان سے پوچھا۔
" آئی ایم سوری بیٹا! میں خود بہت شرمندہ ہوں ۔ احمد نے مجھ پر اعتبار کیا تھا مگر یہ سب ہوگیا۔ میں تاوان دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔" انہوں نے کہتے ہوئے شرمندگی سے نگاہیں جھکائیں۔
"اوہ نہیں سر! آپ شرمندہ مت ہوں ۔ شکر ہے کہ زیادہ نقصان نہیں ہوا نہ بلڈنگ کا اور نہ ہی اس میں موجود لوگوں کا۔" دانین نے ان کو شرمندہ ہوتے دیکھ کر نرمی سے کہا۔ ابھی مزید وہ کچھ اور بولتی کہ اچانک ہی اس کی نظر جعفر صاحب کے پاس بیٹھے ڈی ایس پی پر پڑی جن کو کمرے میں ٹھنڈک ہونے کے باوجود بھی پسینہ آرہا تھا اور چہرے پر گھبراہٹ کے واضح آثار تھے۔ یہی دیکھ کر وہ چونکی ۔
" ایک بات بتائیں ڈی پی او صاحب، تفتیشی آفیسر کون تھا؟" اس نے ڈی ایس پی کو کڑے تیوروں سے گُھورتے ہوئے پوچھا۔
" وڑائچ صاحب تھے۔'' انھوں نے اپنے ساتھ بیٹھے ڈی ایس پی کی جانب اشارہ کرتے فوراً جواب دیا۔
" اور جب اٹیک ہوا تو تب وہاں کون تھا؟" اس نے گہری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
" یہ ہی وہاں پر موجود تفتیش کر رہے تھے۔" جعفر صاحب کی بات پر ڈی ایس پی اپنا پہلو بدل کر رہ گیا جبکہ وہ اب آہستہ سے چلتی ہوئی اس کے پاس آ کر رکی۔ " تو یہ ماجرا ہے۔ جی تو وڑائچ صاحب کیسے ہوا یہ سب ؟ کچھ بتائیں گے؟"
" سب کچھ آپ کے سامنے ہی تو ہے۔ میں کیا بتاوں؟'' اس نے حتی الوسع اپنے لہجے کی لڑکھڑاہٹ پر قابو پانے کی کوشش کی مگر دانین کی اپنے اندر تک اترتی نظروں سے گڑبڑا کر رہ گیا۔
" کچھ چیزیں مسنگ ہیں۔ پہلی بات جب سب کچھ خفیہ تھا تو ان کو اس جگہ کا علم کیسے ہوا۔ اس کے بعد وہ اندر کیسے داخل ہوئے؟ بغیر شناخت کے یہ کسی صورت بھی ممکن نہیں تھا۔" وہ تقریباً اس کے سر پے کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
" اس سب کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ان کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ کسی نے باقاعدہ اندر آنے کا راستہ دیا۔" اس کا لہجہ ایک دم سے سرد ہوا۔
" آپ مجھ پر الزام لگا رہیں ہیں۔" وہ غصے میں کہتا کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
" نہیں میں صرف ایک بات کر رہی ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہوا؟ عمارت باہر سے ایک نارمل بنگلے کی طرح ہے۔ جب تک کسی کو بتایا نہ جائے کہ یہ ایک سکیورٹی ادارے کے انڈر ہے ، تب تک کسی کو کیا پتہ؟ اور سب سے اہم بات جب تک حفاظتی نظام آف نہ کیا جائے کوئی چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی کجا کے ایک انسان۔" وہ تفصیل سے گویا ہوئی۔
" آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں؟"
" کہنا نہیں پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ کتنے میں بکے ہیں۔" اس نے طنزیہ مسکراہٹ سے پوچھا۔
" جسٹ شٹ اپ! میں اگر کچھ کہہ نہیں رہا تو آپ الزام پر الزام لگائے جا رہی ہیں۔" وہ طیش میں آتے ہوئے چیخا۔
"آواز نیچے، اس وقت آپ میرے آفس میں کھڑے ہیں نہ کہ اپنے تھانے میں جہاں آپ چیخ چلا کر بات کو دبا دیں گے۔" اس نے ناگواری سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
" جعفر صاحب میں جا رہا ہوں یہاں بیٹھ کر میں مزید ذلیل نہیں ہوسکتا۔ آپ آجائیے گا۔" وہ بجلی کی سی تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا مگر دروازے کے پاس کھڑے اشعر کو دیکھ کر اسے رکنا پڑا۔
" آپ کو شاید تمیز نہیں کہ ایک لیڈی جب بات کر رہی ہو تو اس کو ٹوکتے نہیں ہیں اور نہ ہی اس کی بات کو مکمل طور پر سُنے بغیر جاتے ہیں۔" اشعر نے سپاٹ انداز میں کہا۔
" اوہ جسٹ شٹ اپ۔" وہ پوری قوت سے چلایا۔
" یو شٹ اپ مسٹر ایکس وائے زی۔" اشعر نے اس کو کہتے ہوئے پیچھے کی جانب دھیکلا۔
" یہ کیا ہو رہا ہے؟" ہونق بنے بیٹھے جعفر صاحب نے تعجب سے پوچھا۔
" آپ کے اس آفیسر نے غداری کی ہے جناب، چاہے پیسے لیے ہوں یا پھر کسی دھمکی کے زیر اثر آ کر یہ حرکت کی ہو یہ نہیں جانتی مگر اتنا ضرور جان گئ ہوں کہ تمام حفاظتی سسٹم آف کر کے مجرموں کو باقاعدہ اندر داخل کروایا گیا ہے اور کہانی میں جان ڈالنے کے لیے انہوں نے خود کو زخمی کروایا ہے۔ چاہیں تو میں ثابت کر سکتی ہوں۔" دانین نے پلٹ کر انہیں جواب دیا۔ اشعر کا دھیان بھی جعفر صاحب کی طرف ہوا تو ریاض نے پسٹل نکال کر اشعر پر تانی۔
" لیں سر بلی تھیلے سے باہر آگئی۔" دانین اس کی حرکت پر بے ساختہ مسکرائی جبکہ جعفر صاحب اپنی کرسی سے تیزی سے کھڑے ہوئے۔
" خبردار جو کوئی آگے بڑھا تو، میں گولی چلا دوں گا"
" ریاض یہ کیا حرکت ہے؟" جعفر صاحب اب اس کی طرف بڑھے۔
" میں نے کہا ناں کوئی آگے مت آئے ورنہ گولی مار دوں گا اسے۔" اس نے طیش میں آتے ہوئے کہا۔
" تمہیں کیا لگتا ہے کہ ہم تمہاری ان کھوکھلی دھمکیوں سے ڈر جائیں گے؟" دانین نے بیک کی طرف ہاتھ لے جاتے ہوئے کہا۔
" میں دھمکی نہیں دے رہا ۔سچ کہہ ۔۔آآآآآآآ" وہ بولتے بولتے ایک دم سے کراہا۔ دانین نے اس کے پسٹل والے ہاتھ پر فائر کر دیا تھا جس کے نتیجے میں اس کے ہاتھ سے خون نکلنا شروع ہوچکا تھا اور پسٹل بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گری تھی۔ اس سے پہلے کہ اس کو سنبھلنے کا موقع ملتا اشعر نے جلدی سے اپنے پیچھے دیوار میں سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر ایک مخصوص بٹن دبا دیا۔ بٹن کے دبتے ہی جس جگہ ریاض کھڑا تھا وہاں سے لکڑی کا فرش دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور وہ دھڑام کی آواز کے ساتھ نیچے بنے تہہ خانے میں جا گرا۔
" خس کم جہاں پاک۔" دانین ہاتھ جھاڑتے ہوئے بڑبڑائی۔
" نیچے بے ہوشی کی گیس چھوڑ دی ہے جاتے ہوئے اپنا مجرم لے جائیے گا اور خود ہی تفتیش کر لیجئے گا۔ ہمارا کام بس اتنا ہی تھا۔" اشعر واپس اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
" میں معذرت خواہ ہوں کہ میری وجہ سے آپ سب کو اتنی تکلیف اٹھانا پڑی۔" جعفر صاحب ڈی ایس پی کی اصلیت سامنے آنے پر ایک بار پھر شرمندہ ہوئے۔
" کوئی بات نہیں اس میں تمہاری کیا غلطی ہے؟" احمد صاحب نے نرمی سے کہا۔
" پھر بھی یار میں تمہارا نقصان بھرنے کو تیار ہوں۔"
" اوہ نہیں یار۔ تم خواہ مخواہ میں گلٹ کا شکار ہو رہے ہو۔ ہم دیکھ لیں گے تم اپنے مجرم کے بارے میں بتاؤ کیا کرنا ہے؟" احمد صاحب نے بات بدلی۔
" تم لوگ اس کو شام تک یہیں رکھو۔ میں کچھ آفیسرز کو بھیج کر منگوا لوں گا۔ غداری کی سزا تو بہرحال اسے ملے گی"
"اوکے انکل! میں جا رہی ہوں۔ آپ کے بچوں نے آج ہمیں سوائپ ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔" دانین نے بھی اجازت چاہی۔
" دانین سنو، میں بھی گھر ہی جا رہی ہوں تم بھی میرے ساتھ ہی آجاؤ۔ مجھے تم سے کچھ بات بھی کرنی ہے۔" نوشین بیگم نے کہا تو اس نے رک کر سوالیہ نگاہوں سے پہلے احمد صاحب کو اور پھر نوشین بیگم کو دیکھا۔
"خیریت؟"
" ہاں بس ایک ضروری بات کرنی ہے۔ تم چلو تو سہی" وہ دروازے کی جانب جاتے ہوئے بولیں تو وہ بھی کندھے اچکاتی ان کے پیچھے ہی نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" کہاں جانا ہے؟" اس نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہی پوچھا
" گھر کی طرف ہی چلو۔"
" آپ نے شاید کوئی بات کرنی تھی؟" دانین نے سٹئیرنگ گھماتے گاڑی کو گھر کی طرف جانے والے راستے پر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
" دیکھو دانین، میں نے تمہیں یہاں کیوں بلایا ہے اس بات سے تو تم اچھی طرح واقف ہی ہو اور کل اسی سلسلے میں تمہارے والدین سے بھی بات ہوچکی ہے۔ اب بات تمہاری رائے پر ہی آ کر ختم ہوئی ہے تو تم بتاؤ کیا سوچا ہے تم نے؟'' اُنھوں نے بنا اِدھر اُدھر کی بات کیے سیدھا مدعے کی بات کی۔
"سیدھی سی بات ہے جو مام ڈیڈ کا فیصلہ ہوگا وہی میرا بھی مگر مجھے نہیں لگتا کہ آپ کا بیٹا راضی ہوگا اور میں یہ ہرگز نہیں چاہوں گی کہ آپ اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی زور زبردستی کریں۔" دانین نے حتمی لہجے میں انھیں جواب دیا۔
" اس کی تم فکر ہی مت کرو، میں خود ہی دیکھ لوں گی۔" نوشین بیگم نے نرمی سے کہا۔
" میں اسے اس کی گرل فرینڈ کے ساتھ دیکھ چکی ہوں آنٹی۔" اس نے جتاتے لہجے میں کہا۔
" اس سے کیا ہوتا ہے؟ وہ تو میں بھی کئی بار دیکھ چکی ہوں۔" وہ لاپرواہی سے شیشے کے پار دیکھتے ہوئے بولیں۔
" پھر؟" دانین نے حیرت سے ان کا انداز دیکھا۔
" پھر یہ کہ بری عادتیں چھڑوائی جا سکتی ہیں اور میری ہونے والی بہو بری عادتیں چھڑوانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔" اُنھوں نے مسکرا کر کہا تو اس نے چونک کر اُنھیں دیکھا اور اگلے ہی لمحے اس کے لبوں پر خوبصورت سی مسکراہٹ رینگ گئی۔
" ناٹ اے بیڈ آئیڈیا! اس بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔ویسے آنٹی آپس کی بات ہے آپ کا بیٹا ہے بڑا ہینڈسم مجھے خواہ مخواہ میں احساس کمتری ہونے لگتی ہے ۔" اس نے شرارت سے کہتے انہیں دیکھا تو انھوں نے مصنوعی انداز میں اسے گھورا۔ اسی طرح کی گفتگو کرتیں وہ لوگ گھر پہنچ گئیں۔ گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے وہ دونوں ساتھ ہی باہر نکلیں اور گھر میں بھی ساتھ ہی داخل ہوئیں۔ دانین تو آتے ہی سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ نوشین بیگم فروا سے رابیل لوگوں کی واپسی کا معلوم کرنے لگیں۔ ابھی وہ دونوں بات کر ہی رہیں تھیں کہ انھیں ارتضیٰ نِک سِک سا کہیں جانے کو تیار سیڑھیاں اترتا دکھائی دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ گھر سے باہر نکلتا نوشین بیگم اس کو اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔
" جی مام کہیں کیا بات ہے سب خیر تو ہے؟" کمرے میں داخل ہوتے ہی ارتضی نے نوشین بیگم سے کہا جو سنجیدگی سے کھڑی اسی کو دیکھ رہیں تھیں۔
" آؤ بیٹھو یہاں مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔" نوشین بیگم نے اسے کاؤچ پر بیٹھنے کو کہا اور خود بھی کاؤچ کی ایک جانب بیٹھ گئیں۔
" جی مام بولیں میں سُن رہا ہوں۔" ارتضیٰ اب مکمل ان کی جانب متوجہ تھا۔
" دیکھو ارتضیٰ، میں نے اور تمہارے ڈیڈ نے تمہاری شادی کا فیصلہ کیا ہے اور میں اس سلسلے میں دانین کے والدین سے بھی بات کر چکی ہوں۔ رشتہ تو بہت پہلے طے تھا مگر اب ہم چاہ رہے ہیں کہ باقاعدہ انگوٹھی پہنانے کی رسم کر لی جائے۔ تم بتاؤ تمھارا کیا ارادہ ہے ؟" وہ بغیر کسی توقف کے مدعے پر آئیں جبکہ ارتضی آنکھیں اور منہ کھولے حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
" ماما آپ اتنا بڑا فیصلہ مجھ سے پوچھے بنا کیسے کر سکتی ہیں؟" اس نے بےیقینی سے پوچھا۔
" تم سے پوچھ کے کیا کرنا ہے بتا رہی ہوں اتنا ہی کافی ہے۔زیادہ رش نہیں اکھٹا کرنا مجھے بس گھر کے لوگ ہی ہوں گے۔ تم بس تیاری کر لو۔" انھوں نے اسے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
" مگر ماما ایسے کیسے میں منگنی کرلوں جبکہ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں۔"
" میں جانتی ہوں۔" انہوں نے عام سے انداز میں کہا۔
" اس کے باجود بھی؟" اس نے حیرت سے پوچھا۔
"ہاں! کیوں کہ جو میں دیکھ رہی ہوں وہ تم نہیں دیکھ پا رہے اور ایک بچے کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں یہ ایک ماں سے بڑھ کر کوئی نہیں جان سکتا اس لیے تم اس بات کو رہنے دو۔"
" آپ اس بات کو رہنے دیں ماما۔ میں کوئی بچہ نہیں ہوں۔میں اس لڑکی سے ہرگز شادی نہیں کروں گا عجیب زبردستی ہے ۔" وہ باہر جانے کو اٹھا۔
" رکو ارتضی! " نوشین بیگم نے حکمیہ لہجے میں کہا۔
" ناؤ واٹ ماما؟" اس نے پلٹ ان سے پوچھا جسے وہ نظر انداز کرتے ہوئے اٹھیں اور کمرے سے باہر نکل کر رابیل کو دانین کو بلانے کا کہا اور خود الماری کھول کر اس میں سے کچھ ڈھونڈنے لگیں۔
" آپ نے بلایا آنٹی؟" دانین نے کمرے میں آتے ہوئے کہا۔
" ہاں بیٹا، ذرا اپنا ہاتھ دکھاؤ۔" الماری سے اپنی مطلوبہ چیز نکال کر پٹ بند کرتے ہوئے اس کے سامنے آتے ہوئے بولیں۔ دانین نے ان کے کہنے پر ناسمجھی سے اپنا ہاتھ ان کے سامنے پھیلایا جسے تھام کر انہوں نے اس کے ہاتھ کی تیسری انگلی میں ایک خوبصورت سی رنگ پہنادی۔
" یہ اتنی سی بات تھی۔ تمہاری ماں سے میں بات کر لوں گی۔" انہوں نے ہونق بنی کھڑی دانین کو گلے لگا کر اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔
" مگر ماما آپ..........." ارتضی جو خود سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا سمجھتے ہی فوراً اس نے اجتجاج کرنا چاہا۔
" جاؤ دانین۔" نوشین بیگم نے اسے کہا تو وہ زیرلب مسکراتی باہر چلی گئی۔
" میں نے آپ کو منع کیا ہے اور آپ نے رنگ پہنا دی۔" اس کے جانے کے بعد وہ جھنجھلاتے ہوئے بولا۔
نوشین بیگم کوئی جواب دیے بغیر واش روم کی طرف بڑھیں۔
" ماما لسن۔" اس نے پیچھے سے آواز لگائی مگر وہ ان سنی کرتیں واش روم میں چلی گئیں۔
"ماما!" دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ چیخا۔
کچھ دیر وہیں کھڑے رہنے کے بعد وہ وہاں سے مایوس ہو کر کمرے سے باہر نکل آیا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔ موڈ تو اس کا نوشین بیگم کی باتوں اور ان کے ابھی کے کیے گئے عمل سے ویسے ہی خراب ہوچکا تھا لہٰذا باہر جانے کا ارادہ بھی کینسل کر دیا۔ ابھی وہ کمرے کے نزدیک پہنچا ہی تھا کہ اسے دانین سیڑھیاں اترتی دیکھائی دی۔کچھ سوچ کر اس نے دانین کو آواز دی۔
" سنو لڑکی !"
"جی۔" اس نے رک کر خاصی فرمانبرداری سے پوچھا۔
"کسی غلط فہمی میں مت رہنا۔ یہ جو ابھی سب ہوا ہے یہ سراسر ماما کی خواہش اور مرضی سے ہوا ہے۔ اس سب میں میری خواہش اور مرضی شامل نہیں۔ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں اس لیے تمہارے حق میں یہی بہتر ہوگا کہ اس رشتے کو ختم کر کے چپ چاپ یہاں سے چلی جاؤ ،ورنہ میں تمہاری زندگی اجیرن کر دوں گا۔" ارتضی نے اپنی طرف سے اسے اچھی خاصی دھمکی دے ڈالی تھی۔وہ سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے طنزیہ مسکرائی۔
" آپ کو کیا لگتا ہے؟ یہ کوئی فلم چل رہی ہے یا ڈرامے کا کوئی سین ہے کہ آپ لڑکی کو ڈرائیں گے تو وہ ڈر کے مارے آپ کی بات مان لے گی۔ لائیک سیریسلی مسٹر ارتضی احمد؟
کم سے کم مجھے کوئی کمزور لڑکی سمجھنے کی غلطی بھی مت کیجیئے گا۔ اپنے مسائل خود حل کریں۔مجھے اس سب میں گھسیٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔" اس کے سرد و سپاٹ لہجے پر وہ لاجواب ہوکر رہ گیا۔
" امید ہے آپ میری بات اچھے سے سمجھ گئے ہوں گے۔" اس کو خاموش دیکھ کر وہ اس کو تنبیہہ کرتی سیڑھیاں اتر گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی ہی کوئی میسنی نکلی ہو۔ کچھ ہی لمحوں میں منگنی کروا کر بیٹھ گئی اور بتایا تک نہیں۔اگر بھابھی نہ بتاتی تو تم تو عین شادی کے موقع پر ہی بتاتی ۔" افشین کا میسج دیکھ کر وہ بے اختیار مسکرائی۔ وہ ٹی وی لاونج میں بیٹھی افشین سے بات کر رہی تھیں۔اس کو جب سے فروا بھابھی نے اس کی ایمرجنسی میں ہوئی منگنی کے بارے میں بتایا تھا وہ اس کے سر ہوئی تھی۔
اچھا ایک بات تو بتاؤ؟" افیشن نے ٹائپ کر کے بھیجا
ہاں۔"اس نے جواب بھیجا
بندہ صاف انکار کر چکا ہے۔نہیں نہیں بلکہ انکار تمہارے منہ پر مار چکا ہے۔ پھر بھی تم نے یہ منگنی کرا لی ۔وجہ تو بتاؤ۔"افیشن کا میسج آیا
کچھ بھی سہی مگر بندہ بہت ہینڈسم ہے یار۔"اس نے شرارت سے لکھ بھیجا۔ اچانک سے اس کی نظر ٹی وی پر چلتی خبر پر پڑی تو اس کی ساری خوشگواریت اڑنچھو ہوئی۔ نیوز اینکر ایک چودہ سالہ بچی کے ریپ کی خبر اور اس کی تفصیل دہرا رہا تھا۔ وہ موبائل رکھتے ہوئے مکمل ٹی وی کی جانب متوجہ ہوئی جہاں اب نیوز رپورٹر مجرم کی نشاندہی اور اس کے فرار کے بارے میں آگاہ کر رہا تھا۔جوں جوں وہ رپورٹ سن رہی تھی اس کے چہرے کے تاثرات پتھریلے ہوتے جا رہے تھے۔وہ سختی سے لب بھینچے یک ٹک سکرین دیکھ رہی تھی ۔کسی نامعلوم احساس کے زیر اثر احمد صاحب ںے گردن موڑ کر اسے دیکھا تو ٹھٹھکے۔
اس کے سخت ہوتے تاثرات اور صوفے کی ہتھی پر رکھے بےچینی سے ہلتے ہاتھ دیکھ کر انہیں شدت سے احساس ہوا کہ اس کے سامنے نیوز چینل نہیں لگانا چاہیے تھا۔ انہوں نے ریموٹ اٹھا کر چینل بدل دیا۔ ایک دم سے ٹی وی سے آتے شور سے اس نے چونک کر دیکھا تو وہ کوئی سپورٹس چینل لگائے بیٹھے تھے البتہ ان کی ساری حسیات اسی کی طرف مرکوز تھیں۔ان کی حالت دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگی اور وہ نفی میں سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ ابھی وہ سیڑھیوں تک ہی پہنچی تھی کہ پیچھے سے اسے احمد صاحب کی آواز سنائی دی ۔اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ اسی کی طرف ہی آ رہے تھے۔
"کیا میں یہ توقع رکھوں کہ تم ایسا کچھ نہیں کرو گی؟"
"نہیں۔" اس نے یک لفظی مگر صاف جواب دیا
"تمہیں اس سب میں انوالو ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ پولیس اپنا کام کر رہی ہے۔"
"نہیں انکل! پولیس اپنا کام نہیں کر رہی ۔ اگر کر رہی ہوتی تو آج دسویں دن بعد بھی مجرم آزاد نہ پھر رہا ہوتا بلکہ جیل میں ہوتا اور مظلوم کو اس کا حق مل گیا ہوتا۔"
"دیکھو بیٹا یہ قانونی داؤ پیچ ہوتے ہیں۔ اس میں ٹائم تو لگتا ہے نہ ایسے کیسے کسی کو بھی پکڑ کر سزا دے دیں۔" انہوں نے اسے نرم لہجے میں سمجھاتے ہوئے کہا۔
"آپ نے شاید ٹھیک سے سنا نہیں، مجرم کا پتا چل چکا ہے مگر وہ فرار ہے ۔" اس نے تنک کر جواب دیا۔
"یہ جو ہماری پولیس ہے نہ اس کو سب پتا ہوتا ہے یہاں تک کے واردات سے پہلے ہی ان کو واردات کا علم ہوتا ہے مگر یہ آنکھیں اور کان بند کر لیتے ہیں۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ ان کی جیبیں بھر کر ان کے منہ بند کر دیے جاتے ہیں۔ ان کو چند پیسے دے کر آپ کچھ بھی کر لو پوچھیں گے تک نہیں، ہاں ان کا قانون اور اختیارت اس وقت جاگتے ہیں جب کوئی غریب بھوک سے تنگ آ کر کسی کی جیب کاٹتا ہے یا کوئی چھوٹی موٹی چوری کرتا ہے تب ان کے ایکشن دیکھنے لائق ہوتے ہیں۔" اس نے سر جھٹک کر افسوس سے کہا۔
"اوکے! آئی پرومس اس کیس کو میں خود دیکھوں گا اور جہاں تک ہو سکا مجرم کو اس کے کیے کی سزا دلواؤں گا مگر تم کچھ نہیں کرو گی۔" انہوں نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے تحمل سے کہا۔ ان کی حتی الوسع کوشش تھی کہ وہ کسی طرح سے ٹل جائے۔ کچن سے نکلتی نوشین بیگم ان کو یوں کھڑا دیکھ کر مسکراتی ہوئیں ان کے پاس آئیں۔
"کیا بات ہے کرنل صاحب؟ کافی بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔"
"آپ کے کرنل صاحب بوڑھے ہوگئے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے گھبرانے لگے ہیں ۔اسی لیے مجھے بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ منہ چھپا کر گھر میں ہی بیٹھی رہو۔" اس نے جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ سے جواب دیا۔
"میں بوڑھا نہیں ہوا۔ الحمداللہ! میں آج بھی اتنی ہمت رکھتا ہوں کہ مقابل کو ایک ہی وار میں قدموں میں آنے پر مجبور کر دوں مس دانین ابراہیم! مگر یہ مسئلہ تمہارا نہیں ہے جن کا ہے وہ دیکھ لیں گے۔"
"میرا بحث کرنے کا موڈ نہیں ہے۔" اس نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا اور سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
"تم اس معاملے سے دور رہو گی ۔ تمہارا باس ہونے کی حیثیت سے یہ میرا حکم ہے اور تم اس کو فالو کرو گی۔" انہوں نے تیز اور سخت لہجے میں کہا۔ وہ پانچویں سیڑھی پر جا کے رک کر گھومی اور ان کے چہرے پر چھائی سنجیدگی دیکھ کر دلکشی سے مسکراتی ہوئی گویا ہوئی۔
"میں آف ڈیوٹی ہوں"
"گڈ شاٹ" نوشین بیگم نے ہلکا سا ہنستے ہوئے اس کو شاباش دی۔
"اوکے فائن! مگر تم نہ تو اس کی جان لو گی اور نہ ہی حد سے زیادہ ٹارچر کرو گی ۔" احمد صاحب نے ہار مانتے ہوئے کہا۔ جانتے تھے کہ وہ پیچھے نہیں ہٹے گی
"اس بات کا فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟" اس نے بھنویں اچکاتے ہوئے سوال کیا۔
"کیا مطلب ؟" احمد صاحب نے حیرانی سے اس کا یہ انداز دیکھا۔ کچھ بھی تھا مگر وہ یوں پلٹ کر جواب نہیں دیتی تھی۔
"مطلب یہ کہ اس بدبخت کی سزا کا تعین آپ کیسے کر سکتے ہیں ۔نہ آپ پر گزری, نہ بیتی تو جس نے ظلم سہا ہے تو سزا دینے کا اختیار بھی اسی کا ہی ہوگا اور ہاں فکر مت کیجئیے گا اس کی جان نہیں لوں گی، جان لے لی تو بات ہی ختم ہوجائے گی۔ زندہ رکھ کر عبرت کا نشان نہ بنایا تو میرا نام بھی دانین ابراہیم نہیں۔" اس نے ٹھہرے مگر مضبوط لہجے میں کہا ۔اس کا ہر ہر انداز اس کے اٹل ارادے کی گواہی دے رہا تھا۔
"شب بخیر، سو جائیے اور ٹینشن مت لیجئیے گا میں سنبھال لوں گی"
"احتیاط سے۔" اس کو ٹلتا نہ دیکھ کر احمد صاحب نے اس کو تاکید کی۔ ان کی فکرمندی پر وہ کھل کر مسکرائی۔
"پہلے کبھی کوئی ثبوت چھوڑا ہے جو اب چھوڑوں گی ۔ آنٹی ان کو سٹرونگ سی کافی بنا دیں تاکہ کچھ ریلیکس ہو سکیں۔" وہ پہلے احمد صاحب اور پھر نوشین سے کہتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
"جب جانتے تھے تو اسے بتایا کیوں؟" اس کے جانے کے بعد نوشین بیگم بولیں۔
"میں نے نہیں بتایا اس نے نیوز سنی ہے ۔" انہوں نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے جواب دیا۔
"آپ اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہیں؟ یہ کوئی پہلی بار تو نہیں ہے وہ اس سے بڑے بڑے کیسز ہینڈل کر چکی ہے۔" نوشین بیگم نے تعجب سے پوچھا۔
"آپ دونوں سمجھ نہیں رہی ہیں۔ اس بار مجرم خاصی سٹرانگ فیملی سے تعلق رکھتا ہے اگر ان کو بھنک بھی لگ گئی تو تم سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کیا ہو سکتا ہے۔" انہوں نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
"دانین ٹھیک کہہ رہی تھی آپ کو واقعی ہی کچھ دیر سکون کی ضرورت ہے۔ آپ کمرے میں جائیں میں کافی لاتی ہوں۔" نوشین بیگم نے ان کی ایک ہی رٹ سے تنگ آ کر کہا اور ان کی سنے بغیر وہاں سے کچن کی جانب واپس چلی گئیں۔
"یا میرے اللّٰہ! یہ دونوں سمجھ کیوں نہیں رہیں۔ حد ہے۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے اپنی پیشانی مسلتے دوبارہ لاؤنج میں جا بیٹھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان تینوں نے اپنی نگرانی میں جہاں جہاں سے عمارت کو نقصان پہنچا تھا ٹھیک کروایا تھا۔جب سے اٹیک ہوا تھا ان تینوں میں سے کوئی نہ کوئی چکر لگاتا ہی رہتا تھا۔وہ دونوں اس وقت کیٹس ہاوس میں بیٹھی تھیں اور اشعر کہیں باہر گیا ہوا تھا۔دانین نے پرنٹر سے تصویر نکال کر اس کے سامنے میز ہر رکھی۔
"یہ تصویر دیکھو۔"'
افشین نے تھوڑا آگے کو ہو کر دیکھا اور اگلے ہی لمحے تصویر اٹھاتے ہوئے چہکی
ارے واہ!تو فائنلی تم نے میرے لیے لڑکا دیکھ ہی لیا۔ تھینک یو سو مچ ۔کتنا خیال ہے تمہیں میرا ۔میں تو ایسے ہی تمہیں غلط سمجھ رہی تھی کہ تم لوگوں کو میری پرواہ نہیں ۔"
"تمہیں پسند آیا؟'' دانین نے سنجیدگی سے پوچھا
"یہ بھی بھلا کوئی کہنے کی بات ہے۔تم بس بات چلاو باقی سب میں سنبھال لوں گی ۔"افشین تصویر کو غور سے دیکھتے ہوئے بولی
"نہیں بات بھی تم ہی چلاؤ گی۔" دانین اٹھ کر ایک طرف پڑے لیپ ٹاپ کو آن کرتے ہوئے بولی
"لڑکی اپنی بات چلاتے اچھی لگے گی بھلا؟ کوئی عقل والی بات بھی کر لیا کرو۔" اس نے اپنے تئیں خاصی دانشوری دکھانی چاہی
"چاہے تو کچھ دیر اور اس کو غور سے دیکھ لو مگر اس کے بعد مجھے یہ بندہ یہاں چاہیے۔"
"ڈی!" افشین کو صدمہ ہی تو لگا تھا
مطلب یہ بھی میرا جوڑا نہیں تھا۔"اس نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا اور میز پر سر ٹکا کر بیٹھ گئی گویا اسے کافی صدمہ لگا ہو۔
"کہیں مر ور تو نہیں گئی؟"دانین نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے چھیڑا
" کوشش کر رہی ہوں اور تمہارا ساتھ رہا تو ان شاء اللہ بہت جلد اس کوشش میں کامیاب ٹھہروں گی۔" اس نے جل کر کہا
"بائی دا وے کس چکر میں ہو۔" افشین نے سنجیدہ ہو کر پوچھا
ریپ اور وہ بھی چودہ سال کی بچی۔" اس نے مختصر جواب دیا۔
"اوہ ۔"اس نے لب سکیڑے
"کتنا ٹائم لگے گا اس کو یہاں لانے میں ؟دانین نے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتے ہوئے پوچھا
"ایک بار مل گیا تو زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے۔" افشین نے جواب دیا۔ دانین نے سر ہلاتے ہوئے اشعر کا نمبر ڈائل کیا
ہاں اشعر بولو۔"
" افشی آ رہی ہے ۔اس کو کور تم دو گے ۔اگر وہ زرا سی بھی مشکل میں پڑی تو زمہ دار تم ہوگے سمجھے۔" دوسری طرف سے اشعر کی بات سن کر اس نے سخت اور جذبات سے عاری لہجے میں کہا اور فون رکھ دیا
" مین روڈ پر ایک ریسٹورنٹ میں اپنے دوستوں کے ساتھ موجود ہے۔اسے یہاں پر کیسے لانا ہے یہ تم سوچو گی مگر ایک بات کا خیال رکھنا ۔کوئی گواہ مت چھوڑ کر آنا خاص طور پر اس کے دوست اور ہاں میک اپ کر کہ جانا ۔" اس نے اٹھتے ہوئے کہا
"اوکے میں خیال رکھوں گی ۔" افشین اندورنی کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی
"میک اپ کرتے ہوئے لُک پیاری سی لے لینا۔سنا ہے خوبصورت لڑکیوں کا شیدائی ہے کمینہ۔ تمہاری یہ اوریجنل شکل پر شاید تمہیں لفٹ نہ دے۔"اس نے اسے ریسٹورینٹ کا پتہ تھماتے ہوئے مبہم سی مسکراہٹ سے کہا۔جب تک افشین بات سمجھتی وہ کمرے سے نکل کر کچن میں چکی تھی
ڈی! "اس کی بات سمجھ کر وہ پوری قوت سے چیخی