سبکی نظریں اس وقت احد اور پری پر تھی نوفل بھی وہاں پہنچ چکا تھا ۔ٹی وی پر بھی یہ منظر دکھایا جا رہا تھا۔۔جسے دیکھ کر ثناہ اور سنبل دونوں کا دل دھڑکنے لگا تھا ۔تبھی سنبل زور سے چلائ
یہ پری ہے !!!!
سنبل یہ کہہ کر باہر کی طرف بھاگی اور فہد جو سنبل کو جاتا دیکھ رہا تھا اب ثناہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا تھا۔۔
فہد آپ جلدی دبئ فون کریں جلدی!!!
ثناہ یہ کہہ کر رونے لگی اور فہد اب احد کو فون کرنے لگا تھا۔۔۔۔
۔
احد اب بھی نا سمجھو کی طرح پری کی جانب دیکھ رہا تھا مگر آھل کا تو مانو دل دھڑکنا بند ہو رہا تھا کیونکہ آھل کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا نوفل اور یمنا کو بھی حیرت نے گھیر لیا تھا۔
لبنہ بھی زید کے ساتھ وہاں آچکی تھی۔۔
پلیز آپ سب اندر ویٹنگ روم میں چلیں ۔۔۔
لبنہ نے کہا تو پری جو کب سے احد کے بانہوں میں تھی چونکی اور اس سے الگ ہوکر جیسے ہی مڑی اسکی نظر آھل پر پڑی جو بے بسی سے اسی کی جانب دیکھ رہا تھا اسکی آنکھیں سرخ ہو چکی تھی رو کر یا بے بس ہو کر یہ تو آھل ہی جانتا تھا۔
اسے زندگی مل گئ تھی وہ خوش تھا آج بہت خوش کہ اینجل نے اپنے احساسات کا اظہار کر لیا تھا وہ نہ جانے کونسی دنیا بسا چکا تھا جس میں وہ اور صرف اینجل تھے مگر شاید نہیں کیونکہ ایک باپ کی محبت ثقبت لے ہی جاتی ہے اور آج وہی ہوا ۔۔۔۔
وہ شاید اینجل بن کر آھل کی ہو جاتی مگر احد کو دیکھتے ہی وہ سب بھول گئ پراۓ اور خود ساختہ رشتے جو ہمیشہ انسان کو روندھ دیتے ہیں رنگ نسل دیکھتے ہیں مگر والدین کے ساتھ رشتہ ان جھوٹی بنیادوں پر ٹھکا ہوا نہیں ہوتا بچے جیسے بھی ہو والدین کو عزیز ہوتے ہیں بس سب کا طریقہ اظہار مختلف ہوتا ہے ۔۔۔۔
سب اس وقت ویٹنگ ایریا میں موجود تھے
پری سر جھکاۓ کر سی پر بیٹھی تھی اور جولی اسکے پاس بیٹھی تھی ۔۔۔
۔یمنا اور لبنہ ایک طرف کھڑے تھےلبنہ تو خاموش تھی مگر یمنا کو ایک ڈر نے گھیر رکھا تھا کیونکہ اس وقت جو پری اسکے سامنے تھی وہ اس پری سے مختلف تھی پرکشش تھی۔۔۔۔
زید اور نوفل باہر ہی کھڑے تھے جبکہ آھل نہ جانے کن انکھیوں سے پری کو تکے جا رہا تھا جو پل بھر میں اسکی اینجل سے آج پری بن چکی تھی۔۔
احد کب سے فون پر فہد سے بات کر رہا تھا تبھی اسکے منہ سے جو بات نکلی اس نے سبکا دیہان اسی طرف کھینچا ۔
کیا کہہ رہے ہیں آپ مگر DNA کرنا ضروری نہیں میرا دل مان چکا ہے کہ یہ پری ہے بس اب زیادہ بات نہیں !!!
احد یہ کہہ کر فون بند کر چکا تھا اور پری کو دیکھ کر اسکی طرف آیا مگر آھل کے دل میں ایک امید جاگ اٹھی تھی کہ ہوسکتا ہے یہ اینجل کا وہم یا کچھ اورہو جو وہ احد کو اپنا والد کہہ رہی ہے اور DNA سے سب کلئیر ہو جاۓ گا اور اینجل اسی کی ہو کر رہے کہیں نا جاۓ۔۔۔
احد کچھ پری سے کہتا اس سے پہلے ہی اینکر پرسن کی آواز گونجی
so viewers result is ready second runner up is
NOFILLLL!!!!!!!
and!!!!!!
the winners are ۔۔۔
ZAID with ANGEL
so both of stars plz join the stage
نوفل کا نام سنکر لبنہ باہر آئ اور نوفل کے پاس گئ۔۔
چلو نوفل جاؤ!!
مگر نوفل خاموش سر جھکاۓ کھڑا رہا ۔۔۔
لبنہ نے پھر زید کی طرف دیکھا جیسے اس سے مدد مانگ رہی ہو۔تو زید لبنہ کی نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوۓ نوفل سے مخاطب ہوا۔
اے ینگ مین کانگرس چلو چلو!!
زید یہ کہتے ہوۓ اسکو پکڑ کر اسٹیج تک لے آیا تو نوفل جو نا جانے کن سوچو میں ڈوبا ہوا تھا بے دلی سے اسٹیج پر چڑھا اور تالیوں کی گونج میں اب سامنے آتے وجود کو دیکھ کر حیرت سے آنکھیں کھولے اسے دیکھنا لگا ۔۔
اناؤسمنٹ سنتے ہی آھل فوراً پری کے پاس آیا تھا اور بہت ہی دھیرے سے اسے آواز دی تھی اس نے
اینجل !!!
چلو !!!
اور یہ کہہ کر اسکا ہاتھ تھامے اسٹیج کے قریب لے گیا
احد نا جانے کیوں آھل کو منع نہیں کر سکا اور وہی بینچ پر بیٹھا اپنی ماضی کو یاد کرنے لگا
آنسو کا ایک قطرہ اسکی پلکوں کو بھگانے لگا تھا تبھی کچھ سوچ کر اس نے فون نکالا۔۔۔۔
ھیلو میں ڈاکٹر احد شاہ میر ۔۔مجھے پلاسٹک سرجری کیس کی ساری ڈیٹیل ابھی ای میل کرو اسپیشلی سارے بلڈ ٹیسٹ ہاں ابھی۔۔۔
فون بند کرتا احد اپنی گاڑی کی طرف جانے لگا تھا اور اب گاڑی میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ لیے اسے آن کیے بیٹھا تھا۔۔
پری زید کے ساتھ اسٹیج پر نوفل کے برابر کھڑی تھی نوفل نے اسکی جانب دیکھا مگر اسے اسکا چہرہ ہر احساس سے عاری لگا مگر جیسے پی پری نے نظریں اٹھا کر سامنے کھڑے نفس کو دیکھا تو اسکا چہرے پرایک عجیب سی بے چینی نوفل نے دیکھی تو اسکے نظروں کا تعاقب کیے اس نے جسے دیکھا جسے دیکھ کر پری کی آنکھیں بھیگ گئی تھی وہ آھل تھا جسکا حال بھی پری جیسا ہی تھا۔۔
یمنا اسٹیج پر دونوں کو ساتھ دیکھ کر مزید گبھرا گئی تھی اور اسی گبھراہٹ میں اس نے لبنہ کا ہاتھ پکڑ لیا تھا ۔۔
لبنہ کیا نوفل مجھے چھوڑ دیگا میں تو مر جاؤں گی !!!
یہ کہہ کر وہ سر جھکاۓ رونے لگی تو لبنہ اسے کرسی پر اپنے ساتھ بٹھا کر سمجھانے لگی۔۔
دیکھو یمنا مجھے نہیں پتہ کہ اس وقت کیا کہنا چاہیۓ مگر میں نے پری یا اینجل کی آنکھوں میں پیار دیکھا ہے مگر یقین کرو وہ پیار نوفل کیلۓ نہیں ہے اسلیے پلیز رونا بند کرو قدرت کے فیصلے سر چکرا دیتے ہیں۔۔۔
لبنہ نے یہ کہہ کر گہرا سانس لیا اور اسٹیج کی جانب متوجہ ہوئی اسکے ساتھ یمنا بھی اسی طرف دیکھنے لگی تھی۔۔
نوفل کو ایوارڈ دینے کے بعد زید اور اینجل کو ایوارڈ دیا ۔
نوفل ایوارڈ لیکر اپنے ٹیم روم میں آیا جہاں لبنہ اور یمنا پہلے سے موجود تھے لبنہ اسے کانگرس کرکے باہر آگئ اب وہاں یمنا اور نوفل تھے ۔
نوفل صوفہ پر بیٹھا دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھامے رونے لگا تو یمنا جلدی اسکے پاس آئ اور اسکے بے حد قریب بیٹھ گئی۔
نوفل پلیز چھپ کرو ورنہ تمھاری طبیعت خراب ہوجائے گی۔
یمنا نوفل کے ہاتھوں کو تھامے خود بھی رونے لگی تھی ۔نوفل نے اسکی جانب دیکھا ۔۔
پتہ ہے یمنا پری کی آنکھوں میں تڑپ اور بے چینی دیکھی میں نے مگر میں نہیں تھا اس میں کہیں بھی نہیں تھا اور میں جانتا ہوں میں کیوں نہیں تھا کیونکہ میں اسکے لائق نہیں ہوں اسے ٹکرایا تو خود بھی تڑپا اور آج ٹکرانے کی تکلیف بھی سمجھ گیا۔۔
نوفل یہ کہہ کر روتے ہوۓ یمنا کے گلے لگ گیا ۔۔
یمنا نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔۔
یمنا نے نوفل کے گرد اپنے بازو حائل کیے اور اس سے گویا ہوئ ۔
نہیں نوفل تمھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے اتنا ہی بہت ہے ہم دونوں جاۓ گیں اور پری سے معافی مانگے گی دیکھ لینا وہ ہمیں معاف کردے گی وہ پری ہے خوشیاں لاتی ہے اور تم ٹکراۓ نہیں اپناۓ گۓ ہو اور پری کیلئے ہم دونوں دعا کریں گے کہ اسے اسکی تڑپ اور بے چینی سے جلد نجات ملے۔۔
یمنا کی آواز یہ کہتے کہتے رونے میں بدل گئ۔۔تو نوفل نے اسکی طرف دیکھا
تم رو رہی ہو ؟؟
نوفل نے یمنا کے آنسو پونچھے تھے
نہیں یہ خوشی کے آنسو ہے نوفل آج میں نے تمھیں پالیا اور تم نے مجھے اپنا لیا بس اب پری کو بھی اپنی چاہت مل جاۓ ۔
یمنا کی یہ بات سنکر نوفل نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا تھا
سوری یمنا سوری۔۔۔
نوفل نے کہا اور اب دو دل مل گۓ تھے مگر پری کا کیا حال تھا کوئ نہیں جانتا تھا۔
اسٹیج سے آکر پری واپس ویٹنگ ایریا میں آئ تھی مگر وہاں احد کو نا پاکر وہ واپس باہر کی جانب اسے دیکھنے کیلۓ بڑھی تو آھل نے کمرے میں آکر دروازہ لاک کردیا پری اسے نظر انداز کرتی لاک کھولنے کیلۓ بڑھی تو آھل دروازے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔۔۔
آپ پلیز ہٹے مجھے جاناہے۔۔۔۔۔
رکو پہلے میری بات سن لو ۔کیا ہوا ہے تمھیں تم پری اور احد تمھارا والد ۔
آھل کی بات کو ان سنا کرتی وہ واپس لاک کھولنے کیلۓ ہاتھ بڑھانے لگی تو آھل نے اسکا ہاتھ سختی سے پکڑ کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔
کیا بات ہے بتاؤ تو سہی پلیز مجھ پر احسان ہی کردو کیوں کر رہی ہو تم ایسا ۔
آھل نے اسکی جانب دیکھتے ہوۓ حسرت سے پوچھا۔
پری نے لاک کی جانب دیکھا تو آھل نے دروازہ کھول کر اسکا ہاتھ چھوڑ دیا تو پری اس سے فاصلے پر آکر مڑ کر کھڑی ہوئ اور ایک گہری سوچ میں ڈوب کر جب ابھری تو اپنے بارے میں سب اسے بتایا سب کچھ اسکے اچھے برے سب سے برے لمحات اسکا گانا اسکا ٹکرانا اسکی تذلیل سے لیکر آج کے دن تک سب ایک کھلی کتاب کی طرح اسکے سامنے رکھ چکنے کے بعد وہ زمین پر بیٹھ کر رونے لگی تھی اور آھل نے اسے رونے دیا تھا تاکہ وہ اپنی دل کو ہلکا کر لے ۔
جب وہ رو رو کر تھک گئ اور اب بس اسکی ہچکیاں ہی سنائ دینے لگی تھی تو آھل اسکی جانب بڑھنے لگا تاکہ اسے اپنی بانہوں میں چھپا کر رکھ لے اسکی ہر تکلیف ہر غم پر پہرے لگا دے کہ کوئی بھی اب اسکے پاس نا آۓ اسے ساری خوشیاں دیں اسے بس اپنا بنا کر رکھ لے
وہ پری کے بہت قریب آچکا تھا مگر اسے آواز دینے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا ۔
پری نے اپنے آنسو پونچھے اور اٹھنے لگی تو وہ لڑکھڑانے لگی تو آھل اسے تھامنے کیلۓ آگے بڑھا ہی تھا کہ احد کی آواز پر رک گیا۔
پری !!!
احد دوڑتےہوۓ اسکے پاس آیا تھا اور اسے وہی قریب بنچ پر بٹھا لیا تھا
پری میرے بچے میں نے سب سن لیا ہے سب مجھے معاف کردو بیٹا ایک باپ کے ہوتے ہوۓ تم اتنی تکلیفیں برداشت کرتی رہی میں ہی تمھاری اس حالت کا ذمہ دار ہوں مگر اب میں تمھیں سب سے دور اپنے پاس رکھو گا ساری دنیا کو
بتاؤں گا کہ تم میری بیٹی ہو ۔اٹھو چلو بیٹا۔
احد پری کا ہاتھ تھامے اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا تو آھل کو دیکھ کر رکا
شکریہ آھل تمھارا احسان مجھ پر قرض ہے ۔۔
احد پری کو لیکر جا رہا تھا مگر آھل کو یو لگ رہا تھا جیسے اسکے جسم سے روح کوئ اپنے ساتھ لیکر جا رہا ہو