وہ دونوں قرآنی آیات پڑھنے میں مگن تھے۔۔۔
آخر جلد ہی اسفند ایمبولینس کیساتھ وہاں موجود تھا ۔۔۔
دونوں کو ایمبولینس میں ڈالا گیا۔۔۔
قیس ایمبولینس میں ہی گیا جبکہ عمر قیس کی باٸیک میں سوار ہو گیا۔۔
ان کا رخ The Central Hospital ہسپتال کی طرف تھا۔۔
سر اسفند نے جلد ہی مناہل کو I.C.U میں شفٹ کیا اور اپنے پروفیسر ڈاکٹر حسن کو کال کی اور انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔۔انہوں نے فجر کے فوراً بعد آنے کا وعدہ کیا۔۔
اور ٹھیک فجر کی اذانوں کے ایک گھنٹے بعد پروفیسر ڈاکٹر حسن اپنی ازلی مسکراہٹ کیساتھ ہسپتال میں موجود تھے ۔۔ڈاکٹر اسفند نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھوں پر بوسہ دیا اور ان سے مناہل کےکیس کو دیکھنے کی درخواست کی جو پروفیسر ڈاکٹر حسن نے بنا تامل قبول کر لی۔۔۔
حناوے کو جسمانی طور پہ کوٸی چوٹ نہیں آٸی تھی اس لیے اسے روم میں ہی شفٹ کیا گیا۔۔۔
صبح ہوتے ہی قیس عمر کو اسپتال میں ہی ٹھہرا کر گھر اطلاع دینے چلا گیا۔۔۔
******************************
انکل ضیا اور نور بانو بیگم اکلوتی بیٹی حناوے کو ہسپتال کے بستر میں یوں بے سدھ پڑے دیکھے روۓ چلے جا رہے تھے قریب ہی صفیہ بیگم قیس کے کندھے پر سر رکھے آنکھوں میں آنسو لیے صدمے کے زیر اثر بیٹھی تھی جبکہ قیس انہیں مسلسل دلاسہ دینے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔عمر بھی ابھی تک وہی موجود تھا۔۔۔
اسی اثنا میں ڈاکٹر اسفند اور ڈاکٹر حسن ICU سے باہر نکلے ۔۔
قیس فوراً آگے بڑھا ۔۔
اسفند بھاٸی ۔۔۔۔میری بہن مناہل ۔۔۔؟
قیس بیٹے مناہل ٹھیک ہے الحَمْدُ ِلله ،، لیکن جو جسمانی تکالیف اس بہادر بچی نے اٹھاٸی اس کے زخم بھرنے میں وقت لگے گا ۔۔ مناہل کے چہرے اور گردن پر کھرونچ کے نشان ہے اور رخساروں یعنی گالوں کا گوشت غاٸب ہے ایسے جیسے کسی نے بے دردی سے کانٹے یا کسی نوکیلی چیز سے نوچا ہو۔۔۔۔کچھ دواٸیوں اور روٸی کی مدد سے اس کے چہرے کو بھر دیا ہے لیکن دھیان رہے وہ پٹی نہیں ہٹانی جب تک کہ نیا گوشت نا بن جاۓ بلکہ نیا گوشت اور ماس بننے کے بعد وہ پٹی خودبخود اتر جاۓ گی ۔۔۔اور پریشان نہیں ہونا ۔۔والدہ کو بھی تسلی دو ۔۔
آخر میں ڈاکٹر حسن نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے دلاسہ دیتے ہوۓ کہا ۔۔
جزاك اللهُ،،،بہت بہت شکریہ سر۔۔۔۔۔قیس نے ان کا شکریہ ادا کیا۔
آ ڈاکٹر صاحب ۔۔وہ۔۔وہ دراصل جو دوسری Patient ہے وہ بالکل ٹھیک ہے ناں ؟۔۔۔
قیس نے ان سے پوچھا ۔۔
جی بیٹا بظاہر تو وہ ٹھیک ہے انہیں کوٸی جسمانی ایذا نہیں پہنچی لیکن ۔۔۔۔۔ ان کا ہوش میں آنا بہت ضروری ہے اس کے لیے دعا کریں ۔۔
ڈاکٹر حسن نے کہا اور ان سے دعا سلام لیتے ہسپتال سے چلے گٸے ۔۔
قیس مناہل کو خون کی بوتل لگنی ہے ۔۔جو کہ خوشقسمتی سے ہسپتال کے بلڈ بینک سے ارینج ہوگیا اور اس کے بعد آپ مناہل کو گھر لے جا سکو گے ۔۔
ڈاکٹر اسفند نے قیس سے کہا ۔۔
جی بھاٸی بہتر۔۔۔قیس نے کہا
اور پریشان نہیں ہونا میں چیک اپ کیلیے آپ کے گھر آتا رہوں گا ۔۔ڈاکٹر اسفند نے دوستانہ انداز سے کہا۔۔
قیس انہیں مشکور کن نظروں سے دیکھتا رہا۔۔
کچھ ہی دیر میں حناوے کو ہوش آگیا لیکن وہ فی الحال کسی سے بات نہیں کر رہی تھی۔۔۔ ڈاکٹرز کے مطابق اس کی حالت تو بہتر ہے لیکن اس نے کچھ ایسا دیکھ لیا ہے جو اس کا دماغ ایکسیپٹ Accept نہیں کر پا رہا اس لیے وہ لب سیے ہسپتال کی چھت کو مسلسل گھور رہی تھی۔۔ اسے بھی شام تک گھر لے جانے کی ہدایت کر دی گٸی تھی..
صفیہ بیگم، قیس اور عمر باہر کورٸیڈور میں بنے بینچ پر بیٹھے تھے۔ مناہل اسپتال کے کمرے میں تھی اسے خون کی بوتل لگی تھی جس کا دورانیہ تین گھنٹے سیٹ کیا گیا تھا۔۔
تھوڑی ہی دیر میں اسپتال کی میڈ Mop اٹھاۓ وہاں نمودار ہوٸی۔۔
وہ اپنے آپ میں ہی مگن صفاٸی کرتی مناہل کے کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔
ابھی کچھ پل ہی گزرے تھے کہ اندر کمرے سے صفاٸی کرنے والی میڈ کی چینخیں بلند ہوٸی۔۔
عمر اور قیس دونوں اندر کی طرف بھاگے جیسے ہی وہ اندر داخل ہوۓ ۔۔میڈ کے چہرے پر ہواٸیاں اڑی ہوٸی تھی اور وہ خوف سے بری طرح کپکپا رہی تھی ۔۔۔۔
خخ خو خون آشام لل لڑکی ۔۔۔خون آشام لڑکی۔۔۔
اب وہ میڈ چینختی ہوٸی خون آشام لڑکی کہتی باہر کو بھاگ گٸی ۔۔
جبکہ قیس اور عمر نے دیکھا مناہل بے سدھ بیڈ پر لیٹی ہے۔
قیس آگے بڑھا۔۔مناہل کے منہ اور اس کے اردگرد پٹی پر لگے خون کو دیکھ کر وہ چونک گیا ۔۔
عمر نے اس کی توجہ خالی بوتل کی طرف دلاٸی جس میں خون کا اک خطرہ بھی باقی نہیں بچا جبکہ اس بوتل کو ختم ہونے میں ابھی ڈھاٸی گھنٹے درکار تھے ۔۔۔
وہ وہ میڈ ۔۔جھوٹ بک رہی ہے ۔۔۔قیس نے جذباتی انداز سے غصے میں کہا ۔۔عمر چپ رہا کیونکہ وہ جانتا تھا قیس کو فی الحال سمجھانا ناممکن ہے ۔۔
ڈاکٹر اسفند بھی آ گٸے تھے اور دیگر نرسز بھی روم کے باہر اکھٹی ہو چکی تھی جنہوں نے کچھ دیر پہلے میڈ کی چینخیں سنی تھیں۔۔۔
مناہل پر نظر پڑتے ہی وہ کچھ پل سوچتے رہے اور مناہل کو گھر لے جانے کی ہدایت کی۔۔
قیس مناہل کو گھر لے جاٶ میں شام میں سر حسن کیساتھ آٶ گا۔۔ ڈاکٹر اسفند نے قیس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔۔
قیس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
************************************
مناہل کو اس کے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔۔۔
حناوے بھی گھر آچکی تھی اب وہ قدرے بہتر تھی لیکن زبان سے ابھی وہ کچھ نہیں بولی تھی۔۔
عصر کے کچھ دیر بعد دروازہ کھٹکا ۔۔قیس نے دروازہ کھولا ۔۔سامنے ڈاکٹر حسن اپنی ازلی مسکراہٹ کیساتھ اور ڈاکٹر اسفند کھڑے تھے ۔۔۔اور عمر بھی ان کیساتھ ہی تھا ۔۔
قیس نے فوراً ڈراٸنگ روم کا دروازہ کھولا انہیں بٹھا کر باہر نکل گیا ۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ چاۓ اور دیگر لوازمات سے سجی ٹرالی گھسیٹے اندر داخل ہوا۔۔
بیٹا ہم آپ کے مہمان کی حیثیت سے نہیں بلکہ اپنے فرض کی خاطر آۓ ہیں اور جہاں بات فرض کی آ جاۓ وہاں ان تکلفات کی کیا گنجاٸش ۔۔۔حسن صاحب نے نرمی سے کہا
میری گزارش ہے کہ آپ قبول کرے ۔۔قیس نے کہا ۔۔
بالکل ہم قبول کرتے ہیں۔۔ڈاکٹر حسن نے خوشدلی سے کہا اور آگے بڑھ کر چاۓ کا کپ اٹھا لیا ۔۔
ہاں تو قیس بیٹے ۔۔۔ اس رات کا واقعہ پھر سے سننا چاہو گا ۔۔۔حسن صاحب نے چاۓ کا سپ لیتے ہوۓ کہا ۔۔۔
قیس نے اس رات کا تمام واقعہ بیان کر دیا ۔۔۔
تو یہ اس کالی کے مندر سے شروع ہوا سب ۔۔۔میں کالی کے مندر کے حوالے سے کٸی واقعات سن چکا ہوں۔ شیطانیت اپنے عروج پر پہنچ چکی ۔۔ انہیں قابو نہ کیا گیا تو ان کا یہی عروج انسانیت کے لیے زوال بن جاۓ گا۔۔۔
حسن صاحب نے پرسوچ انداز سے کہا ۔۔
مجھے اک بات سمجھ نہیں آٸی، حناوے کیساتھ یہ سلوک کیوں نہیں ہوا جو مناہل کیساتھ ہوا؟ ڈاکٹر اسفند نے کہا۔۔
حناوے بولے گی اور سب بتاۓ گی ان شاء اللہ،،،ڈاکٹر حسن نے کہا۔
قیس بیٹا آج کے اسپتال والے واقعے کے بعد مجھے شک ہےکہ شیطانی اثرات مناہل پر قبضہ جماۓہوۓ ہیں۔۔اپنے اس شک کو جانچنے کیلیے مجھے مناہل کو دیکھنا ہو گا ۔۔میں کوٸی مرشد اور ولیﷲ تو نہیں ہوں لیکن کچھ بابرکت علوم کو جانتا ہوں جس کی مدد سے ہم جان لے گے ۔۔۔
آپ مجھے کالا دھاگا اور گہری سبز رنگ کی مرچیں لا دے ۔۔۔
قیس نے فوراً دونوں چیزیں ڈاکٹر حسن کے سپرد کی ۔۔۔
قیس ۔۔انگھیٹی میں دہکتے ہوۓ کوٸلے بھی لے آٶ ۔۔
اب ڈاکٹر حسن قیس اور صفیہ بیگم مناہل کے کمرے میں تھے جبکہ عمر اور اسفند کمرے سے باہر کھڑے تھے۔۔۔
ڈاکٹر حسن نے دھاگے کو نو میٹر تک کاٹا اور کچھ پڑھ کر اس پر پھونکنے لگے ۔۔
میں اس دھاگے کا ایک سرا مناہل کے باٸیں پاٶں سے باندھو گا جبکہ باقی کا دھاگہ دوسرے سرے تک فرش پر ہی رہے گا ۔۔ مناہل پر جتنے بھی اثرات ہوۓ یہ دھاگہ اتنا ہی جل کر کم ہو جاۓ گا ۔۔۔مثال کے طور پر اگر مناہل بیٹی پر اثرات ہوۓ تو نو میٹر دھاگہ جل کر سات میٹر ہو جاۓ گا اور اگر اور زیادہ اثرات ہوۓ تو یہ دھاگہ چھ میٹر کا ہو جاۓ گا ۔۔۔بس اس زیادہ کم نہیں ہو گا اور اگر دھاگہ نو میٹر ہی رہا تو سمجھو کوٸی اثرات نہیں ہیں ۔۔۔۔حسن صاحب نے کہا اور قیس کو ہدایت کی کہ مناہل کے باٸیں پیر کے انگوٹھے میں دھاگہ باندھ دو ۔۔۔
قیس نے دھاگہ باندھ دیا ۔۔حسن صاحب نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھا اور دھاگے کی سمت پھونک دیا ۔۔
لیکن کچھ بھی نہیں ہوا ۔۔۔کافی دیر وہ کھڑے رہے لیکن دھاگہ نہیں جلا ۔۔۔
جسے ہی حسن صاحب دھاگے کو پکڑنے کیلیے جھکے۔۔
دھاگہ اک چنگاری کی مانند جلنے لگا ۔۔حسن صاحب اچھل کر پیچھے ہوۓ ۔۔دھاگہ دھیرے دھیرے جلتا جلتا سات میٹر تک پہنچا اور پھر جلتے جلتے چھ میٹر تک پہنچا لیکن وہ چنگاری چھ میٹر تک پہنچ کر بھی نہیں رکی اب دھاگہ جلتا ہوا مناہل کے انگوٹھے تک پہنچ گیا اور جیسے ہی سارا دھاگہ جل گیا ۔۔۔چنگاری بجھ کر غاٸب ہو گٸی ۔۔
أَسْتَغْفِرُ اللّٰه،۔۔أَسْتَغْفِرُ اللّٰه،۔۔أَسْتَغْفِرُ اللّٰه
حسن صاحب نے بے اختیار دل پر ہاتھ رکھتے کہا
وہ ابھی بھی لب کھولے اس دھاگے کو جلتا دیکھ رہے تھے۔۔۔
مناہل کے گالوں پر روٸی تھی لیکن اس کے ہونٹوں سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ مسکرا رہے ہو ۔۔۔ ہاں بالکل سیاہ ہونٹ مسکرا رہے تھے ۔۔مناہل کے ہونٹ سیاہ تو نہیں تھے لیکن وہ سیاہ ہونٹ اس وقت مناہل کے ہی تھی ۔۔
حسن صاحب نے اک نظر دیکھا اور قیس کی طرف مڑے ۔۔۔
قیس بیٹے اس انگھیٹی اور سبز مرچوں کی ضرورت نہیں رہی ۔۔۔جو معلوم کرنا تھا اب وہ بہت شدت سے معلوم ہو چکا ہے ۔۔چلو فوراً کمرے سے باہر چلتے ہے اور والدہ کا ہاتھ تھام کر انہیں دوسرے کمرے میں لے جاٶ ۔۔۔
حسن صاحب نے کہا ۔۔۔اور فوراً کمرے سے باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا اور اور اسے ہاتھ میں پکڑی تسبیح سے باندھ دیا ۔۔۔
سب لوگ ایک بار پھر ڈراٸنگ روم میں بیٹھے تھے۔۔۔اس بار حناوے کے بابا انکل ضیا بھی موجود تھے جو ابھی ابھی مناہل کی حالت کے متعلق پوچھنے آۓ تھے ۔۔۔۔
بیٹا اثرات کی ایک حد ہوتی ہے جسے ہم اپنے علم سے جانچتے ہیں لیکن افسوس کے مناہل پر ہوۓ اثرات کےبارے میں کچھ نہیں جان سکا سواۓ اس کے کہ۔۔۔۔۔۔۔
اتنا کہہ کر وہ کچھ پل رکے اور پھر گویا ہوۓ ۔۔۔اور اک گہری سانس لے کر پھر سے بولے ۔۔
کہ بچی سخت عذاب جھیل رہی ہے اور بہت مصیبت میں ہے ۔۔اور ۔۔ اور ۔۔ یہ بھی کہ اگر جلد کوٸی سدباب نہ کیا گیا تو مناہل مر جاۓ گی اور دفنانے کے لیے آپ کو اس وجود تک نہیں ملے گا ۔۔۔۔۔۔
قیس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گٸے جسے وہ کب سے روکے بیٹھا تھا ۔۔
سس سر مجھے بتاۓ مم میں کیا کروں ۔۔مجھے صلاح دے مجھ سے میری جان لے لے لیکن میری بہن کو بچا لے پلیز ۔۔۔ پلیز سر خدا کا واسطہ ۔۔قیس ہاتھ جوڑے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا ۔۔
اچانک عجیب سی غرانے کی آواز سناٸی دی ۔۔۔آواز مناہل کے کمرے سے آ رہی تھی جو دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن دروازہ کھل نہیں رہا تھا ۔۔۔
عجیب سی غراہٹ کیساتھ اب کوٸی بول بھی رہا تھا ۔۔۔
آواز نا تو کسی مرد کی معلوم ہوتی تھی اور ناں ہی عورت کی ۔۔بلکہ انتہاٸی عجیب آواز میں کوٸی زور زور سے بول رہا تھا ۔۔
اوۓ منحوسوں ۔۔۔دروازہ کھولو ۔۔۔اوۓ ۔۔۔۔آواز سرگوشی کی مانند تھی ۔۔جیسے کوٸی تیز تیز سانس لیتے ہوۓ بول رہا ہو۔۔۔
قیس بیٹا ۔۔۔اس کیلیے خون کا انتظام کرو ورنہ یہ دروازہ توڑ دے گی اور اسے روکنا ہم سب کیلیے ناممکن ہوجاۓ گا۔۔
قیس نے حیرت سے حسن صاحب کی طرف دیکھا۔۔۔
مم مناہل کے لیے خخ ۔۔خون ۔۔۔قیس نے ہکلاتے ہوۓ کہا ۔
حسن صاحب نے افسردگی سے اسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔۔
اسپتال کے بلڈ بینک سے ایک بوتل خون کی مل جاۓ گی ۔۔میں ارینج کرتا ہوں ۔۔سر اسفند نے کہا اور ینگ ڈاکٹر علی کو فون کر کے فورا خون کی بوتل درج ذیل پتہ پر پہنچانے کا کہا۔۔۔۔
ابھی وہ سب علی کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ کھٹ سے دروازہ کھلنے کی اور تسبیح کے دانوں کی ٹوٹ کر گرنے کی آواز سناٸی دی۔۔۔۔۔
*******************************
ابھی کچھ وقت باقی ہے ۔۔ زندگی کی اُمنگ باقی ہے ۔۔
*******************************