کیونکہ آپکو اینجل سے پیار یوگیا ہے!!!!!!!!!!!!!!!!
آھل اپنے پیچھے آئی ہوئی آواز پر چونکا اور پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں کوئی نہیں تھا
سارہ!!!!
آھل کو لگا سارہ بلکل اسکے کانوں کے قریب یہ کہہ گئ تھی مگر وہاں کوئی نہیں تھا تبھی اسے سامنےسے جولی آتی ہوئ دکھی تو وہ بغیر رکے وہاں سے تیزی سے گاڑی دوڑاتا ہوا نکل گیا۔۔
ارے یہ آھل سر کہاں گۓ کہیں بھول تو گۓ کہ ہمیں بھی لیجانا ہے
جولی جو مال سے باہر آئ تھی اپنے پیچھے آتی ہوئی اینجل سے کہنے لگی تو جواب میں اینجل نے بس اسی طرف دیکھا جس طرف جولی دیکھ رہی تھی۔
چلو چھوڑو میں ڈرائیور کو یہی بلا لیتی ہوں ۔۔۔۔جولی نے یہ کہتے ہوۓ فون نکالا اور ڈرائیور کو بلانے لگی۔
کچھ دیر بعد وہ ہسپتال پہنچ چکی تھی اور اب لفٹ کے ذریعے اوپری منزل پہ جا رہیں تھی جہاں اینجل کا چیک اپ ہونا تھا۔۔
اینجل تم باہر ویٹنگ میں روکو میں جا کر بتا دوں کہ ہم آگۓ ہیں
ok
جولی اینجل کو بولتے ہوۓ جانے لگتی ہے تو اینجل اسکی طرف دیکھکر آس پاس نظر دوڑاتی ہے
اور ایک بینچ پر بیٹھ جاتی ہے
تھوڑی دیر بعد سامنے کا بڑا شیشے کا مین گیٹ کھلتا ہے اور وہاں سے جولی مسکراتی ہوۓ باہر آتی ہے
چلو اینجل تمھارے کچھ اسکین ہوگے پھر نیورو سرجن سے چیک اپ ہوگا۔۔۔۔
اینجل جواب میں مسکراتے ہوۓ اسکے ساتھ چل پڑتی ہے ۔۔۔
well Dr Aahil i have examine her nd scans too she has no any neurological problem even she may have good memory according to her scan
So i wonder how she loose her memory plz check her
ڈاکٹر آھل جو کب سے کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا اسے نیوروسرجن کی کہی ہوئی کوئی بات سنائی نہیں دے رہی تھی
ok than my patients r waiting so i m leaving
ڈاکٹر نے آھل کو ساری تفصیل بتائ اور اٹھ کر جانے لگا تو آھل ہوش میں آیا
ha!!! ok doctor thanks
آھل اب اپنے کیبین میں بلکل اکیلا بیٹھا ہوا تھا اور شاید ابھی تک کسی سوچ میں گم تھا اس نے نظریں اٹھا کر وال کلاک کی طرف دیکھ کر گہری سانس لی اور گھر جانے کیلۓ اٹھا۔
اینجل اور جولی اس وقت آھل کے اپارٹمنٹ میں بالکل اکیلےتھے۔
اینجل مجھے پھر سے بھوک لگ رہی ہے تم اپنے سیڈ سونگ سنتی رہو میں توکچن میں جارہی ہوں۔۔۔ جولی اٹھکر گئ تو اینجل بھی ٹی وی بند کرکے بالکونی کی طرف گئ اور کچھ گنگنانے لگی جسے جولی کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی سن رہے تھے جو اس آواز سن سن کر اسکے اس قدر گرویدہ ہوگۓتھے کہ اب اس آواز کے مالک کو دیکھنے کی آرزو کرنے لگے تھےجن میں آھل اور زید بھی شامل تھے
تم میرے ہو اس پل میرے ہو
پھر شاید یہ عالم نہ رہے
پھر ایسا ہو تم ؛تم نہ رہو
پھر ایسا ہو ہم؛ہم نہ رہے
یہ راستے الگ ہو جائیں
چلتے چلتے ہم کھو جائیں
میں پھر بھی تمکو چاہوں گا
میں پھر بھی تمکو چاہوں گا
اس چاہت میں کھو جاؤں گا
میں پھر بھی تمکو چاہوں گا
وہ گاتے گاتے پورے گھر میں ٹہل رہی تھی اور اب وہ آھل کے کمرے میں تھی جہاں اندھیرے کی وجہ سے اسے کمرے میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
تبھی زید اپارٹمنٹ میں داخل ہوا
یہ گانے کی آواز ۔۔۔۔؟؟؟؟!!!!
کون گا رہا ہے وہ بھی یہاں ۔۔جولی جولی ۔۔۔
وہ آواز دیتے ہوۓ اس آواز کے قریب آتا جا رہا تھا۔۔
ایک دروازے کے قریب پہنچ کر اسے آواز وہاں سے آتی محسوس ہوتی ہے۔۔وہ دروازہ آہستہ سے کھولتا ہے اور اس آواز کے سحر میں کھونے لگتا ہے۔۔
میں پھر بھی تم کو چاہوں گی
اس چاہت میں کھو جاؤ گی۔۔
تبھی آھل بھی اسی آواز کے تعاقب میں وہاں پہنچ جاتا ہے جسے کتنے دنوں سے سن کر ڈھونڈھنے کیلۓ تڑپ اٹھا تھا۔۔مگر اسے اس کمرے میں دیکھ کر غصہ سے پاگل ہونے لگتا ہے۔۔۔
جولی !!!!
جولی!!!!!!!!
آھل کی گونج سنکر اینجل کے ساتھ ساتھ زید بھی کانپ گیا تھا
جولی لڑکراتے ہوۓ اپنا منہ صاف کرتے ہوۓ وہاں آئ جسکی حالت بھی زید اور اینجل جیسی ہی تھی۔۔
جی سر!!
wt the hell is she doing in my room?????!!!!!!
سر وہ اصل میں 'میں کچن میں تھی اور میں نے ابھی تک اس کو آپ کے رولز بتاۓ نہیں ہیں سوری سر اس میں اسکی کوئ غلطی نہیں ہے میں اسے سب سمجھا دونگی آئیندہ ایسا نہیں ہوگا sorry sir۔۔
جولی نے یہ کہتے ساتھ ہی کمرے سے اینجل کو باہر لیکر آئ اور اسے اسکے کمرے تک لے جانے لگی
تو جاتے ہوۓ اینجل پر آھل کی نظرپڑی جسکی آنکھیں بھیگ چکی تھی اور اینجل نے بھی آھل کی طرف بھیگی نظروں سے دیکھآ تو آھل کو اک عجیب سا ہوا مگر اسنے نظریں ہٹاکر اپنے کمرے میں جاکر دروازہ بند کرلیا
زید کو آھل کا اسطرح چلا کر بات کرنا اچھا نہیں لگا اسلیے وہ جولی اور
اینجل سے معذرت کرنے کیلئے اینجل کے روم کی طرف چلاگیا۔
سنبل جا چکی تھی مگر اسے پری نے کچھ نہیں بتایا تھا کہ اسکے ساتھ کیا ہوا
پری!!!
تارہ آپا کی آواز سن کر وہ کمرے سے باہر آئ ۔
جی آپ نے بلایا،،،
ہاں بیٹا تمھارے تایا نے بلاوا بھیجا ہے کہ جلدی آجاؤ چلو میرے ساتھ جلدی کرو۔۔۔
پری کا دل دھڑکنے لگا
یا اللہ کیا آج ہی میری تباہی کا دن ہے؟؟؟
وہ دل ہی دل میں کہتے ہوۓ تارہ آپا کے ساتھ چل پڑی۔۔
ہر بڑھتا قدم اسکی دھڑکنوں کو بڑھا رہا تھا
ارے بیٹا میں اپنا چشمہ لانا بول گئ رات ہوتے ہی مجھے کچھ نظر نہیں آتا ٹھیک سے ذرا ہاتھ پکڑ لینا جب سیڑهیاں آۓ تو۔
تارہ آپا نے اسے کہا تو اسنے فوراً ہی تارہ آپا کا ہاتھ تھام لیا۔۔
یہ کیا بیٹا تمھارے ہاتھ اتنے ٹھنڈے کیوں ہو رہے ہیں اور تم کانپ رہی ہو کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟؟
مگر پری نے کوئ جواب نہ دیا اور تارہ آپا کا ہاتھ پکڑے اسی سمت جا رہی تھی جہاں تارہ آپا چل رہی تھی
وہ دونوں حویلی کے اندرونی دروازہ سے ہوتے ہوۓ ڈرائینگ روم کی طرف جا رہے تھے
سامنے دیوار پر بہت سی تصویریں لگی ہوئ تھی شاہ زمان کی روب دار جوانی سے لیکر شاہ شاہان بڑھاپے تک کی انکے دونوں بیٹوں کے ساتھ بھی فہد کی اور نوفل کی بچپن کے وقت کی اور جس تصویر پر پری کی نظر ٹھہر گئ تھی وہ تھی احد کی جو سواۓ شاہ زمان اور فہد کے اور کسی کے ساتھ نہ تھی وہاں پری کی بچپن کی کوئ تصویر نہیں تھی احد کے ساتھ ۔۔
بابا!!!
پری نے روندھی آواز کے ساتھ احد کی تصویر کی جانب دیکھ کر کہا تبھی ثناه نے تارہ آپا کو آواز دی
تو اسنے مڑ کر اسی طرف دیکھا۔
جی چھوٹی بیگم!!
تارہ آپا نے ثناه کی جانب دیکھتے ہوۓ کہا جہاں اب یمنا اور زیبا بھی آچکے تھے
کہاں جا رہیں ہیں آپ دونوں رکو میں خود بتاتی ہوں فہد نے بلایا تھا ہے نا مگر فہد سے پہلے مجھے اس سے بات کرنی ہے ۔پری ذرا میرے قریب آنا۔۔۔۔
۔
ثناه کا پری کو اپنے قریب بلانا تارہ آپا کو حیرت میں ڈال چکا تھا جبکہ یمنا افسوس سے پری کی طرف دیکھ رہی تھی جب زیباکی نظر یمنا پر پڑی تو اسے عجیب لگا۔
آپکو پتہ ہے پری کہ آپکے بابا یہاں کیو نہیں رہتے اور آپ اپنی ماں کے ساتھ سرونٹ کوارٹر میں کیوں رہتی تھی اتنی بڑی حویلی ہونے کے باوجود اور ہاں آپ تو پوتی ہو نا شاہ زمان بابا کی تو پھر کبھی جاننے کا دل نہیں ہوا تمھارا؟؟؟؟؟
ثناه کا رویہ بولتے بولتے طنز آمیز ہوچکا تھا۔۔
پری کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا مگر تارہ آپا گبھرا چکی تھی۔
چھوٹی بیگم پری چھوٹے شاہ نے بلاوا بھیجا تھا میں تو بھول گئ چلو پری بعد میں اپنی تائی سے باتیں کرتی رہنا۔۔
تارہ آپا پری کا ہاتھ تھامے مڑی تو ثناہ نے پاس آکر پری کا ہاتھ الگ کیا اور اسے اپنے سامنےاک کھڑا کر دیا ۔۔
بولو پری تم جاننا چاہتی ہو یا نہیں اگر نہیں تو تب بھی سن لو۔
احد کی اک بھول کا برا نتیجہ ہو تم اسکی غلطی سے نشہ لینے پر اسے تمھاری ماں سے شادی کرنے کی بھیانک سزا ملی کیونکہ تم اپنی منحوسیت کا اعلان کرچکی تھی ۔۔
ثناه کی باتیں کسی نشتر کی طرح پری پر برس رہے تھے ۔پری نے گردن جھکا لیتی اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ جو ثناه کہہ رہی ہے وہ سچ ہے
تمھاری ماں کے بے برکت قدم اس گھر میں کیا پڑے اس گھر کو اپنا جواں بیٹا کھونا پڑا جسے اسکی ماں اپنی موت کے وقت بھی نہ دیکھ سکی اور تم وہی بے برکتی میرے بیٹے پہ ڈالو میں یہ ہونے نہیں دونگی ۔۔۔۔۔
یمنا کی آنکھیں بھیگ چکی تھی مگر زیبا چھپ کھڑی بس یمنا کو دیکھ کر ثناه کی جانب متوجہ ہو رہی تھی ۔
تم لوگ بے شرم اور بے حیا لوگ جب حویلی سے سرونٹ کوارٹر شفٹ ہوکر بھی اپنی اوقات نہیں بھولے تو کم از کم اپنی کالی رنگت ہی دیکھ لیتے اک سیاہ پرچھائ جو نہ جانے کب ہمارا پیچھا چھوڑے ۔۔۔
ثناه کہتے کہتے رک کر پری کی جانب حقارت سے دیکھنے لگی مگر پری کا جھکا ہوا سر دیکھکر اسکا چہرہ اوپر کرکے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ دانت پیستی ہوئ گویا ہوئ
میرے بیٹے سے رشتہ رکھنے کی خواہش نہ رکھنا کیونکہ تم کالی نسل سے ہو اور تم سے رشتہ کوئ مجبوری میں بھی نہ رکھے ۔۔۔
ثناه یہ کہہ کر پلٹی اور تارہ آپا کو دیکھکر کہنے لگی
آپا پانی پلا کر اسے اندر لے آنا چلو زیبا اور یمنا تم بھی۔۔
ان سب کے جانے کے بعد تارہ آپا پانی کا گلاس لیکر آئ اور پری کی جانب بڑھائ جو اسی طرح ابھی تک کھڑی تھی اور احد کی تصویر کو دیکھتی جا رہی تھی
پری پانی پیلو بیٹا بہت دیر ہوچکی ہے چلو۔۔
پری چونکی ۔۔۔
ہاں بہت دیر ہو چکی ہے چلیں مجھے پانی نہیں پینا۔۔۔
تارہ آپا سے پہلے ہی وہ ڈرائینگ روم داخل ہوئ
پری بیٹا آؤ کہاں تھی اب تک آؤ بیٹو میرے پاس۔۔۔
فہد نے اسکی جانب شفقت سے دیکھتے ہوۓ بلایا جنکے برابر میں نوفل بھی بھیٹا ہوا تھا۔۔
پری کی نظر نوفل پر گئ تو دوسری جانب ثناہ پر جو اسے نظر انداز کیے ہوئ تھی
نہیں میں ٹھیک ہوں تایا جی آپ نے بلایا مجھے کوئ کام تھا آپکو۔؟
ہاں اب تو کام ہی کام ہونگے تم سے بیٹا کیونکہ اگلے ہفتے آپکا نکاح ہے نوفل کے ساتھ ارے ثناه بابا کو لیکر آۓ ۔اوہ میرا فون بج رہا ہے ایک منٹ۔۔
فہد فون سننے کیلئے ایک طرف چلا گیا اور ثناہ شاہ زمان جو ویل چیئر پر بیٹھے ہوۓ تھے انھیں لاچکی تھی ۔۔
تبھی تارہ آپا اندر آئ تو انھوں نے پری کے پاس جاکر کچھ کہا مگر پری نے شاید سنا ہی نہیں
یمنا بھی پری کے قریب آئ اور اسے صوفے پر بیٹھنے کا کہا تو زیبا نے یمنا کو گھورا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا تو یمنا بیٹھ گئ جبکہ شاہ زمان پری ہی کی جانب خاموشی سے دیکھ رہے تھے ۔
پری کے دل و دماغ میں بس اسکی تباہی گونج رہی تھی وہاں موجود اسکے اپنے جو پتہ نہیں اپنے تھے بھی یا نہیں کیاں کہہ رہے ہیں کیاں پوچھ رہے ہیں اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔تبھی فہد کی آواز نے اسے اس کشمکش سے باہر نکالا
بیٹا لو اپنے پاپا سے بات کرو جلدی ورنہ پھر سے کال کٹ نہ جاۓ انھیں بتاؤ کہ تمھاری شادی میں وہ آۓ۔۔
وہ کبھی فون کو توکبھی نوفل کو دیکھتی اور اپنےوجود سے اپنی تباہی کی سدائیں سنتی تھک گئ اور آخر جو اسنے کہا اس نے پورے شاہ خاندان کو ہلا کر رکھ دیا۔۔
مجھے یہ شادی نہیں کرنی!!!!!
پری کے یہ الفاظ فون پر احد نے بھی سنے۔
مگر فون کٹ چکا تھا پری کے یہ الفاظ شاہ زمان برداشت نہ کر پاۓ اور ویل چیئر سے گر پڑے تو سب انکی جانب دوڑ پڑے اور پری روتے ہوۓ محل سے باہر نکلی جہاں اسکے ساتھ آسمان بھی رو پڑا تھا اور وہ بھاگتے بھاگتے کہاں جا نے والی تھی اسے نہیں پتہ تھا پھر ایک تصادم اور پری ہوا میں اڑتے ہوۓ کہیں گر چکی تھی
دھواں بناکے فضاء میں اڑا دیا مجھکو
میں جل رہی تھی کسی نے بجھا دیا مجھکو
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!؟؟؟؟؟؟
اینجل رو رہی تھی اور جولی اسے چھپ کرا رہی تھی تبھی دروازہ پہ دستک ہوئ اور وہ دونوں دروازہ کی جانب متوجہ ہوۓ اینجل اب چھپ ہوگئ جولی باہر گئ جہاں زید کھڑا تھا۔
جولی بھائ کی طرف سے سوری کہنے آیا تھا تمھیں پتہ ہے نہ انکے روم میں مجھے بھی جانے کی اجازت نہیں پلیز اسے سمجھا دینا اور تم جانتی ہو بھائ اتنے سخت نہیں ہے بس اپنے روم میں کسی کا دخل برداشت نہیں کرتے اچھا میں چلتا ہوں مگر مجھے کچھ اور بھی جاننا تھا وہ گانا کی آواز !!!
زید کی بات کاٹتے ہوۓ
جولی شروع ہوگئ
وہ گانا ریکارڈ کیا ہوا تھا اصل میں اسی ریکارڈنگ کی وجہ سے ہی سارا مسئلہ ہوا ہے سر کے کمرے کی بالکونی سے آواز کلیئر آرہی ہوگی اسی لیے اینجل اس لیے اینجل اس کمرے میں چلی گئ ہوگی اور میں نے اسے بتایا نہیں تھا کہ سر کے کمرے میں جانا منع ہے مگر اب میں بتا چکی ہوں اب ایسا نہیں ہوگا ۔۔۔
ہممم۔۔۔اوکے تو میں چلتا ہوں بے۔۔۔
زید کے جاتے ہی جولی کمرے میں آئ تو اینجل سو چکی تھی
اوہ میری کیوٹی سوری تمھیں اتنا دکھ ہوا سو جاؤ کل ملے گیں ۔۔
جولی کمرے کی لایئٹ آف کرکے دروازہ بند کرکے چلی گئ جبکہ اینجل اسکے جاتے ہی سسکیاں لینے لگی ۔
شاہ زمان کو دل کا دورہ پڑا تھا جو انکی جان لے گیا انکا غم اور دوسری طرف پری کی گمشدگی ایک ہفتہ ہوچکا تھا مگر پری کی کوئ خبر نہیں تھی اور اس بات کو چھپا کے رکھا تھا تاکہ شاہ خاندان کا نام خراب نہ ہو
چھوٹے شاہ نہر سے ایک لاش ملی ہے کسی لڑکی کی ہے ہم نے آس پاس معلوم کیا ہے مگر کسی کی گمشدگی کی کوئ رپورٹ نہیں ہے سو ہمیں دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ آپکی بھتیجی ہی ہے۔۔
پولیس آفیسر نے سر جھکا کر اپنی بات پوری کی تو فہد پر جیسے پہاڑ آگرا ہو
ثناه بھی اپنے آپ کو کوس رہی تھی جبکہ تارہ آپا کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی تو وہ اپنی بیٹی کے پاس چلی گئ تھی مگر سنبل کا دل نہیں مان رہا تھا
نوفل کو دکھ تو تھاکہ پری کی جان گئ مگر اب وہ اپنے کنسرٹ اور ریکارڈنگ میں مشغول رہنے لگا اور مختلف ممالک میں اسکے شوز ہونے لگے
پری کی موت کو چار سال ہونے والے تھے شاہ خاندان اب بدل گیا تھا فہد کے ساتھ ثناه کو بھی اپنی زہریلی باتیں جو اسنے پری سے کی تھی یاد آتی تو وہ فہد سے لپٹ کر رو پڑتی مگر فہد یہ سمجھتا کہ وہ پری کویاد کرکے روتی کیونکہ ثناه نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا۔۔جبکہ احد کو پری کی موت ایک حادثہ بتائی گئ وہ آیا مگر کسی سے کچھ کہے بنا چلا گیا اسکے دل میں کیا تھا کسی کو نہیں پتہ۔
یمنا اب دبئ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی کیونکہ اسکے ابو کا وہی پہ بزنس سیٹل تھا۔۔
نوفل اس بار کنسرٹ میں کافی نۓ سنگر ہونگے ڈی جیز بھی تو تمھاری تیاری ہر بار کی طرح اوسم ہی ہے نا۔۔؟؟
لبنہ نے نوفل سے کہا تو نوفل جو گٹار پر انگلیاں چلا رہا تھا رکا اور مسکرا کر لبنہ کو دیکھا
جی میڈم بالکل مگر ڈی جے زید سے ذرا ڈرتا ہوں بس مگر اس بار دبئ کنسرٹ میرے نام ہوگا۔۔
نوفل کے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ پھیلی ۔۔۔
!!!!!!!!!!!!!!!؟!؟؟؟؟؟؟؟!!!!!!!!!!؟؟؟؟؟؟
سلونی کسی سر سبز اور خوبصورت پہاڑی پر احد کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ لیے خوش ہے اور احد اس کیلئے کچھ گا رہا ہے جنھیں دور کھڑے ہوکر پری اورنوفل بھی دیکھکر مسکرا کر کبھی ایک دوسرے کو کبھی انکی طرف دیکھ رہے ہیں
راتوں رات تارا کوئ
چاند یا ستارہ کوئ
گرے تو اٹھالینا
او سنیو رے
تارہ چمکیلا ہوگا
چاند شرمیلا ہوگا
نتھ میں لگا لینا
ذرا سی سانولی ہے وہ
ذرا سی باولی ہے وہ
وہ سرمہ کی طرح میرے
آنکھوں میں ہی رہتی ہے
صبح کے خواب سے اڑائ ہے
پلکوں کے پیچھے چھپائی ہے
مانو نہ مانو تم سوتے سوتے خوابوں میں بھی خواب دکھاتی ہے
مانو نہ مانو تم پری ہے وہ پری کی کہانیاں سناتی ہے
اچانک نوفل حقارت سے پری کی طرف دیکھتےہوۓ اپنے ہاتھوں میں کچھ چھپاتے ہوۓ سلونی کی طرف بڑھتا ہے اور اسکے آتے ہی احد سلونی کا ہاتھ چھوڑ کر اس سے دور چلا جاتا ہے سلونی حیرانی سے اسے جاتا ہوا دیکھتی ہے اور جیسے ہی اسکی طرف بڑھنے لگتی ہے نوفل اپنے ہاتھوں میں تھامی ہوئ چیز اسے دکھاتا ہے تو سلونی چیخ کر گر جاتی ہے پری جب یہ دیکھتی ہے تو دوڑتے ہوۓ سلونی کے پاس آتی ہے
ماں!!! ماں!!!!
نوفل کیاں ہوا امی کو کیا ہے تمھارے ہاتھ میں اسے دیکھتے ہی امی گر گئ دکھاؤ مجھے بھی کیا ہے؟؟؟؟
پری نے نوفل کو جھنجوڑتے ہوۓ پوچھا تو نوفل نے اسے خود سے دور کیا ۔
میرے ہاتھ میں وہ ہے جسے دیکھکر تمھاری ماں کو اپنی اوقات یاد آگئ مگر تم شاید بھول گئ ہو چلو تمھاری خواہش پوری کرتا ہو لو دیکھو!!!
نوفل نے نفرت سے اسکی طرف دیکھتے ہوۓ اپنے ہاتھ میں موجود آئینہ پری کو دکھایا تو اسکی آنکھیں ڈر سے پھیل گئ کیونکہ وہاں پری کی بجاۓ کوئ بھیانک چہرہ تھا
نہیں !!نہیں!!!
اینجل چلاتے ہوۓ نیند سے اٹھی تو اسے ہلکی ہلکی گانے کی آواز آرہی تھی اور سامنے آئینہ میں اسے اپنا عکس نظر آیا تو وہ اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرنے لگی اور رونے لگی۔
وہ روتے روتے چھپ ہوئ تو گانے کی آواز پھر سے آنے لگی
اس وقت کون گانے سن رہا ہے جولی آگئ ہوگی میں جاکر دیکھ لیتی ہوں۔۔
جولی آج کسی کام سے ہاسپٹل گئ تھی اور آنے کا کچھ بتایا نہیں تھا آھل بھی گھر پر نہیں تھا اور زید دبئ جانے والا تھا
وہ بستر سے اٹھکر کمرے سے باہر آگئ اور ٹی وی لان میں آئ تو وہاں کوئ نہیں تھا اور ٹی وی بھی بند تھا اسے آواز جس طرف سے آرہی تھی وہ اسی طرف جانے لگی تو اسے ایک کمرے کا دروازہ کھلا نظر آیا وہ کمرے کے قریب گئ تو کسی سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔۔۔
اوہ سوری اینجل تمھیں کچھ چاہیۓ تھا کیاں؟
نہیں میں سمجھی جولی ہوگی سوری میں چلتی ہوں۔۔۔
اینجل نے واپس مڑتے ہوۓ کہا اور جانے لگی
ہممم اوکے۔۔زید اسے جواب دیتا ہوا اپنے کمرے کا دروازہ بند کرتے کرتے رکا
سنو تم بور ہو رہی ہو تو میرا بلوٹوتھ رکھ لو اس میں جولی کے پسند کے گانوں کا میموری کارڈ ہے یہ لو۔۔
زید نے اسے بلوٹوتھ دیا تو اینجل نے لے لیا اور اپنے کمرے میں آگئ
بلوٹوتھ کانوں پہ لگا کر وہ اسے آن کر چکی تھی اور اس میں وہی گانا تھا اور نوفل کی آواز میں تھاجو اسکے خواب میں چل رہا تھا وہ اکثر اپنی ماں کیلئے یہ گانا گاتی اسے لگتا اگر اسکے بابا ہوتے تووہ بھی اسکی ماں کیلۓ ایسا ہی گاتے اور کبھی اپنا اور کسی کا ساتھ سوچتی
زید آھل کو کال کرکے جا چکا تھا کیونکہ اسکے فلائٹ کا ٹائیم ہو گیا تھا اور آھل آنے والا تھا اینجل اپنے کمرے میں گانے سنتے سنتے باہر آئ تو زید کو جاتے ہوۓ دیکھکر کیچن کی طرف گئ اور چاۓ بنانے لگی زید جا چکا تھا اب اینجل چاۓ لیکر ہال میں بیٹھ گئ اور گنگنانے لگی ساتھ اس نے بلوٹوتھ کا والیم بھی بڑھا دیا
آج ہاسپٹل میں آھل کی طبیعت ذرا ڈھل تھی اسی لیے اس نے آفس ورک کیلۓ جولی کو بلایا تھا۔۔
سر آپ چلے جاۓ میں فائیلز دیکھ لونگی آپ کافی دنوں سے سوۓ نہیں ہے زید نے بتایا آپ گھر جاکر آرام کرلیں۔۔۔
آھل واقعی میں بہت تھک چکا تھا۔
اففففففف!!!!
اوکے جولی میں چلتا ہو اگر تمھیں مدد چاہیۓ ہو تو کسی کوبلا لینا ۔۔
آھل اٹھکر جانے لگا تو اسکے موبائل پر میسج آیا
happy birthday bro love u
ur gift is in my room nd im in airport come soon in u۔a۔e
i will wait
آھل مسکرایا اور گھر کی طرف نکل پڑا۔۔
تو ہوا میں زمین
تو جہاں میں وہی
جب اڑے مجھے لیکے کیو اڑتے
نہیں
تو گھٹا میں زمین
تو کہیں میں کہیں
کیو کبھی مجھے لیکے برستے نہیں
ذرا سا سانورا ہے وہ
ذرا سا باؤلہ ہے وہ
وہ سرمہ کی طرح میرے
آنکھوں میں ہی رہتا ہے
اینجل اپنی دھن میں گنگناتے ہوۓ اپنے کمرےمیں چلی گئ اور آھل فون پر زید سے بات کرتے ہوا اپارٹمنٹ میں داخل ہوا
ہاہاہاہا اچھا میں جا رہا ہوں تمھارے روم میں ہاں یار میں ٹینس نہیں ہوگا کیونکہ تم نے اس سے ہر سال میرے برتھ ڈے پہ یہی گفٹ دینے کا وعدہ کیاں تھا مجھے یاد ہے اوہ بھائ یاد ہے بس اگلے ہفتے تک ہم دبئ میں ہونگے اور تیرا کانسرٹ انجواۓ کریگےاوکے اللہ حافظ۔۔
وہ باتیں کرتے کرتے زید کے کمرے میں آکر لیپ ٹاپ آن کرکے سامنے چلنے والی ویڈیو دیکھنے لگا اسکی آنکھیں نم ہوگئ کیونکہ ویڈیو میں سارہ کے ساتھ وہ کسی اسٹیج پر پرفارم کر رہا تھااور اب ہنس پڑا تھا
اینجل بلوٹوتھ رکھ چکی تھی تبھی اسے کسی کے گانے اور قہقہے کی آواز آئ تو وہ باہر آکر آواز کا تعاقب میں زید کے کمرے تک پہنچی جہاں آھل وہی گانا لیپ ٹاپ پر سنکر بے سرا دھرا رہا تھا تو اینجل کی ہنسی چھوٹ گئ ۔آھل نے مڑ کر اسکی طرف دیکھا تو دھنگ رہ گیا وہ ہنستے ہنستے بے اختیار اسکے پاس آئ
اف اتنا بے سرا نہیں میں بتاتی ہوں سنو
جب دانت میں انگلی دباۓ
یا انگلی سے لٹ سلجھا ۓ
بادل یعنی چڑھتا جاۓ
میں یہ سوچوں
کچھ کہہ کے
وہ بات کو ٹالے
جبے ماتھے پہ
وہ بل ڈالے
امبر یہ سڑکتا جاۓ
میں یہ سوچوں
وہ جب ناخن کترتا ہے ۔۔
تو چندا گھٹنے لگتا ہے ۔
وہ پانی پر قدم رکھے
ساگر بھی ہٹ جاتا ہے
اینجل گاتے گاتے رکی اور اب مارے حیرت کے اپنے آس پاس دیکھنی لگی تو اسکی نظر آھل پر پڑی جو لیپ ٹاپ کے قریب ٹیبل پر سر رکھے سو چکا تھا اینجل فوراً وہاں سے بھاگ کر اپنے کمرے میں آئ
یا اللہ یہ میں نے کیا کردیا!!!
اینجل ڈرتے ہوۓ بستر پر گرسی گئ اور کب اسکی آنکھ لگی پتہ نہیں ۔۔۔