عبدالباری مسلسل حنایہ کا نمبر ملا رہا تھا مگر نمبر بند تھا۔ وہ ہوسٹل واپس تو آگیا تھا مگر اسکا دل و دماغ کہیں حویلی میں ہی رہ گیا تھا۔ وہ سر دیوار سے ٹکائے بیٹھا حنایہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ حنایہ کو اس سے شکایت تھی وہ اس بار اسے دیکھے بغیر آگیا تھا۔ اب اسے کسی پل چین نہیں آرہا تھا۔ آج اس نے ہسپتال سے بھی چھٹی کر لی تھی اسکا کہیں جانے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ اب کی بار بھی نمبر بند تھا اس نے غصے سے موبائل بیڈ پر رکھا۔
"پتا نہیں کملی تمھیں کیا ہوتا جا رہا ہے۔" باری نے آنکھیں موند لیں اسکے لئے کملی کا رد عمل حیران کن تھا۔ "تم کیوں نہیں سمجھتی!"
وہ پست آواز میں خود سے ہم کلام تھا۔
" اب ہم پہلے جیسے نہیں رہے اب ہم سارا سارا دن ایک دوسرے سے بات نہیں کر سکتے۔ میں نہیں چاہتا میرے قدموں کی ذرا سی لرزش تمہارے کردار کو داغ دار کر دے۔ بیشک ہم بچپن سے ایک ساتھ ہیں مگر میں حویلی کے کسی فرد کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ تمہاری طرف نظر اٹھائے۔ تم بہت معصوم ہو کملی! تم نہیں جانتی چاہے سب ہمارے اپنے ہیں مگر نظر بدلتے دیر نہیں لگتی۔ میں نہیں چاہتا کوئی کہے کہ ہم غلط ہیں ہماری محبت غلط ہے۔"
باری کے لئے یہ سوچنا ہی اذیت ناک تھا۔ جو کبھی ایسا ہو گیا تو شاید وہ یہ بات کبھی برداشت نہ کر سکے۔ کملی کی عزت کے لئے وہ حد سے زیادہ پوزیسیو تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کوئی بھی اسکی پاکیزگی پر حرف اٹھائے۔
"خیر تو ہے؟ عبدالباری! خود سے ہی باتیں کر رہے ہو۔" شعیب نے حیرت سے اسے دیکھا۔عبدالباری کے خیالوں پر اسکی آواز نے بند باندھ دیا تھا۔ اسکی سوچ کے بے لگام گھوڑے جو سر پٹ بھاگ رہے تھے اس نے انہیں قابو میں کر لیا تھا۔
"کچھ نہیں!" اس نے ایک نظر اسے دیکھا پھر آنکھیں موند لیں۔
"تم آج ڈیوٹی پر بھی نہیں تھے؟ سب پوچھ رہے تھے۔" شعیب نے پھر سے گفتگو کا سلسلہ جوڑا تھا۔ جب کہ مقابل گفت وشنید کے موڈ میں نہیں تھا۔
"سر میں درد تھا۔" ہمیشہ کی طرح اس نے مختصر بات کی تھی۔
"ڈاکٹر جو ہوتا ہے نا؟ وہ مریض اور عاشق میں فرق اچھی طرح جانتا ہے اور اس وقت تمہاری شکل مریض سے تو بلکل بھی مشابہت نہیں رکھتی۔"
شعیب نے لیب کوٹ اپنے بیڈ پر رکھا۔ اور بیڈ کے پاس کھڑا ہو گیا جبکہ عبدالباری لب بھینچے اسے دیکھ رہا تھا۔
"بکھرے بال، ہر پانچ منٹ بعد اپنا موبائل پکڑنا، پھر مایوس ہو کر اسے غصے سے رکھ دینا، خلاؤں میں گھورنا، خود سے باتیں کرنا اور چہرے پر افسردگی! یہ سب سر درد کی علامتیں تو نہیں ہیں۔ میرے دوست!" شعیب نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ وہ کل سے عبدالباری کی حرکات و سکنات نوٹ کر رہا تھا۔ "میں تمھیں جس حالت میں چھوڑ کر گیا تھا اسی حالت میں بیٹھے ہو۔"
"شعیب مجھے تم کسی اینگل سے بھی ڈاکٹر نہیں لگ رہے۔"
عبدالباری نے تاسف سے اسے دیکھا اور پھر اسے نظر انداز کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اسکے لئے مزید اس کمرے میں ٹھہرنا مشکل ہو رہا تھا۔
"اچھا جاتے جاتے فری ایڈوائس تو لیتے جاؤ۔" شعیب نے پیچھے سے ہانک لگائی تو وہ دروازے کے پاس رک گیا۔
"An Apple A Day Keeps The Love Away!"
عبدالباری خود پر ضبط کرتا کمرے سے باہر آگیا۔ لمبی سی راہداری عبور کرتے ہوۓ اس نے دوبارہ فون کان سے لگا لیا۔ اسے اس بات کی بلکل پروا نہیں تھی کوئی اسکے بارے میں کیا سوچ رہا ہے یا کیا بول رہا ہے۔
اور اس بار اسکی مراد بر آئی تھی کملی نے کال اٹھا لی تھی۔
"اللّه کا شکر ہے تم نے کال تو اٹھائی۔"
عبدالباری نے بینچ پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔ کملی کی آواز سن کر اس کی روح کو سکون مل رہا تھا اسکا چہرہ اس بات کا ثبوت تھا۔
"تم نے کیسے سوچ لیا میں ناراض ہوں؟ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ باری کبھی بھی تم سے ناراض نہیں ہو سکتا کملی!"
باری اسے یقین دلا رہا تھا جو کل تک یہ سوچ کے بیٹھا تھا کہ کملی اس سے ناراض ہے مگر اب وہ اس سے اپنے برے رویئے کی معافی مانگ رہی تھی۔
**************
"اچھا؟ اب تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ میں؟ میں تمھیں فون چلانا سکھا دوں۔ اور ہر پانچ منٹ کے بعد کملی صاحبہ کی کال آئی ہو۔ باری آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کہاں ہیں؟"
عبدالباری ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد ہسپتال سے باہر آرہا تھا اس نے رخ مین گیٹ کی طرف کر لیا تھا وہ ہوسٹل جانے سے پہلے کملی سے بات کر لینا چاہتا تھا۔ بائیک کے ساتھ ساتھ چلتے ہوۓ وہ بس اسٹینڈ تک آیا۔ وہ جو عبدالباری سے موبائل چلانے کے بارے میں پوچھ رہی تھی اس کی بات کے جواب میں کملی نے خاموشی اختیار کر لی۔
"ناراض ہو گئی ہو؟"
"نہیں تو..."
"پھر؟" باری اسکی خاموشی کی وجہ دریافت کرنا چاہتا تھا۔
"آپ کو کیا لگتا ہے؟ میں آپی سے موبائل چلانا نہیں سیکھ سکتی؟ آپی نے کہا تھا کہ آپ سے پوچھ لوں۔ پتا نہیں سب آپ سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں؟"
کملی کی بات پر باری کا قہقہ بلند ہوا۔
"تمھیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا؟"
"نہیں تو... اس میں ڈرنے والی کیا بات ہے؟"
"میں بہت خطرناک ہوں!"
"آپ باتیں بنانا چھوڑیں اور مجھے اجازت دیں۔ ابھی آپ نے کہنا ہے کملی میرے پاس اتنا وقت کہا ہے جو بات کروں پھر بات کریں گے"
کملی کی آواز تو اس تک پہنچ رہی تھی مگر اسکا ذہن اور اسکی نظریں سڑک پر جم چکی تھیں اور وہ نا چاہتے ہوۓ بھی سڑک پار کھڑی خاتون اور لڑکی کو دیکھنے لگا۔ کالج یونیفارم میں موجود لڑکی جو غالباً اس عورت کی بیٹی معلوم ہوتی تھی اسکا ہاتھ تھامے سڑک کنارے کھڑی ٹریفک کم ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔
"کملی میں بعد میں بات کرتا ہوں۔"
عبدالباری نے فون بند کر دیا۔ وہ اپنی سوچوں پر بندھ باندھنے میں نڈھال ہو رہا تھا۔ وہ ٹریفک کی پروا کیے بغیر بس اس طرف پہنچنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ غلط بھی ہو سکتا ہے وہ یو سر راہ کسی اجنبی عورت کی طرف بڑھ رہا تھا اور یہ غیر اخلاقی عمل تھا مگر وہ اپنے گماں کو یقین میں بدلنا چاہتا تھا۔
"آئیں میں آپ کو سڑک پار کروا دیتا ہوں۔"
عبدالباری کی نظر اسکے کمزور ہاتھ پر تھی جس پر سیاہ رنگ کا بہت واضح نشان تھا۔ جب کہ اس خاتون نے اپنے قریب کھڑے قدرے شریف نظر آتے لڑکے کو دیکھا۔ ایک لمحے کے لئے آنکھوں کے سامنے سایہ سا لہرایا تھا۔
"نہیں ہم خود چلے جائیں گے۔"
لڑکی نے خاتون کا ہاتھ تھامے سڑک پار کرنا چاہی مگر خاتون کے قدم تو آگے بڑھ گئے تھے مگر اس کی نظر عبدالباری کے چہرے سے نہیں ہٹ رہی تھی۔ آنکھوں میں شناسائی کے احساس نے عبدالباری کی ہمت بڑھائی تھی مگر اگلے ہی لمحے اس نے برق رفتاری سے خاتون کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ وہ جو تیز رفتار گاڑی کی زد میں آنے والے تھے عبدالباری کی بدولت بچ گئے تھے۔ جھٹکا لگنے کی وجہ سے خاتون کے چہرے سے چادر کا پلو چھوٹ گیا تھا اور اب تو عبدسلباری کا شک یقین میں بدل گیا تھا وہ پہچان گیا تھا۔ جب کہ مقابل کھڑی خاتون نے دوبارہ چہرہ چادر سے ڈھک دیا۔ لڑکی نے پرشان نظروں سے اپنی ماں کو دیکھا۔
"ماما چلیں یہاں سے!"
کہرآلود نگاہ عبدالباری پر ڈال کر وہ اپنی پریشان حال ماں کے ساکت وجود کو وہاں سے لے گئی۔ جب کہ حیران پریشان عبدالباری کی حالت بھی کچھ مختلف نہ تھی وہ نہیں جانتا تھا کہ اچانک اسکی زندگی کا سب سے بڑا سچ جھوٹا ثابت ہو جاۓ گا۔ وہ اپنے من من کے قدم اٹھاتا ہوا اپنی بائیک تک آیا۔ پھر بائیک سٹارٹ کر کے رکشے کا پیچھا کرنے لگا۔ وہ یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا جس طرح وہ خاتون بار بار اسے دیکھ رہیں تھیں اسے یقین آ گیا تھا کہ یہ وہیں ہیں۔
رکشہ ایک گھر کے سامنے رکا عبدالباری کچھ دیر وہی کھڑا رہا پھر اس گھر کے سامنے آیا۔
"اگر یہ سب صرف میرا وہم ہوا؟ لازم تو نہیں سب کے ہاتھ پر ایک جیسا نشان ہو؟"
پر سوچ نظریں دروازے پر جمی تھیں اور اسکے ہاتھ دستک کے لئے اٹھے۔ دوسری بار دستک پر دروازہ کھول دیا گیا۔
"ماما کہہ رہیں ہیں اندر آجائیں!"
وہی لڑکی آئی اور دروازہ کھلا چھوڑ کر چلی گئی۔ ایک لمحے کی دیر کیے بغیر وہ اندر چلا آیا۔ چھوٹا سا صحن جس کے سامنے دو کمرے تھے۔ وہ خاتون چارپائی پر بیٹھی تھیں اور اب اس نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔ اور اب تو کسی ثبوت کی ضرورت بھی نہیں رہی تھیں وہ خاتون اپنی باہیں پھیلائے اسکی طرف بڑھی اور اسے اپنی آغوش میں لےلیا۔
"تم ضرور آو گے میں جانتی تھی۔ آخر تم صغیر ہمدانی کے بیٹے ہو۔"
"پھپھ... پھوپھو..."بامشکل باری کی زبان سے لفظ ادا ہوا۔
" ہاں پھوپھو کی جان!"
لہجے میں اپنائیت سموئے انہوں نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا۔ اس نے بے یقینی سے پہلے خاتون کو دیکھا اٹھارہ سال بعد بھی وہ یقین سے کہہ سکتا تھا کہ وہ اسکی پھوپھو ہیں جبکہ خزاں رسیدہ چہرہ جس پر گزرے ہوۓ وقت کی داستان رقم تھی جو اسے بتا رہی تھیں کہ میں ہوں وقت جو انسان کو اٹھا کر عرش سے فرش پر پٹخ دیتا ہوں۔
"باری!" آنکھوں میں نمی لئے وہ اسے دیکھ رہیں تھیں۔ جب کہ باری نے سر کو دائیں سے بائیں ہلایا۔
"یہ نہیں ہو سکتا!" باری دو قدم پیچھے ہٹا۔ "آپ زندہ کیسے ہو سکتی ہیں؟ اٹھارہ سال!"
"I Cant Believe It..!"
باری لڑکھڑاتے قدموں سے واپس مڑا۔
"اٹھارہ سال بعد کوئی بھی آجائے گا تو میں کیا یقین کر لوں گا؟ نہیں!"
وہ جلدی سے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئیں عبدالباری نے سامنے کھڑی نام نہاد پھوپھو کو دیکھا۔
"میرا یقین کرو میں تمھیں سب بتا دوں گی۔"
"کیا بتائیں گی آپ؟" عبدالباری نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔" آپ کو لگتا ہے میں اب بھی وہی آٹھ سالہ عبدالباری ہوں جس سے آپ جو کہیں گی وہ آنکھیں بند کر کے مان لے گا۔"
"ایک بار میری بات سن لو۔" آنکھوں میں التجا لئے وہ ہاتھ جوڑے اپنے بھتیجے سے مخاطب تھیں۔ جسے انہوں نے آٹھ سال اپنا بیٹا کہا تھا۔"ایک موقع!"
وہ اسکا ہاتھ تھامے اسے چارپائی تک لائیں لڑکی نے جلدی سے کرسی اسکے سامنے کی۔ وہ لمبا سانس خارج کرتا کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ جانتا تھا غصے سے کچھ نہیں ہو گا اسے اپنے سوالوں کے جواب چاہیے تھے۔
"کچھ ادھورے سچ ہوتے ہیں جو زندگی کو زہر آمیز بنا دیتے ہیں انسان اسی وقت زندہ رہ سکتا ہے جب ادھورے سچ کو وہ پورا جھوٹ مان لے۔اور دوسری صورت میں جب وہ اسے مکمل حقیقت تسلیم کر لیتا ہے تو آہستہ آہستہ اسکی رگوں میں زہر بننے لگتا ہے تمیں بھی نامکمل سچ ہی معلوم ہے اور تمہاری آنکھیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ تمہاری رگ رگ میں زہر بھر چکا ہے۔ وہ زہر جو میں نے تمہارے اندر ڈالا ان اٹھارہ سالوں میں اگر میں نے کسی کے بارے میں سوچا تو وہ تم تھے۔ تم عبدالباری!" انہوں نے اسکی طرف اشارہ کیا۔"تم بچے تھے باری! انجانے میں تمھیں بہت کچھ بتا چکی تھی اور یہ میری سب سے بڑی غلطی تھی۔ میں چاہ کر بھی تمھیں کبھی سب کچھ بتا نہ پائی۔ اور حویلی چھوڑنے کے بعد مجھے تمہارا خیال ستاتا تھا کہ کیسے آٹھ سالہ باری نے ادھوری باتوں کو مکمل کیا ہو گا۔"
وہ سانس لینے کے لئے رکیں اور پھر باری کو دیکھا مگر اسکے چہرے کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی وہ سپاٹ چہرہ لئے انہیں دیکھ رہا تھا۔
"جب مجھے معلوم ہوا کہ میں جس سے منسوب تھی ایک ایکسیڈنٹ میں اسکی موت ہو گئی شادی کی تیاریاں ان دنوں عروج پر تھیں اس خبر نے حویلی میں صف ماتم بچھا دیا۔ خاندان بھر میں مجھے منحوس کہا جا رہا تھا۔ میرے ماتھے پر نحوست کا ٹھپا لگا دیا گیا خاندان میں کوئی تقریب ہوتی تو صاف کہہ دیا جاتا کہ اسے مت لے آنا کہیں ہماری بیٹی کہ نصیب بھی اس جیسے سیاہ نہ ہو جائیں۔ تم اتنے سے تھے" دونوں ہاتھوں کو ملا کر بتایا گیا۔
" تمھیں تو صحیح سے بولنا بھی نہیں آتا تھا۔ میں سارا دن تمہارے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ تمھیں کہانیاں سنا کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی تھی۔ ایک شہزادی جسے بڑے سے محل میں قید کر دیا گیا تھا۔ ظالم خاندان کے قصے سنا کر میں تو اپنا دل ہلکا کر لیتی تھی مگر تمہارے معصوم ذہن پر کاری ضربیں لگاتی گئی معاف کر دو مجھے میں تمہارا بچپن..."
بات ادھوری چھوڑ کر پھر اسکی طرف دیکھا مگر وہ نہیں چاہتا تھا کہ بولنے سے گفتگو کے سلسلےمیں کوئی رکاوٹ پیدا ہو۔ پھر اس نے بھجی ہوئی آنکھوں میں خوشی کے دیپ جلتے ہوۓ دیکھے۔
"میں نفسیاتی مریض بن چکی تھی یہ تم سے بہتر کون جان سکتا ہے پھر بابا سائیں کو میری حالت پر رحم آگیا۔ اور مجھے پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ میری زندگی نے نیا رخ لیا اور میں نے پھر سے جینا شروع کیا۔ کتابوں نے مجھے یوں سنبھالاجیسے سگی ماں اپنے ٹوٹے ہوۓ بچے کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔ پھر میرا پڑھنے کا شوق مجھے یونیورسٹی تک لے گیا ویسے بھی کسی کو میری پروا ہی نہیں تھی۔ بابا سائیں جانتے تھے میں کتابوں سے دل لگا لوں گی تو ذہن نہیں بھٹکے گا مگر باری! عورت ہمیشہ چاہت کی بھوکی رہتی ہے اس کے دل میں یہی تمنا ہوتی ہے کوئی ہو جو اسے چاہے اسکا خیال رکھے اور میں تو تھی ہی ترسی ہوئی عورت! جسے اسکے خاندان نے ٹھکرا دیا تھا زاہد کی محبت نے زندگی میں نئے رنگ بھر دے گھر میں رشتہ بھیجا گیا انکار کر دیا گیا کہ خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے۔اور میں تو سب جانتی تھی ہر روایت سے واقف تھی اب میرے نصیب میں ایک نام پر بیٹھے رہنا ہی لکھا تھا۔ مگر زاہد کی محبت بھی تو چھوڑی نہیں جا سکتی تھی۔ ہم دونوں نے شادی کر لی۔ زاہد کو پا لینے کے بعد مجھے کسی کی پروا نہیں رہی تھی ہم دونوں بہت خوش تھے میرے پاس ابھی دو سال تھے۔ ہمیں کسی فکر نہیں تھی۔ مگر فکر کرنے کا وقت تب آیا جب مجھے معلوم ہوا کہ انشراح آنے والی ہے۔"
باری نے ایک نظر اٹھا کر صحن کے ستون سے لگی لڑکی کو دیکھا جو عام سے لباس میں کھڑی تھی اسکے دیکھنے پر اس نے شرمندگی سے سر جھکا لیا جیسے اس سے کوئی بہت بڑا جرم ہو گیا ہو وہ کوئی مجرم ہو!
"میں پہلے ہی زاہد کے ساتھ رہ رہی تھی۔ میرا آخری سیمسٹر تھا جب میں آخری بار حویلی گئی۔ یاد ہے میں نے ایک کہانی سنائی تھی آخری کہانی! جس میں خود غرض شہزادی تھی اور میں بھی تو خوشیوں کی تلاش میں خود غرض بن گئی تھی۔ اس رات تمہارے سو جانے کے بعد میں صبح تک جاگتی رہی بے مقصد حویلی گھومتی رہی۔ صبح اماں سائیں کے پاس گئی۔ اور انہیں سب بتا دیا میں جانتی تھی ایک نہ ایک دن حقیقت سے سامنا ہونا ہی ہے اب میں زیادہ دن راز دل میں چھپائے نہیں رکھ سکتی تھی میں بہت روئی۔ اماں سائیں کو ممتا کا واسطہ دیا انکے آگے اپنا آنچل پھیلا کر اپنی خوشیوں کی بھیک مانگی اپنی اولاد کی زندگی مانگی۔ میں نے کہا کہ وہ بابا سائیں کو کسی طرح راضی کر لیں۔ مگر نہیں! اماں سائیں جانتی تھیں کہ بابا سائیں کو اپنی عزت جان سے زیادہ عزیز ہے۔ اماں سائیں بیٹی کے آنسو نہیں دیکھ سکیں بیٹی بھی وہ جو منتوں مرادوں کے بعد ملی ہو۔ اماں سائیں نے کہا کہ میں چلی جاؤں بہت دور ایسی جگہ جہاں بابا سائیں کی پرچھائی بھی مجھ تک نہ پہنچ پائے۔ میں ساری کشتیاں جلا کر آگے بڑھ گئی انشراح کی پیدائش کے بعد میں سب کچھ بھول گئی ساری محرومیاں خوشیوں میں بدل گئیں۔ میرا ہر رشتہ زاہد اور انشراح ہی تھے زندگی میں سکون تھا مگر ہر سکون کے بعد بے سکونی لازمی ہے اگر برے کے بعد اچھا آتا ہے تو اچھے کے بعد برا بھی لازم ہے۔"
انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ باری کے سامنے کیا جس پر سیاہ نشان تھا۔
"صغیر بھائی بھی اسی ہاتھ کے نشان سے پہچان گئے تھے ایسے ہی وہ میرے سامنے بیٹھے تھے۔ سرخ انگارا آنکھیں میرے وجود کو جھلسا رہے تھے اور وہ مجھ پر پستول تانے کھڑے تھے۔میں نے ہاتھ جوڑے انکے سامنے زاہد نے بھی معافی مانگی مگر انہیں ہم پر ذرا رحم نہ آیا۔ کمرے سے ننھی انشراح کے رونے کی آواز آئی تو میں بھاگ کر اسے اٹھا لائی۔ بھائی بابا سائیں کو فون ملا چکے تھے۔ پھر بھائی نے دو فائر کیے۔ مجھے گولی بازو میں لگی اور زاہد کو ٹانگ میں! مجھے یقین ہی نہیں آیا۔ کہ میرا سگا بھائی میرے ساتھ ایسا بھی کر سکتا ہے؟ مگر اگلے ہی لمحے انہوں نے ایمبولینس کو بلایا اور ہمیں ہسپتال لے گئے۔ ہمارا علاج کروایا میں آخری بار اپنے بھائی کے کندھے سے لگے رو رہی تھی اور وہ انشراح کو دیکھ رہے تھے انہوں نے اسکی پیشانی کو چوما اور چلے گئے۔"
انکا سانس دوبارہ پھول گیا تھا جیسے وہ صدیوں کی مسافت طے کر کے آئی ہو۔ انشراح نے ماں کو پانی کا گلاس پکڑایا جو انہوں نے پی لیا۔
"محبت کی طرف بڑھایا گیا ایک قدم آپکو کئی قدم پیچھے لینے پر مجبور کرتا ہے۔ زاہد کی محبت میں میں نے اپنا شہر، گھر، باپ، ماں، بھائی ، خود سے جڑا ہر رشتہ بھولا دیا تھا یہاں تک کہ میں خود کو بھی ختم کر چکی تھی اور چند سالوں کی رفاقت کے بعد میں نے زاہد کو بھی کھو دیا! سب کچھ کھو دینے کے بعد میں نے جانا محبت وہ حاصل ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے سب کچھ کھونا پڑتا ہے۔ محبت حاصل کرنے کے لئے میں نے اپنی روح مقروض کر لی ہے اب مرتے دم تک یہ قرض اتارنا مجھ پر فرض ہے!"
انکی بات ختم ہونے کے بعد باری نے اپنی نشست چھوڑی اور اٹھ کر انشراح کے جھکے ہوۓ سر پر ہاتھ رکھا اس نے سر اٹھا کر سامنے کھڑے باری کو دیکھا۔ مگر باری وہاں رکا نہیں وہ گھر سے باہر چلا گیا۔
**************