ابھی وہ سب علی کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ کھٹ سے دروازہ کھلنے کی اور تسبیح کے دانوں کی ٹوٹ کر گرنے کی آواز سناٸی دی۔۔۔
سب لوگ سہم کر ڈراٸنگ روم سے باہر کی طرف دیکھنے لگے۔۔
یا ﷲ خیر ۔۔۔بے اختیار حسن صاحب کے منہ سے نکلا۔۔
میری امی ۔۔۔۔قیس نے کہا اور فوراً باہر کی طرف صفیہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھا ۔۔۔
صفیہ بیگم اپنے بیڈ پر بیٹھے آنکھیں موندھے تسبیح پڑھ رہی تھی اور قرآن بھی ان کے سامنے ہی پڑا تھا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا تھکی ہاری ماں بیچاری کو نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا ہو۔۔۔قیس نے انہیں دیکھ کر سکھ کا سانس لیا۔
جیسے ہی وہ ڈراٸنگ روم میں جانے کیلیے مڑا اس کے قدم فوراً منجمند ہو گٸے سامنے مناہل کھڑی اسے عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
ممم مناہل ۔۔میری گڑیا ۔۔ قیس نے دھیرے سے کہا
جبکہ مناہل اسے گھورتی رہی۔۔
مناہل چند قدم آگے بڑھی لیکن قیس کے بازو میں بندھے کالے دھاگے کو دیکھ کر رک گٸی ۔۔
کچھ پل اسے اور صفیہ بیگم کو عجیب نظروں سے دیکھتی رہی پھر واپس اپنے کمرے میں چلی گٸی۔۔
اسی وقت ڈور بیل بجی قیس نے دروازہ کھولا اک باٸیس سالہ لڑکا شاپر میں اک بوتل لیے کھڑا تھا۔۔۔
قیس نے اس سے وہ بوتل لی ۔۔ وہ لڑکا قیس کو مشکوک نظروں سے دیکھتا رہا ۔۔
قیس نے بھی اس کی مشکوک اور سوالیہ نظروں کو محسوس کیا ۔۔
آ ۔۔وہ اس خون کے متعلق آپ کو اسفند بھاٸی بتا دے گے۔ قیس نے جلدی سے کہا اور دروازہ بند کر دیا ۔۔
قیس وہ بوتل فوراً حسن صاحب کے پاس لے گیا ۔۔
حسن صاحب نے پڑھے ہوۓ زم زم کے پانی کی بوتل جیب سے نکالی اور اس کے چند قطرے خون میں ڈال دٸیے ۔۔
اب مٹی کے پیالے میں یہ خون اسے دو مگر دھیان رہے دروازے کی چوکھٹ پر ہی پیالہ رکھ دینا کمرے میں مت داخل ہونا ۔۔۔حسن صاحب نے قیس سے کہا ۔۔
قیس نے اثبات میں سر ہلایا اور خون کی بوتل لیے کچن میں چلا گیا ۔۔
اب وہ مٹی کے پیالے میں خون کو دروازے کی چوکھٹ پر رکھ کر واپس ڈراٸنگ روم میں آ گیا۔۔
حسن صاحب نے قیس سے لکڑی کے دانوں سے بنی تسبیح لانے کو کہا ۔۔جو وہ لے آیا ۔۔
مناہل کے اندر چھپا شیطان اس وقت خون پینے میں مصروف ہے ہمیں کمرے کو فوراً باہر سے بند کرنا ہو گا ۔۔
حسن صاحب نے کہا اور باہر کو نکلے ۔۔
سب لوگ ان کے پیچھے ہی ڈراٸنگ روم سے باہر آ گٸے ۔۔۔
حسن صاحب نے آہستگی سے دروازے کو بند کیا اور کچھ پڑھ کر تسبیح سے دروازے کو بند کر دیا ۔۔
اندر سے جتنے بھی چینخنے چلانے کی یا مناہل کی آوازیں آۓ دروازہ نہیں کھولنا ۔۔۔۔ﷲ کے حکم سے یہ کل شام تک اندر ہی رہے گی اور شام سے پہلے پہلے یا تو کسی بزرگ ہستی کا یا خون کی اک اور بوتل کا انتظام کرنا ہو گا ۔۔۔۔قیس بیٹے تمہیں کسی نیک بابا جی کو روحانی علاج کیلیے ڈوھونڈ کر لانا ہو گا بلکہ کل جمعرات ہے تو دریا کے کنارے ساٸیں سرکار کے میلے میں اک نور محمد نامی بزرگ ہے جو ہر جمعرات کو میلے کے دربار میں آتے ہیں۔۔۔وہ بہت نیک اور ﷲ والے ہے ماشاءاللہ،،،،
انہیں کل یہاں لے آنا وہ ان شاء اللہ مناہل بیٹی کو ﷲ کے حکم سے اس شیطان سے نجات دلا دے گے ۔۔۔۔
حسن صاحب نے تفصیل سے قیس کو سمجھایا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے دلاسہ دیتے الوداعی کلمات کہتے رخصت ہو گٸے ۔۔ڈاکٹر اسفند اور عمر بھی قیس سے مصحافہ کرتے باہر کو نکلے ۔۔
بیٹا کوٸی بھی مسٸلہ ہوا کیسی بھی پریشانی وغیرہ ۔۔ہم ساتھ ہی رہتے ہے ۔۔ یاد ضرور کر لینے اور پریشان نہیں ہونا ان شاء اللہ سب بہتر ہو جاۓ گا۔۔ضیا صاحب نے کہا اور وہ بھی باہر کی طرف چل دٸیے ۔۔
اچانک عمر پھر سے گھر میں داخل ہوا ۔۔
قیس کل جمعرات ہے تو ہمیں صبح پانچ بجے ۔۔۔۔۔۔
ابھی عمر نے اتنا ہی کہا کہ مناہل کی چلانے کی آوازیں آٸی۔۔۔قیس مناہل کے دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا وہ اچھل کر دو قدم پیچھے ہٹا ۔۔۔
قیس بھاٸی دروازہ کھول دے پلیز ۔۔۔مناہل کے رونے کی آواز آٸی۔۔
قیس نہیں ۔۔ یاد رکھنا یہ دروازہ کھولوانے کی پوری کوشش کرے گی لیکن تم کھولنا مت اوکے۔۔
بھول کر بھی ۔۔۔
عمر نے اسے سختی سے تاٸید کی اور سلام کرتا باہر کو نکل گیا، یہ سوچے بنا کہ وہ قیس کو اک اہم بات بتانے آیا تھا جو وہ بنا بتاۓ ہی جا رہا ہے۔۔
************************************
جیا پھوپھو اپنے شوہر حسان اور انیس سالہ بیٹی شفق کے ساتھ حناوے کا سن کر اس کی خیریت پوچھنے آٸی تھی۔
نور بانو بیگم کی بگڑتی طبیعت کے سبب اورکچھ ضیا بھاٸی کےاصرار پر انہوں نے رات وہی رکنے کا فیصلہ کیا۔۔
شفق اور حناوے میں دو سال کا فرق تھا لیکن وہ اچھی کزنز ہونے کیساتھ ساتھ اچھی دوستیں بھی تھی۔۔
ممانی جان ۔۔مجھے تو کالی کے مندر والے تمام واقعات کا ابھی تک یقین نہیں آرہا اور مناہل کا سن کر بہت افسوس ہو رہا ہے ۔۔ شفق نے نور بانو بیگم سے کہا جو شدید سر درد کے باعث لیٹی تھی ۔۔
ہاں بیٹی ۔۔اس بچی نے نجانے کون کون سی تکالیف اٹھاٸی ہو گی ۔۔اس کی حالت زیادہ بہتر نہیں تھی ۔۔نور بانو بیگم نے اپنے ماتھے کو دباتے ہوۓ کہا ۔۔
ﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ہماری بچی بالکل ٹھیک ہے ۔۔۔جیا پھوپھو نے قریب ہی صوفے پر بیٹھی حناوے کو دیکھتے ہوۓ کہا جو دونوں ہاتھ ٹھوڑی پر ٹکاۓ گم سم بیٹھی تھی ۔۔
ﷲ پاک مناہل کو بھی جلد از جلد صحت یاب کریں اور اس شیطان سے نجات دلاۓ ۔۔۔شفق نے کہا تو نور بانو اور جیا پھوپھو نے "آمین" کہا ۔۔۔
شفق بیٹی زرا میری بات سنو۔۔ حناوے کو اس کے کمرے میں لے جاٶ اور اس سے باتیں کرو ۔۔ اسے بلانے کی کوشش کرو آخر تو تم کزن ہونے کیساتھ ساتھ بچپن کی دوست بھی ہو ۔۔۔نور بانو بیگم نے کہا ۔۔
ہاں شفق ۔۔۔حناوے کو بلانے کی کوشش کرو کہ وہ بولے ۔۔۔جیا پھوپھو نے بھی تاٸید کی ۔۔
جی بہتر ممانی جان اور امی جان ۔۔۔۔میں حناوے کو اس کےکمرے میں لے جاتی ہوں ان شاء اللہ صبح تک ہم سب پہلے والی ہنستی کھیلتی شرارتی حناوے کو دیکھے گے ۔۔
شفق نے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑے اس کے کمرے میں لے آٸی ۔۔۔۔
**************************************
رات کا آخری پہر تھا ۔۔
جب مناہل کا دروازہ زور دار انداز سے کھٹکا ۔۔۔ دروازہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھٹک رہا تھا اور ہر کھٹکے پر صفیہ بیگم کی آنکھ کھل جاتی اور وہ مناہل کے بارے میں سوچتے ہی رونے لگتی ۔۔قیس انہیں بڑی مشکل سے دلاسے دے کر مطمٸن کرتا کہ پھر سے دروازہ کھٹکنے لگتا ۔۔۔
آخر وہ تنگ آکر اٹھا اور اس دروازے کے سامبے بیٹھ کر معوذتین کی بلند آواز میں تلاوت کرنے لگا ۔۔
اب دروازہ کھٹکنا بند ہو گیا تھا ۔۔سو وہ واپس اپنے بستر پر آیا اس نے وقت دیکھا 4:20 منٹ ہو گٸے تھے دو راتوں کا جاگا ہوا وہ گہری نیند سو گیا ۔۔۔
کچھ راہیں اس کی منتظر تھی ۔۔
جس راہ پہ چلنے کا عہد کیا تھا ۔۔۔
لیکن وہ ہر چیز سے بے خبر نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔۔
صبح دس بجے اس کی آنکھ کھلی ۔۔وہ جلدی سے اٹھا ۔۔
اور صفیہ بیگم کو آوازیں دیتا باہر آگیا ۔۔سامنے صحن میں وہ گم سم بیٹھی تھی ۔۔۔
امی جان آپ نے مجھے اٹھایا نہیں ۔۔۔ قیس نے ان کے قریب بیٹھتے ہوۓ کہا ۔۔
تم بہت تھکے ہوۓ تھے بیٹا اور ہاں اپنے باس کو کال کر کے چھٹی کا کہہ دو ۔۔دو بار ان کی گھر کے نمبر پر کال آچکی ہے۔۔صفیہ بیگم نے کہا اور اس کیلیے ناشتہ لینے کچن میں چلی گٸی ۔۔
تقریباً دو گھنٹے کے بعد وہ عمر کیساتھ میلے کے وسط میں بنے دربار میں تھا ۔۔
جہاں ٹاٹ کی چٹاٸی پر کالا کپڑا بچھاۓ اک بزرگ تسبیح میں مگن تھے اور آس پاس بیٹھے لوگوں کی باتیں سن رہے تھے ۔۔۔
عمر اور قیس نے باٸیک روکی اور وہ بھی بزرگ کے قریب چٹاٸی پر بیٹھ گٸے ۔۔
میرا خیال ہے محترم نور محمد صاحب یہی ہے ۔۔عمر نے قیس کے کان میں سرگوشی کی ۔۔
اسلام وعلیکم محترم ۔۔۔۔قیس نے آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا ۔
نورانی صفت بزرگ نے گردن موڑ کر عمر اور قیس کو دیکھا اور ان کے کان کے قریب آکر بولے ۔۔
ابھی اور اسی وقت یہاں سے چلے جاٶ ۔۔
اتنا کہہ کر وہ پھر سے آنکھیں بند کیے تسبیح کے دانے گھمانے لگے ۔۔
عمر اور قیس نے پریشانی سے اک دوسرے کو دیکھا ۔۔
محترم ۔۔۔ ہم مصیبت زدہ ہے پلیز ہماری مدد کریں ۔۔۔اس بار عمر نے آگے بڑھ کر کہا ۔۔
بزرگ نے آنکھیں کھولی اور انہیں دیکھا اور پھر سرگوشی کے سے انداز سے بولے ۔۔
جہاں سے آۓ ہو وہی واپس چلے جاٶ ۔۔ابھی ۔۔۔اسی وقت ۔۔۔
اتنا کہہ کر وہ تسبیح اٹھاۓ اٹھ کھڑے ہوۓ اور سامنے میلے میں لوگوں کے ہجوم میں گم ہو گٸے ۔۔۔
قیس اور عمر ان کے اس رویے سے سخت پریشان ہوۓ ۔۔ اور واپس آ گٸے ۔۔
وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آخر ان کی بات کیوں نہیں سنی گٸی ۔۔۔
************************************
شفق حناوے کو لیے اس کے کمرے میں آگٸی وہ آج رات حناوے کے ساتھ کمرے میں سونے والی تھی ۔۔
اس نے حناوے کو کٸی بار بلانے کی کوشش کی لیکن بے سود ۔۔
کبھی وہ اس کی بکس نکال لاتی کبھی اس کے واڑڈروب سے کوٸی ڈریس اور کبھی نوٹ پیڈ پر کچھ لکھ کر اسے پڑھنے کیلیے کہتی۔۔حتٰی کہ اس نے کالی کے مندر تک کا ذکر کیا ۔۔اور قیس کا بھی ذکر کیا (جسے حناوے دلوں جان سے چاہتی تھی)
لیکن حناوے نے بولنا تھا اور نہ ہی وہ بولی۔۔۔۔
آخر تھک ہار کر اس نے حناوے کو پلنگ پر لٹا دیا اور خود بھی لیٹ گٸی ۔۔جلد ہی وہ نیند کی آغوش میں چلی گٸی ۔۔۔
رات کا دوسرا پہر شروع ہو چکا تھا ۔۔۔
ہر طرف پراسرار خاموشی تھی لیکن اس پراسرار خاموشی کو توڑتے کوٸی لڑکی انتہاٸی غمزدہ آواز میں گیت گا رہی تھی۔۔
کالے گھور اندھیرے والی ۔۔۔۔
موت سے کالی ۔۔۔
بند گلی کی رکھوالی ۔۔۔
موت سے کالی ۔۔۔
تو نے آخری کھڑکی کھولی ۔۔۔
آلی بھولی ۔۔۔
آنکھیں کھول کے دیکھ یہ سولی ۔۔۔
موت سے کالی ۔۔۔
یہ سولی ۔۔۔
موت سے کالی ۔۔۔
یہ سولی ۔۔۔
آدھی رات کا وقت تھا ۔۔چاند کی چمک اپنے جوبن پر تھی ۔۔
چاندنی کی تیز روشنی چھن چھن کر کھڑکی سے حناوے کے کمرے میں داخل ہو رہی تھی ۔۔۔
عجیب سے گانے کی آواز پر شفق کی آنکھ کھلی ۔۔۔اس نے آنکھوں سے بازو اٹھا کر دیکھا ۔۔حناوے بستر پر نہیں تھی ۔۔
گانے کی آواز ابھی تک اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی ۔۔
اس نے گردن گھما کر کمرے کا جاٸزہ لیا ۔۔چھن چھن کر آتی چاند کی روشنی میں کھڑکی کے پاس کرسی رکھے بالوں کو کھولے کوٸی قیمتی دلہن جیسے لباس میں بیٹھا تھا ۔۔
خوف سے شفق کے چہرے کا رنگ سفید ہو گیا ۔۔ جو کوٸی بھی کرسی پہ بیٹھا تھا وہی گانا گا رہی تھی۔۔۔
کالے گھور اندھیرے والی ۔۔۔
موت سے کالی ۔۔۔
شفق کا سانس تیز ہونے لگا دھیرے سے وہ اٹھی اور کرسی کی طرف بڑھی ۔۔
کرسی پر بیٹھی لڑکی شفق کے قدموں کی چاپ سن کر خاموش ہو گٸی اور اک جھٹکے سے اٹھی ۔۔۔
شفق اس سے چند قدم کے فاصلے پر ہی تھی ۔۔۔
اس لڑکی کا چہرہ دیکھتے ہی اس نے چینخ ماری اور دیوار کا سہارا لیتے ڈھے گٸی ۔۔۔دلہن جیسے لباس میں موجود وہ لڑکی شفق کی طرف بڑھی ۔۔
حح ح حناوے ۔۔۔۔۔۔شفق کے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا ۔۔۔۔۔
********************************
کہہ دو کہ ابھی کچھ سانس باقی ہیں ۔۔۔
********************************