زمان شاہ کئی گھنٹوں سے اپنے عالیشان بنگلے کے باغ میں چکر لگا رہا تھا۔
بیگم شاہ بھی بہت پریشان اور گھبرائی ہوئی تھی۔۔۔۔
رات ہو چکی تھی مگر زمان شاہ اب تک پر سکون نہیں تھے۔۔۔۔
اچانک گاڑیوں کی آوازوں سے وہ دونوں اسی طرف بڑھے تھیں۔۔۔۔۔کیا ہوا کچھ پتہ چلا احد کا ؟۔۔۔شاہ زمان نے بغیر کسی تاثر کے فہد سے پوچھا۔۔
نہیں ابا اس کا نمبر بھی بند جا رہا ہے۔۔۔۔
بیٹا تمیں تو اپنے چھوٹے بھائی کے ہر دوست اور ٹھکانے کا پتہ ہے وہاں بھی معلوم کر لو۔۔۔۔بیگم شاہ نے پریشان ہوتے ہوۓ پوچھا۔۔۔۔
جی اماں پتہ کر چکا ہوں اور کچھ لڑکوں سے بھی بول رکھا ہے آپ فکر نہ کریں احد آجاۓ گا۔۔۔۔
اسے آنا ہی ہوگا اس کا نکاح ہر صورت میں ہوگا اور اب آپ سب کل کی تیاریوں کا جائزہ لیں کوئی کمی نہ ہو ۔۔شاہ زمان اسی تاثر میں حکم دیکر اندر کی طرف بڑھے اور اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ کر ماضی کی کوئی درد بھری یاد دوبارہ ذہن میں چلتا ہوا دیکنھے لگے۔۔۔۔۔۔اف احد میری عزت اور وعدے کا پاس رکھنا مجھے پتہ ہے تم صرف غصہ ہو اور اب تک تمھارا غصہ ختم ہو چکا ہے بس جلدی آجاؤ ۔۔۔۔اور کچھ یادیں ذہن میں پھر گھومنے لگی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔//۔!!!!!!!!!!!!!!!!!!!،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بس بھاگ رہی تھی نہ یہ سوچے نہ دیکھتے ہوۓ کہ کس سمت جا رہی ہے کہاں جا رہی ہے ۔اسے بس ان آوازوں سے ان لوکوں سے دور جانا تھا۔۔۔۔
اسے یہ خیال تک نہ تھا کہ اتنی کالی سیاہ رات اور یہ بھیانک بارش ۔۔
بس وہ بھاگ ہی رہی تھی ان آوازوں سے جو ابھی تک اسکے کانوں میں خنجر کی طرح گھنپ کر اسکی روح تک کو زخمی کر رہے تھے۔۔۔
کالی
منحوس
بے برکت
کالی نسل
بے حیاءبے شرم
اہ تم سے کوئ رشتہ مجبوری میں بھی نہ رکھے ۔۔۔
تم بس اک مراسن کی کالی سیاہ پرچھائ ہو نہ جانے کب ختم ہوگی۔۔
بس بس اب بس برداشت نہ ہو رہا مجھ سے ۔۔۔۔۔
وہ روتے روتے اور بھاگتے بھاگتے تھک چکی تھی بنا یہ جانے کہ اس کالی بھیانک رات میں وہ اب کہاں ہے ۔۔۔
تبھی اچانک اک تیز روشنی اس کے آنکھوں میں چبھی اور اس کے سنبھلنے سے پہلی ہی اک زوردار ٹھکر سے اس کا وجود اڑا اور کسی بلندی سے نیچے آ گرا۔۔
کراہتے ہوۓ بس اک ہی نام اس کی زبان پہ آتے آتے رک سا گیا اور وہ شاید بے ہوش ہونے لگی تھی۔۔"""نو۔۔نو۔۔نوفل۔۔۔۔۔۔""""
اور وہ آنکھیں بند ہوگئ۔
وہ فجر کے قریب گھر کی دہلیز عبور کرتے ہوۓ کئ سوالوں کے جواب جاننے کے لۓ تڑپ رہا تھا کہ اسکے والد جو اس پہ جان وارتے ہے اتنا بڑا قدم اس سے پوچھے بغیر کیسے اٹھا گۓ۔۔۔۔
احد گھر میں داخل ہوا تو باہر گاڑی کی اسٹارٹ ہونے کی آواز پر واپس باہر کی جانب گیا ۔۔۔
کیا ہوا ڈراءیور گاڑی کہاں جا رہی ہے ۔۔۔
جی فہد بابا نے کہا ہے چھوٹی بیگم کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ہسپتال جانا ہے۔۔۔۔
اوہ۔۔۔۔۔
احد اندر کی جانب بڑھا تو فہد اور شاہ بیگم کو ناز کو باہر لاتے ہوۓ دیکھ کر رک گیا۔۔۔
بھائ میں بھی ساتھ چلتا ہوں ۔۔۔
نہیں بیٹا تیرے بابا گھر پہ ہے اور ہم ہے نہ اللہ نے چاہا تو جلد ہی نۓ مہمان کو لیکر ہم واپس آ جاءیں گیں۔۔۔۔
ہاں احد تم بابا کے ساتھ رہو اور آرام کرو ۔
جی بھائ کچھ کام ہو تو فون کر دینا۔۔۔
ہمممم۔۔کہتے ہوۓ وہ سب گاڑی کی طرف بڑھے اور احد اپنے کمرے کی طرف بوجل قدموں سے بڑھنے لگا۔۔۔۔
کمرے میں آکر وہ اپنے
بیڈ پر لیٹ گیا اور آنے والے وقت کا سوچنے لگا۔۔۔صبح جو ہوا وہ پھر اسکے ذہن میں چلنے لگا۔۔
احد کل آپکا نکاح ہے ۔۔۔۔
کیا مزاق کر رہے ہے بابا ۔۔۔۔
مزاق نہیں ہے ۔۔۔۔یہ کہہ کر شاہ زمان اپنے بڑے بیٹے فہد کو آواز دینے لگے۔۔۔
جی بابا آپ نے بلایا ۔۔۔
ہاں بیٹا کل تمھارے چھوٹے بھائ کا نکاح ہے تم میرے ساتھ چلو کچھ انتظامات دیکھنے ہیں۔۔۔
فہد یہ سنتے ہی چونک گیا مگر کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کر سکا۔۔۔ احد جو اب تک خاموش سب کچھ بس دیکھ سن رہا تھا کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ شاہ بیگم کے آواز پر رک گیا۔۔
فہد یہ لسٹ رک لو تیاریوں اور مہمانوں کی اور کوئ کام ہو تو ملازماؤ ں یا مجھ سے کہنا ناز کو ان سب میں شامل مت کرنا اسکی تاریخ اب قریب آ چکی ہے ۔۔۔
جی اماں۔۔۔فہد یہ کہ کر پلٹا ہی تھا کہ احد کی آواز پر رک کر اسے دیکھنے لگا ۔۔۔
یہ سب کیا ہو رہا ہےکیا کوئ بتاۓ گا ۔۔۔احد سختی سے پوچھنے لگا۔۔۔
تمھارا نکاح جس کا کئ سال پہلے کسی کو وعدہ کر چکے تھے مگر بھول گۓ تھے اس بارے میں کسی کو بتانا۔۔۔
بھول گۓ ۔۔۔وعدہ کیا تھا۔۔بابا یہ سب ۔۔۔۔۔۔نہیں میں یہ نہیں ہونے دو گا بابا میں کسی صورت یہ نکاح نہیں کروں گا۔۔۔یہ کہہ کر احد غصہ اور دکھ کے تاثر لۓ سب کو دیکھ کر باہر نکل جاتا ہے۔۔۔
۔احد بیٹا بات تو سنو ۔۔۔شاہ بیگم اسکے پیچھے جانے لگتی ہے مگر شاہ زمان اسے روکھ لیتے ہے اور کہتے ہے ۔۔۔بیگم اسے کچھ دیر اکیلا چھوڑدیں۔
شاہ بیگم احد کو جاتا ہوا دیکھ کر وہی صو فے پہ گر سی جاتی ہے اور شاہ زمان فہد کو لیکر باہر نکل جاتے ہے
یا اللہ میرے گھر کو کس کی نظر لگ گئ۔۔
!!؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛!!!!!!!؛؛؛؛؛؛؛؛؛!!!!!!!؛؛؛؛؛؛؛؛؛!!!!!!!؛؛؛؛وہ اس تصادم کے بعد گاڑی سے باہر جانے کی کوشش بھی نہیں کر پا رہا تھا ۔۔
کیا کروں بھاگ جاؤں یا باہر جا کر دیکھو ں نہیں نہیں بھاگ جاتا ہوں لیکن اگر کوئ نہ آیا اسکی مدد کو تو نہیں نہیں مجھے باہر جا کر دیکھنا ہوگا ۔۔
وہ بہت ڈرا ہوا تھا بلکہ رو دینے کو ہے کہا جاۓ تو غلط نہ ہوگا۔۔
اس نے ڈرتے ہوۓ گاڑی سے باہر قدم رکھیں اور ٹارچ لاءٹ لیکر ارد گرد دیکھنے لگا مگر سب طرف دیکھ کر بھی اسے کچھ نہ ملا ۔۔۔
اوہ یہ تو پل ہے کہیں وہ پل سے نیچھے تو نہیں۔۔۔۔۔
یہ سوچ آتے ہی اسکا حلق گویا سوکھ گیا ۔
وہ بوجھل قدموں سے پل کے کنارے پہ آکر نیچھے دیکھنے لگا جہاں کسی کا ساکت وجود دیکھ کر وہ پل بھر کو اپنے حواسوں سے بھی غافل ہو چکا تھا
وہ ڈر کر پیچھےہٹا اور جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔پھر کچھ سوچ کر اپنا موبءیل اٹھایا اور نمبر ملانے لگا مگر آگے سے نمبر بزی جا رہا تھا۔۔
اک بار اور ملانے پر بھی جب نمبر بزی ہی ملا تو وہ اپنا سر پکڑ کر رہ گیا ۔۔۔۔
اب کیا کروں کیسے بلاؤں اکیلے جانے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی۔۔۔
وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اسے اپنے ڈراءیور کا خیال آیا اس نے فوراََ" فون اٹھا کر کال کیا کال جلد ہی اٹھائ گئ ۔۔۔
میر ک
ہاں ہو جلدی ریلوےٹریک والے پل پہنچو۔۔۔۔
جی چھوٹے نواب میں آ رہا ہوں ۔۔۔
میر! please dont call me nawab صرف زہد بلاؤ۔۔۔
جی زید سر ۔۔۔
کہہ کر وہ فون سامنے رکھ کر گاڑی سے باہر آتا ہے اور دوبارہ پل سے نیچے دیکھ کر وہاں تک پہنچنے کہلۓ راستہ تلاش کرنے لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔!!!
!!!!!!!!!!!""""""""""!!!!!!!!!!!!""""""""""""!!!!!!!!!
احد بے چینی میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا ہے کہ اسکی زندگی کے ساتھ یہ کیسا مزاق ہو رہا ہے یہ سوچتے سوچتے کب اس کی آنکھ لگی اسے پتہ نہ چلا ۔۔۔
صبح کی روشنی ہر طرف پھیل چکی ۔موبءیل مسلسل بجنے سے اس کی آنکھ کھلی تو فہد کا نام دیکھ کر اس نے جلدی سے فون آٹھایا۔۔۔
جی بھائ خیریت۔۔۔
ہاں احد تو چاچوں بن گیا ہے میرا بیٹا بلکل بابا جیسا ہے۔۔۔فہد خوشی سے پاگل ہو رہا تھا۔۔
مبارک ہو بھائ بھابھی کیسی ہے اور چھوٹے شاہ کیسے ہیں۔۔۔۔
سب ٹھیک ہے بس تم بابا کو لیکر آجاؤ
با با سنتے ہی اسکے سامنےاک تلخ حقیقت گھومنے لگی ۔۔
ماں کو بھی واپس آنا ہے میں تھوڑی دیر بعد آؤ گا ناز کے گھر سے انکی والدہ رکنے آ نے والی ہے ۔۔۔فہد نے بات پوری کی۔
جی بھائ کہہ کر وہ فون بند کر کے باہر جانے ہی لگتا ہے ک کچھ یاد آ نے پر رک جاتا ہے ۔اور تیار ہونے کے غرض سے ساءیڈ روم کی جو کمرے میں ہے چلا جاتا ہے
باہر آتا ہے تو ملازمہ جلدی سے ناشتہ لگا دیتی ہے وہ بے دلی تھوڑا سا کھا کر اٹھتا ہے تو پیچھے سے شاہ زمان کی آواز پر چونک جاتا ہے ۔
جی بیٹا چلے ہمارے پاس وقت نہیں ہے جلدی واپس بھی آنا سارے انتظامات ملازموں کے ہاتھوں میں دے رکھے ہے آکر تسلی بھی کرنی ہے۔
کہ کر شاہ زمان باہر کی طرف نکل جاتے ہے اور وہ بھی دکھ اور حیرت میں باہر کی جانب بڑھتا ہے
!!!!!!!!!!!!!!""""""""""""""""!!!!!!!!!!!"""""""""""""
زید نیچے جانے کا راستہ ڈھونڈھ ہی رہا ہوتا ہے کہ اسے کسی گاڑی کی ہیڈ لاءیٹ جلتی نظر آئ ۔۔
وہ پریشان ہونے لگتاہے مگر کاڑی پہچان کر ذرا مطمءن ہو جا تا ہے۔۔اور آگے بڑھتا ہے
شکر ہے میر تم آگءے مہں بہت ڈر گیا ہوں۔۔۔زید نے میر ڈراءیور کے گاڑی سے باہر آتے ہی اس کی طرف بڑھتے ہوۓ مخاطب ہوا
بارش اب بھی ہو رہی تھی مگر تیزی میں کمی آ گئ تھی۔۔۔
سر ہمیں نیچھے جانا ہوگا پل سے آگے کی ڈھلوان والی سڑک ٹریک کی طرف جاتی ہے ۔میر نے بتایا
اور دونوں اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر آگے بڑھے۔
وہ ٹریک سایڈ پہ پہنچ گۓ اور جلدی گاڑی سے نکل کر اسے ڈھونڈنے لگے ۔۔۔
زید میر سے آگے آگے تھا وہ بھاگتے ہوۓ پل کے نیچے آگیا اور اسے وہ ساکت وجود نظر آتے ہی وہ اسکی طرف بھاگا
زید قریب پہنچ چکا تھا اس نے جلدی سے اسکی طرف جھک کر اس کے چہرے کا رخ اپنی طرف کیا۔جہاں سواۓ خون کے اسے کچھ نظر نہ آیا۔
اوہ یہ تو کوئ لڑکی ہے۔۔میر نے اسے دیکھ کر کہا
جبکہ زید اب بری طرح کانپ رہا تھا۔
میر یہ مجھ سے کیا ہو گیا
یہ میں نے کیا کر دیا
یہ کیا ہو گیا مجھ سے
زید اسے ہاتھوں میں لیکر چلا رہا تھا۔۔۔۔
وہ سب ہسپتال سے گھر آ چکے تھے ناز کے پاس اسکی ماں رک گئ تھی ۔۔
بابا مجھے آپ سے بات کرنی ہے!!!! آخر احد نے ہمت کرکے بات کرنے کی کوشش کی جب شاہ زمان کسی ملازم سے انتظامات کے متعلق بات کر رہے تھے،
ملازم کو جانے کا کہہ کر شاہ زمان نے احد کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔
جی بولے احد کیا بات ہے ؟
بابا یہ سب اچانک ۔۔۔مطلب بابا میں یہ سب برداشت نہیں کر پا رہا بابا خدارا مجھ پر ترس ہی کھا لے۔۔۔۔۔۔۔ بولتے بولتے اسکی آواز سخت ہو گئ ۔۔
شاہ زمان نے اسے جب سخت نگاہوں سے دیکھا تو وہ شرمندہ ہوا ۔۔
کیا برداشت کر رہے ہو برخددار اور ترس کس بات کا کیا ہم تم پر ظلم کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔شاہ زمان آپے سے باہر ہونے لگے۔۔۔۔
شاہبیگم اور فہد وہی تھے اسی لۓ جلدی وہاں پہنچ گۓ ۔۔
کیا بات ہے بابا ؟ فہد گھبرایا ہوا تھا۔
احد آپ اندر جاۓ اور نکاح کے لیے تیار ہو جاۓ۔۔۔۔شاہ بیگم معاملہ ختم کرنے کے لیے احد کو وہاں سے بھیجنا چاہتی تھی۔۔
نہیں اماں میں نہیں جاؤں گا مجھے بابا سے جواب چاہیے ۔۔۔۔احد کی آواز تیز تھی ۔۔۔۔
اچانک شاہ زمان کا ہاتھ اٹھا اور احد کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا۔
ملازم فاصلے پر تھے اسلۓ کوئ کچھ سن نہ سکا۔۔۔۔
آپ کو جواب چاہیۓ ادھر آۓ میرے ساتھ ۔۔۔۔شاہ زمان اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتے ہوۓ اپنے ساتھ لے گۓ۔۔
شاہ بیگم اور فہد بھی ان کے پیچھے چل پڑے ۔۔
شاہ صاحب رکیے بات سنیے میں احد کو سمجھا دونگی۔۔۔شاہ بیگم روتے ہوۓ کہنے لگی
جبکہ فہد کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے
شاہ زمان نے فہد سے گاڑی نکالنے کا کہا اور احد کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
گاڑی شاہ زمان کے کہے ٹھکانے کی طرف چل پڑی۔۔۔
!!!!!!!!!"""""""""""""!!!!!!!!!!""""""""""!!!!!!!!!!
زید اورمیر اس وقت ہسپتال میں تھے وہ ساکت وجود بیڈ پر پڑا ہوا تھا اور ڈاکٹرز اور نرسز نے اسے گھیر ا ہوا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں کسی کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔
dr is she alive??
زید نے ڈرتے ہوۓ پوچھا۔۔۔
yes she is mr zaid but she have so many cuts nd wound but her face is immposible to distinguish
we do our best but we will never can give her face
ڈاکٹر نے اپنی بات ختم کی جو کوئ انگریز تھا
اچانک روم کا دروازہ کھلا اور اک پر کشش شخص جس کی طرف دیکھتے ہوۓ زید دوڑتا ہوا گیا بیڈ کی طرف بڑھا۔
wt r ur findings wt treatments are required???
اس خوبرو شخص نے ڈاکٹروں سے پوچھا۔۔۔
sir just an oridinary wounds treatment but face has serious and major tissue dislocation so face cant be as ۔۔۔۔
ڈاکٹر آگے کچھ کہتا اس سے پہلے اس خوبرو شخص نے جو مسلسل زید کو نم آنکھوں سے دیکھ رہا تھا جب ڈاکٹر اسے سب بتا رہا تھا ڈاکٹر کی بات کاٹتے ہوۓ زور سے کہا
plastic surgery
اور یہ سن کر زید کی آنکھیں خوف سے پھیلنے لگی
گاڑی جہاں رکی وہ جگہ دیکھ کر احد حیران ہوا مگر فہد کی آنکھیں جھکی ہوئ تھی ۔۔
یہ اک ہسپتال تھا شہر کے مہنگے ہسپتالوں میں سے ایک۔۔۔۔
شاہ زمان اور فہد دونوں خاموش تھے۔۔۔
احد کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کے بابا اسے ہسپتال کیو لیکر آۓ ہیں
بابا ہم یہاں کیو آۓ ہیں؟احد نے خاموش شاہ زمان سے پوچھا
مگر شاہ زمان خاموش رہے
احد نے فہد کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا مگر فہد نے بھی خاموشی کا سلسلہ برقرار رکھا۔۔۔
کافی دیر گزر چکی تھی مگر کوئ کسی سے بات نہیں کر رہا تھا ۔
آخرکار الجھن کاشکار احد بہت تنگ آچکا تھا۔۔۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسکے بابا ایسا کیو کر رہے ہیں۔۔۔
اس نے دوبارہ شاہ زمان کو آواز دی ۔۔۔
بابا۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔
مگر شاہ زمان نے کوئ جواب نہ دیا ۔۔۔
تنگ آکر احد نے فہد سے کہا۔۔۔بھائ آپ ہی بتاۓ ہم یہاں کیو آۓ ہیں آخر کب تک ہم یو ہی گاڑی میں بیٹھے رہے گیں۔۔۔؟؟؟؟
کیونکہ تم نے جو گناہ کیا ہے مجھ سے اسکا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے اتنا بڑا کلیجہ تمھارا ہوگا میرا نہیں مگر تمھیں جاننا تھا نا کہ تم پر ظلم کیو کیا جا رہا ہے تو آؤں ظلم کیا ہوتا ہے میں تمھیں دیکھاتا ہوں ۔۔۔۔
شاہ زمان سیکھ پاہ ہوکر گاڑی سے باہر نکلے اور ہسپتال کے اندر آگۓ۔۔۔
احد بھی گاڑی سے اتر چکا تھا اور آہستہ آہستہ اسی جانب جانے لگا
فہد اس سے آگے جا نے لگا تو اس نے اسے آواز دی۔۔۔
بھائ یہ کیا ہو رہا ہے آپ ہی بتا دیں پلیز ۔۔احد کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔۔۔۔
فہد نے اسے کوئ جواب نہ دیا اسکی حالت بھی احد سے مختلف نہ تھی اور ہسپتال کے اندر چلا گیا
احد بھی ہسپتال کے اندر چلا گیا
اندر جا کر اس نے دیکھا کہ شاہ زمان کسی ڈاکٹر سے بات کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
وہ قریب پہنچا مگر اس سے پہلے ان کی بات ختم ہو چکی تھی ۔۔۔
وہ لوگ آگے بڑھے تو احد بھی ان کے پیچھے ہو لیا۔۔۔
اک راہداری عبور کرتے ہوۓ اس نے دیکھا کہ فہد کسی سے ہاتھ ملا رہا تھا اور کچھ بات کر رہا تھا
وہی بینچ پر اک بوڑھی عورت اور مرد بھی بیٹھے تھے جو سر جھکاۓ بیٹھے تھے ۔۔۔
شاہ زمان وہاں پہنچا تو وہ بوڑھا شخص اٹھ کھڑا ہوا اور شاہ زمان کے سامنے ہاتھ باندھ کر رونے لگا۔۔۔
یہ میں کیا سن رہا ہو فیزو تم نے ڈاکٹر سے کیا کرنے کو کہا ہے؟؟؟؟؟شاہ زمان سخت لہجے میں سوال کر رہے تھے جبکہ جواب فیزو کے بجاۓ وہ بوڑھی عورت دینے لگی
جی شاہ صاحب ہم نے ہی کہا تھا کہ اسے زہر کا ٹیکہ دیکر مار دیا جاۓ چاچا جمشید نے بھی یہی کیا تھا اور پھر پورے خاندان نے زہر کھا لیا تھا ہم بھی یہی کر لیگے ویسے بھی ہمارے بعد کوئ رونے والا نہیں ۔۔۔اس کو یو مشینوں میں مارنے سےتو اچھا ہی نہ ۔۔۔وہ کہتے کہتے رو پڑی ۔۔۔
شاہ زمان کی آنکھوں میں بھی آنسوں تھے مگر وہ کوئ جواب نہ دے پاۓ ۔۔۔اور ڈاکٹر کے ساتھ سامنے I C U میں داخل ہونے لگے اور جاتے ہوۓ احد کو بھی ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔۔
احد جلد ہی ان کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا اورسامنے کا نظارہ دیکھ کر تھوڑی دیر کیلۓ سب کچھ بھول کر حیرت میں پڑ گیا۔۔۔
سلونی!!!!!
۔۔۔۔۔اس کے منہ سے نکلا۔۔۔
!!!!!!!!!""""""""""""!!!!!!!!!!!!""""""""""!!!!!!!!!!!
plastic surgery
یہ سنتے ہی زید۔کا سارا وجود منجمد ہو چکا تھا
وہ سوچنے سمجھنے کی حالت میں نہیں تھا۔۔۔
میر اسے لیکر گھر جاؤ اور پیکنگ میں مدد کرو یہ کل دبئ جا رہا ہے
میر نے اثبات میں سر ہلایا اور زید کی جانب بڑھا زید بغیر کچھ کہے وہاں سے جانے لگا اورicu سے نکلتے وقت اک نظر اس وجود کی جانب دیکھا جسے نرسو اور ڈاکٹرو کے ساتھ اب اسکا اپنا بھائ بھی گھیرا ہوا تھا جو کوئ عام بندہ نہیں تھا ۔۔۔
جی ہاں وہ خوبرو شخص جسے اک بار دیکھو تو دوبارہ دیکھنے کی چاہ ہو۔۔ایک بڑا سرجن تھا جس کے کئ ممالک میں بڑے بڑے میڈیکل انسٹیٹیوٹ۔ کالجز اور ہسپتال کے ساتھ پارٹنر شپ تھی
جو بہت قابل اور کم بولنے والا کسی کا بھی آ ءیڈیل بن جانے کی حد تک حسین ۔۔۔۔one and only
DR۔۔۔۔Aahil
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!:::::::::;;;;;;;;;''''!!!!!!!!!!!
کافی دیر تک ڈاکٹر مختلف procedure اور چند ایک چھوٹے موٹے آپریشن کے بعد اب میٹینگ روم میں بیٹھے آھل کا انتظار کر رہے تھے۔۔
دروازہ کھلا اور وہ کمرےمیں داخل ہوا اور اپنی مخصوص نشست پہ آکر بیٹھ گیا ۔۔
سارے ڈاکٹر اسکی طرف دیکھنے لگے
آپ سب کا بہت شکریہ u all done a wonderful job but میں چاہتا ہوں یہ بات یہاں سے باہر نہیں جانی چاہیے
sir dont worry ایسا کچھ نہیں ہوگا
۔۔۔۔۔۔اک ڈاکٹر نے کہا۔۔۔
مجھے پتہ ہے کہ ایسا کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔۔آھل نے ٹھنڈے لہجے میں کہا کیونکہ اسے پتہ تھا اگر وہ نہ بھی کہے تب بھی کوئ ایسی حرکت نہیں کریگا مگر یہاں معاملہ اس کے بھائ کا تھا اس لۓ اسے ایسا کہنا پڑا۔۔
اس لڑکی کی fake patient id بنا کر اسے جاپان والے انسٹیٹیوٹ میں بھیجنے کی تیاری کرو ۔۔۔