سرمئی اندھیرے چار سو پھیل رہے تھے مگر وہ سڑکوں پر بے مقصد بائیک ڈورا رہا تھا۔ اس انکشاف نے اسکے وجود کو تپتے ہوۓ صحرا میں لا پھینکا تھا۔ اسکے دل و دماغ میں ایک جنگ جاری تھی۔ دونوں میں سے کوئی بھی اسکے حق میں فیصلہ نہیں سنا رہا تھا۔ مگر دونوں اس بات پر متفق تھے کہ غلطی باری کی تھی جس نے نہ اپنے باپ پر یقین کیا اور نہ ہی اپنی پھوپھو پر! وہ کل بھی غلط تھا اور سچ جاننے کے بعد آج بھی غلطی پر ہی تھا۔ عشاء کی آذان فضا میں گونجی تو اس نے بھی ہوسٹل کا رخ کیا۔
"تمھیں یقین ہے کہ تمہارا باپ اپنی سگی بہن کو قتل کر سکتا ہے؟"
کمرے کا لاک کھولتے ہی اسکے کانوں میں باپ کی آواز گونجی۔ کمرے کی ویرانی اسکی حالت کی عکاسی کر رہی تھی وہ سیدھا اپنے بیڈ کی طرف آیا۔ وہ بیڈ پر چت لیٹا اندھیرے میں گھور رہا تھا۔ پھر اس نے اپنی جینز کی جیب سے موبائل نکالا۔ تیسری بیل پر کال اٹھا لی گئی تھی۔
"مجھے سچ سننا ہے!"
عبدالباری نے مقابل کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔"صرف سچ!" وہ آج سچ کی عدالت لگانا چاہتا تھا اور مقابل کھڑا شخص کوئی اور نہیں اس کا اپنا باپ تھا۔
"میں نے کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں۔ پوچھو..."
"کیا آپ نے پھوپھو کا قتل کیا تھا؟" کوئی تہمید باندھے بنا اس نے سوال پوچھا۔
"نہیں!" ایک لفظی جواب آیا۔
"کیا آپ نے ان پر گولی چلائی تھی؟"
"ہاں!"
"کیا وہ مر گئیں تھیں؟"
اس سوال کے بعد دونوں طرف خاموشی تھی۔ چند لمحے یوں ہی گزر گئے تو اس نے سوال دوہرایا۔
"نہیں... نہیں!" شکست خوردہ لہجے میں کہا گیا۔ " میں نے اپنی بہن کو نہیں مارا! " پھر عبدالباری نے رابطہ منتقع کر دیا۔
"آپ صحیح کہتے تھے ڈیڈ!"
اس نے آنکھیں موند لیں چند موتی اسکی آنکھوں سے نکلے اور اسکے اندر جلتی ہوئی آگ ٹھنڈی ہونے لگی۔ کتنے ہی لمحے یوں ہی گزر گئے وہ اپنی بے مقصد زندگی کا تجزیہ کرتا رہا۔ بند آنکھوں کے پردے پر زندگی کسی فلم کی طرح نظر آرہی تھی۔ اور اسکا دل ہر حقیقت کو تسلیم کر رہا تھا۔ دماغ مان گیا تھا کہ سب اپنی جگہ درست تھے۔
"پھوپھو کو محبت چاہئے تھی!"
"اماں سائیں بیٹی کی محبت کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی تھیں!"
"بابا سائیں کو عزت پیاری تھی!"
"ڈیڈ ایک فرمابردار بیٹے تھے نہ وہ باپ کا حکم ٹال سکے نا ہی ننھی انشراح کے سر سے ماں باپ کا سایہ چھین سکے۔"
**************
حنایہ ڈرائنگ روم میں بیٹھی کشن کے کوور تبدیل کر رہی تھی کہ اسکا فون بجنے لگا باری کا نام سکرین پر دیکھتے ہی اس نے کال اٹھائی۔
"اسلام و علیکم!"
کشن سائیڈ پر رکھ کر وہ صوفے پر لیٹ کر باری سے بات کرنے لگی۔
"اللّه کا شکر ہے آپ کو یاد تو آیا کہ کسی کو کال بھی کرنی ہے۔ آپ بات کرنا بھول جاتے ہیں میں اسی لئے اس دن بول رہی تھی مجھے کال کرنا سکھا دیں تا کہ میں وقت پر آپکا حال پوچھ لیا کروں میں اتنی پریشان ہو گئی تھی۔"
"اگر شکوے شکایات ختم ہو گئی ہوں تو میری بات بھی سن لو؟"
باری کی سنجیدہ آواز آئی تو حنایہ بھی سنبھل گئی وہ فون پر بات کرتا تھا مگر حنایا کو باری اپنے قریب محسوس ہوتا تھا۔ وہ اسکے ہر موڈ سے واقف تھی اسکے الفاظ کا چناو اور ٹھہراو حنایہ خوب جانتی تھی۔ وہ جانتی تھی باری سیریس باتیں تب ہی کرتا تھا جب وہ پریشان ہو۔
"جی میں سن رہی ہوں۔"
باری اسے جو کچھ بھی بتا رہا تھا حنایہ کے لئے ان باتوں پر یقین کرنا مشکل تھا۔ مگر حنایہ نے ہمیشہ باری پر یقین کیا تھا اگر باری دن کو رات کہہ دیتا تو وہ یقین کر لیتی کہ ہاں واقعی یہ رات ہی ہے یہ تو پھر بھی چھوٹی سی بات تھی۔
"آپ کو یقین ہے جو آپ بول رہے ہیں وہ سچ ہے؟ کیوں کہ آپ نے ہی بتایا تھا کہ پھوپھو مر چکی ہیں سب جانتے ہیں کہ وہ اب نہیں ہیں۔"
حنایہ نے غیر محسوس طریقے سے آہستہ آواز میں پوچھا وہ جانتی تھی وہ کیا پوچھ رہی تھی۔
"کیا وہ آپکے سامنے ہیں؟ اچھا ٹھیک ہے۔"
باری سے بات کرنے کے بعد وہ موبائل کو گھورنے لگی۔
"اگر بابا سائیں کو پتا چل گیا تو؟ پھوپھو زندہ ہیں اور انکی بیٹی بھی ہے!"
زینیہ اسے کام پر لگا کر خود کچن میں چلی گئی تھی۔ جب وہ واپس آئی تو دو کشن تبدیل کرنے کے بعد صوفے پر لیٹی تھی اور ہاتھ میں موبائل تھا۔ زینیہ نے ایک لمبا سانس خارج کیا پھر فرش پر گرا کشن اٹھا کر کوور تبدیل کیا۔
"کملی تمھیں ایک کام کہا تھا تم سے وہ بھی نہیں ہوا؟"
"آپی باری کی کال آگئی تھی بس اسی لئے..."
حنایہ نے اٹھتے ہوۓ کہا۔ زینیہ اسکے پاس بیٹھ گئی۔
"حنایہ تمھیں معلوم ہے نا حویلی میں تمہاری شادی کی بات چل رہی ہے۔ بابا سائیں چاہتے ہیں کہ اس بار بھائی آئیں تو تیاریاں مکمل ہوں۔ شادی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر تم گھر کے کاموں میں دلچسپی نہیں لو گی تو سب کیا سوچیں گے؟ تمھیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے۔"
آپی ایسی بات نہیں ہے۔ میں کوشش کر رہی ہوں۔"
"اور بھائی سے زیادہ بات نہ کیا کرو اچھا نہیں لگتا اب تم بچی تو نہیں ہو جو تمھیں ہر بات سمجھانی پڑے۔ میں نے کہا بھی تھا اسے کمرے میں چھوڑ کر آیا کرو ان چیزوں کی اجازت مل گئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم ہر وقت لگی رہو۔ ویسے بھی ماما کو تمہارا فون استعمال کرنا بالکل بھی پسند نہیں۔"
"ٹھیک ہے آپی!"
زینیہ اسے سمجھا رہی تھی مگر اسکا ذہن باری کی باتوں میں ہی الجھا ہوا تھا۔
تم سن بھی رہی ہو کہ نہیں؟"
"سن رہی ہوں آپی ویسے بھی باری بہت مصروف ہوتے ہیں انکے پاس اتنا وقت ہی کہاں ہوتا کہ وہ مجھ سے بات بھی کر لیں۔ وہ آپ سے زیادہ سمجھ دار ہیں۔ ایک میں ہی نا سمجھ ہوں!"
حنایہ غصے سے کہتی ہوئی وہاں سے اٹھی اور موبائل رکھنے روم میں چلی گئی۔ زینیہ کی پر سوچ نظریں اسکی پشت کو گھور رہیں تھی وہ بچپن سے ایسی ہی تھی کبھی سکون سے بات سن لیتی تو کبھی بلاوجہ غصہ کرنے لگتی۔ پل میں تولا پل میں ماشا! یہ بات حنایہ کے لئے ہی کہی گئی تھی۔
**************
عبدالباری نے حنایہ کو سب بتا دیا تھا ہمیشہ جب تک وہ اسے اپنی ہر بات نہیں بتا دیتا تھا اسکے دل کو سکون نہیں ملتا تھا۔ اب بھی اسے سب کچھ بتا لینے کے بعد اسکا دماغ فریش ہو گیا تھا اب ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کے بعد اس نے دوبارہ پھوپھو کے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ تیار ہو رہا تھا کہ شعیب روم میں داخل ہوا۔
"مجھے تمہارے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے آج پھر تم نے چھٹی کر لی؟"
"ہاں ضروری کام تھا۔"
"آج کل کچھ زیادہ ہی ضروری کام نہیں آرہے؟"
عبدالباری نے شعیب کی بات پر اسے دیکھا جو اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"اور تم آج کل کچھ زیادہ ہی میری زندگی میں انٹرفئیر نہیں کر رہے؟"
"میں تو ایک اچھے دوست کی طرح تمھیں سمجھا رہا ہوں اپنی جاب پر دھیان دو آوارہ گردی تمہارے کسی کام نہیں آنے والی۔"
"پلیز شروع نہ ہو جانا۔" اس نے احتجاج کیا۔ "میں ویسے ہی کافی پریشان ہوں۔"
"کیسی پریشانی؟" شعیب نے فکرمندی سے پوچھا۔
"تم تو طاق میں رہتے ہو میرے منہ سے کوئی بات نکلے اور اللّه تمھیں میری ذاتیات میں گھسنے کا موقع فراہم کریں۔ خیر مجھے دیر ہو رہی ہے۔"
باری نے جلدی سے اپنےسیٹ کیے بالوں میں انگلیاں چلائیں۔ بائیک کی چابی اٹھاتا وہ کمرے سے باہر آیا۔ شام کے سائے ڈھلنے لگے تھے ٹھنڈی ہوا نے موسم خوشگوار بنا دیا تھا مگر اسکے اندر کا موسم بہت زیادہ بہتر تھا۔ وہ خوش تھا کہ اسے اسکی پھوپھو واپس مل گئی ہے وہ خوش تھا کہ اسکا باپ ایک قاتل نہیں تھا۔
"اس دن تو منہ بنا کے نکل آیا تھا باری! اب کس منہ سے واپس آیا ہے؟"
دروازے کے سامنے کھڑے اس نے خود کو ملامت کی پھر دستک دی۔ دروازہ انشراح نے کھولا۔ وہ اندر آیا تو انشراح چہرے پر مسکراہٹ سجائے کھڑی تھی۔
"اسلام و علیکم بھائی!"
"وعلیکم اسلام کیسی ہو تم؟" اس نے بھی خوشگوار انداز میں پوچھا۔
"میں ٹھیک ہوں آپ کو معلوم ہے مما نے کہا تھا آپ ضرور آئیں گے مگر آپ اس دن اتنے غصے میں گئے تھے مجھے نہیں لگتا تھا آپ واپس آنے والے ہیں۔" اس نے معصومیت کہا۔
"اس کو چھوڑو یہ ہے ہی پاگل تم یہاں میرے پاس آو میں نے تو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا ماشاء اللّه باری اتنا بڑا ہو گیا ہے۔"
اس سے پہلے وہ انشراح کی بات کا جواب دیتا پھوپھو نے اسے اپنے پاس بلا لیا۔ وہ مختصر سا صحن پار کر کے انکے پاس آگیا۔ پھوپھو نے انشراح کو چائے بنانے کا کہا اور اسے اپنے قریب ہی چارپائی پر بیٹھا لیا۔ وہ اس کے صدقے واری جا رہی تھیں اور وہ انکے محبت بھرے انداز پر دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہا تھا وہ اس دن اتنے برے انداز میں پھوپھو سے مخاطب تھا جو بھی تھا وہ اسکی پھوپھو تھیں۔
"بابا سائیں اور اماں سائیں کیسی ہیں؟ اور باقی سب..."
آنکھوں میں امید کے دیپ جلائے وہ اس سے پوچھ رہیں تھیں۔
"بابا سائیں ابھی بھی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائیں بیٹھے ہیں اور اماں سائیں آپکی یادوں کے سہارے زندہ ہیں۔ میں آپکی موت کا ذمہ دار ڈیڈ کو سمجھتا تھا اسی لئے حویلی اور حویلی والوں سے دور رہتا ہوں۔ ڈیڈ میری وجہ سے پریشان ، عبدالصمد بھائی بابا سائیں کی بتائی ہوئی راہوں پر گامزن، چاچی ٹھیک ہیں انکی دو بیٹیاں ہیں زینیہ اب میری بھابھی بن چکی ہے اور کملی..." حنایہ کا ذکر آتے ہی باری کی ٹر ٹر چلتی زبان کو بریک لگی تھی۔
"کملی؟" فاطمہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"میرا مطلب ہے حنایہ فاطمہ" عبدالباری کو اسکا تعارف کرواتے ہوۓ عجیب سا لگ رہا تھا۔ " دادو نے آپکی وفات کے بعد اسکا نام فاطمہ رکھنا چاہا چاچو کی وفات کے بعد آپ تو واپس کبھی نہیں آئی مگر چھ ماہ بعد جس دن آپکی وفات کی خبر آئی تو..."
"حنایہ؟" فاطمہ نے غور سے اسکے چہرے کو دیکھا۔ " تمہارا چہرہ اسکے تعارف کے لئے کافی ہے۔ اتنے لمبے لمبے فلسفے کیوں سنا رہے ہو؟ میں ویسے بھی پرانی باتیں دفنا چکی ہوں" فاطمہ نہیں جانتی تھی باتوں کو دفن کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
فاطمہ کی بات پر وہ محفوظ ہوا تھا۔ اس نے جس بات کا کبھی کسی سے ذکر نہیں کیا تھا آج اسکی پھوپھو بنا کہے ہی سمجھ گئی تھیں۔
"شادی کب ہے؟" فاطمہ نے مسکراہٹ چھپاتے ہوۓ پوچھا۔
"جب میں کہوں گا!" باری کی آنکھوں سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔
"کس کی شادی ہو رہی ہے؟" انشراح نے چونک کر پوچھا۔ " آپ یہ نہ سمجھیں مجھے کچھ پتا نہیں سب سے واقف ہوں حویلی کی داستانیں سن سن کر میں بڑی ہوئی ہوں۔ مگر یہ شادی کا کیا سین ہے؟"
کل تک انشراح عبدالباری کی آمد سے خوفزدہ تھی مگر اب وہ خوش تھی بچپن سے ماں باپ کے علاوہ اس نے کوئی رشتہ نہیں دیکھا تھا رشتوں کے لئے ترستی انشراح کو اب باری کی شکل میں نئی امید مل گئی تھی۔
"تمہارے بھائی کی شادی ہونے والی ہے۔"
"واہ بھائی کی شادی!" اس نے خوشی سے چائے پیتے باری کی طرف دیکھا مگر اگلے ہی لمحے اسکا چہرہ مرجھا گیا۔"کیا فائدہ شادی تو حویلی میں ہوگی ہم تھوڑی نہ جا سکتے ہیں۔"
"سب جائیں گے۔" باری نے چائے کا خالی کپ ٹیبل پر رکھا۔ فاطمہ اور انشراح دونوں نے حیران نظروں سے اسے دیکھا۔
"نہیں باری!" فاطمہ نے نفی میں سر ہلایا۔ "باری جو تم سوچ رہے ہو وہ غلط ہے۔ بابا سائیں کی عزت مٹی میں مل جائے گی۔"
"عزت نہیں غرور!" باری نے لقمہ دیا تھا۔
"باری... دادا ہیں وہ تمہارے!"
"بریکنگ نیوز؟ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ وہ میرے دادا ہیں!"
"اب مجھے سمجھ آئی انشراح میں ہٹ دھرمی کہاں سے آئی۔"
"خاندانی مسئلہ ہے پھوپھو!"
باری نے ایک بار پھر انکی بات اچک لی۔
"مذاق کے علاوہ!" باری چہرے پر سنجیدگی سجائے گویا ہوا۔" میری غیرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ حویلی کی عزتیں یوں دربدر ہو جتنا عرصہ آپ اور انشراح نے تنہا گزار لیا بہت ہے۔ مگر اب نہیں! میں چاہتا ہوں آپکو حویلی میں وہی مقام ملے جو آپکا ہے۔ اور اسکے لیے میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں۔"
فاطمہ اپنے بھتیجے کو دیکھتی رہ گئیں وہ نہیں چاہتی تھی انکا سایہ اب باری کی آنے والی خوشیوں پر پڑے وہ تو خوش تھی انہیں کسی مقام کی طلب نہیں تھی۔
**************