میرے پیارے بیٹے مسٹر غمگین!
جس وقت تمھارا خط ملا، میں ایک بڑے سے پانی کے پائپ کی طرف دیکھ رہا تھا جو سامنے سڑک پر پڑا تھا۔ ایک بھوری آنکھوں والا ننھا سا لڑکا اس پائپ میں داخل ہوتا اور دوسری طرف سے نکل جاتا، تو فرطِ مسرت سے اس کی آنکھیں تابناک ہو جاتیں۔ وہ اُچھلتا کودتا پھر پائپ کے پہلے سرے سے داخل ہو جاتا…
ایسے میں تمھارا خط ملا۔ لکھا تھا: ’’سائیں بابا! میں ایک غمگین انسان ہوں۔ خدارا مجھے مسرت کا راز بتاؤ۔ یہ کہاں ملتی ہے، کیسے ملتی ہے، کس کو ملتی ہے۔ ‘‘
مسٹر غمگین! اگر تم اس وقت میرے پاس ہوتے، تو تم سے فوراً کہتا کہ اس پائپ میں داخل ہو جاؤ اور یہ پروا مت کرو کہ تمھاری استری شدہ پتلون مٹی سے لتھڑ جائے گی۔ اس وقت مسرت ہم سے صرف چھے گز کے فاصلے پر تھی اور مٹی سے لتھڑی پتلون دھوئی بھی جا سکتی تھی…
لیکن ہائے ! تم اس وقت بہت دور تھے، کلکتہ میں۔ نجانے تم اتنی دور کیوں ہو؟ مسرت سے اتنی دور! اس دوری کی وجہ سے تمھاری پتلون مٹی سے بچی ہوئی ہے … اور سنو! کیا کلکتہ میں پانی کے پائپ نہیں ہوتے ؟ کیا کلکتہ میں بھوری آنکھوں والا کوئی ننھا لڑکا نہیں ہوتا؟ میرا مطلب ہے، مجھے خط لکھنے کے بجائے اگر تم کوئی پائپ تلاش کر لو، تو کیا حرج ہے۔
مسرت کا راز…؟ مسرت کے ساتھ یہ لفظ ’’راز‘‘ لٹکا دینا ان میل حرکت ہے۔ ایسی حرکت صرف پختہ ذہن کے لوگ ہی کرتے ہیں، بھوری آنکھوں والے ننھے لڑکے نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ایک فلسفیانہ حرکت ہے۔ مگر پائپ میں داخل ہونے میں کوئی فلاسفی نہیں۔ کیا پانی کا پائپ کوئی راز ہے ؟ بالکل نہیں، وہ تو سب کے سامنے سڑک پر پڑا رہتا ہے۔ مگر لوگ اس طرف نہیں بلکہ دور ہمالیہ میں کسی گپھا کی طرف جاتے ہیں تاکہ وہاں جا کر مسرت حاصل کریں۔ ہمالیہ بہت دور ہے مگر پائپ بہت نزدیک بلکہ وہ بھینس اس سے بھی زیادہ قریب ہے جو سامنے جوہڑ میں نہاتے ہوئے خوش ہو رہی ہے۔
بھینس نہانے کے لیے ہمالیہ نہیں گئی۔ کیونکہ وہ فلاسفر نہیں اور نہ اس نے فلسفے کی کوئی کتاب پڑھی ہے۔ مگر مسٹر غمگین! تم نہ بھوری آنکھوں والے لڑکے ہو اور نہ بھینس۔ اس لیے تم مجھ سے مسرت کا راز پوچھنے بیٹھ گئے۔ میں کہتا ہوں کہ تم ایک بھینس خرید لو اور اسے گھر لے آؤ۔ اور پھر اسے کھونٹے سے باندھ لو۔ پھر اپنی ننھی بیٹی کو اپنے پاس بلا لو اور اس سے کہو:
’’بیٹی! یہ کیا ہے ؟‘‘
’’یہ بھینس ہے۔ ‘‘
’’اس کے تھنوں میں کیا ہے ؟‘‘
’’دودھ ہے۔ ‘‘
’’دودھ کون پیے گا؟‘‘
’’میں پیوں گی۔ ‘‘
تو وہ لمحہ… مسٹر غمگین! وہی ایک ننھا سا لمحہ تمھیں بیکراں مسرت عطا کرے گا۔ مگر افسوس تم بھینس نہیں خریدتے بلکہ خط لکھنے بیٹھ جاتے ہو۔ چلو اگر بھینس مہنگی ہے تو ایک بکری خرید لو۔ پرسوں ایک مفلس دیہاتی نوجوان کو دیکھا کہ اُس نے پیادہ راہ پر بیٹھنے والے ایک منہاری فروش سے کانچ کا ایک ہار آٹھ آنے میں خریدا۔ اور اپنی دیہاتی محبوبہ کی گردن میں اپنے ہاتھ سے پہنا دیا۔ تب فرطِ مسرت سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ میں نے اس سے یہ نہیں کہا کہ تم فینسی جیولرز شاپ پر جا کر سونے کا ہار خریدو۔ میں تم سے بھی نہیں کہتا کہ بھینس ہی خریدو، نہیں، بکری ہی خرید لو۔ کانچ کا ہار ہو یا بکری، مگر شرط یہ ہے کہ فرطِ مسرت سے ہاتھ ضرور کانپنا چاہیے۔
یہ جھوٹ ہے کہ مسرت ابدی ہوتی ہے۔ جو لوگ یہ پروپیگنڈا کریں، وہ در اصل مسرت کی تجارت کرتے ہیں۔ وہ مسرت کو بوتلوں میں بند کر دکان کی الماریوں میں رکھتے ہیں۔ ان پر خوب صورت اور سریع الاثرلیبل لگاتے ہیں۔ اس پر انگڑائی لیتی دوشیزہ کی تصویر بھی چسپاں کرتے ہیں۔ اگر ان کا بس چلے، تو آسمان پر اڑتے، رقص کرتے بادلوں کو بھی شیشے کے جگمگاتے شو کیس میں ساڑھی پہنا کر بند کر دیں۔ اور جب آپ نم آلود بادلوں سے بھیگنے کی مسرت حاصل کرنا چاہیں، تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے آپ کو شو کیس کا شیشہ توڑنا پڑے گا اور مسرت کا بیوپاری شور مچا دے گا: ’’پولیس! پولیس! پولیس۔ ‘‘
اس لیے بادلوں کو ہمیشہ آسمان پر ہی رہنا چاہیے۔ میرا مطلب ہے کہ وہ ہماری چھت سے اتنے دور رہیں کہ ہمارا ہاتھ اُن تک نہ پہنچ سکے۔ ورنہ ہمارے ہاتھوں کے لمس ہی سے وہ مرجھا جائیں گے۔ بادل تو پھولوں کی طرح ہیں اور تم جانتے ہو کہ ہم نے پھولوں کے نرخ مقرر کر رکھے ہیں۔ (کیونکہ ہم علم ریاضی بھی جانتے ہیں ) اگر مسرت کے سوداگروں کو یہ علم ہو جائے کہ پانی والے پائپ سے بھی بھوری آنکھوں والا لڑکا مسرت حاصل کر سکتا ہے، تو وہ اسے بھی سڑک سے اٹھا شیشے کے شو کیس میں بند کر
دیں۔ وہ اس پر مندرجہ ذیل نرخ نامہ لگائیں گے:
ایک مرتبہ پائپ میں داخلہ… فیس آٹھ آنے
پانچ مرتبہ داخلہ… فیس اڑھائی روپے،
تھوک مرتبہ داخلہ… آدھی فیس کی رعایت
پچاس مرتبہ داخل ہونے والوں کو… ایک غبارہ انعام۔
مسٹر غمگین! اگر تمھارے پاس اتنی دولت ہو کہ تم جنم سے لے کر مرن تک بغیر ایک لمحہ ضائع کیے مسلسل نرخ نامے کے مطابق پائپ میں داخل ہوتے رہو، تو تمھیں ابدی مسرت مل سکتی ہے۔ مگر یاد رکھو کہ بھینس عمر بھر پانی کے جوہڑ میں نہیں رہ سکتی۔ تم ایک امیر ترین آدمی کا منہ چڑا کر کہو کہ تمھاری ناک پر مکھی بیٹھی ہے۔ وہ سخت مشتعل ہو جائے گا کہ مسٹر غمگین، جو اپنے بوٹ پر پالش نہیں کرا سکتا، میرے ایسے ارب پتی کو مکھی کا طعنہ دیتا ہے۔ لہٰذا وہ مکھی کے بجائے تم پر جھپٹ پڑے گا…
میرا مطلب یہ ہے کہ جیسے بھینس مسلسل جوہڑ میں رہنے سے مسرت حاصل نہیں کر سکتی، ویسے ہی امیر ترین آدمی بھی مسلسل پھول خرید کر مسرت حاصل نہیں پا سکتا۔ کیونکہ ابدی مسرت کا کوئی وجود نہیں، بلکہ ایک نہ ایک دن ناک پر مکھی ضرور بیٹھتی اور غم دے جاتی ہے !
کیا تم سمجھتے ہو کہ مکھی کا طعنہ سننے کے بعد اس امیر آدمی کو رات بھر نیند آئے گی؟ کبھی نہیں، چاہے وہ گلستانِ ارم کے سارے پھول خرید کر بھی اپنے بستر پر کیوں نہ بچھا دے۔
اس لیے میں یہ سن کر سکتے میں آ گیا کہ تم مستقل طور پر غمگین رہتے ہو۔ اگر ابدی مسرت کوئی چیز نہیں، تو ابدی غم کا بھی کہیں وجود نہیں۔ جھوٹ مت بولو۔ اب سنو۔ میرے دو دوست ہیں۔ ایک کا نام مسٹر وائے ہے اور دوسرے کا مسٹر ہائے۔ مسٹر وائے جب بھی چلے اس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے۔ اچھل پھاند اس کا شیوہ ہے۔ وہ نہایت معمولی، ہلکی سی بات پر خوشی سے بے چین ہو جاتا ہے۔ راستے پر کھڑے بجلی کے کھمبے پر جاتے جاتے اپنی چھوٹی سی سوٹی مار دیتا ہے۔ کھمبے میں سے ایک لمبی ’’جھن‘‘ کی آواز نکلتی ہے۔
’’آہاہاہا۔ ‘‘ مسٹر وائے کی آنکھیں مسرت سے پھیل جاتی ہیں۔ وہ احباب کو مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’دیکھا کیسی آواز آتی ہے۔ ’’جھن‘‘ اگر تم کہو تو ایک بار پھر سوٹی لگا دوں۔ ‘‘ یہ رہی ’’جھن!‘‘
وہ انبساط کے جوش میں کلائی سے پکڑ کر مجھے اتنے زور سے کھینچ لیتا ہے کہ میں گرتے گرتے بچتا ہوں۔
اور مسٹر ہائے، ہمارا وہ نازک اور ہر وقت نکٹائی کی گرہ درست کرتے رہنے والا دوست بڑی گمبھیرتا سے کہتا ہے:
’’یہ صریحاً بدتمیزی ہے۔ ڈنڈا مارنے سے کھمبے کا روغن اتر گیا۔ یہ قومی سرمائے کا نقصان ہے۔ ‘‘
مسٹر غمگین! جھن کی آواز اگر نہ نکالی جائے، تو قومی سرمایہ محفوظ رہتا ہے۔ مگر مسٹر ہائے، جھن کی لذت محسوس نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ عالم فاضل آدمی ہے۔ وہ جب بھی پیگ اٹھا کر پیے تو آہ بھر کر کہتا ہے: ’’میں حیران ہوں کہ تم لوگ پاگلوں کی طرح کیوں اکٹھے ہو کر پینے بیٹھ جاتے ہو۔ میں پوچھتا ہوں کہ آخر تم کیوں پیتے ہو؟ کیا اپنا غم چھپانے کے لیے ؟‘‘
’’نہیں مسرت پیدا کرنے کے لیے !‘‘ مسٹر وائے جواب دیتا ہے۔
’’فضول… اپنے آپ سے جھوٹ مت بولو، غم چھپانے کو مسرت پیدا کرنا کہہ رہے ہو۔ تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم سب غمگین اور دکھی آدمی ہیں۔ ‘‘
’’غم کی کیا تعریف ہے ؟‘‘ ایک اور دوست پوچھتے ہیں۔
’’میں بتاؤں ؟ مسٹر وائے لمبی گمبھیر بحث پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ ’’ارسطو نے کہا تھا کہ غم انسان کے لمحات…‘‘
’’جھن‘‘
اتنے میں آواز آتی ہے۔ سب لوگ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ مسٹر وائے چھلانگ لگا کر قریب کی آہنی سیڑھی پر جا بیٹھا ہے اور سیڑھی پر اپنا ڈنڈا بجا رہا ہے۔ ‘‘
’’جھن‘‘
مسٹر وائے اعلان کرتا ہے:
’’دوستو! ارسطو نے کہا تھا کہ جھن! یعنی ارسطو نے کہا تھا کہ جھن!… یعنی …مارا وہ تیر سینے میں میرے کہ جھن!‘‘
چاروں طرف ایک قہقہہ گونج اٹھتا ہے۔ مسٹر ہائے کی فلسفیانہ بحث کا سرکٹ بھی قہقہوں پر اچھلنے لگتا ہے۔ وہ اور بھی غمگین ہو جاتا ہے۔ مسٹر ہائے کی مسرت اس میں ہے کہ کوئی اس کے ساتھ بیٹھ کر غم کے فلسفے پر بحث کرتا رہے۔ مگر مسٹر وائے بڑا ستمگر ہے، اسے یہ موقع ہی نہیں دیتا۔
لہٰذا مسٹر غمگین! میں تم سے پھر کہوں گا کہ کلکتہ کی کسی سڑک پر پڑے پائپ کو تلاش کرو اور اس پر سوٹی مار کر ’’جھن ‘‘ کی سی آواز پیدا کرو۔ اور وعدہ کرو کہ تم مجھے اس جھن کے بعد خط نہیں لکھا کرو گے۔ ‘‘
تمھارا
سائیں بابا