مم مناہل یہ کک کیسے ممکن ہے ؟ حناوے نے خوف سے لرزتے ہوۓ مناہل کی سمت دیکھا
جو پہلے سے ہی ڈری سہمی سیٹ پر بیٹھی تھی۔
حناوے میں نے تمہیں کہا تھا کہ ہم کالی کے مندر کے سامنے ہے لیکن تم ضد کر رہی تھی کہ ہم کیکس اینڈ بیکس بیکر کے سامنے ہے ۔۔۔۔دکھاٶ مجھے کہاں ہے وہ بیکر ۔۔۔۔مناہل نے خوف سے کانپتے ہوۓ غصے سے کہا ۔۔
مم مناہل Calm down ...حناوے نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے دھیرے سے کہا اور کار کا دروازہ بند کر دیا اور خود بھی گھوم کر آکر ڈراٸیونگ سیٹ سنبھال لی ۔۔
اب وہ گاڑی سٹارٹ کر رہی تھی ۔۔گاڑی چلنے لگی ۔۔۔لیکن خوف سے دونوں نے اک دوسرے کو دیکھا کیونکہ گاڑی تو چل رہی تھی لیکن باہر کا منظر نہیں بدل رہا تھا۔۔۔
خوف ان دونوں کے چہروں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا۔۔
تنگ آکر دونوں نے گاڑی کو بند کیا اور باہر نکل کر سڑک کے ایک طرف کھڑی ہو گٸی
وہ دونوں مارے گھبراہٹ کے آس پاس نظر دوڑا رہی تھی شاید کوٸی اور گاڑی نظر آۓ لیکن بے سود۔۔
چھن چھن پاٸل کی آواز کالی کے مندر سے سناٸی دی۔۔ دونوں نے خوف سے اچھل کر مندر کی طرف دیکھا۔۔
چاند کی تیز روشنی میں اک عورت کا سایہ مندر کے داخلی دروازے پر نمودار ہوا۔۔
اور اس کے ساتھ ہی غراہٹ کی آوازیں آنا شروع ہو گٸی۔۔
کک کک کون ہے وہاں ؟ حناوے نے ہمت کر کے پوچھا
۔۔۔۔ہا ہا ہا ۔۔۔۔۔اک نسوانی قہقہہ ابھرا ۔۔۔۔
چاند کی تیز روشنی مندر کے داخلی دروازے کے آگے بنے چبوترے پر صاف پڑ رہی تھی۔۔اس چبوترے سے پچھلی طرف راستہ مندر کی طرف جاتا تھا اچانک وہاں اک رینگتا ہوا وجود نمودار ہوا ۔۔۔
وہ جو کوٸی بھی تھا سفید کپڑوں میں ملبوس تھا اور اس وجود کے کھلے لمبے بال پیچھے کی سمت اور اس کے چہرے پر بکھرے ہوۓ تھے جس کی وجہ سے اس کا چہرہ دکھاٸی نہیں دے رہا تھا ۔۔ وہ عورت کا وجود رینگتا رینگتا اب چبوترے پر پہنچ کر رک گیا ۔۔۔
مناہل اور حناوے سانس روکے اسے ہی دیکھ رہے تھے ۔۔
دھیرے دھیرے بال پیچھے ہوۓ اور اس نے اپنا جھکا ہوا چہرا اٹھایا ۔۔۔۔
آنکھیں شدید سفید رنگ کی ۔۔گالوں سے گوشت غاٸب ۔۔سیاہ ہونٹ ۔۔۔وہ عجیب انداز سے چینختی ہوٸی مناہل اور حناوے کی طرف رینگتے ہوۓ بڑھنے لگی ۔۔
مناہل اور حناوے نے خوف سے اک دوسرے کو دیکھا اور سڑک کی طرف دوڑ لگا دی۔۔ وہ بنا سوچے سمجھے بس چلاتی ہوٸی دوڑی جا رہی تھی جبکہ سفید وجود والی عورت چینختی ہوٸی انہیں پاس بلا رہی تھی ۔۔۔۔
مناہل کی جوتےکا سٹیپ اچانک سے کھلنے کےسبب وہ منہ کے بل سڑک پر ہی ڈھے گٸی۔۔
کسی نے مناہل کو نیچے سڑک سے اٹھانے کےلیے اس کا ہاتھ تھاما ۔۔۔
مناہل جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑے اٹھی اور سڑک کے سامنے کی طرف دیکھنے لگی جہاں حناوے دونوں ہاتھ منہ پر رکھے روتے ہوۓ مناہل کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
مناہل کا ہاتھ ابھی تک کسی نے تھاما ہوا تھا حناوے کو سامنے کھڑا دیکھ کر اسے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا ۔۔
اس نے آہستہ سے کانپتے ہوۓ گردن موڑ کر دیکھا ۔۔
سفید کپڑوں میں ملبوس سیاہ ہونٹوں والی عورت نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور وہ مناہل کو شیطانی ہنسی ہنستے ہوۓ دیکھ رہی اور ساتھ ہی ساتھ عجیب انداز سے گردن ادھر ادھر گھما رہی تھی ۔۔
ہا ہاہا ۔۔دوڑو دوڑو ۔۔۔جتنا دوڑنا ہے تم منحوسوں کو ۔۔۔۔سفید کپڑوں والی عورت چلاٸی
اسکی آواز ایسے تھی جیسے لاٶڈ سپیکر سے کسی کے مدھم سی بولنے کی آواز آرہی ہو۔۔
مم میرا ہاتھ چھوڑ دو ۔۔پپ پلیز ۔۔کک کون ہو تم ۔۔۔
مناہل نے اکھڑتے ہوۓ الفاظ سے بے بسی سے اسے دیکھا ۔۔
جواباً وہ بے ڈھنگا سا قہقہہ لگانے لگی اس کے قہہقہے کی آواز شدید لرزا دینے والی تھی ۔۔۔اب وہ مناہل کو کسی جانور کی مانند کھینچتی ہوٸی مندر کی سمت لے جا رہی تھی۔۔اور کن اکھیوں سے شیطانی ہنسی ہنستی حناوے کو دیکھ رہی تھی ۔۔اس عورت کا دھڑ تو تھا لیکن پاٶں نہیں تھے ۔۔اس لیے رینگتی ہوٸی جا رہی تھی ۔۔جہاں جہاں سے وہ گزر رہی تھی پیچھے خون کی لکیر چھوڑتی جا رہی تھی ۔۔
جبکہ حناوے کانپتی ہوٸی دونوں ہاتھوں سے منہ کو بند کیے روتے ہوۓ اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
اس کے پاس ہمت نہیں تھی کہ وہ مناہل کے پیچھے جاتی ۔۔۔ابھی وہ ششدرہ کھڑی مناہل کو دور جاتا دیکھ رہی تھی جب اس کی نظر مندر کی اوپری عمارت پر پڑی۔۔
اس نے چونک کر دیکھا ۔۔۔
اک عورت کا ہیولا دولہن کے روپ میں کھڑا تھا ۔۔
حناوے اسے ابھی دیکھ ہی رہی تھی کہ اس دولہن نما عورت نے چینختے ہوۓ مندر کی عمارت سے چھلانگ لگاٸی اور نیچے آگری ۔۔۔۔
نیچے گرنے سے اس کی گردن اور منہ پر گہرا زخم آیا اور وہاں سے خون ابلنے لگا ۔۔۔
حناوے اس کی گردن سے نکلتے خون کو دیکھتی ہوٸی پیچھے ہٹنے لگی ۔۔۔جبکہ وہ دولہن نما عورت دھیرے دھیرے اٹھنے لگی ۔۔۔
اس نے غراتے ہوۓ حناوے کی طرف دیکھا ۔۔
حناوے نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہی چینخ ماری ۔۔۔
اس دولہن نما عورت نے سر سے پاٶں تک زیورات پہن رکھے تھے اور سرخ جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا لیکن اس کی آنکھیں نہیں تھی بلکہ آنکھوں کی جگہ خلا تھی ۔۔اور اندر سے خون جما ہوا دکھاٸی دے رہا تھا ۔۔۔
دد دیکھو ۔۔۔دیکھو ۔۔۔مم مم میرے قق قریب مم مت مت آنا ۔۔۔۔
حناوے نے پیچھے ہٹتے خوف سے ہکلاتے ہوۓ کہا ۔۔
وہ دولہن نما عورت اب نیچے کو جھک کر ہنستی چلی جا رہٕی تھی ۔۔۔۔۔
حناوے نے بھاگنا چاہا اور سڑک کی طرف دوڑ لگا دی لیکن جلد ہی وہ رک گٸی ۔۔۔کیونکہ سامنے سے انتہاٸی کرہیہ چہرے والی بوڑھی اماں ہاتھ میں لاٹھی لیے چلی آرہی تھی ۔۔۔
اسے اپنے بالکل پیچھے غراہٹ کی اور تیز تیز سانس کی آواز سناٸی دی ۔۔۔وہ دولہن نما عورت اس کے بالکل پیچھے کھڑی تھی ۔۔۔حناوے نے گردن موڑے اس خونخوار دولہن کو اتنے قریب کھڑے دیکھا اور دو تین قدم دور بھاگتے ہی زمین پر ڈھ گٸی ۔۔۔
آخری منظر جو اس نے دیکھا وہ دولہن نما عورت جانوروں کی طرح اس کی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔۔
*************
قیس بیٹا مجھے بہت پریشانی ہو رہی ہے ۔۔مناہل ابھی تک گھر نہیں پہنچی اور نہ ہی اس کا کچھ پتہ ہے رات کے بارہ بج گٸے ہے اور اس نے اک کال کر کے ماں کو اطلاع دینا بھی گوارا نہیں سمجھا ۔۔۔۔ صفیہ بیگم نے قیس کو دیکھتے بے چینی سے کہا جو ابھی ابھی جاب سے گھر لوٹا تھا ۔۔
امی کیا ابھی تک مناہل گھر واپس نہیں آٸی۔ لیکن وہ تو کہہ رہی تھی کہ وہ دس بجے تک واپس آجاۓ گی ۔۔۔
قیس بھی پریشان ہوا ۔۔۔
میں ہزاروں چکر لگا چکی ساتھ والے گھر کے ۔۔۔لیکن حناوے نہیں آٸی ابھی تک اور مناہل اس کے ساتھ ہی گٸی ہے۔۔
صفیہ بیگم بہت پریشان تھی۔۔
میری پیاری امی جان پریشان نہیں ہو ۔۔حناوے کی آنٹی نے زیادہ رات ہونے کے سبب ضرور انہیں رات اپنے پاس ہی روک لیا ہو گا۔۔
قیس نے صفیہ بیگم کو صوفے پر بٹھایا اور پیار سے بولا
لیکن بیٹا اس نکمی لڑکی کو اک فون کال کر کے اطلاع تو دینی چاہیے ناں۔۔صفیہ بیگم نے کہا ۔۔
میں فون کرتا ہوں ۔۔قیس نے کال ملاٸی ۔۔لیکن فون بند جا رہا تھا اس نے ساتھ ہی حناوے کا نمبر ڈاٸل کر دیا وہ بھی بند ۔۔۔اب وہ بھی پریشان ہو گیا تھا ۔۔
کیا ہوا کال نہیں مل رہی۔۔۔صفیہ بیگم نے اسے پریشان دیکھ کر پوچھا ۔۔
ارے نہیں میری پیاری امی ۔۔وہ ضرور باتوں میں مصروف ہو گی اس لیے کال نہیں اٹھا رہی آخر تو حناوے چڑیل اس کیساتھ جو گٸی ہے ۔۔قیس نے کہا ۔۔
اب اس کے ہاتھ تیزی سے مناہل کی باس میڈم عالیہ کا نمبر ڈاٸل کر رہے تھے ۔۔
پہلی ہی کال پر فون اٹھا لیا گیا ۔۔
ہیلو ۔۔۔مسز سرمد ۔۔۔ Aliya 's company ..
ہیلو ۔۔میم میں مناہل عظیم کا بھاٸی قیس بات کر رہا ہوں ۔۔وہ دراصل مناہل اور حناوے ابھی تک گھر نہیں آٸی سو پلیز ۔۔۔۔۔۔
میڈم عالیہ کے الفاظ سن کر اس کی بات منہ میں ہی رہ گٸی ۔۔۔
قیس بیٹا وہ مناہل اور حناوے تو کب کی گھر کی طرف روانہ ہو چکی ہیں ۔۔میں نے انہیں روکا بھی لیکن وہ نہیں روکی ۔۔ ۔۔کیا وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچی ؟۔
قیس نے ان کی بات کا جواب دیے بغیر کال کاٹ دی۔۔
اس نے صفیہ بیگم کی طرف دیکھا جو سوالیہ نظروں سے قیس کو ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔
وو امی ۔۔دراصل رات زیادہ ہونے کی وجہ سے میڈم عالیہ نے انہیں اپنے پاس ہی روک لیا ۔۔۔
شکر خدایا ۔۔چلو فریش ہو کر آجاٶ ۔۔میں تمہارے لیے کھانا نکال رہی ہوں ۔۔۔
صفیہ بیگم نے اٹھتے ہوۓ کہا ۔۔
آ ۔۔امی ۔۔دراصل مجھے بہت اہم کام یاد آگیا ہے ۔۔میں ابھی آتا ہوں ۔۔۔آپ دروازہ لاک کرلے ۔۔قیس نے تیزی سے کہا اور باہر کی طرف نکل گیا جبکہ صفیہ بیگم اسے آوازیں دیتی رہ گٸی ۔۔۔۔
گھر سے نکلتے ہی اسے ساتھ والے دروازےکی چوکھٹ پر انکل ضیا مل گٸے ۔۔
ارے قیس بیٹا سنو ۔۔اچھا ہوا تم مل گٸے ۔۔ورنہ میں کب سے یہاں کھڑا یہی سوچ رہا تھا کہ رات کے اس پہر آپ کے دروازے پر دستک دوں یا ناں ۔۔۔وہ دراصل حناوے کی کال آٸی تھی وہ اور مناہل آج رات میڈم عالیہ کے گھر ہی رکے گے۔ اس لیے پریشان نہیں ہونا ۔۔۔انکل ضیا نے کہا ۔۔
حح حناوے کی کک کال ۔۔۔۔قیس نے حیرت سے انکل ضیا کو دیکھا ۔۔۔
جی بیٹا ۔۔۔ضیا صاحب نے کہا اور اپنے گھر کی طرف چل دٸیے ۔۔۔۔جبکہ قیس کا دماغ ساٸیں ساٸیں کرنے لگا ۔۔۔
اس کے کانوں میں بس اک آواز گونج رہی تھی ۔۔۔
قیس بیٹا وہ مناہل اور حناوے تو کب کی گھر کی طرف روانہ ہو چکی ہیں ۔۔میں نے انہیں روکا بھی لیکن وہ نہیں روکی ۔۔ ۔۔کیا وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچی ؟۔۔۔