سلونی کو یوں icu میں دیکھ کر احد حیران ہو گیا تھا جبکہ احد کی منہ سے سلونی کا نام سن کر شاہ زمان احد کی جانب دیکھنے لگے ۔۔۔۔
احد تم جانتے ہو اس لڑکی کو۔؟؟؟؟شاہ زمان خود کو دیے ہوۓ جھوٹے دلاسے سے شرمسار ہو چکے تھے کیونکہ انکو یہ لگ رہا تھا کہ احد اس لڑکی کو جاننے سے انکار کریگا۔۔۔
جی بابا جب سے یہاں آیا ہوں اسے کئ دفعہ دیکھ چکا ہو اور ۔۔۔
کہتے ہوۓ احد چھپ ہوگیا کیونکہ شاہ زمان کا چہرہ غصہ سے لال ہوچکا تھا۔۔۔
اور کیا ؟؟؟؟؟ شاہ زمان نے اپنا غصہ دباتے ہوۓ اس سے پوچھا۔۔۔
اور یہی بابا کے ہماری کبھی بات نہیں ہوئی اور اکثر نہر کنارے اور لڑ کیوں کے ساتھ نظر آجاتی تھی ۔شاید یہ مجھے جانتی بھی نہ ہو۔۔
اور she is a good singer بابا۔۔۔
احد جان گیا تھا کہ اسکے بابا کیا کیا جاننا چاہ رہے تھے اس لیے سب کچھ بتا دیا۔۔۔
اور شاہ زمان وہی اک کرسی پر بیٹھ گۓ اور انھیں یاد آرہا تھا کہ احد کو music کا شوق ہے مگر انھوں نے کبھی اس بارے میں اسکی حمایت نہیں کی اور اسے میڈیکل کالج بھیج دیا اور وہ کئ سالوں کے بعد ڈاکٹر بن کر واپس آیا تھا اور یہی کسی ہاسپیٹل میں practice جاری رکھنے والا تھا
اور جب سے احد واپس آیا تھا تب سے کئ بار شاہ زمان سے کسی لڑکی کے بارے میں کہتا تھا کہ وہ بہت اچھا گانا گا تی اور اکثر نہر کنارے نظر آتی ہے رنگ سانولہ مگر آواز غضب کی اور فہد نے بتایا تھا کہ وہ بنجارے ہے جو کبھی اس گاؤں تو کبھی دوسرے گاؤں آتے جاتے رہتے ہے فصل کی کٹائ میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور اپنا معاؤضہ لیکر پھر کئ اور کا ٹھکانہ کرتے ہے۔۔۔۔
شاہ زمان کافی دیر تک یونہی خاموش تھے ۔۔احد اب تک بھی کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا تبھی فہد روم میں آیا ۔۔
بابا ساری formalities پوری ہو چکی ہے اور کیا ہم چلنے کی تیاری کریں ۔۔۔
شاہ زمان نے ایک لمبی سانس لی اور ہاں میں سر ہلایا ۔
تبھی ڈاکٹر کمرے میں آیا اور اک نرس بھی ۔۔۔
نرس سانولی کے ڈرپ وغیرہ ہٹان لگی جسکی وجہ سے سانولی ہوش میں آنے لگی وہ دواؤں کے اثر سے سو گئ تھی ۔۔۔
اور اسطرف ڈاکٹر احد سے مخاطب ہوا۔۔۔
جی ڈاکٹر احد اب اس patient کیcare آپ کریگے اور میں بہت فخر محسوس کر رہا ہو آپ کیلۓ کیونکہ آج کے دور تو it is impossibe l خیر یہ ہے انکی case fileاور آپ کو کوئ کام ہو تو آپ مجھے کال کر سکتے ہے میرا نمبر بھی فاءل پہ ہے ok میں اب اجازت چاہتا ہو میرے مریض انتظار کر رہے ہیں۔۔۔
ڈاکٹر یہ کہہ کر چلا گیا احد کو اسکی کہی کوئ بات سمجھ نہ آئ
پھر اسنے فاءل کی جانب دیکھ کر اسے کھولا اور جو اسنےجو پڑھا اسے ایسا لگا جیسے وہ ابھی گر جاۓ گا بس اس ایک لفظ کے علاوہ اسے کچھ نظر ہی نہ آیا
mrs aahil
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!""""""""""""""!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
ڈاکٹر آھل اب ہاسپٹل سے گھر آچکے تھے اور اپنے کمرے میں جانے کے بجاۓ لان میں ہی بینچ پر بیٹھ گۓ
ملازم انکی طرف آنے لگا تو اس نےاشارے سے منع کیا مگر پھر کچھ یاد آنے پر میر کو بلانے کا کہا
میر آچکا تھا اور اب سارا گزرا ہوا واقعہ آھل کے پوچھنے پر بتا رہا تھا۔۔
اسوقت زید کہا ہے؟؟آھل نے میر سے پوچھا سر packing کے بعد میں انکے روم سے باہر آگیا تھا وہ روم میں ہی ہوگے۔میر نے جواب دیا۔
اچھا تم جاؤ اور کل تم خود اسے airport ڈراپ کرنا میری دو گھنٹے بعد کی flight ہے اسلیے excuse۔
اپنی بات مکمل کرکے وہ جانے لگا کیونکہ اسے پتہ تھا میر اس لڑکی کا ذکر کرے گا اور وہ اس بارے میں کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
آھل اپنے روم میں آیا اور لاءٹ آن کرکے سامنے دیکھ کر مسکرانے لگا
ابھی تک سوئ نہیں آپ اچھا اچھا im sorry بس جب دیکھو اپنی بات منواتی ہو اچھا تو پھر میں ready ہو جاؤ مجھے جانا ہے
کیا نہیں بتاؤ گا surprise!!!!!
کہہ کر وہ changing room چلا گیا اور کچھ دیر بعد تیار ہوکر باہر آیا وہ واقعی ایک حقیقی gentle man لگتا تھا
اس نے اپنا briefcase لیکر سارے ضروری documents چیک کیے اور اب گھڑی پہ ٹاءم دیکھ کر باہر جانے لگا پھر کچھ یاد آنے پر رکا اور پیچھے مڑ کر دیوار پر موجود ایک بڑے سے photo frame کے پاس گیا اور اسے بغیر پلکیں جپکاؐۓ دیکھنے لگا اسکی خوبصورت آنکھوں میں آنسو آنے لگے
i still miss u still need u still love u Sara
کہہ کر اس تصویر پر اپنا ہاتھ پھیرا جو اک بہت خوبصورت لڑکی کی تھی قدرت کا شاہکار کہے تو غلط نہ ہوگا۔۔اور کمرے سے باہر آگیا جہاں زید اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔
زید کو دیکھ کر بھی وہ روکا نہیں اور آگے بڑھنے لگا تو زید جلدی سے اسکے پیچھے آیا
بھائ میری بات سنے میری کوئ غلطی نہیں تھی وہ اچانک سے ۔۔۔۔۔
بس زید ۔۔۔۔!!!!!!زید کی بات کاٹتے ہوۓ وہ بیزاری سے بولا
میری فلاءٹ کا ٹاءم ہو رہا ہے so plz excuse me
یہ سنکر زید چھپ ہوگیا ۔
پچھلے سال آج کے دن کیا ہوا بھول گۓ ہو شاید۔۔۔آھل نے کہا ۔۔۔
احد کا سر بے چینی اور برداشت ختم ہونے کی وجہ سے چکرا رہا تھا۔
سلونی ہوش میں آچکی تھی
اس کے دادا اور دادی اس کے پاس آکر کھڑے تھے ۔۔نرس اسے ریڈی کرکے جا چکی تھی ۔۔۔
شاہ زمان آگے آۓ اور سلونی کے سر پہ شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوۓ کہنے لگے۔۔۔
بیٹا ہم جا رہے ہیں ہمارے گھر یاد ہے نہ میرا کیا ہوا وعدہ آج آپکا نکاح ہے چلو شاباش جلدی کرو چلتے ہیں ۔احد آگے آؤ ۔۔۔
وہ بابا احد نیچھے چلا گیا ہے گاڑی نکالنے اور ambulance بھی آچکی ہے تو چلے۔۔۔
فہد احد کو جاتے ہوۓ دیکھ چکا تھا مگر اس وقت وہ اسے روک کر مزید تماشہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔نہیں ambulance نہیں گھر سے ہم دوسری گاڑی کو پیچھے آنے کا کہہ چکے تھے ۔چلے سب۔۔۔
احد ہسپتال سے باہر آکر اپنا سر پکڑے وہی دیوار کی آڑ لیکر ٹیک لگا کر سوچو میں غرق تھا۔۔۔
تبھی فہد ان سب کو لفٹ کے پاس بٹھا کر گاڑی نکالنے کے بہانے باہر آگیا تھا۔۔
احد کیا ہوا تمھیں ؟؟
کیا ہونا چاہیۓمجھے ہاں جس کی زندگی کا ایسا مزاق اسکے اپنےہی بنا رہے ہیں۔۔۔احد چلا رہا تھا۔۔
اچھا تمھیں اب بھی لگتا ہے کہ بابا غلط ہے اس لڑکی کو دیکھنے بعد بھی ۔۔
کیا مطلب آپکا بھائ؟؟
مطلب تو تمھیں بتانا چاہیے کہ تمھیں یہ سب غلط کیو لگ رہا ہےاحد!!!جو کچھ تم نے کیا بابا تو شاید مر جاتے مگر وہ تو انکے احسانات کو دیکھ کر کسی نے کوئ غلط حرکت نہیں کی ہمارے خلاف ۔۔۔تمھاری بے وقوفی اور بے وجہ غصہ ہمیں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑتا۔۔
بھائ آپ سیدھی طرح بتاۓ گے یا ایسے ہی کہانیاں سناۓ گیں۔۔۔۔
اوہ تو تمھیں واقعی میری بات سمجھ نہیں آرہی ہے تو سنو احد بے شرم نا مرد how dare u to rape her!!!!! فہد نے غصہ سے کہا اور احد کا یہ سننس تھا کہ وہ سکتے میں آکر اپنے آپ کو ہی بھول گیا اور آہستہ آہستہ نہیں نہیں کہنا شروع ہوا وہ شاید رو پڑتا یا فہد پر ٹوٹ پڑتا مگر کسی لڑکی کی چیخ سن کر دونوں بھائ اسی طرف مڑے ۔۔
یہ سلونی تھی جو احد کو دیکھتے ہی آپے سے باہرہوگئ تھی اور خوف سے چیخنا شروع ہوگئ جبکہ اسطرح دیکھ کر شاہ عالم گبھرا گۓ
شاہ عالم کی گبھراہٹ دیکھ کر فہد آگے بڑھا مگر اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کرے
سلونیکے دادا دادی بھی پریشان ہوکر ا سے سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے مگر سلونی اب مارے ڈر کے کانپنے لگی تھی
فہد شاہ زمان کی حالت دیکھ کر مزید پریشان ہو رہا تھا تبھی اس نے مڑ کر احد کی طرف دیکھا کہ اسے مدد کیلۓآواز دے مگر احد کو دیکھ کر وہ گبھرا گیا کیونکہ احد غصہ سے لال ہوکر انکی طرف ہی بڑھ رہا تھا
!!!!!!!!!!!""""""""""!!!!!!!!!!!!!""""""""""!!!!!!!!!!
آھل اب جاپان میں اپنے انسٹیٹیوٹ کے کانفرس روم میں موجود دنیا کے مختلف ممالک سے آۓ ہوۓ ڈاکٹروں اور اپنے پرٹنرز کے ساتھ کسی میٹنگ میں مصروف تھا جو ختم ہونے والی تھی ۔۔
تبھی روم کے باہر سے کوئی ڈاکٹر آیا اور آھل کے کان میں کوئی سرگوشی کی جسے سننے کے بعد آھل نے اس سے کچھ کہا اور وہ yes sir کہتا روم سے باہر چلا گیا۔کچھ دیر میں ہی میٹنگ ختم ہو گئی تو آھل اپنی نشست سے اٹھا اور سب سے مخاطب ہوا
ok gentlemen i hope u all keep ur support with each other as u r still keeping have ur dinner plz i have an other meeting so plz excuse me ۔۔۔
آھل اب روم سے باہر آکر آپریشن تیٹھر کی جانب جا رہا تھا جہاں دنیا کے نامی گرامی plastic surgeons کسی لڑکی کو examine کر رہے تھے جو آھل کے ہاسپٹل سے یہاں آئ تھی
آھل پورے ot dress میں تیٹھر کے اندر داخل ہوا اور زور آواز میں سب سے مخاطب ہوا۔۔۔
ok than shall we start ????
سبھی نے آھل کو دیکھ کر yes کہا اور ایک طویل آپریشن اب شروع ہو چکا تھا ۔
دوسری طرف زید دبئی پہنچ چکا تھا اور میر جسے آھل نے اس لڑکی کے گھر والوں کے بارے میں پتہ کرنے کا کہا تھا وہ فون پہ کسی کو بتا رہا تھا کہ سر میں نے آس پا س پتہ کر لیا ہے ہر ذراءع سے مگر کسی بھی لڑکی کی لاپتہ ہونے کی کوئی خبر نہیں
ok میر thanks زید ٹھیک تھا جاتے ہوۓ؟!
جی آھل سر بس خاموش تھے ۔
اچھا کوئ خبر ملے تو بتا دینا bye کہہ کر آھل نے کال کاٹ دی تھی اور اب دوبارہ تھیٹر کی جانب چل دیا جہاں کئی گھنٹوں سے آپریشن جاری تھا۔
اندر آتے ہی ایک ڈاکٹر اس سے مخاطب ہوا ۔۔۔
sir now its shape time so plz ۔۔۔
تب آھل نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور اپنی فاءل سے ایک تصویر نکالی اور ڈاکٹر کو دکھا کر سکرین پر لگاتے ہوۓ تصویر کے پیچھے کی عبارت پڑھنے لگا love u Aahil from sara
کافی دیر آپریشن چلا اسکے بعد وہ اپنے کیبن میں بیٹھا آگے کے procedure کے بارے میں کال پہ کسی سے بات کر رہا تھا تبھی intercome پہ کال آئ جسے اس نے جلدی اٹھایا ۔۔
ھیلو ۔۔
ڈاکٹر آپ پلیز جلدی روم میں آ ۓ میں اسے کنٹرول نہیں کر پا رہی۔۔۔نرس نے کہا
کیا اتنی جلدی ہوش میں آگئ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا ۔۔
احد کو غصہ میں سلونی کی آتا ہوا دیکھکر فہد ڈر گیا تھا تبھی شاہ زمان کی بھی اس پر نظر پڑی مگر وہ یہ دیکھ کر خوش ہوۓکہ احد سلونی کے پاس پہنچتے ہی سلونی کا ہاتھ تھا مے اسے سمجھانے لگا تھا۔
سلونی سلونی چھپ ہو جاؤ ٹھیک ہے دیکھو سب ہماری طرف ہی دیکھ رہے ہیں ۔۔۔دیکھو تمھاری دادی کی طرف اور دادا کی طرف کتنے پریشان ہو رہے ہیں۔۔۔ہمارے پاس وقت نہیں ہیں بہت سارے کام ہیں گھر پہ آج ہمارا نکاح ہے تو please چھپ ہوکر چلو میرے ساتھ اور گاڑی میں چل کر بیٹھو۔۔
سلونی جو احد کو اپنے طرف آتا دیکھتی ہی کانپنے لگی تھی مگر چلانا بند کرگئ تھی احد کے اس انداز سے بات کرنے پر بس اسی کی طرف نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی
احد نے سلونی کا ہاتھ پکڑا اور اسے گاڑی میں بٹھانے لگا اور سلونی اب ہچکیاں لیتی ہوئ اس کے ساتھ گاڑی تک آئی اور گاڑی میں بیٹھ گئ ۔۔۔
سلونی کے بیٹھتے ہی سلونی کے دادا اور دادی کو بھی فہد گاڑی میں بیٹھنے کا کہہ کر شاہ زمان سے مخاطب ہوا۔۔۔۔
بابا آپ کی طبیعت ٹھیک ہے یا ڈاکٹر کو بلوا لو؟؟
شاہ زمان نے ایک گہری سانس لی اور نفی میں سر ہلاتے ہوۓ آہستہ سے اٹھے اور دوسری گاڑی کی طرف بڑھے مگر احد کو پہلے سے ہی گاڑی میں دیکھ کر دونوں حیران ہوۓ ۔۔۔
اس سے پہلے کے شاہ زمان یا فہد کچھ پوچھتے احد ان سے مخاطب ہوا۔۔۔
بابا مجھے بس کچھ جاننا ہے میں دو گھنٹے میں گھر پر ہی ہوگا آپ لوگ سارے انتظامات کر لے ۔۔۔
یہ کہہ کر احد گاڑی تیز چلاتا ہوا وہاں سے نکل گیا اور فہد نے دوسری گاڑی جس میں سلونی اور اسکے دادا دادی تھے کی ڈراءیونگ سیٹ سنبھالی اور شاہ زمان کے بیٹھتے ہی شاہ محل کی جانب گاڑی چلا دی۔۔۔
احد گاڑی چلاتے ہوۓ مسلسل کسی سے بات کر رہا تھا ۔۔۔ok than tomorrow is done right bye۔۔
کہہ کر اس نے فون بند کیا اور ایک بنگلہ کے باہر گاڑی روک دی ۔۔۔گاڑی سے اترنے کے بعد وہ بنگلہ کی جانب بڑھا گیٹ کھلا ہونے کی وجہ سے وہ اندر داخل ہوا اور سیدھا بنگلہ کے اندر صحن تک پہنچ گیا جہاں تین چار لڑکے ٹی وی پر کوئ میچ دیکھ رہے تھے ۔۔۔
احد ان میں سے ایک لڑکے کی طرف غصہ سے بڑھا اور اس کے قریب پہنچتے ہی اسکا کالر پکڑ کر اسے سامنے کھڑا کر دیا ۔۔۔
اچانک اس پکڑ وہ بوکھلا کر رہ گیا اور باوی لڑکے بھی اب کھڑے ہو گۓ تھے ۔۔۔
اس دن پارٹی میں تو نے میرے ڈرنک میں وہ غلاظت ملائ تھی کہ نہیں سعد۔۔۔۔؟؟؟؟احد غصہ سے لال ہوتا ہوا پوچھ رہا تھا ۔۔
احد کو سب ہی جانتے تھے کہ اس کے غصہ کے آگے کسی کا کچھ بھی نہیں چلتا اس لۓ باقی سب تماشائی بنے چھپ چھاپ کھڑے تھے جبکہ سعد کا تو خون بھی خشک ہو گیا تھا۔۔۔
میں نے تم سے کیا پوچھا سعد ہاں یا نہ میں جواب دو۔۔۔
سعد جو بس کانپ رہا تھا مگر کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا احد کو پٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
احد سے اسکی خاموشی برداشت کرنا ناممکن تھا اسکا ضبط جواب دیچکا تھا ۔۔۔احد نے ایک زور دار مکا سعد کے منہ دے مارا جس کی وجہ سے سعد دور جا گرا ۔۔احد اسکی طرف دوبارہ بھڑنے ہی لگاتھا کہ سعد وہی گرے ہوۓ ہی احد سے مخاطب ہوا ۔۔۔ارے آحد یار غلطی سے وہ ڈرنک تیرے پاس آگئ تھی تجھے پتہ تو ہے نہ پھر کیو مار رہا ہے تیرا ہی تو پلین تھا اس فہیم کو تنگ کرنے کا مگر غلطی وہ ڈرنک تو نے پی لی۔۔۔پھر !!!!یہ کہہ کر وہ چھپ ہوا تو احد اسکی طرف تیزی سے بڑھا۔۔۔۔۔
پھر کیا بتا مجھے تیرا چھپ ہونا مجھے کچھ غلط کےنے پر مجبور کر رہا ہے۔۔۔احد نے اسکی گردن دباتے ہوۓ کہا ۔۔۔
گلا چھوڑ بتا نے دے۔۔۔سعد نے دبی ہوئ آواز میں کہا تو احد نے اسکا گلا چھوڑتے ہوۓ اسے لیکر صوفے پہ بیٹھا اور اشارے سے اسے بات جاری کرنے کا کہا۔۔۔
سعد بولنے لگا۔۔۔وہ ڈرنک کے بعد جب تیری طبیعت خراب ہونے لگی تب ہم سمجھ گۓ کہ وہ ڈرنک غلطی سے تو نے پی لی ہے تو ہم نے فہد کو فون کیا مگر وہ شہر سے باہر گیا ہوا تھا تو اس نے ہم سے کہا تجھے گھر چھوڑنے کیلۓ ہم یہاں سے نکلے تو راستہ میں گاڑی کا فیول ختم ہوا تو میں اور عمر فیول لینے نکلے اور تو گاڑی میں ہی نیم بے ہوش تھا ۔۔۔ہم جب واپس آۓ تو اسد گاڑی کے پاس پریشان ٹہل رہا تھا ۔۔پوچھنے پر اس نے بتایا کہ تو اسی لڑکی کی گانے کے آواز سن کر گاڑی سے نکل کر جنگل کی طرف جانے لگا اسد کے روکنے پر تو اسے وہی دکھیل کر چلا گیا اور وہ اندھیرے سے ڈر کر تیرے پیچھے نہیں آیا ہم نے دوبارہ فہد کو فون کیا مگر فون تیرے بابا کے پاس تھا تھااور ہم نے آواز پہچانے بغیر ساری بات کہدی جلد ہی وہ لوگ پہنچ گۓ پھر ہمارے ساتھ تجھے ڈھونڈنے لگے پھر تمھیں نہر کے قریب بڑبڑاتے ہوۓ سن کر وہاں پہنچے تو۔۔۔۔سعد کے اتنا کہتے ہی احد نے اس کے منہ پر ایک زوردار تپھڑ مارا ۔۔۔اور وہاں سے نکل گیا۔۔۔
!!!!!!!!!!!!!!!!!:::::::::::::::!!!!!!!!!!!!!!!!!:::::؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
آھل بھاگتا ہوا اس کمرے کی جانب گیا جہاں سے نرس کی کال آئ تھی ۔۔
پلیز آپ بات سنے ایسے نہ کریں آپ کے کےزخم ابھی تازہ ہیں پلیز میرے ساتھ co operate کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔نرس اسے مسلسل پکڑے ہوئ تھی جو جب سے ہوش میں آئ تھی انجان جگہ اور نرس کی اور پورے چہرے کے گرد لپٹی پٹیوں سے گبھرائ ہوئ اپنی پٹیاں نوچ کر نکالنا چاہتی تھی۔۔۔۔
مگر نرس اسے کنٹرول نہیں کر سک رہی تھی ۔تبھی کمرے کا دروازہ جھٹکے سے کھلا ۔۔۔۔
whats happening here???
آواز سنتے ہی دونوں اسی جانب دیکھنے لگے
نرس کو ذرا تسلی ہوئ کیونکہ وہ جو کب سے نرس کے قابو میں نہیں آ رہی تھی اچانک منجمد ہوگئ ۔۔
وہ اپنے کے لپٹی ہوئ پٹیوں پر آنکھوں کے لۓ چھوڑے ہوۓ holes سے اسے دیکھ رہی تھی کیونکہ اسے یہ آواز شناسا لگی اسے ایسالگا اس نے یہ آواز پہلے بھی سنی ہے ۔
یہ ڈاکٹر آھل تھے وہ جلدی اسکے قریب آیا اور اسے غور دیکھنے لگا
is dressing ok or !!!!
آھل کی کی بات پوری ہونے سے پہلے نرس بولنے لگی ۔۔۔۔
جی نہیں سر پٹی ٹھیک ہے میں نے اسے ہاتھ لگانے نہیں دیا ڈاکٹر
ok ok
دیکھے مس جو بھی آپکا نام ہے پلیز آپ relax رہیں ہم آپکے ساتھ کچھ غلط نہیں کر رہے یہ زور زبردستی بہت نقصان دہ ہے آپ کیلئے تو آپ آرام سے لیٹے اور ان نرس کو اپنا کام کرنے دیں یہ ہمیشہ آپ کے پاس رہے گی آپ کو جو کہنا ہو آپ ان سے کہہ سکتی ہے ok
پھر آھل نرس کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہ انجیکشن آھل کو پکڑا دیتی ہے ۔۔۔
ہم آپ کے گھر والوں کو تلاش کر رےیں ہیں جب تک انکا پتہ نہیں چلتا ہمیں ہی اپنی family سمجھو ok
آھل بات کرتے ہوۓ اسے نیند کا انجکشن لگا دیتا ہے جبکہ وہ آھل کی باتوں کو کچھ سمجھ اور کچھ نہ سمجھتے ہوۓ بس اسی کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے اور نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہے
اسکی آنکھیں بند ہوتے ہی آھل غصہ سے نرس کی طرف دیکھتا ہے
تمھیں پتہ ہے نہ نرس جولی کہ اسکا کیس کتنا critical ہے اگلے 48 گھنٹوں تک اسے ہوش نہیں آنا چاہیۓ got it
جی ڈاکٹر آیندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔۔
آھل کے جاتے ہی نرس وہی بینچ پر بیٹھ جاتی ہے اور گہری سانس لیتی ہے
بچ بچ گۓ ورنہ آج تو مر جاتی میں ۔۔۔پھر جیب سے یہنڈ فری نکال کر کانوں میں ڈالتی ہے اور
موباءیل کی اسکرین کو اسکرول کرتی ایک گانے کو چلاتی ہے۔۔۔۔
ہاۓ کیا آواز ہے اگر ڈاکٹر بھی سنے گے تو افففففففف۔۔۔چلو ایک سرا اس لڑکی کے کان میں ڈال دیتی ہوں دیکھنا سکون سے سوئ رہیگی ۔
اس کے کان میں ہینڈ فری لگا کر وہ song play کر دیتی ہے اور گانا چلتے ہی جھوم کر اسکرین پر آۓ سنگر کی تصویر کو چھومتی ہے ہاۓ میں تمھاری بڑی فین ہو نوفل۔۔۔!!!!!!
جبکہ بے ہوش ہوکر اسے وہ آواز سنائی دیتی ہے مگر وہ کچھ کر نہیں پاتی اور آنسو کا ایک قطرہ اسکی آنکھ سے بہہ جاتا ہے جس جولی بے خبر گانے میں کھوئی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔