احد پری کو آواز دیتا ہوا اسکے کمرے میں آیا تھا ۔
پری بیٹا چلو جلدی کرو سب تیار ہے شاپنگ پر جانا ہے لیٹ ہو رہا ہے ہمیں ۔
نہیں بابا میرا دل نہیں کر رہا اور مجھے نیند بھی آرہی ہے رات کو ٹھیک طرح سوئ نہیں تھی۔
پری نے بہانہ بناتے ہوۓ کہا۔
اوکے بیٹا کوئ بات نہیں اپنا ہاتھ دو۔
پری نے نا سمجھی میں اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو احد نے اپنی انگھوٹی سے اسکے کڑھے کا لاک کھولا جس پر پری اب احد کی جانب دیکھنے لگی تھی۔
وہ بیٹا میری انگھوٹی اب تمھارے دولہے کے سائز کی بنوا رہا ہوں اور کڑھا پالش کروا لونگا کیونکہ اب اس پر اسکا حق ہے ۔
پری اب روتے ہوۓ احد کے گلے لگی تھی
بابا پلیز ایسی باتیں مت کرے
نہیں بیٹا چھپ کرو ورنہ میں بھی رو دوں گا۔
احد کی بات سنتے ہی پری چھپ ہوگئ تھی ۔۔
احد کے جانے کے بعد پری بیڈ پر لیٹے سوچ رہی تھی۔
میری شادی سے یمنا اور نوفل خوش رہے گے تائی خوش ہوگی اور بابا تو سب سے زیادہ مگر میں کیا میں خوش ہوں ۔مجھے اپنی خوشی بابا کی خوشی میں نظر آتی ہے ۔بس بابا خوش تو میں بھی خوش۔
پری اپنے َآپ کو خود منا رہی تھی مگر اسکا دل کچھ اور ہی چاہ رہا تھا جو وہ اپنے دل میں دبا کر رکھنا چاہتی تھی مگر وہ نہیں کر پا رہی تھی۔۔
وہ رونا چاہ رہی تھی مگر کیو اسے خود نہیں پتہ تھا۔
آھل!!
یہ نام لیتے ہی اسکی پلکیں بھیگ گئ تھی۔
آپ نے مجھے مانگا کیوں نہیں بابا سے آھل کہاں ہے آپ ؟؟؟
وہ تکیے میں منہ دیۓ رو رہی تھی اور کب سوئی کچھ پتہ نہیں ۔۔
لبنہ پیلے سوٹ میں مایو کی رسم کے بعد جولی کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔
کتنا مزہ آرہا ہے نا لبنہ پاکستانی ویڈنگ میں۔
جولی کی بات پر لبنہ ہنسنے لگی تھی۔
ہاں مگر سب اتنی جلدی ہو رہا ہے مایو اور رات کو ہی مہندی اور کل نکاح کہ مام کو آنے ہی نہیں ہوا اچانک ہی چیسٹ پین سے انھیں واپس گھر جانا پڑ گیا اور اب تو وہ آہی نہیں سکے گی ڈاکٹر نےمنع کردیا ہے۔
لبنہ افسردگی سے کہہ رہی تھی۔
تبھی جولی اسکے قریب ہوتے ہوۓ بولی۔
ارے ہم سب ہے نا کیوں ٹینشن لیتی ہو۔چلو ابھی مہندی کی رسم شروع ہوگی پارلر سے لڑکیاں بھی آچکی ہے ۔۔
جولی کی بات سنکر لبنہ اٹھ کر چینج کرنے چلی گئ تھی۔
نواب ہاؤس میں کافی رونق تھی جن میں سے اکثر احد اور آھل کے کولیگ تھے بزنس پارٹنر اور رشتہ دار زیادہ نہیں تھے
آھل اور زید بس دو بھائ تھے انکے والدین بھی اکلوتے تھے اور اب اس دنیا میں نہیں تھے مگر ان دونوں کیلیے کافی جائداد چھوڑ گۓ تھے ۔لیکن آج دونوں بھائیوں کو انکی کمی کا احساس ہو رہا تھا۔
ایونٹ آرگانائزر نے سب اچھے سے ارینج کر رکھا تھا ۔نواب ہاؤس کے بیک سائیڈ پر مہندی کا فنکشن رکھا گیا تھا جہاں صرف لیڈیز ہی تھی اور جینٹس سارے دوسری طرف تھے ۔
زید نے بہت کوشش کی تھی کہ لبنہ کو ایک نظر دیکھ لے مگر جولی نے اسے کوئ موقع نہیں دیا تھا اور وہ ہر بار جولی کو دیکھ کر اسے کھا جانے والی نظروں کا نظارہ کراتا اور جولی اس پر ترس کھانے جیسا چہرہ بناتی ۔۔۔
زید نے آھل کے کسی کولیگ کے پوچھنے پر آھل کو اسکے کمرے میں دیکھنا گیا تو وہ وہاں موجود نہیں تھا جس پر زید ذرا فکر مند ہوا۔
اب بھائی اس وقت کہاں گۓ۔۔؟؟؟
پری اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے ہاتھوں کی مہندی کا رنگ دیکھ رہی تھی اسکے پاس بیٹھی یمنا بولی۔۔
پری تمھاری مہندی کا رنگ تو بڑا گہرا آیا ہے لگتا ہے تمھارے وہ بہت چاہ سے رکھے گا تمھیں ۔۔
یمنا کی بات کا پری نے کوئ جواب نہیں دیا تھا ۔تبھی ملازمہ یمنا کو کسی کام سے بلانے آئ تو یمنا وہاں چلی گئ ۔۔
گانے کی آوازیں پری کے کمرے میں آرہی تھی جو گارڈن میں لڑکیوں نے چلاۓ ہوۓ تھے ۔شاہ پیلس بھی مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔
پری یمنا کے جانے کے کچھ دیر بعد اٹھ کر ڈریسنگ کی جانب جانے لگی تو دروازہ پر دستک کی آواز پر رکی۔
پری !!!
نوفل کی آواز سنکر پری وہی منجمد ہو کر رہ گئی تھی وہ مڑ کر اسکی طرف دیکھ بھی نہیں پا رہی تھی۔
پری !!سوری شاید مجھے اسطرح یہاں نہیں آنا چاہیۓ تھا مگر میں دل کے ہاتھوں مجبور ہوگیا ہوں ۔میں یمنا سے شادی تو کر چکا ہوں مگر اسے اپنا نہیں پا رہا میں تمھیں بھول نہیں پا رہا پلیز مجھے غلط مت سمجھنا مگر میں تمھاری حالت بھی سمجھ چکا ہوں کہ تم اس شادی سے خوش نہیں ہو اب بھی وقت ہے تم کہو تو اب بھی کچھ بھگڑا نہیں ہے سب ٹھیک ہوسکتا ہے پری میں !!
نوفل کی بات کاٹتے ہوۓ پری بغیر مڑے بول پڑی تھی ۔
رکو نوفل !!!
پری نے اسے بولنے سے روکا اور گہرا سانس لیا جسکے ساتھ اسکی آنکھوں سے اب آنسو بھی بہنے لگے تھے۔
پتہ ہے نوفل تم بہت خوش قسمت ہو کیونکہ تمھارے معاملے میں یمنا اور مجھے ہم دونوں کو ہمارے بڑوں نے بچپن سے ہی یہ بتا رکھا تھا کہ ہم تم سے منسلک ہے اور تمھیں بتاۓ بغیر دو لوگ تمھیں اپنا مستقبل ماننے لگے تھے مگر یہ ہمارے بڑوں کی غلطی تھی انھیں اسطرح پوچھے بغیر فیصلے نہیں کرنے چاہیۓ دیکھوں ہم سب کتنی تکلیف سے گزرے یمنا مجھ سے سبقت لے گئ کیونکہ تم نے اسے کبھی انکار نہیں کیا مگر مجھے تو صاف لفظوں میں ٹکرایا تھا اور تو اورتائ کی پسند بھی یمنا ہے تو پھر تمھیں انکی پسند کا احترام کرنا چاہیۓ تمھارے کسی بھی فیصلے سے دکھ کتنوں کو ہوگا اور خوشی کتنوں کو ۔
پری بولتے بولتے رکی تھی اور اپنے آنسو پونچھتے ہوۓ دوبارہ بولنے لگی۔
ماں باپ کی قدر کرو یہ عظیم تحفہ قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے یقین مانو نوفل اس حادثہ کے بعد میں تمھیں نہیں بھولی تھی مگر کچھ عرصے بعد میں سب بھلانے لگی تھی یقین مانو تمھاری نکاح سے زیادہ آج مجھے اسکے نکاح ہونے کا دکھ ہے درد ہے تکلیف ہے۔۔ اب تم نہیں ہو میرے دل میں یہاں کوئ اور ہے مگر میرے لیے میرے بابا کی خوشی سے زیادہ کسی کی خوشی معنی نہیں رکھتی جاؤ نوفل جاؤ تمھیں وہ حاصل ہے جو تم پر مرتا ہے میں نے یمنا کی آنکھوں میں وہ سب دیکھا ہے جو تم مجھ سے طلب کر رہے ہو مگر میرے دل میں تمھارے لیے اب کچھ نہیں ہے پلیز نوفل پیار اس سے کرو جو تم سے پیار کرے اپنی خوشیاں سنبھال لو کہیں میری طرح دیر نہ کردینا پلیز جاؤ ۔
۔پری نے ایک ہی سانس میں ساری بات کہی تھی اور ڈریسنگ کی طرف بڑھ گئی اسے جاتا دیکھ کر نوفل بھی بوجل قدموں سے باہر کی طرف چلا گیا تھا جہاں یمنا کے علاوہ کوئ اور بھی یہ ساری باتیں سن چکا تھا۔۔
زید نے بہت کوشش کی مگر لبنہ کو دیکھ نا سکا مگر رات ہوتے ہی جب سارے مہمان ایک طرف ہوۓ تو وہ سب سے نظر چراکر لبنہ کے کمرے کی طرف گیا مگر سیڑهیاں چڑھتے ہوۓ جولی نے اسے دیکھ کر اسے واپس بھگا دیا تھا۔
جولی کو میں کبھی معاف نہیں کرو گا چلو اپنا غم بھائ سے ہی شیئر کرتا ہوں۔
زید نے رونی صورت بنا کر آھل کا نمبر ملایا جو آف تھا۔۔۔
نوفل کے جاتے ہی پری ڈریسنگ سے بغیر چینج کیے باہر آئ وہ سفید رنگ کے لہنگے میں بہت پیاری لگ رہی تھی وہ کمرے کی لائیٹ آف کرکے بیڈ پر لیٹ گئی تھی کہ نیچھے چلنے والے گانے سے اسکی آنکھوں میں آھل کا چہرہ لہرانے لگا۔۔
جانم دیکھ لو مٹ گئی دوریاں
میں یہاں ہوں یہاں ہوں یہاں
کیسی سرحدیں کیسی مجبوریاں
میں یہاں ہوں یہاں ہوں یہاں۔
وہ آنکھیں بند کیے آھل کو محسوس کر رہی تھی۔۔
وہ آھل کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی اور اٹھکر کھڑکی کی جانب آنے لگی تھی کہ کسی نے اسکا ہاتھ تھام لیا ۔وہ چیخنے لگی تھی کہ اسکے لبو پر اسنے ہاتھ رکھ لیا۔۔۔
ششششش۔
اندھیرے میں اسکا وجود پری کو صحیح نظر نہیں آیا مگر آنکھیں جو برقی قمقموں کی مدھم روشنی میں وہ پہچان چکی تھی اسلۓ اب کوئ مذاہمت کرنے کے بجاۓ وہ بغیر پلکے جھپکاۓ ان آنکھوں کو دیکھ رہی تھی۔
تم چھپا نا سکوں گی میں وہ راز ہوں
تم بھلا نا سکوں گی وہ انداز ہوں
میں تمھارے ہر ایک خواب میں ہوں بسا
میں تمھارے نظر کے اجالوں میں ہوں
میں ہی میں اب تمھارے خیالوں میں ہوں
میں سوالوں میں ہوں میں جوابوں میں ہوں
گونجتاہوں جو دل میں تو حیران ہو کیوں
میں تمھارے ہی دل کی تو آواز ہوں۔۔
سن سکو تو سنو دھڑکنوں کی زباں
میں یہاں ہوں یہاں ہوں یہاں
وہ اب اسکا ہاتھ تھامے اسے بیڈ تک لایا تھا اور کمفرٹر اڑھانے لگا اور خود اسکا ہاتھ تھامے بیڈ سے نیچھے اسکے چہرے کو آنکھوں سے تکتے ہوۓبیٹھ گیا۔۔اور ایک دوسرے کو یونہی دیکھتے ہوۓ انکی آنکھیں کب لگی پتہ نہ چلا۔
صبح گھر میں غیر معمولی چہل پہل کی وجہ سے پری کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے آس پاس دیکھنے لگی مگر جسے ڈھونڈھ رہی تھی وہ وہاں نا تھا
کیا میں خواب دیکھ رہی تھی۔
پری خود سے ہمکلام ہوئی تھی۔
سب نکاح کیلۓ ہال میں جمع ہو رہے تھے ۔
ایک ایک کرکے مہمان آرہے تھے دولہے بھی آچکے تھے اور اب دلہنوں کا انتظار تھا
دونوں دلہنیں تیار ہونے کے بعد بہت پیاری لگ رہی تھی اور ذرا فاصلہ پر الگ الگ نشستوں پر دونوں کو بٹھایا گیا تھا۔۔
۔
لبنہ بہت خوش تھی مگر پری کا چہرہ پر کسی قسم کا کوئ تاثر نہ تھا۔تبھی جولی اندر آئ ۔
واؤ تم دونوں تو بہت پیاری لگ رہی ہواب بس آھل کی دلہن کو دیکھنا ہے وہ نکاح کیلۓ جا چکا ہے۔۔۔
جولی کی بات سنکر پری کا دل بے چین ہونے لگا تھا
نکاح ہونے میں ٹائم تھا تو ایونٹ آرگنائزر نے ماحول کو خوشگوار بنانے کیلیے گانے چلا رکھے تھے ۔۔ اسی وقت ایک گانا چلا جسے باقی سب کا پتہ نہیں مگر پری سننے لگی تھی۔۔
کب آؤ گے
جسم سے جان جدا ہوگی
کیا تب آؤ گے۔
دیر نا ہوجاۓ کہیں دیر نا ہوجائے
آجا دیکھ میرا من گبھراۓ ۔
دیر نہ ہوجاۓ کہی دیر نا ہو جائیں
پری کی پلکیں بھیگنے لگی تھی اسے آھل کے ساتھ گزرا ہر لمحہ یاد آرہا تھا ۔ پری پر جولی کی نظر پڑی تو وہ اسکے پاس آکر بیٹھی ۔
پری رونے کی کوشش مت کرنا ورنہ سارا میک اپ خراب ہو جاۓ گا مجھے پتہ ہے یہ وقت بہت مشکل گزر رہا ہے تم پر پھر بھی پلیز چھپ رہنا ۔۔
جولی یہ کہتے ہوۓ ٹشو سے اسکی آنکھوں میں آۓ ہوۓ آنسو صاف کرنے لگی۔اور پری بہت آہستہ سے جولی کی طرف دیکھے بغیر سر جھکاۓ اس سے مخاطب ہوئ ۔
ہاں جولی یہ وقت واقعی بہت مشکل ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں چھپ رہو یا نہیں مگر آھل نے مجھے بابا سے کیوں نہیں مانگا۔آھل کہاں ہے کیوں نہیں آۓ وہ کیسے کسی اور کے ہونے جا رہے ہیں۔میری زندگی کے اندھیروں میں رونقیں بھر کر میری مجبوری نہیں سمجھ سکے ۔
پری کی بات سنکر جولی حیرت کے مارے اسے دیکھنے لگی تھی ۔پری کی۔گانے کے زور آواز سے کوئ انکی باتیں سن نہیں سکا تھا۔
کہاں ہے رونق محفل یہی سب پوچھتے ہیں
بارہاں تیرے نا آنے کا سبب پوچھتے ہیں
دیر نا ہو جاۓ کہیں دیر نا ہو جاۓ۔
آہوں کی قسم تجھ کونالو کی قسم ہے
خوابوں کی قسم تجھ کو خیالوں کی قسم ہے
ان بجھتے چراغوں کی اجالوں کی قسم ہے
آجا کے تجھ کو چاہنے والوں کی قسم ہے۔
حد ہوچکی ہے آجا
محفل سجی ہے آجا
جان پر بنی ہے آجا
تیری کمی ہے آجا
دیر نا ہوجاۓ کہیں دیر نا ہو جاۓ۔
پری کے بہتے آنسو دیکھ کر جولی اسے روم کے اندر موجود واشروم کی طرف لے گئ۔
پری یہ کیا کر رہی ہو تم ۔تمھیں اندازہ ہے ؟اس نے تمھارا انتظار کیا مگر تم نے بدلے میں کیا کیا؟
پری جو دیوار سے ٹیک لگاکر کھڑی تھی آسمان کی جانب دیکھنے لگی تھی اور کچھ گنگنانے لگی تھی۔
دل دیا اعتبار کی حد تھی
جان دی میرے پیار کی حد تھی
مر گۓ ہم کھلی رہی آنکھیں
یہ میرے انتظار کی حد تھی۔
اب جولی کی آ نکھیں بھی نم تھی۔
در سے ہٹتی نہیں نظر آجا
آجا دل کی پکار پر آجا
دیر کرنا میری عادت ہی صحیح
پرتو دیر سے ہی صحیح مگر آجا۔
جولی نے پری کو چھپ کرانے کیلۓ گلے سے لگا لیا تھا۔
بس پری بس بیٹھو میں تمھارا چہرہ ٹھیک کر لو ۔
جولی اسے وہی بینچ پر بٹھا کر اسکے آنسو صاف کرکے اسکے میک اپ ٹھیک کرکے کوئ بات کیے بغیر واپس روم میں لے آئ تھی اور خود وہاں سے چلی گئ۔
لبنہ اور زید کا نکاح ہو گیا تھا ان دونوں کو اسٹیج پر ساتھ بٹھایا گیا ۔۔۔
اب پری کا نکاح ہونے جا رہا تھا ۔وہ اپنی ذہنی الجھنوں اس قدر الجھی ہوئ تھی کہ نکاح خواہ کے الفاظ اسے سنائ ہی نہیں دے رہے تھے ۔تو احد کی آواز پر وہ ہوش کی دنیا میں لوٹی تب اسے نکاح کی منظوری لیے جانے والے الفاظ سنائ دیے۔
کیا آپکو نکاح قبول ہے؟؟
پری جو احد کی جانب دیکھ رہی تھی جو اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھاپردے کے پیچھے سے آئ آواز کا اب جواب دینے لگی تھی
قبول ہے
قبول ہے
قبول ہے ۔
ہر طرف مبارکباد دینے کی سر گوشیاں ہونے لگی اور اب پردہ ہٹادیا گیا تھا مگر پری نے ایک نظر اٹھا کر سامنے کھڑے اپنے محرم کو نہیں دیکھا۔پھر انھیں بھی ساتھ اسٹیج پر بٹھایا گیا مگر کچھ دیر میں ہی پری کی رخصتی کا بولا گیا۔
پری اس وقت کمرے میں تھی اسے ثناہ اور یمنا چھوڑنے آۓ تھے اور کمرے میں لاکر تھوڑی دیر بعد چلے گۓ تھے ۔آتے وقت بھی وہ پورا رستہ گاڑی میں سر جھکاۓ بیٹھی رہی اور احد سے گلے ملنے کے بعد وہ جو روئ تھی اب بھی اسکے آنسو جاری تھے سارا رستہ کسی نے کسی سے کوئ بات نہیں کی تھی۔
پری کو کمرے میں بیٹھے کافی دیر ہوچکی تھی اسے عجیب لگ رہا تھا کہ گھر میں کوئ عورت ہے بھی یا نہیں کیونکہ اب تک کوئ عورت اس سے ملنے نہیں آئ تھی جیسے عموماَ دولہے کے آنے سے پہلے آتی تھی ۔
وہ عجب کشمکش میں تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور پھر بند ہوا ۔
پری کا دل اسکے حلق میں آگیا تھا
اسے پسینے آنے لگے ۔
اسکے ہر قدم پر پری کی حالت مزید ابتر ہوتی جارہی تھی ۔
اب وہ قریب آکر پری کا جائزہ لیتا ہوا اسکے بے حد قریب بیٹھ گیا تھا۔
پری کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا ۔اس نے پری کا ہاتھ تھاما تو پری لرزنے لگی تھی۔
اس نے پری کے ہاتھ میں وہی کڑھا پہنایا اور پھر انگھوٹی اسکے ہاتھ میں تھما کر اپنا ہاتھ آگے کیا
پری کو یہ سب عجیب لگ رہا تھا کیونکہ اس نے ابھی تک پری سے کوئ بات نہیں کی تھی۔
پری انگھوٹی تھامے بیٹھی رہی مگر اسے پہنانے کی ہمت نہیں کرپا رہی تھی یا شاید پہنا نا نہیں چاہ رہی تھی ۔
وہ پری کی گھبرایٹ سمجھ گیا تھا اور اپنا موبائل ہاتھ میں تھامے اس پر انگیاں چلانے لگا اور مطلوبہ چیز نظر آتے ہی اس نے پلے آپشن پر کلک کیا جسے سنکر پری نے چونک کر دوپٹہ کا گرا ہوا پلو اٹھاۓ بغیر اسکی جانب دیکھا
تیرے ہتھ وچ ہتھ ہوۓ میرا ۔
تیرے تے اک وس ہوۓ میرا۔
یہ پری کا ہی گایا ہوا گانا تھا اور اسکرین پر پری کی تصویریں ایک کے بعد ایک بدل رہی تھی۔۔
پری اسے بے یقینی کے عالم میں دیکھے جا رہی تھی۔تو وہ اسکی جانب موبائل اسکرین
دکھاتے ہوۓ بولا۔
تمھاری یہ حسین تصویریں میرے سسر نے ہی کھینچی کر دی تھی مجھے۔کتنی خوبصورت لگ رہی ہو پتہ ہے انھیں دیکھ کر سانسیں لے رہا تھا ورنہ پتہ نہیں کب کا مر۔۔۔
اسکے الفاظ اسکے لبو میں ہی رہ گۓ تھے کیونکہ پری نے اسکے لبو پر اپنا ہاتھ رکھ لیا تھا۔
آھل آپ!!!
یہ سچ ہے یا میرا بھرم!!
پری اب بھی یقین نہیں کر پا رہی تھی ۔
میں ہوں پری میں اب اجازت ہے تو تمھیں جی بھر کر دیکھ لو بہت ترسا ہوں میں ۔
پری نے اثبات میں سر ہلایا تو آھل نے پلو ں ہٹایا اور اب دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور دونوں کی آنکھیں نم تھی
آھل نے پری کی جانب انگھوٹی بڑھائ تو پری نے مسکراتے ہوۓ لیکر اسے پہنا دی۔
آھل انگھوٹی کی طرف دیکھتا ہوا اس سے بولا
مہندی والی رات میں تم سے ملنے آیا تھا تمھارے دل کی بات جاننے مگر ملے بغیر ہی سب پتہ چل گیا مجھے ۔اتنا چاہتی ہو مجھے تو پہلے کیوں نہیں بتایا کیو ں اتنا تڑپا کررکھا مجھے۔
پری کے آنکھو ں سے آنسو بہنے لگے تو آھل نے اسے اپنی بانہوں بھر لیا ۔
اب تم کبھی نہیں روؤ گی میں تمھیں رونے نہیں دونگا ۔
تین سال بعد۔
زید اور لبنہ اپنی ایک سالہ بیٹی حنا کے ساتھ ہاسپیٹل کے باہر ویٹنگ ایریا میں موجود تھے جہاں احد فہد ثناہ اور نوفل بھی یمنا اور اپنے دوسالہ بیٹےعادل کے ساتھ موجود تھا
مگر آھل کتنی دیر سے کوریڈور کے چکر لگا رہا تھا اسکے چہرے پر چھائ پریشانی صاف واضح تھی ۔
تبھی لیڈی ڈاکٹر روم سے باہر آئ تو آھل اسکی جانب دوڑا
مبارک ہو ڈاکٹر آھل یو ہیو ٹونس کڈز بابا اینڈ بے بی ۔آپ اپنی وائف سے مل سکتے ہے مگر پلیز ایک ایک کرکے جاۓ۔
اس خبر سے سب کے چہرے کھل اٹھے تھے ۔
آھل روم کی جانب گیا اور اندر جاتے ہی اسکی نظر پری پر پڑی جو آنکھیں موندھے لیٹی تھی اور بےبی کآرٹ کے پاس جولی کھڑی اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔
آھل کے بچوں کے پاس آتے ہی جولی اسے کانگرس کہتی وہاں سے چلی گئ ۔
آھل دونوں بچوں کو باری باری دیکھ رہا تھا وہ خوش تھا بہت خوش تبھی پری کی آواز پر اسکی طرف گیا۔
آھل !!
مبارک ہو آپ کو۔
تمھیں بھی پری دیکھو کتنے پیارے ہے بہت کیوٹ
ہممم بالکل سلونی اور زمان
یہ کیا نام بھی رکھ لیے یہ تو غلط ہے ایک کا تو مجھے رکھنے دیتی
آھل نے پری کی طرف منہ بناتے ہوۓ کہا تو پری کا چہرہ اتر گیا۔
ارے جان نہیں میں مزاق کر رہا تھا بہت پیارے نام ہے شکریہ میری زندگی خوبصورت بنانے کیلۓ پری!!
آھل نے اسکے ماتھےپر لب رکھ لیے تھے ۔
آپکا بھی شکریہ میری زندگی میں آکر مجھے نئ زندگی دینے کیلۓ ۔۔۔
ختم شد