اذہاد چلا گیا لیکن صباحت جس جگہ بیٹھی تھی، سوچ میں گم اسی جگہ بیٹھی رہی۔ وہ ایسے حالات سے گزر رہی تھی ، جہاں اٹل فیصلہ لینا مشکل تھا۔ ان کی ناؤ تو حالات کے منجھدار کے حوالے تھی۔ اس کی مجبوریاں اسے اصول توڑنے پر مجبور کر رہی تھی۔ بیٹیوں کے آنے پر صباحت نے اذہادکا ذکر کیا۔
ثانیہ اورتحریم تو بلا تامل بولی۔
"لوگ کیا کہیں گے۔‘‘
حجاب خاموشی سے پیپرز چیک کر رہی تھی، اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ صباحت حجاب سے مخاطب ہوئی۔
"حجاب تم نے میری بات سنی ہے؟‘‘
حجاب نے اپنا پین روک لیا۔
"اماں میں نے آپ کی بات سنی ہے۔ میرے خیال میں اگر ہم کوئی نا جائز کام نہیں کر رہے تو ہمیں لوگوں کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ آپ ایسا کریں اسے میرا کمرہ دے دیں اس کا دروازہ لان میں کھلتا ہے ساتھ ہی گیٹ ہے۔ کمرے کے اندرونی دروازے پر ہم تالہ لگا دیں گے۔ میں کوئی دوسرا کمرہ لے لوں گی۔‘‘
"لیکن بیٹی‘‘ صباحت بوکھلا تے ہوۓ بولی۔
"آپ نے مجھ سے رائے مانگی میں نے دے دی آگے آپ کی مرضی ہے ۔‘‘ یہ کہہ کر حجاب دوبارہ پیپرز چیک کرنے لگ گئی۔
صباحت خاموشی سے کچھ سوچنے لگی پھر اس نے تحریم سے چائے بنانے کے لیئے کہا حجاب نے چائے پیتے ہوئے دوبارہ بات شروع کی "دیکھنے میں کس طرح کا لگتا ہے"
دیکھنے میں تو دل چاہتا ہے کہ کے اسے آنکھیں بند کر کے کمرہ دے دوں۔ شرافت اور سچائی تو اس کے چہرے سے چھلکتی ہے۔"
"ٹھیک ہے جیسا آپ مناسب سمجھیں اگر وہ آپکو ٹھیک لگتا ہے تو کمرہ دے دیں"
اگلے روز ازہاد آیا تو صباحت نے اسے کمرہ دینے کے لئے ہاں کہہ دی، وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔
’’آپ کا بہت بہت شکریہ، آپ نے اس آڑے وقت میں میری مدد کی، میں آج رات ہی اپنا سامان لے کر آؤں گا۔" یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے چار ہزار روپے نکالے اور صباحت کی طرف بڑھاۓ ۔
’’یہ رکھ لیں، ایک مہینہ کا ایڈوانس‘‘
"لیکن میں نے تو تم سے ایڈوانس نہیں مانگا۔" صباحت نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔اذہاد نے مسکراتے ہوۓ ان کے ہاتھ میں پیسے دوبارہ رکھ دیئے۔
’’میں آپ کے لئے انجان ہوں، آپ کی جگہ کوئی بھی اور ہوتا تو وہ کرایا یڈوانس میں مانگتا۔ بہر حال میں خوداس فکر سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں‘‘
صباحت نے روپے رکھ لئے ۔ ”جیسی تمہاری مرضی۔"
اذہاد کے جانے کے بعد صباحت نے ملازمہ کے ساتھ مل کر کمرہ خالی کرا دیا اور حجاب کا سامان دوسرے کمرے میں شفٹ کرادیا۔ کام کے دوران صباحت اذہاد کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
کس قدر تہزیب ہے اس لڑ کے میں، والدین نے اچھی تربیت دی ہے۔ شاید خدا نے اس لڑکے کے زریعے کوئی وسیلہ بنایا ہے ہمارے لیئے صباحت نے خود کلامی کرتے ہوئے کرسی کا کور چڑھایا تو نوکرانی حھٹ سے ان کے قریب آ گئی۔
"آپ نے بلایا" صباحت نے فورا ہاتھ جھٹک دیئے
”تو جا اپنے کام کر... ۔" ملازمہ دوبارہ کام پر لگ گئی شام کا وقت ہو رہا تھا ملگجی سی روشنی کو سیاہ بادلوں نے اندھیرے میں بدل دیا تھا عصر کے وقت ہی گماں ہونے لگا جیسے مغرب کا ر وقت بھی گزر چکا ہے۔ صباحت تار پر پھیلاۓ کپڑے سمیٹنے لگی۔
’’حجاب، ثانیہ موسم ٹھیک نہیں ہے چارپائیاں شیڈ کے نیچے کھڑی کر دو" وہ کپڑے سمیٹتے ہوئے بولیں۔
ثانیہ اور تحریم دوڑتی ہوئی آئیں اور گھاس پر بیٹھ گئیں ۔ "لو جی بارش شروع ہوئی نہیں اور اماں کو فکر ہوئی ۔اماں جب بارش شروع ہوئی تو کریں گے۔ابھی تو ہمیں موسم سے لطف اندوز ہونے دیں۔"
"حجاب کدھر ہے ۔‘‘’ صباحت نے پوچھا۔
’’اس کی سہیلی شازیہ کا فون آیا ہے۔‘‘ ثانیہ نے نمکو کی پلیٹ گود میں رکھتے ہوۓ کہا۔
صباحت کے کپڑے سمیٹتے ہوئے ہاتھ وہیں رک گئے۔
”وہی شازیہ، جس کی شادی میں ہم پچھلے مہینے گئے تھے ۔‘‘
"ہاں وہی شازیہ‘‘
صباحت نے لمبی آہ بھری۔ ’’حجاب کی ساری سہیلیاں بیاہی گئیں، نہ جانے میری حجاب کے ہاتھوں میں مہندی کب لگے گی۔‘‘
تحریم کو۔شرارت سوجھی ۔ ”میں تو کہتی ہوں کہ حجاب آپی نہیں مانتی تو ثانی کا بیاہ کر دو۔ اس کے لئے بھی تو کوئی بدنصیب کہیں بیٹھا ہو گا۔"
اس سے پہلے کہ ثانی کوئی چیز اٹھا کے تحریم کے سر پر مارتی، وہ غل مچاتی ہوئی اندر بھاگ گئی۔ تحریم حجاب کے پاس آئی تو وہ فون بند کر رہی تھی۔
"کیا کہہ رہی تھی شازیہ" تحریم نے پوچھا۔
حجاب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’پندرہ بیس منٹ تک وہ آ رہی ہے ۔‘‘
"خاوند کے ساتھ آ رہی ہے۔"
"نہیں اکیلی آ رہی ہے"
حجاب یہ کہہ کر کچن میں چلی گئی اور پکوڑوں کا سامان تیار کرنے لگی کچھ ہی دیر میں تیز بارش شروع ہوگئی ۔ ثانیا و تحریم بھی کچن میں آ گئیں۔
’’ارے۔آج تو چائے کے ساتھ گرما گرم پکوڑے کھائیں گے۔"
"میرے ساتھ مدد کرو تاکہ جلدی تیار ہوں تمہارے پکوڑے" یہ کہہ کر حجاب نے ڈش جس میں آلو تھے ثانیہ کی طرف بڑھائے وہ آلو کاٹنے کو باہر لان میں شیڈ کے نیچے بیٹھ گئیں۔ بارش بہت تیز تھی۔
گیٹ پر بیل ہوئی تو حجاب دوڑتی ہوئی گیٹ کی طرف لپکی۔
"لگتا ہے شازیہ آ گئ ہے"
گیٹ کھولا تو سامنے کھڑا ہوا اذہاد، اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ حجاب بری طرح بھیگ چکی تھی، اس کے لمبے گھنے بالوں میں پانی کے قطرے ایسے چمک رہے تھے جیسے پھولوں کی ڈالیوں پرشبنمی قطرے۔ سرخ قمیض شلوار میں اس کا سراپا حسن کھل اٹھا تھا۔ حجاب جھجکتے ہوئے اپنا دوپٹہ درست کرنے لگی
"آپ کون..."
’’میرا نام اذہاد ہے". اس سے پہلے کہ وہ اپنے بارے میں کچھ اور بتاتا حجاب سمجھ گئی ۔
’’اوہ اچھا! آپ ہی ہیں جنہوں نے کمرہ کرائے پر لیا ہے۔" اتنی دیر میں صباحت بھی آ گئی۔
’’اندرآ جاؤ بیٹا! بہت تیز بارش ہے ۔‘‘ اذہاد اندر آیا تو صباحت نے کمرے کا دروازہ کھول دیا۔’’تم بہت بھیگ گئے ہو، کمرے کے ساتھ ہی باتھ روم ہے ،تم کپڑے بدل لو، میں چاۓ بھجواتی ہوں۔"
"جی بہتر" یہ کہہ کر اذہاد کمرے میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد صباحت چائے اور پکوڑے لے کر آئی تو اذہاد کپڑے بدل کر زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔اس کے سامان میں صرف ایک بیگ تھا۔
”بیٹا نیچے کیوں بیٹھے ہو، اوپر صوفے پر بیٹھو ‘‘صباحت نے چائے میز پر رکھتے ہوۓ کہا۔
” آنٹی آپ اپنا فرنیچر کمرے سے اٹھا لیجئے گا، میں دو روز تک فر نیچر خرید لوں گا۔‘‘ اذہاد نے نظریں جھکاتے ہوۓ کہا۔
صباحت کیٹل سے کپ میں چائے ڈالنے لگی۔
"بیٹا تمہیں فرنیچر خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے یہ کمرہ تمہیں فرنیچر سمیت کرائے پر دیا ہے۔‘‘
”آپ کا بہت بہت شکریہ۔‘‘ اذہاد صوفے پر بیٹھ گیا۔
"برتن فارغ ہو جائیں تو کمرے سے باہر رکھ دینا میں اٹھا لوں گی"
یہ کہہ کر صباحت بیٹیوں کے پاس چلی گئی صباحت نے ڈرائنگ روم میں چائے اور پکوڑے رکھ دیئے ثانیہ اور تحریم چٹنی بنا کر لے آئیں ۔صباحت نے ٹرے میں سے پکوڑے اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ ’’ شازیہ نہیں آئی ابھی تک..."
تحریم نے نے ترچھی نظر سے حجاب کی طرف دیکھا۔ "خدا ایسی کنجوس آپی کسی کو نہ دے"
حجاب نے پکوڑوں کی ٹرے کا ہاتھ لگایا ’’اٹھالوں ٹرے.....؟"
"........ نہیں! سوری بابا " !تحریم نے کان پکڑ لئے ۔
حجاب مسکراتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔
اذہاد نے برتن کمرے سے باہر رکھ دیئے اور اپنے بیگ سے کپڑے نکال کر الماری میں سیٹ کرنے لگا۔ چوڑیوں کی چھنکار کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ اپنا کام چھوڑ کر کھڑکی کی طرف بڑھا، اس نے
خفیف سے انداز میں پردے کے پٹ پیچھے گئے اور چورنظروں سے باہر جھانکنے لگا ، حجاب کمرے کے قریب پڑے ہوئے برتن اٹھا رہی تھی۔
اذہاد جیسے پتھر کا ہو گیا، اس کی نگاہیں اردگرد کی ہر چیز سے غافل ہو کے حجاب کے چہرے پر ٹھہر گئیں۔ اس کی آنکھوں میں اجنبیت نہیں تھی بلکہ ایسا اپنا پن تھا جسے وہ حجاب کو بہت عرصے سے جانتا ہو۔ حجاب نے سراوپر اٹھایا تو وہ پھرتی سے پردے کے پیچھے چھپ گیا
☆☆☆☆☆☆☆
رات کے گیارہ بج رہے تھے صباحت نے نماز سے فارغ ہو کے گیٹ پر تالا لگا کر حجاب کے کمرے میں گئی تو وہ کتاب پڑھنے میں اس قدر مگن تھی کہ اس وقت کا اندازہ بھی نہ ہوا۔ صباحت نے اس کے ہاتھ سے کتاب لی ۔تو وہ خوف سے ہڑبڑا گئی صباحے نے اسکی طرف ڈانٹنے کے انداز میں دیکھا۔ "وقت کا کچھ اندازہ ہے چلو بس کر واب سو جاؤ ‘‘
"اماں تھوڑی سی" حجاب نے التجائیہ لہجے میں کہا۔
میں نے کہا۔۔۔۔۔بس اب کل پڑھ لینا ابھی مجھے دونوں چھوٹیوں کی بھی خبر لینی ہے ‘‘ یہ کہہ کر صباحت ثانی اور تحریم کے کمرے کی طرف چلی گئیں جن کے کمرے سے ٹی وہ کی آواز باہر تک آ رہی تھی صباحے نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ٹی وی بند کر دیا۔
"بہت رات ہو گئی ہے چلو گھسو بستر میں جب صبح کالج جانا ہوگا تو نواب زادیوں کی آنکھیں ہی نہیں کھلیں گی‘‘ تحریم اور ثانیہ ماں سے لپٹ گئیں۔
’’شب بخیر اماں۔"
ان دونوں کو پیار کر کے صباحت کمرے سے باہر آئی تو گیٹ کے قریب سے لا تعداد کتوں کے بھونکنے کی آوازوں نے اسے چونکا دیا ایسا لگ رہا تھا جیسے نو دس کتے آپس میں ٹکراتے ہوۓ گیٹ پھلانگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صباحت کا دل کانپ کے رہ گیا۔
’’اللہ خیر ، کوئی آدمی ہمارے گھر تو نہیں کودا‘‘ وہ الٹے قدموں سے پیچھے ہٹنے لگی تو روئی کی طرح خفیف اور نرم گداز جسم اس کے وجود کو چھو کے گزرا۔ صباحت نے چونکتے ہوئے اردگرد دیکھا۔
’’کون ہے۔‘‘ مگر اس کی نگاہیں اندھیرے میں بھٹک رہی تھیں یہاں کوئی نہیں تھا۔ پھر اس کی آنکھوں نے جو نظارہ دیکھا وہ سرتا پا کانپ کے رہ گئی۔
ایک نورانی جسم سیڑھیوں سے ہوتا ہوا چھت کی طرف بڑھ رہا تھا۔ صباحت پھرتی سے لونگ روم میں چلی گئی اور اس نے اندر سے چٹخنی لگالی۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ وہ درود شریف کا ورد کرتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ وہ جان گئی تھی کہ کتوں کے بھونکنے کی وجہ کوئی چور یا ڈاکو نہیں بلکہ ماورائی وجود تھا جوا سے سیڑھیوں میں دکھائی دیا۔
صباحت فجر کی نماز کے لئے اٹھی تو کسی کے قرآن کی تلاوت کرنے کی آواز نے اس پر وجدانی کیفیت طاری کر دی ۔ کوئی انتہائی عقیدت سے قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ طمانیت کی ایک لہر اس کے دل و دماغ میں سرایت کر گئی۔ اس آواز کی کشش صباحت کو اذہاد کے کمرے تک لے گئی۔ صباحت نے کھڑکی سے دیکھا ، اذہاد قرآن پاک کی تلاوت میں محو تھا۔ صباحت کافی دیر تک آنکھیں بند کئے تلاوت سنتی رہی ۔ اذہاد تلاوت مکمل کر کے قرآن پاک کو ویلویٹ کے غلاف میں لپیٹنے لگا تو اس کی نظر صباحت پر پڑی۔
’’آنٹی آپ!‘‘اس نے کمرے کا درواز کھولا ۔ "اندر آجائیں۔"
"نہیں بیٹا میری نمز قضا ہو جائے گی ماشا اللہ بہت اچھی تلاوت کرتے ہو بہت پر اثر آواز ہے تمہاری‘‘ صباحت دروازے کے قریب کھڑی ہو کے کہنے لگی۔
"آنٹی اس میں میرا کوئی کمال نہیں عقیدت سچی اور گہری ہو تو لہجہ پلاثر انگیز ہو جاتا ہے۔ ازہاد نے کہا۔
”تم نے نماز پڑھ لی ہے۔"
"جی۔ میں تہجد کے لئے اٹھا تھا، اب نماز تو پڑھ لی ہے باہر چہل قدمی کے لیئے جانا چاہتا ہوں۔" اذہاد نے سر سے ٹوپی اتارتے ہوۓ اجازت لینے کے انداز میں کہا۔
’’ہاں ضرور ، میں تالا کھول دیتی ہوں۔‘‘ ’’آپ پہلے نماز پڑھ لیں، پھر تالا کھول دینا‘‘ اذہاد نے کہا تو صباحت اثبات میں سر ہلاتی ہوئی نماز پڑھنے کے لئے چلی گئی۔ کچھ دیر بعد جب وہ آئی تو اس کے ہاتھ میں دو چابیاں تھیں۔ ایک چابی اس نے اذہاد کی طرف بڑھائی ،
’’یہ لو بیٹا! یہ لاک دونوں طرف سے کھل جاتا ہے۔ یہ چابی تم رکھ لو جب بھی کہیں جانا ہو تو تم باہر سے تالا کھول کر اندرآ جایا کرنا ۔ یہ ایک چابی میرے پاس ہے۔"
’’شکریہ آنٹی!‘‘ اذہاد نے چابی لی اور دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔
صباحت حسب معمول بیٹیوں کو کالج بھیجنے کی تیاری میں مشغول ہوگئی ۔ بیٹیوں کو بھیجنے کے بعد اسے اذہاد کا خیال آیا، وہ اذہاد کے کمرے میں گئی۔
’’اذہاد بیٹا۔ تمہارے لئے ناشتہ لے آؤں"
’’آنٹی میں باہر سے ناشتہ کر کے آیا ہوں۔ آپ اندر آ جائیں۔‘‘
اذہاد احتراما دروازہ کھول کر کھڑا ہو گیا۔
صباحت صوفے پر بیٹھی تو مبہوت نظروں سے دیواروں پر لگی تصاویر اور فرنیچر کی طرف دیکھنے لگی ۔
'کمرے کی تو ہر چیز چمک رہی ہے۔ کمرے کی صفائی تم نے کی ہے۔"
"جی آنٹی صاف کرنے کی کوشش کی ہے"
صباحت نے دیکھا اذہاد نے ابھی تک ڈسٹنگ والا کپڑا ہاتھ میں تھاما ہوا تھا۔
’’میں ملازمہ سے صفائی کروالیتی"
"میں اپنا کمرہ خود صاف کر لیا کروں گا" اذہاد نے صباحت کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا صباحت نے الماری میں رکھی کتابوں کی طرف دیکھا۔
"لگتا ہے تمہیں بھی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے..."
"تمہیں بھی سے آپکی کیا مراد ہے"
"میری بیٹی حجاب کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے دو بیٹیوں سے بڑی ہے ۔ گرلز سکول میں پڑھاتی ہے۔‘‘
"آپ کی دونوں چھوٹی بیٹیاں کس کلاس میں پڑھتی ہیں"
"ثانیہ بارہویں جماعت ہے اور تحریم میٹرک میں" صباحت کا لہجہ تھکا تھکا ہو گیا۔
اذہانے اس کے لہجے کی تبدیلی محسوس کرتے ہوۓ کہا۔ "بہت ذمہ داری ہے آپ کے کندھوں پر ۔‘‘
صباحت نے ایک بار پھر آہ بھری۔
” میری ساری ذمہ داری تو حجاب نے اپنے کندھوں پر اٹھالی ہے۔ میں اس کے ہاتھوں میں مہندی دیکھنا چاہتی ہوں اور اس نے تو کتابوں سے دوستی کر لی ہے"
"آپ پریشان مت ہو، خدا وند کریم سب بہتر کر دے گا۔"
اذہاد ، صباحت کو سمجھا رہا تھا کہ صباحت نے ایک دم اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔
’’اوہ۔ میں تو تمہارے ساتھ باتوں میں لگ گئی، میں نے بازار سے سودا سلف لانا ہے صباحت پھرتی سے کھڑی ہوئی تو اذہاد بھی کھڑا ہو گیا۔
’’ آنٹی ! میں آپ کو سو دالا دیتا ہوں‘‘
” تمہارے پاس تو کوئی سواری بھی نہیں ہے۔ تم کہاں پیدل جاؤ گے۔‘‘
"میں پیدل نہیں جاؤں گا اڑ کر جاؤں گا۔‘‘ اذہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
صباحت بھی ہنس پڑی۔
"تم کیا کوئی جن ہو جو اڑ کر جاؤ گے"
"آنٹی میں آپ سے مذاق کر رہا ہوں چلیں اس بہانے آپ ہنسی تو سہی" اذہاد نے پھر اصرار کیا ۔
"اچھا اتنی صد کر رہے ہو تو رکو میں پیسے لاتی ہوں" صباحت اپنے کمرے سے پیسے لے آئی تو سودے کی لسٹ اذہاد کے ہاتھ میں تھما دی اذہاد نے سودا لا کر دے دیا اور اذہاد نے کہہ دیا کہ جب تک وہ یہاں ہے گھر کے باہر کے کام وہ کیا کرے گا۔ صباحت نے اذہاد سے پوچھا۔ " کیا تم سے کسی نے پوچھا تم کون ہو"
”جب سبنری خرید رہا تھا تو ایک عورت نے کہا۔ صباحت کے گھر آئے ہو کیا لگتے ہو اسکے"
”میں نے بتادیا کہ میں صباحت آنٹی کا ملازم ہوں۔ صباحت نے اس کے کندھے پر تھپکی ماردی ایسا کیوں کہا تم نے... اب کوئی پوچھے تو بتا دینا کہ تم نے کمرہ کرائے پر لیا ہے۔ میری بیٹی حجاب کہتی ہے کہ جب ہم کوئی ناجائز کام نہیں کر رہے تو لوگوں سے کیوں ڈریں، اس کے کہنے پر میں نے تمہیں یہ کمرہ دیا ہے۔وہ تو میرا بیٹا ہے۔"
"کبھی موقع ملا تو ان کا شکریہ ادا کروں گا۔‘‘ اذہاد جو چندلحوں کے لئے کسی کے تصور میں کھو گیا تھا مسکراتے ہوۓ کہنے لگا۔
صباحت کمرے سے باہر جانے لگی تو دوبارہ بیٹھی۔ ”اب تم نے بازار سے ناشتہ نہیں کرنا، میں ناشتہ بھجوا دیا کروں گی اور کھانا بھی تم باہر نہیں کھاؤ گے۔‘‘
اذہاد بولنے کی کوشش کرتا رہا اور صباحت حکم سنانے کے انداز میں کہہ کر چلی گئی۔
رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ حجاب ٹیبل لیمپ کی دھیمی دھیمی روشنی میں ڈائری لکھ دی تھی۔ آج ماضی کی کچھ یادوں نے اس کے من کو پھر کر یدا تھا۔ پرانے مکان سے منسوب باتیں ایک ایک کر کے اس کے ذہن کے گوشوں میں اترنے لگی تھیں ۔ حجاب کا دل چاہا کہ کوئی ایسا ہو جس سے وہ اپنے دکھ درد بانٹے ،اس کی خوشیوں کو کسی کی قربت میں چار چاند لگ جائیں لیکن شاید ڈائری میں دل کی باتیں لکھ دینے سے اسے کچھ راحت مل جاتی۔ وہ لکھ رہی تھی
"یہ نیا گھر تو شاید ہمیں راس ہی نہیں آیا۔ پرانے گھر میں ہم سب کس قدرخوش تھے ۔ یوں لگتا ہے جیسے میں اپنی راحتیں اس گھر میں چھوڑ آئی‘‘
پرانے گھر کا خیال آتے ہی ایک خوفناک خیال اس کے من میں پھن پھیلاۓ ۔ بیٹھ گیا۔ تھر تھراہٹ کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی ۔ جس خواب سے ڈرکر وہ بار بار نیند سے جاگ جاتی آج وہی خواب وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔
”کون تھا کہ جو کبھی مجھے خواب میں دکھائی دیتا اور کبھی اس کا سراپا وجود مجھے اپنے قریب محسوس ہوتا۔ میں جتنا اس خواب سے ڈرتی، اتنی ہی اس خواب کو بار بار دیکھنے کی چاہ ہوتی ۔ اس دنیا میں شاید ہی کوئی اس قدر خوبصورت ہو جیسا کہ وہ تھا۔ اس کی جھیل جیسی آنکھوں میں ایسی گہرائی تھی کہ کوئی ان میں کھوۓ تو دنیا تیاگ دے۔قوالی کے سروں پر وہ وجد کی کیفیت میں کس طرح جھوم رہا تھا۔ وہ بار بار میرے آگے کشکول پھیلا کر میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا تو ایک لمحہ کے لئے دل میں آتا کہ اسے سرشار کر دوں لیکن وہ کچھ بولتا بھی تو نہیں تھا۔ اور جو اس کی آنکھیں کہتی تھی وہ سوچ کر میری روح کانپ اٹھتی تھی۔"
اسی لمحہ ہوا کے تیز جھونکے نے کھڑکیوں کے پٹوں کو ہلا کے رکھ دیا ۔ حجاب کا پین دور جا گرا اور صفحات ہوا میں اڑنے لگے۔
حجاب نے کھڑکی بند کرتے ہوۓ چٹخنی لگا دی اور کمرے میں بکھرے صفحات سمیٹنے لگی۔ اس دوران کھڑ کی پر دستک ہوئی۔حجاب خوف سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے کھڑکی کی طرف دیکھنے لگی ۔
" ک...کو.........کون.... ‘‘ حجاب کا نپتی آواز میں بولی ۔ ’’
"میں ہوں اذہاد۔" باہر سے آواز آئی ۔
حجاب نے کھڑکی کھولی تو سامنے اذہاد ہاتھ میں دو صفحات لے کر کھڑا تھا اور کہنے لگا۔
"یہ غالبا آپ کے صفحات ہیں، کھڑکی کے باہر پڑے تھے۔‘‘ حجاب نے اس کے ہاتھ سے صفحات لئے۔
"آپ اتنی رات باہر کیا کر رہے ہیں"
"میں آپکے گھر کی چوکیداری کر رہا ہوں" اذہاد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
حجاب نے اپنے کھلے ہوۓ بالوں کو اکٹھا کر کے چوڑ اسا بنالیا۔
”ہم نے آپ کو چوکیداری کی نوکری پر نہیں رکھا"
حجاب کے مسکراتے چہرے پر اذہاد کی نظر جیسے ٹھہر گئی۔
’’آپ کسی پرانی بات کو یاد کر رہی تھیں... مطلب پرانے گھر سے جڑی کوئی بات"
"آپ نے میرے صفحات پڑھے ہیں اس طرح کسی کی زندگی میں جھانکنا اچھی بات نہیں ہے" حجاب کے لہجے میں اجنبیت اتر آئی ۔اذہاد نے اپنے قدم پیچھے ہٹا لئے۔
"معافی چاہتا ہوں لیکن ایک بات ضرور کہوں گا ایک دنیا باہر کی ہوتی ہے جس کے رکھ رکھاؤ میں ہم کئی لبادے اوڑھتے، کتنے روپ دھارتے ہیں لیکن ایک دنیا ہمارے اندر ہوتی ہے احساسات اور جذبات کی دنیا جہاں کبھی کچھ کھو جاتا ہے اور کبھی کچھ مل جاتا ہے کبھی کوئی دستک دیئے بغیر دل کی آبلہ پا گہرائیوں میں اتر جاتا ہے ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی ہماری زندگی میں شامل ہو جا تا ہے۔‘‘
’’رات بہت ہو گئی ہے اب آپ جائیں۔‘‘ حجاب نے اذہاد سے یہ کہہ کر کھڑ کی بند کر دی ۔اس نے ایک لمبا سانس کھینچا۔
"یہ تو کوئی جادوگر معلوم ہوتا ہے سحر گھلا ہوا ہے اس کی گفتگو میں ..... ایسا لگتا ہے جیسے ہمیں کئی سالوں سے
جانتا ہو۔" پھر اس نے اپنے سارے کا غذا اپنی فائل میں رکھے اور نیم دراز ہوگئی۔
اذہاد روزانہ گھر کا سودا لانے لگا۔ پھر وہ باہر کے کام بھی کرنے لگا۔ اذہاد کے آنے کے بعد صباحت کو مردوں کی طرح باہر نہیں پھرنا پڑتا تھا۔ بلوں کی ادائیگی کا کام ہو یا الیکٹریشن یا پلمبر کا ، اذہاد سارا کام کروا دیتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ صباحت کا دست باز و بن گیا۔ محلے میں چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں لیکن صباحت صاف کہہ دیتی تھی کہ اذہاد کوئی غیر نہیں ہے کہ ہمیں لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہیں لوگوں کا تو کام ہی ہوتا ہے، باتیں بنانا۔ صباحت کو سودا دینے کے بعداذ ہادکام پر چلا جا تا تھا۔ صباحت کے کئی بار پوچھنے پر بھی اذہاد نے کبھی نہیں بتایا کہ وہ کیا کام کرتا ہے ۔
ایک صبح تیار ہو کے وہ سودا پوچھنے کے لئے صباحت کے پاس جانے لگا تو اسے صباحت کی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ وہ دیوار کے عقب میں کھڑا ہو گیا۔ صباحت سر پکڑ ے تنہا رو رہی تھی ۔
اذہاد اس کے قریب بیٹھ گیا۔ اس نے انتہائی اپنائیت سے کہا۔
” کیا بات ہے آنٹی ، سب ٹھیک تو ہے نا؟‘‘
صباحت روتی روتی مسکرادی۔
"تم کیوں پریشان ہوتے ہو یہ تو عمر ہی ایسی ہوتی ہے جوں جوں عمر کی بیل دیوار پر چڑھتی جاتی ہے دکھوں کے کانٹے بڑھتے جاتے ہیں تنہا بیٹھی ہو تو کبھی کوئی یاد آتا ہے کبھی کوئی"
"پھر بھی آپ کیا سوچ کر رو پڑیں"
’’رات میں نے خواب میں اپنا بیٹا دیکھا وہ تمہارے جیسا کڑیل جوان تھا ’’
"آپ کا کوئی بیٹا بھی تھا۔" اذہاد نے پوچھا۔
"نہیں مگر خواب میں وہ میرا بیٹا تھا وہ میرے ساتھ احسان الحق کی قبر پر گیا ہم دونوں نے قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔" بات کرتے کرتے صباحت کی آنکھوں میں خواہش کے تارے دکھنے لگے۔اذہاد نے مروت سے صباحت کی آنکھوں میں جھانکا۔
’’آپ مجھے اپنا بیٹا بنالیں۔ میری بھی تو ماں نہیں ہے۔" صباحت اس کے سر پر ہاتھ پھیر نے لگی۔
”تم نے پہلے کبھی بھی نہیں بتایا کہ تمہاری ماں نہیں ہے؟"
اذہاد سر جھکاۓ گلو گیر سے لہجے میں بولا ۔
"سچ پوچھیں تو جب سے میں نے آپ کو دیکھا ہے مجھے اپنی ماں کی بہت یاد آنے لگی ہے۔‘‘ صباحت اپنا غم بھول کے اس کے ہاتھ تھام کے بیٹھ گئی۔
’’ایسے اپنادل چھوٹا مت کرو تم میرے بیٹے جیسے ہی ہو۔ اپنے دل کی باتیں مجھ سے شیئر کیا کرو‘‘
’’آپ بھی آئندہ مجھے غیرمت سمجھنا کوئی کام ہو بلا جھجک مجھے بتا دیجئے گا۔‘‘
اذہاد نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا
’’ٹھیک ہے تو کل تم میرے ساتھ قبرستان جانا۔ احسان الحق کی قبر پر پھول چڑھا کے آئیں گے۔"
قبرستان کا نام سن کر اذہاد کا رنگ فق ہو گیا۔ "او....وہ میں کیسے۔"
"کل جمعتہ المبارک ہے شام کو جائیں گے۔" یہ کہہ کر صباحت نے سودے کی لسٹ اذہاد کو تھما دی۔ اذہاد نے کھوۓ کھوۓ سے انداز سے وہ لسٹ پکڑ لی۔
☆☆☆☆☆☆☆
جمعرات کی رات کے بارہ بج رہے تھے۔قبرستان میں موت کے سناٹے زندگی کے انجام کی گمبیھر کہانی سنا رہے تھے۔ موت کی اس وادی میں صرف کیڑوں کی خفیف سی آواز میں سنائی دے رہی تھیں کہ اچا تک ان خفیف آوازوں میں گھنگھروں کی زور دار آواز بھی شامل ہوگئی جیسے کوئی ڈنڈے پرگھنگھروں باندھ کر اسے زور زورسے زمین پر ماررہا ہو جس کے ساتھ کراری آواز بھی سنائی دے رہی تھی
"حق" ایک ادھیڑ عمرشخص سفید چولہ پہنے درود شریف کا ورد کرنے آگے بڑھ رہا تھا۔ س کے ساتھ سبز چولے میں ایک جوان بھی تھا جو ایک مٹی کی صراحی تھامے کسی غلام کی طرح بزرگ کے تھ چل رہا تھا وہ دونوں پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ اس درخت کے ساتھ ہی ایک قبر تھی بزرگ کا مرید اس کے قریب ترتیب سے سات دیے رکھ کر جلانے لگا۔ ۔
’’سائیں سبحان شاہ! اب کیا حکم ہے؟ مرید سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔
”تم اپنے اصل روپ میں آ کر یہاں سے چلے جاؤ، ایک جن کی موجودگی میں ہم اپنا چلہ مکمل نہیں کر سکتے‘‘
’’جیسا آپ کا حکم ‘‘ یہ کہتے ہی وہ شخص سفید ہیولے میں تبدیل ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔
پیر سبحان رات بھر چلہ کاٹتے رہے۔ انہیں اس قبرستان میں تین روز تک قیام کرنا تھا۔ وہ اپنے روحانی علوم سے لوگوں کے مسائل حل کر تے تھے۔ بیماریوں کا علاج بھی کرتے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆
صباحت نے اذہاد کے کمرے کے دروازے پر دستک دی ۔اس نے درواز کھولا تو صباحت نے کہا۔ ”بیٹا میں تیار ہوں تم بھی جلدی ڈے تیار ہو جاؤ پھر قبرستان جانا ہے" حجاب سفید چادر اوڑھے صباحت کی طرف بڑھی۔
"اماں میں بھی آپکے ساتھ جاؤں گی"
"نہیں بیٹا لڑکیوں کا قبرستان جانا معیوب سمجھا جاتا ہے"
"کچھ نہیں ہوتا بس میں نے جانا ہے"
حجاب نے ضد پکڑ لی ۔ صباحت نے اذہاد کی طرف دیکھتے ہو نے ہوۓ حجاب سے کہا۔
’’اذہاد کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
"آپ انہیں لیٹے رہنے دیں ہم اکیلے ہی چلے جائیں گے" صباحت اور حجاب جانے لگیں تو اذہاد نے انہیں روکا ۔
"ٹھہریئے میں بھی چلتا ہوں آپ بس دو منٹ دیں مجھے میں ابھی آتا ہوں"
تینوں چلے گئے صباحت اور حجاب قبرستان میں داخل ہو گئیں تو اذہاد قبرستان کے باہر ہی کھڑا رہ گیا صباحت نے پیچھے پلٹ کر دیکھا
" آؤ بیٹا، وہاں کیوں کھڑے ہو گئے ۔‘‘
’’ آنٹی میں اندر نہیں آ سکتا مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے۔‘‘ اذہاد نے دو چار قدم مزید پیچھے سکیٹر لئے ۔
حجاب نے اسکی طرف دیکھا۔
’’ابا جی کے لئے فاتحہ نہیں پڑھیں گے۔" اذہاد کے لئے حجاب کی بات ٹالنا شاید مشکل تھا۔
وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی قبرستان میں داخل ہو گیا۔ قبرستان میں جیسے بھونچال مچ گیا۔ تیز وتند ہوا کے جھکڑ نے قبروں کے تختوں کو اپنی جگہ سے اکھیٹر دیا۔ درختوں کی شاخیں جھوم جھوم کر زمین کو چھونے لگی، مٹی اس طرح اڑ رہی تھی کہ کچھ بھی واضح نہیں دکھائی دے رہا تھا۔
صباحت نے حجاب کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا اور وہ اونچی اونچی آواز سے پکار رہی تھی ۔
"اذہاد..... کہاں ہوتم..." پھراچانک حجاب چیخ اٹھی ۔
سیاہ غبار کا ایک بھنور ان کی آنکھوں کے سامنے نمودار ہوا اور آسمان کی طرف اڑتا ہوا غائب ہوگیا جس طرح اچانک طوفان شروع ہوا تھا اسی طرح اچانک ماحول پہلے جیسا ہو گیا۔
مٹی کے غبار میں صباحت کو کوئی سراپا مجسم دکھائی نہیں دے رہا تھا
دھندلاہٹ کم ہوئی تو ایک ادھیڑ عمر شخص ان کے سامنے کھڑا تھا
وہ بزرگ شاہ سبحان تھے۔ جو دھیرے دھیرے انکی طرف بڑھ رہے تھے ان کی کھوجی نظریں کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں وہ جونہی صباحت کے قریب آئے انہوں نے پوچھا
’’تم دونوں کے ساتھ اور کون تھا ۔‘‘ صباحت بوکھلائی گئی کہ یہ بزرگ اس طرح سے کیوں پوچھ رہے ہیں
بزرگ نے اپنی کراری آواز میں پھر پوچھا۔ "کون تھا تم دونوں کے ساتھ ‘‘
” ہمارے ساتھ اذہاد تھا۔‘‘ صباحت نے گھبراہٹ میں بلا تامل کہا۔
"کون اذہاد...." بزرگ نے پوچھا اس بارصباحت تھوڑی ہمت کر کے بولی ۔
”آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں۔"
"جو پوچھ رہا بس اس کا جواب دو۔‘‘ بزرگ نے تسبیح میں لپٹے ہوئے ہاتھ کو ہوا میں اکڑا لیا۔
حجاب نے صباحت کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
”میں آپ کو بتاتی ہوں۔ ہمارے ساتھ ایک نوجوان تھا جس کا نام اذہاد ہے ہم نے اپنے گھر میں اسے ایک کمرہ کرائے پر دیا ہے ۔ ابا جی کی قبر پر آنا تھا تو ہم اسے لئے اپنے ساتھ لے آۓ۔‘‘
’’وہ جانتا تھا کہ اسے قبرستان میں نہیں آنا چاہئے پھر بھی وہ آ گیا اس کی وجہ سے میرا چلہ خراب ہوگیا سبحان شاہ منہ میں بڑ بڑایا۔ ’’
"مگر اس کے آنے سے آپ کا چلہ کیسے خراب ہو گیا۔‘‘ حجاب نے حیرت سے بزرگ کی طرف دیکھا۔
"یہ راز و گیان کی باتیں تم نہیں سمجھ سکتی۔ تم اتنا سمجھ لو کہ اسکی طرف سے اگر کوئی خطرہ محسوس کرو تو پھر سبحان شاہ کو یا دکر لینا۔“
”آپ..." ... سوال حجاب کے گلے میں ہی اٹک گیا
"میں پیر سبحان شاہ ہوں ۔‘‘
صباحت سر جھکا کے پیر کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ آپ پیرسبحان شاہ ہیں۔ بہت خوش نصیبی ہے ہمارے کہ آپ کا دیدار ہو گیا۔ بہت نام سنا ہے آپ کا میں تو کب سے سوچ رہی تھی کہ آپکے پاس آؤں بس میں پریشانیوں کی ماری وقت ہی نہیں نکال سکی۔‘‘
سائیں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"کوئی بات نہیں آزمائشیں نیک لوگوں پر ہی آتی ہیں حویلی آنا پھر تمہارے مسئلے بھی سنوں گا...‘‘ یہ کہہ کر سائیں بابا وہاں سے چل دیئے۔
صباحت اور حجاب نے احسان الحق کی قبر پر پھول چڑھاۓ ۔ پھر اذہاد کوڈھونڈنے لگیں۔
"یہ اذہاد کہاں چلا گیا ہے اور اس طرح اچانک سے کیوں چلا گیا ہے۔"
حجاب ماں کا ہاتھ پکڑ کر سڑک کی طرف نکل آئی۔
”وہ کوئی چھوٹا سا بچہ نہیں ہے جو گم ہو جاۓ گا ، آجاۓ گا گھر جہاں بھی گیا ہوگا۔‘‘ حجاب نے ہاتھ کے اشارے سے رکشہ روکا اور دونوں گھر آ گئیں ۔
اذہاد کے کمرے کی لائٹ جلی ہوئی تھی ۔
’’لگتا ہے اذہاد ہم سے پہلے آ گیا ہے ۔ تم اندر جاؤ میں اذہاد کو دیکھتی ہوں ۔‘‘
کمرے میں داخل ہوتے ہی صباحت نے شکوہ بھری نظروں سے اذہاد کی طرف دیکھا۔
’’اس طرح ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے آۓ ۔ تم کہتے ہو کہ میرے بیٹے ہو تو کیا بیٹے ماں کو اس طرح چھوڑ کر آتے ہیں ۔"
اذہاد نے صباحت کو شانوں سے پکڑ کر کرسی پر بٹھا دیا اور خود اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
"آنٹی آپ مجھے مار لیں مگر ناراض نہ ہوں میں پہلے ہی قبرستان نہیں جانا چاہتا تھا قبرستان جا کر میری طبیعت خراب ہو جاتی ہے عجیب عجیب سے خیال من میں سوئیاں چبھوتے ہیں مجھ پر عجیب خفقانی کیفیت طاری ہوگئی تھی اگر گھر نہ آتا تو شاید قبرستان میں ہی بے ہوش ہو جاتا
اس کی بات سن کر صباحت پریشان ہوگئی ۔
"خدا نہ کرے کہ تم بیمار پڑو۔ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں اگر ایسی بات تھی تو تم ہمیں منع کر دیتے اب تم آرام کرو میں تمہارے لیئے چائے بھجواتی ہوں"
صباحت نے آ کر اذہاد کے مسئلے کے بارے میں حجاب سے بات کی اور اسے کہا کہ وہ ازہاد کے لیئے چاۓ لے جاۓ ۔
حجاب چائے لے کر کمرے کے باہر آئی تو اذہاد اٹیچی کیس کھولے کچھ ڈھونڈ رہا تھا ایک خاکی سی جلد کی کتاب اس کے ہاتھ لگی مگر دروازے پر دستک سن کر اس نے وہ کتاب دوبارہ کپڑوں میں چھپادی۔
".ک.......... کون ‘‘ اذہاد نے کانپتی آواز میں پوچھا۔ ’’
"میں ہوں حجاب .... آپ کے لئے چاۓ لائی ہوں ۔‘‘ حجاب نے دھیمی سی آواز میں کہا۔
اذہاد دروازے کے قریب آیا۔
’’ آپ باہر رکھ دیں، میں لے لوں گا ۔"
"بہتر" یہ کہہ کر حجاب نے چاۓ دروازے کے پاس رکھی اور جانے لگی ۔
جاتے جاتے حجاب کی نظر کھڑ کی پر پڑی جس کا پردہ تھوڑا سا سر کا ہوا تھا اس نے دیکھا کہ اذہاد کا دایاں بازو بری طرح جھلسا ہوا ہے اور وہ انتہائی تکلیف میں اٹیچی کیس میں کچھ ڈھونڈ رہا ہے۔
حجاب گھبراہٹ میں بولی۔
’’آپ کے بازو پر کیا ہوا ہے۔ حجاب کی آواز سنتے ہی اذہاد نے بازوؤں کا کف نیچے کرتے ہوئے جھلسا ہوا حصہ ڈھانپ لیا۔
’’معمولی زخم ہے ،ٹھیک ہو جاۓ گا۔‘‘
"آپ اسی معمولی زخم کہتے ہیں آپ باہر لان میں بیٹھیں میں ڈریسینگ کا سامان لاتی ہوں"
اذہاد لان میں پڑی بید کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ۔
تھوڑی دیر میں حجاب میڈیکل بکس لے آئی حجاب نے ایک اذہاد کی کرسی کے سامنے رکھ دی اور اس پر بیٹھ گئی۔ اس نے میڈیکل بکس اپنی گود میں رکھا۔
"اپنا بازو آگے کریں میں آپکو دوا لگا دوں" حجاب نے کہا۔
اذہاد بازو پیچھے سکیٹر کے بیٹھا ہوا تھا۔ ’’ آپ خواہ مخواہ پریشان ہورہی ہیں ۔ میرے زخم میں تکلیف نہیں ہے۔"
جبکہ تکلیف کے احساس اذہاد کے چہرے پر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ حجاب نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو اذہاد نے حجاب کے خوبصورت چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے اپناہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔
آج وہ حجاب کو بہت قریب سے دیکھ رہا تھا۔ آنچل حجاب کے سر سے سک کر اسکے گلے میں لہرانے لگا تھا۔
اس نے بالوں میں کلپ لگا رکھا تھا مگر کچھ بالوں کی لٹیں اس کے چہرے پر بلھری ہوئی تھیں
حجاب نے روئی پر دوا لگا کر زخم پر رکھی تو مارے تکلیف کے اذہاد کے منہ سے سی کی آواز نکلی ۔حجاب نے زخم پر پھونک مارنا شروع کر دیا جس سے جلن کا احساس کم ہو گیا۔ پھر اس نے زخم کی ڈریسنگ کرنا شروع کر دی ۔
"یہ زخم آپ کو کیسے ہوا، میرا مطلب ہے کہ آپ کا بازو کیسے جلا ۔‘‘
اذہاد کی نظر ابھی تک حجاب کے چہرے پرٹھہری ہوئی تھی، حجاب کیا کہہ رہی تھی ۔اسے کچھ خبر نہیں تھی وہ تو بس
آج جی بھر کے اس کا دیدار کر لینا چاہتا تھا۔
حجاب نے اپناسوال دوبارہ دہرایا تو اذہادسوچ میں پڑ گیا ، اس کے پاس حجاب کے سوال کا جواب نہیں تھا۔
اسنے گہری نظر سے حجاب کی آنکھوں میں جھانکا۔
”آپ نے اس قدرخلوص سے میری مرہم پٹی کی ، خدارا مجھے تکلیف کا احساس نہیں رہا۔‘‘
حجاب اذہاد کی آنکھوں میں دیکھتی ہی رہ گئی۔ کچھ دیر کے لئے جیسے آنکھیں چرانا اس کے بس میں نہیں رہا۔
پھر ایک دم اس نے خود کو جھٹکتے ہوۓ اپنی آنکھیں جھکالیں
’’نہ جانے کیا ہے آپ کی آنکھوں میں"
” کیا ہے میری آنکھوں میں ۔۔۔‘‘ اذہاد نے پوچھا۔
"کچھ باتوں پر پردہ پڑا رہناہی بہتر ہوتا ہے۔‘‘
حجاب ساتھ ساتھ ڈریسنگ کر رہی تھی۔
اذہاد نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا
"اگر آپ میری بات کا جواب نہیں دیں گی تو میں ڈر یسنگ نہیں کراؤں گا “۔
حجاب نے اذہاد کی طرف دیکھا۔
’’جب بھی آپ کی آنکھوں میں جھانکتی ہوں تو کسی کا پیاسا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے وہ وجیہہ نوجوان جو فقیر کے روپ میں بھی شہزادہ دکھائی دیتا ہے قوالی کے سرور میں مست وہ اپنے کندھوں تک لمبے بالوں کو اس طرح گھماتا ہے کہ اسے دیکھتے دیکھتے مجھ پر وجد طاری ہو جا تا ہے۔ جب میں اس کے قریب جاتی ہوں تو وہ میرے آگے کشکول پھیلا کر اس طرح میری جانب دیکھتا ہے کہ جیسے وہ مجھ سے کچھ اور نہیں بلکہ۔۔۔۔۔۔"
ابھی حجاب اپنی بات پوری نہیں کر پائی تھی کہ صباحت کی آواز آئی۔
’’ حجاب جلدی آؤ۔“
’’آتی ہوں اماں ‘‘حجاب نے اونچی آواز میں کہا۔
اذہاد خود حجاب کی باتوں میں جیسے کھو گیا تھا۔ آپ نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
حجاب نے مسکراتے ہوۓ اذہاد کی طرف دیکھا ۔
اس کی آنکھیں بالکل آپ جیسی ہیں ۔ اذباد بھی مسکرادیا۔
’’اس فقیر نماشہرادے کی آنکھوں میں اور کیا نظر آ تا ہے آپ کو؟‘‘
"حجاب ایک بار پھر کھو گئی ۔’’اس کی آنکھوں میں جذبات کی موجیں ہرلمحہ موجزن رہتی ہیں۔ اس کی مروت سے چمکتی آنکھیں بہت گہری ہیں لیکن جب میں آپ کو یہ بتاؤں گی کہ یہ سب کچھ ایک خواب ہے جو بار بار دیکھتی ہوں تو آپ مجھ پر ہنسیں گے"
"آپ لوگوں کی باتوں کو چھوڑیں یہ بتائیں کہ آپکو یہ خواب لگتا ہے یا....؟"
"نہیں مجھے یہ خواب نہیں لگتا میں نے جاگتے ہوئے بھی اس وجود کو اپنے قریب محسوس کیا ہے" حجاب کی آنکھیں فضا میں بھٹکنے لگیں
اذہاد کی ڈریسنگ مکمل ہو چکی تھی اس نے کھوئے ہوئے اذہاد سے کہا
’’ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ میرے آس پاس ہی کہیں ہے۔" یہ کہ کر حجاب وہاں سے چلی گئی۔
رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ صباحت حسب معمول حجاب کے ساتھ کچن میں مصروف تھی۔ احسان الحق کے جنرل سٹور کا سیل مین منیر صباحت سے ملنے آیا تھا۔صباحت نے اسے مہمان خانے میں بٹھا دیا اور اذہاد کے کمرے میں چلی گئی ۔
’’اذہاد بیٹا۔ ذرا باہر آؤ۔‘‘ صباحت نے کہا۔
اذہاد کمرے سے باہر آ گیا۔
"جی آنٹی ،کوئی کام ہے؟‘‘
"بیٹا! ہماری دکان کا سیل میں آیا ہے۔ مجھے کئی بار شک ہوا ہے
میں عورت ہوں اس لئے میں نے بھی جانچ پڑتال نہیں کی ... اذہاد نے ہاتھ کو اکڑاتے ہوۓ کہا۔
’’میں سب سمجھ گیا، آپ بس بے فکر ہو جائیں ۔ میں اسے سیدھی راہ، دکھا دوں گا ۔‘‘
اذہاد صباحت کے ساتھ مہمان خانے میں گیا۔ منیر نے کھاتے کی فائل صباحت کے سامنے رکھ دی۔
صباحت نے فائل اٹھا کراذہاد کے آگے رکھ دی۔
’’اذہاد بیٹا! اب تم ہی یہ کام سنبھالوں میں چائے بنا کر لاتی ہوں ۔‘‘
اذہاد کے ہاتھ میں فائل دیکھ کر منیر کے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا۔
’’ آپ کی تعریف...جیسے آپ آنٹی صباحت کے ملازم ہیں، ایسے ہی میں بھی ان کا ملازم ہوں۔ اس فائل کے مطابق تو جتنے روپے بنتے ہیں وہ تو آپ لاۓ ہی ہوں گے۔ وہ روپے آپ مجھے دے دیں، باقی انشاء اللہ کل سے میں رات کو نو بجے روزانہ آپ سے آمدنی کا حساب لے لیا کروں گا‘‘
لیکن اذہاد صاحب میں رات آٹھ دکان بند کر دیتا ہوں۔ میرا اور باجی صباحت کا حساب کتاب بھی ٹھیک چل رہا ہے ۔‘‘منیر گھبراہٹ سے ہڑ بڑا گیا۔
"میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا بہتر ہے کہ آپ میری بات مان لیں کل سے آپ نو بجے سے پہلے دکان بند نہیں کر یں گے ۔‘‘اذہاد نے کہا۔
منیر نے ٹھنڈی آہ بھری۔ "ٹھیک ہے"
اتنے میں صباحت چائے لے آئی
منیر نے دکان کے حساب کے مطابق رقم اذہاد کو دی
اس کے جانے کے بعد ازہاد نے صباحت سے بھی بات کی کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔
”بیٹا! تم ہمارے لئے اتنا کچھ کر رہے ہو اور میں تمہارے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتی" صباحت نے اپنائیت سے اذہاد کی طرف دیکھا۔
اذہاد نے صباحت کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور بولا ۔’’میرے لئے اتناہی بہت ہے کہ آپ نے مجھے اپنا سمجھا۔
اتوار کی صبح اذہاد نے پردے پیچھے کئے تو سامنے لان میں حجاب پودوں کو پانی لگا رہی تھی۔ محبت کا ایک
خوبصورت سا احساس اس کے من کو چھو گیا۔عشق جنون کے ایک مست جھونکے میں وہ جھوم کر رہ گیا۔ اس نے ایک لمبا سانس کھینچا اور آنکھیں موند لیں ۔
کچھ دیر کے بعد اس کمرے کی کھڑکی سے ایک سفید کبوتر سلاخوں کے بیچ میں سے اڑتا ہوا باہر آ گیا۔
سامنے منڈیر پر بیٹھ کر کبوتر نے اپنی آواز نکالی۔ غٹرغوں ...
یہ آواز سنتے ہی حجاب کی متلاشی نگاہیں
چاروں طرف بھٹکنے لگیں۔اسے کبوتر نظر آیا تو وہ دوڑتی ہوئی اس کے قریب گئی۔اس نے اس کے پنجوں کی طرف
دیکھا جس میں سبز چھلا تھا۔
وہ خوشی سے جھوم اٹھی۔
’’میرا کبوتر آ گیا، میں تو سمجھتی تھی کہ وہ گھر چھوٹا تو تمہارا ساتھ بھی چھوٹ گیا لیکن تم نے مجھے ڈھونڈ لیا"
اس نے آگے بڑھ کر کبوتر کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اسے اپنے چہرے سے لگا لیا وہ کافی دیر تک اسے اپنی گود میں لے کر بیٹھی رہی اور دانہ کھلاتی رہی جونہی سورج کی تیز کرنوں کا اجالا پھیلا وہ کبوتر غائب ہوگیا۔
•●•●•●•●•●•●•●•●•