سہہ پہر کاوقت تھا ۔۔
گھنے بوڑھے برگد کے درخت کے اردگرد بنے سیمنٹ کے چبوترے پر وہ مٹی کی تھالی اٹھاۓ بیٹھا تھا ۔۔
مٹی کی تھالی میں باجرہ تھا ۔۔ رنگ برنگی چڑیا اور گہرے سفید رنگ کے کبوتر اس سے بنا ڈرے اس کے ہاتھ میں پکڑے تھالی سے باجرے کے دانے منہ میں ڈالے اڑکر تھوڑی دور بیٹھ جاتے اور ان دانوں کو کھاتے ہی پھر سے تھالی سے اور دانے چگنے کی غرض سے آجاتے ۔۔۔
وہ پیار سے ان پرندوں کو دانہ چگتے دیکھ رہا تھا اور پیار سے ان کے پروں پر ہاتھ پھیر رہا تھا ۔۔
اچانک اک سیاہ رنگ کا کبوتر پھڑپھڑایا ۔۔۔اس نے کبوتر کے اوپر چند قطرے پانی کےپھینکے تو وہ پھڑپھڑانا چھوڑ کر دانہ کھانے لگا ۔۔یہ واحد سیاہ رنگ کا کبوتر تھا باقی سب سفید رنگ کے تھے ۔۔
اسی اثنا میں دو ہانپتے کانپتے تیز تیز سیڑھیاں چڑھتے دو نوجوان اوپر آۓ۔۔ ان کا رخ درگاہ کی عمارت کی طرف تھا لیکن برگد کے نیچے پرندوں کے جھرمٹ میں بیٹھے فقیر کو دیکھ کر وہ دونوں اسی طرف بڑھے ۔۔۔
ان دونوں نوجوان کے تیزی سے آنے کے سبب کبوتر اور چڑیا اڑتی ہوٸی آس پاس سرک گٸی ۔۔
اسلام وعلیکم محترم ۔۔۔! ہم سے غلطی ہو گٸی ۔۔ پلیز ہمیں معاف کر دے ۔۔ قیس نے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتے ہوۓ کہا اور ساتھ ہی عمر کا بھی ہاتھ کھینچتے اسے نیچے بٹھایا ۔۔
تم پر بھی سلامتی ہو ناسمجھ ۔۔خیر آنے میں بہت دیر کردی ۔۔اب جیسے آۓ ہو ویسے ہی واپس چلے جاٶ ۔۔۔اس فقیر نے اک ننھی چڑیا کو ہاتھ میں پکڑے اسے پیار کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔
ایسا مت کہے پلیز ۔۔ ہم حاضر ہیں۔۔ آپ ہم سے قیمت وصول کیجٸیے ۔۔۔قیس نے پریشانی سے کہا ۔۔
قیمت وصول کرنے کا وقت گزر چکا...
فقیر نے ننھی چڑیا کو اچھالتے ہوۓ کہا جو اڑتی ہوٸی قریب ہی پڑے پیالے سے پانی پینے لگی ۔۔
خدارا مدد کرے ۔۔ہم مشکل میں ہے میری بہن اور میری حناوے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہیں پلیز ۔۔۔ قیس نے فقیر کا ہاتھ تھامے بے چینی سے کہا ۔۔
سنو ۔۔آج نماز عصر کے بعد کچھ مہمانوں کی اور یتیم خانے کےبچوں کی دعوت ہے۔ اور اذان ہونے میں تیس منٹ باقی ہے ۔۔۔تیس منٹ کے اندر درگاہ کی صفاٸی کر دو ۔۔۔اور ہاں صفاٸی کا سامان وہ سامنے کمرے سے لے لو ۔۔۔۔چلو جلدی کرو ۔۔فقیر نے بے رخی سے کہا اور درگاہ کے اندر چلا گیا ۔۔
چلو عمر اب اسے خوش کرنے کیلیے اسکی بات ماننی ہو گی۔۔ قیس نے عمر سےکہا ۔
لیکن قیس مجھے یہ کام نہیں آتا ۔۔عمر نے دانت پیستے ہوۓ اندر جاتے فقیر کو دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔
اس میں کونسا ساٸنس لڑانی پڑتی ہے ۔۔قیس نے اسے غصے سے دیکھا ۔۔
اچھا چل تیری خاطر ۔۔عمر نے حامی بھرتے ہوۓ کہا ۔۔
قیس مسکرا دیا
ارے او لڑکوں ۔۔۔تم لوگ ابھی تک یہی بیٹھے ۔۔۔شاید سنا نہیں تم لوگوں نے کہ صرف تیس منٹ رہ گٸے اذان ہونے میں ۔۔۔۔۔وہ فقیر غصے سےکہتا انہیں ہی گھور رہا تھا ۔۔قیس اور عمر اٹھے اور جھاڑو اور موپ اٹھاۓ درگاہ کی صفاٸی کرنے لگے ۔۔۔
وہ فقیر وہی کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ ہدایات بھی کر رہا تھا ۔۔
درگاہ کے اندر تین کمرے اک ساتھ بنے تھے جبکہ چوتھا کمرہ زرا فاصلے پر تھا ۔۔۔چوتھا کمرہ درگاہ کہ اندر کر کے بنا تھا اور اس طرف کافی اندھیرا تھا ۔۔۔۔اسی چوتھے کمرے کے دوسری طرف پہاڑی ختم ہوتی تھی اوردوسری طرف گہری کھاٸی تھی ۔۔چونکہ درگاہ پہاڑ پر بنی تھی اس لیے تھوڑی بلند بھی تھی۔۔۔
قیس درگاہ کے صحن میں صفاٸی کر رہا تھا جبکہ
عمر اب درگاہ کے اندر سامنے بنے چار کمروں کی صفاٸی کیلیے بڑھا تو فقیر نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکا ۔۔
ان تین کمروں کی صفاٸی کر دو لیکن چوتھے کمرے کی صفاٸی مت کرنا بلکہ اس کمرے کا دروازہ بھی مت کھولنا ۔۔۔بھول کر بھی مت کھولنا اس کمرے کا دروازہ۔۔۔۔۔۔فقیر نے رعب سے کہا ۔۔
لیکن کیوں ۔۔ چوتھے کمرے کی صفاٸی کیوں نہیں کرنی ۔۔۔ عمر نے جھاڑو زمین پر رکھ کر فقیر سے پوچھا ۔۔
فقیر اسے گھورتا رہا ۔۔
جب کہا ہے نہیں کرنی تو بس نہیں کرنی ۔۔۔فقیر نے غصے سے کہا تو عمر نے دانت پیستے ہوۓ اسے دیکھا ۔۔
وجہ بھی تو بتاٶ ناں فقیر میاں ۔۔ عمر نے فقیر کے حلیے کی طرف بغور دیکھتے ہوۓ کہا۔۔
اندر بریانی کی دیگ پڑی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ تم ساری چٹ نا کر جاٶ اس لیے اس کمرے کی صفاٸی سے روک رہا ہوں ۔۔۔فقیر نے منہ بسورتے ہوۓ کا اور پھر سے رعب جھاڑتے اس سے کام کروانے لگا ۔۔۔
اونہہ ۔۔بریانی کی دیگ۔۔۔۔عمر نے آبرو اچکاۓ اور پھر سے کام میں مگن ہو گیا۔۔۔
صفاٸی ختم کرکے وہ بیٹھے ہی تھے کہ اذان شروع ہو گٸی ۔۔
تھوڑی دیر بعد درگاہ میں سیڑھیاں چڑھتے کٸی بچے اور بزرگ اوپر آتے دکھاٸی دٸیے ۔۔۔ درگاہ کے صحن میں بنے بڑے بڑے برگد کے درختوں کی چھاٶں تلے وہ بچے اور بزرگ قطار در قطار بیٹھتے گۓ ۔۔عمر اور قیس چپ چاپ انہیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
درگاہ کے اک کمرے سے وہ فقیر پھر سے نمودار ہوا ۔۔
اوۓ ناسمجھ چھوٹی عقل کے لڑکوں۔۔۔اندر آٶ جلدی ۔۔۔فقیر نے کہا اور پھر سے کمرے میں چلا گیا ۔۔
اسکو دیکھو ۔۔۔بھری مجلس میں ہمیں نا سمجھ کم عقل بول رہا ۔۔۔عمر نے کھڑے ہوتے ہوۓ فقیر کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا ۔۔
پلیز اگنور کرو عمر پلیز ۔۔۔۔قیس نے منت زدہ لہجے میں کہا ۔۔
اب وہ دونوں فقیر کی ہدایت پر دستر خوان سجا رہے تھے ۔۔کبھی وہ انہیں کھانا لا کر دیتے اور کبھی پانی اور کبھی کیا ۔۔۔
آخر دعوت ختم ہوٸی ۔۔۔بزرگ درگاہ کے اندر کی طرف چل دٸیے جبکہ بچے واپس جانے لگے ۔۔
عمر اور قیس بھی بریانی کی پلیٹ بھرے قریب ہی برگد کے چبوترے پر بیٹھ کر کھانے لگے۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ فقیر انہیں ڈھونڈتا ہوا باہر کی طرف آیا ۔۔۔۔
اوۓ لڑکوں۔۔۔وہ برتن اکھٹے کرکے اس نلکے کے قریب رکھ دو ۔۔۔اور اسے دھو کر واپس درگاہ کے کمرے میں رکھ دینا ۔۔۔فقیر ہدایت کرتا پھر سے اندر چلا گیا ۔۔۔
بس اک یہی کثر باقی تھی کہ جس نے اک گلاس تک نہیں دھویا وہ برتنوں کی لمبی ناختم ہونے والی لسٹ دھوۓ گا۔۔۔۔ عمر نے خوف سے برتنوں کے ڈھیر کو دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔۔
قیس اور عمر نے بے چارگی سے برتنوں کو دیکھا ۔۔
اور چاروناچا اٹھ کر برتنوں کے ڈھیر کو دھونے لگے ۔۔۔
مغرب سے کچھ دیر پہلے وہ فارغ ہوۓ ۔۔۔
اچھی یاری ہے تیری ۔۔۔عمر نے برگد کے درخت کے چبوترے پر بیٹھتے ہوۓ کہا ۔۔
قیس مسکرا دیا ۔۔
عمر لگتا ہے ہم نے دھاگے کی قیمت چکا دی ہے ۔۔قیس نے کہا
نہیں بیٹا میں نے تو تیری یاری کی قیمت چکاٸی ہے ۔۔عمر نے منہ بسورتے ہوۓ کہا اور پھر وہ دونوں ہی مسکرانے لگے ۔۔
تھوڑی ہی دیر بعد فقیر پھر سے ان کے سامنے تھا ۔۔
اوۓ نکمے لڑکوں ۔۔۔اب واپس گھر جاٶ ۔۔ ایک بار دستک ہو تو مت کھولنا ۔۔دو بار دستک ہو تو بھی مت کھولنا ۔۔۔تین بار لگاتار دستک پھر دروازہ کھول دینا ۔۔۔ فقیر نے کہا اور واپس چلا گیا ۔۔
اب اس کا کیا مطلب ۔۔۔ عمر نے کہا ۔۔
چلو گھر چلتے ہے ۔۔۔
عمر بھی قیس کیساتھ ان کے گھر ہی آگیا وہ دونوں ڈراٸنگ روم میں بیٹھے باتوں میں مشغول تھے کہ دروازے میں دستک ہوٸی ۔۔وہ کھولنے کے لیے اٹھا ہی تھا کہ اسے فقیر کی بات یاد آگٸی وہ پھر سے بیٹھ گیا ۔۔دروازے میں اب دو بار دستک ہوٸی ۔۔
وہ اور عمر چپ چاپ بیٹھے رہے ۔۔
انہوں نے اک بات نوٹ کی کہ جیسے ہی گھر کے مین دروازے پر دستک ہوتی ۔۔مناہل کے کمرے میں بھی دستک ہونے لگتی ۔۔۔
کافی دیر بعد دستک پھر ہوٸی لیکن اب تین بار لگاتار دستک ہوٸی ۔۔۔
قیس اٹھا اور فوراً دروازہ کھولنے کیلیے بڑھا جب مناہل کے کمرے میں ہلچل مچنے لگی ۔۔قیس نے روازہ کھول دیا۔۔
سامنے محترم نور محمد ہاتھ میں تسبیح لیے کھڑے تھے ۔۔
قیس انہیں دیکھ کر دل سے مسکرایا ۔۔اس نے فوراً آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ کا بوسہ لیا ۔۔
انہوں نے قیس اور عمر کے سروں پر باری باری ہاتھ رکھا ۔۔قیس انہیں اندر لے آیا۔۔۔۔
قیس بیٹا اپنی والدہ کو کمرے میں لے جاٶ اور باہر سے دروازہ بند کر دینا ۔۔۔انہیں کہے کہ وہ کمرے میں بیٹھ کر اول وآخر درود پاک کیساتھ معوذتین کی تلاوت کرتی رہے اور دروازہ ہر گز نہ کھولے ۔۔۔ہم خود کھولے گے جب کھولنا ہوا ۔۔۔
قیس نے فوراً ہدایت پر عمل کیا ۔۔۔
اب محترم نور محمد مناہل کے کمرے کی طرف بڑھے ۔۔
انہوں نے لکڑی کے دانوں کی تسبیح کو کھول دیا اور دروازہ کھل گیا ۔۔۔۔
کمرے میں سخت گلے سڑے گوشت اور جمے ہوۓ خون کی گندی بدبو ہر جگہ پھیلی تھی ۔۔انہوں نے فوراً اپنے ناک پر ہاتھ رکھا ۔۔
فرش پہ جابجا خون بکھرا تھا ۔۔۔
مناہل اپنے ہاتھ کی مٹھی بناۓ اسے سر کیساتھ ٹکاۓ رعب سے بستر پر براجمان تھی ۔۔۔اور گندے لال دانت سے وہ کھل کر مسکرا رہی تھی ۔۔۔
ہاں اوۓ منحوس بڈھے ۔۔۔۔ ہماری دوسری ملاقات ہو رہی پھر ۔۔۔ اتنا کہتے ہی وہ مناہل زوروں سے ہنسنے لگی ۔۔
کم بخت دوسری نہیں آخری بول ۔۔۔پچھلی مرتبہ تو تو چکمہ دے کر میرے ہاتھوں سے بچ گٸی لیکن اس بار نہیں ۔۔۔۔ تیرا خاتمہ اپنے ہاتھ پر لکھ کر لایا ہوں میں ۔۔۔ نور محمد صاحب نے کہا تو وہ ہنسنے لگی ۔۔۔
قیس اور عمر سکتے کے عالم میں کھڑے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔
نور محمد صاحب نے جیب سے اک پوٹلی نکالی ۔۔۔اس میں کالے دھاگے میں لپٹی دو چاندی کی انگوٹھیاں تھی ۔۔نور محمد صاحب نے وہ انگوٹھیاں بسم اللهُ پڑھ کر پہن لی ۔۔۔۔
جیسے ہی انہوں نے انگوٹھیاں پہنی ۔۔۔ تو مناہل اک دم اچھل کر بیڈ پر سے کھڑی ہوٸی ۔۔
کہاں گیا وہ منحوس مارا بڈھا ۔۔۔۔ بھاگ گیا ۔۔۔بھاگ گیا ۔۔۔اب مناہل پیٹ پکڑے زور سے قہقہے لگا رہی تھی ۔۔
جبکہ قیس اور عمر حیرت سے منہ کھولے نور محمد صاحب کو دیکھ رہے تھے جو اب بھی وہی کھڑے تھے ۔۔۔
تیرا بڈھا تم لوگوں کو چھوڑ کر بھاگ گیا ۔۔۔میری شکتی دیکھ کر بھاگ گیا ۔۔اب تم دونوں کا کیا ہو گا ۔۔مناہل اب ان دونوں کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔۔
نور محمد صاحب نے جیسے ہی مناہل کو بازو سے پکڑنا چاہا ان کا ہاتھ اس کے بازو سے آر پار ہو گیا ۔۔۔ وہ ششدرہ رہ گٸے ۔۔۔وہ اک دم سکتے میں آگٸے ۔۔یہ شیطان اس قدر گھناٶنا ہوگا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا انہوں نے فوراً انگوٹھیاں اتاری ۔۔۔
مناہل انہیں پھر سے سامنے دیکھ کر ہنسنے لگی ۔۔
نور محمد صاحب نے قیس اور عمر کی طرف دیکھا اور دھیرے سے بولے۔۔۔۔
عمر قیس ۔۔بنے پلٹے دھیرے سے کمرے سے باہر نکلو جلدی۔۔۔۔نور محمد صاحب نے کہا اور خود بھی بنا پلٹے الٹے قدموں کمرے سے نکل کر دروازہ بند کردیا اور تسبیح سے باندھ دیا۔۔۔
نور محمد صاحب کے چہرے پر ہواٸیاں اڑی ہوٸی تھی وہ پریشان دکھاٸی دے رہے تھے۔۔۔
دوسری بیٹی کہاں ہے؟ انہوں نے قیس کو دیکھتے ہوۓ پریشانی سے کہا ۔۔
وہ ساتھ والے گھر میں ہے ۔۔قیس نے جواب دیا
فوراً لے چلو وہاں مجھے ۔۔۔۔نور محمد صاحب نے کہا ۔۔
********************************
جیا پھوپھو ہسپتال میں ایڈمٹ تھی ۔۔بیٹی کا دکھ بھلاۓ نہیں بھولتا تھا ۔۔حسان صاحب اور ضیا بھی ہسپتال تھے ۔۔جبکہ نور بانو بیگم اور حناوے گھر میں ہی تھی ۔۔۔
جسے جسے شفق کی موت کا پتہ چلتا وہ تعزیت کیلیے ان کے گھر آ رہا تھا ۔۔
حناوے کب سے دانت پیسے مہمانوں کو دیکھ رہی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سب کو اٹھا کے باہر پھینک دے ۔۔۔
موت کی وجہ طبعی ہی بتاٸی گٸی ۔۔کسی کو چہرہ دکھاۓ بنا ہی شفق کو کل رات ہی دفنا دیا گیا تھا ۔۔
سب لوگ افسوس کرتے آرہے تھے اور چلے جاتے تھوڑی ہی دیر میں کوٸی اور آ جاتا ۔۔۔
ان کی گلی کے سامنے اک بوڑھی اماں اپنے بیٹے اور بہو کیساتھ چھوٹے سے دو منزلہ مکان میں رہتی تھی ۔۔۔ بوڑھی اور فارغ ہونے کے سبب وہ پورے محلے میں تسبیح اٹھاۓ گھومتی رہتی تھی کبھی کس کے گھر کبھی کس کے ۔۔۔بڑے بچے جوان سب انہیں چاندنی بوا کہہ کر پکارتے تھے۔۔
وہ بھی شفق کا سن کر اس کے گھر والوں سے تعزیت کی خاطر اپنی لاٹھی ٹیکتی دھیرے دھیرے نور بانو بیگم کے گھر میں داخل ہوٸی ۔۔۔
کمرے میں تین چار خواتین ۔۔نور بانو بیگم اور کونے میں گھٹنوں پر سر ٹکاۓ حناوے صوفے پر برا جمان تھی ۔۔جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوٸی ۔۔ ان کی نظریں حناوے سے ٹکراٸی ۔۔جناوے بھی چہرہ سیدھا کیے چاندنی بوا کو ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔
چاندنی بوا کے بڑھتے قدم اور چلتی تسبیح وہی رک گٸی وہ بس حیرت سے حناوے کو تک رہی تھی ۔۔
چاندنی بوا آجاۓ بیٹھ جاۓ ۔۔اک خاتون نے اٹھتے ہی انہیں جگہ دی ۔۔
چاندنی بوا نے اک نظر حناوے کودیکھا اور تھوک نگلتے ہوۓ کہا ۔۔
میں تو جا رہی یہاں سے تم لوگوں کے حق میں بھی یہی بہتر ہے اس جگہ کوچھوڑ کر اپنے گھروں کو نکلو۔۔ چاندنی بوا نے کہا اور واپسی کیلیے مڑی جبکہ سب خواتین حیرت سے انہیں جاتا دیکھ رہی تھی ۔۔
چاندنی بوا ۔۔پتہ نہیں کیوں چلی گٸی ۔۔اک خاتون بولی ۔
حناوے کی مسکراہٹ گہری ہو چکی تھی ۔۔۔
وہ خواتین بھی اب دھیرے دھیرے جانے لگی ۔۔
گھر میں اب صرف حناوے اور نور بانو بیگم تھی ۔۔
حناوے نے آگے بڑھ کر مین دروازے کو بند کر دیا ۔۔
اب وہ دھیرے سے ہنس رہی تھی ۔۔۔اس کا رخ نور بانو بیگم کے کمرے کی طرف تھا ۔۔۔
کالے گھور اندھیرے والی ۔۔۔
موت سے کالی ۔۔۔
***************************************
لکڑیوں کے گٹھے کو آگ لگاۓ ۔۔۔
اردگرد لال رنگ کے پتھروں کی باڑ بناۓ وہ اس داٸرے میں بیٹھی تھی ۔۔ اس کے جنگلی سیاہ ہاتھ زرد رنگ کے زرات کی تھالی پر تھے ۔۔۔ وہ تھوڑا سا زرد مادہ اٹھاتی اور آگ میں ڈال دیتی جس سے آگ اور بھڑک اٹھتی ۔۔۔
پھر وہ لاٹھی ٹیکے کھڑی ہوٸی اور داٸرے سے نکل گٸی ۔۔ اب اس نے لاٹھی سے ستارہ نما اک نشان بنایا اور ستارے کے ہر کونے میں اک دیہ رکھ دیا ۔۔۔
کرہیہ چہرےوالی وہ منحوس ماری بڑھیا اب اپنی آنکھوں کو بند کیے بے تکے انداز سے جھوم رہی تھی ۔۔۔
کچھ پل وہ اسی طرح جھومتی رہی پھر یک دم اسنے آنکھیں کھول دی ۔۔ اور غصے سے بڑبڑانے لگی
وہ بڈھا معلوم کر لے گا ۔۔۔۔
وہ منحوس مارا بڈھا جان جاۓ گا ۔۔۔۔
اری او خبیث روحوں میری مدد کو آٶ ۔۔شیطان روحوں مدد کرو ۔۔ مدد کرو ۔۔دیکھو شیطان کی پجارن مٹ جاۓ گی ۔۔۔اب وہ زرد رنگ کی مٹی آگ کے آلاٶ میں ڈالتی جاتی ۔۔۔ تھوڑی دیر میں دو نوجوان لڑکیاں جنہوں نے اپنے سروں اور چہروں کو مکمل چادر سے ڈھانپ رکھا تھا وہ بڑھیا کے عقب سے نمودار ہوٸی ۔۔
بڑھیا انہیں دیکھ کر ہنسی ۔۔
وہ ان لڑکیوں کو اک جھونپڑی میں لے گٸی اور اندر اک چارپاٸی پر پڑے دو وجود کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔
لے جاٶ انہیں ۔۔۔۔ اور آخری کیل ٹھوک کر کام مکمل کرو۔۔۔
دونوں لڑکیوں نے اثبات میں سر ہلایا اور اور ان وجودوں کو اٹھاۓ جھونپڑی سے نکل گٸی ۔۔۔ان کا رخ کالی کے مندر کے پچھلے طرف آباد گاٶں کی طرف تھا ۔۔۔
وہ مکار بڑھیا کھلکھلا کر ہنسی ۔۔۔
دیکھتی ہوں اب تو کیا کرتا ہے بڈھے ۔۔۔۔
اب وہ بڑھیا اپنا شیطانی سامان سمیٹ کر ۔۔۔وہاں سے سب کچھ صاف کر رہی تھی۔۔ اب اس نے اک تسبیح نما مالا پکڑی اور اک نیک بڑھیا کا روپ دھارے لاٹھی ٹیکتی گاٶں کی سمت چل دی۔۔۔۔۔
***************************************
کالے گھور اندھیرے والی ۔۔۔
موت سے کالی ۔۔۔
تو نے آخری کھڑکی کھولی ۔۔۔
آنکھیں کھول کے دیکھ یہ سولی ۔۔۔
چھن چھن چھن چھن ۔۔۔
گھنگھروں باندھے کوٸی پورے گھر میں گھوم رہا تھا۔۔
نور بانو بیگم تھکےتھکے انداز سے بستر پر ڈھے گٸی ۔۔
میں جیا کی خیریت معلوم کرتی ہوں انہوں نے فون نکالا اور ضیا صاحب کو کال ملانے لگی ۔۔۔
آواز پھر آٸی ۔۔۔۔چھن چھن چھن ۔۔۔ اب تو باقاعدہ گانے کی آواز بھی سناٸی دے رہی تھی ۔۔۔۔
کالے گھور اندھیرے والی ۔۔۔
موت سے کالی ۔۔۔
تو نے آخری کھڑکی کھولی ۔۔۔
آنکھیں کھول کے دیکھ یہ سولی ۔۔۔
وہ اک دم چونکی ۔۔
کون ہے ؟ کون گانا گا رہا ۔۔۔کیا اسے معلوم نہیں کہ ابھی کل ہی جنازہ اٹھا اس گھر سے ۔۔۔۔نور بانو بیگم چلاٸی ۔۔
ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اٹھ کر دیکھتی ۔۔
نور بانو بیگم کا کمرہ لمبی راہداری سے گزر کر پھر آتا تھا ۔۔۔
چھن چھن ۔۔۔۔چھن چھن ۔۔۔۔
ایسا معلوم ہوتا تھا وہ جو کوٸی بھی ہے اب راہداری سے گزر کر انکے کمرے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔۔۔۔
نور بانو بیگم بھی دروازے کی سمت دیکھنے لگی ۔۔۔
چھن چھن چھن ۔۔آواز قریب آتی جا رہی تھی ۔۔
اور پھر کسی نے دھک سے دروازہ کھول دیا ۔۔۔
دولہن کے لباس میں کھلے بالوں کیساتھ ۔۔۔۔زیورات سے لدی ان کی اکلوتی بیٹی حناوے ضیا ان کے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔
حح ۔۔۔حناوے ۔۔۔مم میری میری بچی ۔۔۔۔ وہ چینخی ۔۔
حناوے ۔۔۔۔۔
وہ سکتے کے عالم میں اٹھی ۔۔۔
حناوے اپنے لمبے ناخنوں کو دیکھتے ہوۓ مسکراتی ہوٸی نور بانو بیگم کی طرف بڑھی ۔۔۔
اسی وقت ڈور بیل بجی ۔۔۔
حناوے اور نور بانو بیگم نے چونک کر دروازے کی سمت دیکھا ۔۔
آگیا وہ بڈھا ۔۔۔ادھر بھی ۔۔۔حناوے نے قہقہہ لگایا ۔۔۔
حناوے ۔۔میری جان کیا ہو گیا ۔۔کیسے بات کر رہی ہو۔۔میری بیٹی تمہاری آواز کو کیا ہوا۔۔۔۔نور بانو بیگم نے روتے ہوۓ کہا۔۔
چپ کر ۔۔۔ حناوے نے چینختے ہوۓ کہا اور نور بانو بیگم کو بازو سے پکڑ کر نیچے فرش پر دھکا دے دیا۔۔۔
*********************************
دوسری بیٹی کہاں ہے؟ انہوں نے قیس کو دیکھتے ہوۓ پریشانی سے کہا ۔۔
وہ ساتھ والے گھر میں ہے ۔۔قیس نے جواب دیا
فوراً لے چلو وہاں مجھے ۔۔۔۔نور محمد صاحب نے کہا ۔۔
وہ تینوں حناوے کے گھر کی طرف بڑھے ۔۔
قیس نے آگے بڑھ کر بیل بجاٸی لیکن کوٸی رسپانس نہیں ۔۔۔اس نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔۔
پھر بھی کوٸی جواب نہیں ۔۔۔
لاٹھی ٹیکتی چاندنی بوا نے قیس کو ہانک لگاٸی ۔۔
قیس بیٹے ۔۔۔وہ شیطان اپنی کارستانیوں میں مصروف ہے ۔۔۔بیل بجانے سے دروازہ نہیں کھلے گا ۔۔ چاندنی بوا نے کہا اور لاٹھی ٹیکتے اپنے گھر کی طرف چل دی ۔۔
یا میرے ﷲ ،۔۔
اب قیس اور عمر دونوں لوہے کے گیٹ کو توڑنے کی کوشش میں تھے جو کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔
کافی دیر کوشش کے بعد بھی دروازہ نہیں کھلا ۔۔۔دیوار بھی کافی اونچی تھی جسے پھلانگنے کیلیے انہیں لمبی سیڑھی کی ضرورت تھی ۔۔۔۔۔
محترم ۔۔۔میں چھت سے دیوار پھلانگ کر ان کے گھر جاتا ہوں اور اندر سے دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔قیس نے کہا اور آگے بڑھا ۔۔
قیس بیٹے رکو ۔۔۔یہ انگوٹھیاں پہن لو ۔۔۔ ویسے تو تم نے حفاظت کا دھاگہ باندھ رکھا ہے لیکن ان انگوٹھیوں کے سبب وہ تمہیں دروازہ کھولنے سے روک نہیں سکے گی ۔۔۔جلدی جاٶ ۔۔۔شاباش ۔۔۔ﷲ کامیاب کرے ۔۔۔
جی حضرت ۔۔۔قیس نے کہا اور تیزی سے انگھونٹیاں پہنے اپنے گھر کی سیڑھیوں کی طرف بڑھا ۔۔۔
وہ تیزی سے حناوے کے گھر کی چھت پر اترا اور سیڑھیاں اترتا نیچے کی طرف بڑھا ۔۔
جیسے ہی وہ نیچے پہنچا ۔۔۔نور بانو بیگم کے کمرے سے ان کے چلانے کی آواز آ رہی تھی ۔۔
وہ بھا گا ان کے کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔
سامنے حناوے دولہن کے روپ میں اپنی اک انگلی نور بانو کے آنکھ میں گاڑھ رہی تھی ۔۔۔۔
نور بانو بیگم صدمے سے کراہ رہی تھی اور ان کی داہنی آنکھ سے خون بہہ رہا تھا ۔۔۔
قیس معوذتین کی تلاوت کرتے آگے بڑھا ۔۔
دولہن کے لباس میں موجود حناوے چینخ مارتی ہوٸی اٹھی اور راہداری کی طرف بھاگ گٸی ۔۔
قیس نے نور بانو بیگم کو فرش سے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا اور اک انگوٹھی اتار کر انکے ہاتھ میں پہنا دی ۔۔پھر وہ تیزی سے باہر نکلا اور گھر کا مین دروازہ کھول دیا ۔۔
نور محمد صاحب اور عمر تیزی سے اندر بڑھے ۔۔۔
قیس نے عمر کو ایمبولینس بلانے کو کہا اور نور محمد صاحب کو ساری صورتحال بتانے لگا ۔۔
تھوڑی ہی دیر میں ایمبولینس پہنچ چکی تھی ۔۔
عمر نور بانو بیگم کو لیے ہسپتال چلا گیا ۔۔۔
چلو قیس بیٹے ۔۔۔ سارے گھر میں حناوے کو تلاش کرو ۔۔۔اس کے بعد ہی ہم اگلا قدم اٹھاۓ گے ۔۔۔اور یاد رکھنا کوٸی جگہ مت چھوڑنا ۔۔۔۔ہر جگہ تلاش کرنا ۔۔نور محمد صاحب نے کہا اور خود بھی حناوے کو ڈھونڈنے لگا ۔۔۔
کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد بھی حناوے نا ملی ۔۔۔
محترم وہ سارے گھر میں کہیں بھی نہیں ہے ۔۔قیس نے ہانپتے کانپتے کہا ۔۔
تو میرا شک اب یقین میں بدل چکا ہے ۔۔۔نور محمد صاحب نے کہا ۔۔
تم حناوے اور مناہل کو کبھی گھر لاۓ ہی نہیں تھے ۔۔۔وہ ابھی بھی اس مندر میں ہیں ۔۔۔
کالی کے منحوس مندر میں ۔۔۔۔۔۔
**********************************
حوصلہ جینے کا ہوتا ہے پر اتنا بھی نہیں ۔۔۔
مجھ کو پکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی ۔۔۔۔۔
**********************************