قیس اور عمر دونوں ہی میلے کے قریب اک گھنے درخت کے نیچے بیٹھے تھے ۔۔۔
پریشانی ان دونوں کے چہروں سے عیاں تھی۔۔
قیس مجھے لگتا ہے ہم جس بابا جی کے پاس گٸے تھے وہ محترم نور محمد نہیں بلکہ کوٸی اور تھے ۔۔۔ عمر نے سامنے میلے میں لوگوں کے ہجوم کی سمت دیکھتے ہوۓ کہا۔
نہیں عمر ۔۔۔وہ وہی تھے نور محمد صاحب۔۔میرا دل کہتا ہے کہ وہ وہی تھے لیکن ۔۔۔ کچھ ہے جو ہم بھول رہے ہے آخر ہم سے ایسی کیا چوک ہوٸی جو انہوں نے ہماری بات ہی نہیں سنی ۔۔ قیس کے چہرے پر پریشانی کے آثار واضح تھے۔
اس نے کلاٸی پر بندھی گھڑی دیکھی ۔۔ چار بجنے میں کچھ منٹس رہتے تھے ۔۔
وہ اٹھ کھڑا ہوا اور قریب ہی کھڑی باٸیک کی طرف بڑھا ۔۔
اب کدھر ۔۔۔۔ عمر نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
مناہل کیلیے خون کی بوتل لینے ۔۔۔قیس نے دور میلے کے وسط پر بنے چھوٹے سے دربار کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا جہاں کچھ دیر پہلے نور محمد بیٹھے تھے ۔۔
اب ان دونوں کا رخ اسفند بھاٸی کے اسپتال کی طرف تھا۔۔
جلد ہی وہ ان کے سامنے بیٹھے تھے ۔۔
یار یہ کیسے ممکن ہےکہ وہ انتہاٸی باریش بزرگ ہستی آپ کی بات نہ سنے ۔۔ ضرور تم لوگ کسی رونگ بندے کے پاس چلے گٸے ہو گے ۔۔ اسفند بھاٸی اک فاٸل پہ جھکے اس پر کچھ لکھتے ہوۓ بولے ۔۔
نہیں بھاٸی ہم انہیں کے پاس گٸے تھے ۔۔وہ محترم نور محمد ہی تھے لیکن انہوں نےہمیں سننے سے پہلے ہی رد کر دیا ۔۔۔۔
قیس نے کہا
قیس شام ہونے والی ہے اب کیا ہو گا ۔۔اسفند نے فکر مندی س قیس کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
جی بھاٸی شام کا وقت ہونے والا ہے آپ پلیز کسی طرح اک بوتل بلڈ ارینج کر دے۔ میں کل ان محترم بزرگ کے روبرو پھر سے پیش ہوں گا ۔۔قیس نے اسفند سے کہا ۔۔
اوکے قیس لیکن ۔۔۔ میرے بھاٸی یہ خون خود مناہل کیلیے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔۔تمہیں یہ بات پتہ ہونی چاہیے انسانی خون اور انسانی گوشت لذیذ ترین خوراک کی لسٹ میں ٹاپ پر ہے ۔۔۔اور اس کی لت بہت بری ہے ۔۔اور اگر خدانخواستہ مناہل اس کے ذاٸقہ سے روشناس ہو گٸی تو اس شیطان کے چلے جانے کے بعد بھی اسے خون کی طلب رہے گی ۔۔۔سو ہمیں حسن سر کے پاس جانا چاہیے اور ان سے مدد لینی چاہیے ۔۔
اسفند نے کہا اور اپنا کوٹ پہنے انہیں پیچھے آنے کا اشارہ کرتے باہر کو چل دیے۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ حسن صاحب کی بیٹھک میں موجود تھے ۔حسن صاحب نے تحمل سے ان کی تمام بات سنی اور پھر گویا ہوۓ ۔۔
بیٹا کیا تم سے کوٸی خطا، چوک یا گناہ تو سرزد نہیں ہوا ۔۔حسن صاحب نے کہا تو قیس سوچ میں پڑ گیا ۔۔
نہیں جناب میرے علم میں ایسا کوٸی بھی واقعہ نہیں آتا جس کے سبب وہ بزرگ ہستی مجھ سے بات نا کرے ۔۔قیس نے پر سوچ انداز سے کہا۔۔
ہمممممم۔۔۔۔ تو ٹھیک ہے میں محترم نور محمد صاحب کا کل کا شیڈول معلوم کرتا ہوں اگر ممکن ہوسکا تو کل ملاقات کرتے ہیں ان سے ۔۔قیس اور عمر تم دونوں میرے فون کا انتظار کرنا ۔۔ حسن صاحب نے کہا
قیس اور عمر ان سے مصحافہ کرتے جانے کیلیے اٹھے تو حسن صاحب نے قیس کو بلایا
قیس خون کی بوتل ہسپتال سے لے کر جانا اور ہاں یہ لو زم زم اسے اس خون میں لازمی شامل کر لینا اور مٹی کا برتن ہی استعمال کرنا ۔۔۔
جی بہتر محترم ۔۔۔
قیس میں علی کو فون کر دیتا ہوں وہ تمہیں بلڈ بوتل دے دیں گا۔۔ اسفند سر نے کہا تو قیس ان کا شکریہ ادا کرتا عمر کیساتھ باہر نکل گیا جبکہ اسفند اور حسن صاحب کسی موضوع پر گفتگو کرنے لگے ۔۔۔۔
********************************
کالے گھور اندھیرے والی ۔۔۔..
موت سے کالی ۔۔۔..
شفق اس سے چند قدم کے فاصلے پر ہی تھی ۔۔۔
اس لڑکی کا چہرہ دیکھتے ہی اس نے چینخ ماری اور دیوار کا سہارا لیتے ڈھے گٸی ۔۔۔دلہن جیسے لباس میں موجود وہ لڑکی شفق کی طرف بڑھی ۔۔
حح ح حناوے ۔۔۔۔۔۔شفق کے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا ۔۔۔۔۔
دولہن کے لباس میں موجود حناوے نے قہقہہ لگایا ۔۔
اس نے شفق کو پکڑا اور اپنے عجیب و غریب ناخن اس کی آنکھوں میں گھسا دٸیے ۔۔۔
شفق کی دل د ہلا دینے والی چینخیں فضا میں بلند ہوٸی ۔۔
لیکن کوٸی بھی تو اس کی مدد کو نا آیا ۔۔
وہ روٸی ۔۔۔۔
وہ چلاٸی ۔۔۔۔
وہ تڑپی ۔۔۔۔
اس کا چہرہ اس کے اپنے ہی خون سے رنگنے لگا اس کی داٸیں آنکھ کام کرنا چھوڑ چکی تھی ۔۔۔
اس کی سانسیں اٹک رہی تھی ۔۔
خون کی لکیریں اب اس کی باٸیں رخسار پر بہتی چلی جا رہی تھی ۔۔۔
اس کی سانسوں کا سلسلہ تھمتا جا رہا تھا ۔۔
آخر شفق حسان نے آخری ہچکی لی
اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے ساکت ہو گٸی ۔۔۔۔
وہ دولہن اب اپنے ہاتھوں کو منہ میں ڈالے اٹھی اور چھن چھن پاٸل کی آواز پیدا کیے بیڈ پر بیٹھ گٸی ۔۔۔اور رونے لگی اس کی رونے کی آواز بے حد ہیبت ناک تھی ۔۔۔
ایسا معلوم ہوتا تھا شفق کو مار کر اب وہ اس کی موت پر نوحہ کناں ہے۔۔
اس کا رونا بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا ۔۔۔اور وہ روتی رہی ۔۔۔
عجیب آواز تھی ۔۔۔
بھابھی ساڑھے گیارہ ہوگٸےلیکن نا شفق اٹھی اور نا ہی حناوے ۔۔ جیا پھوپھو نے کہا
ہاں شاید رات دیر تک جاگتی رہی ہو ۔۔اس لیے اب ان کی آنکھ جلدی کہاں کھلنی ۔۔
نور بانو بیگم نے ہنستے ہوۓ کہا ۔۔
شفق جب بھی حناوے کے گھر آتی تو حناوے اور شفق ساری ساری رات جاگ کر باتیں کرتی ۔۔مویز دیکھتی یا پھر کچن میں ریسپیز بناتی اور تب جا کر سوتی تھی اور اسی حساب سے ظہر کے وقت اٹھتی ۔۔۔
نور بانو بیگم اور جیا پھوپھو کا خیال تھا اب بھی یہ دونوں ساری رات جاگتی رہی ہو گی ۔۔
وہ تو بھول ہی چکی تھی کہ حناوے تو بولتی ہی نہیں ہے اور نا ہی کسی ایکٹیویٹی کا رسپانس کرتی ۔۔
یہ ان کی سب سے بڑی غلطی تھی کہ حناوے کا رویہ بالکل بدل جانے اور کالی کے مندر والے واقعہ کے بعد سے وہ تنہا اور کھوٸی کھوٸی رہنے لگی تھی۔۔یہ سب جانتے محسوس کرتے ہوۓ بھی انہوں نے شفق کو حناوے کیساتھ تنہا رہنے دیا۔۔۔
۔۔۔حناوے کی زندگی میں کچھ بھی نارمل نہیں رہا تھا یہ سب جاننے کے باوجود بھی انہوں نے شفق کو تنہا اس کے ساتھ رات کو سونےکیلیے بھیج دیا۔۔۔
بڑوں کی اس غلطی کی قیمت شفق نے اپنی زندگی دے کر چکاٸی ۔۔۔
ظہر کی اذان کا وقت ہو گیا تھا جیا پھوپھو شفق کے کمرےمیں گٸی اور دروازہ کھٹکھٹانے لگی لیکن کوٸی جواب نہیں ۔۔۔
وہ دیر تک دروازے پر دستک دیتی رہی لیکن انہیں حناوے یا شفق کی کوٸی آواز سناٸی نہیں دی ۔۔
اب وہ بھی پریشان ہو گٸی ان کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا وہ دوڑتی ہوٸی ضیا بھاٸی اور اپنے شوہر حسان کو بلانے آٸی ۔۔۔
حناوے شفق کوٸی بھی دروازہ نہیں کھول رہی ۔۔۔مجھے بہت فکر مندی ہو رہی پلیز بھاٸی آپ آۓ ۔۔۔ جیا پھوپھو نے ہانپتے کانپتے کہا تو ضیا صاحب اور حسان صاحب فوراً حناوے کے کمرے کی طرف لپکے ۔۔
وہ بھی دروازے پر دستک دیتے رہے لیکن دروازہ نہیں کھلا ۔۔اب وہ دروازہ توڑنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن حیرت ہے لکڑی کا دروازہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا ۔۔
نور بانو بیگم فوراً چادر اوڑھے قیس کو بلانے گٸی لیکن صفیہ بیگم نے بتایا کہ وہ گھر پہ نہیں ہے ۔۔
وہ سب بہت پریشان تھے اور جیا پھوپھو سسکتی ہوٸی اک طرف بیٹھی تھی ۔۔
ان کی آنکھوں سے آنسو نہیں رک رہے تھے ۔۔۔
جانے کیوں ان کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔
*********************************
خون کی بوتل لیے وہ گھر آیا صفیہ بیگم مغرب کی نماز ادا کر رہی تھی ۔۔
اس نے خون کو مٹی کے پیالے میں انڈیلا اور زمزم کا پانی ملانے کے بعد وہ خون کا پیالہ اس کے دروازے کی چوکھٹ پر رکھ دیا ۔۔
وہ سامنے ہی کھڑا رہا ۔۔
دو لمبے ہاتھ اندر سے نکلے اور پیالہ اٹھاۓ اندر ہی چلے گٸے اس نے دروازہ پھر سے بند کر دیا اور لکڑی کے دانوں کی تسبیح سے مضبوطی سے باندھ دیا ۔۔
صفیہ بیگم سلام پھیرتے ہی دوڑتی ہوٸی قیس کے پاس آٸی اور حناوے اور شفق کی تمام صورتحال روتے ہوۓ سنانے لگی ۔۔
بیٹا اسکے کمرے کا دروازہ ابھی تک نہیں کھلا ۔۔کارپینٹر ۔۔اور دیگر کاریگروں کو بھی بلوایا لیکن کسی سے بھی نہیں کھل رہا اور کمرے میں حناوے اور شفق ہے ۔۔ﷲ جانے کس حال میں ہو ۔۔۔۔تم جاٶ میرے بچے ۔۔۔انہیں کوٸی مدد کی ضرورت نہ ہو ۔۔صفیہ بیگم نے روتے ہوۓ کہا اور قریب ہی صوفے کا سہارا لیتے اس پر ڈھے گٸی ۔۔۔
میرے ﷲ ۔۔۔بے شک تو ہی میرا پروردگار اور تمام جہانوں کا رب ہے ۔۔۔تو ہی ہمیں اس مشکل سے نجات دلا ۔۔میرے ﷲ۔۔۔مدد فرما ۔۔ہم گناہگار تیرے ہی در کے محتاج ہے۔۔۔۔
گھنٹوں وہ سر صوفے کی پشت سے لگاۓ دعا مانگتی رہی
قیس فوراً حناوے کے گھر کی طرف بھاگا ۔۔
ان کے گھر سے اک مزدور اوزار اٹھاۓ ناامید واپس جا رہا تھا شاید وہ بھی دروازہ کھولنے آیا تھا لیکن کھول نہیں پایا ۔۔۔۔
قیس کو دیکھتے ہی وہ مزدور اس کی طرف بڑھا ۔۔
اوۓ لڑکے آسیب زدہ گھر ہے یہ آسیب زدہ اور ان کی لڑکیاں جو اندر بند ہے وہ بھی آسیب زدہ ہے ۔۔۔میں نے جتنی بار بھی دروازہ کھولنے کی کوشش کی مجھے اتنی بار لکڑٕی کے دروازے سے کرنٹ پڑا ۔۔۔نا جاٸیو اندر تم بھی ۔۔۔وہ مزدور قیس کو تنبیہہ کرتا باہر کو چلا گیا ۔۔
جبکہ قیس اندر آگیا ۔۔قیس نے دیکھا سبھی بے یارومددگار روتے ہوۓ دروازے کے گرد جمع ہے۔۔۔
دراصل حناوے کی فیملی ماڈرن دور کے تقاضوں کو ماننے والی تھی حناوے کے والد صاحب ضیا کا اپنا گاڑیوں کا شو روم تھا ۔۔ان کی فیملی زرا آزاد خیال اور مذہب سے دور تھی اور حناوے بھی ایسی ہی آذاد خیال اور مذہب سے دور چلبلی لڑکی تھی حتٰی کہ مناہل کے لاکھ سمجھانے پر بھی نماز کی پابندی نہیں کر پا رہی تھی ۔۔
قیس کو اس نازک صورتحال میں بھی کوٸی بھی کسی بھی قسم کا ورد کرتا ہوا یا قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہوا نظر نہیں آیا ۔
وہ غصے سے آگے بڑھا ۔۔اس نے جیب سے حسن صاحب کی دی ہوٸی زمزم کی بوتل نکالی جس میں ابھی بھی تھوڑا سا پانی موجود تھا اور بسم الله پڑھتے ہی اس نے پانی دروازے پر چھڑک دیا ۔۔
اک عجیب سی آواز کیساتھ دروازے پر قبضہ جماٸی شیطانی طاقت نے دروازے کو چھوڑا ۔۔۔دروازہ کھل چکا تھا ۔۔
چونکہ مغرب کا وقت تھا سو اندھیرےکے سبب کچھ نظر نہیں آ رہا تھا ۔۔۔
ضیا صاحب کمرے کی لاٸیٹ جلانے آگے بڑھے ۔۔۔۔
*******************************
اسلام علیکم ۔۔۔۔قیس بیٹا صبح دس بجے میرے گھر آجانا ۔۔۔ہم کل نور محمد صاحب کے مدرسے پر ان سے ملاقات کی غرض سے تشریف لے کر جاۓ گے اور عمر کو بھی ساتھ لے آنا ۔۔۔
جی ٹھیک ہے سر ۔۔۔بہت شکریہ ۔۔
قیس نے سسکی بھرنے کے انداز سے کہا جسے حسن صاحب نے بھی محسوس کیا ۔۔
قیس بیٹے سب ٹھیک ہے ناں ۔۔۔حسن صاحب نے فکر مندی سے پوچھا ۔۔
*********************************
جیسے ہی کمرے میں روشنی ہوٸٕی ۔۔سامنے کا منظر دیکھ کر وہاں موجود سبھی لوگوں کو سانپ سونگھ گیا ۔۔
اس قدر خاموشی کہ وہ سانس لینا ہی بھول گٸے۔۔
فرش پر پڑی معصوم شفق حسان ۔۔۔اپنے اوپر بیتی داستاں تک نہیں سنا سکی اور نہ کبھی سنا سکے گی ۔۔۔
نوچی ہوٸی آنکھوں سے خون بہہ بہہ کر جم چکا تھا اور بیڈ پر ۔۔دولہن جیسے لباس میں بال کھولے حناوے ڈری سہمی بیٹھی تھی ۔۔وہ بار بار اپنی خون آلود انگلیوں کو خوف سے پیچھے چھپا رہی تھی اور تھر تھر کانپ رہی تھی ۔۔۔
جیا پھوپھو اپنی معصوم بیٹی کو دیکھ چکی تھی ۔۔دیوار کا سہارا لیتے وہ وہیں لڑھک گٸی ۔۔حسان صاحب بھی سر کو پکڑے فرش پر ہی بیٹھ گٸے ۔۔
بانو بیگم بھی ضیا صاحب کا ہاتھ تھامے سہارا لیے کھڑی تھی ۔۔خود قیس بھی اس منظر کو دیکھ کر اندر تک دہل چکا تھا ۔۔
ان سب کو معاملے کی سنگینی کا احساس ضرور تھا لیکن معاملے انتہا کا سنگین ہو گا یہ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا ۔۔
پہلی موت رپورٹ ہو چکی تھی ۔۔۔
اور دور کہیں کالے سایوں کے زیر اثر بیٹھی اس منحوس ماری بڑھیا کو اس کی خبر مل چکی تھی وہ گوشت کے ٹکرے تھالی میں سجاۓ قہقہے لگا رہی تھی۔۔۔
قیس نے ہی آگے بڑھ کر شفق کے تدفین و جنازے کا انتظام کیا ۔۔ورنہ تو اس گھر کا کوٸی فرد بھی اس حالت میں نہیں تھا ۔۔۔
یہ رات بھی ڈھل گٸی ۔۔۔۔
*****************************
قیس بیٹے سب ٹھیک ہے ناں ۔۔۔حسن صاحب نے فکر مندی سے پوچھا ۔۔
وو وہ سس سر ۔۔۔حناوے نے اپنی کزن شفق کو مار دیا ۔
قیس نے کس قدر زخمی انداز سےکہا۔۔
واٹ ۔۔۔۔حسن صاحب بھی اک دم سکتے میں آگٸے ۔۔
سس سر ۔۔حناوے پر بھی اس شیطان کا قبضہ ہے ۔۔قیس کی آنکھیں آنسو سے تر تھی ۔۔
جبکہ حسن صاحب اب تک شفق کی موت پر سکتے کے عالم میں تھے ۔۔
قیس ۔۔۔صبح ہم ہر حال میں نور محمد صاحب کو یہاں لے آۓ گے ۔۔میں تمہارے ساتھ ہی چلو گا بیٹا ۔۔معاملہ حد درجہ سنگین ہو چکا ہے ۔۔قیس صاحب نے کہا اور فون بند کر دیا۔۔
صبح ساڑھے دس بجے وہ عمر اور حسن صاحب کےہمراہ نور محمد صاحب کے مدرسے میں موجود تھے ۔۔
تھوڑی ہی دیر بعد نور محمد صاحب تشریف لے آۓ وہ خوشدلی سے حسن صاحب سے ملے۔۔۔
جیسے ہی ان کی نظر قیس اور عمر پر پڑی ان کے ماتھے پر بل پڑ گٸے ۔۔
جہاں سے آۓ ہو وہی واپس چلے جاٶ ۔۔نور محمد صاحب نے کہا اور رخ پھیر لیا ۔۔
میرے محترم خدارا مدد کرے ۔۔۔پلیز ہم بہت مصیبت زدہ ہے ۔۔خدارا منہ مت موڑٸیے ۔۔کوٸی خطا ہوٸی ہے ۔۔تو پلیز بتاۓ ۔۔۔قیس ان کے قدموں میں بیٹھ گٸے ۔۔
میرے نا سمجھ بیٹے ۔۔خطا کی معافی ہوتی ہے ۔۔اور آپ سے خطا ہوٸی ہوتی تو اس کا ازالہ ہم کرتے ۔۔لیکن بات خطا کی نہیں بلکہ دل توڑنےکی ہے اور بھول اور چوک کی ہے۔۔۔۔نور محمد صاحب نے نرمی سے کہا ۔۔
اب جاٶ جہاں سے واپس آۓ ہو ۔۔نور محمد صاحب نے کہا اور انہیں وہی چھوڑ کر حسن صاحب کو اشارہ کرتے کمرے سے نکل گٸے ۔۔
حسن صاحب بھی حیرت سے سب دیکھ رہے تھے لیکن خاموش رہے ۔۔
قیس اب وہی قالین پر بیٹھا تھا عمر بھی اس کے پاس کے پاس ہی بیٹھا تھا ۔۔۔سامنے ہی کمرے میں کچھ بچے سروں پر سفید ٹوپیاں سجاۓ زور زور سے ہلتے ہوۓ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔۔۔
دو بچے اپنا سبق سنا کر ان سے زرا فاصلے پر آ کر بیٹھ گٸے ۔۔وہ اب اپنا اپنا ڈبہ کھول رہے تھے ۔۔
اندر تازہ کٹے ہوۓ فروٹس تھے ۔۔
قیس اور عمر انہیں بچوں کو دیکھ رہے تھے۔۔
زین ۔۔۔تم بالکل گھوڑے والی زین ہو ۔۔۔تم نے کل مجھے سبق یاد کروانے کا وعدہ کیا تھا لیکن تم نے نہیں یاد کروایا ۔۔اور دیکھا آج ابو ذر مجھ سے سبق میں آگے ہو گیا ۔۔۔ان میں سے چھوٹے والے بچے نے منہ بسورتے بڑے بچے کو کہا جو سیب کی قاشیں کھا رہا تھا ۔۔۔
دیکھو ۔۔۔ صہیب ۔۔۔اگر آپ کو مجھ سے سبق یاد کرنا ہے تو آپ کو اس سبق یاد کرنے کے بدلے مجھے اس کی قیمت چکانی ہے اور وہ قیمت یہ ہے کہ آپ مجھے عزت دو اور میرا احترام کرو لیکن آپ مجھے گھوڑے والی زین کہتے رہتے ہو اور "تم تم " کہہ کر بات کرتے ہو۔۔۔جس دن آپ نے میرا احترام اور عزت کر کے قیمت چکانا شروع کر دی ۔۔۔بدلے میں میں بھی اپنے قیمتی وقت سے آپ کو زیادہ سبق یاد کروا دیا کروں گا ۔۔۔زین نے اطمینان سے کہا اور کٹے ہوۓ سیب دلجمعی سے کھانے لگا اس بات سے بے خبر کے سامنے دونوں نوجوان لڑکے حیرت اور پیشمانی کے سمندر میں غوطہ زن ہے ۔۔۔
قیمت چکانے والی بات سن کر ان دونوں کے ذہنوں میں یک دم جھماکا ہوا۔۔۔
قیس اور عمر کے ذہہنوں میں ملگجے حلیے والے فقیر کے بس یہی جملے گردش کر رہے تھے۔۔
"میں یہ دھاگے دے دیتا ہوں لیکن اگر تم دونوں اس کی قیمت چکانے کا وعدہ کرو تو ۔۔۔۔۔"
"ایسی چیزیں جنہیں ہم اپنے اوپر ضرورت کا ٹیگ لگا کر خود پر لاگو کر لیتے ہیں ۔۔میرے بیٹے ایسی چیزیں قیمت مانگتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کیا سمجھے ۔۔۔"
"قیمت چکانا ضروری ہوتا ہے بھولنا مت ۔۔۔۔"
فقیر کے جملے اس کے دل ودماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے ۔۔ جمعرات گزر چکی تھی ۔۔جب انہیں اس پہاڑی درگا میں جانا تھا لیکن وہ نہیں گٸے ۔۔۔
اوہ میرے خدایا ۔۔۔تو یہ تھی وہ غلطی جو ہم سے ہوٸی ۔۔میرے تو ذہن سے ہی نکل چکا تھا یہ سب ۔۔۔۔کیسے بھول سکتا ہوں میں کیسے ۔۔۔۔۔ قیس نے زور سے گھٹنے پر ہاتھ مارا ۔۔۔
قیس یہی چوک ہوٸی ہے ہم سے ۔۔وقت تو گزر چکا لیکن مداوا تو کرسکتے ہیں ناں ۔۔۔۔پھر کیا سوچا تم نے۔۔۔عمر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ پوچھا ۔۔
ہم ابھی اور اسی وقت وہاں جاۓ گے ۔۔۔قیس فوراً اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
یہی بہتر ہے ۔۔۔عمر نے کہا
اب وہ دونوں تیزی سے مدرسے سے باہر نکل رہے تھے ۔۔۔
پیچھے مدرسے کے صحن میں بیٹھے نور محمد نے دونوں کو تیزی سے جاتے دیکھا ۔۔
ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گٸی ۔۔۔
حسن صاحب انہیں مسکراتا دیکھ کر اس کا سبب پوچھ بیٹھے ۔۔۔
وہ نا سمجھ غلطی سدھارنے چل پڑے ہیں ۔۔۔ وہ فقیر بہت وقت کا پابند اور شرارتی طبیعت کا ہے وہ ضرور پہلے انہیں خوفزدہ کرے گا پھر ان سے کام نکلواۓ گا اور تب کہیں جا کر بزرگ ہستی سے ان کی ملاقات کرواۓ گا جو ان شاء اللہ دونوں بیٹیوں کا علاج کر ے گے ۔۔۔اور پھر نور محمد صاحب نے تمام بات حسن صاحب کو بتا دی ۔۔۔
اچھا تو یہ بات تھی جس کی وجہ سے آپ ان سے بات نہیں کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔حسن صاحب بھی مسکرانے لگے ۔۔
********************************
ہم چلے اپنا رخت سفر باندھ کر
تم پر لازم ہے کہ ہمیں یاد رکھنا
********************************