سری رام جی نے کچھ دیر کے بعد کہا۔ ’’جو ہونا تھا، وہ ہوچکا تھا۔ ہماری بربادی ہوگئی تھی، لوگ انگلیاں اٹھاتے ہیں مگر کسی کی زبان کون روکے۔ ہمارے ایک ماما جی رہتے ہیں گونا پور میں، شادی میں بھی آئے تھے، سب کچھ دیکھا اپنی آنکھوں سے، کوئی دو مہینے پہلے وہ ہمارے پاس آئے اور بولے کہ انہوں نے کالے جادو کے ایک ماہر سے بات کی ہے۔ اگر تم کہو تو اس سے پوجا کا علاج کرایا جائے، ہم تیار ہوگئے، اس مصیبت سے چھٹکارا تو ملے، بعد میں اس کی شادی بیاہ کا معاملہ دیکھا جائے گا۔ ماما جی، گنگولی پرشاد کو لے آئے۔ چالیس سال کا ایک لمبا تڑنگا آدمی ہے۔ آیا، پوجا کو دیکھا اور پاپی بدل گیا۔‘‘
’’بدل گیا…؟‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’ہاں…!‘‘
’’وہ کیسے…؟‘‘ میں پوری طرح اس کہانی میں دلچسپی لے رہا تھا اور مجھے یہ بہت عجیب لگ رہی تھی۔
’’اس نے اس وقت تو کہا کہ وہ علاج کرے گا اور یہ علاج نہیں بلکہ گووندا سے جنگ ہوگی۔‘‘ ہم نے اس سے کہا کہ روپے پیسے کی فکر نہ کرے۔ جو مانگے گا، وہ دیں گے اور وہ ہنسنے لگا۔ پھر بولا۔ ’’روپیہ پیسہ بعد کی بات ہے، پہلے گووندا کو دیکھنا ہوگا۔ اسے بڑے پریم سے ہم نے حویلی میں ٹھہرایا۔ اس نے ماما جی سے ایک ایسی بات کہی کہ ہمارے ہوش اڑ گئے۔‘‘
’’کیا کہا…؟‘‘
’’اس نے کہا کہ پوجا کا ایک ہی علاج ہوسکتا ہے وہ یہ کہ اس کی شادی کردی جائے۔ ماما جی نے اسے بتایا کہ ایک بار یہ کوشش ہوچکی ہے اور نتیجہ یہ نکلا تھا۔ اس پر اس نے کہا کہ یہ شادی کسی ایسے سے کی جائے جو گووندا کا مقابلہ کرسکے۔ ماما جی نے اس سے پوچھا کہ ایسا کون ہوسکتا ہے تو وہ بولا کہ وہ خود…!‘‘
’’اوہ… وہ… وہ…‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں! پوجا بہت خوبصورت ہے میاں صاحب! بہت ہی سندر بچی ہے، وہ جو ایک بار دیکھتا ہے، وہ اسے دیکھتا رہ جاتا ہے۔ وہ کمبخت بھی اس کے چکر میں پڑ گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ پوجا سے اس کی شادی کردی جائے، وہ گووندا کو سنبھال لے گا۔‘‘ اس بار ڈاکٹر بھلاّ نے کہا۔
’’گووندا کے بارے میں کچھ اور معلوم ہوا…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کیا…؟‘‘ سری رام بولے۔
’’اسے گنگولی کی آمد کے بارے میں معلوم ہے؟‘‘
’’ہاں… گنگولی کی یہ بات سن کر سری رام جی نے اسے فوراً گھر سے نکال دیا مگر وہ دو مہینے سے واپس نہیں گیا بلکہ اس نے بھی کالی موری سے کچھ فاصلے پر ایک پرانے برگد کے پاس اپنا استھان جما لیا ہے۔‘‘
’’ابھی تک وہیں ہے…؟‘‘
’’ہاں…!‘‘ سری رام ٹھنڈی سانس لے کر بولے۔ بھلاّ صاحب بے اختیار مسکرا پڑے۔ پھر بولے۔
’’معافی چاہتا ہوں میاں صاحب! گستاخی ضرور ہے مگر مجھے اندازہ ہوا تھا کہ سری رام جی آپ کو دیکھ کر چونکے تھے۔ شاید انہوں نے سوچا ہو کہ آپ بھی نوجوان ہیں مگر آپ مسلمان ہیں اور خیر …چھوڑیئے میری بات… تو یہ مسئلہ ہے۔‘‘
میں ہنسنے لگا۔ پھر میں نے کہا۔ ’’آپ نے اس گفتگو میں بے جا رخنہ اندازی کی ہے بھلاّ صاحب! کچھ سوالات آئے تھے میرے ذہن میں جو میں سری رام جی سے پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’پوچھیں مہاراج!‘‘ سری رام بولے۔
’’آپ کی بیٹی کا کیا حال ہے؟‘‘
’’خاموش رہتی ہے، دیواریں تکتی رہتی ہے، کچھ نہیں بولتی اس بارے میں..!‘‘
’’دوسرا سوال …گووندا کے ماں، باپ اور دوسرے رشتے دار نہیں ہیں؟‘‘
’’سب ہیں مگر جب سے وہ واپس آیا، ان سے دور ہوگیا ہے۔
وہ خود بھی اس کے خلاف ہیں اور میرے آگے ہاتھ جوڑ کر روتے ہیں کہ ان کا کوئی دوش نہیں ہے۔‘‘
’’گنگولی دوبارہ آپ کے پاس آیا۔‘‘
’’آتا رہتا ہے۔ وہ بھی گندے علم کرتا ہے۔ شیطان ہے وہ پورا! ماما جی نے ایک اور مصیبت لا کھڑی کی ہے مگر کسی کو کیا کہیں۔‘‘
میں سوچ میں ڈوب گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، کیا کہوں مگر اس وقت بابا فضل کے کچھ الفاظ یاد آئے۔ ’’جو ہے، اسے خرچ کرو۔ کسی تفریق کے بغیر کہ انسان یکساں ہے اور بے بس ہے۔‘‘ تب میں نے کہا۔
’’میں ایک بے وقعت آدمی ہوں۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ نہ درویش ہوں، نہ عالم! لیکن کوشش کرنا چاہتا ہوں۔ اگر کچھ نہ کر پائوں تو مجھے ذمہ دار نہ سمجھیں…!‘‘
’’بالکل نہیں میاں صاحب! کوشش ہی کی جاسکتی ہے۔‘‘ بھلاّ صاحب بولے۔
’’تب ٹھیک ہے… میں آپ کے ساتھ چلنا چاہتا ہوں سری رام جی…!‘‘ میں نے فیصلہ کرلیا…!
اس فیصلے میں اس کہانی سے میری دلچسپی بھی شامل تھی جو کچھ میں نے سُنا تھا وہ انوکھا لگا تھا مجھے۔ کالے جادو کے دو ماہروں میں ٹھن گئی تھی، بقول سری رام جی کے گنگولی بھی دو ماہ سے وہاں مقیم ہے۔ مگر میں کروں گا کیا؟ مجھے ان دونوں سے کس طرح نمٹنا ہوگا زیادہ سوچنے کا موقع نہیں مل سکا۔ سری رام نے کہا۔
’’تو پھر مہاراج دیر کس بات کی ہے۔‘‘
’’ہاں دیر کرنا بیکار ہے، کام جتنی جلدی شروع ہو جائے اچھا ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں ملازم کو بھیج کر ٹرین کا وقت معلوم کرا لوں۔‘‘ بھلّا صاحب بولے۔
’’ٹکٹ ہی منگوا لیں بھلّا جی۔ وقت معلوم کرانے سے کیا فائدہ۔‘‘ سری رام نے کہا۔
’’کیوں میاں صاحب؟‘‘
’’جی ہاں ٹھیک ہے مگر مجھے رمضان کے ہوٹل پہنچا دیں وہیں سے ساتھ لے لیں۔‘‘
’’جو حکم۔‘‘ بھلّا صاحب نے کہا۔ کچھ دیر کے بعد میں بھائیوں کے ہوٹل پہنچ گیا۔ رمضان شعبان کو بس اتنا بتایا تھا کہ میں جا رہا ہوں، دونوں منہ بسورنے لگے۔ بڑی مشکل سے انہیں سمجھایا کہ میرا جانا ضروری ہے۔ بہت کچھ کہا انہوں نے اور اس وقت تک کہتے رہے جب تک بھلّا صاحب کی کار مجھے لینے نہ پہنچ گئی۔
’’چندوسی کے لیے ریل آدھے گھنٹے کے بعد مل جائے گی، ٹکٹ آ گئے ہیں۔‘‘ سری رام نے کہا اور میں تیار ہو گیا۔ اسٹیشن پر بھلّا صاحب نے کہا۔
مجھے یقین ہے کہ سری رام کچھ نہ کچھ ہو جائے گا، مجھے خبریں ضرور بھیجتے رہنا۔ جوں ہی مجھے فرصت ملی میں خود بھی آئوں گا۔ ریل آ گئی اور ہم دونوں فرسٹ کلاس کے ڈبّے میں سوار ہوگئے۔ سری رام جی بڑے نیازمند نظر آ رہے تھے میرے سامنے، بچھے جا رہے تھے۔
’’ہماری عزت لٹ گئی ہے مہاراج، لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ کسی کا ہاتھ روکا جا سکتا ہے زبان نہیں۔ اگر ہمارا کام ہو جائے تو ہم آپ کے چرن دھو دھو کر پئیں گے۔‘‘
’’دیکھیں سری رام جی اللہ کی کیا مرضی ہے۔‘‘
’’میاں جی آپ کا کوئی نام تو ہوگا، کس نام سے پکاریں آپ کو۔‘‘ سری رام نے کہا اور میں ہنس پڑا۔
’’جمال گڑھی میں رہ کر تو میں اپنا نام خود بھول گیا۔‘‘
’’کیوں مہاراج؟‘‘
’’وہاں کبھی کسی نے میرا نام نہیں پوچھا۔ سب میاں صاحب اور میاں جی ہی کہتے رہے۔ میرا نام مسعود ہے۔‘‘
’’ہم آپ کو مسعود میاں کہیں۔ ویسے ایک بات ہے مہاراج بہت چھوٹی سی عمر میں بھگوان نے آپ کو اتنا بڑا گیان دے دیا۔ آپ کی عمر کچھ بھی نہیں لگتی، اگر یہ داڑھی صاف کرا دیں تو لڑکے لگیں۔‘‘ سری رام کے ان الفاظ پر پہلی بار مجھے اپنے اس حلیے کا خیال آیا، نہ جانے کیسی صورت ہو رہی ہے، غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ چہرے پر ہاتھ پھیر کر دیکھا دل میں خیال آیا کہ آئینہ تو دیکھوں، مسکرا کر خاموش ہوگیا۔ سری رام نے پھر کہا۔ ’’چندوسی میں ہم آپ کو سلامت علی کے گھر ٹھہرائیں گے، ہمارا بچپن کا یار ہے، ہر اچھے بُرے کا ساتھی۔ آپ کو بھی آسانی رہے گی، اس کا گھر ہمارے گھر کے بالکل سامنے ہے۔‘‘
’’ہاں یہ بہتر رہے گا۔‘‘
’’اس کے بچّے ہیں۔ فراست تو آپ کے برابر ہی ہوگا جو کچھ آپ چاہیں گے وہاں آپ کی خوشی کے مطابق ہو جائے گا۔‘‘ چندوسی آ گیا ایک تانگے میں بیٹھ کر، میں اور سری رام چل پڑے۔ تھوڑی دیر سفر جاری رہا اور پھر ہم ایک علاقے میں آ گئے۔ بڑی سی عمارت بنی ہوئی تھی جس کا طرز تعمیر ہندوانہ تھا۔ سامنے ہی دُوسری عمارت تھی اس کے بغلی دروازے پر ہم اُتر گئے، غالباً احتیاط کے پیش نگاہ سری رام جی سامنے والے دروازے پر نہیں گئے تھے۔ البتہ سلامت علی کے گھر میں ان کا دخل کافی معلوم ہوتا تھا، وہ مجھے اس دروازے سے اندر لائے۔ ایک شخص نظر آیا تو انہوں نے کہا۔
’’شریف۔ بغلی بیٹھک کھول دو۔‘‘
’’کھلی ہوئی ہے لالہ جی…‘‘ شریف نے کہا اور ہم اس طرف چل پڑے۔ شریف نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تھا۔
’’سلامت کہاں ہے۔‘‘
’’اندر ہیں۔‘‘
’’بتا دو اور ہاں کسی اور کو میرے آنے کے بارے میں کچھ نہیں بتانا ہے، سمجھ گئے۔‘‘
’’جی لالہ…‘‘
’’چائے بھی تیار کرا لو…‘‘ ملازم شریف گردن ہلا کر چلا گیا۔ بیٹھک بڑی آرام دہ تھی، دیوان پڑے ہوئے تھے، ماحول خوب ٹھنڈا تھا۔ چند ہی منٹ کے بعد ایک شخص اندر داخل ہوگیا۔ گورا چٹّا رنگ، چھوٹی سی داڑھی، اچھی شخصیت تھی۔ اندر داخل ہو کر اس نے پہلے مجھے پھر سری رام کو دیکھا اور پھر مجھے سلام کیا، جس کا میں نے جواب دیا تھا۔
’’میرا نام سلامت علی ہے۔ اس نے بتایا۔‘‘
’’مجھے مسعود کہتے ہیں۔‘‘
’’بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ سری رام تم جس کام سے گئے تھے۔‘‘ وہ سوالیہ انداز میں بولا۔
’’بھلّا جی نے مسعود میاں جی کے بارے میں ہی بتایا تھا۔‘‘
’’اوہ… اچھا معاف کیجئے مسعود میاں… آپ تو بہت کم عمر ہیں لیکن میں خدا کی دَین کا قائل ہوں۔ اللہ تو کسی کو بھی کسی بھی عمر میں کچھ دے سکتا ہے۔‘‘
’’سلامت کو سب کچھ معلوم ہے میاں جی ان سے ساری باتیں کر کے گیا تھا، البتہ نئی بات اب کروں گا۔ سلامت میں نے میاں جی کو تمہارے ہاں ٹھہرانے کا فیصلہ کیا ہے ان کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتانا ہے۔ پوجا سے بھی میں انہیں تمہارے مہمان کی حیثیت سے ملائوں گا، بعد میں مسعود میاں جی کے مشورے سے ہم کام کریں گے۔‘‘
’’بڑی خوشی سے، بلکہ یہ زیادہ بہتر ہے۔‘‘
’’چائے پلائو اس کے بعد گھر جائوں گا۔‘‘
’’شریف سے کہا ہے۔‘‘
’’ہاں…‘‘
’’بس تو آتی ہوگی۔‘‘ سلامت علی نے کہا اور کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی، اس دوران سلامت علی کئی بار مجھے چور نظروں سے دیکھ چکا تھا۔ بالآخر اس نے کہا وہ رحمت اللہ کی بیٹی کا کیا معاملہ نکلا جو بھلّا نے بتایا تھا۔
’’پوری جمال گڑھی میں چرچا ہے، دُھوم مچی ہوئی ہے میاں جی کی۔ بھگوان نے ایک زندگی کو موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔‘‘
’’بڑی سنسنی خیز بات ہے۔ چائے آ گئی اور سری رام چائے پینے کے بعد مزید کچھ دیر رُکا پھر چلا گیا۔ سلامت علی البتہ میرے پاس بیٹھ گیا تھا کچھ دیر کے بعد اس نے کہا۔‘‘ آپ کا تعلق کہاں سے ہے مسعود میاں۔
’’اللہ کی بنائی ہوئی تمام انسانی آبادی سے…‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر والدین، گھر بار، عزیز و اقارب…‘‘
’’حکم ہے کہ انہیں بھول جایا جائے، خلق اللہ کی خدمت کی جائے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’سبحان اللہ… بہت بڑا کام ہے میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ کچھ وقت آپ کی خدمت کی سعادت مجھے ملی، میرے بچّے بچیاں ہیں کچھ دُعائیں ان کے لیے بھی کر دیں۔ ایک بات اور پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’جی ضرور…‘‘
’’سری رام نے اپنی مشکل آپ کو بتا دی ہوگی۔ اس کی ذات برادری کا معاملہ ہے، وہ ہندو ہے اور اس کا گھرانہ مذہبی طور پر بہت کٹّر ہے۔ غالباً لوگ اس بات پر اعتراض کریں گے کہ وہ ہندو ذات ہونے کے باوجود ایک مسلمان سے یہ کام کرا رہا ہے، یہ اس کی مشکل ہے، چنانچہ اس بات کو چھپانا پڑے گا کہ آپ یہاں کس مقصد سے آئے ہیں۔ آپ کو اس پر اعتراض تو نہیں ہوگا؟‘‘
’’سلامت علی صاحب… اچھا ہے آپ نے یہ بات کہہ دی، مجھے زبان کھولنے کا موقع مل گیا۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نہ تو میں کوئی عامل ہوں نہ درویش، نہ فقیر نہ پہنچا ہوا کوئی انسان۔ ہاں کسی بزرگ ہستی سے انسان کی مشکل میں کام آنے کا حکم ملا ہے اور رُوحانی رہنمائی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بس اسی کے سہارے کچھ کر لیتا ہوں۔ مجھ سے کہا گیا ہے کہ انسان اگر مشکل میں ہو تو اس کے دین دھرم پر غور نہ کروں بلکہ جو کچھ مجھ سے بن پڑے کروں۔‘‘
’’جو داستان میں نے سنی ہے اس کے بارے میں نہیں جانتا کہ میں اس کے لیے کیا کر سکتا ہوں، اگر رہنمائی ہوئی تو شاید کچھ ہو جائے ورنہ معذور ہوں۔ مجھے نام و نمود سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے کسی بھی بات کو منظرعام پر لانا ضروری نہیں ہے۔ اس سے میری بھی بچت ہے۔ اگر کچھ نہ کر سکا تو خواہ مخواہ کی شرمندگی نہ اُٹھانی پڑے گی۔ آپ میری بات پر حیران نہ ہوں سلامت علی صاحب، درحقیقت میں نے جو کچھ عرض کیا ہے وہ سچائی پر مبنی ہے۔ میں کچھ بھی نہیں ہوں، بس کچھ بزرگوں کا فیض ہوگیا ہے۔ دُوسروں کی مشکلات حل کرنا چاہتا ہوں، بزرگوں کی رہنمائی میں اور اگر کچھ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو پھر اپنی مشکلات کے لیے کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘
’’سلامت علی صاحب گہری نگاہوں سے میرا جائزہ لے رہے تھے۔ پھر انہوں نے کہا مسعود میاں معمولی بات نہیں ہے اگر کسی صاحبِ علم کی سرپرستی بھی حاصل ہو جائے، کسی کو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی عام لوگوں کے بس کی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کسی کو ہی یہ سعادت عطا کرتا ہے۔ درحقیقت سری رام میرا بچپن کا دوست ہے، اس کی فطرت جیسی بھی ہے اس کے خاندانی معاملات جو کچھ بھی ہیں ہماری دوستی اس سے ہٹ کر ہے۔ ہمیں صرف اپنی دوستی سے غرض ہے اور اسی لیے میں سری رام کی ہر طرح کی بھلائی چاہتا ہوں، میرے ذہن میں بس یہ خیال تھا کہ ہو سکتا ہے کہ آپ اس بات سے بددل ہو جائیں کہ جو کچھ آپ کر رہے ہیں اسے چھپا چھپا کر رکھا جا رہا ہے اسی لیے میں نے یہ بات کہہ دی تھی۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی میں نے کہا۔
’’سری رام کے پاس اور کچھ ہے یا نہیں ہے لیکن وہ دوستی کی دولت سے مالا مال ہے۔ انسان کو اگر ایک بھی مخلص دوست مل جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ اس کی حیات کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ بہرحال میری جانب سے آپ مطمئن رہیں جس طرح بھی پسند فرمائیں، کام کریں میں کھل کر عرض کر چکا ہوں کہ اگر میری رہنمائی ہوئی تو میں سری رام کی مشکل میں اس کا پورا پورا ساتھ دینے کی کوشش کروں گا اور اگر ناکام رہا تو بس غم کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے مسعود میاں یہ تو تقدیر کے معاملات ہوتے ہیں۔ اللہ نے اس بچی کی تقدیر میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہی ہو کر رہے گا، میں اس سلسلے میں ایک بات بھی آپ کو نہیں بتائوں گا کیونکہ یہ میرے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا، چند ضروری باتیں اور کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔‘‘
آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں سلامت علی صاحب، میں آپ کے بچوں کی مانند ہوں، اجازت نہ مانگا کریں مجھ سے، جو حکم ہو فرما دیا کریں۔
’’اپنے اہل خاندان میں، میں آپ کو اپنے ایک دوست کے بیٹے کی حیثیت سے متعارف کرائوں گا اور بس ماضی کو گول مول رہنے دوں گا۔ یہ مجھے اس لیے کرنا ہے کہ سری رام کی خواہش کے مطابق آپ کو چھپانا ہوگا۔ گھر میں بھی کسی سے کوئی تذکرہ نہیں کروں گا۔ آپ دوستوں ہی کی مانند دُوسروں کے ساتھ پیش آیئے۔ میرے بیٹے بیٹیاں ہیں باقی تو چھوٹے ہیں لیکن ایک بیٹا فراست تقریباً آپ کی عمر کا ہے۔ اس سے دو سال چھوٹی بیٹی فرخندہ ہے۔ فرخندہ بہت شریر فطرت کی مالک ہے۔ عمر تو اچھی خاصی ہوگئی ہے اس کی لیکن طبیعت میں بچپن ہے۔ میری التجا ہے آپ سے کہ یہاں کسی کی کسی بات کا برا نہ منایئے۔ آپ بزرگ ہیں اور بزرگی صرف عمر کا حصہ نہیں ہوتی بلکہ جسے اللہ کی مدد حاصل ہو جائے وہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ تو کہیں یوں نہ ہو کہ میرے کسی بچّے کی گستاخی میرے لیے سزا بن جائے۔‘‘ میں ہنس پڑا۔ میں نے کہا۔
’’آپ ان تمام باتوں کو اپنے ذہن سے نکال دیجئے۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ، ظاہر ہے آپ کے دل میں یہ نرمی نہ ہوگی تو پھرکسی اور کے دل میں کیسے ہوگی۔ میں اجازت چاہتا ہوں، اب ذرا آپ کا تعارف کرا دوں، اندر والوں سے تھوڑی دیر کے بعد سب آپ پر نازل ہو جائیں گے۔‘‘
’’سلامت علی چلے گئے اور میں ٹھنڈی سانس لے کر ایک دیوان پر دراز ہوگیا۔ طرح طرح کا ماحول مل رہا تھا مجھے، بھانت بھانت کے لوگ میری زندگی میں آ رہے تھے اور ان کا دُور دُور تک پتا نہیں تھا جن کی آغوش میں آنکھ کھولی تھی۔ حسرت کسی بھی طرح دل سے دُور نہیں کر سکتا تھا۔ غالباً یہ انسانی قوت سے باہر کی بات ہے۔ میرے دل میں اگر کوئی تڑپ ہو سکتی تھی تو اپنے ماں باپ کی، بہن بھائیوں کی اور کوئی نظریہ تو تھا ہی نہیں اب، پہلے کبھی گناہ کے راستوں کی جانب قدم بڑھائے تھے لیکن سزا اتنی طویل تھی کہ چاروں طبق روشن ہوگئے تھے اور اب دل میں کوئی آرزو نہیں تھی۔ سوائے اس کے کہ ایک بار بس ایک بار وہ اُجڑا ہوا گھر پھر سے بس جائے، بس ایک بار وہ سب پھر اکٹھے ہو کر قہقہے لگائیں، بس ایک بار اپنے ابو کی اُنگلی پکڑ کر عید کی نماز پڑھنے جائوں، بس ایک بار واپس آ کر چھوٹے بہن اور بھائی کے سلام لوں اور انہیں گلے سے لگائوں۔ بس ایک بار ماموں ریاض کی محبت بھری مسکراہٹیں اور قہقہے مجھے مل جائیں۔ بس اتنی ہی آرزو تھی میرے دل میں اس سے زیادہ کسی شے کا خواہشمند نہیں تھا، لیکن حکم تھا کہ ہر آرزو کو دل سے نکال دوں۔ پھل چکھ چکا ہوں، پھل کھانے کے لیے پھلوں کے انبار پر ٹوٹ نہ پڑوں، ورنہ پھلوں کے انبار میرے سامنے سے ہٹا لیے جائیں گے اور پھر پھل چکھائے جائیں گے۔ آہ! اب اس کی قوت نہیں تھی مجھ میں، چنانچہ صبر کرنا تھا اوریہ صبر بھی میرے امتحان کا ایک حصہ تھا، دل کو ڈھارس دی، سہارا دیا، تڑپتے ہوئے دل کو سمجھایا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہی سب کچھ سمجھا جائے جو نہیں ہو پا رہا اس کی طلب میں ابھی آگے قدم بڑھانا منع ہے۔ ذہن کو اُداسی کا شکار نہ کیا جائے۔ سوچنا یہ ہے کہ آگے کیا کیا جائے۔ بھوریا چرن اس دوران مکمل طور پر غائب تھا اور یہ ایک خوشگوار احساس تھا جو دل کو بڑی تقویت دیتا تھا۔ ابھی تک تو میرا بدترین دُشمن میرے سامنے آ آ کر مجھے خوفناک ذہنی حادثوں سے دوچار کرتا رہا تھا۔ اب اتنے عرصے سے اس کا سامنا نہیں ہو سکا تھا اور جو کچھ ہوا تھا وہ ایسا تھا کہ اس کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا، ہو سکتا ہے بھوریا چرن کی ناکامیوں کا دور شروع ہوگیا ہو اور اب، اب وہ میرے راستے اس انداز میں نہ روک سکے جس طرح روکتا رہا ہے۔ آہ اگر ایسا ہو جائے تو یقینی طور پر اُمید بندھ سکتی ہے، زندگی اور موت کا مالک معبود حقیقی ہے۔ کون جانے کون کب اس دُنیا سے اُٹھ جائے، محبتوں کا تصور تو حیات کے ساتھ ہے۔ آنکھیں بند ہوگئیں تو نہ کوئی طلب رہے گی اور نہ کوئی احساس۔ بس وہاں تو حساب کا معاملہ سامنے آ جائے گا اور سارے حساب چبھنے لگیں گے۔ ماں اور باپ اگر زندہ رہے اور اللہ کو یہ آرزو پوری کرنا مقصود ہوئی تو وہ سب کو زندہ رکھے گا، ورنہ جانے والے چلے جائیں گے روکنے والا بھلا کون۔‘‘
نجانے کب تک ان احساسات کا شکار رہا، دروازے کے باہر آہٹیں سُنائی دیں اور پھر سلامت علی کی آواز آئی۔
’’بھئی آپ سب لوگ بیٹھک میں داخل ہو کر کیا کریں گے، میں مسعود میاں کو خود ہی یہاں بلائے لاتا ہوں، مسعود میاں، بھئی مسعود میاں سو تو نہیں رہے آپ؟‘‘
’’جی نہیں، حاضر ہو رہا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ باہر بہت سی خواتین و حضرات موجود تھے۔ ایک معمر خاتون سب سے آگے تھیں، ایک شوخ شریر سی چہرے والی نوجوان لڑکی ان کے پیچھے تھی، چھوٹے بڑے اور بھی بہت سے افراد تھے، وہ نوجوان بھی نظر آ رہا تھا۔ اسے ایک نگاہ میں دیکھ کر ہی کہا جا سکتا تھا کہ یہ سلامت علی کا بیٹا فراست ہے۔ سلامت علی صاحب نے کہا۔
’’مل لیجیے آپ حضرات ان سے یہ ہیں مسعود احمد۔‘‘ فراست نے آگے بڑھ کر مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ ’’اور چونکہ میں اس سلسلے میں سب سے بڑا حق دار ہوں کہ آپ سے دوستی کروں، چنانچہ سب سے پہلے مجھ سے ملیے میرا نام فراست ہے۔‘‘
’’بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔‘‘
’’بیٹے آپ کو اس طرح لایا گیا جیسے معاف کرنا چوروں کو لایا جاتا ہے، لیکن ان حضرت کی یہ عادت ہے کہ سب لوگوں کو چونکا دیتے ہیں، اب آپ دیکھیے آپ ان کے دوست کے بیٹے اور آپ کو اس طرح چھپا کر گھر میں لایا گیا ہے جیسے کوئی سونے کی مورتی مندر سے چُرا کر لاتا ہے، خیر چھوڑیے ان باتوں کو ، آیئے ہمارے ساتھ۔ آپ کہاں غیروں کی طرح اس بیٹھک میں آ پڑے؟‘‘
معمر خاتون نے کہا، آگے بڑھیں، میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور یہ لمس، یہ لمس تو میرے دل کو چھوتا تھا، میرا سر دیر تک جھکا رہا۔ فراست نے کہا۔
’’اب سیدھے ہو جایئے حضور، امی کا ہاتھ تھک گیا ہوگا۔‘‘ میں شرمندہ ہو کر سیدھا ہوگیا، سلامت علی منہ کھول کر رہ گئے تھے، پھر انہوں نے کہا۔
’’یہ تم نے میرے دوست کے بیٹے کو فوراً ہی آڑے ہاتھوں کیوں لے لیا، چلو اب اگر ایسا ہی ہے تو اندر لے چلو۔‘‘
’’آئو میاں آئو۔
ویسے میرا نام جمیلہ ہے، یہ فرخندہ ہے، یہ شاہانہ ہے اور یہ…‘‘ معمر خاتون نے نجانے کیا کیا نام مجھے گنا دیے۔ دُوسرے لوگوں سے رشتے بھی بتا دیے مگر مجھے ان تمام چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں ان کے ساتھ اندر داخل ہوگیا، مکان بہت کشادہ اور وسیع تھا۔ قدیم طرز تعمیر کا ایک حسین نمونہ جس میں اقدار کی جھلکیاں شامل ہوتی ہیں۔ بڑی محبت اور بڑی اپنائیت سے مجھے ایک اور بڑے کمرے میں لایا گیا جو زنانہ نشست کا کمرہ تھا، یہاں میری خاطر مدارات کا پورا پورا بندوبست کیا گیا تھا۔ فراست میرے پاس ہی بیٹھا تھا اس نے کہا۔
’’یوں لگتا ہے جیسے آپ کوئی مہم جو ہوں اور صحرائوں اور پہاڑوں میں آوارہ گردیاں کرتے رہے ہوں۔ حلیہ ہی ایسا بنا رکھا ہے آپ نے۔ اور یہ داڑھی دعوے سے کہتا ہوں یہ داڑھی باقاعدہ نہیں بلکہ بے قاعدہ ہے۔ میرامطلب ہے کہ اسے خصوصی طور پر چہرے کی زینت نہیں بنایا گیا ہے بلکہ یہ زینت صاحبہ خودبخود منظرعام پر آگئی ہیں چنانچہ قبلہ ابا جان سے پہلی درخواست ہے کہ ان حضرت کو مہم جو سے ایک انسان بنانے کی اجازت مجھے دی جائے۔‘‘
’’دیکھو فراست جملوں کے استعمال میں احتیاط کیا کرو، بے تکلفی رفتہ رفتہ اچھی ہوتی ہے کوئی بھی کام ایسا نہیں ہوگا جو مسعود میاں کی مرضی کے خلاف ہو۔ آپ تمام لوگ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ یہ میرے بہت ہی محترم دوست کے بیٹے ہیں اور میں ان کی عزت اپنے دوست ہی کا مانند کرتا ہوں۔ بے تکلفی ایک مناسب حد تک ٹھیک ہے اس سے آگے نہ بڑھے۔‘‘
’’خیال رکھا جائے گا۔ قبلہ ابا جان مگر دیکھیے نا یہ تو یہ ایک مخلصانہ پیشکش ہے۔ صاحب آپ ہی کچھ فرمایئے ہماری اس سلسلے میں کیا مدد کی جا سکتی ہے۔‘‘ میں ہنس پڑا پھر میں نے کہا۔
’’آپ درست کہتے ہیں فراست، درحقیقت مہم جوئی کی زندگی ہی گزاری ہے میں نے، لیکن ایک درخواست ضرور کرتا ہوں آپ تمام حضرات سے وہ یہ کہ میری مہمات کی تفصیلات نہ پوچھیں کیونکہ میرے لیے کچھ بتانا بالکل ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
’’اچھا اچھا بھائی پتا ہے آپ زمین میں دفن خزانوں کی تلاش میں نکلے ہوں گے اور ناکام ہوگئے ہوں گے، اب انسان اپنی ناکامیوں کو…‘‘ فراست نے کہا اور سلامت علی خان نے پھر اسے ڈانٹا۔
’’فراست…‘‘ فراست دانتوں میں زبان دبا کر خاموش ہوگیا تھا۔ میرے لیے ایک کمرے کا بندوبست کیا گیا۔ فراست نے اپنا ایک لباس مجھے دیتے ہوئے کہا۔
’’اس خاکسار کا لباس پہننے پر تو آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، غسل خانے میں شیو وغیرہ کا سامان بھی موجود ہے اور اس کے ساتھ یہ درخواست کرتا ہوں کہ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔‘‘ غسل خانے میں لگے آئینے میں، میں نے اپنا چہرہ دیکھا اور مجھے اسے خود پہچاننے میں دقت ہوئی بہرحال مصروف ہوگیا۔
لالہ سری رام جیسے بھی ہوں لیکن سلامت علی کے گھرانے کے بارے میں، میں یہ کہہ سکتا تھا کہ یہ بہترین لوگ تھے۔ خوش اخلاق، محبت کرنے والے، زیادہ وقت نہیں گزرا تھا مگر یوں لگتا تھا جیسے میں طویل عرصے سے ان کے ساتھ ہوں۔ شیو وغیرہ بنا لیا۔ فراست کا لباس میرے بدن پر بالکل درست تھا ایک خوبی ضرور پیدا ہوگئی تھی وہ یہ کہ دل بولنے لگا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اندر کوئی آ بیٹھا ہو، رہنمائی کر رہا ہو، جو کچھ کرتا اگر غلط ہوتا تو اندر سے منع کر دیا جاتا ورنہ خاموشی اختیارکی جاتی، کوئی سوال کرتا تو فوراً جواب ملتا تھا اس وقت بھی خاموشی تھی میں نے خود ہی سوال کیا۔
’’یہ سب کچھ بُرا تو نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں کیونکہ اس سے خودنمائی کا احساس قتل ہوتا ہے۔ دُوسروں سے مختلف حلیہ بنا کر خود کو منفرد ظاہر کرنے کا شوق پسندیدہ عمل نہیں ہے اس لیے سب ٹھیک ہے۔‘‘ میں مطمئن ہو گیا، کچھ دیر کے بعد دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھلا ہوا تھا، فراست اندر داخل ہوگیا۔ اس نے مجھے دیکھا اور دیکھتا رہ گیا، پھر اس کے چہرے پر عجیب سی شگفتگی پھیل گئی اس نے شرارت سے کہا۔
’’آپ کون ہیں؟‘‘
’’سمجھا نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’وہ ایک صاحب مسعود نامی بھی یہاں تھے کہاں گئے۔‘‘
’’فراست صاحب نامی ایک صاحب نے ان کا حلیہ بگاڑ دیا۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’یار خدا کی قسم انارکی طرح خوبصورت ہو۔ قندھاری انار کی طرح جسے اُوپر سے دیکھ کر اس کے صحیح حسن کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، ذرا آئو تو میرے ساتھ۔ آئو ذرا۔‘‘
’’اب تم مجھے نمائش کے لیے پیش کرو گے؟‘‘
’’ٹکٹ لگائوں گا تم پر۔ رقم کمائوں گا، صدائیں لگائوں گا کہ یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا۔‘‘
’’چھوڑو فراست۔ مذاق نہ اُڑائو بیٹھو۔‘‘
’’مسٹر پُراسرار ہم نے یہی نام دیا ہے تمہیں اور یہ نام تجویز کیا ہے فرخندہ نے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم بے حد پُراسرار ہو۔ ہم سے دوستی نہیں کرو گے؟‘‘
’’ہوئی نہیں ہے دوستی؟‘‘ میں نے کہا۔
’’خاک۔ ایک بات نہیں معلوم تمہارے بارے میں کہاں سے آئے ہو، ابو کے کون سے دوست کے بیٹے ہو، یہ حلیہ کیوں بنا رکھا تھا وغیرہ وغیرہ۔‘‘ فراست نے کہا۔
’’فراست تم سے دوستی کر کے مجھے بے حد خوشی ہوگی لیکن میرے بارے میں تمہیں سلامت علی صاحب ہی بتائیں گے یہ میری مجبوری ہے ورنہ انکار نہ کرتا۔‘‘ باہر سے فرخندہ کی آواز سُنائی دی۔
’’بھیّا ابو دونوں کو بلا رہے ہیں۔‘‘ باہر بھی وہی کیفیت ہوئی تھی خود سلامت علی مجھے دیکھ کر ساکت رہ گئے تھے مگر کچھ بولے نہیں تھے۔ شام کو پانچ بجے فراست پھر ایک سوٹ لے کر آ گیا۔
’’چلیے لباس تبدیل کرلیجیے ،چلنا ہے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’چاچا سری رام کے ہاں۔ شام کی چائے وہاں ہے۔‘‘
’’یہ لباس رہنے دو فراست بس اتنا کافی ہے۔‘‘
’’جی نہیں، یہ نہیں مانی جا سکتی۔‘‘ فراست نے مجھے دُوسرا لباس پہنا کر چھوڑا، سب لوگوں کا پروگرام تھا اور سب تیار تھے، مجھے ہنسی آ رہی تھی، یہ خوب دلچسپ کام تھا جس میں یہ تفریحات بھی شامل تھیں۔ بہرحال جو کچھ بھی تھا مجھے بُرا نہیں لگ رہا تھا۔ ہم سب سری رام کی حویلی میں داخل ہوگئے۔ سری رام ان کی دھرم پتنی اور کچھ اَجنبی لوگوں نے ہمارا سواگت کیا تھا اور بڑی اپنائیت سے اندر لے گئے۔ میرے بارے میں بڑی مختصر گفتگو ہوئی تھی، جان بوجھ کر اس سے احتراز برتا گیا تھا مگر سری رام جی نے اتنا ضرور کہا تھا۔
’’مسعود میاں آپ سلامت کے دوست کے بیٹے ہی نہیں ہمارے بھی بہت کچھ ہیں اس لیے آپ کو وعدہ کرنا پڑے گا کہ ہمارے ہاں روز آتے رہیں گے۔‘‘
’’ضرور سری رام جی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ چائے پر پوجاوتی کو دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ ایسے دلکش چہرے کم نظر آتے ہیں۔ مومی رنگ، گہری دلکش آنکھیں، ستواں ناک، حسین تراش کے ہونٹ، بال گھٹائوں جیسے اُمنڈتے ہوئے پورا چہرہ تصویر یاس، غم میں ڈُوبا ہوا۔ ایک لفظ نہ بولی تھی بس خاموش آ کر بیٹھ گئی تھی۔
’’یہ پوجا ہے ہماری بیٹی۔‘‘ سرلاوتی جو سری رام کی دھرم پتنی تھیں، بولیں میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ چائے پر میں نے صرف چند پھل کھائے تھے، چائے کے لیے منع کرتے ہوئے میں نے کہا۔
’’میں چائے یا ٹھنڈا نہیں پیتا۔‘‘
’’تو پھر یہ بادام لیجیے مہاراج۔‘‘ سری رام فوراً بولے۔ بھلّاجی کے ہاں انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ میں ان کے برتنوں میں پکی کوئی چیز نہیں کھائوں گا۔
’’پوجا جی بہت خاموش رہتی ہیں۔‘‘ میں نے کہا اور پوجا نے چونک کر مجھے دیکھا۔
’’ہاں کچھ …‘‘ سرلاوتی بولیں۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’بھگوان جانے۔‘‘
’’آپ مجھ سے باتیں کریں پوجا، میں نے کہا اور وہ پھر مجھے دیکھنے لگی، پھر آہستہ سے بولی۔‘‘
’’آپ کچھ خیال نہ کریں مسعود جی! بس کچھ بیمار ہوگئی ہوں اور کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ اس نے خوبصورت آواز میں کہا۔
’’آپ آتے جاتے رہیں گے تو یہ آپ سے بے تکلف ہو جائے گی۔‘‘ سری رام بولے۔
’’ضرور آئوں گا۔‘‘ میں نے کہا اور پھر اتفاق سے میری نظر فراست اور فرخندہ پر پڑ گئی۔ دونوں مجھے دیکھ رہے تھے اور ان کی آنکھوں میں شرارت کی بجلیاں کوند رہی تھیں۔ میں جھینپ گیا۔ کافی دیر ہم وہاں رُکے جب چلے تو سری رام بولے۔
’’پھر کب آئو گے مسعود میاں؟‘‘
’’کل!‘‘ میں نے جواب دیا۔ گھر واپس آ گئے۔ سلامت علی نے موقع ملتے ہی مجھ سے کہا۔
’’آپ نے ان کے ہاں چائے یا ٹھنڈا نہیں پیا؟‘‘
’’معافی چاہتا ہوں، یہ میرے لیے ممکن نہیں۔‘‘
’’یقینا مجھے بھی خیال نہ رہا، آئندہ خاص احتیاط رکھی جائے گی۔‘‘
’’ویسے میرا خیال تھا کہ شاید سری رام اس بات کا بُرا منائے لیکن اس نے فوراً ہی بات سنبھال لی تھی۔ دراصل ہم لوگ تو بچپن کے دوست ہیں اور ہمیشہ ہی ساتھ رہے ہیں اس لیے اتنی بے تکلفی ہوگئی ہے کہ میں نے کبھی سری رام کے ہاں کھانے پینے میں کوئی احتیاط نہیں برتی اور نا ہی اس نے کبھی ایسا کوئی خیال کیا حالانکہ وہ لوگ گوشت خور نہیں ہیں لیکن میرے ہاں کے برتنوں میں کھانے پینے میں اعتراض نہیں کرتے، خیر چھوڑو مسعود میاں تم نے پوجا کو دیکھا…؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’پہلے ایسی نہیں تھی اس کی فطرت میں شوخی تو خیر پہلے بھی نہیں تھی لیکن اب بہت زیادہ سنجیدہ ہوگئی ہے، ایک عجیب و غریب کیفیت ہے اس کی، ہو سکتا ہے تم سے بے تکلف نہ ہو۔ لیکن، لیکن کوئی اندازہ لگایا تم نے؟‘‘ میں نے مسکرا کر سلامت علی کو دیکھا تو وہ جلدی سے بولے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں بھی اس بچی سے اتنی ہی محبت کرتا ہوں کہ اس کے لیے بے حد پریشان رہتا ہوں۔ سری رام ساری باتوں سے الگ بے حد اچھا انسان ہے اور بس یہ سمجھو کہ میرے لیے بھائیوں جیسا ہی ہے۔ ہم لوگ ایک مذہب سے تعلق نہیں رکھتے، لیکن ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے بڑا پیار ہے، خیر اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے، خدا کرے اس کی مشکل کا حل دریافت ہو جائے۔ ’’سلامت علی صاحب نے اتنی باتیں کیں تو پھر میری زبان بھی کھل گئی۔ میں نے پُرخیال انداز میں ان سے کہا۔‘‘
’’کیا آپ مجھے ایک بار پھر اس تمام صورت حال کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں، چونکہ بھلّا نے بات میرے سامنے ہی کی تھی اور مجھے یہ معلوم ہے کہ تمہیں کس مقصد کے لیے لایا گیا ہے، معاف کرنا مسعود میاں آپ کے بجائے تم پر اُتر آیا ہوں، لیکن جس انداز میں تعارف کرایا تمہارا، اس میں تم سے گفتگو کرنا بھی ضروری ہوگیا ہے۔ دوست کے بیٹے سے اب اتنا زیادہ تکلف تو نہیں برتا جا سکتا۔‘‘
’’آپ نے بلاوجہ یہ بات سوچی، آپ مجھے فراست ہی کی طرح مخاطب کیجیے۔‘‘
’’ہاں میاں اس سے زیادہ انوکھی بات اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی، سارے معاملات میں براہ راست شریک رہا ہوں، کیا بتائوں تفصیل یہ ہے کہ…‘‘ وہ پوری کہانی دُہرانے کے بعد بڑی افسردگی سے گویا ہوئے۔ ’’اب تم خود سوچو مسعود میاں، بے چارے سری رام کی کیا کیفیت ہونی چاہیے۔ بائولا ہو کر رہ گیا ہے، مجھے معلوم ہے اس کے دل کا حال، عزت پر بن گئی ہے بے چارے کی اور انہی تمام واقعات سے پوجا بھی متاثر ہوئی ہے اور اب ہر وقت خاموش رہتی ہے یہ ہے ان بے چاروں کی داستان، اب تم ہی کچھ کرو۔‘‘
’’سلامت علی صاحب، میں نے سری رام جی سے بھی سب کچھ عرض کر دیا تھا اور آپ سے بھی کہہ رہا ہوں کہ نہ ولی ہوں نہ درویش بلکہ ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہوں، بس کبھی کبھی کسی کام میں رہنمائی ہو جاتی ہے اور اس چیز نے ہمت بندھا دی ہے۔ پوجا کے سلسلے میں بھی اُوپر سے ملنے والی مدد کا منتظر ہوں۔‘‘
’’یہ رہنمائی بھی کم تو نہیں ہے، درویشوں کا سایہ کسی کسی پر ہوتا ہے، اگر اللہ نے تم پر یہ عنایت کی ہے اور بزرگوں نے تمہیں اس قابل سمجھا ہے تو اس کی بھی کوئی وجہ ہوگی، دل میں نجانے کیا کیا خیال آتے ہیں جی چاہتا ہے کہ تم سے تمہارے بارے میں سب کچھ پوچھ ڈالوں۔ ذرا یہ تو پتا چلے کہ اس نوعمری میں یہ دولتِ عظیم کہاں سے ہاتھ آگئی، لیکن تم نے راستہ روک دیا ہے اور ظاہر ہے میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔ تو میں یہ پوچھ رہا تھا کہ پوجا کو دیکھ کر کوئی اندازہ قائم کیا تم نے۔‘‘
’’ابھی کچھ نہیں، میں ذرا ان کرداروں کو بھی دیکھ لوں جو یہ تمام چکر چلائے ہوئے ہیں، آپ مجھے کالی موری کا راستہ بتایئے۔‘‘
’’کک کیا مطلب ہے کیا تم وہاں جائو گے؟‘‘
’’جی جانا پڑے گا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’خطرناک جگہ ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا اور پھر ایک مسلمان کے لیے، ویسے تم بہتر سمجھتے ہو۔‘‘ میں خاموش ہو کر سوچ میں ڈُوب گیا۔ سلامت علی نے کہا۔ ’’اچھا میں چلتا ہوں۔ ایک بار پھر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی تکلیف نہ اُٹھانا۔ سلامت علی چلے گئے لیکن اس کے بعد مجھے سوچنے کا ایک لمحہ بھی نہ ملا۔ فرخندہ اور فراست شاید کہیں چھپے ہوئے ان کے چلے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ فوراً ہی اندر گھس آئے۔ دونوں نے سنجیدہ چہرے بنائے ہوئے تھے اور تشویش زدہ نظر آ رہے تھے۔ پھر فراست نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا۔‘‘
’’خدا آپ کو ہر مشکل وقت سے محفوظ رکھے۔‘‘
’’اللہ آپ کو بُری گھڑی سے بچائے۔‘‘ فرخندہ بولی۔
’’آپ دونوں خیریت سے ہیں۔‘‘ میں نے مسکرا کر پوچھا۔
’’ہاں لیکن آپ کی خیریت خداوند کریم سے نیک مطلوب ہے۔‘‘ فراست ہونٹ سکوڑ کر بولا۔
’’کیا میں خیریت سے نہیں ہوں۔‘‘
’’قطعی نہیں، جو کچھ ہماری ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھا ہے وہ باعث تشویش ہے۔ عمر کا یہ دور بڑا سنگین ہوتا ہے جوانی دیوانی کہلاتی ہے اور عشق ذات نہیں پوچھتا مگر دُوسرے پوچھ لیتے ہیں اور ایسے پوچھتے ہیں کہ بعض اوقات پورا شجرہ یاد آ جاتا ہے۔ سمجھانا ہمارا کام ہے اور سمجھنا سمجھداروں کا۔ وہ ہندو کنیا ہے اور کالے جادو کے جال میں جکڑی ہوئی ہے۔ چندوسی کے ہندو پہلے بھی ایک دھوکا کھا چکے ہیں اور نتیجے میں چار اور تین، سات افراد مارے گئے تھے۔ اس لیے عزیز اَز جان، ہوش و حواس قائم کرو تھوڑے کہے کو بہت جانو۔‘‘ فراست نے اس طرح کہا کہ مجھے بے تحاشا ہنسی آ گئی۔ میں دونوں کی شرارت سمجھ گیا، میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’اس ننھی سی عمر میں خود کو بقراط سمجھ لینا دانشمندی نہیں ہے۔‘‘
’’آنکھ نے جو کچھ دیکھا لب پر آ گیا بُرا نہ مانئے گا۔‘‘
’’بہتر ہے۔ کوئی اور نصیحت؟‘‘
’’فی الحال یہ التجا مان لی جائے۔‘‘
’’بہتر۔ دونوں بہن بھائیوں سے وعدہ ہے کہ ایسا کوئی وقت نہیں آئے گا۔‘‘
’’دراصل وہ بے حد خوبصورت ہے۔ ایک نگاہ دیکھنے والے کو مشکل سے سنبھلنا پڑتا ہے۔‘‘ فراست بولا۔
’’آپ لوگوں سے پوجا دیوی کے تعلقات نہیں معلوم ہوتے۔‘‘ میں نے کہا اور فرخندہ اُداس ہوگئی۔
’’یہ بات نہیں ہے وہ میری بہترین سہیلی تھی لیکن اب وہ کسی سے سروکار نہیں رکھتی، بالکل خاموش زندگی گزار رہی ہے۔‘‘ فرخندہ نے کہا۔
’’کیوں اس کی کیا وجہ ہے۔‘‘
’’تفصیل سے بتائوں گا، ویسے ایمانداری سے بتائیں، آپ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے کوئی تیر، تلوار کا حادثہ تو نہیں ہوگیا؟‘‘ فراست بولا۔
’’قطعی نہیں۔ آپ کو بتا چکا ہوں۔‘‘
’’اللہ کا شکر ہے چندوسی کے ایک مسلمان نے پہلے بھی ایک ہندو لڑکی کو پسند کیا تھا اور سارے بندھن توڑ کر اسے مسلمان کر کے اس سے شادی کرلی تھی مگر پھر خوب ہندو مسلم فساد ہوا۔ مسجد کے وہ پیش امام شہید کر دیئے گئے جنہوں نے لڑکی کو مسلمان کیا تھا۔ لڑکے کے دو رشتے دار مارے گئے اور باقی دوسرے ہندو اور مسلمان مارے گئے۔‘‘
’’پوجا کالے جادو کے زیراثر ہے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں۔ یہ کہانی میں تمہیں تفصیل سے سُنائوں گا باہر کوئی ہے، اس لیے اجازت۔ دونوں باہر نکل گئے اور میں ان کی باتوں کو یاد کر کے مسکراتا رہا۔ دونوں شوخ، شریر اور زندگی سے بھرپور تھے۔ رات کو سری رام جی آگئے۔ سلامت علی بھی ساتھ تھے، سری رام مسکرا کر بولے۔‘‘
’’آپ نے تو بالکل چولا بدل لیا میاں جی۔ میں تو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ پہچان ہی نہ سکا تھا مگر یہ اچھا ہوا۔ آپ کا آنا جانا کوئی انوکھی بات نہیں لگے گی۔ آپ نے پوجا کو دیکھا؟‘‘
’’ہاں۔ کیوں نہیں۔‘‘
’’کیا میری مشکل حل ہو جائے گی؟‘‘
’’آپ کو بھگوان پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ میں اپنے معبود سے پُرامید ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ بعد میں، میں ان سے کالی موری کے بارے میں تفصیلات پوچھتا رہا، جاتے ہوئے سری رام نے کہا۔
’’کل آپ ہمارے گھر آئیں گے؟‘‘
’’کل نہیں آئوں گا۔ بس یوں سمجھ لیں جیسے ہی ضرورت پیش آئی آپ کے پاس پہنچ جائوں گا۔‘‘ میں نے جواب دیا اور سری رام خاموش ہوگیا۔ دیر تک وہ میرے پاس بیٹھا رہا پھر چلا گیا۔ دُوسرے دن صبح کا ناشتہ ہوا، فراست کسی کام سے دُوسرے شہر چلا گیا، سلامت علی دوپہر کے کھانے تک موجود تھے۔ کھانے کے بعد انہوں نے بتایا کہ وہ کسی کام سے جا رہے ہیں رات کو واپس آئیں گے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہی باہر نکل آیا تھا۔
’’تم آرام کر کے شام کو نکلتے مسعود میاں، چلچلاتی جھلسا دینے والی دُھوپ پڑ رہی ہے۔‘‘
’’نہیں بس ایسے ہی چندوسی میں گھوموں گا۔‘‘ کچھ دُور جا کر وہ اپنے راستے چلے گئے اور میں رات کو اچھی طرح پوچھے ہوئے کالی موری کے راستے پر۔ درحقیقت چیل انڈا چھوڑ رہی تھی۔ گلیاں اور بازار ویران پڑے ہوئے تھے۔ تانگے والے گھنے درختوں کی چھائوں میں گھوڑے کھول کر خالی تانگوں میں سو گئے تھے۔ میں چلتا رہا اور پھر بستی سے باہر ویرانوں میں نکل آیا۔ پن چکی کی مخصوص آواز پیچھے رہ گئی تھی اور اب بگولے نظر آ رہے تھے جو گرم ہوا کے بھنور میں چکراتے ہوئے اس طرح گزر جاتے جیسے کوئی انسان ان میں چھپا ہوا ہو۔ کھیت کٹے پڑے ہوئے تھے، تاحدِ نگاہ کوئی انسان نہیں نظر آ رہا تھا۔ وہ شمشان گھاٹ نظر آ گیا جس کے انتہائی سرے پر کھنڈرات بکھرے ہوئے تھے۔ یہ کالی موری کے کھنڈرات تھے مگر فاصلہ بہت زیادہ تھا، درمیان میں جگہ جگہ درخت بکھرے ہوئے تھے جن کی چھائوں میں لومڑیاں آرام کرتی نظر آ جاتیں مگر ہلکی سی آہٹ پر وہ اُچھل کر دوڑ پڑتی تھیں۔ جگہ جگہ جلی لکڑیوں کی راکھ اور جلی ہوئی انسانی ہڈیوں کے ڈھیر نظر آ رہے تھے پھر ایک درخت کی چھائوںمیں، میں نے ایک رنگین لباس متحرک دیکھا۔ کوئی انسان تھا۔ میں تیزی سے چل پڑا اور اس کے قریب پہنچ گیا، کچھ فاصلے سے ہی میں نے رونے کی آوازیں سن لی تھیں۔ آواز نسوانی تھی، حیرانی ہوئی اس کے سامنے آ گیا۔ کوئی دیہاتی لڑکی تھی جس نے خوبصورت رنگین گھاگھرا اور چولی پہنی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ خوف زدہ ہو کر کھڑی ہوگئی۔ اس نے ایک پوٹلی سینے میں بھینچ لی تھی اور سہمی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ بے حد حسین لڑکی تھی۔ عمر اٹھارہ سال سے زیادہ نہیں ہوگی، حسین ترین نقوش دُھوپ سے تمتما رہے تھے، کھلے ہوئے بدن کے حصے پسینے میں ڈُوب گئے، وہ رو رہی تھی۔
’’تم کیا کر رہی ہو؟‘‘
’’رستہ بھول گئے ہیں۔ ہمار مرد بچھڑ گیا ہے ہم سے، تم ڈکیت رہو، ہمکا لوٹو گے کا!‘‘ اس نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔
’’نہیں۔ مگر تمہارا مرد کیسے بچھڑ گیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہمکا کا معلوم۔ ہمیں تو ڈر لگ رہا ہے دیکھو تم یہ سارے گہنے لے لو ہم سے ہماری جان نہ لینا بس۔ یہ لو…! اس نے سینے سے لپٹی ہوئی پوٹلی پھینک دی اور وہ کھل گئی۔ اس میں سے بہت سے سونے اور چاندی کے زیورات گر کر جگمگانے لگے۔ میں نے ایک نگاہ انہیں دیکھا پھر اسے دیکھنے لگا۔ اس کی نگاہیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ چہرے پر لگاوٹ بھری مسکراہٹ تھی، میں چونک پڑا۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’تم ہو سندر، ہمرے مرد سے کہیں اچھے، کڑیل جوان۔ آئو چھائوں میں آ جائو۔ دُھوپ میں بیمار پڑ جائو گے۔ آ جائو نا۔‘‘ وہ ناز سے بولی اور بڑے بے ڈھنگے انداز میں درخت کی جڑ کے قریب پھیل کر نیم دراز ہوگئی۔ میں نے ایک دَم چہرہ گھما لیا کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ عجیب دُہری کیفیت کی شکار لڑکی تھی۔ کچھ لمحات کے بعد میں نے کہا۔
’’دیکھو، سامنے چندوسی شہر ہے تم وہاں چلی جائو اور۔‘‘ میں نظریں جھکائے ہوئے تھا مگر اس طرح بھی مجھے اس کے پائوں نظر آ رہے تھے۔ پہلے تو غور نہیں کیا مگر دُوسرے لمحے دماغ میں چھنّاکا سا ہوا۔ اس کے پیروں کے پنجے سامنے نہ تھے بلکہ پیچھے کی سمت مڑے ہوئے تھے، پچھل پیری، چڑیل، میرے ذہن میں آیا۔
دوسرے لمحے میں نے چونک کر اس کا چہرہ دیکھا۔ کم بخت بے حد حسین تھی۔ کوئی بھی بری فطرت کا انسان اس کا یہ حسن جمال دیکھ کر فریب کھا سکتا تھا۔ وہ بدستور مسکراتی نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میرے ذہن میں فوراً ہی کلام الٰہی کی ایک آیت ابھری اور بے اختیار میرے ہونٹوں تک آگئی۔ آیت پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک اس نے چیخ ماری اور اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ اس کا سانس تیز چلنے لگا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔
’’کا کرے ہے رے؟‘‘ اس نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پوچھا۔ میرا ورد جاری تھا۔ اچانک اس کا تمتماتا لال بھبھوکا چہرہ تاریک پڑنے لگا۔ پھر اس کی آنکھ میں گڑھا نمودار ہوگیا، ہونٹ مڑ گئے، رنگ کوئلے کی طرح سیاہ ہوگیا۔ اس نے دوسری زوردار چیخ ماری اور کہا۔
’’ارے دیا رے دیا۔ یہ تو پاپی مسلّیٰ ہے۔ ارے او جھمبردا… رے جھمبردا رے۔ ارے دیکھ ای سسروا مسلّیٰ ہمکا مارے ہے، مارے جھمبردا…‘‘ وہ دہری ہوکر بل کھانے لگی۔ اسی وقت درخت کی ایک شاخ پر دو پائوں نظر آئے اور دوسرے لمحے کوئی درخت سے نیچے کود گیا۔ یہ ایک کالے رنگ کا توانا آدمی تھا لیکن اس کا سارا بدن موجود تھا البتہ سر، شانوں پر موجود نہیں تھا۔ وہ سرکٹا تھا۔
’’ارے دیکھ ای کا۔ دیکھ سسروا کو۔‘‘ عورت چیخی اور کٹے سر والا میری طرف لپکا لیکن دو قدم آگے بڑھ کر رک گیا۔
’’اری رام دئی ری۔ جرا ہمار کھوپڑیا دیجو۔‘‘ ایک آواز ابھری۔ چڑیل جو مسلسل بل کھا رہی تھی، رک گئی۔ اس نے ایک جھولی اٹھائی اور اس میں سے کچھ نکالنے لگی۔ یہ ایک انسانی سر تھا۔ کالا چہرہ، خدوخال موٹے اور بھدے! آنکھیں گہری سرخ، سر گھٹا ہوا، درمیان میں چوہے کی دم جیسی اٹھی ہوئی چوٹی۔ عورت نے انسانی سر اس کی طرف بڑھا دیا جسے اس نے دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور اپنے شانوں پر رکھنے لگا۔ مگر اس نے سر الٹا رکھ لیا تھا۔ اس کا سینہ سامنے تھا اور چہرہ دوسری طرف… پھر وہ بولا۔ ’’کون ہے ری رام دئی۔ ادھر کو تو ہونا رے۔‘‘
’’ہت تیرا ستیاناس…! ارے کھوپڑیا تو الٹی ٹانگ لئی ہے تے نے… ادھر ناہیں ادھر۔‘‘ عورت نے کہا اور مرد گھوم گیا۔ وہ سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا اور میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے تھا۔ دلچسپ تماشا تھا۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک اس کا کام تمام ہوچکا ہوتا۔ مگر میں پرسکون تھا۔ اب ایسے خوفناک مناظر میرے لیے غیر اہم ہوگئے تھے اور میرے اندر ایک انوکھی قوت بیدار ہوگئی تھی جسے میں خود بھی کوئی نام نہیں دے سکا تھا۔ مرد مجھے گھورتا رہا پھر اس کی پھٹی پھٹی آواز ابھری۔
’’کا بات ہے رے۔ کاہے ہمار جنانی کو ستائے ہے؟ ہمکا نا جانت ہے۔‘‘
’’تو بھی مجھے جان لے۔‘‘ میں نے کسی غیر محسوس قوت کے زیراثر کہا اور ایک قدم آگے بڑھا۔ اس نے گھبرا کر عورت کا ہاتھ پکڑ لیا اور خوف زدہ لہجے میں بولا۔
’’کوئی بکٹ رہے بھئی، بھاگ۔‘‘ عورت کا چہرہ بے حد بھیانک ہوگیا تھا۔ ایک آنکھ کی جگہ گہرا گڑھا نمودار ہوگیا تھا۔ دانت باہر نکل آئے تھے، بدن کے کھلے ہوئے حصوں سے ہڈیاں جھانک رہی تھیں مگر اس کے زیورات ویسے ہی تھے۔ دونوں پلٹ کر بھاگے۔ مرد الٹا ہی بھاگ لیا تھا۔ عورت اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھی۔ میں سکون سے دونوں کودیکھتا رہا۔ چند قدم دوڑنے کے بعد ہی وہ دونوں غائب ہوگئے۔ میں نے مسکراتے ہوئے گردن ہلائی۔ پھر اچانک ہی مجھے اپنی بے خوفی کا احساس ہوا۔ مجھے اس خوفناک صورتحال کا کوئی احساس نہیں ہوا تھا بلکہ میں نے یہ سب کچھ بہت معمولی سمجھا تھا۔ فضل بابا کی سرگوشی ابھری۔
’’اب بھی حیران ہورہے ہو مسعود…؟ بار بار بھول جانا بری بات ہے۔‘‘ یہ آواز میں نے صاف سنی تھی۔ آس پاس کوئی موجود نہیں تھا۔ آواز پھر ابھری۔ ’’تمہیں سپاہی بنایا گیا ہے۔ اپنے فرائض ذمہ داری سے سرانجام دو اور تم جانتے ہو ایک سپاہی کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے۔ بس! اس کے بعد کسی کو آواز نہ دینا۔‘‘
میں ساکت رہ گیا۔ اس سے زیادہ کھلے الفاظ اور کیا ہوسکتے تھے۔ مجھے آخری تلقین کی گئی تھی۔ دل کی کیفیت عجیب سی ہوگئی۔ بے اختیار بیٹھ جانے کو جی چاہا اور میں بیٹھ گیا۔ درخت کے نیچے کافی ٹھنڈک تھی اور اس چلچلاتی دھوپ میں یہ ٹھنڈک بڑی دلکش لگ رہی تھی۔ وہ الفاظ جو مجھ سے کہے گئے تھے، روح میں مسرت کی لہریں بیدار کررہے تھے، ساتھ ہی ساتھ ایک سپاہی کی ذمہ داری کا احساس بھی دلا رہے تھے۔ مجھے بہت سے کام سرانجام دینے تھے۔ سب کچھ بھول کر ماضی میں جو کچھ ہوا تھا، وہ تو ایک ایسی کہانی تھی کہ اس پر ذہن دوڑایا جاتا تو ہوش و حواس ہی ساتھ چھوڑتے محسوس ہوتے۔ آہ! نجانے کیا کیا تصورات تھے، نجانے کیا کیا آرزوئیں تھیں لیکن کتنی باتوں کو اپنے ذہن میں دہراتا۔ کہا گیا تھا کہ پہلے پھل چکھوں پھر کھانے کا موقع ملے گا۔ شکر ہے کہ امتحان کا دور ختم کردیا گیا تھا۔ جو گناہ کئے تھے، ان کی سزا شاید پوری ہوگئی تھی اور اب اس کے بعد قرض چکانا تھا۔ ممکن ہے کبھی یہ قرض ختم ہوجائے اور اس کے بعد موسم بہار کا آغاز ہو۔ آہ! موسم بہار کے مہمانو…! میری آنکھیں شدت سے تمہاری منتظر ہیں لیکن ابھی پھل کھانے کا وقت نہیں آیا، ابھی قرض کی ادائیگی ہوجائے۔ چشم تصور سے ماں کو دیکھا۔ باپ اور بہن، بھائی کو دیکھا۔ ماموں ریاض بھی دل میں آئے اور ان سب کے تصور سے دل کو بڑی ڈھارس ہوئی۔ ان کے بارے میں خود سے کوئی سوال نہیں کیا تھا جبکہ سارے سوالات کے جواب اندر موجود تھے۔ یہی امتحان تھا اور یہی قرض ادا کرنا تھا۔ یہ پرچے حل ہوجائیں تو پھر اپنے آپ پر غور کروں۔ ہاں! اس وقت تک کے لیے سب کو بھلانا ضروری ہے اور یہ بات بھی مجھے ذمہ داریاں سونپنے والوں ہی کو بتانی پڑے گی کہ کب امتحان کا دور ختم ہوگا۔ مگر ابھی تو آغاز ہی ہوا ہے۔ نجانے کتنی دیر اس طرح گزر گئی۔ چلچلاتی دھوپ مسلسل حشر سامانیاں برپا کررہی تھی۔ اس کا احساس ہورہا تھا۔ کبھی کبھی چیلوں کی آواز آجاتی تھی۔ اچانک ذہن اس طلسم سے نکل آیا۔ میں بیٹھا کیوں ہوں، مجھے جائزہ لینا ہے کالی موری کے ان کھنڈرات کا جہاں ان جادوگروں نے اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔ سفلی علوم کے یہ ماہر بھی کیا انوکھی چیز ہیں۔ ایک باقاعدہ نظام ہے ان کا اور اب اس کے بارے میں مجھے مکمل طور پر معلوم ہوچکا تھا۔ بھوریا چرن کالے علم کا سب سے بڑا ماہر بننا چاہتا تھا اور اس نے اس کے لیے اپنی تمام تر کارروائیوں کے ساتھ مجھے بھی اس جنجال میں پھنسا دیا تھا۔ سب کو دیکھ لوں گا۔ سب کو دیکھ لوں گا۔ اپنی جگہ سے اٹھا اور بے خودی کے سے عالم میں آگے بڑھ گیا۔ بہت فاصلے پر بڑ کے درختوں کا ایک طویل و عریض سلسلہ چلا گیا تھا۔ دور سے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بہت سے درخت سر جوڑے کھڑے ہوں۔ انہی درختوں کے دامن میں گنگولی نے اپنا ٹھکانہ بنایا تھا۔ ہو کا عالم طاری تھا۔ اول تو یہ علاقہ ہی چندوسی کا ایک ایسا حصہ تھا جو بالکل بے مصرف تھا اور ادھر سے انسانوں کا گزر ہی نہیں ہوتا تھا۔ دوم یہ کہ تیز دھوپ اور شدید گرمی نے ماحول کو آگ بنا رکھا تھا اور بھلا آگ کے اس سمندر میں جھلسنے کے لیے کون گھر سے باہر نکلے۔ بڑ کے درختوں کے نیچے بڑی گھنی چھائوں تھی۔ میں نے وہاں کچھ چیزیں رکھی دیکھیں۔ برتن تھے، کالے رنگ کا ایک کمنڈل تھا، کچھ گدڑیاں سی پڑی ہوئی تھیں اور ایسی ہی نجانے کیا کیا چیزیں…! میں ابھی ان چیزوں کے سامنے ہی پہنچا تھا کہ درختوں کے عقب سے لمبے چوڑے جسم والا ایک سادھو نما شخص باہر نکل آیا۔ شکل و صورت عام سادھوئوں سے مختلف نہیں تھی۔ بکھرے ہوئے مٹی میں اٹے ہوئے بال، بڑھی ہوئی داڑھی، اس کے بدن پر ریچھ کی طرح لمبے لمبے سیاہ بال تھے۔ لباس بہت مختصر پہنا ہوا تھا۔ دھوتی ہی کا ایک پلو اٹھا کر کندھے پر ڈال لیا گیا تھا۔ لکڑی کی کھڑائوں پہنے ہوئے تھا۔ کھٹ کھٹ کرتا ہوا بڑ کے درخت کے چوڑے تنے کے پیچھے سے باہر نکل آیا اور اپنے بھنچے ہوئے پتلے پتلے ہونٹوں کو مزید بھینچ کر مجھے گھورنے لگا۔ اس کی آنکھیں بہت سفید تھیں اور پتلیاں بہت چھوٹی چھوٹی! ایک عجیب سی کیفیت ان آنکھوں میں پائی جاتی تھی۔ وہ مجھے دیکھتا رہا۔ پھر بولا۔
’’کیا بات ہے، کون ہے تو اور ادھر کیوں آیا ہے؟‘‘
’’گنگولی ہے تیرا نام…؟‘‘
’’ہاں! گنگولی ہی ہوں۔ کیسے جانتا ہے مجھے…؟‘‘
’’گنگولی میں تجھ سے سری رام کی بیٹی کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’سری رام نے بھیجا ہے تجھے…؟‘‘
’’اپنے کالے جادو سے معلوم کر۔‘‘
’’کالے جادو کا نام مت لے بے وقوف۔ اگر تو نے مجھے کالے جادو کی طرف لوٹا دیا تو تیرا کیا بنے گا؟‘‘
’’تو پھر ٹھیک ہے۔ بس یوں سمجھ لے کہ میں اسی کام سے یہاں آیا ہوں۔ تجھے جس مقصد کے لیے بلایا گیا تھا، وہ پورا کرنے کے بجائے تو سری رام کی بیٹی کے چکر میں پڑ گیا۔‘‘ میرے ان الفاظ پر گنگولی ہنس پڑا۔ بڑا مکروہ قہقہہ تھا اس کا! ہنسنے کے بعد وہ بولا۔
’’دیکھا ہے اسے؟‘‘
’’ہاں دیکھا ہے۔‘‘
’’پھر بھی یہ بات کررہا ہے۔‘‘
’’وہ تم لوگوں کی ملکیت تو نہیں ہے۔ آخر تم نے ایک شریف آدمی کو کیوں پریشان کررکھا ہے؟‘‘
’’شریف آدمی… ارے چھوڑ… چھوڑ، اپنی کہہ! میرے پاس سوداگر بن کے آیا ہے یا بیچ کا آدمی؟‘‘
’’نہ میں سوداگر بن کر آیا ہوں، نہ بیچ کا آدمی، تو یوں کر گنگولی کہ اپنا یہ سازوسامان اٹھا کر یہاں سے بھاگ جا ورنہ کیا پتا نقصان اٹھا جائے۔‘‘ اس نے گھور کر مجھے دیکھا۔ دیکھتا رہا۔ پھر ہنس پڑا اور بولا۔
’’میاں جی ہو، یہ بات ہے۔ سوچا ہی نہیں تھا ہم نے اب تک، ارے میاں جی! کس پھیر میں پڑ گئے تم۔ جادو نگری ہے یہ… جائو، جائو اپنا کام دیکھو، ہمیں ہمارا کام کرنے دو۔ جس شریف آدمی کی تم بات کررہے ہو نا، وہ ضرورت سے زیادہ ہی شریف ہے۔ جائو… جائو بھاگ جائو۔‘‘
’’دیکھ گنگولی یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ میں تجھے سمجھانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اور اس کے بعد کیا کرو گے؟‘‘
’’اس کے بعد جو کچھ کروں گا، وہ تیرے لیے اچھا نہیں ہوگا۔‘‘
’’ہمارے لیے کیا اچھا ہے، کیا برا یہ تم کیا جانو۔ جائو پہلے اپنی خیر منائو۔ ذرا یہاں سے واپس جاکر دکھا دو…‘‘
’’تُو تو میری بات نہیں مانے گا…‘‘
’’نہیں مانیں گے سمجھے، جائو چلے جائو۔ آگے بڑھو، دوپہر کا وقت ہے، آرام کرنے کا وقت، تم نے یہاں آکر خواہ مخواہ ہمیں پریشان کردیا۔ جاتے ہو یا پھر واپس بھجوائیں تمہیں۔‘‘ گنگولی نے کہا اور میں پرسکون نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا۔
’’سات دن دے رہا ہوں تجھے گنگولی! صرف سات دن! اور یہ سات دن بہت ہوتے ہیں۔ سات دن میں اگر تو یہاں سے نہ گیا تو اسی جگہ تجھے راکھ کرکے رکھ دوں گا۔‘‘گنگولی پھر ہنسا اور بولا۔
’’ابھی غصہ نہیں آیا ہمیں، ابھی تو ہم اپنا کام کررہے ہیں اور اچھی بات ہے ذرا میاں جی تمہارے کس بل بھی دیکھ لیں گے۔ چلو بس اب جائو، بات ہوگئی نا ہماری۔‘‘ میرا انتظار کیے بغیر وہ مڑا اور واپس درخت کے پیچھے چلا گیا۔ میں چند لمحات سوچتا رہا اور پھر گردن ہلا کر وہاں سے واپس پلٹ پڑا۔ مجھے جو کہنا تھا، میں نے اس سے کہہ دیا تھا۔ ان سات دنوں کے اندر اندر اگر ان لوگوں نے اپنے ڈیرے نہ اٹھا دیے تو پھر جو کچھ بھی کرسکوں گا، ضرور کروں گا۔
دو قدم آگے بڑھا تھا کہ دفعتاً ہی ایک گہرا گڑھا نظر آیا۔ میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ گڑھے کی چوڑائی کوئی آٹھ فٹ کے قریب تھی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہ گڑھا موجود نہیں تھا، اب پڑ گیا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی تھی لیکن پھر دوسرے لمحے میں نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور گڑھا عبور کرگیا۔ دس بارہ قدم آگے بڑھا تھا کہ پھر ویسا ہی ایک گڑھا نظر آیا۔ میں حیرانی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ یہ گڑھا تقریباً بارہ فٹ چوڑا تھا۔ آٹھ فٹ لمبی چھلانگ تو میں نے جس طرح بھی بن پڑا، لگا ڈالی تھی لیکن اب یہ احساس ہورہا تھا کہ یہ خاصا چوڑا گڑھا ہے۔ دفعتاً ہی میرا ذہن جیسے مفلوج سا ہوگیا اور میں نے آنکھیں بند کرکے آگے قدم بڑھا دیے۔ میں اس گڑھے پر پائوں جماتا ہوا اسے عبور کر گیا۔ جب تقریباً اندازے سے بارہ، چودہ فٹ آگے بڑھ گیا تو میں نے آنکھیں کھول دیں اور پیچھے مڑ کر اس گڑھے کو دیکھنے لگا لیکن گڑھا پیچھے نہیں، آگے تھا اور اب میرے اندر ایک ایسی انوکھی قوت بیدار ہوگئی تھی جس کا میں خود کوئی تجزیہ نہیں کر پا رہا تھا۔ یہ گڑھے میرا راستہ روکتے رہے لیکن میں انہیں بڑے اطمینان سے عبور کرتا رہا۔ اب تو میں چھلانگ بھی نہیں لگا رہا تھا۔ پیروں کے نیچے زمین نہ ہوتی لیکن میرے قدم آگے بڑھتے رہتے اور تھوڑی ہی دیر کے بعد میں ان کھنڈرات کے سامنے تھا جو کالی موری کے کھنڈرات کہلاتے تھے۔ میری ذہنی قوت اس وقت کچھ عجیب سی ہورہی تھی۔ بس کام کی باتیں سوچ رہا تھا، دوسری کوئی بات ذہن تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ کالی موری کے کھنڈرات دھوپ میں جل کر سیاہ ہوچکے تھے۔ غالباً شبنم کی نمی اور دھوپ کی تیزی نے انہیں یہ رنگ بخشا تھا۔ میں اندر داخل ہوا اور کھنڈرات میں ایک چوڑے در کو عبور کرکے اندر پہنچ گیا پھر میرے حلق سے آواز نکلی۔
’’گووندا… او گووندا! کہاں چھپا پڑا ہے؟ سامنے آ… سامنے آ!‘‘ میں اپنی آواز کی بازگشت محسوس کرتا رہا۔ پھر میں نے دوسری بار اسے آواز دی اور تھوڑی ہی دیر کے بعد کھڑبڑ کی آوازیں آنے لگیں لیکن جو چیز میرے سامنے آئی، وہ بڑی عجیب و غریب تھی۔ یہ ایک لمبا چوڑا بیل تھا جس کے پورے جسم پر کالے کالے دھبے پڑے ہوئے تھے لیکن اس کا چہرہ انسانی تھا البتہ اس چہرے پر دو سینگ اُگے ہوئے تھے۔ اتنے اونچے اونچے سینگ کہ کسی بیل کے سر پر اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے ہوں گے۔ وہ نتھنوں سے آوازیں نکال رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہی پھنکاریں سی گونج رہی تھیں۔ اس نے مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوکر اپنے دونوں پائوں زمین پر مارے اور زمین کریدنے لگا۔ پھر اس نے بدن کو تھوڑا سا نیچے جھکایا اور اس کے بعد ایک طوفانی دھاڑ کے ساتھ میری جانب لپکا۔
اس کے لمبے چوڑے جسم کو دیکھ کر ایک لمحے میں یہ احساس ہوا تھا کہ اگر وہ مجھ پر آپڑا تو میری ہڈیاں تک سرمہ بن جائیں گی لیکن میں نے دونوں ہاتھ سامنے کئے اور اس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے گردن جھکا کر میرے سینے پر زور دار ٹکر مارنا چاہی لیکن اس کے دونوں سینگ میرے ہاتھوں میں آگئے اور دوسرے لمحے میرے اور اس کے درمیان طاقت آزمائی شروع ہوگئی۔ میں پوری طاقت سے اس کے سینگوں کو داہنی جانب موڑ رہا تھا اور وہ اپنے جسم کی قوت صرف کررہا تھا۔ زمین پر اس کے پیروں کے نیچے آنے والی اینٹیں چُورچُور ہوتی جارہی تھیں لیکن وہ مجھے ایک قدم بھی پیچھے نہیں دھکیل پایا تھا۔ یہاں تک کہ میں نے اس کی گردن پوری طرح موڑ دی اور اس کا قوی ہیکل جسم بڑی تیز آواز کے ساتھ زمین پر آرہا۔ میں نے اسے پٹخ دیا تھا۔ بہت زور دار آواز ہوئی تھی اور بیل گرنے کے بعد پھر نہ اٹھ سکا تھا اور ہاتھ، پائوں مار رہا تھا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس کا جسم چھوٹا ہوتا جارہا تھا۔ میں اپنی جگہ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اچانک ہی مجھے پیچھے سے آواز سنائی دی۔
’’کون ہے تو یہاں کیا کررہا ہے؟‘‘ میں ایک دم گھوم گیا۔ تب میں نے ایک نوجوان آدمی کو دیکھا۔ باریک ململ کا کرتا اور دھوتی پہنے ہوئے تھا۔ بال سلیقے سے بنے ہوئے تھے، چہرہ بھی خوبصورت تھا۔ میں اس کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوگیا۔ ’’تو گووندا ہے؟‘‘
’’ہاں! مگر تو کون ہے؟‘‘
’’ابھی تک تیرا دشمن نہیں ہوں، اگر تو میری بات مان لے۔‘‘ وہ میرا چہرہ دیکھتا رہا۔ پھر اچانک مسکرا پڑا اور بولا۔
’’آ اندر آجا… آجا وعدہ کرتا ہوں کہ تجھ سے بات کروں گا اور تجھے کوئی نقصان نہ پہنچائوں گا۔ آجا مرد بچہ ہوں، وچن دے رہا ہوں تجھے۔‘‘ میں نے پلٹ کر بیل کو دیکھا اور چونک پڑا۔ وہ اب وہاں موجود نہیں تھا۔ لمبا چوڑا بیل غائب ہوگیا تھا۔ گووندا نے کہا۔ ’’وہ میرا بیر تھا، تجھے نقصان نہ پہنچاتا۔ بس ڈرا رہا تھا۔ یہ وقت ہم کالے جادو والوں کے لیے گیان کا ہوتا ہے اور ہم کسی سے ملتے نہیں۔ میں نے بیر اس لیے چھوڑے ہیں کہ ضرورت مند لوگ ہر وقت آجاتے ہیں مگر تو نے میرا بیر ہی مار گرایا۔ چل آجا اندر آجا…!‘‘ وہ واپس مڑ گیا۔ میں اس کے ساتھ کھنڈرات کے دوسرے حصے میں آگیا۔ اندر ایک جگہ بالکل درست حالت میں تھی مگر وہاں کوئی چیز نہیں تھی بس چند پتھر پڑے ہوئے تھے البتہ جگہ بالکل ٹھنڈی تھی۔
’’بیٹھ جا…!‘‘ گووندا نے پھر کہا اور میں ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔
’’میرا علم بتاتا ہے کہ تو مسلمان ہے۔‘‘
’’الحمدللہ!‘‘
’’یہاں کیوں آیا ہے؟‘‘
’’تجھ سے بات کرنے۔‘‘
’’کیا بات کرنے؟‘‘
’’تو پوجا وتی کا پیچھا چھوڑ دے۔‘‘
’’اوہ۔ تیرا اس سے کیا سمبندھ ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ بس وہ ایک انسان ہے۔‘‘
’’بس… یا اور کچھ؟‘‘
’’نہیں بس یہی بات ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’انسان تو میں بھی ہوں مورکھ! اگر بات صرف انسانیت کی ہے تو تجھے میرا بھی خیال کرنا چاہیے۔ میں بھی تو انسان ہوں۔‘‘
’’تجھے کیا تکلیف ہے گووندا۔ تو اچھا خاصا ہے۔ جو کچھ میں نے تیرے بارے میں سنا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ تو نے گندے علم کا کاروبار کررکھا ہے اور لوگوں کو تجھ سے نقصان پہنچتا ہے۔‘‘ گووندا ہنس پڑا۔ پھر بولا۔
’’ایک طرف کی سن کر دوڑ پڑے مہاراج کمار گووندا پر! گووندا کے بارے میں بھی انہی لوگوں سے پوچھ لیتے جو اب کراہ رہے ہیں مگر تمہیں کیا پڑی۔ خیر اب ہمیں بتائو ہمارے پاس کیسے آئے ہو؟ ایک بیر کو پچھاڑ مارنا کوئی کارنامہ نہیں، کسی خوش فہمی کا شکار مت ہوجانا۔ ہمارا تم سے کوئی جھگڑا نہیں، ابھی تک کسی مسلمان کو ہمارے ہاتھوں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ہمیں اس کے لیے مجبور مت کرو۔‘‘
’’میں صرف یہ چاہتا ہوں گووندا کہ تو پوجا کا پیچھا چھوڑ دے باقی تو جو کچھ کررہا ہے، اس سے مجھے سروکار نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا اور وہ ہنسنے لگا۔ پھر بولا۔
’’واہ رے میاں مٹھو! جو پڑھایا گیا ہے تجھے، وہی بول رہا ہے۔ ارے کہاں سے پکڑا گیا ہے تجھے اور کس نے پکڑا ہے؟ کیا سری رام نے، اب وہ دوسرے دھرم والوں سے مدد لینے دوڑ پڑا ہے؟ ارے بھائی! ہمارے جیون کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے پوجا۔ پوجا کے لیے ہی تو ہم نے یہ ناٹک رچایا ہے سارا۔ تجھے معلوم تو کچھ ہے
نہیں بس طوطے کی طرح پڑھا اور آگیا ہمارے سامنے۔‘‘
’’تو پوجا کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے آخر…؟‘‘
’’عمر تو تیری بھی زیادہ نہیں ہے۔ پریم کیا ہے کبھی تو نے…؟‘‘
’’تو تو پوجا سے محبت کرتا ہے مگر کیسا عاشق ہے یار! تیری پوجا کا ایک اور دعویدار تجھ سے کچھ فاصلے پر پڑا ہوا ہے اور وہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ پوجا کو حاصل کرکے چھوڑے گا۔‘‘ گووندا ایک دم سنجیدہ ہوگیا۔ پھر اس نے غراتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’وہ پوجا کے چرنوں کی دھول بھی نہ پا سکے گا۔ اس کے پاس ہے کیا۔ ایک لونا چمارن کا جاپ کرلیا ہے اس نے۔ بس یہی اس کا گیان ہے۔ جب چاہوں گا اس کا ناس کردوں گا۔‘‘
’’تو ایسا نہیں کرسکتا گووندا۔ ابھی میں اس کے پاس بھی گیا تھا۔‘‘ میں نے کہا اور وہ مجھے گھورنے لگا۔ پھر اس کا انداز بدل گیا۔
’’گن کے پکے لگتے ہو میاں جی! دیکھو سمجھا رہے ہیں تمہیں۔ ہماری کہانی دوسری ہے، اس پھیر میں مت پڑو۔ ہوسکتا ہے تمہارے پاس گیان ہو۔ ہم سے جھگڑا مت کرو۔ ہم نے بڑی تپسیا کی ہے، بڑے دکھ اٹھائے ہیں ہم نے۔ ہمارا علم کالا ہے، ہم مانتے ہیں اور ہم تمہارے علم کا احترام کرتے ہیں۔ تم سے جھگڑا نہیں کرنا چاہتے۔ جہاں تک گنگولی کا معاملہ ہے تو لگتا ہے اب بات بڑھ گئی ہے۔ سری رام اپنی ہٹ میں اپنی بیٹی کو نقصان پہنچا دے گا۔ اس لیے… اس لیے پہلے ہم گنگولی کو ٹھکانے لگائے دیتے ہیں۔ دیکھنا چاہو تو رات کو آجانا۔ نہ آسکو تو کل جاکر اس کا استھان دیکھ لینا۔ کل وہ تمہیں وہاں نہ ملے گا، جہاں ہے۔‘‘
’’اب تک تو نے ایسا کیوں نہیں کیا؟‘‘
’’بس نہیں کیا، اب کرلیں گے۔ مگر اس کے بعد تم ہمارا سامنا مت کرنا۔ ہم تم سے بنتی کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے تمہارا علم ہم سے بڑا ہو۔ ہم کبھی کسی مسلمان کے علم سے نہیں ٹکرائے۔ اگر تم نے مجبور کیا تو مقابلہ کریں گے تمہارا۔ ہاریں یا جیتیں، یہ الگ ہے مگر جان لڑا دیں گے۔ جیتے جی ہار نہ مانیں گے۔ بس اب جائو۔ ہم نے تم سے کوئی بری بات نہیں کی ہے مگر سری رام کے جھگڑے میں مت پڑو۔‘‘
’’اگر گنگولی تجھ پر بھاری پڑ گیا گووندا تو…؟‘‘
’’تو ایک یار والی بات کہیں تم سے…؟‘‘
’’کہو…!‘‘
’’تم اپنا علم گنگولی سے لڑا دینا۔ جیتا مت چھوڑنا سسرے کو۔ ورنہ پوجا کو پریشان کرے گا۔‘‘ اس نے دلسوزی سے کہا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’کہاں چلا گووندا…؟‘‘
’’بس مہاراج… اجازت دو…!‘‘ اس نے کہا اور تیزی سے آگے بڑھا۔ چند قدم چلا اور پھر میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ میں اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا تھا۔ پھر اس کے چاروں طرف دیکھا مگر گووندا نظر نہ آیا۔ میں دیر تک وہاں گم صم کھڑا رہا تھا۔ عجیب سی گفتگو کی تھی اس نے، بڑا عجیب لگا تھا وہ مجھے۔ نہ جانے کیسا احساس ہورہا تھا۔ پھر وہاں سے واپسی کے علاوہ کیا کرسکتا تھا مگر راستے بھر گووندا کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ اس جگہ سے بھی گزرا جہاں اس پچھل پہری کو دیکھا تھا مگر اب وہاں کچھ نہیں تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد بستی میں داخل ہوگیا مگر کالے جادو کے دونوں ماہروں سے یہ ملاقات بہت دلچسپ تھی۔ گووندا نے جو دعویٰ کیا تھا، وہ بھی بے حد دلچسپ تھا اور بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ رات کو میں یہاں موجود نہ ہوں۔
سلامت علی صاحب کے مکان میں داخل ہوا تو سورج ڈھل رہا تھا۔ فرخندہ بیگم سامنے آگئیں۔
مجھے گھورتے ہوئے بولیں۔ ’’غضب خدا کا۔ یہ آپ کہاں آوارہ گردی کرتے پھر رہے ہیں جناب! ذرا آئینہ دیکھئے چہرہ دھوپ سے کالا پڑ گیا ہے۔ میں کہتی ہوں یہ دھوپ میں باہر نکلنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی آپ کو۔ لو لگ جاتی تو کیا ہوتا۔ بیمار پڑنا ہے؟‘‘
’’بس یونہی آپ کا چندوسی دیکھنے نکل گیا تھا فرخندہ۔‘‘ میں نے معذرت آمیز لہجے میں کہا۔
’’سنئے مسعود صاحب۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہاں آپ کا کوئی سرپرست موجود نہیں ہے۔ جو چاہیں گے، کریں گے۔ کس سے پوچھ کر باہر نکلے تھے آپ؟‘‘ فرخندہ سخت لہجے میں بولی۔
’’کیا بکواس کررہی ہے فرخندہ۔ دماغ خراب ہوگیا ہے۔ یہ تو مسعود میاں سے کس لہجے میں بات کررہی ہے؟ ارے پاگل ہوگئی ہے کیا۔‘‘ نہ جانے کہاں سے سلامت علی نکل آئے۔ انہوں نے فرخندہ کے الفاظ سن لیے تھے۔
’’کوئی غلط کہہ رہی ہوں ابو۔ آپ ان کا چہرہ خود دیکھ لیں۔ آخر یہ دھوپ میں کیوں نکلے تھے۔‘‘ فرخندہ بلاجھجھک بولی۔
’’تو کون ہوتی ہے۔ میں دماغ ٹھیک کردوں گا تیرا۔ معاف کردیں مسعود میاں، معاف کردیں۔ نہ جانے کس جھونک میں یہ بکواس کرگئی۔ آئندہ میں اسے سمجھا دوں گا۔‘‘ سلامت علی پریشانی سے بولے۔
’’نہیں سلامت علی صاحب۔ خدا کے لیے نہیں۔ آپ، آپ ان الفاظ اور لہجے کی قیمت نہیں جانتے۔ آہ! خوش نصیبوں کو یہ ڈانٹ ملتی ہے۔ مجھ سے میری یہ خوش بختی نہ چھینیں۔ آپ نے مجھے فراست کا درجہ دیا ہے۔ ہم بہن، بھائی کے درمیان نہ آئیں…!‘‘
’’اوہ! اچھا ٹھیک ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو…!‘‘ سلامت علی شرمندگی سے کہنے لگے۔ فرخندہ اسی طرح تنی کھڑی تھی۔ اتنی پیاری لگی وہ مجھے کہ جی چاہا بڑھ کر پیشانی چوم لوں مگر یہ بھی حکم نہ تھا مجھے۔ اس نے پھر کہا۔
’’چلیے غسل کیجئے۔ میں چائے تیار کراتی ہوں۔‘‘ میں خاموشی سے اندر چل پڑا تھا اور سلامت علی سر کھجاتے رہ گئے تھے۔ غسل کرتے ہوئے میں گووندا کے کردار کے بارے میں سوچتا رہا۔ انوکھا کردار تھا۔ ایک عجیب سا احساس ہورہا تھا مجھے۔ دن بھر کی لو اور تپش کے بعد شام ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ چائے وغیرہ پی لی گئی۔ سات بجے کے قریب سلامت علی میرے پاس آگئے۔
’’دوپہر کو کالی موری گئے تھے مسعود میاں…؟‘‘
’’جی ہاں۔ رات کو بھی جانا ہے۔‘‘
’’اوہ!‘‘ وہ آہستہ سے بولے۔ یوں لگا جیسے کچھ کہنا چاہتے ہوں مگر رک گئے ہوں۔ چند لمحات خاموش رہے
پھر بولے۔ ’’کیا بتائوں مسعود میاں میں خود گھن چکر بن گیا ہوں۔‘‘
’’کیوں سلامت علی صاحب؟‘‘
’’تمہارا وہ احترام نہیں ہورہا جو ہونا چاہیے بلکہ یہ بچے۔ ناواقفیت کی بنا پر اس قدر بے تکلف ہوگئے ہیں کہ مجھے خوف آنے لگا ہے۔ بیٹے! دراصل تمہارا تعارف اس انداز میں ہوا ہے کہ وہ تمہیں سمجھ نہیں پائے ہیں اور پھر تمہاری عمر بھی انہی کے لگ بھگ ہے اور پھر میں خود۔ بھلا یہ باتیں پوچھنے کی ہیں جو میں پوچھ رہا ہوں۔‘‘
’’آپ خود یہ ساری باتیں سوچ رہے ہیں جبکہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ ان لوگوں کی بے تکلفی مجھے اپنے گھر کا ماحول یاد دلاتی ہے اور مجھے اچھا لگتا ہے میں بھی بھائی، بہن اور ماں، باپ والا ہوں۔‘‘
’’وہ لوگ کہاں ہیں؟‘‘ سلامت علی نے بے اختیار پوچھا۔
’’اللہ کی اسی زمین پر…! میں نہیں جانتا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ سلامت علی خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر کے بعد پھر بولے۔ ’’کالی موری رات کو بھی جائو گے؟‘‘
’’ہاں۔ شاید کچھ ہوجائے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ وہ بولے اور میں نے انہیں عجیب سی نظروں سے دیکھا تو وہ جلدی سے بولے۔ ’’میرا مطلب ہے کہ تمہیں تو کوئی نقصان پہنچنے کا خدشہ نہیں ہے۔ افوہ بھئی! نہ جانے کیا کہنا چاہتا ہوں۔ بس اپنا بھی خیال رکھنا۔‘‘
’’جی بہتر!‘‘ میں نے ادب سے جواب دیا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس خوش بختی کو میں نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔ ماں، باپ، بہن، بھائی جدا ہوگئے تھے مگر ان کی محبتوں کی جھلکیاں جگہ جگہ نظر آجاتی تھیں۔ کبھی کسی شکل میں، کبھی کسی شکل میں۔ سلامت علی صاحب بھی بس میرے لیے فکرمند ہوگئے تھے۔ کھل کر کچھ نہیں کہہ پا رہے تھے۔ مطلب یہی تھا کہ کالے جادوگروں سے مجھے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔
عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد رات کا کھانا کھایا اور دل بے چین ہوگیا۔ کالی موری کا فاصلہ بھی زیادہ تھا، چل پڑنا چاہیے۔ فراست کے بارے میں سلامت علی صاحب نے بتایا تھا کہ وہ ایک کام سے بلند شہر گیا ہے اسی لیے وہ نظر نہیں آیا تھا۔ بالآخر میں خاموشی سے گھر سے نکل آیا اور کالی موری کے فاصلے طے کرنا لگا۔ چھوٹے شہر تاریکی کے ساتھ ہی سنسان ہوجاتے ہیں۔ یہی کیفیت چندوسی کی تھی حالانکہ ابھی رات کا آغاز ہوا تھا مگر گلیاں، بازار اس طرح سنسان اور تاریک پڑے تھے جیسے آدھی رات گزر گئی ہو۔ میں چلتا رہا۔ سڑکوں پر کتوں کا راج تھا۔ بھونک رہے تھے۔ لڑ رہے تھے، مگر کوئی مجھ پر نہیں لپکا تھا۔ شہر پیچھے رہ گیا۔ میری رفتار تیز ہوگئی۔ اس جگہ ذرا سی جھجھک ہوئی جہاں چڑیل اور سر کٹا دیکھا تھا مگر اب خاموشی تھی۔ ایک لمحے میں فیصلہ کرلیا کہ گنگولی کی طرف رخ کروں اور اسی طرف میں بڑھا۔ دونوں کے بارے میں اندازہ لگا چکا تھا کہ دونوں ہی سفلی علوم جانتے ہیں۔ اگر گووندا کا دعویٰ درست تھا تو ان کے درمیان جادو کی معرکہ آرائی زبردست ہوگی یا ممکن ہے کہ میرے آنے سے پہلے ہوچکی ہو۔ درختوں کے سلسلے کے پاس رک گیا۔ بس کچھ فاصلے پر گنگولی کا استھان تھا۔ میں ایک درخت کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ اچانک ایک سرسراہٹ سنائی دی اور میں چونک کر آنکھیں پھاڑنے لگا مگر آواز دوبارہ نہ سنائی دی۔ ہوسکتا ہے کوئی گیدڑ یا دوسرا جانور ہو۔ پھر اچانک درختوں کے دوسری طرف روشنی سی نظر آئی اور میں ادھر دیکھنے لگا۔ روشنی متحرک تھی۔ پھر وہ درختوں کے پیچھے سے نکل آئی۔ ایک مشعل روشن تھی لیکن اس سے شعلے نہیں نکل رہے تھے۔ غور سے دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ وہ ایک انسانی کھوپڑی تھی جو ایک ڈنڈے میں اُڑسی ہوئی تھی۔ روشنی اسی سے پھوٹ رہی تھی اور یہ مشعل گنگولی کے ہاتھ میں تھی۔ گنگولی اس وقت دن سے مختلف نظر آیا۔ وہ گلے میں بہت سی کھوپڑیاں ہار کی شکل میں پہنے ہوئے تھا۔ ان کھوپڑیوں کی آنکھوں کے گڑھے بھی روشن تھے۔ وہ تھرکتا ہوا میری طرف بڑھ رہا تھا۔ میں سنبھل گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے میری آمد کا علم ہوگیا تھا۔ اب میں نے اپنے آپ کو چھپانا مناسب نہیں سمجھا اور گنگولی کے سامنے آگیا۔ گنگولی نے ہاتھ سیدھا کیا اور مشعل کے نچلے حصے کو ایک درخت کے تنے میں زور سے مارا اور درخت کا ٹھوس اور مضبوط تنا ایسا نہیں تھا کہ کسی معمولی ضرب سے اس میں سوراخ ہوجائے لیکن مشعل کوئی آٹھ انچ کے قریب درخت کے تنے میں پیوست ہوگئی۔ گنگولی نے اسے چھوڑ دیا۔ آس پاس تیز روشنی پھیل گئی تھی۔
’’ارے میاں جی تم کیوں اپنی جان گنوانے پر تلے ہوئے ہو، بار بار آجاتے ہو۔ یہ بھیروں کا استھان ہے، نجانے کون کون یہاں آتا جاتا ہے۔ کوئی گردن مڑوڑ لے گا۔ اب کیسے آن مرے…؟‘‘
’’بس گنگولی دیکھنا چاہتا تھا کہ تم کیا کررہے ہو؟‘‘
’’ایسے کام نہ دیکھا کرو میاں جی تو ہی اچھا ہے۔ تم نجانے کیا کیا سوچ رہے ہو اپنے من میں، بالی سی عمریا ہے، کھانے پینے کے دن ہیں اور پڑ گئے ہو کالے جادو کے پھیر میں۔ اب تو آگئے ہو، ادھر آئندہ مت آنا۔‘‘
’’دراصل گنگولی تجھ سے کئی باتیں کرنا رہ گئی تھیں۔ سو وہ کرنے چلا آیا۔‘‘
’’ارے شکر کرو کالی راتوں کا موسم ہے۔ نکلا ہوتا چاند تو تمہیں مزہ آجاتا یہاں آنے کا۔‘‘
’’کیوں چاند سے کیا ہوتا…؟‘‘ میں نے سوال کیا اور گنگولی پھر ہنس پڑا۔
’’سبھالگی ہوتی ہے چاندنی راتوں میں، بیروں اور ویروں کی۔ سارے کے سارے اپنی اپنی کتھائیں کہہ رہے ہوتے ہیں، لڑتے ہیں، جھگڑتے ہیں، ایک دوسرے کو نوچتے ہیں، بھنبھوڑتے ہیں اور اگر بیچ میں کوئی آجائے تو اسے بھی چٹ کر جاتے ہیں۔‘‘
’’واقعی یہ تو اچھا ہوا گنگولی کہ چاندنی راتیں نہ ہوئیں۔ اچھا! تم ایک بات بتائو۔ تمہیں پتا ہے کہ گووندا سری رام جی کی بیٹی پوجا کو حاصل کرنے کے چکر میں ہے اور تمہیں اسی کے خلاف یہاں بلایا گیا تھا، تم خود پوجا کے چکر میں پڑ گئے اور تم نے یہاں ڈیرہ ڈال لیا۔ اس طرح ڈیرہ ڈالنے سے کیا تمہیں پوجا مل جائے گی؟‘‘
’’واہ میاں جی واہ! اچھی سوچی، جو یہ سارے بائولے نہیں سوچ سکے۔ میاں جی! گووندا کا اور ہمارا ابھی تک آمنا سامنا نہیں ہوا۔ جانتے ہو کیوں…! ارے ہم نے بھی گووندا کو آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ نہ اس نے ہم پر وار کیا نہ ہم نے اس پر۔ ہم انتظار کررہے ہیں کہ گووندا سری رام کو پریشان کرے اور جب ان کی ناک میں دم آجائے تو وہ دوڑیں ہماری طرف اور ہم پوجا کو ان سے مانگ لیں۔ اگر ہم نے گووندا کو کوئی نقصان پہنچا دیا تو پھر بھلا سری رام کو کیا پڑی کہ ہماری مانے۔ جب تک گووندا ہمیں نہیں چھیڑتا، ہم اسے نہیں چھیڑیں گے۔‘‘
’’اور اگر گووندا کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ تمہارا کیا ارادہ ہے تو کیا وہ تمہیں چھوڑ دے گا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ تو ہونا ہے میاں جی! جھگڑا تو رہے گا ہمارا اس سے… اگر ہمارے من میں پوجا کو حاصل کرنے کا خیال نہ آجاتا تو ہم اس کام کے لیے تو آئے تھے۔ گووندا سے ہماری ٹکر ہوتی مگر تم نے اگر پوجا کو دیکھا ہے تو تمہیں بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ وہ کیسی سندر ہے۔ بات ہم نے بیچ میں اس لیے چھوڑ دی کہ اب اگر جھگڑا ہو گووندا سے، تو پوجا کے لیے ہو۔‘‘
دفعتاً ہی ایک عجیب سی آواز فضا میں ابھری اور ایک بھیانک منظر نگاہوں کے سامنے آگیا۔ گنگولی کی گردن میں کھوپڑیوں کا جو ہار پڑا ہوا تھا، اس میں پروئی ہوئی کھوپڑیوں کے منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکلنے لگی تھیں۔ منمناتی ہوئی آوازیں جو کچھ کہہ رہی تھیں۔ کوئی بھاری آواز، کوئی باریک آواز، کسی کھوپڑی کے منہ سے معصوم بچے جیسی آواز نکل رہی تھی، تو کوئی نسوانی آواز میں چیخ رہی تھی۔ ان کے الفاظ تو سمجھ میں نہیں آئے مگر گنگولی کے انداز سے یہ پتا چلتا تھا جیسے اسے کوئی خاص اطلاع ملی ہو۔ وہ اچانک ہی اچھل کر تھوڑے فاصلے پر پڑے ہوئے ایک بڑے سے پتھر پر چڑھ گیا اور اس نے اِدھر اُدھر گردن گھمانا شروع کردی اور پھر ایک جانب کچھ دیکھنے لگا۔ میری نظریں بھی اسی طرف اٹھ گئی تھیں۔ مدھم تاریکی میں، میں نے بھی اس متحرک ہیولے کو دیکھ لیا جو اس سمت آرہا تھا اور پھر وہ ہیولا میری نگاہوں میں روشن ہوگیا۔ کالے رنگ کے ایک بھینسے پر گووندا سوار تھا اور بھینسا اس سمت بڑھ رہا تھا۔ گووندا نے اپنے سر پر ایک پروں کا تاج پہن رکھا تھا لیکن جو چیز میں نے انوکھی دیکھی، وہ اس کے بہت سے ہاتھ تھے جو اس کے جسم سے لگے ہوئے تھے۔ ان ہاتھوں میں طرح طرح کے ہتھیار دبے ہوئے تھے۔ کسی میں لمبی سی ہڈی، کسی میں کلہاڑی، کسی میں نیزہ! وہ بھینسے کو دوڑاتا اس سمت آرہا تھا۔ گنگولی پتھر سے نیچے اتر آیا۔ اس نے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کئے، زمین کی طرف چہرہ جھکایا اور چکر سے کاٹنے لگا۔ پھر ایک دم سیدھا ہوگیا۔ اس کے حلق سے ایک ہولناک چیخ نکلی۔ دو بار وہ اسی انداز میں چیخا اور پھر اس کا بدن بری طرح کانپنے لگا۔ ایک لمحے میں وہ دوبارہ ساکت ہوگیا اور پھر میری طرف گردن گھما کر بولا۔
’’تو بھاگ جا یہاں سے، چل بھاگ جا یہاں سے… اس حرام خور کو مستی آگئی ہے آج، لڑنے آرہا ہے ہم سے، جان بچانا چاہتا ہے میاں جی تو بھاگ جا یہاں سے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خود درختوں کے پیچھے بھاگ گیا۔ البتہ میں اپنی جگہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ میں نے ایک چوڑے تنے کی آڑ لے لی۔ اتنی دیر میں گووندا قریب پہنچ گیا۔ وہ بڑا پروقار نظر آرہا تھا۔ پھر میں نے گنگولی کو بھی درختوں کی آڑ سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ سیدھے کئے ہوئے تھے، گردن جھکائی ہوئی تھی اور اس کی آنکھوں سے خوفناک نیلی شعاعیں نکل رہی تھیں۔
’’جے … جے بھدرنا مچنڈا۔‘‘ گنگولی نے کہا۔
’’کالی کنتھوریا کلکتے… کا باز! تجھے ہمارے بارے میں پتا کرلینا چاہیے تھا۔‘‘
’’کرلیا تھا پتا تیرے بارے میں گووندا بھدرنا مچنڈا بھی کالی کا داس ہے اور جب بات من کے پھیر میں آجائے تو سب کچھ جائز ہوجاتا ہے، ہو سکتا ہے ہم کالی کنتھوریا کو مان لیتے، پر پرتھوی راج نے سنجوگتا کے لیے کنتھوریا کنٹھ کیا تھا۔ سو ہم بھی اسی کا بنس دہرا رہے ہیں۔‘‘
’’موت آئی ہے تیری تو میں بھدرنا بھینٹ دے دوں گا۔‘‘ دفعتاً ہی گووندا کے ہاتھ سے ایک نیزہ سنسناتا ہوا نکلا اور گنگولی کے سینے میں جا لگا… لیکن گنگولی کے سینے میں بڑا سا سوراخ ہوا اور نیزہ اس کے دوسری طرف سے نکل کر عقب میں موجود درخت میں پیوست ہوگیا۔ گنگولی نے ایک بھیانک قہقہہ لگایا اور بھیانک آواز میں چیخا۔ ’’جے بھدرنا مچنڈا۔‘‘ اور پھر وہ دونوں ہاتھ زمین پر ٹکا کر ہاتھوں اور پیروں کے بل چکر لگانے لگا۔ اسی وقت گووندا نے اپنے بھینسے کو اس پر دوڑا دیا۔ شاید گنگولی کو اس کا احساس نہیں تھا، وہ خود بھی کوئی جادوئی عمل کرنے کو جارہا تھا۔ اس نے غالباً یہ سوچا ہوگا کہ اب گووندا اس پر کوئی دوسرا ہتھیار پھینک کر مارے گا اور وہ اس سے بچائو کرے گا مگر گووندا نے بھی چالاکی سے کام لیا تھا اور بھینسے ہی کو اس پر دوڑا دیا تھا۔ نتیجے میں گنگولی بھینسے کی لپیٹ میں آگیا اور بھینسا اسے روندتا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔ گنگولی زمین پر جا پڑا تھا۔ گووندا نے کچھ فاصلے پر جاکر بھینسے کا رخ تبدیل کیا اور ہاتھ میں پکڑا ہوا ہتھیار جو کلہاڑی کی شکل میں تھا، گنگولی پر کھینچ مارا۔ نشانہ سچا تھا، کلہاڑا گنگولی کی گردن پر لگا اور گنگولی کی گردن کٹ کر کئی فٹ دور جا پڑی۔ اس کا دھڑ اپنی جگہ سے اٹھا اور تیزی سے ایک سمت دوڑنے لگا۔ سامنے ایک لمبے تنے والا درخت نظر آرہا تھا۔ گنگولی کے بے سر کا جسم درخت کے تنے پر پھرتی سے چڑھنے لگا۔ گووندا نے فوراً ہی بھینسے کو دوڑایا اور اس درخت کے قریب پہنچ گیا اور پھر اس نے گنگولی کے جسم پر مختلف ہتھیاروں سے بے شمار وار کئے اور اسے نیچے گرا لیا لیکن میری آنکھوں نے اس ہولناک منظر کے ساتھ ساتھ ایک اور خوفناک منظر بھی دیکھا۔ گنگولی کا کٹا ہوا سر آہستہ آہستہ میری جانب سرک رہا تھا۔ پھر وہ تقریباً چار فٹ اونچا بلند ہوگیا اور اس کے منہ سے ایک سرگوشی سی نکلی۔
’’اپنا شریر مجھے ادھار دے دو میاں جی واپس کردوں گا، اس پاپی گووندا کو نیچا دکھانے کے بعد! جلدی کرو، اپنا شریر مجھے دے دو۔ ہاتھ بڑھا کر میرے سر کو اپنے سر پر رکھ لو۔ ارے دیر ہورہی ہے۔ اگر وہ پلٹ پڑا تو برا ہوجائے گا۔‘‘ گنگولی کا سر آہستہ آہستہ میری جانب بڑھنے لگا اور پھر میرے چہرے سے اس کا فاصلہ ایک فٹ سے زیادہ نہ رہ گیا۔ میں نے دایاں ہاتھ سیدھا کیا اور ایک زوردار تھپڑ اس کٹے ہوئے سر کے رخسار پر رسید کردیا۔ سر بہت دور جاکر گرا تھا اور گووندا اس کی جانب متوجہ ہوگیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی میرے کانوں میں ایک گھٹی گھٹی سی چیخ ابھری اور عقب میں یوں محسوس ہوا جیسے کوئی چیز گری ہو۔ توجہ ایک لمحے کے لیے بٹ گئی اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسری طرف گووندا نے گنگولی کے سر کو اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے دوسرے نیزے میں پرو لیا تھا۔ اس کے مختلف ہاتھ اپنے ہتھیاروں سے گنگولی کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرچکے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے گووندا کو میری یہاں موجودگی کا علم نہ ہو۔ اس نے اپنا کام سرانجام دیا۔ گنگولی کا سر نیزے میں سنبھالا اور بھینسے کا رخ تبدیل کردیا اور پھر بھینسا اسی جانب دوڑ پڑا، جدھر سے آیا تھا۔ میں سنسنی خیز نگاہوں سے جاتے ہوئے بھینسے کو دیکھتا رہا۔ بھوریا چرن بھی ایک بار اسی طرح بابا فضل کے مقابلے پر آیا تھا۔ کالا بھینسا، کالے جادو کے ماہروں کی خاص سواری معلوم ہوتا تھا۔ اور گووندا یقینی طور پر کنگولی سے بڑا جادوگر تھا۔ وہ اپنے قول میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اگر میرا اندازہ غلط نہیں تھا تو اب گنگولی کا وجود ختم ہوگیا تھا۔ عجیب لڑائی تھی۔ بے حد بھیانک، بڑی دہشتناک۔ فضا میں ایک عجیب سی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ بغور جائزہ لینے کے بعد انکشاف ہوا کہ یہ بدبو گنگولی کے جسم کے ان ٹکڑوں سے اٹھ رہی تھی جو اب پانی کی طرح پگھل رہے تھے اور گٹر کے کالے پانی کی طرح زمین پر بہہ رہے تھے۔ بدبو ناقابل برداشت تھی۔ یہاں اب کچھ نہیں رہ گیا تھا چنانچہ واپسی کے سوا اور کیا کرتا۔ واپس پلٹا ہی تھا کہ پھر کچھ سرسراہٹیں سنائی دیں۔ پھر ایک ہانپتی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’مسعود میاں۔ مسعود میاں مجھے، مجھے بھی ساتھ لے چلو۔ مجھے بھی۔‘‘ میں بری طرح اچھل پڑا۔ وہ چیخ اور کچھ گرنے کی آواز یاد آگئی۔ اس وقت ذہن میں ہیجان تھا اس لیے پوری توجہ نہیں دے سکا تھا لیکن یہ آواز… یہ شناسا تھی۔ میں اس درخت کے پیچھے پہنچ گیا جہاں سے آواز آئی تھی۔ وہ سلامت علی ہی تھے جو زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔
’’آپ؟‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’معاف کردینا مجھے۔ معاف کردینا تمہارے پیچھے چلا آیا تھا۔ آہ! میرا بدن بیکار ہوگیا ہے، مجھ سے اٹھا نہیں جارہا۔‘‘
’’نہیں۔ آپ ٹھیک ہیں۔ آیئے میرا سہارا لے لیجئے۔‘‘ میں نے ان کے جسم کا بوجھ سنبھالا اور انہیں کھڑا کردیا۔ وہ چونک کر مجھے دیکھنے لگے تھے۔
’’میں۔ میں اب چل سکتا ہوں۔ میں چل سکتا ہوں۔ یہ دیکھو میں!‘‘ وہ دو قدم آگے بڑھے۔ میں نے ان کا ہاتھ تھامے رکھا تھا۔
’’آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ آیئے واپس چلیں۔‘‘ سب کچھ چھوڑ دیا میں نے، اگر سلامت علی نہ ہوتے تو شاید میں گووندا کے پاس جاکر اسے مبارک باد دیتا مگر اب گھر واپس جانا ضروری تھا۔
’’میں پھر معافی چاہتا ہوں۔ نہ جانے تمہارے کس کام میں حرج ہوا۔ بس تجسس پیدا ہوگیا تھا۔ چھپ کر تمہارا پیچھا کیا اور… آہ! میں نے یہ سب کچھ، اس سے پہلے میں نے یہ سب کچھ سوچا بھی نہیں تھا۔‘‘
’’آئندہ خیال رکھئے سلامت علی صاحب۔ یہ جادو کی کالی دنیا ہے اور ایسے مناظر جان لے لیتے ہیں۔ خدا کے لیے مجھے میرا کام کرنے دیں۔ اس میں مداخلت سے آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔‘‘
’’سخت۔ سخت شرمندہ ہوں۔ آئندہ کبھی… مگر۔ میرے خدا یہ… یہ سب…! یہ سب کیا تھا۔‘‘
’’آپ کے دوست سری رام کی ایک مشکل کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ گنگولی کا کھیل تو ختم ہوگیا ہے اور اب گووندا رہ گیا ہے، صرف گووندا۔ وہ بھی ختم ہوجائے گا اطمینان رکھیں۔‘‘ میں نے کہا۔