"کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟" اس کو منہ کھولے خود کو دیکھتا پا کر افشین نے پوچھا۔
"ایک بات بتاؤں؟" وہ زیرلب مسکراتی ہوئی بولی۔
"آپی آنٹی بلا رہی ہیں۔" رابیل نے دروازے سے جھانک کر دانین کو مخاطب کیا.
"تم چلو میں دو منٹ میں آتی ہوں۔"
"ہاں تو مس افشین تم ابھی اس کی اصلیت سے ناواقف ہو۔ تمہیں جتنا وہ کمزور اور بےوقوف لگ رہا ہے ویسا ہے نہیں۔ ہمارے ساتھ کام کرتے ہوئے اگر وہ ہم سے ایک قدم پیچھے رہتا ہے تو یہ اس کی کم عقلی نہیں، اس کا بڑا پن ہے، اس کی اچھی تربیت کا نتیجہ ہے۔ ٹھیک ہی کہتے ہیں اچھے انسان کو آج کل لوگ روئی کے گالے سے بھی ہلکا لے لیتے ہیں۔" دانین نے افسوس سے سر جھٹکا۔
"کیا مطلب؟"
"راجہ کو جانتی ہو؟"
"ہاں بدنام زمانہ سمگلر طافو کا نمبر ٹو ہے یہاں۔"
"پچھلے ایک سال سے اشعر اس کی جگہ کام کر رہا ہے۔ جانتی ہو کیوں؟"
"کیوں؟" اس نے بےاختیار پوچھا.
"کیوں کہ وہ آئی ایس آئی کا آفیسر ہے۔" اس نے سکون سے اس کے سر پر بم پھوڑا۔
"واٹ؟" اس نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔
"یس، ابھی پرسوں ہی اس نے ایئرپورٹ سے طافو کو گرفتار کیا ہے اور اس کے یہاں کے سارے سیٹ اپ کا صفایا کیا ہے۔ شروع سے لے کر آخر تک سارا پلان اس کے خود کا تھا۔ ایک سال تک دشمن کے گھر میں گھس کر اس کی نظروں کے سامنے رہ کر، اس کے آدمیوں کے درمیان رہ کر کام کیا ہے۔ تم سوچ بھی نہیں سکتیں کتنا رسکی کام تھا مگر وہ پرواہ کیے بغیر اپنا کام کرتا رہا ہے۔ ایک ایک ثبوت اکھٹے کر کے ڈیپارٹمنٹ بھیجے اور یہ رسک اس نے خود اپنے دم پر لیا تھا اور آج تم کہہ رہی ہو اس میں دم نہیں ہے۔ کمال ہے اور کتنا دم چاہیئے ؟ اب تو دم نکلنے کی کسر ہے۔" دانین نے آخر میں منہ بنایا۔
"تم یہ سب کیسے جانتی ہو؟" اس نے کھوئے کھوئے لہجے میں پوچھا۔
"ایک دن اشعر سر کے ساتھ کچھ ڈسکشن کر رہا تھا یہی طافو والے کیس سے متعلق اور ان دونوں کی باتیں میرے کان میں پڑ گئیں اور مجھے تو تم جانتی ہی ہو جب تک مکمل تفصیل نہ حاصل کر لوں چین نہیں پڑتا۔ بس پھر کچھ دن تک اشعر کا پیچھا کیا اور آخرکار پتہ چلا لیا۔
خیر میں چلتی ہوں آنٹی انتظار کر رہی ہیں، ابھی مجھے ان کو بھی سمجھانا ہے۔ مجھے تو سوچ سوچ کر ہی ڈر لگ رہا ہے ناجانے کیا سوچیں گی میرے بارے میں کہ پہلے رشتہ لے کر آئی اور اب منع کر رہی ہے۔" وہ اٹھتے ہوئے بولی۔
"کیا سمجھانا ہے؟" وہ اٹھ کر اس کی طرف آتے ہوئے بولی۔
"یہی کہ افشی راضی نہیں ہے اور کیا؟" اس کے تاثرات انجوائے کرتے ہوئے اس نے جواب دیا۔
"کس نے کہا میں راضی نہیں؟" اس نے ابرو اچکائے۔
"ابھی تو تم نے منع کیا ہے کہ تمہیں اس سے نہیں شادی کرنی۔"
"کوئی ثبوت ہے؟"
"ثبوت کیا کرنے؟ تم منع کر چکی اور میں آنٹی سے بات کرنے کی ہامی بھر چکی بس بات ختم ۔" وہ کہتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھی۔
"میں بھی تو وہی کہہ رہی ہوں نہ کہ بات ختم کرو۔" وہ جلدی سے اس کے سامنے آئی۔
"میں سمجھی نہیں؟"
"میں سمجھاتی ہوں ناں۔" افشین شرمیلی سی مسکان سجاتے ہوئے بولی۔
"وہ مجھے نہ اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں۔ میں دل و جان سے تیار ہوں۔" اس نے دوپٹہ میسر نہ ہونے پر انگلی ہی اپنے دانتوں تلے دبائی چونکہ اس کا نیا نیا تجربہ تھا اس لیے دانت کچھ زیادہ ہی زور سے انگلی پر لگ گئے تھے۔ وہ سی کرتی ہوئی جلدی سے انگلی منہ سے نکال گئی۔
"تم یہ بھی لے سکتی ہو۔" دانین نے اپنے دوپٹے کا کونا اس کے سامنے کیا۔
"چلو اب دفع ہوجاؤ اور اچھی سی شاپنگ کر کے لانا۔" اس نے ہنستے ہوئے اسے باہر کی جانب دھیکلتے ہوئے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ناشتے کے لیے نیچے آئی تو خلاف معمول کافی خاموشی تھی۔ کچن میں جھانکا تو وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ میز پر اس کا ناشتہ تیار پڑا تھا۔ وہاں سے نکل کر وہ لاونج مین آئی تو ارتضی وہاں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔
"سنیں! باقی سب کہاں ہیں؟"
اس کے پوچھنے پر وہ ہلکا سا مسکراتے ہوئے اخبار رکھ کر اٹھا اور چلتا ہوا اس کے پاس آ کر گویا ہوا۔
"تمہیں نہیں پتہ؟"
اس نے نفی میں اپنا سر ہلا کر لاعلمی کا اظہار کیا۔
"کچھ بہت ہی عزیز رشتے داروں کے ہاں گئے ہیں۔" ارتضی نے سوچا اگر اسے نہیں پتا تو وہ کیوں بتائے۔
"اچھا، بتایا بھی نہیں۔" وہ خود سے بڑبڑائی۔
"ہو سکتا ہےتمہارے لیے سرپرائز رکھنا چاہ رہے ہوں۔"
"آپ نہیں گئے؟" وہ جاتے جاتے پلٹی۔
"نہیں میں کچھ دن بعد جاؤں گا۔" اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے جواب دیا۔ ارتضی کا جواب سن کر وہ واپس کچن میں چلی گئی اور ارتضی دوبارہ سے اخبار اٹھا کر پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔
چونکہ گھر پہ کوئی بھی نہیں تھا اس لیے وہ شدید کوفت اور بیزاریت میں مبتلا بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ اس کا فون بجا۔ نمبر دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر خوبصورت سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
"اسلام و علیکم بابا!"
"وعلیکم اسلام، کیسا ہے میرا بچہ ؟" انہوں نے محبت سے پوچھا۔
"میں بالکل ٹھیک آپ کیسے ہیں؟"
"اللہ کا کرم ہے۔ اچھا بیٹا کیا تم اس وقت گھر آ سکتی ہو؟کچھ ضرری کام ہے۔"
"خیریت! سب ٹھیک تو ہے بابا؟" اس نے حیرانی سے پوچھا۔ وہ اسے کبھی بھی یوں ایمرجنسی میں نہیں بلاتے تھے۔
"ہاں میرا بیٹا سب خیریت ہے بس ایک چھوٹا سا کام ہے۔ تم یہاں آجاؤ تو بات کرتے ہیں اور ہاں اپنا ضروری سامان بھی ساتھ لیتی آنا۔ میرا بچہ اس بار ایک دو دن میرے پاس رکے گا ٹھیک ہے، بس جلدی سے آجاؤ ہم لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ خدا حافظ۔" وہ اسے کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر ہی فون بند کر گئے اور وہ ہیلو ہیلو ہی کرتی رہ گئی۔
"کمال ہے۔" وہ سوچتے ہوئے اٹھی اور اپنے کمرے میں جا کر الماری سے بیگ نکال کر اس میں جلدی جلدی اپنے کچھ جوڑے اور باقی ضرورت کا سامان رکھنے لگی۔ بیگ تیار کرنے کے بعد وہ سرعت سے ڈریسنگ روم میں گھسی اور تیار ہوکر باہر نکلی۔ سائیڈ ٹیبل سے اپنا موبائل اور گاڑی کی چابیاں اٹھاتی اپنا بیگ سنبھالتی وہ نوشین بیگم اور احمد صاحب کو اپنے جانے کا میسج بھیج کر وہ گھر سے باہر نکلی اور گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل گئی۔ اس کو جلدی میں جاتا ہوا دیکھ کر ٹیرس پر کھڑے ارتضی کے لبوں پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ آن ٹھہری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدھے گھنٹے کی مسافت طے کر کے وہ گھر پہنچی تو پورج میں کھڑی احمد صاحب، اشعر اور افشین ان سب کی گاڑیاں کھڑی دیکھ کر وہ حیرت زدہ ہوتی جلدی سے اتر کر گھر میں داخل ہوئی۔ اندر سے آتیں باتوں اور قہقوں کی آوازیں اسے باہر سے ہی سنائی دے گئی تھیں۔ اس کو اندر آتا دیکھ کر دانین کی ماما کبرا بیگم نے اٹھ کر اسے گلے لگا کر پیار کیا۔ عاقب صاحب بھی اٹھ کر اس سے ملے۔
"آپ لوگوں نے اگر یہاں آنا تھا تو مجھے بھی ساتھ ہی لے آتے۔ یوں صبح سویرے چوروں کی طرح نکلنے کی کیا تُک بنتی تھی۔ اس نے خفگی سے ان سب کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"بس بیٹا جس کام سے ہم آئے ہیں وہ تمہارے بغیر بھی ہوسکتا تھا اس لیے آگئے مگر اب بچوں نے ضد پکڑ لی کہ انہیں باقاعدہ چھوٹی سی رسم کرنی ہے اس لیے تمہیں بلوانا پڑا۔" نوشین بیگم نے وضاحت دی۔
"کون سی رسم؟ کیسی رسم؟" وہ چونکی۔
"تم یہاں آؤ تمہیں ساری تفصیل میں بتاتی ہوں۔" فروا بھابھی اسے اپنے پاس بلاتے ہوئے بولیں اور اسے مختصر لفظوں میں ساری بات بتا دی جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ نوشین بیگم اور احمد صاحب چاہتے تھے کہ افشین اور اشعر کے ساتھ ہی اس کا اور ارتضی کا نکاح بھی کر دیا جائے۔ وہ سب تو خاموشی سے ہی کرنا چاہ رہے تھے مگر رابیل نے شور مچا دیا کہ وہ لڑکے کی چھوٹی بہن ہونے کے ناطے رسم بھی کرے گی اور تصویریں بھی بنائے گی۔ دانین نے کبرا بیگم کی طرف دیکھا تو انہوں نے سر کے اشارے سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ افشین کے نکاح کے اگلے دن اس کی نکاح کی ڈیٹ رکھی گئی تھی۔ رابیل شاید اس کا بندوبست کر کے آئی تھی، اس لیے اس نے اپنے بیگ سے انگوٹھی نکال کر دانین کو پہنائی اور اس کا منہ میٹھا کیا۔ ارسل ان کی تصویریں اور وڈیوز بناتا رہا۔ دوپہر کا کھانا کھا کر وہ لوگ واپس آگئے تھے۔ دانین کو کبرا بیگم نے روک لیا تھا کہ چونکہ نکاح میں بس چار دن ہی رہتے ہیں اس لیے اب وہ وہاں نہیں جائے گی اور وہ ان کی صورت دیکھ کر خاموش ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلا آخر وہ دن بھی آن پہنچا جس دن افشین اور اشعر کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہونا تھا۔ دانین رات کو ہی افشین کے گھر آگئی تھی۔ افشین کے ساتھ ساتھ دانین بھی پارلر سے تیار ہو کر گھر پہنچ چکی تھی۔ فروا بھابھی اور رابیل نے لڑکے والوں کی طرف سے آنا تھا۔ اشعر نے تو دانین سے بھی اصرار کیا تھا کہ اس کے ساتھ جائے مگر افشین ہتھے سے ہی اکھڑ گئی تھی کہ وہ اس کی دوست ہے تو اس کے ساتھ رہے گی۔ اشعر نے اس کا انداز دیکھ کر خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ ان کے پیشے کے لحاظ سے سب کچھ خاموشی سے ہی کیا جارہا تھا اور نکاح میں بھی گھر کے افراد ہی تھے اس لیے نکاح کا انتظام لاونج میں ہی کیا گیا تھا۔ اشعر لوگوں کی آمد کے بعد نکاح ہوا۔ نکاح کے بعد صباحت بیگم نے رابیل کو بھیجا کہ افشین کو نیچے لے آئیں۔ کچھ ہی دیر میں دانین اور رابیل کے ہمراہ افشین سیڑھیاں اترتی دکھائی دی۔ سب ان کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ ارتضی نے جو نگاہ اٹھا کردیکھا تو اپنی جگہ منجمد ہو گیا۔ بالوں کا اسٹائلش سا جُوڑا بنائے اور گولڈن رنگ کی گھیر دار فراک جس کے بازو اور گلے پر موتی لگے ہوئے تھے زیب تن کیے سرخ رنگ کا دوپٹہ ایک کندھے پر سیٹ کیے وہ افشین اور رابیل کی کسی بات پر مسکراتی ہوئی سیڑھیوں سے نیچے آرہی تھی۔ تقریب کی مناسبت سے اس نے نفاست سے میک اپ بھی کر رکھا تھا جو کہ خالصتاً پارلر والوں کی مہربانی تھی ورنہ دانین اور افشین دونوں ہی مسکارے اور آئی لائینر کو بھی گن کی طرح پکڑتی تھیں لگانا کیا خاک آتا۔ اس کے بڑھتے ہوئے ہر قدم کے ساتھ ارتضی کا دل دھڑک رہا تھا۔ جیسے جیسے وہ نزدیک آتی جا رہی تھی اس کی دھڑکن تیز، آنکھیں بڑی ہوتیں اور منہ کھلتا جا رہا تھا۔ گہری سیاہ آنکھوں میں کاجل اور لائینر نے مل کر تو کمال کیا ہی تھا مگر ہونٹوں پرسجی ہلکی سرخ رنگ کی لپ سٹک نے قیامت ڈھا دی تھی۔ بظاہر حیرت و بےیقینی کا مجسمہ بنا ارتضی احمد نکاح سے پہلے ہی چاروں شانے چت ہوا تھا۔ اس کو یک ٹک دانین کو دیکھتا پا کرمرتضی اس کے کان کے پاس جا کر کھنکھارا تو وہ چونک کر ہوش میں آیا۔
"کنٹرول میرے بھائی کنٹرول۔" مرتضی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ مسکراتے ہوئے کہا تو وہ کھسیا گیا۔
"اگر یہ کایا ایسے ہی پلٹتی رہی تویقینی بات ہے میں اپنے دل سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔" وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بڑبڑایا۔ اس نے ہمیشہ ہی اسے جینز ٹی شرٹ میں دیکھا تھا۔ چال ڈھال سے بھی نہیں لگتا تھا کہ وہ لڑکی ہے۔ اب اس کا اچانک سے اتنا بدل جانا اس کے لیے بہت بڑا سرپرائز ثابت ہوا تھا۔ رابیل نے تصویریں لینے کا جو سلسلہ شروع کیا تو وہ خاصا لمبا ہوگیا تھا۔ ان کو ہنسی مذاق کرتا دیکھ کر سب بڑے اٹھ کر باہر لان میں چلے گئے۔ رابیل نے دانین کو ساتھ بیٹھنے کا کہا تو وہ افشین کے پاس آئی۔ دونوں کو باری باری مٹھائی کھلا کر وہ وہاں سے جانے کی بجائے کرسی گھسیٹ کر اشعر کی سائیڈ پر اطمینان سے بیٹھ گئی۔
"سنا تھا کہ شریف بندے کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ اس کی شرافت کو لوگ اس کی کمزوری سمجھ لیتے ہیں۔ آج تک سنا ہی تھا مگر اب دیکھ بھی لیا۔"
افشین جس کے کان بات کے شروع میں ہی کھڑے ہوچکے تھے جھٹ سے بولی۔
"ارتضی بھائی آپ شادی کے بعد بھی اپنی بیوی کو "لیکچرشپ" کی اجازت دیں گے؟" افشین نے لیکچرشپ پر زور دیتے ہوئے کہا.
"مرضی ہے اس کی۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔" اس نے سادہ سے انداز میں جواب دیا۔
"واہ بھئی! کیا فرمانبرداری ہے۔ دل خوش ہوگیا۔" افشین طنزیہ بولی۔
"اچھا بھائی ایک بات بتائیں! اگر کبھی آپ کو پتہ چلے کہ دانین نے آپ سے کوئی جھوٹ بولا ہے تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟" دانین کو بولنے کے لیے منہ کھولتا دیکھ کر افشین پھر سے بولی۔
"یہ تو منحصر ہے کہ کون سا جھوٹ بولا ہے۔ ویسے مجھے نہیں لگتا کہ یہ مجھ سے کوئی جھوٹ بولے گی" ارتضی نے دانین کو تکتے ہوئے کہا۔
"چھوڑو نہ ۔تم یہ مٹھائی کھاؤ۔" اس سے پہلے کہ افشین مزید کوئی گوہر افشانی کرتی دانین نے پُھرتی سے پورا لڈو اٹھا کر اس کے منہ میں ٹھونس دیا۔
"زرا تھم کے رہو۔ ایسا نہ ہو تمہارا باجا میں یہیں بجا دوں۔" افشین نے منہ سے آدھا لڈو نکالتے ہوئے دھیمی آواز سے کہا۔ پاس بیٹھا اشعر اپنی بیوی کی دھمکیاں سن کر افسوس سے بس نفی میں سر ہلا کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن ان کا نکاح بھی بخیرو عافیت سے ہوگیا تھا۔ زندگی اپنے معمول پر آنے لگی تھی۔ دانین تین سے چار دن اپنے گھر رہ کر اب واپس احمد صاحب کے ہاں جانے کے لیے تیار تھی مگر کبرا بیگم اب اسے وہاں بھیجنے پر راضی نہ تھیں۔ ان کو بہت معیوب سا لگ رہا تھا کہ بنا رخصتی کے وہ کام کی غرض سے ہی سہی وہاں رہے۔ انہوں نے اسے بہت روکا مگر دانین نے ان سے کہا کہ اس کا کچھ بہت ہی ضروری کام ادھورا ہے جس کو وہ ادھورا نہیں چھوڑ سکتی مکمل کر کے جلد ہی واپس آجائے گی جس پر وہ بمشکل ہی راضی ہوئیں اور اب وہ احمد صاحب کے گھر میں موجود تھی۔ اپنے کمرے میں آ کر فریش ہو کر وہ کھڑکی کے پاس کھڑی احتشام افتخار کے بارے میں سوچنے لگی۔ اس کی جانب سے اتنی خاموشی دانین کو ہضم نہیں ہورہی تھی۔ وہ یقیناً کچھ بڑا کرنے کا سوچ رہا تھا مگر کیا؟ بس یہی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ ابھی وہ کھڑکی میں کھڑی انہی سوچوں میں مگن تھی کہ کسی کے دھڑ سے دروازہ کھولنے پر وہ چونک کر پلٹی اور دیکھا تو رابیل صاحبہ کسی طوفان کی طرح تیزی سے بھاگتی ہوئی اس کے پاس آ رہی تھی۔
"آپی۔۔۔۔۔آپی وہ علیزہ بھائی کو پھر سے فون کر رہی ہیں۔" پھولے تنفس کے ساتھ وہ اس کو بتا کم بریکینگ نیوز زیادہ دے رہی تھی۔ ایک لمحے کو دانین کا رنگ متغیر ہوا لیکن پھر مسکرا کر اس سے پوچھا۔
"تم کو کیسے پتہ؟"
"ابھی ان کا فون آیا تھا اور بھائی میرے پاس ہی بیٹھے تھے۔ اتفاق سے ان کا موبائل میرے پاس ہی رکھا تھا تو میری نظر پڑ گئی۔ انہوں نے جیسے ہی دیکھا کہ علیزہ کی کال ہے تو موبائل اٹھا کر اپنے کمرے میں چلے گئے اور آپ کو تو میرا پتہ ہی ہے تو میں نے کان لگا کر سنا وہ علیزہ پر غصہ کر رہے تھے۔" اس نے فخریہ اپنا کارنامہ اسے سنایا۔
" بری بات ہے۔ میں نے تمھیں کتنی بار کہا ہے کہ یہ جاسوسی اور ٹوہ لگانے سے باز آجاؤ ورنہ میں بہت بری پیش آونگی۔" رابیل جو اپنے کارنامے پر داد لینے والی نظروں سے اسے دیکھ رہی اس کے ٹھنڈے ردعمل پرمایوس ہوتی باہر نکل گئی۔ اس کے جانے کے بعد دانین جلدی سے کمرے میں موجود الماری کی طرف آئی اور اس کو کھول کر سب سے نیچے والے خانے میں سے ایک چھوٹے سے بیگ سے ڈکٹا فون نکال کراپنے اور ارتضی کے کمرے کی درمیانی دیوار کے ساتھ لگایا اور اس کا ریسیور فوراً اپنے کان سے لگایا۔ ریسیور کان سے لگاتے ہی اسے دوسری طرف سے ارتضی کی غصیلی آواز سنائی دی۔
"شٹ اپ علیزہ! میں نے تمہیں کہا تھا کہ دوبارہ رابطہ مت کرنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔"
"تم مجھے دانین کا نام لے کر دھمکا رہی ہو؟" دوسری طرف سے جانے کیا کہا گیا کہ وہ چیخ اٹھا۔
"اوکے فائن۔ کہاں آنا ہے بتاؤ میں آتا ہوں۔" ارتضی نے کہا اور کچھ دیر کی خاموشی کے بعد فون کٹ گیا۔ دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سن کر وہ کان سے ریسور نکال کر ڈریسنگ کے دراز میں ڈالتی، پسٹل جیکٹ میں رکھ کر وہ باہر نکلی تو ارتضی کی گاڑی اسے تیزی سے گیٹ سے باہر جاتی دکھائی دی۔ اس نے بھی اپنی گاڑی نکالی اور اس کے پیچھے لگا دی۔ وہ مناسب فاصلہ رکھ کر اس کا تعاقب کر رہی تھی۔ دس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد ارتضی کی گاڑی شہر سے قدرے باہر ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے رکی اور پھر وہ گاڑی سے اتر کر تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوگیا۔ وہ وہیں گاڑی میں بیٹھ کر اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر کے اندر داخل ہوا تو لاونج میں ہی علیزہ کرسی پر بیٹھی تھی۔ وہ ماتھے پر ان گنت بل لیے اس کے پاس پہنچا۔
"کہو ۔ کیوں بلایا ہے؟" اس نے ناگواری سے پوچھا۔
"کہتی ہوں کہتی ہوں۔ زرا سانس تو لو۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے۔" اس نے شاطرانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے کرسی پر ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
"ویسے مجھے پورا یقین تھا کہ منکوحہ کا نام سن کر تم دوڑے چلے آؤ گےاور دیکھو تم نے میرا یقین نہیں توڑا۔"
"ادھر اُدھر کی بجائے سیدھا مدعے پر آؤ۔" اس نے خشک لہجے میں کہا۔
"میرا ایک چھوٹا سا کام اٹک گیا ہے اور کام تو تم جانتے ہی ہو۔ بس دو چار پیکٹ ناکے سے گزارنے ہیں اس کے بعد تم اپنے راستے اور میں اپنے راستے۔" وہ اٹھ کر اس کے پاس آتے ہوئے بولی۔
"اور تمہیں لگتا ہے کہ میں تمہارا یہ کام کروں گا ؟" ارتضی نے استہزایہ کہا۔
"بالکل اگر نئی نویلی بیوی کی جان پیاری ہے تو تم لازمی کرو گے۔" اس نے زہریلے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا تو ارتضی نے مارے طیش کے اس کا منہ دبوچا۔
"میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ مجھے دانین کا نام لے کر دھمکانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کو اس سب سے دور رکھو۔ تم میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہو اس لیے اس غلطی کو مجھے ہی بھگتنے دو لہٰذا میری فیملی کو بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ یہیں تمہاری جان لے لوں گا۔"
"اپنی حد میں رہو ارتضیٰ تم پہلے بھی میری بےعزتی کر چکے ہو، دوبارہ ایسی حرکت بہت مہنگی پڑ سکتی ہے سمجھے تم۔" اپنے منہ پر اس کی سخت گرفت محسوس کرتے ہوئے علیزہ پوری قوت سےاس کو پیچھے کی جانب دھکا دیتے ہوئے غرائی۔
"میں جا رہا ہوں اور اس بار سیدھا پولیس سٹیشن جاؤں گا۔ ہمارے گزرے وقت کو دیکھ کر میں خاموش ہوگیا تھا مگر تم ہر حد پار کرتی جا رہی ہو ۔" وہ سختی سے کہتا باہر کی جانب بڑھا مگر فائر کی آواز پر اسے رکنا پڑا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ ہاتھ میں پسٹل لیے اس کا نشانہ لیے کھڑی تھی۔۔