حنایہ کی آنکھ کھلی تو زینیہ اسکے بیڈ کے ساتھ کرسی رکھے بیٹھی تھی۔ اس نے چند سیکنڈ اطراف میں نظریں دوڑائیں وہ اپنے ہی کمرے میں تھی۔ آہستہ آہستہ اسکا ذہن بیدار ہوا تو اسکی نظروں کے سامنے رات کے مناظر فلم کی طرح چلنے لگے۔ وہ بیڈ سے اٹھی اور فریش ہونے باتھ میں چلی گئی۔
وہ فریش ہو کر آئی تو زینیہ کو اپنا منتظر پایا۔ وہ خاموشی سے چلتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل تک آئی اور اپنے گیلے بالوں میں برش کرنے لگی۔
"حنایہ..."
زینیہ نے دھیرے سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے پکارا مگر اس نے جواب نہیں دیا۔
"کیا میں تم سے کچھ پوچھنے کا حق رکھتی ہوں؟"
"آپ حق تو رکھتی ہیں آپی! مگر اس وقت میرے پاس آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں ہے۔"
"میں تم سے کوئی وضاحت نہیں مانگ رہی بس یہ پوچھنا چاہتی ہوں کیا تم بھائی کے بغیر رہ لو گی؟"
اس نے چونک کر زینیہ کی طرف دیکھا وہ خود سے بھی اظہار کرنے سے ڈرتی تھی لیکن اسکی بہن تو کب سے اس راز سے واقف ہو چکی تھی۔
"تم تو خود بھی نہیں جانتی کب تمہاری آنکھوں میں عبدالباری کے نام کی قندیلیں روشن ہو گئیں تھیں۔ میں تمہاری بہن ہوں اور میں اچھی طرح جانتی ہوں میری کملی کے دل و دماغ میں کیا ہے۔ میں نہیں جانتی تم نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ مگر میں یہ جانتی ہوں اس کا انجام بہت برا ہو گا۔"
زینیہ نے اسے آنے والے وقت سے آگاہ کیا تھا ویسے تو عبدالصمد نے اسے پورا یقین دلایا تھا کہ بابا سائیں تک بات پہنچنے سے پہلے ہی وہ مسئلےکا حل نکال لے گا۔ مگر اسکا دل اسے کسی کروٹ سکون نہیں لینے دے رہا تھا۔ اسکی چھٹی حس اسے کسی انہونی کا اشارہ دے رہی تھی۔
"میں ہر انجام کے لئے تیار ہوں میرے لئے باری کی خوشی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں!"
حنایہ اپنی بات کہنے کے بعد وہاں سے چلی گئی صبح کے وقت پوری حویلی میں سکوت چھایا ہوا تھا۔ اس کا رخ پائیں باغ کی طرف تھا۔ ہری بھری گھاس جس پر شبنم کی نمی موتیوں کی طرح چمک رہی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہوئی باغ کے وسعت میں آگئی۔ وہ نیلے آسمان کو دیکھ رہی تھی شاید آخری بار! وہ جانتی تھی بابا سائیں اصولوں کے پکے تھے۔ کچھ دیر میں بابا سائیں کو ساری صورت حال سے آگاہ کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ جو بھی ہو مگر وہ باری کے ساتھ کچھ نہیں ہونے دے گی۔ "میں باری سے محبت کرتی ہوں مگر وہ تو نہیں کرتے نا!" حنایہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب تھی۔
"باری!" ہونٹ پھڑپھڑائے! اسکا نام پکارا گیا۔ "باری! میری آنکھیں ترس گئیں ہیں اور اب یہ آنکھیں جنہوں نے آپکے سوا کبھی کسی کو نہیں دیکھا تھااب شاید..."
اسکی زندگی ایک شاید پر آ کر رک گئی تھی۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی کہ کسی نے اسکا بازو زور سے پکڑ کر کھینچا۔ وہ گرتے گرتے بچی تھی۔ اس نے اپنی کلائی کی طرف دیکھا جو کسی کے ہاتھ میں تھی پھر اس نے نظریں اٹھائیں سامنے عبدالباری کھڑا اسے قہرآلود نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"حنایہ کبیر ہمدانی!"
اس نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کیا۔ حنایہ ہونقوں کی طرح اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی آج پہلی بار اس نے حنایہ کا نام پکارا تھا۔(اچھا تو اب یہ مجھے کملی بھی نہیں پکار سکتے؟ ہونہہ! اس نے جل کر سوچا۔)
"تم چاہتی کیا ہو؟"
"عبدالباری صغیر ہمدانی!" حنایہ نے ایک جھٹکے سے اپنی کلائی اسکی گرفت سے آزاد کروائی۔ "میرا ہاتھ چھوڑیں..." آواز آہستہ تھی مگر اسکا لہجہ سرد تھا۔ اس دفعہ حیران ہونے کی باری سامنے والے کی تھی۔ "میں آپ سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتی!"
"کیوں؟"
باری کے سوال نے اسے لاجواب کر دیا تھا۔ ساری سرد مہری ہوا ہو گئی تھی۔ اسکی آنکھوں میں پھر ساون آ ٹھہرا تھا۔ اس نے اپنا سر جھکا لیا۔
"کملی..." باری نے اپنائیت سے اسے پکارا۔
"میں آپکی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتی۔" وہ رندھی ہوئی آواز میں گویا ہوئی۔" میں آپ کو قید نہیں کرنا چاہتی زبردستی آپ کو ایک رشتے میں باندھ کر..."
باری نے اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کاٹ دی۔
"اور اگر میں خود قید ہونا چاہوں تو؟"
"میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتی میں آپکے لائق نہیں ہوں زندگی میں کسی موڑ پر آپکو اس بات کا اندازہ ضرور ہو گا۔ آپکے ساتھ تو کوئی انشراح جیسی پڑھی لکھی لڑکی ہونی چاہیے۔"
"پھوپھو کی بیٹی ہے وہ..." باری کو اسکی بات سن کر صدمہ ہوا تھا۔" وہ میری بہنوں جیسی ہے۔"
"میں بھی تو چاچو کی بیٹی ہوں آپکی بہن جیسی..."
"تم..." اب میں اس عقل سے معذور لڑکی کو کیسے سمجھاؤں کہ وہ میرے لئے کیا اہمیت رکھتی ہے۔ باری نے اپنی گردن سہلاتے ہوے سوچا۔
"تم ٹھیک دو دن بعد مجھے عروسی لباس میں ملو ورنہ..."
باری نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
"ورنہ کیا کریں گے آپ؟" حنایہ نے جھٹ سے اپنا جھکا سر اٹھایا وہ جو وہاں سے جانے لگا تھا وہی رک گیا۔
"ورنہ مجھے ڈاکٹر سے ڈاکو بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔"
اس نے آخر نظر اس پر ڈالی اور زیر لب مسکراتا ہوا وہاں سے واک اوٹ کر گیا۔ حنایہ حواس باختہ کھڑی رہ گئی۔
*************
آج عبدالباری کی زندگی کا اہم دن تھا یہ دن اسکے لئے ان گنت خوشیاں لے کر آیا تھا آج اسکی محبت اسکی کملی! ہمیشہ کے لئے اسکی ہو جانے والی تھی۔ اسے اس بات کی امید نہیں تھی کہ وہ اسکے اور انشراح کے بارے میں غلط بھی سوچ سکتی ہے۔
"میں اور انشراح؟" اس سوال کا جواب اس کا ذہن نفی میں دے رہا تھا۔
"حنایہ تمہیں میں یوں ہی تو کملی نہیں کہتا..."
وہ قد آور آئینے کے سامنے کھڑا یہی سوچ رہا تھا۔ اس نے سیاہ شیروانی زیب تن کر رکھی تھی جو کہ چاندی کی تار اور موتیوں سے کڑھی ہوئی تھی۔ جو اس پر خوب جچ رہی تھی۔ وہ اپنی تیاری مکمل کر چکا تھا اس نے آخری نظر اپنے کمرے پر ڈالی سجا سجایا کمرہ حنایہ کا منتظر تھا۔ اپنے بالوں کو آخری بار سیٹ کیا پھر وہ تیزی سے کمرے سے باہر چلا گیا۔ سیڑھیاں اترتے ہوۓ اس نے عبدالصمد کے ساتھ کھڑے شعیب کو دیکھا۔ تمھیں کس نے بلایا؟آخری سیڑھی پر رک کر اس نے پوچھا۔
"میں نے" جواب عبدالصمد کی طرف سے آیا تھا۔
"ایک میں ہی تو اکلوتا انسان ہو جو تمھیں منہ لگاتا ہے۔" شعیب نے اسے گلے سے لگالیا۔"آج تو میرے یار کی شادی ہے! کیسے نہ آتا؟"
"ہائے میری پھوٹی قسمت!" باری کہتا ہوا سیڑھیاں اتر کر بھائی کی طرف بڑھ گیا جبکہ شعیب وہی کھڑا اسکا منہ دیکھتا رہ گیا۔
"آج تو میرا شہزادہ بہت ہی اچھا لگ رہا ہے۔"
وہ تینوں چلتے ہوۓ بڑے سے لان میں آئے جہاں بہت سے لوگ انکے منتظر تھے۔ مردوں کے لئے سارا انتظام حویلی کے عقب میں موجود لان میں کیا گیا تھا۔ جب کہ خواتین کے لئے پائیں باغ مختص کیا گیا تھا۔ ڈیڈ کا اشارہ پا کر وہ کزنز اور دوستوں کا جھرمٹ چھوڑ کر ان تک آیا۔
"عبدالصمد نے بتایا ہے وہ دونوں حویلی میں آ چکی ہیں۔"
"ڈیڈ آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے نا؟"
باری نے پر امید لہجے میں پوچھا تو وہ مسکرا دیے۔
"میں تم سے کبھی ناراض ہی نہیں تھا تمہارا غصہ جائز تھا فاطمہ نے تمھیں ماں بن کر آٹھ سال پالا۔ اسکے بارے میں سچ دریافت کرنا پھر میرے ساتھ بے رخی برتنا تمہارا حق تھا مگر بیٹا میں چاہ کر بھی تمھیں حقیقت نہیں بتا سکتا تھا۔ اب جاؤ سب تمہارا اماں سائیں کے کمرے میں انتظار کر رہے ہیں۔"
باری نے اثبات سر ہلایا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا حویلی میں داخل ہوا اماں سائیں کے کمرے کےدروازے پر دستک دی۔ دروازہ زہرہ بی نے کھولا۔ کمرے میں قدم رکھتے ہی اس کی نظر اماں سائیں پر پڑی جو بیڈ پر بیٹھی تھیں فاطمہ پھوپھو اور انشراح ان کے دائیں بائیں بیٹھی تھیں۔ اماں سائیں اور پھوپھو زور و شور سے رونے میں مصروف تھیں۔ باری نے حویلی میں سب کو حقیقت سے آگاہ کر دیا تھا سوائے بابا سائیں کے، انہیں شادی کے بعد ہی بتانے کا ارادہ تھا مہمانوں کے سامنے کسی بھی قسم کے ہنگامے سے بچنے کے لئے بابا سائیں سے کچھ دیر کے لئے اس حقیقت کو چھپا لیا گیا تھا۔
"اگر آپ کا رونا دھونا ہو چکا ہے تو یہاں بھی نظر کرم کر دیں۔"
"بھائی!" انشراح اسے دیکھتے ہی چلائی۔" آپ تو آج میرے ہی بھائی لگ رہے ہیں۔" میرا مطلب ہے میری طرح خوبصورت..."
"میرا بیٹا آج شہزادہ لگ رہا ہے۔" فاطمہ نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا۔
"تو آگے پیچھے میں فقیر لگتا ہوں؟" باری نے چونک کر پوچھا۔
"ارے تم تو روز ہی شہزادے لگتے ہو اب اپنی تعریف سننے کا ارادہ ہے تو یہ الگ بات ہے۔" زہرہ بی نے مسکرا کر کہا۔
"اچھا اب مجھے بتائیں بابا سائیں کا کیا کرنا ہے؟" باری نے گھڑی کو دیکھتے ہوۓ پوچھا وہ زیادہ دیر منظر سے غائب نہیں رہ سکتا تھا۔
"کرنا کچھ بھی نہیں ہے۔" اماں سائیں زہرہ بی کا ہاتھ تھامے اس تک آئیں۔"وہ فاطمہ کو مار دیں گے اور میں اپنی بیٹی ایک بار پھر نہیں کھو سکتی۔"
"مگر ہم زیادہ دن تک اس بات کو بچھپا نہیں سکتے۔" باری نے کہا۔
"میں زیادہ وقت لوں گی بھی نہیں بس آج کی رات! کل صبح میں خود بابا سائیں کا سامنا کروں گی۔ بابا سائیں کے سامنے اس بار میں اکیلی نہیں سب گھر والے میرے ساتھ ہیں۔" فاطمہ نے مسکرا کر کہا۔
"چلو پھر میں جاؤں؟" باری نے دوبارہ گھڑی کی طرف دیکھا تو سب مسکرانے لگے۔
"اتنی بھی کیا جلدی ہے حنایہ بھابھی کہیں بھاگی تو نہیں جا رہیں۔" انشراح نے اسے چڑانے کے لئے کہا۔
"حنایہ نہیں ، بابا سائیں کو شک ہو جائے گا کہ یہ لڑکا نکاح کے عین موقع پر غائب ہو گیا ہے۔ اور ایک بات بتاؤ یہ حنایہ بھابھی کب سے ہو گئی؟"
"جب سے میں نے انہیں عروسی لباس میں دیکھا ہے۔ اب بھائی میں آپ کو کیا بتاؤں بھابھی کیا غضب کی لگ رہی ہیں ایک بار آپ دیکھیں گے تو ہوش اڑ جائیں گے۔"
"شرم تو نہیں آتی تمھیں؟ سب کیا سوچیں گے کہ ماں سے یہ سب سیکھا ہے تم نے؟ " بیٹی کی بےشرمی پر فاطمہ نے اسے ڈانٹ پلائی۔
"ایک ہی تو بھائی ہے! عبدالصمد بھائی کی شادی پر تو میں یہاں نہیں تھی۔" انشراح نے منہ بنا لیا۔
"پھوپھو کرنے دیں اسے مذاق پر یاد رکھنا ہماری بھی ایک ہی بہن ہے۔" وہ کہتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔ موبائل وائبریٹ ہوا تو اس نے بھائی کا نام دیکھ کر کال اٹھائی۔
"جی بھائی... آرہا ہوں۔"
باری تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا وہاں پہنچا تو توقع کے عین مطابق بابا سائیں ، ڈیڈ اور بھائی مولوی صاحب کے ساتھ بیٹھے اسکے منتظر تھے۔ اسے بھائی نے بتایا تھا کہ حنایہ کی طرف سے نکاح نامے پر دستخط ہو گئے تھے۔ نکاح مکمل ہونے کے بعد وہ سب مہمانوں سے ملنے میں مصروف ہو گئے تھے۔ پر تکلف کھانے کے بعد سب ینگ پارٹی اپنی محفل جما کر بیٹھ گئی تھی۔ حویلی کی شادیاں یوں ہی سادگی سے کی جاتی تھیں۔ چند رسمیں ، نکاح اور بس! شور شرابہ ، سنگیت کی محفلیں ، فوٹو یا شادی کی فلم نہیں بنائی جاتی تھی۔ بابا سائیں کے بھائی کی حویلی اور گاؤں کے لوگ ہی تقریب میں مدعو تھے۔
*******************
عبدالباری کھنکارتا ہوا کمرے میں داخل ہو۔ حنایہ کے دل کی دھڑکن بے قابو ہو رہی تھی۔ وہ اسکے قریب بیٹھ گیا۔ وہ سرخ آنچل کا گھونگھٹ گرائے بیٹھی تھی اسکا روشن چہرہ عجیب سی روشنی میں گھرا ہوا تھا دراز پلکیں جھکی ہوئی تھی۔ وہ کتنے ہی لمحے خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر اسکا گھونگٹ دھیرے دھیرے اٹھایا۔ حنایہ سرخ عروسی لباس ، قیمتی زیورات میں مزین اس وقت اس کا روپ باری کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی تھا۔ آج سے پہلے اس نے کبھی نظر بھر کر اسے نہیں دیکھا تھا۔
"تم بہت اچھی لگ رہی ہومگر تعریف تو اس وقت کی جاتی اگر جو تم نے شادی سے انکار نہ کیا ہوتا۔"
باری نے لہجے میں دنیا جہاں کی اداسی سموئے حنایہ کی طرف دیکھا۔ پھر بیڈ سے اٹھا۔ وہ جو نروس بیٹھی تھی اس نے ایک دم نظر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا۔ اسکی آنکھوں میں خوف تھا اس نے چند سیکنڈ باری کو دیکھا پھر نظریں جھکا لیں۔ باری دل ہی دل میں اسکی حالت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ آج وہ اگلے پچھلے سب حساب برابر کرنے کے موڈ میں تھا۔
"چلو اٹھو ! جلدی..." باری نے سخت اور با رعب لہجے میں کہا۔
"جی؟"
وہ حیرت سے اسے تکنے لگی۔ باری نے اپنی بات دہرائی تو وہ اپنا لہنگا سنبھالتی ہوئی اٹھ گئی۔
"ساری رات کیا ایسے ہی بیٹھی رہو گی؟ کپڑے بدلو جا کر!"
اس نے ایک بار دوبارہ اسے دیکھا پھر سنگار میز کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ دوپٹہ اتارے کیسے؟ اسے ایسے لگ رہا تھا کہ زینیہ نے دنیا جہاں کی پنیں اسی کو لگا دی تھیں۔ اس نے بامشکل ایک دو پن ہی کھولیں تھیں کہ تیسری پن اسکے ہاتھ میں چب گئی۔
" سس..."
"کبھی کوئی کام ٹھیک سے کیا بھی ہے کہ نہیں؟"
حنایہ نے آئینے میں نظر آتے باری کے عکس کو دیکھا۔ اب اسکا ضبط جواب دے چکا تھا۔ اس نے رخ باری کی طرف کیا۔
"میں جانتی تھی آپ مجھے پسند نہیں کرتے اسی لئے تو کہا تھا نہ کریں شادی..." حنایہ نے بھرائی آواز میں کہا تو باری بھی چونک پڑا۔ اس نے حنایہ کا جھکا سر اوپر کیا تو واقعی وہ رو رہی تھی۔
"ہاں واقعی میں تمھیں پسند نہیں کرتا۔"
باری نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔
"میں تم سے محبت کرتا ہوں بے انتہا محبت..."
حنایہ نے اپنی گھنی پلکیں جھکا لی۔
" آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔"
"کملی..." باری نے دھیرے سے اسکا نام پکارا۔ "محبت اظہار کی محتاج نہیں ہوتی یہ ایک جذبہ ہے احساس ہے جسے محسوس کیا جاتا ہے۔ میرے گریز اور محتاط انداز نے تمھیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ مجھے تم میں انٹرسٹ نہیں ہے۔ اور انشراح کے ذکر پر میرے اور اسکے بارے میں غلط سوچا؟" اس نے شرم سے سر جھکا لیا۔ باری نے اسکے چہرے کو ہاتھوں سے تھام کر اوپر اٹھایا۔ مگر اسکی نظریں ابھی بھی جھکی ہوئی تھیں۔" میری محبت کا جذبہ اتنا بے مول نہیں تھا کہ کسی نا محرم پر لٹا دیتا! تم میری محبت ہو...مگر میں نہیں چاہتا تھا کہ اس پاکیزہ جذبے میں کوئی بھی کھوٹ داخل ہو۔ میں نے اپنی محبت کا اظہار سنبھال کر رکھا تھا ایک خاص وقت کے لئے..." باری نے جھک کر اسکے گلنار ہوتے گال کو ہونٹوں سے چھوا۔ " ایک خاص لڑکی کے لئے جو میری زندگی ہے! " حنایہ شرم و حیا سے سمٹ گئی۔
"سچی محبت مل کر رہتی ہے کملی دی نکمی...!" باری نے اس کو چھیڑا۔ " رونمائی کا تحفہ چاہئے کہ..."
"تحفہ؟" حنایہ نے مسکرا کر پوچھا۔
ہاں مگر بدلے میں مجھے بھی تحفہ چاہیے۔"
باری نے اسے بیڈ پر بٹھا دیا اور خود زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
"یہ آپ نیچے کیوں بیٹھ گئے ہیں؟" حنایہ نے گھبرا کر پوچھا۔ باری نے سائیڈ ٹیبل کی دراز سے چھوٹی سی مخملی ڈیبی نکالی۔ جس میں سے خوبصورت انگوٹھی اس نے حنایہ کے ہاتھ میں پہنا دی۔
"آج سے میری ہر سانس تمہارے نام..."
کملی بنا پلک جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی۔
"میرے پاس آپ کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے" کملی نے اپنا سر جھکا لیا وہ چند لمحے خاموش رہی۔ اور جب بولی تو عبدلباری روح تک کھل اٹھا
"آج سے میری ہر دھڑکن آپکے نام..."
حنایہ نے شرما کر اپنے ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ چھپا لیا۔ باری اسکے خوبصورت الفاظ پر اسے دیکھتا رہ گیا اسکے لیے اس سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں ہو سکتا تھا
**************