رات کے دس بج رہے تھے ۔۔ خوبصورت چھوٹی سونیہ کی برتھ ڈے پارٹی اپنے عروج پر تھی۔۔۔
ہر کوٸی پارٹی کو انجواۓ کرتا ہوا خوش گپیوں میں مصروف تھا سواۓ مناہل کے جو بار بار کلاٸی میں بندھی گھڑی دیکھ رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اپنی دوست حناوے سے گھر چلنے کا کہہ رہی تھی ۔۔۔
یار مناہل ، ابھی تو صحٸیح پارٹی شروع ہوٸی ہے اور تم ہو کہ گھر جانے کی رٹ لگا رہی۔۔۔ حناوے نے منہ بسورتے ہوۓ کہا
دیکھو حناوے تم جانتی ہو ہمارا گھر دور ہےاور راستہ بھی سنسان ہے لیکن میری پریشانی کی اصل وجہ ہندوٶں کا وہ کالی کا مندر ہے جو راستے میں پڑتا ہے ۔۔۔اور یو نو میں نے سنا ہے رات کے بارہ بجے کے بعد کوٸی وہاں سے گزرے تو زندہ نہیں بچ پاتا۔۔۔ مناہل نے تھوک نگلتے خوف سے کہا ۔۔
اوفو ۔۔مناہل بس بھی کرو کالٕی کا مندر whatever ..لیکن میں کم از کم کیک کٹنے سے پہلے نہیں جانے والی ۔۔حناوے نے کہا اور آگے کو چل دی ۔۔
حناوے اور مناہل دونوں دوست تھی اور ایک پراٸیوٹ فرم میں جاب کرتی تھی اور آج ان کی باس (جو حناوے کی آنٹی بھی تھی) (میڈم عالیہ) کی اکلوتی بیٹی سونیا کی برتھ ڈے تھی جس میں سارا سٹاف invited تھا۔
میڈم عالیہ حناوے کی آنٹی اور رشتہ داروں میں سے تھی۔
مناہل بھی حناوے کی گاڑی میں اس کیساتھ آٸی تھی لیکن وہ پریشان تھی ۔۔اس کا دل انجانے خوف کے تحت زوروں سے دھڑک رہا تھا جیسے کچھ برا ہونے والا ہو۔۔
خدا خدا کر کے کیک کٹنگ ceremony ختم ہوٸی۔۔تو حناوے اور مناہل نے میڈم عالیہ کو خدا حافظ کہا اور گھر کی راہ لی ۔۔۔
میڈم عالیہ نے انہیں رات رکنے کا کہا ۔۔مناہل ان کی بات سے متفق تھی لیکن حناوے نے انکار کر دیا۔۔
مناہل نے گھڑی دیکھی ۔۔وقت 11:40 منٹ ہوۓ تھے ۔۔وہ مزید پریشان ہوٸی۔۔
ان کی گاڑی تیز رفتار سے چل رہی تھی۔۔حناوے اور مناہل پارٹی کی باتوں میں مصروف تھی ۔۔۔دھیرے دھیرے دور سے ہی کالی کے مندر کی عمارت کے آثار نظر آنا شروع ہو گٸے تھے ۔۔ مناہل نے ڈرتے ڈرتے گھڑی کی طرف دیکھا
ٹاٸم 12:09۔۔۔۔
اس نے خوف سے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
مناہل یار تم ڈر رہی ہو ۔۔۔اچھا سنو آنکھیں بند کرو۔۔ میں یہاں سے گاڑی فل سپیڈ سے ڈراٸیو کروں گی اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور راستہ بھی ختم ہو جاۓ گا۔۔۔
مناہل نے خوف سے آنکھیں بند کر لی ۔۔
میڈم عالیہ نے کہا بھی تھا کہ رات رک جاٶ لیکن تم نے بات نہیں مانی حناوے ۔۔۔مناہل نے آنکھیں بند کیے حناوے سے کہا ۔۔
لو آگیا کالی ماتا کا مندر ۔۔۔اور ہم کتنے آرام سے یہاں سے گزر رہے ۔۔حناوے نے کہا
مناہل نے آنکھیں نہیں کھولی ۔۔۔گاڑی چلتی رہی ۔۔۔
لو میڈم ۔۔۔کالی کا مندر اور وہ سڑک گزر گٸی اب آنکھیں شریف کھول لے ۔۔۔جناوے نے ہنستے ہوۓ کہا
قریباً دس منٹ کے بعد حناوے کے کہنے پر اس نے آنکھیں کھولی۔۔اور جیسے ہی اس نے ونڈو سے باہر دیکھا اس کا سانس اوپر کا اوپر رہ گیا۔۔
حناوے یہ کیا مذاق ہے ۔۔تم نے کہا تھا کالی کامندر گزر گیا ہے ۔۔تو پھر وہ سامنے عمارت کیا ہے ۔۔۔مناہل نے سہمے ہوۓ لہجے سے حناوے سے کہا ۔۔۔
مناہل تم پاگل تو نہیں ہو گٸی ۔۔۔یہ دیکھو یہ چچا علاٶ دین کی دوکان والی سڑک ہے ۔۔کالی کا مندر تو بہت پیچھے رہ گیا ۔۔حناوے نے غصے سے کہا
حناوے تو پھر جو میرے سامنے کالی کے مندر جیسی عمارت ہے یہ کیوں ہے ؟ ۔۔۔ مناہل نے بھی غصے سے کہا ۔۔
کنفرم (Confirm) پاگل ۔۔۔۔حناوے نے غصے سے کہتے جھٹکے سے گاڑی روکی ۔۔۔
چلو اترو گاڑی سے میں تمہیں دکھاتی ہوں ۔۔۔روڈ پر بنی سب دوکانیں نظر آرہی ۔۔دیکھو وہ کیک اینڈ بیکس بیکرز بھی اوپن ہے حناوے نے گاڑی میں بیٹھے ہی ونڈو سے باہر اشارہ کرتے ہوۓ کہا ۔۔
نن نہیں حناوے سامنے کوٸی دوکان یا بیکر نہیں بلکہ کالی کا مندر ہے ۔۔۔مناہل نے خوف سے کانپتے ہوۓ کہا
اوہ۔۔۔گاڈ ۔۔میں پاگل ہوجاٶں گی ۔۔حناوے نے چینخ کر کہا اور کار کا دروازہ کھول دیا اور باہر نکل آٸی اور غصے سے گھوم کر آکر مناہل والی ساٸیڈ کا بھی دروازہ کھول دیا ۔۔۔
چلو باہر نکلو اور دیکھو ۔۔۔۔حناوے نے مناہل والی ساٸیڈ کا دروازہ کھولتے ہوۓ کہا۔۔
لیکن اس نے محسوس کیا جیسے یک دم سے منظر بدل گیا ہو وہ اچھل کر پیچھے مڑی ۔۔۔۔
کالی کا مندر اپنی ہیبت اور لرزا دینے والی خاموشی کیساتھ مناہل اور حناوے کی نظروں کے بالکل سامنے چند فٹ کے فاصلے پر کھڑا تھا ۔۔۔
حناوے کو اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہوٸی۔۔۔۔