"ٹرن ٹرن ! ٹرن ٹرن" !
فون کی مسلسل بجتی گھنٹی پر
وہ تیزی سے دوڑتی آئی تھیں ۔۔۔۔ تین دنوں سے وہ یونہی ہر دستک پر ہر گھنٹی پر بھاگی بھاگی پھرتی تھیں ۔۔۔۔ کہ شائد اسے ان کا ہی احساس ہو جائے ۔۔۔۔۔ شائد کہ اپنی محرومیوں پر شکوے کرنے کو ہی وہ ان سے رابطہ کر لے ۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔
"داود؟"
کیسی بیقراری تھی ان کے لہجے میں ۔۔۔۔ قریب ہی بیٹھے اخبار پڑھتے سبحان سعید نے نظریں چرائی تھیں ۔۔۔۔ پھر اٹھ کر ہی چلے گئے ۔۔۔۔۔۔
"آہم! ارباز ۔۔۔۔"
دوسری طرف موجود ارباز بھی ان کے انداز پر کچھ لمحے کو چپ سا رہ گیا تھا ۔۔۔ اپنا نام بتاتے وقت اسے عجیب سی شرمنگی ہوئی تھی ۔۔۔۔
"ارباز "!! جویریہ بیگم نے گردن گھما کر دیکھا سبحان سعید موجود نہیں تھے ۔۔۔۔
"کیسے ہو" ؟
"ٹھیک"
"اور بہو" ؟
"وہ بھی" !
ان کا عینی کو بہو کہنا ارباز کو جانے کیوں اچھا لگا تھا ۔۔۔۔
"تم گھر کیوں نہیں آتے" ؟
انہیں داود بہت یاد آ رہا تھا ۔۔۔
یہ احساس پریشان رکھتا تھا کہ وہ شائد ان سے بھی ناراض ہے ۔۔۔ جو ان سے بھی رابطہ توڑے بیٹھا ہے ۔۔۔۔
معاز کا بیشتر وقت گھر سے باہر گزرتا تھا ۔۔۔۔۔
انہیں اپنی مامتا کی تسکین کرنی تھی ۔۔۔۔۔
ان کی آواز میں کچھ تھا کہ وہ کنفیوژ سا ہو گیا تھا ۔۔۔ ایسے لاڈ بھرے گلے شکوے کا رشتہ کب تھا ان میں ۔۔۔۔
"ابا ناراض ہیں"
"تو تم مناتے کیوں نہیں؟"
"وہ فون ہی نہیں اٹھاتے ۔۔ یا میری آواز سنتے کے ساتھ ہی بند کر دیتے ہیں ۔۔۔۔"
جویریہ بیگم جتنی روانی سے سوال پوچھ رہی تھیں وہ اتنا ہی اٹک اٹک کے جواب دے رہا تھا
"وہ تمہارے ابا ہیں ۔۔۔۔
تمہاری حرکت بھی کوئی معمولی نہیں تھی
اور تم انہیں فون پر منا رہے ہو ایک مہینے سے !!" ۔۔۔۔۔
ان کے جھڑکنے پر وہ بس خفت زدہ سا ہنس دیا ۔۔۔۔
"آ جائو گھر ۔۔۔ منا لو انہیں ۔۔۔ وہ مان جائیں گے" ۔۔۔۔
ان کا انداز یقین دلاتا ہوا تھا
"وہ مجھے جوتے نہ لگا دیں "۔۔۔
ارباز نے خدشہ ظاہر کیا
"لو بھلا ! پہلی بار کھائو گے کوئی" ؟
ان کے انداز پر وہ بے ساختہ ہنس دیا تھا ۔۔۔۔
خود ساختہ انا اور ضد ٹوٹنے لگی تھی ۔۔۔۔ وہ باپ سے بات کرنے کو بیقرار تھا ۔۔۔ تو وہ بھی بیٹے کی یاد میں بے حال تھیں
"نہیں مطلب ۔۔۔ عینی کے سامنے ۔۔۔۔۔۔۔"
"بے شک کسی کے مجازی خدا بن گئے ہو ۔۔۔۔ وہ اب بھی تمہارے باپ ہی ہیں ۔۔۔ تم باپ بن جائو گے وہ تب بھی باپ ہی رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضدیں بہت نقصان پہنچاتی ہیں ارباز ۔۔۔ لوٹ آئو اس سے پہلے کہ ان کی ناراضگی ضد میں بدل جائے "۔۔۔۔۔
جواباً وہ کتنی ہی دیر تک چپ رہا تھا ۔،۔۔۔۔۔۔۔۔
"داود آگیا" ؟
طویل خاموشی کے بعد اس نے کہا بھی تو کیا ؟
"نہیں آیا ! تم بھی مت آنا ! معاز کو بھی چاہیے چھوڑ جائے ہمیں ۔۔۔ آج کل کی اولاد ماں باپ سے بدلے لیتی ہے ۔۔۔ ضد لگاتی ہے رلاتی ہے تو خوش رہتی ہے ۔۔۔ رہو تم لوگ خوش ۔۔۔۔ ہم جائیں بھاڑ میں "۔۔۔
بری طرح بھڑکتی وہ فون کریڈل پر رکھ کر پلٹی تھیں ۔۔۔ اور پیچھے کھڑے سبحان سعید کو دیکھ کر ایک لمحے کو چونکی تھیں ۔۔۔ پتہ نہیں وہ کب وہاں آ کھڑے ہوئے تھے
شکوہ کنہ نظروں سے انہیں دیکھتی وہ لائونج سے باہر نکلتی چلی گئی تھیں ۔۔۔۔
*********
بیڈ پر سکڑی لیٹی وہ بیزاری سے اپنے موبائل کا مسلسل چمکتا سکرین دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
کال کرنے والی شخصیت مہا ڈھیٹ تھی ۔۔۔۔۔ جو تین دنوں سے لگاتار کال پہ کال کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
ایک بار پھر سے اس نے آف کرنے کی نیت سے فون اٹھایا تھا مگر پھر کچھ سوچکر کال ریسیو کرلی ۔۔۔۔۔
مگر بولی کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔
"ہیلو خولہ" ؟
خاموشی
"خولہ یہ تم ہی ہو "؟
ناگوار خاموشی
"تم ہو نا خولہ" ؟
"آپ نے کال میرے نمبر پر کی ہے ۔۔۔۔ ظاہر ہے میں ہی ہوں"۔۔۔۔
حلق پھاڑ کے بولتی وہ سومیہ کو موبائل کان سے ہٹانے پر مجبور کر گئی تھی ۔۔۔۔۔
"دیکھو میرے بات مکمل کرنے سے پہلے کال نہیں کاٹنا ۔۔۔۔ یقین کرو میرا کوئی قصور نہیں ہے ۔۔۔ تمہاری شادی میں میرے بہت سے سسرالی بھی شامل تھے ۔۔۔ داود بھائی کو قىوم کی کسی کزن نے دیکھ کے پہچان لیا تھا ۔۔۔۔
پھر مجھ سے جب پوچھا تو میں انکار نہیں کر سکی ۔۔۔ بس پھر یہ بات پھیلتی چلی گئی ۔۔۔ مجھے خود سے کیا ضرورت پڑی تھی یہ بات پھیلانے کی ؟ میں تو خود اتنا شرمندہ ہوئی تھی انہیں ویٹر بنا دیکھ کر" ۔۔۔۔۔۔۔
"ایکسیوزمی ! کیوں شرمندہ ہوئی تھیں آپ ؟ وہ وہاں ویٹر تھے ۔۔۔ چوری کرتے تو نہیں پکڑے گئے تھے ۔۔۔جو آپ شرمندہ ہو گئی تھیں ۔۔۔"
جس بات پر اس نے خود قیامت اٹھا دی تھی ۔۔۔ اب اسی کا دفعہ کر رہی تھی ۔۔۔۔
"ہاں ہاں میں مانتی ہوں" ۔۔۔۔ سومیہ کچھ گڑبڑائی ۔۔۔ اب تم پلیز قیوم (سومیہ کے شوہر) کو کال کر کے کہ دو کہ تم نے مجھے معاف کر دیا ہے ۔۔۔۔ اتنی سنائی ہے مجھے اور اکھڑے اکھڑے بھی ہیں ۔۔۔۔ حالانکہ میری کوئی غلطی بھی نہیں تھی ۔۔۔۔۔"
میں قیوم بھائی کو کال کر کے یہ سب کیوں کہوں ؟ جبکہ میں نے آپ کو معاف بھی نہیں کیا ۔۔۔ اور تب تک نہیں کرونگی جب تک داود واپس نہیں آ جاتے ۔۔۔۔ اور اچھا ہے جو وہ آپ سے اکھڑے اکھڑے ہیں ۔۔۔ آپ کی گردن اکھیڑ دیں تو اور بھی اچھا ہو ۔۔۔۔۔ اور یہ کزن والی کہانی اسے سنائیے جو آپ کی کٹنیوں والی فطرت جانتا نہ ہو !آپ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بری طرح تلملاتی سومیہ خود ہی کال کاٹ چکی تھی ۔۔۔
ہنہ ! "کزن نے دیکھ کر پوچھ لیا!"
فون کان سے ہٹاتی وہ دھپ سے بیڈ پر واپس گری تھی ۔۔۔
قیوم بھائی کتنے اچھے انسان ہیں ۔۔۔ ہر کسی کا درد سجھنے والے ۔۔۔ ہر کسی کی مدد کو تیار ۔۔۔۔
"پتا نہیں کیا نیکی کی تھی سومیہ باجی نے جو انہیں قیوم بھائی جیسا میاں ملا ۔۔۔ شائد قیوم بھائی نے کچھ زیادہ ہی سنا ڈالی ۔۔۔ ایسے ہی تو تین دن سے میری منتیں کر رہیں ۔۔۔ اچھا ہے ۔۔۔ قیوم بھائی ناراض رہیں ۔۔۔ کچھ تو قدر ہوگی سومیہ باجی کو ان کی ۔۔۔ ورنہ کبھی جواحساس کیا ہو اپنے شوہر کا ۔۔"
تیز تیز پیر ہلاتی ۔۔ بڑبڑاتی وہ یکدم ساکت ہوئی تھی ۔۔۔ "میں نے خود کب اپنے شوہر کی قدر کی تھی ؟ مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ میں اس معاملے میں سومیہ باجی کو کچھ کہوں "۔۔۔۔ نادم سی ہوتی وہ پھر رونے کا شغل لگا چکی تھی ۔۔۔ "کتنے اچھے تھے وہ ۔۔ کتنا برا کیا میں نے ۔۔۔
اب اگر وہ مجھے کچرہ چنتے بھی نظر آئے خدا نہ خواستہ ۔۔۔ تو میں خود ان کے ساتھ لگ جائونگی ۔۔۔ "
یہ ارادہ وہ داود کے غائب ہونے کے تین دن میں تین سو بار کر چکی تھی ۔۔۔۔
نڈھال سی جویریہ بیگم خاموشی سے آکر بیڈ پر بیٹھ گئیں ۔۔۔ شرمندہ سی وہ اٹھ بیٹھی تھی ۔۔۔ ان سے نظریں ملانا اس کے لیئے بہت دشوار تھا ۔۔۔ آنکھیں پلو سے رگڑتے ہوئے اس کی نظریں ہی نہیں سر بھی جھکا ہوا تھا ۔۔ بغور اس کے تاثرات دیکھتی وہ اداسی سے مسکرائی تھیں ۔۔۔ تم مجھ سے شرمندہ ہو رہی ہو ؟ کیوں ؟ تمہارے لیئے وہ بلکل اجنبی تھا ۔۔۔ بلکل اچانک قدرت نے
تم سے جوڑ دیا تھا ۔۔۔۔ میں سمجھ سکتی ہوں ۔۔۔۔ اسے سمجھنے میں ۔۔ اسے دل سے قبول کرنے میں تمہیں کچھ وقت لگنا تھا ۔۔۔۔ قصور وار تو میں ہوں ۔۔۔۔ اسے پیدا کیا میں نے ۔۔۔ نو ماہ وہ میرے جسم کا حصہ بنا رہا ۔۔۔ ایک ماں کے لیئے اس کی اولاد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا اور میں نے اپنی اولاد کو سب سے بعد میں رکھا ۔۔۔۔۔"
وہ ہر چیز کا قصوروار خود کو سمجھتی اور بھی کچھ کہنا چاہتی تھیں مگر خولہ نے آہستگی سے ان کا تھام لیا پھر دھیمی آواز میں گویا ہوئی ۔۔۔۔
"اگر آپ انہیں الگ کرنے کا فیصلہ نا کرتیں تو وہ کس حال میں ہوتے ؟ ان کی شخصیت کیا ہوتی ۔۔۔ ؟ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ۔۔۔ ان کے پاس آسائشات کی کمی بھی نہ ہوتی ۔۔۔ مگر وہ خود کیا ہوتے ۔۔۔۔۔ ایک بزدل کونوں کھدروں میں چھپے رہنے والا شخص ۔۔۔۔ ؟ جس سے ہکلائے بغیر بات نا کی جاتی ۔۔۔ جو سامنے والے کی آنکھوں میں دیکھ کر بات تک نا کر سکتا !"
وہ دنگ ہوئی تھیں ۔۔۔۔ دو سال سبحان سعید کے گھر رکھ کر آٹھ سال کی عمر میں اسے واپس اس کے باپ کے گھر نانی کے ساتھ چھوڑتے ۔۔۔۔ ان کے دل میں یہی تو ادیشے تھے ۔۔۔ سبحان صاحب ہرگز ظالم نہیں تھے مگر وہ ایک کانوں کے کچے اور غصے کے تیز شخص تھے ۔۔۔ ان کی والدہ جو مزاج میں ان سے زیادہ گرم تھیں ۔۔۔ جویریہ بیگم سے وعدہ تو کر چکی تھیں داود کو رکھنے کا ۔۔۔ مگر انہیں ہر وقت یہ دھڑکا رہتا کہ داود ان کے اپنے پوتے ارباز کا حق چھین لے گا ۔۔۔ جویریہ بیگم داود کے ہوتے ارباز کا خیال نہیں رکھیں گی ۔۔ سو وہ کچھ گھریلو سیاست کرنے لگیں ۔۔۔ سبحان صاحب کا پارہ ہائی ہو جاتا ۔۔۔ وہ داود پہ بھڑکتے ۔۔۔ اور داود کا اعتماد ختم ہوتا جاتا ۔۔۔۔ یہی حالات دیکھتے ہوئے انہوں نے داود کو خود سے الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔۔ مگر یہ سب خولہ کو کیسے پتا ؟
ان کی آنکھوں میں سوال دیکھ کر وہ زرا سا مسکرائی ۔۔۔
"مجھے داود نے بتایا تھا ۔۔
اسی لیئے انہوں نے آپ سے کوئی گلہ نہیں کیا ۔۔۔ وہ آپ کی مجبوری سمجھ سکتے تھے ۔۔۔ آپ نے وہ کیا جو ان کے لیئے بہتر لگا"
"وہ سب سمجھتا تھا ؟"
انہوں نے بے یقینی سے پوچھا ۔۔
"جِی"!
"تو وہ واپس کیوں نہیں آ رہا "؟
ان کے انداز میں بے اعتباری تھی ۔۔۔۔
"کیونکہ وہ مجھ سے ناراض ہیں "۔۔۔
خولہ کا انداز مجرمانہ تھا ۔۔۔
"پتہ ہے آنٹی ۔۔۔۔
جب میں نے ان کے گھر میں قدم رکھا تھا نہ آنٹی ۔۔۔ انہوں نے مجھے تب ہی کہ دیا تھا ۔۔۔۔ اس گھر کے در و دیوار کے آگے ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہنا ۔۔۔۔ اور میں نے انہیں ہی ان در و دیوار کے سامنے رلا دیا ۔۔۔ کتنی بری ہوں میں ۔۔۔ کتنی بری ۔۔۔ میری نظروں سے وہ لمحہ نہیں جاتا جب میں نے ان کی آنسو دیکھے تھے ۔۔۔ مجھے بسس" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اس سے آگے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا ۔۔۔ رونے میں شدت آ گئی تھی ۔۔۔۔ حلق میں آنسئوں کا گولہ اٹکا تھا ۔۔۔۔ "وہ اسے اتنا یاد آ رہا تھا کہ اسے خود پر حیرت تھی ۔۔۔ اتنی محبت تھی اس کے دل میں داودطکے لیئے ۔۔۔ وہ سمجھ کیسے نہیں سکی ۔۔۔۔
"وہ صرف تم سے ناراض ہوتا تو صرف تم دور ہوتا ۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ بغیر احساس دلائے مجھے بھی سزا دینا چاہتا ہے ۔۔۔۔"
اس کی پشت سہلاتے انہوں نے پر یقین انداز میں کہا تھا ۔۔۔
********
کپڑے پیک کرتے وقت وہ ماضی کے ان لمحوں میں بھٹک رہی تھی جب وہ ارباز سے ملی تھی ۔۔۔۔۔
وہ بینک میں نئی تھی ۔۔۔۔۔ کافی دبو اور بے وقوف بھی مشہور ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔ کچھ وہ ویسے ہی سیدھی سادی تھی ۔۔۔۔ کچھ ماں کی اچانک موت نے بے دم کر دیا تھا ۔۔۔۔۔
باپ تو بچپن میں ہی دنیا چھوڑ گیا تھا ۔۔۔ نا کوئی بہن بھائی ۔۔ نا کوئی قریبی عزیز ۔۔۔۔ چند دور دور کے رشتے دار تھے جو دور دور ہی تھے ۔۔۔۔
اس وقت ارباز نے اس کا بہت ساتھ دیا تھا ۔۔۔۔ کچھ زیادہ ہی خیال وہ اس لیئے بھی اس کا رکھتا تھا کہ وہ بھی ماں کے چھوڑ جانے کے غم سے واقف تھا ۔۔۔۔ لیکن سیدھی سی عینی نے جانے کیا کیا خواب سجا لیئے ۔۔۔۔۔۔
مگر اس وقت اس کے خوابوں کا محل مسمار ہوا تھا جب وہ اپنی شادی کا کارڈ لے کر آیا تھا ۔۔۔۔
ارباز کے دل میں کچھ تھا یا نہیں ۔۔۔ لیکن وہ عینی کے دل کی بات سے یقینی طور پر نا واقف نہیں تھا ۔۔۔۔ تب ہی شائد اس کی آنکھوں میں دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکا تھا ۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عینی ! عینی ۔۔۔۔۔۔۔! کہاں گم ہو "؟ چونک کر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی ۔۔۔۔
اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلاتا ارباز اب حیران نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا
کب سے وہ ایک شرٹ تھامے سوچوں میں گم کھڑی تھی ۔۔۔۔
روشن نظروں سے اس کا وجیہ چہرہ تکتی وہ بے ساختہ مسکرائی تھی ۔۔۔۔
(جو ہونا تھا ہو چکا ۔۔۔۔ اس وقت اس سے بڑی اور خوبصورت سچائی کوئی نہیں کہ داود اس کے قریب تھا ۔۔۔ اس کا محرم تھا ۔۔۔۔ اور اس سے محبت کا دعویدار بھی تھا)
دل ہی دل میں وہ جیسے گنگنائی تھی ۔۔
"کیا بہت اچھا لگ رہا ہوں" ؟
"ہمیشہ لگتے ہو "۔۔۔۔
اس کے بے ساختہ کہنے پر ارباز نے اِترا کر بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا ۔۔۔
"اب بتا دو کیا سوچ رہی تھیں"؟
"ہمم ۔۔۔۔ یہی کہ کیا انکل مجھے بہو قبول کر لیں گے" ؟
"اف !! عینی ۔۔۔۔ یہ ممکن ہے وہ مجھے معاف نہ کریں ۔۔۔۔ لیکن تم گھر کی عزت ہو ۔۔۔۔ وہ تمہیں ضرور قبول کر لیں گے ۔۔۔۔ بلکہ 80 فیصد چانسز ہیں وہ مجھے جوتے لگا لگا کر باہر نکال پھینکیں اور تمہیں وہاں رہنے کی اجازت دے دیں ۔۔۔۔"
"مگر ! میں تمہارے بغیر کیسے رہونگی" ؟
اس کے پریشانی سے کہنے پر وہ بے ساختہ ہی ہنستا چلا گیا تھا ۔۔۔۔
"پگلی"