تو میرا شک اب یقین میں بدل چکا ہے ۔۔۔نور محمد صاحب نے کہا ۔۔
تم حناوے اور مناہل کو کبھی گھر لاۓ ہی نہیں تھے ۔۔۔وہ ابھی بھی اس مندر میں ہیں ۔۔۔
کالی کے منحوس مندر میں ۔۔۔۔۔۔
قیس کو لگا جیسے یک دم سے کسی نے اس کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی ہو ۔۔۔
میری مم مناہل اور حناوے ابھی بھی اس مندر میں۔۔۔۔ وہ دکھ و کرب سے بولا۔
قیس بیٹے ۔۔رات ہو چکی ہے یہ مناسب تو نہیں کہ میں تمہیں ابھی ساتھ چلنےکا کہوں لیکن ڈر ہے کہ ہم دو زندگیاں نا گنوا دے ۔۔ نور محمد صاحب نے نرمی سے کہا ۔۔
محترم کچھ بھی کرے میری مناہل اور حناوے کو اس شیطان کے چنگل سے بچا لے ۔۔ وہ اب گڑگڑانے لگا تھا ۔۔
نور محمد صاحب نے کندھے سے پکڑ کر اسے گلے لگایا اس کے کمر پر تھپکی دی ۔۔
صفیہ بیگم کو گھر میں تنہا نہیں چھوڑ سکتے ۔۔ایسا کرے آپ انہیں اسفند کے ہسپتال میں نور بانو بیگم کے پاس ٹھہرا دے ۔۔پھر ہم حضرت اعلٰی کے پاس ملاقات کی غرض سے جاۓ گے ۔۔۔
جج جی ۔۔۔بہتر ۔۔قیس نے آنکھیں کہنی سے صاف کرتے بمشکل کہا ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ صفیہ بیگم کو اسفند بھاٸی کے سپرد کیے اور عمر اور نور بانو بیگم کے ہاتھ میں پہناٸی انگوٹھی لیے نور محمد صاحب کی گاڑی میں بیٹھے منزلِ انجان کی طرف رواں دواں تھے ۔۔
عشا کی اذان کا وقت قریب تھا قریب ہی روڈ پر بنی جامع مسجد کے سامنے انہوں نے گاڑی روکی اورجماعت میں شامل ہوگٸے ۔۔۔
نماز سے فارغ ہوتے ہی وہ نور محمد صاحب کی ہدایت پر باہر کی طرف لپکے ۔۔
عمر اور نور محمد صاحب گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے جبکہ قیس اپنے جوتوں کو پہنتے ہوۓ ابھی مسجد کی سیڑھیوں پر ہی تھا ۔۔۔
سیڑھیوں کے بالکل ساتھ چمکتی ہوٸی سفید ماربل کا اک چبوترہ بنا ہوا تھا جس پر اک ناقص حال ملنگ بیٹھا روٹیوں کے ٹکڑے دودھ کے خستہ حال پیالے میں ڈبو ڈبو کے کھا رہا تھا ۔۔۔اور ساتھ ساتھ آس پاس گزرتے لوگوں کو دیکھ کر کبھی یکدم سے ہنسنے لگتا اور کبھی رونے لگتا اور کبھی گلے سے عجیب سی آوازیں نکالنے لگتا ۔۔۔ایسے جیسے وہ گونگا ہو اور بول نہ سکتا ہو ۔۔۔۔
اس کے ہاتھ اور منہ روٹی کے ذرات اور دودھ سے بھرے ہوۓ تھے ۔۔ قیس نے اک نظر اسے دیکھا اور آگے بڑھ گیا ۔۔۔اور مسجد کی سیڑھیاں اترنے لگا۔
اچانک کسی نے جست لگا کر پیچھے سے قیس پر چھلانگ لگاٸی اور اسے نیچے گرا دیا ۔۔قیس اچھل کر منہ کے بل نیچے گرا اور جس نے اسے نیچے گرایا وہ ابھی بھی اس کی کمر پر سوار تھا ۔۔
قیس نے اٹھنے کی ناکام کوشش کی لیکن اسے گرانے والے نے اس کے بازو زور سے پکڑ رکھے تھے کہ قیس کی لاکھ کوشش پر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوا..۔
""جس پر دل گواہی دے وہ زندہ ہے اور جس پر آنکھ ٹھہر جاۓ وہ انجام ہے"" یاد رکھنا میری یہ بات"""
قیس کے کان کے قریب کسی نے سرگوشی کی۔۔
قیس ابھی بھی منہ کے بل گرا پڑا تھا ۔۔ہلچل مچنے پر عمر نے مڑ کر دیکھا۔۔۔
گندے کپڑوں میں ملبوس ملنگ قیس کی کمر پر سوار ہے ۔۔وہ یہ دیکھ کر بھاگا آیا ۔۔دو چار لوگ اور بھی ملنگ کو اٹھانے کیلیے اس کی طرف بڑھے جو قیس کے اوپر چڑھ کر بیٹھا تھا اور گونگے بہرے لوگوں جیسا ریکٹ react کرتے ہوۓ عجیب سی آوازیں لگا رہا تھا ۔۔
بڑی مشکل سے اک بھاٸی اور عمر نے ملنگ کو پکڑ کر چبوترے پر بٹھایا اور قیس کی اٹھنے میں مدد کرنے لگے۔
قیس کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھا ۔۔۔اس نے ملنگ کو دیکھا جو اب ہاتھ پر لگی مٹی اور دودھ کو اپنی لمبی زبان سے چاٹ رہا تھا۔۔
قیس نے اک نظر ملنگ پر ڈالی اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔۔
اردگرد جمع لوگوں کا رش بھی چھٹنے لگا ۔۔۔ملنگ اب تنہا چبوترے پر بیٹھا زبان چاٹ رہا تھا ۔۔۔
جیسے ہی لوگوں کا رش کم ہوا وہ چبوترے سے اک لمبی چھلانگ لگا کر اترا۔ اور قریب ہی بنی جھاڑیوں اور چھوٹے درختوں کی قطار کے قریب زمین پر جا بجے بکھرے پتوں کے اوپر بیٹھ گیا ۔۔
اس ملنگ نے اپنے لمبے میل کچیل سے بھرے گھنگریالے بالوں کیساتھ آسمان کی طرف دیکھا اور دعا کیلیے ہاتھ بلند کر لیے ۔۔۔
وہ ہر چیز سے بے خبر صرف آسمان کی طرف نظریں جماۓ دعا کر رہا تھا ۔۔آنسوٶں کی دو لڑیاں اس کے رخسار سے رواں دواں تھی ۔۔۔
اور پھر ﷲ کی بارگاہ میں حاضری کیلیے
صرف دل کا شیشے کی طرح صاف ہونا ضروری ہے نا کہ ظاہری حلیے کا ۔۔
پُرخلوص نیتوں کا ہونا ضروری ہے نا کہ خوبصورت چہروں کا ۔۔
*******************************
گاڑی پہاڑی درگاہ کے سامنے رکی ۔۔۔
فقیر کچھ گول گول رنگ برنگ پتھروں کو اٹھاۓ درگاہ کی سیڑھیوں میں کھڑا تھا۔
عمر اور قیس کو دیکھتے ہی اس نے منہ بنایا ۔۔
اوۓ موٹی عقل کے لڑکوں ۔۔۔۔۔ ابھی وہ فقیر اتنا ہی بول پایا تھا کہ نور محمد صاحب کو دیکھ کر فوراً ہی چپ ہوگیا اور سیڑھیوں کے ایک طرف نظریں جھکا کہ کھڑا ہو گیا ۔۔
نور محمد صاحب نے مسکراتے ہوۓ اس فقیر کے سر پہ ہاتھ رکھا اور آگے بڑھ گٸے ۔۔عمر اور قیس بھی ان کے پیچھے ہی تھے ۔۔
نور محمد صاحب درگاہ کے اندر داخل ہوۓ لیکن عمر اور قیس کو باہر ہی کھڑا کر کے وہ درگاہ کے آخر والے کمرے میں داخل ہوگٸے۔۔درگاہ کا آخری کمرہ اندھیرے میں ڈوبا تھا ۔۔
کچھ ہی دیر بعد وہ فقیر بھی سیڑھیاں چڑھتا درگاہ میں داخل ہوا اور ان کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔۔
چلو تم لوگ بھی اس کمرے میں چلے جاٶ ۔۔بلاوا آیا ہے ۔۔
اس فقیر نے بے رخی سے انہیں دیکھتے ہوۓ اس کمرے میں جانے کا کہا جہاں اندھیرا پھیلا تھا ۔۔۔
یار فقیر میاں ۔۔تم تو درگاہ کے باہر سے آ رہے ہو تمہیں کیا خبر کہ ہمیں اندر کسی نے بلایا ہے ۔۔۔ عمر نے آبرو اچکاتے ہوۓ پوچھا ۔۔
فقیر کچھ پل انہیں دیکھتا رہا ۔۔۔لیکن خاموش رہا ۔۔
چلو یار ۔۔۔ اندر چلتے ہے ۔۔قیس نے عمر سے کہا اور آگے بڑھ گیا جب کہ فقیر نے عمر کے بڑھتے پاٶں کے آگے ٹانگ اڑا لی اور اس کے کان کے قریب منہ کرکے بولا ۔۔
کیا تم ابھی بھی نہیں جان پاۓ کہ میں تمہیں موٹی عقل کا کیوں بولتا ہوں ۔۔۔۔؟
عمر اس کی بات سنی ان سنی کرتے اندر کی طرف بھاگ گیا جبکہ پیچھے خستہ حال حلیے میں فقیر کھڑا قہقہے لگا کر ہنسنے لگا۔۔۔
********************************
شام کا وقت قریب تھا ۔۔۔ پرندے اپنے اپنے گھونسلوں پر پہنچنے کیلیے اونچی اڑان بھرے آسمان پر تیزی سے گزر رہے تھے۔
خستہ حال جھونپڑی کے باہر دو لڑکیاں سر ڈھانپے بیٹھی تھی۔۔۔یہ جھونپڑی گاٶں کے آخر میں بنی تھی ۔۔ دور سے لاٹھی ٹیکتی بڑھیا دھیرے سے آگے بڑھی ۔۔۔ بڑھیا کو آتا دیکھتے ہی ان دونوں لڑکیوں میں ہلچل پیدا ہوٸی ۔۔۔بڑھیا جھونپڑی کے اندر داخل ہوگٸی وہ لڑکیاں بھی اس کے پیچھے ہی اندر چلی گٸی ۔۔
اک کمرے جتنی جگہ پر بنی جھونپڑی میں اک ٹاٹ کا کپڑا بچھا تھا اور اس کے ساتھ ہی لکڑی کا چوڑا میز پڑا تھا۔۔۔
اس بڑھیا نے ہنستے ہوۓ ان دونوں کو دیکھا اور قریب ہی ٹاٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔
جیسے ہی وہ لڑکیاں ٹاٹ کے کپڑے پر بیٹھی .. بڑھیا بھی قریب پڑی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گٸی ۔۔
میری پیاری آونتیکا اور شرویا ۔۔۔وہ بوڑھی اپنی کرہیہ آواز میں بولی ۔۔
دونوں لڑکیوں کے چہروں سےچادر سرک گٸی ۔۔
سامنے دو نہایت خوفناک شکل والی لڑکیاں براجمان تھی ۔۔ ایک کے گالوں کا گوشت غاٸب تھا اس کے لمبے گھنے بال تھے اور پاٶں غاٸب ۔۔۔۔حالانکہ جب اس نے خود کو چادر سے ڈھکا تھا تب اس کے پاٶں تھے ۔۔۔ جبکہ دوسری لڑکی کسی دولہن کی مانند سج دھج کر بیٹھی تھی اس نے پرانے زیورات زیب تن کر رکھے تھے اس کی آنکھیں غاٸب تھی ۔۔آنکھوں کی جگہ خلا تھی ۔۔
وہ دونوں شیطانی ہنسی ہنستی بڑھیا کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
پہلے میری دو بیٹیاں تھی ۔۔ آج رات کے بعد میری چار بیٹیاں ہو گی ۔۔۔ ہاہاہا ۔۔
اب وہ قہقہے لگانے لگی۔۔۔۔
پھر اس نے قریب پڑے چوڑے لکڑی کے میز کو سرکا دیا نیچے تہہ خانے تک جانے کا رستہ تھا وہ بڑھیا اور دونوں لڑکیاں پھر سے چادر سروں پر ڈھانپے سیڑھیاں اترتے نیچے کی طرف بڑھ گٸیں ۔۔
نیچے جگہ جگہ خون گرا تھا اور ہڈیوں کے ڈھانچے جابجا پھیلےتھے ۔۔۔انہی ہڈیوں کے ڈھیر پر دو وجود جنہیں اک کالے کپڑے میں بند کیا گیا تھا ان ہڈیوں کے اوپر پڑے تھے ۔۔۔ان ہڈیوں کے قریب ہی اک ستارے کا نشان بنا تھا جس کے درمیان میں کھوپڑی کی شکل بنی تھی ۔۔۔وہ بڑھیا اب اس ستارے کے سامنے بیٹھ گٸی ۔۔
دولہن کے لباس میں موجود لڑکی آگے بڑھی اور کسی پیاسے اور بھوکے کی مانند ان کالے کپڑے میں لپٹے وجود کو ٹٹولنے لگی ۔۔۔اس بڑھیا نے چونک کر اسے دیکھا اور لکڑی کی لاٹھی اس کے سر پر مار کر اسے پیچھے کیا ۔۔۔
اچانک دوسری لڑکی میں بھی ہلچل پیدا ہوٸی وہ بھی بھوکے کتے کی مانند رینگتی ہوٸی ان وجودوں کی طرف بڑھی ۔۔اس بڑھیا سے دونوں کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔
اری او خبیثوں ۔۔اگر ابھی انہیں مار کر کھا پی کر ختم کر دیا تو شیطان کی پجارنیں مٹ جاٸیں گی ۔۔ان پر محنت کر کے انہیں یہاں تک لاٸی ہوں ۔۔۔خبردار جو میری محنت پر پانی پھیرا ۔۔۔ وہ بڑھیا چینخی۔۔۔
بڑھیا نے اپنی جیب سے راکھ نکال کر ان پر پھینکی جس سے وہ دونوں چینختی ہوٸی زمین پر ڈھے گٸی ۔۔۔۔۔
************************************
کمرے میں ہر طرف اندھیرا چھایا تھا ۔۔۔
کمرے کے اک طرف بنی بڑی بڑی جالیوں سے ٹھنڈی ہوا اندر آ رہی تھی..
درمیان میں پڑے اک لکڑی کے چھوٹے سے گول میز پر اک دیا جل رہا تھا ۔۔ دیے کی لو اس قدر دھیمی تھی کہ وہ کمرے کو روشن نہیں کر پا رہی تھی اور کچھ جالیوں سے آتی ٹھنڈی ہوا کے سبب وہ بار بار بجھنے کے قریب ہوتا جا رہا تھا ۔۔
ایسے میں دروازہ کھولے قیس اور عمر کمرے میں داخل ہوۓ اور کمرے میں بچھے قالین پر دوزانو بیٹھ گٸے ۔۔۔
سفید چادر کا عمامہ بناۓ سامنے جاۓ نماز پر کوٸی بیٹھا تھا جس نے نور محمد صاحب کا ہاتھ تھام رکھا تھا ۔۔۔
اس سفید عمامے والے بزرگ نے نور محمد صاحب کا ہاتھ دھیرے سے چھوڑا اور قیس کی طرف اشارہ کر کے اسے آگے آنے کا کہا ۔۔
قیس دھیرے سے سر جھکاۓ آگے بڑھا ۔۔ اور سر جھکاۓ ہی اس نے سلام کیا ۔۔
سلام کا جواب شاٸستگی سے دیا گیا ۔۔
بیٹا ۔۔۔ آپکو ایک بہت اہم کام کرنا ہے۔۔ آپکو آج رات بارہ بجے سے پہلے پہلے کالی کے مندر سے جڑے کچھ راز جاننے ہے۔ کیا آپ یہ کرو گے ؟ سفید عمامے والے بزرگ نے کہا ۔۔
جی میں حاضر ہوں اور ایسا ہی کروں گا جیسا آپ فرماۓ گے ۔۔۔ قیس نے تابعداری سے کہا ۔۔
دیکھ لو بیٹا اس کام کیلیے بہت دل جگرے کی ضرورت ہے ؟ بزرگ پھر سے گویا ہوۓ
محترم آپ فکر نہیں کرے ۔۔میں تیار ہوں ۔۔قیس نے کہا ۔۔
وہ بزرگ مسکراۓ ۔۔
اور اسے کچھ ضروری باتیں سمجھانے لگے۔۔۔
اب قیس اس مندر میں جانے کیلیے بالکل تیار تھا..
بزرگ نے قیس کی انگلیوں میں نور محمد صاحب کی کالے دھاگے میں لپٹی انگوٹھیاں پہناٸی ۔۔اور اسے بارہ بجے سے پہلے مندر سے نکلنے کی سختی سے ہدایت کرتے رخصت کیا۔۔۔
عمر نے بھی قیس کے ساتھ جانے کی اجازت طلب کی جو کہ مسترد کر دی گٸی۔۔۔
رات کے 9:02 منٹ ہوچکے تھے ۔۔۔
جب قیس نے مندر کے سامنے باٸیک روکی اور اپنی کلاٸی میں بندھی گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔
اسے سفید عمامے والے بزرگ نے اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ اسے اس مندر میں کیا کرنا ہے جس کیلیے وہ بالکل تیار تھا ۔۔۔
اس نے جھاڑیوں کے پار باٸیک کھڑی کی اور مندر کی ٹوٹی پھوٹی سیڑھیاں چڑھتے داخلی دروازے سے اندر داخل ہو گیا ۔۔۔
کالی کے منحوس مندر میں ہر طرف اک عجیب و غریب سی سنسناہٹ پھیلی تھی جسے قیس نے شدت سے محسوس کیا ۔۔ لیکن وہ چپ چاپ آگے بڑھتا رہا
اب وہ مندر کے اندرونی کمرے میں کھڑا تھا جہاں نیلی آنکھوں والا اک ٹوٹا پھوٹا بت چبوترے پر بکھرا پڑا تھا بس اس کا سر اور منہ صحیح سلامت تھا ۔۔
قیس نے جھرجھری لیتے اس بت کے ٹکڑوں کو دیکھا ۔۔
وہ اس کے سامنے زمین پر بیٹھنے ہی لگا جب اسے چبوترے کے داہنی ہاتھ کی طرف اک کمرے کا دروازہ دکھاٸی دیا وہ چونکا اور اس کی طرف بڑھا ۔۔
جیسے ہی اس نے قدم اس دروازے کی سمت بڑھاۓ اک چینخ اور قہقہے کی گونج بیک وقت اس کے کانوں سے ٹکراٸی۔
اس نے دروازہ کھول دیا ۔۔۔
وہ حیرت زدہ رہ گیا ۔۔وہ کمرہ بالکل صاف ستھرا تھا ۔۔یہاں تک کہ مٹی کا ہلکا سا زرہ بھی فرش میں موجود نہیں تھا اور دوسری حیرت کی بات اس کمرے میں کوٸی چیز نہیں تھی حتی کہ اک چھوٹی سی سوٸی بھی نہیں تھی بالکل خالی اور صاف کمرہ ۔۔۔
وہ کمرے کے درمیان میں چوکڑی بھرتا ہوا بیٹھ گیا ۔۔
اس نے دل ہی دل میں کچھ انتہاٸی پر اثر کلمات دہراۓ جو اسے سفید عمامے والے بزرگ نے سمجھاۓ تھے۔۔۔
اس نے دھیرے سے آنکھیں موندھ لی ۔۔
اب وہ حالت کشف میں تھا ۔۔ اک ایسی حالت میں جس سے اس جگہ کا راز کھلنے والا تھا۔۔۔
آنکھیں بند تھی ۔۔آنکھیں بند میں ہی اسےمحسوس ہوا کہ جس کمرے میں وہ بیٹھا ہے وہاں کا دروازہ کھلا اور اورنج کپڑوں میں ملبوس اک پنڈت اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا ۔۔ اس کی آنکھیں بند تھی لیکن حیرت کی بات وہ کمرے کا سارا منظر دیکھ اور محسوس کر سکتا تھا ۔۔
دروازہ پھر کھلا اک سفید کپڑوں میں ملبوس سر پہ ٹوپی پہنے اک نوجوان اندر داخل ہوا اور وہ بھی وہی بیٹھ گیا۔۔
قیس آنکھیں بند کیے خاموش بیٹھا رہا ۔۔
تھوڑی دیر بعد دروازہ پھر کھلا اور دو نوجوان لڑکیاں سر پہ چادر ڈھانپے اندر داخل ہوٸی اور وہ بھی قیس کے سامنے بیٹھ گٸی ۔۔۔ انہیں نے چادر سے اپنا سارا وجود چھپا رکھا تھا ۔۔
قیس یہ منظر دیکھ کر کپکپانے لگا ۔۔
تب ہی اس کے کانوں میں سفید عمامے والے بزرگ کی آواز گونجج ۔۔۔۔
قیس بیٹا ۔۔۔ پریشان نہیں ہو میں تمہارے پاس ہی ہوں بس تم مجھے دیکھ نہیں سکتے ۔۔۔ان سے رعب اور غصے سے بات کرو اور اس مندر کا راز جاننے کی کوشش کرو اگر چہ یہ خبیث روحیں مشکل سے ہی کچھ بتاۓ گی ۔۔ ۔۔۔۔۔ بارہ بجے سے پہلے ہر حال میں یہ کام مکمل کرنا ہے۔۔۔
قیس نے اک لمبا سانس لیا اور پنڈت کی طرف منہ کیا ۔۔اس کی آنکھیں ابھی بھی بند تھی ۔۔
پنڈت غصے سے قیس کو دیکھنے لگا ۔۔۔
اس مندر کا راز بتا ۔۔۔قیس نے غصے سے پوچھا ۔۔
اس کے ماتھے پر کچھ شکنیں ابھری لیکن وہ بولنے لگا ۔۔۔
میں تجھے کیوں بتاٶں ۔۔۔تو کل کا چھوکرا مجھے یہاں تک بلا کر لایا ۔۔۔ تجھ میں آخر ایسا کیا خاص ہے؟ پہلے اپنی طاقت بتا پھر ہم سے پوچھنا ہے وہ پوچھ ۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔
قیس نے محسوس کیا کہ پنڈت کے الفاظ تو سمجھ آ رہے لیکن اس کی آواز انسانی آواز نہیں بلکہ لاٶڈ سپیکر جیسی کوٸی عجیب سی آواز ہے۔۔۔
اس سے کہو ۔۔میری طاقت اک راز ہے پر اگر یہ شمس کےابھرتی کرنوں تلے اُگے زرد پھولوں کی مار سے بچنا چاہتا ہے تو اس مندر کا راز بتا ۔۔ اور یہ بھی کہہ دینا کہ میں دوبارہ نہیں پوچھوں گا۔۔
قیس کے کان میں بزرگ نے سرگوشی کی ۔۔۔
قیس نے ہونٹوں پہ زبان پھیری اور آنکھیں بند کیے بزرگ کی بات پنڈت کے سامنے غصے میں دہراٸی ۔۔
زرد پھولوں کا سنتے ہی پنڈت تھوڑا نرم پڑا ۔۔۔
اک عیساٸی تھی جو مسلمان ہونے آٸی تھی دوسری ہندو تھی جو مسلمان ہونا چاہتی تھی ۔۔اس سے آگے میں کچھ نہیں جانتا ۔۔۔ پنڈت نے کہا اور چپ کر گیا ۔۔
کون عیساٸی کون ہندو ۔۔۔کس کی بات کر رہا ٹھیک سے بتا ۔۔قیس نے پھر سے رعب سے پوچھا ۔۔تو پنڈت نے چادر میں لپٹی دونوں لڑکیوں کی طرف دیکھا اور ہنسنے لگا ۔۔۔۔
اس کی ہنسی اس قدر وحشت زدہ تھی کہ وہ اک پل کیلیے لرز گیا ۔۔
قیس وہی کلمات دوبارہ پڑھو اور ان منحوسوں سے جانے کا کہو یہ کبھی درست بات نہیں بتاۓ گے ۔۔۔ اب میں اپنے طریقے سے خود ساری کہانی معلوم کروں گا۔۔۔
قیس نے ایسا ہی کیا تو وہ باری باری اٹھ کر جانے ۔۔۔سب سے آخر میں ٹوپی والا شخص گیا ۔۔۔قیس نے اسے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔جانے کیوں اسے ٹوپی والے شخص میں اک انجانی کشش محسوس ہوٸی ۔۔۔قیس کچھ پل اسے دیکھتا رہا ۔۔۔ ٹوپی والا شخص بھی دروازے کے قریب پہنچ کر رکا اور مڑ کر قیس کو دیکھنے لگا اس کے ہونٹوں پر اک پراسرار سی مسکراہٹ تھی ۔۔۔ قیس اسے دیکھتا رہا ۔۔۔ دیکھتا رہا ۔۔۔جب تک کہ وہ دروازہ کھول کے باہر نا چلا گیا ۔۔۔
قیس نے دھیرے سے آنکھیں کھول لی۔۔۔
قیس بیٹا اب میری بات غور سے سنو۔۔۔۔دروازہ کھول کر باہر جاٶ ۔۔۔ اور آنکھیں بند کر کے چلتے رہنا ۔۔ تم دروازے سے نو قدم چلو گے اور ہر تیسرے قدم پر آس پاس جو چیز تمہارے ہاتھ میں آٸی اسے پکڑ لینا ۔۔نوایں قدم پر پہنچ کر تمہارے پاس تین چیزیں جمع ہو چکی ہو گی ۔۔انہیں گردن جھکا کر دیکھنا مت بلکہ سیدھا مندر سے باہر نکلنا اور باٸیک میں بیٹھ کر فوراً درگاہ پہنچو ۔۔۔۔اور آخری بات پیچھے سے اگر کوٸی پکار سناٸی دے تو توجہ دٸیے بنا سیدھا منہ کر کے چلتے رہنا۔۔۔۔۔
قیس نے ایسا ہی کیا ۔۔تین چیزیں اس کے ہاتھ میں تھی وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا ہے ؟ وہ سیدھا مندر سے باہر نکلا ۔۔پیچھے سے اسے مناہل حناوے، صفیہ بیگم اس کے فوت شدہ والد کی آوازیں ابھری ۔۔جن پر توجہ دٸیے بنا آنکھوں میں آنسو کی لڑیاں لیے وہ باہر آ گیا ۔۔
کچھ ہی دیر بعد وہ پہاڑی درگاہ کے اندھیرے کمرے میں موجود تھا۔۔۔
اس نے تین چیزیں سامنے رکھی ۔۔۔سفید عمامے والے بزرگ نے طاق میں لگے قطار در قطار چراغوں کو روشن کرنا شروع کر دیا ۔۔۔کمرہ روشن ہو گیا۔۔۔
اس نے ہاتھ میں پکڑی چیزوں کی طرف نظر دوڑاٸی ۔۔۔
ایک تو بت کے سامنے جلانے والی دیا سلاٸی تھی۔۔
دوسری اک مٹی کی گوندھی ہوٸی گڑیا تھی
جبکہ تیسری چیز اک سیاہ آنکھ کا ڈیلا Eye ball تھا ۔۔
قیس نے اک جھرجھری لیتے اس آنکھ کے بال کو اور باقی دونوں چیزوں کو زمین پر رکھا ۔۔۔
آپ بہادر ہو بیٹا ۔۔۔ میں کچھ پل کیلیے تخلیہ چاہتا ہوں ۔۔ آپ باہر درگاہ کے صحن میں انتظار کریں ۔۔۔میں کچھ معلومات نکالنے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔ سفید عمامے والے بزرگ نے کہا ۔۔
عمر ۔۔ قیس باہر چلے گٸے۔۔۔۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد فقیر نے انہیں پھر سے اندر جانے کا کہا ۔۔
قیس بیٹا آپ نے کھلی یا بند آنکھوں سے کچھ عجیب وغریب چیز یا کچھ بھی دیکھا جسے دیکھ کر آپ چونک گٸے ہو؟ بزرگ نے قیس سے پوچھا ۔۔
محترم وہاں ہر چیز ہی چونکا دینے والی تھی ۔۔کوٸی خاص سے بھی خاص چیز میرے ذہن میں نہیں آ رہی ۔۔قیس نے دماغ پر زور دیتے ہوۓ کہا ۔۔
ہمممم لیکن بیٹا اچھے سے سوچ لو اک بار پھر ۔۔۔
لیکن کافی دیر سوچنے کے بعد بھی اس کے ذہن میں کوٸی خاطر خواہ چیز نہیں آٸی ۔۔
بزرگ نے اک لمبا سانس لیا اور ان کی طرف دیکھا ۔۔
مجھے کچھ حیران کن معلومات حاصل ہوٸی ہے ۔۔۔ میں وہ آپ کو بھی بتانا چاہتا ۔۔۔
بیٹا تقسیم ہند سے پہلے کے اس مندر کے پچھلی طرف اک گاٶں آباد تھا جو کہ اس وقت "رشکتم پور" کہ نام سے جانا چاہتا تھا ۔۔ وہاں اک "آرمپالی" نامی ہندو عورت رہتی تھی جو شیطان کی پجارن تھی۔۔
اور پھر پتہ چلا کہ اک مسلم نوجوان اس کے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا حتٰی کہ اس نے آرمپالی سے شادی رچا لی ۔۔اور یہ بھی پتہ چلا کہ ان کی شادی مسلمانوں اور ہندوٶں دونوں رسوم سے ہوٸی ۔۔۔
بعد ازاں ان کے ہاں اولاد ہوٸی جسے آرمپالی ہر بار بے دردی سے مار کر شیطان کی نذر کر دیتی۔۔ لیکن بڑھتی عمر کیساتھ اسے اپنے ساتھ اپنا کالا علم کسی کو وراثت میں دینے اور بعد میں بد روح بن کر امر ہونے کیلیے کوٸی چاہیے تھا ۔۔انہی دنوں گاٶں کے دوسرے کارنر پر بنے چرچ کے واحد پادری کی وفات ہوگٸی اس کی انیس سالہ اکلوتی بیٹی مارتھا مسلمانوں سے بہت متاثرتھی وہ اسلام لانا چاہتی تھی اور کسی مسلم گھرانے کی بیٹی بن کر زندگی گزارنا چاہتی تھی ۔۔تب ہی اس کی ملاقات گاٶں کے میلے میں موجود سانولی نٹ کھٹ آونتیکا سے ہوٸی جو اس کی طرح اسلام سے متاثر تھی لیکن اپنے ابا جو کہ کٹر ہندٶ تھے کے ڈر سے اس پر عمل نہیں کر پا رہی تھی ۔۔یوں وہ دونوں گھنٹوں برگد کے درخت کے نیچے سر جوڑے بیٹھی رہتی اور مختلف منصوبے بناتی رہتی ۔۔۔
اور پھر اک دن دونوں ہی آرمپالی کے شوہر کے پاس گٸے اور خفیہ طور پر اسلام قبول کر لیا ۔۔
کچھ دنوں بعد آونتیکا کے ہندٶ باپ کو اس کی خبر ملی تو اس نے آونتیکا کی ہندٶ گھرانے میں شادی کرنے کا فیصلہ کیا ۔۔آباٶاجداد کے مذہب کی خاطر جس رات آونتیکا کی شادی تھی ۔۔اسی رات عیساٸی لڑکی مارتھا آرمپالی کے شوہر کے پاس مدد کیلیے گٸی ۔۔ مارتھا چاہتی تھی کہ آرمپالی کا شوہر عبید کسی طرح آونتیکا اور مارتھا کو یہاں سے بھگا دے ۔۔۔ گڑگڑاتی روتی مارتھا کی باتیں آرمپالی کے کانوں تک پہنچ چکی تھی۔۔ اس کے ذہن میں اک جھماکا ہوا ۔۔
پروان چڑھی ۔۔پلی پلاٸی اولاد بنانے کا ۔۔۔
اس نے عبید کو مجبور کیا کہ وہ آونتیکا اور مارتھا کی مدد کرے یوں دولہن بنی آونتیکا جسے کلمہ پڑھے ابھی دو تین دن ہی ہوۓ تھے ۔۔اسلام کی خاطر باپ کے گھر سے مارتھا اور عبید کیساتھ بھاگ گٸی ۔۔۔
لیکن گاٶں سے نکلتےہی عبید اپنی بیوی کے حکم پر انہیں کالی کے مندر لے گیا ۔۔کالی کے مندر کے بڑے پنڈت لال شرما
(جو کہ لمبی موچھوں والا ڈیل ڈول سیاہ رنگت کا مالک تھا اور مشہور تھا کہ وہ انتہاٸی خطرناک انسان ہے)
کو آرمپالی اپنی منصوبے سے پہلے ہی آگاہ کر چکی تھی ۔۔۔
وہ اٹھارہ سالہ آونتیکا اور انیس سالہ مارتھا کو مندر کے اندرونی کمرے میں لے گیا اور انہیں داسیوں کا لباس دیا ۔۔
مشہور کیا گیا کہ آونتیکا اور مارتھا کالی کے عظیم الشان پاویتر مندر کی داسیاں ہے ۔۔۔ وہ گھونگٹ نکالے مندر میں گھومتی اور دل ہی دل میں اس منحوس جگہ سے نکلنے کی دعاٸیں مانگتی رہتی۔۔۔۔۔
اور پھر ایک دن سفید گاٶن میں ملبوس سر پہ ہیٹ جماۓ لمبے بھورے گھنگریالے بالوں والی چوبیس سالہ ایلی اپنی ٹیم کے ہمراہ کالی کے مندر اور اس گاٶں کے آس پاس اک فلم شوٹنگ کی غرض سے آٸی ۔۔۔۔
اور یہ معلوم ہوا بس کہ اس چوبیس سالہ ایلی کو آونتیکا اور مارتھا کا پتہ چل چکا تھا اور اس کی دلی ہمدردیاں ان دونوں معصوم لڑکیوں کیساتھ تھی جو اسلام قبول کر چکی تھی حالانکہ ایلی خود اک کرسچن تھی لیکن وہ اک نرم دل اور اچھی لڑکی تھی ۔۔۔۔اس نے ان کی مدد کرنے کا سوچا ۔۔۔
آرمپالی کے گھناٶنے منصوبے سے بے خبر۔۔۔۔
اگلی رات ان سب پر بھاری تھی جب صبح سویرے آونتیکا اور ایلی کو خبر ملی کہ مارتھا مندر میں موجود نہیں ۔۔پنڈت اور عبید جو روز ان کی خبر گیری کیلیے آتا نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔۔۔ بلکہ ان دونوں نے مارتھا کو ڈھونڈا بھی لیکن نہیں ملی ۔۔۔۔
وہ کہاں گٸی ہو گی ۔۔۔قیس نے پوچھا ۔۔۔
اس کے بارے میں کوٸی علم نہیں بیٹا ۔ جس نے یہ سب مجھے بتایا اُسے بھی مارتھا کے بارے میں کوٸی علم نہیں ۔۔۔۔لیکن اگلے دن رات کے دوسرے پہر ایلی کو اس کی اسسٹنٹ نے جگایا کہ اسے باہر سے کچھ کھٹکھٹ کی آوازیں آ رہی ہے ۔۔۔۔وہ اپنے کیمپ سے نکلی اس کا کیمپ مندر کے چبوترے پر بنا تھا ۔۔۔وہ چبوترے سے ملحق سیڑھیاں اترتی مندر میں داخل ہوٸی۔۔۔
پنڈت اور اک بڑی سی چادر اوڑھے اک عورت آونتیکا کو بے ہوشی کی حالت میں بے دردی سے اک بورے میں بند کر رہی تھی ۔۔۔۔
ایلی بنا کسی کو مدد کیلیے پکارے تن تنہا اپنا سفید گاٶن سنبھالتی اس عورت پر ٹوٹ پڑی ۔۔۔جو سامنے ایلی کو دیکھ کر چونک گٸی تھی ۔۔۔
وہ پاگلوں کی طرح چینخ اور چلا رہی تھی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوٸی اس قدر ظالم کیسے ہو سکتا۔۔اچانک کسی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر خاموش کرانے کی کوشش کی ۔۔وہ بندہ کوٸی تیسرا ہی تھا کیونکہ پنڈت اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔اس کے خاموش نا ہونے پر کسی نے خنجر سے اس کے گال کا گوشت نوچ لیا وہ درد سے بے حال ہوگٸی ۔۔اسکے دوسرے گال میں خنجر پیوست کرتے ہی اسے موت کی وادی میں دھکیل دیا۔۔۔
یہ یہ سب کک کس نے کیا ۔۔۔عمر نے پوچھا
یہ نہیں جان سکا۔۔۔ بزرگ نے دھیمے لہجے سے کہا ۔۔۔۔
تو اس کا مطلب کالی کے مندر میں موجود شیطان روحیں دراصل آونتیکا ۔۔۔ مارتھا ایلی اور اس نامراد آرمپالی کی ہے۔۔۔قیس نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔
نہیں بیٹا ۔۔۔وہاں کالی کے مندر اس وقت دو بری روحیں ہیں۔۔۔۔۔
آونتیکا کو اسلام قبول کر لینے کے سبب وہ اپنے بس میں نا کر سکی اور مارتھا کالی کے مندر میں نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔اس کی کوٸی خبر نہیں۔۔۔۔
اور جہاں تک بات آرمپالی کی ہے تو بتانے والے نے قیاس آراٸی کی ہے کہ وہ کالی کے مندر کے پیچھے اسی گاٶں میں ہے ۔۔۔وہ مر چکی تھی یا کالے علم کے زریعے امر ہو چکی۔۔ یہ سب وہا ں جا کر پتہ چلے گا۔۔۔۔بتانے والے نے بتایا اسے ڈھونڈنا ناممکنات میں سے ہے لیکن اگر ڈھونڈنے والے عقل کا استعمال کرے تو ڈھونڈ لے گے ۔۔۔صرف کل صبح سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک یا تو تم دونوں اسے ڈھونڈو گے یا پھر مناہل اور حناوے کو کھو دو گے ۔۔ کیونکہ آخری کیل وہ ٹھونک چکی ہے ۔۔۔
مم میں ڈھونڈ لوں گا۔۔۔۔قیس کی آنکھوں سے آنسو بدستور جاری تھے ۔۔۔
بیٹا یہ سب تو بتانے والے نے بتایا لیکن حوصلہ کرو شیطان کے پاس طاقت ہے بدی میں طاقت ہے اس سے انکار نہیں لیکن حق کی طاقت ۔۔۔۔ ان سب پر بھاری ہے ۔۔۔بزرگ نے حوصلہ دیا ۔۔
محترم ایک تو ایلی کی بری روح ہے مارتھا لاپتہ ہے ۔۔آونتیکا ماشاءاللہ مسلمان ہو کر اس دنیا سے گٸی اور آرمپالی اس گاٶں میں ہے تو ایلی کیساتھ اورکونسی بری روحیں ہے ۔۔۔جیساکہ آپ نے ذکر کیا وہاں دوشیطانی طاقتیں ہے۔۔۔۔۔۔۔عمر نے پوچھا ۔۔
بتانے والا اس بات پر خاموش ۔۔یا تو وہ جانتا نہیں یا پھر وہ بتانے سے گریز کر رہا ہے ۔۔۔سو اسے ہم خود ہی ڈھونڈ لے گے ۔۔۔بزرگ نے جواب دیا ۔۔۔
جی بہتر حضرت ۔۔ عمر نے کہا ۔۔
ہمارا ٹاکرا کالی کے مندر کے شیطان سے ان میں اک شیطان ایسا ہے جو کہ ایلی کی بد روح ہے جبکہ دوسرا شیطان جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور اک حیرت کی بات جانتے ہو اک تیسرا شیطان بھی ہے جس کی موجودگی میں درگاہ کے باہر محسوس کر رہا ہوں ۔۔۔ بزرگ نے جالیوں کی طرف دیکھا جہاں سے ٹھنڈی ہوا مسلسل کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔۔۔
وہ کک کون ہے ۔قیس نے پوچھا ۔۔
مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایلی کو مارنے والے کی بری روح ہے۔۔۔۔بزرگ نے جالیوں کے پار پھر سے دیکھا ۔۔۔
یاد رکھنا ہمیں پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہے کیونکہ دو شیطان ایسے بھی ہماری تاک میں ہے جس کے بارے ہم ابھی تک کچھ پتہ نہیں کر سکے ۔۔۔۔
ان دونوں نے خوف سے لرزتے گردن اثبات میں ہلاٸی ۔۔۔۔
وہ دونوں شیطانیت کے خاتمے کیلیے پر عزم تھے ۔۔وہ مندر جو بارہ بجے کے بعد ہر گزرنے والے کی جان لے لیتا تھا ۔۔۔اس پر قبضہ جماۓ شیطان کے خلاف لڑنے کیلیے ۔۔۔
اور اک بھاری صبح ان کی منتظر تھی ۔۔۔ زندگی کا اک ایسا دن جہاں انہیں اک نیا سبق ملنے والا تھا ۔۔
اک ایسا سبق جو انہیں کبھی نا بھولنے والا تھا ۔۔۔
***********************************
جینے کی امنگ بھی ہے ۔۔۔ہے مرنے کی آرزو بھی ۔۔۔۔۔
ریگستاں کی سی کیفیت ہے ۔۔۔اک طلسمِ آب تلے۔۔۔۔۔
***********************************