اس کے کانوں میں میڈم عالیہ کی بس اک آواز گونج رہی تھی ۔۔۔
"قیس بیٹا وہ مناہل اور حناوے تو کب کی گھر کی طرف روانہ ہو چکی ہیں ۔۔میں نے انہیں روکا بھی لیکن وہ نہیں روکی ۔۔ ۔۔کیا وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچی ؟۔۔۔"
یا میرے ﷲ۔۔۔۔میری بہن کو اور اُسے اپنے حفظ و آمان میں رکھنا ۔۔ بے اختیار قیس کے دل سے دعا نکلی۔۔
اس نے موباٸل فون نکالا اور جلدی سے اپنے بہترین دوست عمر کا نمبر ڈاٸل کرنے لگا۔۔
ہاں عمر میں قیس بات کر رہا ہوں ۔۔۔ہاں ہاں سب ٹھیک ہے میں تمہاری طرف آرہا ہوں ۔۔تم باہر آ جاٶ۔۔۔
اس نے جلدی سے کال کاٹ کر موباٸل جیب میں رکھا اور باٸیک دوڑاتا ہوا عمر کے گھر کی طرف چل دیا۔۔
جلد ہی وہ عمر کو ساری صورتحال سے آگاہ کر رہا تھا۔۔
قیس نے عمر کی ہدایت پر مناہل اور حناوے کا نمبر پھر سے ڈاٸل کیا لیکن جواب وہی دونوں کے موباٸل فون آف جا رہے تھے۔
اب میڈم عالیہ کے گھر جانے کے سوا کوٸی چارہ نہیں۔۔ قیس نے پریشانی سے کہا
نہیں قیس ۔۔رات کے اس پہر ہم اس طرف نہیں جا سکتے ۔کیا تم ہندٶٶں کے اس منحوس کالی کے مندر کو بھول گٸے۔۔ عمر نے کہا۔۔۔
اس کے سوا کوٸی چارہ بھی تو نہیں ہے ناں عمر۔۔۔۔اگر تم نہیں چلو گے تو مجبوراً مجھے تنہا جانا پڑے گا ۔۔قیس نے بے چارگی سے کہا۔۔
نہیں نہیں ۔۔۔قیس تنہا نہیں ۔۔میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں لیکن ہم جانے سے پہلے پہاڑی درگاہ سے حفاظت کے دھاگے بندھوا لے گے ۔۔۔۔۔عمر نے کہا
کیا رات کے اس پہر وہ فقیر دھاگے لے کر موجود بھی ہو گا یا نہیں ؟ ۔۔قیس نے پوچھا
چلو چل کر دیکھتے ہیں ۔۔۔عمر نے کہا اور اس کے پیچھے ہی باٸیک پر بیٹھ گیا اب ان کا رخ قریبی پہاڑی کے اوپر بنی "پہاڑی درگاہ" کی طرف تھا ۔۔۔
ملگجے زرد لباس میں ، مٹی سے اَٹے بالوں اور چہرے کو دیوار کیساتھ ٹیک لگاۓ ۔۔۔ہاتھوں میں تسبیح کو چوڑی کےانداز میں گول گول پہنے وہ فقیر اونگھ رہا تھا ۔۔۔
اور قریب ہی ایک لکڑی کا ڈنڈا پڑا تھا جس میں کالے دھاگے بندھے تھے ۔۔۔
قیس نے آگے بڑھ کر فقیر کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ اچھلتا ہوا کھڑا ہو گٕا ۔۔۔
ہاں اوۓ لڑکے ۔۔۔رات کے اس پہر تجھے مجھ سےکیا کام ۔۔۔وہ فقیر بے رخی سے بولا۔۔
ہمیں اس لکڑی پر بندھے دھاگوں میں سے دو حفاظت کے دھاگے چاہیے۔۔۔۔قیس نے کہا
ہاں ٹھیک ہے مل جاۓ گے ۔۔۔لیکن ۔۔۔فقیر اتنا کہہ کر چپ ہو گیا ۔۔
کیا لیکن ۔۔۔۔۔۔قیس نے بے چینی سے پوچھا
اس کی قیمت چکانی ہو گی ۔۔۔فقیر نے قیس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔
قق قیمت ۔۔۔کیسی قیمت ۔۔۔۔قیس نے پوچھا
ارے یار ۔۔۔ سو دو سو روپے اس کے ہاتھ میں تھماٶ اور کونسی قیمت بھلا ۔۔۔عمر نے کہا جو قریب ہی باٸیک کے پاس ان سے زرا فاصلے پر کھڑا تھا۔۔۔
عمرکی بات پر فقیر زور زور سے قہقہے لگانے لگا ۔۔جبکہ قیس اور عمر اسے نا سمجھی سے دیکھنے لگے ۔۔
فقیر چپ ہوا اور آگے بڑھا۔۔۔
میں یہ دھاگے دے دیتا ہوں لیکن اگر تم دونوں اس کی قیمت چکانے کا وعدہ کرو تو ۔۔۔۔اس فقیر نے کہا ۔۔
آپ روز یہ دھاگے خود لوگوں کے پاس جا جا کر انہیں مفت دے رہے ہوتے ہیں لیکن ہم سے ان دھاگوں کی اک انجان قیمت طے کر رہے ہیں یہ تو نا انصافی ہوٸی ناں ۔۔۔۔عمر نے کہا
بجا فرمایا بیٹا ۔۔میں لوگوں کو مفت دیتا ہوں کیوں کہ میں خود چل کر ان کے پاس جاتا ہوں جبکہ ان دھاگوں کے لیے تم لوگ چل کر آۓ اور اس کی ضرورت ہے تم لوگوں کو ۔۔یعنی بات طلب سے آگے ضرورت تک پہنچ گٸی اور ایسی چیزیں جنہیں ہم اپنے اوپر ضرورت کا ٹیگ لگا کر خود پر لاگو کر لیتے ہیں ۔۔میرے بیٹے ایسی چیزیں قیمت مانگتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کیا سمجھے ۔۔۔اس فقیر نے درگاہ کے اندرونی کمرے کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
جج جی ۔۔۔تو محترم اس کی قیمت جلد طے کرے کیونکہ ہم زرا جلدی میں ہیں ہمیں کچھ زندگیاں بچانی ہیں ۔۔۔قیس نے پریشانی سے کہا ۔۔۔
جواباً فقیر نے قہقہہ لگایا اور بولا ۔۔۔
بیٹا جن کی زندگی سنورنی تھی سنور چکی اور جسکی بگڑنی تھی بگڑ چکی ۔۔۔تمہارے بس کا کام نہیں رہا اب ۔۔۔
کک کیا مطلب ۔۔۔قیس نے حیرت سے فقیر کو دیکھا ۔۔۔
کچھ نہیں ۔۔۔اس کی قیمت یہ ہے کہ تم لوگ اگلے ہفتے کی جمعرات کو صبح 5 بجے میرے پاس اس درگاہ میں آٶ گے پھر میں تم دونوں کو بتاٶ گا کہ کیا کرنا ہے ۔۔۔۔فقیر نے کہا اور دو دھاگے لکڑٕی سے اتار کر قیس کی طرف بڑھا دٸیے ۔۔۔
قیس اور عمر نے جلدی سے دھاگے باندھے اور جانے لگے ۔۔
قیمت چکانا ضروری ہوتا ہے بھولنا مت ۔۔۔۔فقیر نے پیچھے سے آواز لگاٸی ۔۔
قیس اور عمر نے باٸیک آگے بڑھاتے ہوۓ گردن موڑ کر فقیر کو دیکھا جو دیوار سے ٹیک لگاۓ پھر سے اونگنے لگا ۔۔۔
***************************
گھڑی (3:20) تین بج کر بیس منٹ کا وقت بتا رہی تھی جب وہ کالی کے مندر کے بالکل سامنے پہنچ کر رک گٸے۔۔۔
ان کے رکنے کی وجہ حناوے کی گاڑی تھی جو کالی کےمندر کے بالکل سامنے سڑک کے بیچ و بیچ کھڑی تھی ۔۔۔
قیس اور عمر حیرت و پریشانی سے کبھی گاڑی کو دیکھتے اور کبھی اس مندر کو جہاں ہر طرف اک پراسرار خاموشی چھاٸی تھی۔۔
مم مناہل ۔۔حناوے ۔۔۔کس قدر دکھ و کرب سے قیس نے انہیں پکارا۔۔۔
عمر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔
قیس ان شاء اللہ مناہل اور حناوے کو ہم ڈھونڈ لے گے اور انہیں کچھ بھی نہیں ہوا ہوگا۔۔ عمر نے اسے دلاسہ دیا ۔۔
اب وہ باٸیک اک طرف کھڑی کر کے ادھر ادھر نظر دوڑا رہے تھے ۔۔۔
مجھے مندر کے اندر جا کر دیکھنا ہو گا ۔۔۔قیس اک دم آگے بڑھتے ہوۓ مندر کی طرف چل دیا ۔۔
دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا ۔۔۔وہ شیطانی آماجگاہ ہے ہم اندر نہیں جاۓ گے ۔۔۔عمر نے بازو سے پکڑ کر اسے روکا ۔۔۔
نہیں میں مناہل کو لیے بنا اک قد م یہاں سے نہیں ہلوں گا ۔۔اور مناہل کی تلاش کے لیے مجھے مندر کے اندر بھی دیکھنا ہوگا ۔۔۔قیس نے کہا اور اک بار پھر مندر کی طرف چل دیا ۔۔
قیس بات کو سمجھو ہم یہاں انہیں ڈھونڈنے آۓ ہیں ناں کہ خود قربان ہونے ۔۔۔۔عمر نے اس کے سامنے آ کر اِسے روکتے ہوۓ کہا
اچانک اک عجیب سی نسوانی آواز ان کےکانوں سے ٹکراٸی ۔۔
سفید لباس میں ملبوس رینگتی ہوٸی اک لڑکی ان سے چند فاصلے پر بنے چبوترے پر بیٹھی تھی۔۔۔
عمر اور قیس حیرت سے لب کھولے اس بھیانک عورت کو دیکھ رہے تھے جو پورا منہ کھولے ہنس رہی تھی لیکن ہنسنے کی آواز نہیں آ رہی تھی ۔۔
مناہل ل ل ل ل ۔۔۔۔۔حناوےےےےے ۔۔۔۔! قیس اک دم دھاڑا.
اب وہ بھیانک عورت ہنسنا بند کر کے انہیں عجیب نظروں سےدیکھتے ہوۓ مندر کے اندر جانے لگی ۔۔۔۔
مناہل کہاں ہیں ۔۔۔ اے گھٹیا عورت بتا میری بہن کہاں ہے ۔۔قیس غصےسے دھاڑتا اس کے پیچھے جانے لگا ۔۔
قق قیس وہ انسان نہیں ہے ۔۔۔عمر بمشکل ہی اسے روک پارہا تھا ۔۔۔ جبکہ قیس اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتا ہوا اس کے پیچھے جانا چاہ رہا تھا ۔۔۔
اچانک اک زوردار آواز کیساتھ اک اُڑتا ہوا وجود مندر کے ٹوٹے پھوٹے دروازے سے باہر آیا اور نیچےفرش پر گرنےکے سےانداز سے گر پڑا ۔۔۔۔
قیس نے آگے بڑھ کر اس وجود کو دیکھا ۔۔۔
بے اختیار وہ گرنے کے سے انداز سے اس وجود کے پاس بیٹھ گیا وہ مناہل تھی ۔۔۔جس کے چہرے کے گالوں پر گوشت کے ریشے چپکے ہوۓ تھے ایسے جیسے کسی نے اس کے گالوں کو نوچا ہو ۔۔۔
قیس قیس ۔۔یہ زندہ ہے مناہل زندہ ہے ۔۔چلو اسے اٹھاٶ ۔۔۔چلو جلدی اس منحوس جگہ سے دور چلتے ہے ۔۔۔عمر جو اس وجود کا بازو تھامے چیک کر رہا تھا اب چلاتے ہوۓ بولا ۔۔۔
قیس کو جیسے اک دم سے ہوش آیا ہو ۔۔اس نے آگے بڑھ کر مناہل کو اٹھایا اور چلنے لگا جبکہ عمر باٸیک پکڑے پیدل ہی اس کے ساتھ چلنے لگا ۔۔۔تھوڑی دور پیدل چلنے کے بعد عمر اچانک سے رکا ۔۔۔
قیس وہاں جھاڑیوں میں کچھ ہے ۔۔۔اس نے باٸیک کا رخ جھاڑیوں کی طرف موڑا تا کہ باٸیک کی ہیڈ لاٸٹ میں دیکھ سکے لیکن اک لڑکی کو بے ہوش دیکھ کر وہ اچھلا ۔۔۔۔
یہ کہیں حح حناوے تو نہیں ۔۔۔عمر نے پوچھا ۔۔
قیس نے بھی اس سمت نظر دوڑاٸی ۔۔
ہاں یہ حنا حناوے ہی ہے ۔۔۔۔قیس نے بمشکل کہا
عمر نے اسے جھاڑیوں سے اٹھا کر سڑک پہ لٹا دیا اور کال ملانے لگا ۔۔۔
اسفند بھاٸی پلیز کیا آپ ایمبولینس لیے کالی کے مندر کے قریب آ سکتے ۔۔۔۔عمر نے اپنے بڑے بھاٸی ڈاکٹر اسفند کو کال کرتے ہوۓ کہا
جی بھاٸی ۔۔۔ وہ سب میں آپ کو بعد میں بتاٶں گا آپ بس جلدی پہنچے اور ہاں آتے ہوۓ راستے میں جو پہاڑی درگاہ ہے وہاں سے حفاظت کا دھاگہ ضرور بندھوا کر آۓ ۔۔۔
میں نے بھاٸی کو کال کی ہے وہ آدھے گھنٹے میں یہاں ہو گے ۔۔۔
عمر نے کہا اور سڑک پر ہی قیس کے پاس بیٹھ گیا اب وہ دونوں قرآنی آیات کی تلاوت کر رہے تھے۔۔۔۔۔
*****************************
وہ نہیں جانتے تھے کہ اک قیامت گزر گٸی جبکہ اک اور قیامت ان کی منتظر ہے ۔۔۔
ابھی کچھ امتحاں باقی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*****************************