آھل احد کے ساتھ پری کو تب تک جاتا ہوا دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوئ
پری کے جاتے ہوۓ ہر قدم پر اسکی امیدیں ٹوٹتی جارہی تھی اسکے لوٹنے کی امید ۔۔اسکی دوڑ کر آکر آھل کو گلے لگانے کی امید ۔۔۔اظہار محبت کی امید۔۔۔۔ وہ اینجل ہے صرف آھل کی اینجل یہ امید ۔۔۔
آھل کو اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئ تبھی کسی سوچ کے ذہن میں آتے ہی وہ پارکنگ ایریا کی جانب بھاگا۔۔۔
آھل دیوانوں کی طرح پارکنگ ایریا میں انھیں ڈھونڈھ رہا تھا اسے احد گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ دکھا تو وہ اسی جانب تقریباً بھاگتے ہوۓ گاڑی کے قریب پہنچا۔ احد گاڑی میں بیٹھ چکا تھا ۔
آھل نے گاڑی کے قریب پہنچ کر احد کو ہانپتے ہوۓ آواز دی۔
ڈاکٹر میر رکے !!
آھل کو یو دیکھ کر احد نے اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔
کیا بات ہے آھل؟؟
آھل نے فرنٹ سیٹ کی جانب دیکھا کہ شاید پری اسے نظر آۓ مگر وہاں لیپ ٹاپ پڑا تھا پری پیچھے بیٹھی ہوئ تھی اسلیے آھل کو نظر نہیں آئ اور آھل چاہتے ہوۓ بھی پیچھے دیکھ نہیں پایا۔۔اسے خود پتہ نہیں تھا آج اسے ججک کیوں ہو رہی تھی
وہ ڈاکٹر میر !مجھے لگتا ہے اینجل کی طبیعت ٹھیک نہیں مطلب وہ مینٹلی ڈسٹرب ہے اور کنسرٹ کے پریشر سے ایسے ری ایکٹ کر رہی ہے ۔۔۔
آھل نے شاید آخری کوشش کی تھی۔
احد اسکی بات پر مسکرایا۔۔اور لیپ ٹاپ آن کرکے اس پر انگلیاں چلانے لگا احد کو ایسا کرتے دیکھ آھل نے بیک سیٹ پر بیٹھی اپنی زندگی کو دیکھا جو سر جھکاۓ بیٹھی تھی۔
یہ دیکھو آھل اب مجھے نہیں لگتا کہ تمھیں پریشان ہونے کی ضرورت ہے۔۔۔۔
اسکرین پر رپورٹس پر نظر پڑتے ہی آھل کی آنکھیں خوف و حیرت سے پھیل گئ ۔
اینجل کے کھونے کا خوف اور اینجل کا پری ہونے پر حیرت۔۔۔۔۔
آھل اب میں چلتا ہوں میں تم سے بعد میں بات کروں گا اور ہاں بہت شکریہ تمھارا۔۔
احد یہ کہہ کر گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا تو آھل نے ایک آخری کوشش کی۔
وہ میں کیا کہہ رہا تھا کہ جولی سے پوچھ لوں اگر اسے ساتھ لے جانا چاہے تو لے جا سکتے ہیں۔۔
احد نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔۔
ہمم تم پوچھ لینا اور۔۔۔۔۔
احد کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی پری بول پڑی۔۔۔
نہیں ابھی اتنی رات ہوچکی ہے کوئ بات نہیں۔۔۔ بابا چلے۔۔۔
پری کی بات پوری ہوتے ہی احد نے گاڑی اسٹارٹ کی اور آھل ذرا دور ہٹا ۔۔
گاڑی چل پڑی اور آھل کی نم آنکھیں پری نے سائیڈ مرر میں دیکھ لی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پری سر جھکاۓ صوفے پر بیٹھی تھی اور احد کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا تبھی پری نے خاموشی توڑی ۔۔۔
بابا کیا میری وجہ سے آپ دادی اور سب سے دور رہے کیا میں واقعی اک بھول ۔۔۔غلطی!!!!
پری بولتے بولتے رک چکی تھی کیونکہ اسکے آنسو بہنے لگے تھے اب بولا نہیں جا رہا تھا اس سے۔۔۔
احد اسکے پاس آیا اور اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور اسکا ہاتھ تھامے اپنے کمرے تک لایا ۔۔۔اور اسے بیڈ پر بٹھا کر اسکی جانب سائیڈ ٹیبل سے اپنی ڈائری نکال کر بڑھائ ۔۔۔
یہ لو پڑھلو تمھیں تمھارے سارے سوالوں کے جواب مل جاۓ گے بیٹا ۔۔میں میڈ کو کافی کا کہہ کر آتا ہوں ۔۔
احد کمرے سے باہر جا چکا تھا اورپری اب ڈائری پڑھنے لگی تھی۔۔
ڈائری پڑھتے ہوۓ کھبی وہ مسکراتی ۔کبھی حیران ہوتی تو کبھی آنسو بہاتی۔۔۔
سدا نا بلبل نغمے گائیں
سدا نا فصل بہاراں۔
سدا نا حسن وجوانی رہتے
سدا نا صحبت یاراں
آھل بالکونی میں کھڑا تھا جب اسے گارڈ روم سے ریڈیو پر چلتا یہ دل چیرنے والے لائنز سنائ دیے ۔
تو وہ اپنے روم سے نکل کر گارڈ روم کی جانب بڑھا ۔۔
سر آپ یہاں کوئ کام تھا تو مجھے کال کر دیتے ۔۔۔
گارڈ نے ریڈیو کی آواز بند کرتے ہوۓ پو چھا تو آھل نے اسے اشارے سے خاموش رہنے کا کہا اور ریڈیو کا والیم ذرا بڑھا کر باہر گارڈن میں بینچ پر بیٹھ گیا ۔۔۔اور ریڈیو سے نکلتے ہر الفاظ اسکی روح تک رلانے لگے تھے جیسے اسکی بے بسی کی ترجمانی کر رہے ہو۔۔۔
رب جانے کس دامن کیلیے کونسا گل چنتا ہے
کہتے ہیں سچے دل کی دعائیں جلد خدا سنتا ہے ۔۔
جانے والے او جانے والے
کیا تجھے ہم نے خدا کے حوالے۔۔
کوئ مشکل نا آۓ تیری راہوں میں پہنچے ساتھ خیریت کے اپنی منزل کی بانہوں میں
تجھے تیری منزل
گلے سے لگا لے ۔۔۔۔
آھل کتنی دیر یونہی بیٹھا کسی کے چہرے کے لمس کو بغیر دیکھے بغیر چوۓ محسوس کر تا رہا تبھی اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کی گرفت کو محسوس کرکے اٹھا ۔
بھائ آپ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔۔؟؟؟
زید جو اپنے کمرے کی کھڑکی سے آھل کو گارڈن میں دیکھ چکا تھا تو اسکے پاس آیا ۔۔
وہ یونہی ذرا بے چینی ہو رہی تھی تو یہاں آگیا اب سونے جا رہا ہوں تم بھی جاؤ اور جا کر سو جاؤ۔۔۔
آھل وہاں سے جانے لگا جبکہ زید اب آھل کی حالت سمجھتے ہوۓ کسی سوچ میں پڑھ چکا تھا۔
چلو بیٹا کافی تیار ہے نیچھے چل کر پیتے ہیں اور میں میڈ سے بھی تمھیں ملوا لیتا ہوں۔۔۔
احد نے کمرے میں آکر پری کو آواز دی تھی جسکی آنکھیں رو رو کر سرخ ہو چکی تھی احد کی آواز پر اس نے اپنے آنسو پونچھے اور اٹھ کر اسکے پیچھے نیچھے کی جانب بڑھی۔۔۔
احد نے کافی پیتے ہوۓ اسے میڈ سے ملوایا تھا جو عمر کےلحاظ سے بہت بوڑھی تھی مگر فٹ دکھ رہی تھی اور کچھ ہلکی پلکی باتیں کی تھی ۔کافی ختم ہوتے ہی احد نے میڈ کو پری کو اسکا روم دکھانے کو کہا تاکہ وہ فریش ہو جاۓ اور احد خود بھی فریش ہونے چلا گیا۔۔۔
پری میڈ کے پیچھے روم تک آئ روم کی لائیٹ آن ہوتے ہی پری نے کمرہ پر حیرت بھری نگاہ ڈالی ۔
پورا کمرہ پنک ہی پنک تھا بیڈ ۔بیڈ شیٹ۔ کمفرٹر فرنیچر ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئ باربی ڈول روم ہو۔۔
پھر پری کی نظر دیوار پر لگی تصویروں پر پڑی جہاں پری کی بچپن سے لیکر بڑے ہونے تک کی کافی ساری تصویریں تھی ۔
پری تصویروں کو دیکھ رہی تھی کہ میڈ نے اسے آواز دی۔۔
میڈم آپ اندر ڈریسنگ سے اپنے لیے کوئ سوٹیبل سوٹ لیکر چینج کرلے اور کچھ کام ہو تو آواز دیجیے گا۔۔
پری میڈ کے پاس آئ اور کہا۔
پلیز مجھے میڈم نہ کہے میں آپکی بیٹی جیسی ہو آپ جاکر آرام کرلے مجھے کچھ نہیں چاہیۓ ۔
پری کی اس بات پر میڈ اسکی طرف مسکرا کر دیکھنے لگی اور ہھر چلی گئ۔۔
پری ڈریسنگ روم میں موجود وارڈ روب کھولے کھڑی تھی اسکی پلکیں بھیگی ہوئ تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ یہاں ہی رہتی ہو کپڑے جوتے کیا نہیں تھا وہاں اس نے ایک سوٹ وہاں سے لیا اور شال اور چینج کرنے چلی گئ۔۔۔
پری چینج کرکے اب کمرے میں دیوار پر لگی تصویریں دیکھ رہی تھی اسی وقت دروازے پر دستک ہوئ اور وہ دروازے کھولنے گئ جہاں احد کھڑا تھا۔
بابا آپ!!! اندر آۓ نا ۔۔
پری احد کو دیکھ کر خوش ہوئ تھی احد کمرے میں آیا۔اور پری کی تصویروں کو دیکھنے لگا۔
بابا یہ سب تصویریں آپ نے کب لی ؟؟۔آپ وہاں آتے تھے اور ملے بغیر چلے جاتے تھے۔۔
پری یہ کہتے ہوۓ خود بھی اب تصویریں دیکھنے لگی تھی۔۔
ہاں بیٹا کیونکہ میں سلونی سے بہت پیار کرتا تھا۔۔
یہ کہتے ہوۓ احد نے پری کی جانب دیکھا جو اس وقت سفید رنگ کی شلوار قمیض اور لال دوپٹہ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔
تو سائز فٹ آگیا تمھیں اور کچھ چاہیۓ تو بتانا بلکہ ہم کل ہی شاپنگ پر چلے گے میں تمھیں سب سے ملواؤں گا ۔۔
احد بولتا جا رہا تھا اور پری مسکراتے ہوۓ اپنے بابا کو دیکھ رہی تھی ۔باتیں کرتے کرتے احد نے پری کو بیڈ پر بٹھایا اور کمفرٹر ڈال کر خود سامنے صوفے پر بیٹھ گیا پری بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر احد کی باتیں سنتے سنتے کب اسکی آنکھ لگی پتہ نا چلا ۔
احد نے جب اسے سوتے دیکھا تو تکیے پر اسکا سر صحیح طرح رکھ کر کمفرٹر ٹھیک کرکے جاتے ہوۓ اسے ایک نظر دیکھا آج اسکے چہرے پر سکون تھا ۔ ۔۔
اگلے دن احد کے بے حد اسرار پر پری اسکے ساتھ شاپنگ پر گئ ۔
احد اسے کافی جگہوں پر گھمانے لے گیا اپنے آفس اور ہاسپیٹل کے اسٹاف سے ملوایا اور آخر میں زبردستی شاپنگ کرانے لے گیا۔۔
پری کو ہر جگہ جاتے ہوۓ ایسے لگ رہا تھا کوئ اسے دیکھ رہا ہے اسے بار بار کسی کی نظروں کی تپش خود پر محسوس ہو رہی تھی مگر کوئ نظر نہیں آرہا تھا۔۔
شاپنگ کرنے کے بعد احد اور پری اسی مال کے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کچھ آرڈر دینے کے بعد باتیں کر رہے تھے تبھی احد کا فون بجا
احد نے نمبر دیکھا اور پری کی جانب دیکھتے ہوۓ کال اٹینڈ کی ۔
ھیلو نوفل کیسے ہو رات کو کانگرس کرنے کا یاد ہی نہیں رہا ۔
۔
احد پری کی جانب دیکھتے ہوۓ بات کر رہا تھا جسکے چہرے پر اسے کسی قسم کا کوئ تاثر نظر نہیں آیا۔
احد کی بات سننے کے بعد نوفل نے ایک گہرا سانس لیا۔
۔چاچوں میں اور یمنا پری سے معافی مانگنا چاہتے ہیں اور بابا اور امی بھی ویڈیو کال پر موجود ہے میں اسپیکر آن کرکے بات کر رہا ہوں ہم سب پری سے شرمندہ ہے چاچوں پلیز ہمیں معاف کردیں ۔۔
نوفل کے بولتے ہی احد نے فون پری کی جانب بڑھایا تو پری نے احد کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔
بیٹا سب کو آپ سے بات کرنی ہے معافی مانگنی ہے بات کرلو بیٹا مجھے اچھا لگے گا۔
احد نے پری کی جانب فون بڑھایا تو پری نے فون لیا۔
ھیلو !!!
پری کے ھیلو کہتے ہی سب سے پہلے فہد نے بات کی۔
بیٹا کیسی ہو ۔میں اسوقت زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا مگر مجھے اور اپنی تائ کو معاف کر دینا بیٹا ۔
فہد کی بات سنکر پری کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی ۔
پری میں تمھاری تائ بیٹا مجھے دل سے معاف کر دینا
ثناہ کی آواز سنتے ہی پری کی ہچکیاں بندھ گئ تو احد نے اس سے فون لیا اور کان پر لگاتے ہی ثناہ کے کیے ہوۓ ظلم جو وہ رو رو کر بتا رہی تھی اورپری سے معافی مانگ رہی تھی سنتے ہوۓ غصے اور تکلیف سے اپنی نظر دوسری طرف پھیرنے لگا تو اسے کوئ نظر آیا جسے دیکھنے کے بعد احد نے پری کی جانب دیکھا جو ابھی تک سر جھکاۓ آنسو بہا رہی تھی۔
بھابھی ہم نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑا ہے اور سب کو معاف کر دیا ہے ۔اللہ حافظ ۔
احد اپنی بات مکمل کرکے فون بند کر چکا تھا اور پری کی جانب پانی کا گلاس بڑھاتے ہوۓ اسے چھپ کرانے لگا ۔۔۔۔