جو میں سچ کہوں تو برا لگے، جو دلیل دوں تو ذلیل ہوں
یہ سماج جہل کی زد میں ہے، یہاں بات کرنا حرام ہے
باری کی آنکھ کھلی دروازے پر دستک مسلسل جاری تھی۔ وہ جھنھلا کر اٹھا۔ اس نے حنایہ کی طرف دیکھا مگر وہ بیڈ پر نہیں تھی۔ باری نے دروازہ کھولا تو سامنے انشراح کھڑی تھی۔ باری نے گھڑی کی طرف دیکھا جو صبح کے آٹھ بجا رہی تھی۔
"تم صبح صبح یہاں؟ خیر تو ہے نا۔" باری نے اسکے چہرے پر چھائی پریشانی کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
"بب...بھائی " انشراح کی گھبرائی ہوئی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی۔ "وہ ماما... بابا سائیں..." انشراح نے ابھی اتنی سی بات ہی بتائی تھی کہ وہ تیزی سے کمرے سے باہر چلا گیا۔
"انشراح تم یہاں؟ اور باری کہاں گئے۔"
حنایہ جو ابھی ڈریسینگ روم سے باہر آئی تھی اپنے بال باندھتے ہوۓ پوچھا۔
"وہ بھائی نیچے مما... اور بابا سائیں پتا نہیں ان کے ساتھ کیا کریں گے۔" انشراح نے رونا شروع کر دیا تھا۔" بابا سائیں بہت غصے میں ہیں۔"
"کچھ نہیں ہوتا انشراح باری گئے ہیں نا؟" حنایہ نے اسے گلے سے لگا لیا۔ "سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
حنایہ نے چادر سے اچھی طرح خود کو ڈھانپ لیا اور اسے سنبھالتی ہوئی نیچے چلی گئی۔ دلان میں پہنچ کر اس نے دیکھا۔ باری فاطمہ پھوپھو کے ساتھ کھڑا ان سے بات کر رہا تھا ، زہرہ بی ، اماں سائیں زینیہ پہلے سے ہی موجود تھے۔
مردان خانے سے بابا سائیں جلالی کیفیت میں اپنی بندوق تھامے باہر نکلے جن کے پیچھے پیچھے صغیر ہمدانی اور عبدالصمد بھاگتے ہوۓ باہر آئے۔
"بابا سائیں یہ آپ کیا کرنے جا رہے ہیں؟" صغیر ہمدانی نے اپنے باپ کی بندوق کی نال پکڑ لی۔
"جو بیچ میں آئے گا پہلی گولی اسی کے سینے کو چھلنی کرے گی۔" بابا سائیں نے بندوق کو جھٹکا دیا اور نال فاطمہ کی طرف کی۔ " میں اس کم ذات کا سارا خون بہا کر آج اس حویلی کو پاک کروں گا۔"
دالان میں موجود تمام نفوس کے چہروں پر ڈر تھا سوائے عبدالباری کے کیونکہ اس کے لئے یہ صورت حال نارمل تھی وہ جانتا تھا بابا سائیں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ وہ چلتا ہوا ان دونوں کے درمیان آ کھڑا ہوا۔ بندوق کی نال اس نے اپنے سینے پر رکھ لی۔
"آٹھ سالہ عبدالباری اور چھبیس سالہ عبدالباری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میں نے پھوپھو کو ہمیشہ اپنی ماں کا درجہ دیا ہے ایک بار تو آپ نے انہیں مجھ سے چھین لیا تھا مگر اب نہیں بابا سائیں!" عبدالباری نے انکی آنکھوں میں دیکھ کر بندوق کی نال اپنے سینے پر ٹھوک کر کہا۔"میرے جیتے جی تو آپ پھوپھو کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔"
"تم مجھے دھمکی دے رہے ہو مجھے؟"
"میں دھمکی نہیں دے رہا بلکہ آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔ آئیں ماریں مجھے..." باری نے دونوں بازوں پھیلا کر کہا۔" پھر وہ جو کھڑی ہے نا؟ کالی چادر میں موجود میری بیوی..." باری نے حنایہ کی طرف اشارہ کیا۔
"وہ بیوہ اچھی لگے گی کیا ؟ نہیں نا ... اسے میرے بعد ماریے گا۔ پھر اسکے ساتھ کھڑی اپنی نواسی انشراح کو ماریئے گا کیوں کہ اپنی ماں کو مرتے ہوۓ وہ کیسے دیکھ سکتی ہے؟ ایسے ہی سب کو مار کر آپ اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد کے ممبر پر اپنی انا اور غرور کو لٹکا لیجیے گا۔" باری نے دونوں ہاتھں سےتالی بجائی۔ "کیا غیرت کا مظاہرہ کیا ہے آپ نے!"
"تم..." بابا سائیں کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا فضا میں فائر کی آواز گونجی۔ حنایہ نے زور دار چیخ کے ساتھ اپنی آنکھیں بند کر لی اور دھل کر اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔ ایک لمحے کے لئے اسکے دل کی دھڑکن رک گئی تھی وہ وہی بیٹھتی چلی گئی۔ انشراح نے اسکے بے جان وجود کو سہارا دیا۔
سائیں..." اماں سائیں کی آواز نے خاموشی توڑی تھی۔ حنایہ نے ڈرتے ڈرتے اپنی آنکھیں کھولی اماں سائیں نے بندوق کی نال چھت کی طرف کر دی تھی۔ باری کے ماتھے پر ایک بھی شکن نہیں آئی تھی۔
"یہاں اگر کسی کی غلطی ہے تو وہ ہم ہیں۔ اگر کسی کو مرنا چاہیے تو وہ ہم ہیں۔" اماں سائیں اپنے شوہر کے سامنے کھڑیں تھیں بابا سائیں نے کچھ کہنا چاہا تو انہوں نے ہاتھ اٹھا کر انہیں روک دیا۔" ہم نے آج تک آپ کے کسی فیصلے پر زبان نہیں کھولی...مگر آج ہمیں بول لینے دیں۔ ہم نے اپنی بیٹی کو اجازت دی نکاح کی... ہم نے"
اماں سائیں نے اپنے سینے پر ہاتھ مارا۔
"آپ چاہتے تھے ہماری بیٹی ساری عمر حویلی میں گزار دیتی بن بیاہی بیوہ کی طرح..!! کیا ہماری بیٹی کو زندگی جینے کا حق نہیں تھا؟ جب وہ ہمارے سامنے جھولی پھیلا کر اپنی آنے والی اولاد کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی وہ اولاد جو جائز تھی... کیا ہم ساری عمر اسے بھائی کے بچے پالنے کے لئے چھوڑ دیتے؟ یہ کہاں کے اصول ہیں؟ ہم جانتے تھے آپ نہیں بدلیں گے اسی لئے کہا جا بیٹی اپنی خوشیوں کی جنگ خود لڑ۔ اس نے جو کچھ کیا ہمارے کہنے پر کیا۔ مار دیں ہمیں ہم اپنی بیٹی کی محبت کے آگے ہار گئے۔"
اماں سائیں وہی بابا سائیں کے قدموں میں بیٹھ گئیں۔ بابا سائیں چند قدم پیچھے ہٹے۔ پھر تیزی سے مردان خانے میں چلے گئے دلان میں لکڑی کے دروازے کو بند کرنے کی آواز گونجی۔
*************
حنایہ کو عبدالباری کمرے میں لے آیا تھا وہ اسکا بازو مضبوطی سے تھامے ہوۓ تھی۔ اسکے ناخنوں کی سختی باری اپنے بازؤں پر محسوس کر سکتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ کملی نے رونے کا شغل بھی جاری رکھا تھا۔
"کملی چپ کر جاؤ یار میں بالکل ٹھیک ہوں کچھ بھی نہیں ہوا..."
باری ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا اس کو بیڈ پر بٹھا کر اسکے کندھے کے گرد بازو رکھ کر اسے خود سے قریب کیا۔
"میں ٹھیک ہوں۔"
"آپ..." کملی حسب عادت چادر کے کونے سے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوۓ بولی۔ " اگر آپکو کچھ ہو جاتا تو میں..."
"تو کیا کرتی تم؟"
"تو میں نے ..." کملی نے شو شو کے درمیان بات مکمل کی " میں نے اسی بندوق سے... بابا سائیں کو مار دینا تھا!"
باری حیرت سے اسے دیکھتا رہ گیا۔ جو اب اسکے بازو سے سر ہٹا کر سائیڈ ٹیبل سے ٹشو اٹھا کر اپنا چہرہ صاف کر نے کے بعد اب ناک پونچھ رہی تھی۔
"دادا ہیں وہ ہمارے!" اس نے بابا سائیں کا مقام باور کروایا۔
"ہاں تو؟ "
ایک دو تین اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سارا غصہ ٹشو پر نکالنے لگی۔ آنسو صاف کر کے وہ ٹشو کا ڈھیر لگا رہی تھی۔
"بابا سائیں ہیں نا تو ہوں گے مگر وہ کیسے میرے شوہر پر بندوق تان سکتے ہیں اور ..."
باری اسکے منہ سے " میرا شوہر " سننے کے بعد ایک بار پھر شادی مرگ کی کیفیت میں چلا گیا اس بات سے بےخبر کے ابھی باہر کیا حالات تھے۔
" آپ کو ذرا خیال نہ آیا؟ اپنی نئی نویلی دلہن چھوڑ کر آپ تو پھوپھو کی محبت میں شہید ہونے چلے تھے ذرا خیال نہ آیا؟ میرا کیا بنتا میں تو مر جاتی..."
کملی کا غصے کا رخ اب باری کی طرف تھا۔
"ہاں نئی نویلی دلہن... اس بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہیں؟" باری اسکی باتوں کا لطف لیتے ہوۓ بولا۔ "ہاں تو مجھے تمہارے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔"
"مگر کہاں آپ کو میری فکر ہی نہیں... میں بیچاری!"
ٹشو پھینک کر ہاتھ جھاڑتے ہوۓ وہ اٹھی باری اسکا بدلتا روپ دیکھتا رہ گیا وہ رونا دھونا بھول کر اب لڑائی کے موڈ میں تھی۔
" میں مر جاتا تو تم واقعی بابا سائیں کو قتل کر دیتی؟"
باری نے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر اسکا رخ اپنی طرف کیا۔
"ہاں!" حنایہ نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔
"اتنی محبت کرتی ہو مجھ سے؟"
وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا ہوا اسکے قریب ہوا۔
"آپ کے بغیر زندگی کیا ہے مجھے نہیں معلوم ... کبھی سوچوں تو سانس رکنے لگتی ہے اگر اسے محبت کہتے ہیں تو ہاں ہے مجھے محبت!"
کملی ابھی بھی محبت کے معنی سمجھنے سے قاصر تھی۔ " میرے لئے تو محبت کا مطلب باری ہے!"
سادگی سے کہتے ہوۓ وہ مسکرائی تو باری کو بے اختیار اس پر پیار آگیا۔
" کملی بابا سائیں ہمارے بڑے ہیں اور انکی ..."
"میں آپکے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں" حنایہ نے جوش سے اسکی بات کاٹ کر کہا۔
"کچھ بھی؟" باری نے پر شوخ نظروں سے اسے دیکھا۔
"ہاں کچھ بھی!"
"سوچ لو پھر نہ کہنا؟ " باری نے دھیرے سے اسکے گرد حصار کھینچ دیا تو اسے اسکی بات کا اندازہ ہوا۔
"کیا ہوا جواب دو اب؟"
وہ جو دور ہٹنا چاہتی تھی باری نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
"مجھے تو اب یاد آیا ہے میری ایک عدد نئی نویلی بیوی ہے جسکا مجھے بہت زیادہ خیال رکھنا ہے۔"
باری اسکی کہی باتیں دھرا رہا تھا اور اسے اب اندازہ ہوا تھا کہ باری اسکی باتوں کا کیا مطلب نکال بیٹھا ہے۔
"اب مجھے خیال تو رکھنے دو!" خمار آلود آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی تو اسکے اس نے لڑکھڑاتی آواز میں کہا۔
"میرا کہنے کا... مطلب... یہ نہیں تھا۔"
شرم سے سرخ چہرہ لیے وہ اس سے مخاطب تھی جو کسی اور ہی دنیا میں کھو چکا تھا۔
"میرا تو یہی مطلب ہے... تم جو مرضی سمجھو..!"
باری نے اسکے فرار کے لیے کوئی راہ نہیں چھوڑی تھی۔
**************
حویلی نے ایک بڑے ہنگامے کے بعد خاموشی اختیار کر لی گہری خاموشی... بابا سائیں خاموش تھے انہوں نے اپنی مصروفیت اپنے کمرے تک محصور کر لی تھیں۔ بابا سائیں کے کمرے کا دروازہ گاؤں کے لوگوں اور عبدالصمد کے لئے کھولا جاتا تھا۔ فاطمہ کی واپسی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی جس کے ساتھ ہی حویلی میں لوگوں کی آمد اپنے ساتھ نئے سوالوں کا ایک ایسا سلسلہ اپنے ساتھ لائی تھی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ چند دنوں کی مشقت نے ان سب کو صدیوں کی تھکان دے دی تھی۔ ابھی بھی ڈرائنگ روم میں گھر کی سب خواتین محفل جمائیں بیٹھی تھیں۔
"اماں سائیں آپ کو نہیں لگتا یہ خاموشی نیا طوفان لے کر آئے گی؟"
حنایہ نے پر سوچ نظروں سے اماں سائیں کو دیکھا حویلی میں ایک اکلوتی وہی تھی جسے ابھی بھی امید تھی کہ بابا سائیں ضرور کوئی ہنگامہ بھرپہ کریں گے۔ ابھی چند دن پہلے کی ہی بات ہے جب بابا سائیں کی گولی سے باری بال بال بچا تھا۔ باری نے حنایہ کو بڑی مشکل سے سنبھالا تھا۔ اب بھی اس لمحے کو سوچ کر ہی اس پر خوف طاری ہو گیا تھا۔
"تمہارے بابا سائیں اب کچھ نہیں کریں گے۔ بے فکر رہو۔" اماں سائیں کے چہرے پر سکون تھا۔
"آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہیں؟" زینیہ نے حیرت سے اماں سائیں کو دیکھا۔ " بابا سائیں کا مزاج ایسا تو نہیں ہے کہ اتنی آسانی سے یہ سب..." اس نے زہرہ بی کی گھوری پر بات ادھوری چھوڑ دی۔
"کتنی دفعہ سمجھایا ہے اپنی عمر سے بڑی بڑی باتیں نہ کیا کرو۔ مگر نہیں...کیسے ہو سکتا ہے دونوں بہنیں ایک بات بھی سن کر عمل کر لیں۔" زہرہ بی کی بات پر ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں بہنیں سر جھکا کر ہنسنے لگیں۔
"لڑکیاں شادی کے بعد سدھر جاتی ہیں یہ مزید ڈھیٹ ہو گئیں ہیں۔" زہرہ بی نے اپنی ساری بھراس ان دونوں پر اتار دی۔
"جنگ میں ہار کے بعد انسان کے پاس دو راستے ہوتے ہیں یا وہ مر جاتا ہے یا وہ زندہ رہنے کے لئے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ تمہارے بابا سائیں نے انا کی اس جنگ میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہر رشتہ نفرت کی آگ میں ڈال کر وہ خود کیسے سکون کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ سکتے تھے؟ اپنی ہار تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اور ان کے سامنے تو انشراح اور فاطمہ سراپا ہار ہیں جن کی چلتی ہوئی ہر سانس کے ساتھ شکست کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے۔ ان کے لئے سب بھول کر بیٹی اور نواسی کو گلے لگالینا اتنا آسان نہیں! زینیہ ہم اتنے یقین سے اس لئے کہہ رہے ہیں کیوں کہ ہم اپنے شوہر کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اکثر شوہر بیوی کی محبت کے سامنے مجبور ہو جاتے ہیں۔ جہان محبت ہو وہاں انا زیادہ دیر نہیں ٹک سکتی...ہم تو ایک لمبے عرصے پر محیط جنگ جیتے ہیں" اماں سائیں کی بات پر وہ دونوں اٹھ کر ان کے پاس بیٹھ گئیں۔
"اللّه اللّه آپ نے بابا سائیں کو منا لیا ہمیں بتایا بھی نہیں؟" حنایہ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔
"یہ نا انصافی ہے..." زینیہ نے بھی اسکا ساتھ دیا۔
"اتنے دن..." اماں سائیں نے بات شروع کی ہی تھی کہ باری بھاگتا ہوا آیا۔
"ویٹ...."
باری نے ان دونوں کو اٹھنے کا اشارہ کیا اور اماں سائیں کے پاس بیٹھ گیا۔
"ہاں اب بتائیں اپنی محبت بھری داستان..."
"بس اسی بےشرم کی دیر تھی ایک باری اور دوسری انشراح! دونوں ازل کے بےشرم ہیں۔" فاطمہ جو کب سے خاموش بیٹھیں ان سب کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہیں تھیں بول اٹھیں۔ " میں نے اندازہ لگایا ہے باری! تمہارا دل خواتین کی باتوں میں بڑا خوش رہتا ہے۔"
وہ جو اماں سائیں کی بات سن کر انہیں تنگ کرنے آیا تھا یہاں فاطمہ نے اس کی بازی ہی پلٹ کر رکھ دی۔
"پھوپھو..." باری نے احتجاج کیا۔" ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں ویسے بھی میں اجازت لینے ہی آیا تھا۔"
"کس بات کی اجازت؟" اماں سائیں نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا۔
حنایہ نے ٹھٹک کر باری اور اماں سائیں کو دیکھا وہ جانتی تھی باری کس بات کی اجازت لینے آیا تھا۔ وہ خاموشی سے منظر سے غائب ہو گئی۔ باری نے گردن کو خم دے کر جاتی ہوئی حنایہ کو دیکھا۔
"چھٹیاں ختم ہو گئیں ہیں۔" باری نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔" آپ جانتی ہیں میری جاب کا مسلہ ہے۔"
"عبدالباری..." اماں سائیں نے شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔
"اماں سائیں پلیز چند ماہ کی ہی تو بات ہے۔"
"باری ہم نے پہلے ہی تم پر یہ بات واضع کر دی تھی کہ شادی کے بعد تم واپس شہر نہیں جاؤ گے۔" اماں سائیں نے دو ٹوک بات کی۔
"اب آپ چاہتی ہیں ایک ڈاکٹر گاؤں میں رہ کر زمینوں کو سنبھالے؟" باری نے ٹھنڈی سانس خارج کی۔
"جاؤ اپنی بیوی سے جا کر اجازت لو اب تو ویسے بھی حنایہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ اور تم اسکی!" اماں سائیں نے اپنا چہرے کا رخ موڑ لیا۔ باری انکے گال پر پیار کرتا ہوا اٹھا۔
"میری پیاری سی اماں جان اس بار میں جلدی آجاؤ گا۔"
باری جانتا تھا اماں سائیں کی ناراضگی چند لمحوں کی ہوتی تھی۔ مگر اسکی کملی...کی ناراضگی سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ وہ کملی کو کیسے بھول گیا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ وہ کچھ بھی بول سکتی تھی ، کر سکتی تھی اور باری خود کو ہر حالات کے لئے تیار کر رہا تھا۔ وہ اسے شک کی نگاہ سے دیکھ چکی تھی نا جانے کیوں اسکے دل میں کہیں نا کہیں یہ بات ضرور تھی کہ وہ اسکے بارے میں غلط بھی سوچ سکتی تھی۔ کملی سے کسی قسم کا گمان لگایا جا سکتا تھا۔ حنایہ سنگھار میز کے سامنے کھڑی بال سلجھا رہی تھی۔
"کملی..." باری نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
"جی!" ایک لفظی جواب پا کر باری نے دل ہی دل میں مناسب الفاظ ڈھونڈنے لگا۔
"میں تم سے شہر جانے کی اجازت لینے آیا ہوں۔"
حنایہ نے برش میز پر رکھا اور ایک نظر اسے دیکھا پھر لاپرواہ انداز میں کہا۔
"اگر میں نہ کر دوں گی تو کیا آپ نہیں جائیں گے؟" کملی نے پھر اسے دیکھا اور سائیڈ سے نکل گئی۔ "آپ کو بھلا میری اجازت کی کیا ضرورت؟ مرد کبھی اجازت لیتا ہے کیا... وہ تو حکم صادر کرتا ہے اور سامنے والا سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔"
وہ طنز نہیں کر رہی تھی باری جانتا تھا اسکا لہجہ نارمل تھا۔ مگر اسکے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ اپنے بالوں میں کیچر لگاتی ہوئی اسکے مقابل آ ٹھہری۔
"آپ بتائیں میں اگر کہوں کہ آپ نا جائیں تو کیا آپ نہیں جائیں گے؟"
باری اسکی آنکھوں میں دیکھتا رہ گیا کتنے مان سے وہ پوچھ رہی تھی اسکی آنکھوں میں امید اور یقین دونوں رنگ واضع تھے امید کہ باری ہاں میں جواب دے گا اور یقین کہ وہ انکار کر دے گا۔ چند لمحے خاموشی سے گزر گئے۔ وہ اس کی خاموشی کو الگ رنگ دیتی ہوئی وہاں سے جانے لگی تھی مگر باری نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔ اس نے حیرت سے باری کی طرف دیکھا۔ باری کے چہرے پر مسکراہٹ تھی وہ کیسے اسکی امید کے جگنوں بجھا دیتا۔ زندگی میں کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے جہاں امید یقین پر بازی لے جاتی ہے۔
"تم روک کر تو دیکھو تمہارے لئے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔"
اسکی آنکھوں میں خوشی تھی اور چہرے پر بے یقینی!
"واقعی؟"
"واقعی!" باری کے چہرے کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی تھی۔ کملی کی خوشی کے لئے وہ واقعی کچھ بھی کر سکتا تھا۔
"مگر میں آپ کو نہیں روک رہی جائے آپ اپنا کام کریں۔ میں نے آپکی پیکنگ کر دی ہے۔"
"کیا؟" باری نے حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ کتنی دیر اسکے چہرے پر ناراضگی ڈھونڈتا رہا مگر ناکام رہا۔ "یہ واقعی تم ہو یا میں خواب دیکھ رہا ہوں؟"
"کوئی حال نہیں ہے آپکا..." حنایہ سائیڈ سے نکل کر جانا چاہا مگر باری نے اسکا راستہ روک دیا۔
"پہلے مجھے یہ بتاؤ تم اتنی جلدی کیسے مان گئی؟ کملی کا اچانک سے مان جانا اور صحرا میں بادل گرجنا..." باری نے اسکے شانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔" نا ممکن ہے!"
"آپ میرا مزاق اڑا رہے ہیں باری..." حنایہ نے با مشکل اپنے غصے کو قابو میں کیا۔
"اچھا بتاؤ اب کچھ نہیں کہوں گا۔"
"ہنسیں گے تو نہیں..." حنایہ نے مشقوق نظروں سے اسے دیکھا تو باری نے جلدی جلدی نفی میں سر ہلایا۔
"وہ..."
حنایہ نے ایک بار چور نظروں سے باری کو دیکھا اسکے چہرے کے تاثرات نارمل دیکھ کر اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
"مجھے آپ پر بھروسہ ہے۔ میں جانتی ہوں آپ کے دل میں کہیں نا کہیں یہ بات ضرور ہے کہ میں نے آپ پر شک کیا آپکو غلط سمجھا۔ مگر میری غلطی نہیں تھی مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ آپ بھی مجھ سے... محبت کرتے ہیں۔ جب محبت پاکیزہ ہو تو بیوفائی جیسے لفظ کی گنجائش نہیں رہتی۔ مجھے آپکی محبت پر کامل یقین ہے اور آپ میرا یقین کبھی نہیں توڑیں گے۔"
"بلکل نہیں توڑوں گا کبھی کوئی اپنی جان پر ظلم کر سکتا ہے کیا؟"
باری نے جھک کر اسکی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھ دے۔
"کملی اپنا بہت زیادہ خیال رکھنا۔"
حنایہ نے اسکے حصار سے نکلتے ہوۓ کہا۔
"آپ مجھے کملی نہ کہا کریں..."
حنایہ نے سینے پر دونوں ہاتھ باندھے اور باری کو گھورا تو جواباً باری نے بھی اسکی کی طرح سینے پر ہاتھ باندھ کر پوچھا۔
"وہ کیوں؟"
"بس اب نہ کہا کریں۔ عجیب لگتا ہے"
"تم مجھ سے میرا یہ حق نہیں چھین سکتی۔"
"اچھا کب تک کہیں گے کبھی نہ کبھی تو حنایہ کہنا ہی پڑے گا آپ کو معلوم ہے کتنا اچھا لگتا ہے مجھے اپنا نام..."
"جب تم دادی بن جاؤ گی نہ میں تمھیں تب بھی کملی ہی کہوں گا۔"
"باری.... بہت بےشرم ہو گئے ہیں آپ!"
کملی نے ٹیبل سے پانی کا جگ اٹھا کر اسکی طرف بڑھی مگر وہ ایک ہی جست میں دور ہٹا۔ اور اگلے ہی لمحے وہ کمرے سے باہر تھا۔ حنایہ بھی اپنا دوپٹہ سنبھالتی باہر نکلی۔ حنایہ خاموشی سے اسکے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئی۔
"باری..."
"جی باری کی جان..."
حنایہ نے محبت پاش لہجے میں پکارا تو جیسے ہی اس نے رخ اسکی طرف کیا حنایہ نے جگ کا سارا پانی اس پر پھینک دیا۔ وہ حیرانی سے کبھی حنایہ کو تو کبھی اپنی گیلی قمیض کو دیکھتا رہا۔
"کملی..."
باری نے دانت پیس کر کہا مگر وہ مسلسل ہنسنے میں مصروف تھی۔ اسکی ہنسی کو تب بریک لگی جب زہرہ بی کی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی۔ باری کے بھی اسکی طرف بڑھتے قدم وہی رک گئے۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے چہرے اور بالوں سے پانی کی بوندیں صاف کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
"حنایہ شرم آنی چاہیے تمھیں وہ تمہارا شوہر ہے۔" زہرہ بی کی بات پر اس نے سر جھکا کر مسکرانے لگی۔ " ازل کی ڈھیٹ لڑکی ہے پتا نہیں کب عقل آئے۔ میں تو سمجھا سمجھا کر تھک گئی مگر مجال ہے جو ذرا بھی اثر لے لے۔"
وہ ہمیشہ کی طرح سر جھکائے انکی باتیں ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے نکالتی گئی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کبھی نہیں بدلنے والی کیوں کہ باری اسے بدلنے دیں گے ہی نہیں... وہ کیسے اپنی کملی کو بدلنے دے سکتے ہیں؟
ختم شد