مصیبت بن گئی ہے سسری! جمنے میں تو سوچ رہا ہوں بوندی چلیں، موریا لعل سے بات کریں، اس سے مال کھرا کرلیں۔‘‘
’’موریا لعل سسرا ایک نمبر کا چور ہے سردار۔ الٹا سیدھا مول لگائے گا۔ سو سو کیڑے نکالے گا۔ رساچند جوہری ہے۔ ہیروں کا قدردان ہے صحیح بھائو وہ دے گا۔‘‘ جمنے نے کہا۔
’’پگلی کو خریدنے سے وہ بھی بھاگے گا۔‘‘
’’دوچار دن اسے موقع دے دو سردار، بھروسے کا آدمی ہے۔‘‘ جمنے کو مجھ پر بڑا بھروسہ ہوگیا تھا۔ چھوٹے سردار جو کہا تھا میں نے اسے۔ اس لفظ نے اس پر نشہ طاری کردیا تھا۔ سردار خاموش ہوگیا۔ جمنے بولا۔
’’دیکھ بیرا، یہ بھاگ گئی تو تیری گردن ماری جائے گی تو ذمہ داری لے رہا ہے اس کی۔‘‘
’’پوری … پوری… سردار کا یہ کام نہ کیا تو کچھ نہ کیا۔ اسے کھلے میں رکھو، پیر میں زنجیر باندھ کر کسی درخت سے باندھ دو۔ میں اس کے پاس رہوں گا۔‘‘ میری بات مان لی گئی۔ اسے بے ہوشی ہی کے عالم میں گھاس پر لٹا دیا گیا اور پائوں میں زنجیر باندھ دی گئی۔ میں اس کے قریب بیٹھ گیا تھا۔ چند ہی لمحات کے بعد اس نے آنکھیں کھول کر چیخنا شروع کردیا۔ اس کی اداکاری بے مثال تھی۔ چہرے پر وحشت برس رہی تھی۔ میں نے اس کے لیے پانی منگوایا اور سب وہاں سے چلے گئے۔
’’پانی پی لینا میرے ہاتھ سے۔‘‘ میں نے سرگوشی کی۔ کوشل نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ پانی آیا تو میں نے اسے اپنے ہاتھ سے پانی پلایا۔ جمنے نے مسکرا کر آنکھ دبائی اور پھر وہاں سے چلا گیا۔
’’کالج کے ڈراموں میں کئی بار میں نے پاگل لڑکی کا رول ادا کیا ہے۔ آج وہ مہارت کام آرہی ہے۔‘‘ اس کا لہجہ یاس میں ڈوبا ہوا تھا۔
’’خدا پر یقین رکھو۔ تم اپنے گھر پہنچ جائو گی۔‘‘
’’بھگوان کرے۔ نہ جانے کیا کیا ہوگیا ہوگا۔ ماتا، پتا کی اکیلی ہوں۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’کہاں کی رہنے والی ہو؟‘‘
’’ریاست الور کی! الور میں ہمارے نیل کے کارخانے ہیں۔ پورے ہندوستان میں ہمارے کارخانوں کی نیل بکتی ہے۔ تم نے شاید نیل کنٹھ کمپنی کا نام سنا ہو۔‘‘
’’ان کے قبضے میں کیسے آگئیں؟‘‘
’’الور کے ’دھرم سماج‘ کالج میں پڑھتی تھی۔ کالج کی ٹیم کے ساتھ رجناپور کے تاریخی کھنڈرات دیکھنے آئی تھی۔ یہ بنجارے انہی کھنڈرات کے پاس خیمے لگائے ہوئے تھے۔ پوری ٹیم کے ساتھ خانہ بدوشوں کا طرز زندگی دیکھنے ان کی آبادی میں گئی۔ ان کی ایک عورت نے مجھے پتھر کے بنے ہوئے دو کڑے پیش کئے۔ مجھے خوشی ہوئی۔ دوسرے دن میں نے ساتھی لڑکیوں سے کہا کہ دوبارہ بنجاروں کی آبادی چلیں۔ انہوں نے انکار کردیا اور میں اکیلی ہی چلی آئی۔ اس عورت کے لیے میں جوابی تحفہ لائی تھی۔ یہ اپنے خیمے اٹھا کر روانہ ہونے کے لیے تیار تھے۔ ان کی بیل گاڑیوں کے درمیان میں اس عورت کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی کہ ان میں سے کسی نے پیچھے سے کوئی تیز بو والی چیز ناک پر رکھ دی اور میں بے ہوش ہوگئی۔ بس اس کے بعد سے ان کے قبضے میں ہوں۔ یہ خانہ بدوش آبادیوں میں جاتے ہیں، کھیل تماشے کرتے ہیں۔ راتوں کو چوریاں کرتے ہیں۔ بدبخت بچوں اور لڑکیوں کو اغوا بھی کرلیتے ہیں اور بردہ فروشی کرتے ہیں۔ یہ مجھے بھی بیچنا چاہتے ہیں۔ پتا نہیں کتنے دن گزر گئے ہیں مجھے ان کے ساتھ سفر کرتے ہوئے، میں نے اپنے بچائو کے لیے پاگل پن کا ڈھونگ رچایا اور… اور‘‘ وہ گہری گہری سانسیں لینے لگی۔ کافی دیر خاموش رہی۔ پھر اچانک بے چین ہوکر رونے لگی۔ ’’تم… تم کیا کرسکو گے، بولو کیا کرسکو گے اکیلے۔ مگر میں مرنا نہیں چاہتی۔ بہت کچھ سوچا تھا میں نے اپنی زندگی کے بارے میں لیکن اگر… اگر کچھ ہوا تو میں مر جائوں گی، خودکشی کرلوں گی میں! کرنی پڑے گی۔‘‘
’’میں تم سے حوصلہ رکھنے کی درخواست کرتا ہوں کوشل۔ ہمت پست ہوئی تو ہم کچھ نہیں کرسکیں گے۔‘‘
’’ہم ایسے بھی کیا کرسکتے ہیں۔‘‘ اس نے روتے ہوئے کہا۔ میں گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا۔ اس شام میں نے جمنے سے کہا۔
’’چھوٹے سردار۔ میرا دعویٰ ہے کہ وہ پاگل نہیں ہے۔‘‘
’’او یار، مجھے چھوٹے سردار نہ کہا کر۔‘‘ جمنے بولا۔
’’میرا دل چاہتا ہے تمہیں سردار کہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ تم سردار لگتے ہو، پھر اس وقت تو کوئی نہیں ہے ہمارے پاس۔‘‘
’’تو نے یہ دعویٰ کیسے کیا ہے؟‘‘
’’اس کی باتوں سے۔ وہ مجھے غور سے دیکھتی ہے۔ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر پھر خاموش ہوجاتی ہے۔‘‘
’’ایک بار اس کا ثبوت مل جائے، سارا کام ٹھیک ہوجائے۔ فٹافٹ اس کا کریا کرم کردیں ہم۔ تیری بھی جان چھوٹے۔‘‘
’’مجھ پر اعتبار کرلو چھوٹے سردار۔ میں اس کی زبان کھلوا لوں گا۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’ہمیں بھاگ نکلنے کا موقع دو۔ سنو چھوٹے سردار ایک بیل گاڑی دو مجھے، میں اس سے کہوں گا کہ میں اسے تمہارے چنگل سے نکال رہا ہوں۔ میں اسے لے کر بھاگوں، راستے میں اس کے دماغ میں طوفان ہوگا۔ میں اس سے پوچھوں گا کہ وہ کہاں جائے گی اور وہ بول پڑے گی۔‘‘
’’یہ کیا ترکیب ہوئی؟‘‘
’’خود غور کرلو۔ اس پر ہیجان طاری ہوجائے گا۔ وہ مجھ پر بھروسہ کرلے گی۔ اسے یقین ہوجائے گا کہ میں اس سے مخلص ہوں۔ بس زبان کھلی، اس کا کام ہوا۔‘‘
’’سردار نہیں مانے گا۔‘‘
’’حرج کیا ہے۔ کتنی دور جائیں گے ہم۔ دوسری گاڑیاں بھی تیار رکھنا۔ دیر تھوڑی لگے گی۔ بعد میں اسے واپس لے آئیں گے پھر سسری کیسے کہے گی کہ پاگل ہے۔‘‘ میں نے کہا اور بات جمنے کی سمجھ میں آگئی۔
’’سردار سے بات کرلوں؟‘‘
’’ضرور کرلو۔‘‘ جمنے نے آمادگی ظاہر کردی۔ سردار نے بھی منظوری دے دی تھی۔ آج ہی رات یہ کام کرنا تھا۔ مجھے پورا موقع دیا گیا۔ میں نے دو طاقتور بیلوں کا انتخاب کرلیا۔ رات کو بارہ بجے میں نے انہیں گاڑی میں جوتا۔ چار گاڑیاں میں نے تیار دیکھی تھیں۔ اس کے بعد میں جمنے کے قریب سے گزرتے ہوئے بولا۔
’’تیار ہو چھوٹے سردار۔‘‘
’’ہاں!‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔ اس کی آنکھوں سے شبہ بھی جھانک رہا تھا اور یقین بھی دہری کیفیت کا شکار تھا۔ سردار بھی قریب ہی موجود تھا۔ پھر میں نے کوشل کو جھنجھوڑ کر جگایا۔
’’میں تجھے ان کے چنگل سے نکال کر لے جارہا ہوں لڑکی، آمیرے ساتھ آ۔‘‘ میں اس کا بازو پکڑ کر بیل گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ وہ تھرتھر کانپ رہی تھی۔ میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’زبان سے ایک لفظ نہ بولنا کوشل، مضبوطی سے خود کو گاڑی میں بٹھائے رکھنا۔ میں خدا کا نام لیتا ہوں، تم بھگوان کو پکارو کہ وہ ہماری مدد کرے۔ سنبھل گئیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس نے کانپتی آواز میں کہا۔ کانپ میں بھی رہا تھا مگر ظاہر نہیں کررہا تھا۔ ایک خوفناک قدم اٹھایا تھا میں نے…!
بنجارے میری ایک ایک حرکت سے واقف تھے۔ ان کی دانست میں، میں ان کے لیے کام کر رہا تھا اور یہ معلوم کر رہا تھا کہ کوشل صحیح الدماغ ہے یا نہیں۔ لیکن میں اس طرح کوشل کو ان کے چنگل سے نکال کر لے جا رہا تھا۔ یقیناً وہ مجھ سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہوں گے اور ہماری باتیں سن رہے ہوں گے۔ انہوں نے بیل گاڑیاں بھی تیار رکھی تھیں۔
’’کیا تو مجھے اپنا پتا بتا سکتی ہے۔ اطمینان رکھ، میں تیرا ہمدرد ہوں، میں تجھے ان خانہ بدوشوں کے ڈیرے سے فرار کرا رہا ہوں۔ دیکھ لے سارے انتظامات مکمل ہیں، اب تو مجھے جلدی سے اپنا پتا بتا دے!‘‘ کوشل پروگرام کے مطابق خاموش رہی۔ میں نے پھر کہا۔ ’’اگر تو نے مجھ پر بھروسہ نہیں کیا تو پھر میں تیری مدد کر کے کیا کروں گا۔ اچھا چل راستے میں تو مجھے اپنے بارے میں بتا دینا۔‘‘ میں نے بیل گاڑی سست روی سے آگے بڑھا دی۔ اس کی رفتار بہت سست تھی اور کوشل خاموش بیٹھی ہوئی تھی۔ میں اسی طرح بیلوں کو ہانکتا ہوا خاصی دُور نکل آیا۔ تب میں نے عقب میں دو چار گاڑیاں آتے دیکھی تھیں۔ زندگی موت کا معاملہ تھا۔ بنجارے دھوکے میں آ گئے تھے لیکن جیسے ہی میں نے بیل دوڑائے انہیں احساس ہو جائے گا۔ وہ خونی ہو جائیں گے اور اس کے بعد زندگی موت کا ہی معرکہ ہوگا۔
’’وہ لوگ پیچھے آ رہے ہیں…؟‘‘ کوشل نے خوفزدہ آواز میں کہا۔
’’میں نے دیکھ لیا ہے۔ تم خود کو مضبوطی سے جما لو۔ تیار ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘ اس نے کہا اور میں نے بیلوں کو پہلا چابک رسید کر دیا۔ بیل اُچھل پڑے۔ انہوں نے رفتار تیز کر دی۔ دُوسرے اور تیسرے چابک پر وہ جھنجھلا گئے اور پھر وہ سرپٹ ہوگئے۔ میرے لیے اب ایک ہی راستہ تھا وہ یہ کہ بیلوں کو جتنی تیز دوڑا سکتا ہوں دوڑائوں، زیادہ دیر نہیں گزرے گی کہ وہ حقیقت حال سمجھ جائیں گے۔ مگر بالکل ہی دیر نہ لگی اچانک ہی انہوں نے خاص قسم کے ڈبے بجانے شروع کر دیئے جن کی آوازوں سے خوفزدہ ہو کر بیل تیز دوڑتے ہیں اور زمین پر پیچھے آنے والی بیل گاڑیوں کی دھمک گونجنے لگی۔ اب تو میں بھی بیلوں پر پل پڑا۔ یہ مظلوم جانور سانٹوں کی تکلیف سے بے قابو ہو کر اپنی بساط سے زیادہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے لگے مگر مجبوری تھی۔ خوفناک دوڑ شروع ہوگئی۔ وہ لوگ بھی دیوانے ہوگئے تھے اور بھرپور تعاقب کر رہے تھے مگر میں نے فاصلہ کم نہیں ہونے دیا۔ میرے دانت بھنچے ہوئے تھے اور ہاتھ بیلوں کو مارنے کی مشین بنے ہوئے تھے۔ کوشل نے آنکھیں بند کرلی تھیں اور مضبوطی سے بیل گاڑی کے دونوں سرے پکڑے ہوئے تھے۔ بار بار اس کے منہ سے چیخیں نکل جاتی تھیں مگر بھنچی ہوئی آواز میں، خوف کے مارے اس کی بھی بُری حالت تھی۔ بن کسیری کا علاقہ پیچھے رہ گیا اور اب وہی سنگلاخ چٹانی میدان تھے۔ آسمان پر چاند چمک رہا تھا، کبھی بادلوں کے ٹکڑے اس پر سے گزرتے تو تاریکی پھیل جاتی۔ بدن پسینے سے بُری طرح بھیگ رہا تھا، ذہنی حالت سنبھالے نہ سنبھالی جا رہی تھی۔ بیل گاڑی کے پہیے کسی اُونچے پتھر پر چڑھتے تو زوردار تڑاخا ہوتا اور ایسا جھٹکا لگتا کہ سنبھلنا مشکل ہو جاتا مگر بس دُھن تھی، لگن تھی اور عمل جاری تھا۔ تعاقب کرنے والا جمنے تھا جو ہمیں فرار کرا کر خود بھی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔ اگر وہ ہمیں حاصل کرنے میں ناکام رہتا تو نہ جانے سردار سے کیا سزا پاتا۔ اس لیے جب بھی پیچھے نظر جاتی وہ اسی طوفانی انداز میں بیل دوڑاتا نظر آتا۔ وہ لوگ خوب شور مچا رہے تھے جس کی آوازیں آ رہی تھیں، پھر اچانک بیل چڑھائی پر چڑھنے لگے۔ یہاں ان کی رفتار سست ہوگئی اور پیچھے آنے والی گاڑیاں قریب آنے لگیں۔ میں نے پھر بیلوں پر پوری قوت سے سانٹے برسانے شروع کر دیے۔ انہوں نے دُمیں اَکڑا لیں اور یہ چڑھائی عبور کرنے لگے۔ ان کی کوشش سے فاصلہ پھر بڑھ گیا مگر اب وہ بھی حواس کھوتے جا رہے تھے اور مجھے خطرہ ہوگیا تھا کہ وہ بیٹھ جائیں گے۔ مگر چڑھائی ختم ہوگئی اور ناہموار میدان آ گیا جس میں اُونچی اُونچی چٹانیں بکھری ہوئی تھیں۔ یہ اس سفر کی سب سے خطرناک جگہ تھی۔ ابھی میں اس خدشے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک بیل گاڑی کا ایک پہیہ کوئی ڈھائی فٹ اُونچا اُٹھ گیا۔ میں کوئی چھ فٹ اُچھل کر نیچے گرا مگر اس سے تو جو چوٹ لگی وہ اپنی جگہ تھی اصل چوٹ اس وقت لگی جب کوشل میرے اُوپر گری۔ پسلیاں بول گئی تھیں مگر بہتر ہوا تھا اگر وہ اس پتھریلی زمین پر گرتی تو نہ جانے کیا ہوتا۔ جس جگہ ہم گرے تھے وہاں ڈھلان تھی چنانچہ ہم دونوں لڑھکتے ہوئے کئی فٹ دُور چلے گئے۔ بیل البتہ گاڑی کو پتھر سے آگے گزار لے گئے تھے۔ ایک اور پتھر نے ہمیں مزید لڑھکنے سے روکا تھا۔ نیچے سے مسلسل ڈبہ کھڑکنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور پتا چل رہا تھا کہ دُوسری گاڑیاں بلندی عبور کر رہی ہیں۔ ہم دونوں سہمے ہوئے ساکت پڑے تھے۔ بیل گاڑی شاید آگے جا کر ڈھلان میں اُتر گئی تھی کیونکہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ پھر وہ چاروں گاڑیاں طوفانی انداز میں مسطح جگہ نمودار ہوئیں اور اسی رفتار سے دوڑتی آگے بڑھ گئیں۔ لیکن چند لمحوں کے بعد ہی ہمیں چیخوں کی آوازیں سنائی دیں۔ بہت سے لوگ بیک وقت چیخے تھے۔ نہ جانے کیوں۔ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا تھا۔ کئی منٹ گزر گئے۔ اب ماحول پر مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے چونک کر کوشل کو آواز دی۔ ’’کوشل۔‘‘
’’ہوں!‘‘ وہ آہستہ سے بولی۔
’’زخمی تو نہیں ہو؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’وہ شاید دُور نکل گئے۔‘‘
’’ایسا ہی لگتا ہے۔‘‘
’’تاریکی کی وجہ سے انہیں یہ اندازہ نہیں ہوا ہوگا کہ ہم گاڑی سے نیچے گر پڑے ہیں۔‘‘
’’یقیناً وہ اسی گاڑی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ تم نے وہ انوکھی چیز دیکھی؟‘‘ کوشل نے کہا۔
’’نہیں دیکھی۔‘‘
’’اس کے گرنے کی آواز بھی نہیں سنی؟‘‘
’’نہیں، کہاں… کیا چیز تھی؟‘‘ میں نے سوال کیا اور کوشل خاموش ہوگئی۔
’’کیا چیز تھی کوشل؟‘‘ میں نے دوبارہ پوچھا۔
’’تم مسلمان لوگ ان باتوں کو نہیں مانتے ہو۔‘‘
’’کچھ بتائو تو؟‘‘
’’وہ مٹھ تھی۔ بچپن میں، میں نے ایسی ہی ایک ہانڈی دیکھی تھی جو پرواز کرتی ہوئی آئی تھی۔ کرم چند بنئے کے گھر گری تھی اور کرم چند کا پورا گھرانہ ختم ہوگیا تھا۔‘‘
’’جادو کا میزائل؟‘‘ میں نے کہا۔
’’یہی سمجھ لو۔ مگر ہم لوگ اسے مانتے ہیں اور اس کی تباہ کاری کو تسلیم کرتے ہیں۔‘‘ کوشل نے کہا۔
’’مگر یہاں وہ کہاں ہے؟‘‘
’’وہ دیکھو ادھر اشارے کی سمت!‘‘ میں نے اسے فضا میں دُور سے آتے ہوئے دیکھا تھا اور اسی جگہ وہ زمین پر گری تھی۔ میں نے کوشل کے اشارے پر اسی طرف دیکھا مگر کچھ نہیں نظر آیا۔ تب میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’مگر اس کے یہاں آن کر گرنے کا کیا مطلب ہے؟‘‘
’’یہ بنجارے بڑے پُراسرار ہوتے ہیں، یقیناً ان میں کوئی کالے جادو کا ماہر ہوگا۔ اس نے ہمیں فرار ہوتے دیکھ کر ہانڈی ہماری طرف بھیجی ہوگی۔‘‘ کوشل نے کہا۔
اور میں اس کی بات پر غور کرنے لگا۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ اتنی جلدی یہ عمل ممکن تو نہیں تھا۔ پھر وہ ہمارا تعاقب تو کر رہے تھے۔ یہ ضرورت کیوں پیش آ گئی۔ سکوت کچھ زیادہ طویل ہوگیا۔ بنجاروں کے ڈیرے سے میلوں دُور نکل آئے تھے۔ اس لیے وہاں کی تو کوئی آواز سنائی نہیں دے سکتی تھی مگر یہ گاڑیاں کتنی دُور نکل گئیں۔ ہماری گاڑی کے بیل ابھی تک ہاتھ نہیں آئے۔ میں اُٹھ گیا۔ جسم کے کچھ ’’حصے‘‘ چیخ رہے تھے۔ پتھروں پر گرنے سے چوٹیں آئی تھیں لیکن کوئی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی تھی۔ کوشل بھی فوراً کھڑی ہوگئی۔
’’تم ٹھیک ہو؟‘‘
’’ہاں مگر تمہارے ضرور چوٹیں آئی ہوں گی۔‘‘ اس نے ہمدردی سے کہا۔
’’یہاں سے چلو، وہ واپس پلٹیں گے۔‘‘
’’اور انہیں یہ بھی پتا چل جائے گا کہ ہم گاڑی میں نہیں ہیں۔ وہ ہمیں اسی راستے سے تلاش کریں گے۔‘‘ کوشل بولی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف چل پڑا۔ اب پوری جدوجہد پیدل ہی کرنی تھی۔ کچھ دُور چل کر کوشل رُک گئی۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ دیکھو یہ مٹھ کے ٹکڑے پڑے ہیں۔‘‘ اس نے اشارہ کیا۔ ٹوٹی ہانڈی میں نے بھی دیکھی اس کے اردگرد بھی کئی چیزیں پڑی تھیں، سرخ سیندور ’ہلدی‘ کپڑے کی چھوٹی چھوٹی پوٹلیاں۔ زمین پر ثابت مونگ بکھری ہوئی تھی۔ نہ جانے کیا کیا الم غلم تھا۔
’’نہیں آگے نہ بڑھو۔‘‘ کوشل نے اچانک مجھے پیچھے گھسیٹ لیا۔ اور میں رُک گیا۔ ’’اسے چھونا خطرناک ہوتا ہے۔ دوران پرواز اگر یہ کسی کے سر سے گزر جائے تو وہ بھی اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ آئو آگے بڑھیں یہاں سے۔‘‘ میں کوشل کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ وہ مجھے تمام چیزوں سے اجنبی سمجھ رہی تھی۔ بے چاری کیا جانتی تھی کہ میں اب ان تمام غلاظتوں سے کتنا واقف ہو چکا ہوں۔ ہم لوگ کوئی بیس قدم آگے بڑھے تھے کہ اچانک کوشل کے حلق سے ایک دہشت بھری آواز نکل گئی۔ اس نے پوری قوت سے مجھے بھینچ لیا۔ میری کیفیت بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔ ہمارے بیلوں نے کافی چڑھائی چڑھی تھی۔ اس کے بعد ہم نئی بلندیوں تک آئے تھے، پھر بیل گاڑی کا پہیہ پتھر پر چڑھ جانے کی وجہ سے گر پڑے تھے اور بیل گاڑی آگے بڑھ گئی تھی۔ مگر آگے اچانک ایک کٹائو آ گیا تھا۔ دُور سے احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ آگے راستہ نہیں ہے، میدان دُور تک پھیلا ہوا لگتا تھا مگر اب جو نیچے دیکھا تو سانس رُک گیا۔ کوئی دوسو فٹ گہرائی تھی اور نیچے نوکیلی چٹانیں منہ اُٹھائے بلندیوں کو دیکھ رہی تھیں۔ سب سے بھیانک وہ منظر تھا جسے ہم کھلی چاندنی میں بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ ہماری بیل گاڑی سمیت ساری گاڑیاں نیچے چور چور پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے درمیان تعاقب کرنے والے تمام بنجارے خون میں ڈوبے بے سدھ پڑے تھے۔ کچھ زندہ بچ جانے والے بیل اپنے بچے کھچے بدن کو چٹانوں میں گھسیٹے پھر رہے تھے۔ ان کے منہ سے نکلنے والی اذیت بھری آوازیں بہت مدھم ہو کر اُوپر پہنچ رہی تھیں۔ اب اندازہ ہوا تھا کہ ہماری بیل گاڑی اچانک دُور چل کر غائب کیوں ہوگئی تھی۔ ہم یوں سمجھے تھے کہ آگے ڈھلان ہیں اور سارے بنجاروں کی گاڑیاں ہماری گاڑی کے تعاقب میں ڈھلان میں اُتر گئی ہیں۔
کوشل بری طرح کانپ رہی تھی۔ اس نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’یہ سب، یہ سب مرگئے ہوں گے۔‘‘
’’شاید!‘‘ میں آہستہ سے بولا۔
’’ضرور یہ سب مٹھ کے نیچے سے گزر گئے ہوں گے!‘‘
’’اور ہم؟‘‘
’’ہم بچ گئے۔‘‘
’’اب کیا کریں؟‘‘
’’آگے چلو۔ میری ہمت بڑھ گئی ہے۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ہم زندہ بھی بچ جائیں گے اور… اور میں ضرور اپنے گھر پہنچ جائوں گی!‘‘ میں نے ایک ہاتھ آگے بڑھایا تو اس نے پھر مجھے زور سے پکڑ لیا۔ یہ… یہ کیا کر رہے ہو؟
’’تم نے ہی تو کہا تھا آگے چلو۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے، میری جان نکل گئی ہے۔ ادھر سے آگے چلو، ہو سکتا ہے دوسرے بنجارے بھی چل پڑے ہوں۔ ہمیں کہیں سے نیچے اُترنے کا راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔ اوہ، دیکھو وہ کیا ہے؟‘‘
’’پھر کچھ نظر آ گیا؟‘‘ میں نے کہا۔
’’دیکھو تو۔ وہ دو لکیریں۔ اوہ بھگوان۔ وہ تو… وہ تو ریل کی پٹریاں ہیں۔ دیکھو وہ ریل کی پٹریاں ہی ہیں۔‘‘ میں نے بھی گہرائیوں میں چمکتی ہوئی ان پٹریوں کو دیکھ لیا۔ پہاڑ کے دامن سے کوئی نصف فرلانگ دُور یہ پٹریاں نظر آ رہی تھیں۔ میں انہیں دیکھتا رہا اور پھر دُور تک نگاہیں دوڑانے لگا۔ بہت فاصلے پر ایک ایسی جگہ نظر آئی جہاں سے نیچے اُترنے کی کوشش کی جا سکتی تھی۔ کوشل نے بھی ادھر جانے پر اتفاق کیا اور ہم چل پڑے۔ بنجاروں کا خوف تھا، تھکن تھی۔ جو حادثہ دیکھا تھا اس کا اثر تھا لیکن زندگی بچانے کی آرزو بھی تھی چنانچہ تمام صعوبتوں کو بھول کر چلتے رہے اور پھر نئی ڈھلانوں کو عبور کر کے نیچے پہنچ گئے۔ یہ خوف ختم ہوگیا کہ اب بنجارے ہمارا تعاقب کریں گے۔ پٹریوں تک کا فاصلہ بھی طے ہوگیا اور ہم ان کے درمیان چلتے رہے۔
’’کیا اس طرح ہم سفر کر کے کسی جگہ پہنچ سکتے ہیں؟‘‘ کوشل بولی۔
’’اللہ مالک ہے!‘‘
’’میں بہت تھک گئی ہوں۔‘‘
’’مجھے اندازہ ہے؟‘‘
’’بیٹھ جائوں کچھ دیر۔‘‘ میں نے گردن ہلا دی۔ ہم ریلوے لائن سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر کے بعد کوشل لیٹ گئی، میں البتہ بیٹھا رہا۔ چاند اپنا سفر طے کر رہا تھا، کوشل نیم غنودہ ہوگئی تھی۔ میری پلکیں جڑنے لگی تھیں لیکن پھر ریل کی چنگھاڑ اُبھری اور کوشل چیخ پڑی۔
’’کیا ہوگیا۔ کیا وہ آگئے؟‘‘ اس نے دہشت سے پوچھا۔
’’کون؟‘‘
’’بنجارے؟‘‘
’’نہیں کوشل۔ ریل آ رہی ہے جاگو۔ اُٹھ جائو۔‘‘ میں نے کہا اور وہ جلدی سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
نیم خوابی کی کیفیت سے جاگی تھی، چکرائی چکرائی سی نظر آ رہی تھی۔ آنکھیں پھاڑنے لگی پھر اس نے بھی دُور سے اس تیز روشنی کو دیکھ لیا جو کسی پہاڑی سلسلے کے درمیان سے نکل رہی تھی۔ اس سے پہلے یہ پہاڑی سلسلہ ہماری نگاہوں میں نہیں آیا تھا۔ اب انجن کی روشنی کے ساتھ ساتھ اسے دیکھا تھا۔ میں کوشل کا ہاتھ پکڑ کر پٹری کے تھوڑے ہی فاصلے پرکھڑا ہوگیا اور زور زور سے ہاتھ ہلانے لگا۔ ریل آہستہ آہستہ قریب آتی جا رہی تھی اور پھر کچھ دُور جاکر وہ رُک گئی۔ میرے حلق سے خوشی کی آواز نکل گئی تھی۔ غالباً انجن ڈرائیور نے ہمیں دیکھ لیا تھا۔ ایک کمپارٹمنٹ ہمارے سامنے ہی تھا۔ اندر مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ غالباً ریل کے تمام مسافر سو رہے تھے۔ انتظار کرنا بے مقصد تھا۔ میں نے جلدی سے پہلے کوشل کو سہارا دے کر اُوپر چڑھایا اور پھر خود بھی ریل کے ڈبے میں داخل ہوگیا۔ سیکنڈ کلاس کا ڈبہ تھا، بہت ہی کم لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ بس کوئی دس بارہ افراد ہوں گے باقی پورا ڈبہ خالی پڑا ہوا تھا۔ کوشل کو ایک سیٹ پر بٹھا کر میں خود بھی اس کے قریب ہی بیٹھ گیا اور پیشانی پر دونوں ہاتھ رکھ کر گہری گہری سانسیں لینے لگا۔ اب ہمارے بارے میں چھان بین کے لیے لوگ آئیں گے۔ معلومات کی جائے گی کہ ہم کون ہیں اور یہاں کیوں بھٹک رہے ہیں۔ کیا جواب دوں گا میں یہی سوچ رہا تھا لیکن پانچ منٹ، دس منٹ، بیس منٹ اور آدھا گھنٹہ گزر گیا کسی نے رُخ نہیں کیا تھا ہماری طرف۔ نجانے کیوں ایسا ہوا تھا۔ معلوم تو کرنا چاہیے تھا اور پھر ریل کے مسلسل رُکے رہنے کی کیا وجہ تھی۔ تقریباً آدھا گھنٹہ ریل وہاں رُکی رہی اور میں شدید بے چینی کا شکار ہو کر کھڑکی سے بار بار باہر جھانکتا رہا، پھر کسی سوتے ہوئے مسافر نے گردن اُٹھا کر کہا۔
’’ارے یہ پنکھے کیوں بند کر دیے گرمی ہو رہی ہے۔‘‘ اور اس کے بعد وہ کروٹ بدل کر سو گیا، کچھ دیر کے بعد ریل نے سیٹی دی اور پھر چل پڑی۔ کوئی بات ہی سمجھ میں نہیں آئی تھی، نجانے کیا ہوا تھا۔ کم از کم ریلوے کے ملازمین کو ہمارے ڈبے میں آ کر معلومات تو حاصل کرنی چاہئیں تھیں۔ یہ اچھا ہی ہوا تھا، کوئی جواب نہیں بن پڑ رہا تھا۔ ریل آہستہ آہستہ کھسکنے لگی اور تھوڑی دیر کے بعد اس کی رفتار تیز ہوگئی لیکن تقریباً بیس منٹ جانے کے بعد وہ پھر رُک گئی۔ اس بار ہم نے روشنیاں بھی دیکھی تھیں۔ کوئی اسٹیشن آ گیا تھا۔ یہاں سے ایک دُوسری ریل کراس کر کے مخالف سمت میں گئی اور اب بات سمجھ میں آ گئی کہ درحقیقت ریل ہماری وجہ سے نہیں رُکی تھی بلکہ شاید انجن سے ہمیں دیکھا ہی نہیں گیا تھا۔ کوئی کراسنگ ہو رہی تھی جس کی وجہ سے ریل کو اس ویرانے میں رُکنا پڑا تھا۔ یہ بھی تقدیر ہی تھی ورنہ ہم ہاتھ ہلاتے رہ جاتے اور کام نہ بن پاتا۔ کوشل سے بات ہوئی تو اس نے بھی یہی خیال ظاہر کیا اور یہی الفاظ کہے جو میرے ذہن میں تھے۔ یعنی یہ کہ اگر ہماری وجہ سے ریل رُکی ہوتی تو ریلوے کا کوئی نہ کوئی ملازم آ کر ہم سے ہمارے بارے میں معلومات ضرور حاصل کرتا۔ بہرطور اس اتفاق کو بھی تقدیر ہی سمجھ لیا، کوشل کہنے لگی۔
’’سچی بات یہ ہے کہ تقدیر مسلسل ساتھ دے رہی ہے۔‘‘ تھوڑی دیر کے بعد ریل اس اسٹیشن سے بھی آگے بڑھ گئی۔ کوئی دو تین منٹ یہاں رُکی تھی لیکن تقدیر ساتھ دے رہی تھی البتہ رُکاوٹیں بھی آتی جا رہی تھیں کیونکہ تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک ریلوے بابو صاحب ہمارے کمپارٹمنٹ میں داخل ہوگئے۔ انہیں دیکھ کر جان ہی نکل گئی کہ اب وہ ٹکٹ طلب کریں گے اور مصیبت آ جائے گی۔ اتنی جلدی امکان نہیں تھا لیکن ہوتا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے۔ بابو صاحب سوتے ہوئے لوگوں کو جگا جگا کر ٹکٹ طلب کر رہے تھے۔ بڑے اَکھڑ مزاج آدمی تھے۔ مسافروں کے ساتھ ان کا رویہ اچھا نہیں تھا۔ بہرطور سارے مسافر ٹکٹ دکھا رہے تھے اور وہ آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھتے چلے آرہے تھے۔ کوشل دَم سادھ کر خاموش بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر بھی خوف کے آثار تھے۔ وہی ہوا ریلوے بابو ہمارے پاس بھی آ پہنچے۔
’’ٹکٹ۔‘‘ انہوں نے ہاتھ آگے بڑھایا، کوشل نے اس وقت جرأت سے کام لیا اور آہستہ سے بولی۔
’’ہمارے پاس ٹکٹ نہیں ہے۔‘‘
’’کیا تم دونوں ساتھ ہو؟‘‘ بابو صاحب نے مجھے اور کوشل کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جی؟‘‘
’’مگر ٹکٹ کیوں نہیں لیا تم نے، کہاں سے سوار ہوئے ہو؟‘‘
’’کیا بتائیں کہاں سے سوار ہوئے ہیں۔‘‘
’’کیوں کوئی کہانی سنانا چاہتی ہو؟‘‘ بابو صاحب نے اکھڑ پن سے کہا۔
’’سنئے بابو صاحب ٹکٹ نہیں ہے ہمارے پاس آپ آپ براہ کرم…‘‘
’’ہاں ہاں ٹکٹ بنانے میں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کہاں سے سوار ہوئے ہو خود بتا دو ایمانداری سے اور ٹکٹ بنوا لو، رقم ادا کر دو۔ ہمارا یہی کام ہے۔‘‘
’’ہمارے پاس رقم بھی نہیں ہے۔‘‘
میرے بجائے کوشل نے کہا اور بابو صاحب نے سامنے کی ہوئی کاپی پیچھے کرلی اور گھورتے ہوئے بولے۔
’’رقم بھی نہیں ہے، ٹکٹ بھی نہیں ہے تو پھر بیگم صاحبہ ٹرین میں سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’تم وہی کرو بابو جو زیادہ سے زیادہ کر سکتے ہو۔ تم ہمیں پولیس کے حوالے کر دو، درحقیقت ہم اتنے ہی پریشان حال ہیں کہ اگر تم ہمیں پولیس کی تحویل میں دے دو گے تو ہمیں زندگی کی مصیبتوں سے نجات مل جائے گی۔‘‘ ٹی ٹی ہم دونوں کی صورت دیکھتا رہا۔ میرا تو دَم ہی نکل گیا تھا پولیس کے نام سے۔ اگر واقعی ٹکٹ بابو صاحب نے ہمیں پولیس کے حوالے کر دیا تو کوشل کا تو کچھ نہیں بگڑے گا۔ لیکن، لیکن میرا جو کچھ ہو گا وہ میں اچھی طرح جانتا تھا۔ بھلا ہندوستان کا کونسا گوشہ تھا جہاں کے پولیس اسٹیشنوں میں میرا ریکارڈ موجود نہ ہو۔ کئی انسانوں کا قاتل ایک بدترین انسان، ایک مفرور ملزم، میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ اور صابر ہوگیا جو ہونا ہے اسے کون ٹال سکتا ہے۔ ٹی ٹی چند لمحات سوچتا رہا پھر وہاں سے آگے بڑھ گیا، واپسی میں پلٹ کر اس نے پوچھا۔
’’تم جا کہاں رہے تھے؟‘‘
’’ہمیں اَلور جانا ہے۔‘‘ کوشل نے جواب دیا۔
’’ہوں۔‘‘ اس نے عجیب سے انداز میں کہا اور پھر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ وہ کمپارٹمنٹ سے نکل گیا تھا اس کے جانے کے بعد کوشل نے اطمینان کی گہری سانس لی اور کہنے لگی۔
’’پولیس اسٹیشن پہنچنے کے بعد میں اپنے پِتا جی کا پتا ان لوگوں کو بتا دوں گی اور اگر ممکن ہو سکا تو انہیں اطلاع بھی کرا دوں گی۔ تم بالکل فکر مت کرو، پِتا جی معمولی آدمی نہیں ہیں۔ وہ فوراً ہی ہمارے پاس پہنچیں گے اور ہمیں چھڑا کر لے جائیں گے۔‘‘ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں تو صرف اپنے بارے میں سوچ رہا تھا۔ بے شک کوشل کا کہنا ایک طرح سے دُرست تھا۔ اس کے پتا جی بہت بڑے آدمی ہوں گے۔ وہ آئیں گے اور کوشل کو چھڑا کر لے جائیں گے لیکن اگر مجھے کسی نے پہچان لیا تو پھر مجھے بھلا کون چھڑا سکے گا۔ خیر جو تقدیر میں ہے وہ تو بھگتنا ہی پڑے گا۔ میں زیادہ کیوں سوچوں اس بارے میں چنانچہ خود بھی اطمینان سے بیٹھ گیا۔ صبح ہونے میں اب بہت زیادہ دیر نہیں رہی تھی، غالباً اس وقت سات بجے تھے جب اچانک وہی ٹکٹ کلکٹر صاحب آئے، ہم نے یہی سمجھا تھا کہ اب وہ ہمیں پولیس اسٹیشن لے جانے کی خوشخبری سنائیں گے لیکن انہوں نے ایک پرچی ہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
’’میں نے ٹکٹ بنا دیا ہے تم لوگوں کا اور پیسے اپنے پاس سے بھر دیے ہیں، ویسے کوشش کیا کرو کہ مصیبتوں سے بچنے کے لیے کوئی ایسا قدم نہ اُٹھائو جس سے عزت پر حرف آ جائے۔‘‘
’’جی، آپ نے اپنے پاس سے پیسے بھر دیے ہیں؟‘‘
’’کیوں انسان نہیں ہوں کیا، میری ڈیوٹی ختم ہو رہی ہے، میں نہیں جانتا کہ دُوسرا ٹکٹ چیکر تمہارے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ اَلور تک کا ٹکٹ بنا دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم جھوٹے نہیں ہو، بہرحال میں نے تمہارے حصے کے پیسے بھر دیے ہیں اور یہ کوئی احسان نہیں ہے، انسان کو انسان کے کام آنا ہی چاہیے۔‘‘ ٹکٹ چیکر آگے بڑھ گیا۔ میں عجیب سی نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا، پھر میں نے پرچی پر نظر ڈالی اور کوشل نے آہستہ سے کہا۔
’’میں نے اس کا بیج نمبر دیکھ لیا ہے فکر مت کرو جتنی رقم اس نے ہمارے ٹکٹ کے سلسلے میں بھری ہے اس سے سو گنا زیادہ کر کے اسے یہ رقم واپس کر دوں گی۔‘‘ میں عجیب سی نظروں سے کوشل کو دیکھنے لگا۔ جو احسان اس ٹکٹ چیکر نے مجھ پر کیا تھا اس کا تصور کوشل کر بھی نہیں سکتی تھی۔
دن گزرنے لگا سفر جاری رہا، دو بار ٹکٹ چیکر نے ہمارے ٹکٹ چیک کئے۔ ہم بھوکے پیاسے تھے۔ بس ایک دو بار اسٹیشن پر میں نے اور کوشل نے اُتر کر پانی پیا، کسی کی مدد بھی قبول نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کم از کم اتنی ہمت تھی کہ بھوکے پیاسے رہ کر سفر کر سکیں۔ کوشل اب مجھے بتانے لگی تھی کہ اَلور کتنے فاصلے پر ہے اور ہمیں کتنا سفر طے کرنا ہے۔ اس کے چہرے کی رونقیں واپس لوٹ آئی تھیں۔ اس نے کئی بار محبت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا تھا۔ میری احسان مند تھی اور اب اسے مجھ پر یقین ہو گیا تھا کہ میں نے اس کی بھرپور مدد کی ہے اور اسے نجانے کہاں کہاں رُسوا ہونے سے بچا لیا ہے۔
رات کے آٹھ بجے تھے اس وقت، جب ریل اَلور کے اسٹیشن میں داخل ہوئی۔ اچھا خاصا اسٹیشن تھا۔ جدید پیمانے پر آراستہ، ہر طرح کی سہولتیں تھیں۔ ہم دونوں تھکے تھکے قدم اُٹھاتے ہوئے نیچے اُترے اور آہستہ آہستہ پلیٹ فارم کی جانب بڑھنے لگے، تھوڑے فاصلے پر پہنچنے کے بعد ریلوے گیٹ آیا، اس سے باہر نکلے تانگے کھڑے ہوئے تھے۔ شہر میں اچھی خاصی رونق تھی حالانکہ ایسے علاقوں میں رات کو زندگی سات بجے ہی مدھم پڑ جاتی ہے لیکن ریاست اَلور کا شہر اَلور بڑا پُررونق تھا، ایک تانگے میں بیٹھ کر کوشل نے تانگے والے کو جگن ناتھ کی حویلی چلنے کے لیے کہا اور تانگہ چل پڑا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جگن ناتھ جی اتنے مشہور تھے کہ تانگے والے بھی اس حویلی کے بارے میں جانتے تھے۔ تانگہ سفر کرتا رہا راستے میں اچانک کوشل کہنے لگی۔
’’ایک بات کہوں مسعود، برا تو نہیں مانو گے؟‘‘ میں نے چونک کر کوشل کو دیکھا۔ عجیب سی التجا تھی اس کی آواز میں۔
’’کیا بات ہے کوشل؟‘‘
’’دیکھو بالکل برا مت ماننا، یہ میں مجبوری کی حالت میں کہہ رہی ہوں، بعد میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’تم اپنا کوئی ہندو نام بتا دینا میرے گھر میں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔ ’’بس فوری طور پر یہ کرلینا، اس کے بعد جو تمہارا من چاہے کرنا۔ بس کوئی بھی نام جیسے پرکاش، جیسے چندر جیسے کچھ اور، کوئی بھی ایک نام، دیکھو میں بحالت مجبوری یہ کہہ رہی ہوں، ذرا تھوڑی سی غلط بات ہو جائے گی اگر تم نے فوراً ہی اپنے آپ کو مسلمان بتا دیا تو…‘‘
’’مجھے یہیں اُتار دو کوشل میں تمہاری حویلی نہیں جانا چاہتا، تم کیا سمجھتی ہو مجھے تم سے کوئی لالچ ہے۔‘‘
’’مان گئے نا بُرا ڈر رہی تھی اس بات سے، نام بدل دینے سے دھرم تو نہیں بدل جاتا، انسان تو سب انسان ہی ہوتے ہیں۔‘‘
’’میرا خیال ہے کوشل میں تمہارے ساتھ تمہاری حویلی نہیں جاسکوں گا۔‘‘
’’ارے ارے کیسی باتیں کر رہے ہو۔ اچھا چلو چھوڑو تمہاری مرضی میں، میں خود سنبھال لوں گی بس تم چپ ہی رہنا۔‘‘
’’مگر اب تم اپنے گھر آ گئی ہو، میں راستے ہی میں کہیں اُتر جاتا ہوں۔‘‘
’’دیکھو میں تم سے التجا کرتی ہوں، بُرا مت مانو میری بات کا۔ نجانے کیوں مجھ کمبخت نے یہ بات کہہ دی۔ نہیں مسعود تم جائو گے نہیں دیکھو، دیکھو ذرا سی بات کو اتنا مت بڑھائو، تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘
’’کوشل تم یقین کرو میں نہایت خوشی سے یہ بات کہہ رہا ہوں، میرا تمہارے ساتھ جانا واقعی اتنا ضروری نہیں ہے۔‘‘
’’تم میرے ساتھ جائو گے۔ ورنہ، ورنہ میں نجانے کیا کر ڈالوں گی، بتائے دیتی ہوں تمہیں۔ میں پاگل ہوں۔‘‘
’’عجیب لڑکی ہو۔ مگر میں اپنا نام تبدیل نہیں کر سکتا، کوشل تم نہیں جانتیں مجھے مجھے …‘‘ میں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ حقیقت تو یہی تھی میں نے بڑی حفاظت کی تھی، بہت حفاظت کی تھی اپنے نام کی ورنہ نجانے کیا سے کیا ہو جاتا۔ کوشل گردن جھکائے خاموش بیٹھ گئی تھی۔ تانگہ کوئی بیس منٹ تک ہچکولے کھاتا رہا اور اس کے بعد ایک عظیم الشان اور خوبصورت حویلی کے سامنے رُک گیا۔ حویلی کا بڑا سا پھاٹک دیکھ کر کوشل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے، وہ آہستہ سے نیچے اُتری اور پھر دروازے کے پاس پہنچ کر دروازہ بجانے لگی۔ ایک آدمی نے چھوٹی کھڑکی کھولی تھی، کوشل نے اس سے کہا۔
’’دھرمو چاچا، تانگے والے کو پیسے دے دو۔‘‘ اس آدمی کا سر بری طرح گیٹ سے ٹکرایا اور اس نے پھٹی پھٹی آواز میں کہا۔
’’کوشل بیٹا، کوشل بیٹا۔‘‘
’’اندر مت بھاگ جانا تانگے والے کو پہلے پیسے دو، پیسے ہیں تمہارے پاس؟‘‘
’’کک، کوشل بیٹا تت… تم آ گئیں…‘‘ دھرمو نام کا آدمی باہر نکل آیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے کوشل کو دیکھ رہا تھا۔
’’ہاں میں آ گئی ہوں دھرمو چاچا تم تانگے والے کو پیسے دو!‘‘
’’ایں… ہاں۔ اچھا لے بھائی، لے سارے رکھ لے بھاگ جا۔ مالک مالک کوشل بٹیا آ گئیں مالک۔‘‘ دھرمو چیختا ہوا اندر بھاگ گیا، تانگے والے کو اس نے جو کچھ اس کے پاس تھا سب دے دیا تھا۔ وہ یہ خوشخبری خود دینا چاہتا تھا۔
اندر سے پیتل کی گھنٹیاں بجنے کی آوازیں آ رہی تھیں، ساتھ ہی کوئی پھٹی پھٹی آواز میں اَشلوک پڑھ رہا تھا۔ میری سمجھ میں البتہ کچھ نہیں آیا تھا۔
’’یہ کیا ہے کوشل!‘‘
’’میرے لیے ہو رہا ہے یہ سب کچھ۔ رام کتھا کہی جا رہی ہے۔ کیرتن ہو رہی ہے۔ ہمارے دھرم میں کسی مشکل پڑ جانے پر یہ سب ہوتا ہے۔‘‘ کوشل نے بتایا۔
دھرمو چوکیدار اندر پہنچ چکا تھا، اس کی آواز سن لی گئی تھی۔ ہم کوٹھی کے صدر دروازے تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ اندر سے بیشمار عورتیں اور مرد نکل آئے۔ عورتیں سفید ساڑھیاں باندھے ہوئے تھیں مرد اُوپری بدن سے برہنہ ہاتھوں میں چمٹے اور مجیرے لیے ہوئے تھے۔ وہ سب ہماری طرف دوڑے اور ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ وہ اُچھل اُچھل کر مجیرے بجا رہے تھے۔ پھر ایک بھاری بھرکم آدمی آگے بڑھا اس کے پیچھے ایک عورت روتی چیختی آ رہی تھی۔
’’کہاں ہے میری کوشل کہاں ہے۔ کہاں ہے میری بچی کہاں ہے۔‘‘ معمر شخص نے ان اودھم مچانے والوں سے کہا۔
’’بس کرو پنڈت جی بس کرو۔ لالہ جی خاموش ہو جائو، بس کرو۔‘‘ بمشکل تمام ہمیں ان کے نرغے سے نکالا جا سکا۔ معمر عورت جو کوشل کی ماں تھی کوشل سے مل کر زار و قطار رونے لگی۔ غرض ہر طرف ہنگامہ ہی ہنگامہ تھا۔ میں نے اس ہنگامے سے فائدہ اُٹھا کر پیچھے کھسکنا چاہا تو کوشل جیسے میرے ارادے کو سمجھ گئی۔
’’انہیں عزت سے لے چلو!‘‘ اس نے کچھ لوگوں کو اشارہ کیا اور وہ میرے گرد پھیل گئے۔
’’آیئے مہاراج۔‘‘ اس وقت کچھ کہنا بیکار تھا چنانچہ میں ان کے ساتھ اندر چل پڑا۔ حویلی انتہائی شاندار تھی۔ وہ مجھے ایک عظیم الشان کمرے میں لے آئے اور یہاں بڑے احترام سے مجھے بٹھا دیا۔
’’کچھ جل پانی مہاراج۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔
’’نہیں کچھ نہیں شکریہ۔‘‘ میں نے کہا، دو تین منٹ کے بعد ایک شخص اندر آ گیا۔
’’تکلیف کریں مہاراج۔‘‘ اس نے کہا۔
’’کہاں؟‘‘
’’آیئے آپ کو کمرے میں پہنچا دوں، میرا نام سکھ چرن ہے آپ کی سیوا کی ہدایت کی گئی ہے مجھے۔‘‘
’’میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں سکھ چرن۔‘‘
’’مہاراج ہماری گردن کٹ جائے گی ہم پر دیا کریں۔‘‘ اس نے عاجزی سے کہا مجھے خاموش ہونا پڑا۔ یہ شخص مجھے ایک آراستہ کمرے میں لایا اور ایک طرف اشارہ کر کے بولا۔
’’وہ اشنان گھر ہے مہاراج نہا لیں۔ میں باہر ہوں جب من چاہے آواز دے لیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا اور وہ باہر نکل گیا، اس کے جانے کے بعد میں نے کمرے پر نظر ڈالی، اس کی آرائش کا کیا کہنا جدھر نظر اُٹھتی دولت کے کھیل نظر آتے۔ پھر غسل خانے کی طرف بڑھا، پانی دیکھ کر میری کیفیت بھی ان بنجاروں سے مختلف نہیں ہوئی تھی۔ پانی کے نیچے بیٹھا تو اس وقت اُٹھا جب تک بدن ٹھنڈا نہ ہوگیا، آنکھیں سرخ نہ ہوگئیں۔ نشے کی سی کیفیت کا احساس ہو رہا تھا۔ جھومتا ہوا باہر نکلا اور قیمتی مسہری پر دراز ہوگیا۔ باہر نہ جانے کیا کیا ہو رہا تھا میں اس سے بے خبر تھا۔ نہ جانے کتنی دیر گزری تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اور پھر سکھ چرن ناک پر کپڑا رکھے اندر آ گیا۔‘‘
’’یہ کریم خان ہے سرکار، آپ کے لیے کھانا لایا ہے۔‘‘ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا، کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ نیا آنے والا قمیض پاجامے میں ملبوس ایک عمر رسیدہ آدمی تھا، چہرے پر داڑھی نظر آ رہی تھی۔ ہاتھ میں کچھ برتن تھے جو کپڑے میں بندھے ہوئے تھے، ایک ہاتھ میں پانی کی چھوٹی مٹکی اور گلاس تھا۔ سکھ رام اسی طرح ناک پر کپڑا رکھے باہر نکل گیا۔
’’حضور… کریم خاں ہے ہمارا نام۔ نانبائی ہیں۔ سیٹھ صاحب کا آدمی ہمارے پاس آیا تھا۔ کہنے لگا ایک مسلمان کے لیے کھانا تیار کرو اور ساتھ لے کر چلو، مرغیاں پلی ہوئی ہیں گھر میں۔ ایک مرغی ذبح کر کے جلدی جلدی بھون لی ہے اور چار روٹیاں پکا لائے ہیں۔ اس وقت تو حضور یہی ہو سکا ہے۔ کل کے لیے حکم دے دیں جو ارشاد فرمائیں گے پکا دوں گا۔ پانی اور برتن بھی ہمارے ہیں اور الحمدللہ پاک صاف ہیں۔ بلاتامل نوش فرمایئے۔‘‘
میں سکتے میں رہ گیا۔ گویا کوشل نے میرے جذبے کا احترام کیا اور یہ سب کچھ کر ڈالا۔ شرمندگی بھی ہوئی۔ ان حالات میں اتنی جلدی یہ سب کچھ کرنا متاثرکن عمل تھا لیکن بھوک بھی لگ رہی تھی۔ کیا ہی لذیذ مرغی تھی، کریم خان سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ پھر سکھ رام کے ناک پر کپڑا رکھنے کا خیال آیا اور میں سمجھ گیا کہ اسے گوشت کا علم تھا۔ میرے نزدیک ایک بڑی بات تھی یہ۔ کھانے کے بعد میں نے کریم خاں سے کہا۔
’’کریم خاں، تمہاری دُکان کتنی دُور ہے۔‘‘
’’اک ذرا فاصلے پر، وہیں غریب خانہ بھی ہے۔ اسی میں دُکان نکال لی ہے۔‘‘
’’کہاں کے رہنے والے ہو۔‘‘
’’بندہ ٔپرور! اب تو الوری ہیں۔ اجداد کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔‘‘
’’لگتا ہے۔ بہرحال کریم خاں کل دوپہر کو قورمہ اور نان کھلائو، وہیں دُکان پر آ جائیں گے۔‘‘
’’جو حکم عالی جاہ…جائیں… اجازت؟‘‘
’’شکریہ کریم خاں۔‘‘ میں نے کہا اور کریم خاں چلا گیا۔ میں جانتا تھا کہ سب کوشل میں مصروف ہوں گے اور اس وقت میرے لیے سو جانا ہی بہتر ہے۔ چنانچہ سونے کی کوشش کرنے لگا اور آرام دہ بستر پر نیند آ گئی۔ صبح کو خوب دیر سے جاگا تھا۔ یاد ہی نہ آیا کہ کہاں ہوں۔ پھر یاد آ گیا اور شرمندگی سی ہوئی مگر کیا کرتا۔ کوشل نے نہیں جانے دیا تھا۔ غسل خانے جا کر منہ ہاتھ دھویا باہر نکلا تو کریم خاں موجود تھا۔
’’ارے کریم خاں… کیسے؟‘‘
’’ناشتہ لایا ہوں عالی نسب۔ یہ حلوہ پوری اور ترکاری ہے!‘‘
’’افوہ۔ اچھا ٹھیک ہے مگر دوپہر کو یہاں کچھ نہ لانا۔ میں خود آئوں گا۔‘‘
’’ہم نے بتایا تھا کشوری لعل کو۔‘‘
’’کشوری لعل کون ہے…؟‘‘
’’جگن ناتھ کے منیجر ہیں۔‘‘
’’کچھ کہا تو نہیں۔‘‘
’’بس یہی کہا کہ جیسا سیٹھ کہیں گے اطلاع دے دی جائے گی مگر یہ بھی کہا کہ فرمائش کا کھانا پکا لینا۔‘‘
’’تمہارا تو بڑا حرج ہوا ہوگا اس وقت؟‘‘
’’غلام زادہ دُکان پر ہے۔ ہمیں آٹھ گنا زیادہ اُجرت ادا کی گئی ہے۔‘‘ کریم خاں چلا گیا۔ میں عجیب سی کیفیت کا شکار تھا۔ کوشل میرے احسانات اُتار رہی تھی۔ کیا احسان کیا تھا اس بے چاری پر، اپنا بھی تو مسئلہ تھا۔ میں بھلا کسی کے ساتھ کیا احسان کرسکتا تھا۔ ریحانہ بیگم اور سرفراز وغیرہ یاد آئے، کیا سوچا ہوگا بے چاروں نے میرے بارے میں۔ کیا سمجھ رہے ہوں گے۔
خیر کیا کر سکتا ہوں میں تو خود ایک مجبور انسان ہوں۔
باہر کچھ آوازیں سنائی دیں۔ پھر کوشل نے کہا۔ ’’میں اندرآ سکتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اندر آ گئی۔ پیچھے اس کے ماں باپ تھے۔ جگن ناتھ نے مجھ سے ہاتھ ملایا ان کی بیوی نے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
’’جیتے رہو بیٹے۔ بھگوان ماتا پتا کا کلیجہ ٹھنڈا رکھے۔‘‘ اس دُعا نے دل میں رقت پیدا کر دی۔ میرے ماں باپ کا کلیجہ جیسے ٹھنڈا ہوگا میرا دل ہی جانتا تھا۔ سب بیٹھ گئے جگن ناتھ نے کہا۔
’’جو کچھ تم نے ہمارے لیے کیا ہے مسعود بیٹے اس کا شکریہ ادا کرنا تمہاری توہین کرنا ہے۔ ایک پریوار کو بچایا ہے تم نے، ایک خاندان کی لاج بچائی ہے۔ کوشل نے ہمیں پوری کہانی سنا دی ہے۔ کرنے کو تو بہت کچھ کیا جا سکتا ہے، پورے ہندوستان میں ان بنجاروں کو تلاش کرایا جا سکتا ہے مگر… چھوڑ دیا یہ خیال۔ بھگوان انہیں خود سزا دے گا!‘‘
’’جی یہی بہتر ہے!‘‘ میں نے کہا۔
’’تم سے ابھی تمہارے بارے میں ہم کچھ نہیں پوچھیں گے۔ ہمارے مہمان رہو۔ خوب آرام کر کے تھکن اُتارو، اس کے بعد تم سے تمہارے بارے میں باتیں ہوں گی۔‘‘
’’جی…‘‘ میں نے کہا۔
’’کوئی ایسا کام تو نہیں الجھا ہوا جس کی وجہ سے کوئی پریشانی ہو، اپنی خیریت کی اطلاع کہیں بھجوانا چاہتے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
’’بس ٹھیک ہے۔ کوشل کے ذریعہ میرا تعارف تو ہو چکا ہوگا۔ جو کچھ بھی ہوں تمہارا احسان مانتا ہوں۔ دین دھرم بڑی چیز ہے اس کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن انسانیت کا محسن سب سے عظیم ہوتا ہے۔ تمہیں مہمان تو ہمارا رہنا ہوگا مگر تمہارے لیے کھانے اور برتنوں کا اہتمام کریم خاں کے حوالے کر دیا گیا ہے اور وہ ایک کھرا مسلمان ہے۔‘‘
’’مجھے اس سلسلے میں سب سے زیادہ شرمندگی ہے۔‘‘
’’مگر ہمیں تمہارے عقائد کا احترام کر کے خوشی ہوتی ہے۔‘‘
’’ایک درخواست کروں گا!‘‘
’’ضرور!‘‘
’’کھانا میں کریم خاں کے گھر جا کر کھا لیا کروں گا!‘‘
’’کشوری لعل نے بتایا تھا۔ اگر تم اس میں خوش ہو تو ہمیں اعتراض نہیں ہے اور کوئی بات…؟‘‘
’’نہیں شکریہ!‘‘
’’اس وقت تک یہاں سے جانے کی بات نہ کرنا جب تک ہمارا دل نہ بھر جائے، میں تمہارا بڑا ہوں اور اچھے لوگ بڑوں کی خواہش کا احترام کرتے ہیں۔ اس خواہش کو جوابی احسان نہ سمجھنا بلکہ ہمارا پیار تصور کرنا۔‘‘
’’جی بہتر…‘‘
’’بس اب چلیں گے۔ کوشل سے باتیں کرو۔‘‘
وہ دونوں اُٹھ کر باہر نکل گئے۔ کوشل مسکراتی نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی، حلیہ ہی بدل گیا تھا ایک رات میں، چہرے پر شادابی اور آنکھوں میں زندگی لوٹ آئی تھی۔
’’جناب عالی…!‘‘ اس نے کہا۔
’’یہ بہت زیادہ ہے کوشل…!‘‘
’’ایک بات کہوں یقین کر لو گے…؟‘‘
’’کہو…!‘‘
’’تم کون ہو، میں نہیں جانتی۔ کن حالات کا شکار ہو مجھے نہیں معلوم۔ بتائو گے تو سن لوں گی نہ بتانا چاہو گے تو اصرار نہیں کروں گی، مگر میرے دل میں تمہارے لیے بڑا پیار ہے۔ عورت کی آبرو ہی اس کا مان ہوتی ہے اور آبرو کا رکھوالا اس کا سنسار۔ میں پڑھی لکھی اور آزاد خیال لڑکی ہوں۔ عشق نہیں کیا کسی سے، لیکن دل کسی کے پیار کی طلب سے خالی بھی نہیں ہے۔ ہاں ایک انتخاب تھا ذہن میں۔ تمہیں میری کمزوری سے فائدہ اُٹھانے کے ہزار مواقع حاصل تھے مگر تم نے ایک عورت کو زندگی بخشی، اس کی لاج اس کی جان بچائی ورنہ نہ جانے میرا کیا ہوتا۔ یہ عورت تمہارا احسان مانتی ہے اگر تم میرے دھرم کے ہوتے تو شاید تم میرے جیون کے مرد ہوتے مگر تم دھرم کے پکے ہو اور میں بھی اپنا دھرم نہیں چھوڑ سکتی۔ اس لیے ہمارے بیچ یہ رشتہ قائم نہیں ہو سکتا ایک عورت کی حیثیت سے میں تمہیں کیا دوں؟‘‘
’’میرا منہ حیرت سے کھل گیا۔ میں نے تھوک نگلا اور اسے دیکھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد وہ پھر بولی۔‘‘ فیصلہ مجھے کرنے دو گے؟
’’پتہ نہیں کیا کہہ رہی ہو…‘‘ میں نے بمشکل کہا۔
’’اس وقت جب بھیڑیوں کے بیچ تھی تم نے اپنا سینہ کھول دیا تھا۔ آج محفوظ ہوں تو تمہیں کچھ دینا چاہتی ہوں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’ایک رشتہ ایک مان!‘‘
’’تم جذباتی ہو رہی ہو کوشل…‘‘
’’ہاں۔ ہو رہی ہوں، کیونکہ جذبات زندگی کی علامت ہوتے ہیں۔ غیرجذباتی لوگوں کو بھی تم زندہ سمجھتے ہو؟‘‘
’’کوشل۔ کیوں شرمندہ کر رہی ہو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’بہت متاثر کیا ہے تم نے مجھے مسعود۔ تمہارا ایک کردار ہے۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ کچھ دیر کے لیے نام بدل لو، تم نے میرا ساتھ چھوڑ دینا چاہا۔ تم احسان کر کے احسان وصول کرنے والوں میں سے نہیں ہو۔ معمولی آدمی بنو تم… ایسے غیر معمولی انسان کو میں کیا دے سکتی ہوں۔‘‘
’’کوشل، چھوڑو بھی۔ تم نے بھی تو مجھے خوب شرمندہ کیا۔ میرے کھانے کے لیے اہتمام کیا اور وہ بھی ایسے وقت جب سب لوگ تمہارے لیے دیوانے ہو رہے تھے۔‘‘
’’ذکر مت کرو اتنی چھوٹی باتوں کا۔ میں تم پر نچھاور ہونا چاہتی ہوں۔ بس یہ میری آرزو ہے۔ مجھے ایک عورت کی حیثیت سے مانگنا چاہتے ہو تو مانگ لو، میں تمہاری ہر خوشی اپنی خوشی سے پوری کروں گی۔‘‘
’’ارے ارے۔ پاگل ہو گئی ہو کیا۔ کیا ہو گیا تمہیں۔‘‘ میں بوکھلا کر بولا۔
’’آکاش بن گئے ہو تم میرے لیے۔ دھرتی ہوں میں تمہارے سامنے۔ بولو… مسعود میں حاضر ہوں، یا پھر میرا فیصلہ مان لو!‘‘
’’کیا فیصلہ ہے تمہارا…‘‘
’’راکھی باندھوں گی تمہیں۔ بھائی بنائوں گی اپنا۔ دھرم سارے رشتوں کے آڑے آتا ہے، بہن بھائی کے رشتے کو نہیں کاٹ سکتا۔ تمہیں ہمایوں بادشاہ یاد ہوگا؟ ایک ہندو رانی کو بہن بنا کر اس نے قول نبھایا تھا۔‘‘
’’تو جائو راکھی لے آئو۔ میرا ہاتھ موجود ہے۔‘‘ میں نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا اور کوشل نے آگے بڑھ کر میری کلائی پکڑ لی، اسے چوما، آنکھوں سے لگایا اور بولی۔
’’یہی میری راکھی ہے…!‘‘
’’مجھے قبول ہے۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا اور وہ میرے سینے آ لگی۔ ’’بڑی جذباتی ہو تم کوشل۔‘‘ میں نے کہا اور میرے حلق سے سسکی سی نکل گئی، شمسہ یاد آ گئی تھی۔ کوشل خود پاگل ہو رہی تھی۔ اس نے میری اس کیفیت کو محسوس کیا۔ رفتہ رفتہ وہ سنبھل گئی اور پھر شرمندہ نظر آنے لگی۔
’’بس مذاق مت اُڑانا میری باتوں کا۔ یہاں سب ہی کے دل میں تمہارے لیے ایسے ہی جذبات ہیں۔‘‘
’’تم نے بڑھ چڑھ کر کہانیاں سنائی ہوں گی انہیں۔‘‘
’’ایک لفظ غلط نہیں کہا۔ ویسے یہاں بھی بڑے بھجن ہو رہے تھے اور ایک اور کام بھی ہوا ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
اتفاق سے سنت گیانی الور آ گئے تھے۔ پتا جی کے بڑے پرانے جاننے والے ہیں۔ بڑے میاں ہیں، ان کے بہت سے چمتکار میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ وہ ہانڈی یاد ہے تمہیں؟
’’مٹھ؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں۔ وہ بنجاروں نے ہمارے لیے نہیں بھیجی تھی بلکہ گیانی مہاراج نے اُڑائی تھی ہمارے دُشمنوں کو مارنے کے لیے، اور اس کے تو تم بھی گواہ ہو کہ وہ سسرے مر گئے تھے۔ سب لوگ مٹھ اُڑانے کا وہی وقت بتاتے ہیں، جب ہم نے مٹھ دیکھی تھی۔ گیانی مہاراج تین دن کے جاپ کے لیے بند ہو کر بیٹھ گئے ہیں اور انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اس بیچ میں واپس آ جائوں گی۔‘‘
’’ویری گڈ۔ تین دن پورے ہوگئے۔‘‘
’’آج بارہ بجے ہو جائیں گے۔‘‘
’’کمال ہے۔ بہرحال میں ان جادو منتروں کا قائل ہوں۔ میں بھی ملوں گا ان سے، کسی مسلمان سے مل لیں گے وہ؟‘‘
’’ضرور ملیں گے۔ میں تو کہتی ہوں وہ جانتے بھی ہوں گے، تم ہی میری مدد کرو گے، تم دیکھ لینا وہ خود یہ بات بتا دیں گے…!‘‘
’’تب میں بھی ان سے کچھ پوچھوں گا اپنے بارے میں۔ ہو سکتا ہے وہی میری مشکل کا کوئی حل بتا سکیں۔ بارہ بجے نکلیں گے وہ اپنے جاپ سے؟‘‘
’’ہاں ٹھیک بارہ بجے۔ کوشل نے جواب دیا اور میرے دل میں تجسس بیدار ہوگیا۔‘‘ میں بھی اس وقت گیانی کو آزمانا چاہتا تھا۔
کوشل چلی گئی مگر میں حیرتوں میں ڈُوبا رہا۔ وہ سنت گیانی میرے لیے حیران کن تھے جنہوں نے جاپ کر کے کوشل کو اس مصیبت سے نکالا تھا۔ حالانکہ میں نے کوشل کے لیے جان کی بازی لگا دی تھی، ان بنجاروں کو دھوکہ دینے کے لیے بہترین منصوبہ بنایا تھا جس میں کوئی معمولی سی لغزش میری زندگی کا خاتمہ کر سکتی تھی لیکن سنت گیانی۔ ویسے چند باتیں تسلیم کرنی پڑتی تھیں، مثلاً جمنے کا میرے منصوبے پر تیارہو جانا، میری خواہش کے مطابق میرے لیے گاڑی مہیا کر دینا اور پھر وہ ہانڈی۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
بارہ بج گئے۔ میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ سارے ملازم بھاگے بھاگے پھر رہے تھے۔ عجیب دھماچوکڑی مچی ہوئی تھی۔
’’ارے رُکو۔‘‘ میں نے ایک ملازم کو روکا۔
’’جی سرکار؟‘‘
’’کوشل دیوی کہاں ہیں؟‘‘
’’گیانی مہاراج کے کمرے میں۔‘‘
’’ہاں مہاراج۔ ٹھیک بارہ بجے۔ سب وہاں جمع تھے۔ انہوں نے اندر سے رمبھو کو آواز دی تھی؟‘‘
’’رمبھو کو؟‘‘
’’ہاں سرکار۔ رمبھو ہی اس وقت وہاں موجود تھا۔‘‘ حالانکہ الگ الگ نوکر وہاں رہتے تھے۔ مگر گیانی مہاراج جانتے تھے کہ اس وقت رمبھو وہاں موجود ہے کہنے لگے۔ رمبھو، کوشل کو اندر بھیج دو! رادھے کرشن رادھے کرشن۔ مہاراج یہ بھی جانتے تھے کہ کوشل دیوی آ گئی ہیں۔ اتنا ہی یقین تھا انہیں۔ شربت کا گلاس لے کر کوشل دیوی ہی اندر گئی تھیں۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ابھی بڑے سرکار کو اندر بلایا گیا ہے۔‘‘
’’ذرا مجھے بھی وہاں پہنچا دو!‘‘
’’وہ سامنے سے بائیں طرف مڑ جایئے۔ سامنے لوگ کھڑے نظر آ جائیں گے۔‘‘ ملازم نے کہا اور میں آگے بڑھ گیا۔ یہاں مجھے عزت دی جا رہی تھی۔ بہت سے لوگ وہاں موجود تھے مجھے انہوں نے جگہ دی۔ اسی وقت ایک ملازم اندر سے باہر آیا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’صاحب آپ کو گیانی مہاراج بلا رہے ہیں۔‘‘
’’مجھے؟‘‘ میں اچنبھے میں رہ گیا۔
’’جی مہاراج اچانک بولے رمبھو باہر مسعود آ گیا ہے اسے اندر بلائو۔ آیئے مہاراج!‘‘ وہ بولا اور میں لڑکھڑاتے قدموں سے اندر داخل ہوگیا۔ گیانی مہاراج زمین پر مرگ چھالہ بچھائے بیٹھے تھے ان کے سامنے جگن ناتھ جی ان کی دھرم پتنی اور کوشل دو زانو بیٹھے تھے۔ ان کے چہروں پر عقیدت نظر آ رہی تھی مگر گیانی مہاراج کے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی میرے بدن کو کرنٹ لگا تھا وہ بھوریا چرن تھا لمبے لمبے بال شانوں پر بکھرائے اُوپری بدن سے برہنہ اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ۔
’’جے بھورنا مچنڈا۔ جے شو شمبھو۔ آ بالک تیرے سر پر ہاتھ رکھوں۔ آ۔ آگے آ۔‘‘ میں اپنی جگہ کھڑا رہا خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا میں۔
’’مسعود بھیا۔ گیانی مہاراج بلا رہے ہیں۔‘‘ کوشل نے کہا میں دِل میں نفرت کا طوفان لیے دو قدم آگے بڑھ گیا۔
’’جے مچنڈا۔ جے شمبھو۔‘‘ بھوریا چرن نے ہاتھ بلند کیا تاکہ میرے سر پر پھیرے لیکن میں سیدھا کھڑا رہا تھا۔ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’تو کیا سمجھتا ہے بھوریا میں تیرے سامنے سر جھکائوں گا۔‘‘ سب چونک پڑے تھے۔ کوشل گھبرا کر بولی۔
’’مسعود بھیا یہ گیانی مہاراج ہیں۔‘‘ بھوریا چرن ہنسنے لگا تھا۔
’’رہنے دو کوشل اس سے ہماری پرانی یاری ہے۔ ہمارے اس کے بیچ یہ چلتا ہے۔‘‘
’’آپ انہیں جانتے ہیں مہاراج؟‘‘ جگن ناتھ نے پوچھا۔
’’اچھی طرح۔ یہ بھی ہمیں جانتے ہیں بیٹھ تو جا لڑکے تجھ سے کچھ باتیں کریں گے ٹھیک ہے سر نہ جھکا ہمارے سامنے۔‘‘
’’سب کے سامنے بھوریا چرن؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں جو باتیں کریں گے وہ سب کے سامنے کی جا سکتی ہیں۔‘‘
’’تو نے مجھے بیٹھنے کے لیے کہا ہے بھوریا۔ اس لیے نہیں بیٹھوں گا بول کیا کہنا چاہتا ہے۔‘‘ میں نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔ جگن ناتھ میرے انداز پر سخت بے چین ہو رہا تھا وہ تو سنت گیانی سے بڑی عقیدت رکھتا تھا اور یہ حقیقت بھی تھی کہ سنت گیانی نے اس کے لیے جو کچھ کیا تھا بہت بڑی بات تھی لیکن میں اپنی نفرت کو کیسے روک سکتا تھا۔ ان لوگوں کو کیا معلوم تھا کہ بھوریا چرن نے مجھے انسانوں کی زندگی سے کتنا دُور کر دیا ہے مگر بھوریا چرن کی پیشانی پر کوئی شکن نہیں تھی۔ اس نے کہا۔
’’مت بیٹھ، مت بیٹھ مگر بائولے تو ہمیشہ یہ بھول جاتا ہے کہ ہم نے قدم قدم پر تیری حفاظت کی ہے، تیرا کیا خیال تھا کیا تو ان جلتے پتھروں میں کتّے کی موت نہ مر جاتا، آسمان کی دُھوپ تجھے جلا کر بھسم نہ کر دیتی، یہ ہم ہی تو تھے جس نے بنجاروں کے من میں تیرے لیے دیا ڈالی اور انہوں نے تجھے برداشت کیا، ورنہ یہ بنجارے پتھر دل ہوتے ہیں، ہر طرح کے کام کر لیتے ہیں یہ بھلا کسی کو اپنے بیچ آنے دیتے اور اس کے بعد اس لڑکی کے لیے ہم نے بھاگنے کے راستے آسان کئے اور تو بھی ان کے بیچ سے نکل آیا، ورنہ پاگل تھے نا سسرے کہ تیرا ہی سہارا لیتے۔ بیچنا چاہتے تھے وہ اسے کیوں ری کوشل جھوٹ کہہ رہے ہیں ہم اسی لیے انہوں نے تجھے اغواء نہیں کیا تھا کہ تیرا سودا کر دیں۔ تو پاگل بن گئی تھی ٹھیک ہے مگر ایک پاگل لڑکی بھی تو بیچی جا سکتی ہے۔ وہ لوگ تجھ پر تشدد کر کے یہ قبول کرا سکتے تھے تجھ سے کہ تو پاگل نہیں ہے مگر ہم نے ان کے دماغ اُلٹ دیئے تھے اور انہیں اس بات کے لیے مجبور کر دیا تھا وہ اس بائولے کا سہارا لیں۔ ہم نے سوچا چلو ایک پنتھ دو کاج ہو جائیں۔ تو بھی بچ جائے اور کوشل بھی تیرے ساتھ یہاں تک پہنچ جائے۔ ہانڈی نہ مارتے سسروں پر تو وہ سیدھے تیرے پاس پہنچتے ایسے پہاڑ سے گر کر جان نہ جاتی ان کی۔ سمجھ رہا ہے تو؟‘‘ بھوریا چرن نے اس طرح یہ ساری باتیں کہیں جیسے اس کی آنکھیں پورا منظر دیکھتی رہی ہوں۔ اس کا دماغ ان لوگوں کے دماغ کی ساری باتیں سمجھتا رہا ہو۔ یہ بلاشبہ اس کی ناپاک قوتوں کا کمال تھا لیکن کالے جادو کی یہ قوتیں بارہا میرے سامنے آ چکی تھیں اور میں ان سے ناواقف نہیں تھا۔ بھوریا چرن نے جو کچھ کہا تھا اس سے مجھے خانہ بدوشوں کے چنگل سے نکل آنے کا موقع ضرور ملا تھا لیکن کیا دھرا بھی تو اسی کمبخت کا تھا۔ میں نے کہا۔
’’ساری باتیں اپنی جگہ ہیں بھوریا چرن مگر میرے تیرے درمیان جو چکر چل رہا ہے میں اس میں اتنا ہی اَٹل ہوں جتنا پہلے دن تھا۔‘‘ بھوریا چرن سپاٹ آنکھوں سے میرا جائزہ لیتا رہا۔ پھر بولا۔
’’میں بھی تجھے بتا چکاہوں بالک جتنا تو مجبور ہے اتنا ہی میں بھی مجبور ہوں، میرا کام تجھ سے ہی ہوگا اور میں تجھے چھوڑ نہیں سکتا۔‘‘
’’ناپاک کتّے، میں تیری یہ خواہش تیری یا اپنی موت کے وقت تک پوری نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ میں نے بپھرے ہوئے لہجے میں کہا اور جگن ناتھ غصّے سے کھڑا ہوگیا، کوشل بھی بے چین ہو کر میرے پاس آگئی، اس نے میرا بازو پکڑتے ہوے کہا۔
’’بھیا، بھیا تم سنت گیانی کی توہین کئے جا رہے ہو۔ یہ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے۔ ہم سب کے لیے ناقابل برداشت ہے۔‘‘
’’معاف کرنا کوشل میرے لیے بھی اس کی باتیں ناقابل برداشت ہی ہیں۔ میں تو پہلے ہی یہاں سے جانا چاہتا تھا تم نے، تم نے…‘‘
’’دیکھو بھئی جگن ناتھ اور تم بھی کوشل، اس کا اور میرا معاملہ میرے اور اس کے بیچ ہے، تم لوگوں نے اگر سچ میں ٹانگ اَڑائی تو میں بُرا مان جائوں گا۔‘‘
’’میرا یہاں نہ رُکناہی بہتر ہے۔‘‘ میں نے کہا اور کمرے سے باہر نکل آیا، اب میرے لیے حویلی سے باہر جانا ہی زیادہ مناسب تھا۔ لیکن چند ہی قدم آگے بڑھا تھا کہ کوشل دوڑتی ہوئی میرے پاس پہنچ گئی اس نے میرا بازو پکڑ کر کہا۔
’’کہاں جا رہے ہو مسعود بھیّا ابھی نہیں جانے دوں گی تمہیں۔ اتنے پکے رشتے کو ایسے توڑ رہے ہو۔‘‘
’’کوشل مجھے مجبور مت کرو وہ وقت دُور نہیں ہے جب تم لوگ خود مجھے دھکے دے کر باہر نکالو گے، مجھے عزت سے یہاں سے چلے جانے دو۔ اب بات دُوسری ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیسی باتیں کرتے ہو مسعود بھیّا۔ تم نے میرا جیون بچایا ہے میری آبرو بچائی ہے، میں نے، میں نے تمہیں اپنا بھائی کہا ہے اس کے بعد یہ کیسے ہو سکتا ہے، تم اپنے کمرے میں جائو تمہیں میری سوگند ہے بھیّا، بڑے مان سے میں نے تمہیں اپنی قسم دلائی ہے ابھی یہاں سے جانے کی بات نہ کرو۔ تم جانا چاہو گے تو ہم روکیں گے تو نہیں مگر ایسے نہیں ابھی نہیں۔ جو باتیں تمہارے اور گیانی جی کے بیچ ہوئی ہیں ان پر میں اور پتا جی خود حیران ہیں۔ ہم ذرا سنت گیانی مہاراج سے کچھ باتیں کرلیں، اندر جائو بھیّا قسم دلائی ہے میں نے بتا دو مجھے مان رکھو گے میرا۔‘‘
’’تمہاری ضد ہے کوشل ورنہ جو میں نے کہا ہے وہ وقت آنے میں زیادہ دیر نہیں ہے۔‘‘ میں نے گردن جھٹک کر کہا اور اپنے کمرے کی جانب چل پڑا، کوشل مطمئن ہو کر بھوریا چرن کی طرف چلی گئی تھی، کمرے میں آ کر میں اس شیطان سادھو کے بارے میں سوچنے لگا، کمبخت واقعی ناقابل شکست قوتوں کا مالک ہے جو کچھ اس نے بتایا اس کا ثبوت جابجا موجود تھا لیکن وہ مجھے تسخیر نہیں کر سکتا تھا۔ کچھ بھی ہو جائے بھوریا چرن تو کہیں بھی میرے راستے میں آئے تجھ پر لعنت ہی بھیجتا رہوں گا۔ چلو ٹھیک ہے، کوشل کہہ رہی ہے تو تھوڑا وقت اور سہی۔ میں نے دل میں سوچا اور پھر دوپہر کو کریم خان کی طرف چل پڑا۔ کریم خان اپنی دُکان پر اپنے کام میں مصروف تھا۔ اچھا آدمی تھا مجھے دیکھ کر خوش ہوگیا اور اندر بیٹھنے کی پیشکش کی، اس کے چھوٹے سے جھونپڑے نما ہوٹل میں بیٹھ کر میں نے دوپہر کا کھانا کھایا، کریم خان اپنے گاہکوں کو نمٹا کر میرے پاس آ بیٹھا تھا۔
’’کچھ سمجھ میں نہیں آیا بھیّا جی، آخر یہاں آپ نے قیام کیوں کیا ہے، اگر یہیں اَلور میں رہنا تھا تو اور بھی بہت سی جگہیں ہیں، ایک مسلمان کا ہندو کے گھر رہنا بڑا عجیب سا لگتا ہے۔ معاف کیجئے گا میں کسی خاص غرض سے کوئی بات نہیں کہہ رہا، بس یونہی ذرا سی ذہن میں کرید پیدا ہوگئی ہے۔‘‘
’’بہت جلد یہاں سے چلا جائوں گا کریم خان صاحب آپ مطمئن رہیں۔‘‘
’’نہیں، نہیں اچھا خیر چھوڑیئے، یہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے، مجھے یہ بتایئے گا کہ شام کو کیا کھانا پسند فرمائیں گے؟‘‘
’’جو کچھ بھی آپ پکائیں گے کھا لیں گے خان صاحب، بس اب اس سلسلے میں کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’سری پائے پکا رہے ہیں۔ بکری کے آپ کے لیے اور دیکھئے کیا لذیذ پکاتے ہیں آپ بھی کیا یاد کریں گے؟‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے کہا۔
کھانے وغیرہ سے فراغت کے بعد ایک بار پھر حویلی چل پڑا جی تو یہی چاہ رہا تھا کہ یہاں سے چلا جائوں لیکن بس کچھ اخلاقی پابندیاں لگ گئی تھیں۔ کوشل کو سمجھا بجھا کر اس بات پر آمادہ کر لوں گا اور اس کے بعد کسی اور خطے کسی اور گوشے میں بھوریا چرن کے مظالم سہنے کے لیے چل پڑوں گا۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا تھا۔ کوٹھی میں داخل ہوا تو پہلی ملاقات جگن ناتھ سے ہوئی۔ میں نے گردن خم کر دی تھی۔ جگن ناتھ نے کہا۔
’’ایک تھوڑا سا وقت مجھے دو گے؟‘‘
’’کیوں نہیں جگن ناتھ جی۔‘‘
’’آئو میرے ساتھ۔‘‘ وہ مجھے اپنے ساتھ لیے ہوئے اپنے کمرے میں پہنچ گئے، بیٹھنے کے لیے کہا اور پھر بولے۔
’’دراصل بات بس اتنی سی ہے مسعود کہ ہم سنت گیانی سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے مشکل وقت میں کام آئے ہیں وہ۔ انہوں نے اپنے جادو منتروں سے ہمارے بہت سے بگڑے کام بنائے ہیں۔ انہوں نے بے شک ہمیں منع کر دیا ہے مگر ہمارے من میں یہ کرید پیدا ہوگئی ہے کہ تمہارے اور ان کے بیچ ایسا کونسا چکر ہے۔‘‘
’’جگن ناتھ جی میں آپ لوگوں کا بڑا احترام کرتا ہوں، ایک چھوٹا سا کام میرے ذریعے ہوا ہے اور اب تو یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اس کام میں، میں صرف ایک ذریعہ بنا تھا، اصل کھیل سنت گیانی ہی کا تھا میرے اور ان کے درمیان کیا چکر ہے، آپ کا پوچھنا مناسب نہیں ہوگا، نہ ہی وہ یہ چاہیں گے کہ آپ کو تفصیل بتائیں اور نہ ہی میں یہ پسند کروں گا، میں یہ چاہتا ہوں جگن ناتھ جی کہ آپ مجھے جانے کی اجازت دے دیں، کوشل سادہ لوح لڑکی ہے بھائی کہا ہے اس نے مجھے، میری بھی ایک بہن ہے جو مجھ سے بچھڑ گئی ہے، بہن کے رشتے نے میرے پائوں میں زنجیر ڈال دی تھی ورنہ ایک چھوٹے سے احسان کا اتنا بڑا صلہ وصول کرنے کے لیے میں یہاں نہ رُک جاتا، سنت گیانی کے اور میرے مسئلے کو آپ رہنے دیں، اگر پتہ چل گیا تو آپ کو نقصان پہنچے گا، یقین نہ آئے تو یہ بات سنت گیانی سے پوچھ لیجئے۔‘‘
’’بھئی بڑا پریشان ہوگیا ہوں میں، بہرحال بقول تمہارے تم ذریعہ ہی سہی لیکن مجھے میری بیٹی کا منہ تو تم نے دکھایا ہے، سنت جی نے بھی میرے اُوپر ہمیشہ کی طرح احسان کیا ہے، میں یہ بات اس لیے پوچھ رہا تھا کہ اگر کوئی ایسی چھوٹی موٹی بات ہو تو میں اسے ختم کرانے کا ذریعہ بن جائوں، بہرحال تمہاری مرضی۔‘‘ جگن ناتھ سے رُخصت ہو کر اپنے کمرے میں آگیا، ذہن پریشان تھا۔ خواہ مخواہ کی اخلاقی بندشیں باندھ لی تھیں اپنے پیروں میں ورنہ نہ کوشل میری بہن تھی نہ اس ہندو گھرانے سے میرا کوئی واسطہ۔ نجانے کتنا وقت گزر گیا پھر دروازے پر دستک ہوئی اور کوشل اندر آ گئی، عجیب سا چہرہ ہو رہا تھا اس کا بڑا حسرت بھرا سا انداز تھا میرے سامنے آ کر بیٹھ گئی۔
’’کوشل۔‘‘
’’ہاں مسعود بھیّا کچھ کہنا چاہتی ہوں تم سے۔‘‘
’’کیا کوشل؟‘‘
’’بھیّا گیانی جی اگر تم سے کچھ چاہتے ہیں تو ان کی بات مان لو جو کام وہ کہہ رہے ہیں کر دو بھیّا میں بڑی اُمید سے آئی ہوں تمہارے پاس۔‘‘
’’سمجھتی نہیں ہو کوشل تم، میری پوری زندگی برباد ہوگئی ہے۔ سب کچھ دائو پر لگا دیا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں اگر اس گیانی نے تمہیں کچھ تفصیل بتائی ہے تو تمہیں خود علم ہوگیا ہوگا، نہیں بتائی کوشل تو مجھ سے کچھ پوچھنے کی کوشش مت کرو، بہت مجبوری ہے، بڑی مجبوری ہے۔‘‘
’’مگر میں چاہتی ہوں کہ تمہارے اور گیانی جی کے بیچ سمجھوتہ ہوجائے۔‘‘
’’بچوں کی سی باتیں مت کرو کوشل، خدا کے لیے مجھ سے کوئی ایسی بات مت کہو کہ مجھے انکارکر کے شرمندگی ہو۔‘‘
’’بہن کی ایک اتنی سی بات بھی نہیں ما سکتے۔‘‘
’’پستول ہوگا تمہارے پاس، لائو اور گولی مار دو لکھ کر دے دیتا ہوں کہ خودکشی کی ہے بس اپنا خون دے سکتا ہوں تمہیں لیکن لیکن یہ نہیں کر سکتا جو بھوریا چرن کہتا ہے۔‘‘
’’آخری ایسی کونسی بات ہے؟‘‘
’’یہ بھی تم اسی سے پوچھو کوشل۔‘‘
’’کوئی ایسی بات ممکن نہیں ہو سکتی بھیّا جس سے؟‘‘
’’نہیں، میں معافی چاہتا ہوں۔‘‘
’’میری اتنی سی بات نہیں مانو گے؟‘‘
’’جو کچھ میں تم سے کہہ چکا ہوں کوشل اس کے بعد تو میرے پاس کچھ کہنے کے لیے بھی نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا اور کوشل کا چہرہ اُتر گیا۔ وہ خاموشی سے مجھے دیکھتی رہی پھر اس نے آہستہ سے کہا۔
’’ایسے ہی کہہ کر چلی آئی تھی گیانی جی سے کہ جو کام وہ نہیں کر سکے میں کر دکھائوں گی۔‘‘
’’مجھے افسوس ہے کہ…‘‘ لیکن وہ میری پوری بات سنے بغیر باہر نکل گئی، صاف لگتا تھا کہ ناراض ہوگئی ہے۔ پاگل تھی جانے بوجھے بغیر فضول دعوے کر آئی تھی۔ میرا خیال ہے اب وہ مجھے روکنے کی کوشش بھی نہیں کرے گی اور یہ دُرست ہے وہ بھوریا چرن کے ہم مذہب تھے اس سے عقیدت رکھتے تھے میرے تو وہ صرف احسان مند تھے۔ اس سے زیادہ اور کیا کرتے بے چارے۔ اب کچھ کر ڈالنا چاہئے۔
رات ہوگئی۔ دیر سے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیا کروں، اَلور کہاں سے جائوں، بھوریا تو ہر جگہ پہنچ جاتا ہے، اس سے کہاں محفوظ رہ سکتا ہوں کچھ بھی ہے اس کوٹھی سے نکل جانا ضروری ہے۔ اُٹھنا ہی چاہتا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی پھر ایک آواز سُنائی دی۔
’’اندر حاضر ہو سکتے ہیں۔‘‘ یہ کریم خان کی آواز تھی۔ میری اجازت پر اندر آ گئے۔ انتظار ہی کرتے رہے حضور والا کا۔ سری پائے پکنے کے بعد دیر تک رکھے رہیں تو بے مزہ ہو جاتے ہیں۔
’’اوہ ہاں میں بھول گیا تھا خان صاحب۔‘‘
’’مزید دیر نہ فرمائیں۔ ہم صبح کو برتن لے جائیں گے۔ اچھا اجازت۔‘‘ وہ چلے گئے میں نے سوچا کہ کھانا تو کھا ہی لیا جائے اس کے بعد یہاں سے نکل جائوں گا۔ دوبارہ نہ جانے کب کھانا ملے میرے پاس تو کچھ نہیںہے۔ آنے والے وقت کا پورا احساس تھا۔ چنانچہ برتن کپڑے سے کھولے۔ خوب گرم سالن اور تازہ روٹیاں تھیں۔ سامنے
رکھ کر پہلا نوالہ ہی توڑا تھا کہ یوں لگا جیسے کسی نے کلائی پکڑ لی ہو، کانوں میں ایک سرگوشی اُبھری۔
’’نہیں۔ یہ دھوکہ ہے۔ اسے پھینک دو!‘‘ رونگٹے کھڑے ہوگئے پورے بدن میں سرد لہریں دوڑ گئیں، کلائی آہستگی سے چھوڑ دی گئی تھی۔ میں سہمی ہوئی نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ دروازہ اس طرح اندر سے کھلا جیسے کسی نے کھولا ہو، پھر خود ہی بند بھی ہوگیا، میں تھوک نگلتے ہوئے بند دروازے کو گھورتا رہا۔ پھر کھانے پر نگاہ ڈالی اور میرے حلق سے چیخ نکل گئی اس سے پہلے بھی کھانا شروع کرتے ہوئے سالن کے برتن پر نگاہ پڑی تھی بہت پُرروغن سالن تھا اور اس میں سری کا گوشت نظر آ رہا تھا مگر اب جو دیکھا تو برتن میں بدبودار پیلا پانی بھرا ہوا تھا اور اس میں نہایت کریہہ شکل کی مکڑیاں کلبلا رہی تھیں۔ دہشت بھری چیخ دوبارہ میرے منہ سے نکلی اور میں نے بے اختیار برتن پر ہاتھ مار کر اسے دُور پھینک دیا۔ برتن اوندھا ہوگیا، پانی بہنے لگا اور بھیگی ہوئی زندہ مکڑیاں لمبے لمبے ہاتھ پائوں سے چلتی ہوئی دیواروں کی طرف جانے لگیں۔ میں دہشت بھری نظروں سے انہیں دیکھتا رہا۔ حواس گم تھے، بمشکل تمام اُٹھا۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا، گلا خشک تھا، لڑکھڑاتے قدموں سے باہر نکل آیا۔ آہ وہ یہاں موجود ہے، وہ شیطان مسلسل حملے کر رہا تھا۔ بھلا وہ مجھے کہاں جینے دے گا۔ نکل جائوں یہاں سے فوراً نکل جائوں۔ کسی کو بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ میں باہر جانے والے راستے کے لیے آگے بڑھنے لگا، کئی کمرے درمیان میں آتے تھے۔ چند قدم ہی چلا تھا کہ اچانک ایک کمرے کا دروازہ کھلا۔ ساتھ ہی ایک کان پھاڑ دینے والی نسوانی چیخ سنائی دی اور کمرے سے نکلنے والا مجھے لپیٹ میں لیے ڈھیر ہوگیا۔
’’نہیں بھاگنے دوں گی پاپی، نہیں جانے دوں گی، ذلیل کمینے خون کر دوں گی تیرا۔ ہے بھگون کوئی ہے۔ دوڑو، پکڑو۔ یہ بھاگ رہا ہے۔‘‘ آواز کوشل کی تھی اس نے مجھے دبوچ لیا تھا اور وہ انتہائی قابل اعتراض حالت میں تھی۔ اس کے لباس کے چند تار اس کے بدن پر جھول رہے تھے اور بس۔
چاروں طرف سے لوگ دوڑ پڑے۔ جگن ناتھ بھی تھے۔ گھر کے ملازم اور دُوسرے لوگ بھی تھے۔ کوشل چیخی۔ ’’اس نے مجھے لوٹ لیا پتا جی اس نے مجھے برباد کر دیا، ہائے آستین کے سانپ نے مجھے ڈس لیا۔ ہائے پتا جی میں بن موت مر گئی، ہائے پتا جی۔‘‘ کوشل بلک بلک کر رونے لگی۔ روشنیاں جلا دی گئیں سب نے ہمیں دیکھا۔ ایک ملازم نے جلدی سے ایک چادر لا کر کوشل کو ڈھک دیا۔ جگن ناتھ تھر تھرکانپ رہا تھا اس کے چہرے سے خوف برس رہا تھا، اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ بمشکل تمام اس نے کہا۔
’’کوشل کی ماں اسے اندر لے جائو۔‘‘
’’نہیں جائوں گی۔ اس کے ٹکڑے کر دو میرے سامنے۔ میں اس کا خون چاٹوں گی اسے۔ اسے۔ میں۔ نہیں جائوں گی، چھوڑو، مجھے چھوڑو۔‘‘
’’اندر چلو۔ تم لوگ اپنا کام کرو، جائو۔‘‘ جگن ناتھ نے ملازموں سے کہا، تین نوجوان البتہ وہیں رُکے رہے ان کے چہروں پر بھیانک تاثرات پھیلے ہوئے تھے۔ میری تو قوت گویائی ہی سلب ہوگئی تھی، میں ساکت تھا۔ ’’اندر گھسیٹ لائو اسے۔‘‘ جگن ناتھ نے نوجوانوں سے کہا وہ جیسے منتظر ہی تھے ٹوٹ پڑے مجھ پر، جانور کی طرح مجھے گھسیٹتے ہوئے کمرے میں لے آئے۔
’’پارسا بنا تھا راکھی بندھوا رہا تھا مجھ سے ارے پاپی اتنی گہری چال چلی تو نے۔ تو راکھی کی ریت کیا جانے۔‘‘ تیرا ستیاناس۔ کوشل روتے ہوئے بولی۔
’’کیا ہوا کوشل۔‘‘ کوشل کی ماں نے پوچھا۔
’’غلطی میری تھی ماتا جی۔ ہائے میں خود اپنا شکار ہوگئی۔ ماتاجی۔ میں، میں اس کے پاس گئی تھی گروجی کی بات منوانے۔ میں نے منتیں کی تھیں۔ اس نے صاف منع کر دیا تھا، میں واپس آگئی۔ یہ اچانک میرے پاس آیا۔ دروازہ بجایا اس نے، میں نے اسے دیکھ کر کھول دیا۔ میں خوش ہوگئی۔ میں نے سمجھا کہ شاید۔ شاید یہ میری بات مان لے۔ مگر ماتا جی یہ جنگلی، وحشی جانور۔ ماتا جی اس نے مجھے بہت مارا ہے، ماتا جی۔ اس نے…‘‘ کوشل بلکنے لگی اور اچانک یہ نوجوان بے قابو ہوگئے وہ جنگلی کتوں کی طرح مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے بالوں سے پکڑ کر مجھے گرا لیا اور لاتیں ہی لاتیں مارنے لگے۔ میں دونوں ہاتھوں سے اپنا سر اور چہرہ بچا رہا تھا، میرے حلق سے کراہیں نکل رہی تھیں۔ اسی وقت دروازے سے بھوریا چرن کی آواز اُبھری۔
’’ارے رے رے، رُک جائو بس رُک جائو۔ مار ڈالو گے پاپی کو!‘‘
’’گیانی جی اس نے۔ اس نے۔‘‘ جگن ناتھ کی آواز رُندھ گئی۔
’’اس ناگ نے مجھے ڈس لیا ہے مہاراج، اس ناگ نے۔‘‘ کوشل روتی ہوئی بولی۔
’’ناگ تو ڈستا ہی ہے کوشل۔ وہ تو…‘‘ یہ آخری الفاظ تھے جو میرے کانوں میں پڑے اور اسی وقت میری آنکھیں بند ہوگئیں، حواس نے ساتھ چھوڑ دیا۔
بھوریا چرن کا پورا جملہ بھی میرے سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ بے ہوشی نہ جانے کتنی طویل تھی۔ ہوش نہ جانے کہاں آیا تھا۔ سینے پر کوئی چیز رکھی ہوئی تھی چبھن سی ہو رہی تھی، پتہ نہیں کیا تھا سب کچھ دفعتاً بازو میں شانے کے قریب کسی نے خنجر اُتار دیا، سینے پر دبائو زیادہ ہوگیا، بازو کی تکلیف سے آنکھیں کھل گئیں، پھیپھڑوں کی پوری قوت سے چیخا اور خود اپنی مسلسل بھیانک چیخیں سن کر خوفزدہ ہوگیا۔ میری انہی چیخوں سے میرے سینے پر بیٹھا خوفناک پرندہ بھی خوفزدہ ہوگیا۔ گدھ تھا اور میرے سینے پر بیٹھ کر ضیافت اُڑانا چاہتا تھا، اسی نے اپنی مڑی ہوئی تیز چونچ میرے بازو میں اُتاری تھی اور بازو بری طرح اُدھیڑ دیا تھا۔ زخم سے خون کا فوارہ بلند ہوگیا اور میرے بری طرح تڑپنے سے گدھ نے اپنی جگہ چھوڑ دی۔ اس نے اپنے چھتری جیسے پر پھیلائے اور صرف چند قدم کے فاصلے پر اُتر کر جا بیٹھا۔ وہ بھوکی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ بازو کی تکلیف سے جان نکلی جا رہی تھی۔ حلق سے مشینی انداز میں کربناک چیخیں نکل رہی تھیں۔ بے اختیار اُٹھ کر بھاگا اور گدھ خوفزدہ ہو کر دوبارہ اُڑ گیا۔ مجھے ٹھوکر لگی اور میں گر پڑا۔ پورے بدن میں ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں۔ لگتا تھا جیسے بدن کی ساری ہڈیاں ٹوٹ گئی ہوں۔ خون بری طرح بہہ رہا تھا۔ شدت تکلیف سے دیوانہ ہو کر میں نے زخم پر منہ رکھ دیا، بہتا ہوا خون چوسنے لگا۔ گاڑھا نمکین خون جو بدن سے بہہ جانے کے لیے بے چین تھا۔
’’کوئی ہے، کوئی ہے، میری مدد کرو، میری مدد کرو۔ میں مر رہا ہوں۔ میری مدد کرو۔‘‘… میں نے آواز لگائی۔ گدھ مجھ سے زیادہ زوردار آواز میں چیخا اور پنجے دبا کر فضا میں بلند ہوگیا۔ میں جانوروں کی طرح اپنا بازو بھنبھوڑ رہا تھا۔ زخم کی اس جلن کو ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا مگر یہ ممکن نہیں ہو رہا تھا۔ میں اِدھر اُدھر بھاگتا رہا، گرتا رہا۔ پھر ایک جگہ مٹی نظر آئی، میں نے مٹھی بھری اور اسے زخم سے لگا لیا۔ مٹی خون میں لتھڑ گئی مگر اس سے فائدہ ہوا تھا کچھ ٹھنڈک سی محسوس ہوئی تھی۔ منحوس گدھ لمبے لمبے چکر لگا کر بار بار میرے سر پر آ جاتا تھا۔ وہ مسلسل چیخ رہا تھا، بس غلطی ہوگئی تھی اس سے ذرا دیر ہو گئی تھی۔ عالم بے ہوشی میں اسے اپنا کام کر لینا چاہئے تھا۔ جگہ کے انتخاب میں غلطی ہوئی تھی اس سے آنکھوں پر چونچ مارنا چاہئے تھی یا پیٹ پر حملہ کرنا چاہئے تھا۔ وہ بے چین تھا۔ میرے گر جانے کا انتظار کر رہا تھا۔ خون رُک گیا۔ میں مسلسل کراہ رہا تھا۔ بار بار چکرا رہا تھا۔ زمین گھومتی محسوس ہو رہی تھی۔ آنکھوں میں دُھندلاہٹ آ جاتی تھی لیکن سوچنے سمجھنے کی قوتیں باقی تھیں۔ گدھ سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ متحرک رہوں اسے اپنی زندگی کا یقین دلاتا رہوں۔ کافی آگے بڑھ آیا۔ چاروں طرف پتھروں کے انبار تھے نہ جانے کونسی جگہ تھی۔ گدھ بہت دیر تک منڈلاتا رہا پھر مایوس ہو کر چلا گیا۔ جب وہ دُور نکل گیا تو میں ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔
’’تھک گیا ہوں، مدد کرو میری، برداشت ختم ہوگئی ہے۔ میرا کام ختم ہو گیا ہے۔ اب خودکشی کر لوں گا۔ ذمّے دار میں نہیں ہوں گا۔ سن رہے ہو۔ ذمّے دار میں نہ ہوں گا۔ خودکشی کر لوں گا بس… بس… بس۔‘‘ جو منہ میں آ رہا تھا کہہ رہا تھا۔ پھر اُٹھ کر چل پڑا۔ خدا جانے کیا ہوا تھا کیسے یہاں آ گیا تھا۔ سب کچھ یاد تھا۔ مارا تھا ان لوگوں نے مجھے کچھ نہیں کہہ سکا تھا میں۔ کچھ کہنا بیکار تھا۔ بالکل بیکار تھا چلتا رہا بہت دُور نکل آیا اس جگہ سے۔ چند درخت نظر آئے۔ ان کے سائے میں ایک چشمہ تھا۔ درختوں کے نیچے گلے سڑے پھل پڑے ہوئے تھے۔ گول گول چھوٹے چھوٹے پھیکے اور بدمزہ، زخمی بازو تو سیدھا نہ ہو سکا، دُوسرے ہاتھ سے پھل اُٹھا اُٹھا کر کھاتا رہا۔ کچھ فاصلے پر ایک بڑی اور اُونچی چٹان تھی، اس کے دامن میں اینٹیں چُنی ہوئی تھیں۔ ایک کمرہ سا بنا ہوا تھا۔ اس میں دروازہ تھا۔ دیکھتا رہا کوئی تجسس ذہن میں نہیں اُبھرا بس ایک ہی خواہش تھی، زمین پر پڑے سارے پھل معدے میں اُتار لوں۔ حلق تک بھر لیا پانی کے چند گھونٹ لیے اور چشمے کے کنارے لیٹ گیا۔ زخمی ہاتھ پانی میں ڈال دیا، پھر زور سے چکر آیا۔ آنکھیں بند ہوگئیں اور کوشش کے باوجود نہ کھلیں۔ مگر زندگی بڑی عجیب چیز ہے۔ آنکھیں پھر کھلیں، ماتھے پر کچھ رکھا ہوا تھا۔ سینے پر وزن تھا گدھ کا خیال آ گیا۔ پھر آ گیا۔ نیم مدہوشی کے عالم میں، میں نے سوچا۔
’’شیں… شیں… ہوہو… ہاہا۔‘‘ میرے منہ سے آواز نکلی اور میں بے اختیار اُٹھ بیٹھا لیکن فوراً ہی کسی نے بھرپور دبائو ڈال کر مجھے لٹا دیا اور پھر ایک آواز سُنائی دی۔
’’نہیں میاں… نہیں ہوش میں آئو… لیٹے رہو… لیٹے رہو۔‘‘ لیٹ تو گیا تھا مگر یہ آواز اوہ گدھ نہیں ہے شاید پھر کون ہے یہ… اچانک ماتھے پر کوئی ٹھنڈی سی چیز آ گئی۔ آنکھیں بھی ڈھک گئی تھیں۔ میں نے ہاتھ اُٹھا کر آنکھوں پر رکھی شے ہٹانے کی کوشش کی۔ گیلا کپڑا تھا۔ وہی نرم آواز دوبارہ سنائی دی۔ ’’بیٹے آرام سے لیٹے رہو، دل و دماغ کو سکون دو۔ تم محفوظ جگہ ہو۔ کوئی خطرہ نہیں ہے تمہیں یہاں، بے فکر ہو جائو۔‘‘
’’یہ… یہ کیا ہے۔ میری آنکھیں ہٹائو، اسے ہٹائو۔‘‘ میں نے گیلا کپڑا آنکھوں سے ہٹا دیا۔ تب میں نے وہ چہرہ دیکھا۔ عمر رسیدہ شخص تھا۔ سفید داڑھی، چہرے پر چیچک کے داغ تھے، رنگ کالا تھا، پیشانی پر ایک گہرا نشان نظر آ رہا تھا۔ ’’کون ہو، کون ہو تم…؟‘‘
’’ایک بندئہ خدا ہوں میاں، فضل حسین ہے میرا نام…‘‘
’’مسلمان ہو…؟‘‘
’’الحمدللہ۔‘‘ فضل حسین نے کہا، میں نے گردن گھما کر چاروں طرف دیکھا، پتھروں کو چن کر ایک کمرہ سا بنایا گیا تھا۔ کشادہ اور ہوادار تھا۔ میں گہری گہری سانسیں لینے لگا، ’’پانی پیو گئے؟‘‘
’’ہاں… ہاں۔‘‘ میں نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر کہا۔ فضل حسین نے ایک آبخورے میں مجھے پانی دیا، کئی آبخورے پئے تھے تب سکون ہوا تھا۔ میں فضل حسین کو دیکھنے لگا!
’’میں نے تمہارے بازو کا زخم صاف کر کے پٹی باندھ دی ہے۔ تمہیں شاید اس کی تکلیف کی وجہ سے بخار ہوگیا ہے، خدا کے فضل سے بخار اب ہلکا ہوگیا ہے۔‘‘
’’میں اُٹھ کر بیٹھنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہاں گھٹن محسوس ہو رہی ہے۔ باہر جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کوئی حرج نہیں ہے آئو…‘‘ بزرگ فضل حسین نے کہا۔ مجھے سہارا دے کر اُٹھایا اور پھر اس کٹیا سے باہر لے آئے۔ وہی نخلستان جیسی جگہ تھی جہاں ہوش کے عالم میں پہنچا تھا اور درختوں سے گرے ہوئے نامعلوم پھل کھائے تھے، باہر موسم بے حد خوشگوار تھا، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
’’تم یہاں تنہا رہتے ہو…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بیٹھ جائو، بتاتا ہوں۔‘‘ بزرگ نے کہا۔ میں ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ فضل حسین بابا بولے۔ بالکل تنہا نہیں ہوں۔ ایک دُنیا آباد ہے یہاں، چرند و پرند کی ہم نشینی ہے۔ خوب باتیں رہتی ہیں ان سے۔ پرندوں کی ڈاریں پانی پینے آتی ہیں ان سے دوستی ہے۔
’’کوئی انسان نہیں ہے۔‘‘
’’انسان…‘‘ بابا فضل حسین ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہوگئے۔
’’کوئی نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں نہیں… اب تم جو آ گئے ہو…‘‘
’’تم یہاں کیوں رہتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا اور بابا فضل حسین ہنس پڑے۔ ’’شکر ہے معبود کا، تم ٹھیک ہوگئے۔‘‘
’’یہ میرے سوال کا جواب ہے۔‘‘
’’نہیں خوش ہو رہا ہوں، تین دن کے بعد ہوش میں آئے ہو۔ مگر جب ذہن میں تجسس جاگ اُٹھے تو… خیر چھوڑو… کہانی سنائوں، کہانی سننا چاہتے ہو۔ سن لو، تمہاری خوشی ضرور پوری کروں گا۔ میں یہاں کیوں رہتا ہوں۔ بس دُنیا والوں نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ میرا چہرہ دیکھ رہے ہو، بس کور چشم دُنیا والے اس سے نفرت کرتے تھے۔ چار بھائی تھے ہم، تین خوبصورت تھے مجھے خدا نے یہ شکل دی تھی… لوگوں نے اس کی رضا میں نکتہ چینی شروع کر دی۔ دلبرداشتہ ہوگیا، جھنجھلاہٹوں کا شکار ہوگیا، خلق خدا سے اس کی نفرت کا بدلہ لینے لگا، تب ایک اللہ والے کی نظر ہوگئی۔ کہنے لگے فضل حسین جو یہ کررہے ہیں وہی تم کر رہے ہو، یہ کور بینا ہیں مگر تم بینائی حاصل کرو۔ ان سے دُور ہٹ جائو۔ اللہ اپنے بندوں کو نقصان پہنچانے والوں کو معاف نہیں کرتا۔ بس میاں یہ گوشہ آباد کر لیا اور بہت خوش ہوں۔ کائنات کی سچائیاں یہاں نظر آتی ہیں۔ انسان بھٹک گیا ہے مگر اللہ کی مخلوق وسیع ہے۔ دُوسرے بہت سے ہیں۔ ننھے ننھے پرندے میرے شانوں پر آ بیٹھتے ہیں۔ معصوم ہیں مجھے محبت سے دیکھتے ہیں سب سے شکایتیں ختم ہوگئیں۔‘‘
’’کھاتے پیتے کہاں سے ہو؟‘‘
’’رازق سے اتنا فاصلہ ہے تمہارا۔ اسے کیوں بھول گئے بیٹے۔ یہ درخت، یہ چشمہ، اللہ نے سب کچھ مہیا کر دیا ہے۔‘‘
’’یہ پھل کھا کر جیتے ہو؟‘‘
’’آہ… بھٹک جانے والوں نے دُنیا خود پر تنگ کرلی ہے۔ اللہ کی یہ نعمت اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ شکر ہے اس معبود کا…!‘‘ فضل حسین نے پُرتشکر لہجے میں کہا۔ پھر مسکرا کر بولے۔ ’’میاں اب تمہاری باری ہے، ہمیں بھی تو کہانیاں پسند ہیں۔‘‘
’’میری کہانی موت کی کہانی ہے فضل بابا۔ میری کہانی سننے والا پھر کوئی اور کہانی سننے کے لیے زندہ نہیں رہتا۔‘‘
’’خوب! تمہاری کہانی کا آغاز کب سے ہوا ہے عزیزی؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی۔
’’تمہیں یقین ہے کہ اس کائنات میں جتنی اموات ہوئی ہیں تمہاری کہانی سن کر ہی ہوئی ہیں؟‘‘
’’ایسا نہیں ہے۔ لیکن جن لوگوں نے میرے بارے میں جان لیا ہے وہ… وہ۔‘‘ میں نے جملہ پورا نہیں کیا تھا کہ بابا فضل حسین بول اُٹھے۔
’’غلط مشاہدہ ہے بیٹے! موت زندگی کی طرح ایک ٹھوس سچائی ہے۔ کب آنا ہے، کب جانا ہے ہم نہیں جانتے۔ کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ؟‘‘
’’نہ پوچھو فضل بابا، میں ڈرتا ہوں۔ میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔‘‘
’’بتائو بیٹے! میں تمہارے دل سے خوف نکالنا چاہتا ہوں مجھے اپنے بارے میں ضرور بتائو۔‘‘ فضل حسین نے ضد کرنے والے انداز میں کہا اور میں انہیں دیکھنے لگا۔ پھر میں نے اوّل سے آخر تک ساری باتیں انہیں بتا دیں۔ وہ خاموشی سے سنتے رہے۔ دیر تک آنکھیں بند کئے بیٹھے رہے۔ پھر بولے۔ ’’اس کے باوجود اپنی خوش بختی سے منحرف ہو؟‘‘
’’خوش بختی؟‘‘
’’ہاں بیٹے۔ ان مشکلات کے باوجود زندگی کی نعمت تمہیں حاصل ہے۔ ایمان کی دولت نہیں چھنی تم سے، ایک لمحے میں ایمان جاتا ہے اور کچھ نہیں رہ جاتا۔ اپنے ایمان کے محافظ تم نہیں ہو، بخدا تمہارے ایمان کی حفاظت کی گئی ہے ورنہ ایک لمحہ درکار ہوتا ہے… صرف ایک لمحہ! یقیناً کچھ ذمّے داریاں تم سے منسوب کی گئی ہیں کوئی کام کرنا ہے تمہیں ضرور کوئی کام کرنا ہے۔ ایک سوال کروں بیٹے تم سے؟‘‘
’’ضرور۔‘‘
’’اسپتال میں تھے، کوڑھی ہوگئے تھے، نماز شروع کر دی تھی، سلیم کے کہنے سے کر دی تھی نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’چھوڑ دی۔‘‘
’’ایں ہاں… وہ… بس حالات… میں آپ کو بتا چکا ہوں؟‘‘ میں نے کسی قدر حیرانی سے کہا۔
’’بیٹے جو حالات تم نے سنائے ہیں ان میں کوئی ایسا مقام نہیں آتا جہاں تمہیں نماز پڑھنے میں دِقّت ہو۔ دراصل تم نے غور نہیں کیا۔ سوچا نہیں، ورنہ تم خود مجھے بتا رہے ہو کہ سکون کا آغاز کہاں سے ہوا تمہیں نماز نہیں چھوڑنی چاہئے تھی۔‘‘ آنکھوں کے سامنے سے پردہ سا ہٹ گیا، گزرے ہوئے واقعات یاد آئے تو احساس ہوا کہ وہ لمحات واقعی بہتری کے آغاز کے تھے حالانکہ میں نے فضل حسین بابا کو اتنی تفصیل سے واقعات نہیں سنائے تھے ہاں بس سرسری طور پر ان کے بارے میں بتایا تھا۔ میں سوچتا رہا…
فضل بابا بولے۔ ’’تاہم وقت ہے۔ جو گیا سو گیا۔ جو کل نہ کیا آج سہی۔ ابھی سے سہی۔ بازو کے زخم پر پٹی باندھ دی ہے اس نیت سے چشمے پر جاکر غسل کرو۔ جائو بیٹے۔ اب تم بالکل ٹھیک ہو۔‘‘
میں اُٹھ گیا چشمے پر جا کر غسل کیا اور پھر فضل حسین کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
’’بھوک لگی ہے؟‘‘
’’ابھی نہیں۔‘‘
’’چلو دو زانو بیٹھ جائو۔ آنکھیں بند کرو سانس کو ناک سے کھینچو اور سانس کی آواز میں کہو۔‘‘ اللہ ہو… اللہ ہو… دیکھو اس طرح۔ بابا فضل حسین خود دوزانو بیٹھ گئے اور پھر ان کا سانس چلنے لگا۔ ’’اللہ ہو… اللہ ہو…‘‘ فضا میں ساز بجنے لگے۔ ذہن سحر میں ڈُوب گیا چاروں طرف سے ایک ہی آواز آ رہی تھی۔ ’’اللہ ہو… اللہ ہو…‘‘ کہ جانے کب… نجانے کب کیسے، میرا سینہ بھی چلنے لگا، میں سانس کھینچ رہا تھا۔ اللہ کو پکار رہا تھا اورایک بے خودی سی طاری ہوگئی تھی۔ یہ آواز میرے وجود میں طرب بن گئی تھی کچھ ہوش ہی نہ رہا تھا۔ یہاں تک کہ بابا فضل حسین نے تھپکی دی۔ مغرب کا وقت ہوگیا ہے چلو نماز پڑھیں۔ ’’میں آنکھیں کھول کر حیران نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگا۔‘‘
’’کیا میں سو گیا تھا؟‘‘
’’نہیں جاگ رہے تھے جو جاگتا ہے وہی پاتا ہے۔ وضو کر آئو۔‘‘ ہم دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد کچھ دیر دَم کشی کی۔ فضل بابا نے اس عمل کا یہی نام بتایا تھا۔ عشاء کی نماز پڑھی اس کے بعد ان درختوں کے پاس پہنچ گئے۔ درختوں سے پھل برس رہے تھے۔ ہوائوں کے جھونکوں سے ڈالیاں ہل رہی تھیں اور پھل نیچے گر رہے تھے۔ کافی پھل سمیٹے اور کھانے لگے۔ لیکن میں ایک بار پھر حیران رہ گیا میں نے پہلے بھی یہ پھل کھائے تھے مگر اس وقت یہ پھیکے اور بدمزہ تھے مگر اب! مجھے کسی کے الفاظ یاد آئے۔
’’پہلے پھل چکھو… پھر کھائو۔‘‘
رات کو ہم دونوں کٹیا میں لیٹ گئے۔ میں نے فضل بابا سے کہا۔ ’’آبادی یہاں سے کتنی دُور ہے؟‘‘
’’انسانی آبادی تو بہت دُور ہے۔‘‘
’’پتہ نہیں ان لوگوں نے کیا کیا تھا۔ وہ شاید مجھے ہلاک کرنا چاہتے تھے پھر زندہ کیوں چھوڑ دیا اور زندہ چھوڑا تو پھر یہاں اتنی دُور مجھے کیوں پھنکوایا۔ اس سے کیا مقصد تھا ان کا؟‘‘
’’چھوڑو میاں، جو بیتا سو کل، آج کی سوچو۔‘‘
’’آپ انہی پھلوں پر زندہ رہتے ہیں؟‘‘
’’دو بیج لگائے تھے ان کے۔ درخت بنے اور پھر دیکھو کیسے بکھر گئے۔ شکر نہ کرو گے؟‘‘ میں خاموشی سے فضل بابا کو دیکھتا رہا۔
ایک ہفتہ گزر گیا۔ فضل بابا کے ساتھ اب دل لگنے لگا تھا۔ بہترین مشغلہ یادِ الٰہی تھا سب کچھ ذہن سے محو ہو جاتا تھا۔ نماز باقاعدگی سے جاری تھی۔ زندگی کا ایک معمول سا بن گیا تھا۔ فضل بابا کی باتوں میں بڑی گہرائی ہوتی تھی، ایک دن میں نے کہا۔
’’فضل بابا میں نے ایک نشست میں ایک ہزار بار دَم کشی کی، تب کہیں جا کر رُکا۔‘‘
’’گن رہے تھے؟‘‘
’’ہاں! گن کر دَم کشی کر رہا تھا۔‘‘
’’دو بیج بوئے تھے میں نے۔ دو درخت اُگے، پھر درخت ہی درخت بکھر گئے۔ کتنے پھل کھا چکے ہو گے تم ان درختوں کے۔‘‘
’’اندازہ نہیں۔‘‘
’’واہ میاں مسعود خوب اس کا مال بے حساب کھائو اور یاد نہ رکھو اور اس کا نام گن گن کر لو۔ اپنا حساب خوب یاد رکھو یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔ وہ بے حساب دیتا ہے اسے بے حساب یاد کرو۔‘‘
’’مجھے اپنے والدین ، بہن بھائی بہت یاد آتے ہیں۔‘‘
’’اللہ کو یاد رکھو۔ اس کا ساتھ پا لیا تو پھر کچھ دُور نہیں رہے گا۔‘‘ انہوں نے مجھے تسلی دے کر کہا۔ بازو کا زخم بالکل ٹھیک ہوگیا تھا۔ جسم کی چوٹوں کا تو پہلے ہی احساس نہ رہا تھا حالانکہ کوئی علاج نہیں کیا تھا کسی ڈاکٹر کونہیں دکھایا تھا اس دن ظہر کی نماز کے بعد کٹیا میں آرام کر رہا تھا، فضا میں دُھوپ کے ساتھ حبس کی کیفیت تھی۔ پھر بادل چھانے کا احساس ہوا اور اندھیرا سا ہونے لگا۔ موسم کا جائزہ لینے باہر نکل آیا۔ دیکھا تو آسمان پیلا ہو رہا تھا۔ گرد و غبار بلندیوں پر پہنچا نظر آ رہا تھا غالباً آندھی چڑھ رہی تھی۔ فضل بابا بھی باہر نکل آئے۔
’’آندھی چڑھ رہی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’خطرناک ہو سکتی ہے۔‘‘ میں نے کہا فضل بابا نے کوئی جواب نہیں دیا، وہ کسی سوچ میں ڈُوبے نظر آ رہے تھے۔ پھر نجانے کیا سوچ کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھے پتھر کا ایک ٹکڑا اُٹھایا اور زمین پر ایک گہری لکیر بنا دی۔ پھر وہیں کھڑے کچھ پڑھتے رہے اس کے بعد لکیر سے پیچھے ہٹ گئے۔ پھر مجھ سے بولے۔
’’اس حصار کے پیچھے رہنا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’دیکھو… آندھی آ گئی۔‘‘ وہ میری بات کے جواب کے بجائے بولے۔ گردوغبار کا کالا طوفان نزدیک آ گیا۔ ہوائوں کی ایسی خوفناک گڑگڑاہٹ اس سے پہلے نہیں سنی تھی۔ ایسی بھیانک آواز تھی جیسے زمین و آسمان ہل رہے ہوں۔ ایسا اندھیرا چھا رہا تھا کہ دن کی روشنی چھپ گئی تھی مگر پھر ایک احساس اور ہوا۔ ہم کٹیا سے باہر کھڑے تھے۔ ہوائوں کو دیکھ رہے تھے مگر یہ ہوائیں ہمارے جسموں کو نہیں چھو رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے ہم کہیں اور سے انہیں دیکھ رہے ہوں۔ بڑے بڑے پتھر لڑھک رہے تھے نجانے کیا کیا ہو رہا تھا مگر ہم محفوظ تھے۔ پھر بادل گرجے اور بارش شروع ہوگئی۔ ہم کٹیا میں آ گئے۔
’’بڑی خوفناک آندھی تھی۔‘‘ میں نے کہا مگر فضل بابا کسی سوچ میں گم تھے، وہ کچھ نہ بولے۔ بارش تیز نہیں تھی، اندھیرا چھایا ہوا تھا مگر اتنا کہ ماحول نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوا تھا۔ کچھ دیر گزری تھی کہ باہر سے عجیب سی گھنٹیوں کی آواز اُبھرنے لگی۔ خاصی تیز آواز تھی اور قریب آتی جا رہی تھی۔ فضل حسین بابا اُٹھ کھڑے ہوئے۔ میں بھی یہ آواز سن کر حیران ہوا تھا۔ فضل حسین کے ساتھ باہر نکلنے لگا تو وہ بولے۔
’’مسعود میاں! ہماری ہدایت یاد رکھنا جو لکیر ہم نے بنائی ہے اس سے باہر قدم نہ نکالنا۔ آئو مل لیں اس سے۔‘‘ میں حیران سا باہر نکل آیا۔ مدھم مدھم بوندیں پڑ رہی تھیں اور کٹیا سے کچھ فاصلے پرکالے رنگ کا ایک بڑے سینگوں والا بھینسا نظر آ رہا تھا جس کی گردن میں لوہے کی لمبی لمبی دو گھنٹیاں لٹکی ہوئی تھیں۔ بھینسے کی پیٹھ پر کالا بھجنگ بھوریا چرن بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح نچلے بدن پر ایک دھوتی نما کپڑا لپیٹا ہوا تھا۔ گردن میں کوڑیوں کی مالائیں پڑی ہوئی تھیں جن میں رنگین دھاگے لٹک رہے تھے۔ سر پر ایک بڑی سی انسانی کھوپڑی ٹوپی کی طرح پہنی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک لمبی لکڑی تھی جس میں گھنگھرو بندھے ہوئے تھے۔ سینے پر مالائوں کے درمیان لکڑی کا نشان بنا ہوا تھا۔ اس نے بائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا سنکھ منہ سے لگایا اور فضا میں ناقوس کی آواز اُبھری، ساتھ ہی وہ دُوسرے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لکڑی کی جنبش سے اس کے گھنگھرو بجانے لگا۔ فضل حسین بابا خاموشی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ سنکھ منہ سے ہٹا کر اس نے ایک لمبی بھیانک تان لگائی اور بولا۔
’’جے… بھورنا مچنڈا… جے کالی چنڈال۔‘‘
’’اللہ کا نام سب سے بڑا۔‘‘ فضل بابا بولے۔
’’کون ہو میاں جی… ہمارے منہ کیوں لگ رہے ہو؟‘‘ بھوریا چرن نے فضل بابا کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’کیا بات ہے کیا پریشانی ہے تجھے۔‘‘
’’سب جانتے ہو، اَنجان نہ بنو۔‘‘
’’تو ناپاک ہے، مردود ہے غلیظ۔ جا بھاگ جا۔ کسی پر زندگی تنگ کرنا اچھا نہیں ہوتا۔‘‘
’’ہمارا نوالہ چھین رہے ہو، اچھا نہ ہوگا۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے اسے ہمیں دے دو۔‘‘
’’مسلمان بچہ ہے بھوریا چرن، اور مسلمان کے پاس ہے۔ کسی مسلمان نے کبھی ایسا کیا ہے۔ یہ میرا مہمان ہے۔‘‘
’’اسے مہمان نہ بنائو، ہم شنکھا ہیں بھسم کر دیں گے، راکھ کر دیں گے ہم سے ٹکرانا مت میاں جی۔‘‘
’’جا… چلا جا یہاں سے غلاظت کے پتلے، تیرا کالا جادو محدود رہے گا ہم تجھے بھی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے، تھک گیا ہے یہ، اب خطرہ ہے کہ ایمان نہ کھو بیٹھے۔ اسے مدد کی ضرورت ہے۔‘‘
’’کیا دے دو گے اسے میاں جی، کیا کیا دے دو گے اسے ہمارا کام کرنا ہے۔ ضرور کرنا ہے۔‘‘
’’اب تک تو نہ کیا بھوریا چرن، تجھے اب بھی اپنی اوقات پتہ نہ چلی، بہتر ہے بھاگ جا کیا فائدہ جھگڑے سے ورنہ اپنے جیسے بہت سوں کی جان گنوائے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے میاں جی، پھر تماشا دیکھو۔‘‘ بھوریا چرن نے کہا اور بھینسے کا رُخ تبدیل کر دیا۔ میں پتھرایا ہوا خاموش کھڑا تھا، وہ واپس نہ گیا بلکہ کچھ دُور جا کر رُک گیا اور پھر بھینسے کا رُخ ہماری طرف ہوگیا اور وہ ہولناک آواز سے اپنے کھُر سے زمین کریدنے لگا۔
بھوریا چرن کی سُرخ آنکھیں دیکھ رہی تھیں، کالا بھینسا سر جھکائے پھنکار رہا تھا۔ وہ کھروں سے زمین کرید رہا تھا۔ پھر اچانک اس کے قدموں کی دَھمک اُبھری، زمین پر جیسے ڈھول بجنے لگے، فاصلہ زیادہ نہیں تھا اس لیے چند چھلانگوں میں وہ ہمارے قریب پہنچنے والا تھا۔ ایک لمحے کے لیے میرا ذہن مائوف ہوگیا، یہی تصور دِل میں اُبھرا تھا کہ بھینسے کی ایک ہی ٹکر ہمارے جسموں کے پرخچے اُڑا دے گی، پلک جھپکنے کا کھیل تھا اور پلک جھپکتے سب کچھ ہوگیا تھا۔ ایسی ہی آواز اُبھری جیسے دو چٹانیں آپس میں ٹکرائی ہوں، بھینسا ہم تک نہیں پہنچ سکا تھا اور درمیان ہی میں کسی نظر نہ آنے والی دیوار سے ٹکرا گیا تھا۔ بھینسے کا سر پھٹ گیا، گردن ٹوٹ کر لٹک گئی اور بھوریا چرن اُچھل کر دُور جا گرا، بھینسا لٹکی ہوئی گردن لیے اِدھر اُدھر بھاگنے لگا۔ کئی بار گرا، کئی بار اُٹھا، پھٹے ہوئے سر سے خون کے فوّارے پھوٹ رہے تھے ادھر بھوریا چرن اس طرح ساکت پڑا تھا جیسے مر گیا ہو، بھینسا آخری بار گرا تو پھر نہ اُٹھا بلکہ اس کا لمبا چوڑا بدن کسی پھرکنی کی طرح زنّاٹے سے زمین پر گھومنے لگا۔ آپ نے ممکن ہے کبھی مکھی کو دیکھا ہو جو اُلٹی ہو جاتی ہے اور چونکہ وہ بدن کا کوئی حصہ زمین پر ٹکا کر اُٹھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اس لیے بدن کی پوری قوت سے پھرکنی کی طرح گھومتی ہے تاکہ سیدھی ہو جائے یہی کیفیت اس وقت بھینسے کے قوی ہیکل بدن کی تھی۔ اس کے بدن کے گھومنے سے بڑی بھیانک آواز پیدا ہو رہی تھی مگر دُوسرا حیرت ناک منظر یہ تھا کہ اس طرح اس کا حجم چھوٹا ہوتا جا رہا تھا اور زیادہ دیر نہیں گزری کہ وہ ایک فٹ سے زیادہ کا نہ رہ گیا، تب وہ رُکا اس کی ہیئت بدل گئی تھی، پھر اچانک میں نے اسے ایک چیل جیسے پرندے کی شکل اختیار کرتے دیکھا، وہ دو پیروں پر اُٹھنے کی کوشش کر رہا تھا، دو تین بار وہ گرا اور پھر ایک کریہہ چیخ مار کر فضا میں بلند ہوگیا۔ کوئی پانچ فٹ اُونچا اُٹھ کر وہ نیچے گرا اور زمین پر دُور تک دوڑتا چلا گیا، دوبارہ بلند ہو کر گرا مگر تیسری کوشش کے بعد وہ پرواز کرنے میں کامیاب ہوگیا، بھوریا چرن اسی طرح ساکت پڑا تھا۔
دیر کے بعد میرے حواس بحال ہوئے، میں نے بابا فضل حسین کو دیکھا ہونٹ ہل رہے تھے ان کے، جیسے کچھ پڑھ رہے ہوں میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’مر گیا وہ…؟‘‘ میرے بدن کو جنبش ہوئی تو شاید بابا فضل حسین سمجھے کہ میں بھوریا چرن کو قریب سے دیکھنے جا رہا ہوں، ان کے منہ سے یہ تیز آواز نکلی۔
’’ہونہہ… ہونہہ۔‘‘ میں ساکت ہوگیا، بابا فضل حسین پڑھتے رہے، پھر بولے۔ ’’مکّاری کر رہا ہے کمینہ۔‘‘
ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے کہ بھوریا چرن اُٹھ کھڑا ہوا، وہ بری طرح اُچھل کود کرنے لگا، ہماری طرف بڑھا اور دونوں ہاتھوں سے کچھ ٹٹولنے لگا، صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اس کے ہاتھ کسی ٹھوس چیز سے ٹکرا رہے ہیں اور وہ اس کے دُوسری طرف آنا چاہتا ہے مگر نظر کچھ نہیں آ رہا تھا۔ بھوریا چرن رُک گیا، ہمیں گھورتا رہا، پھر اس نے سانس کھینچنا شروع کر دیا۔ اس کے منہ سے ’’ہوہو‘‘ کی بھیانک آوازیں نکل رہی تھیں اور ہر آواز کے ساتھ اس کا قد بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ کوئی دس فٹ لمبا ہوگیا اور پھر چوڑائی میں پھیلنے لگا۔ خوفناک آوازیں مسلسل اس کے منہ سے نکل رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں وہ ایک بھیانک عفریت کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اس کا مختصر لباس چیتھڑے ہوگیا تھا۔ یہ حجم حاصل کر کے وہ ایک بار پھر ہماری طرف بڑھا اور پھر دونوں ہاتھوں کی طاقت سے اس دیوار کو ڈھانے کی کوشش کرنے لگا جو اسے ہم تک پہنچنے سے روک رہی تھی۔
’’کوئی شنکھا اس رُکاوٹ کو نہیں توڑ سکتا بھوریا… تو کوشش کر کر کے مر جائے گا۔‘‘ بابا فضل حسین نے چہکتی ہوئی آواز میں کہا۔ بھوریا چرن بھیانک چیخیں مار مار کر دیوار سے زور آزمائی کرتا رہا۔ پھر دیوانہ وار اِدھر سے اُدھر دوڑنے لگا، اچانک اسے درخت نظر آئے اور وہ ان کے قریب پہنچ گیا۔ آہ ایک کے بعد ایک بھیانک منظر نظر آ رہا تھا، اگر میں ایسے لاتعداد مناظر سے نہ گزر چکا ہوتا تو دِل ساتھ نہ دے پاتا۔ اس کی حرکت بند ہو جاتی، میں نے دیکھا کہ بھوریا چرن نے درخت کے تنے سے ہاتھ لپیٹے اور اسے جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا، پھر دُوسرے اور تیسرے درخت کے ساتھ بھی اس نے یہی کیا اور پھر سارے درخت اسی طرح اُکھاڑ پھینکے۔ بابا فضل حسین نے کہا۔
’’ہاں… ایک شنکھا یہ کرسکتا ہے۔‘‘ بھوریا چرن نے گھور کر انہیں دیکھا، پھر وہ پانی کے چشمے کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اس انسان نما دیو کو ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے دیکھا۔ اس نے منہ پانی میں ڈال دیا اور چشمے کا پانی ختم ہونے لگا مگر اس میں اسے کامیابی نہیں ہوئی تھی، اس نے کئی بار چشمہ خالی کیا مگر اس میں مزید پانی پھوٹ آتا اور چشمہ دوبارہ بھر جاتا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد یہ اندازہ ہونے لگا کہ بھوریا چرن اپنے آپ کو اس کوشش میں ناکام محسوس کر رہا ہے، وہ تھک کر کھڑا ہوگیا اور پھر اچانک اس نے چشمے کے پانی میں تھوک دیا، بابا فضل حسین کے منہ سے نکلا۔
’’لعنت ہے تجھ پر، لعنت ہے، لعنت ہے تجھ پر ناپاک اب بلاشبہ تو نے کامیابی حاصل کرلی۔‘‘ یہ کہہ کر بابا فضل حسین خاموش ہوگئے بھوریا چرن زمین پر اوندھا لیٹ گیا اور رفتہ رفتہ اس کی جسامت کم ہونے لگی، کچھ ہی دیر میں وہ اپنی اصل حالت میں واپس آگیا لیکن اب وہ بے لباس تھا کیونکہ لباس تو پہلے ہی حجم بڑا ہونے کی وجہ سے اس کے جسم سے جدا ہو گیا تھا۔ اس نے زمین سے پتھر کا ایک ٹکڑا اُٹھایا، ایک تکون بنایا اور اس کے بیچ پالتی مار کر بیٹھ گیا، ہم سے کوئی آٹھ فٹ کا فاصلہ تھا اس کا… اس نے ہم دونوں کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے میاں جی ہماری تمہاری خوب چلی مگر چھپ کر بیٹھ گئے ہو بزدلوں کی طرح… ذرا باہر آئو پھر دو دو ہاتھ ہوں؟‘‘ بابا فضل حسین ہنس پڑے پھر انہوں نے کہا۔
’’حکم نہیں ہے بھوریا، ورنہ تجھ سے بات کرتے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، اب نہ یہ پھل تمہیں ملیں گے اور نہ ہی پانی، بھوکے پیاسے بیٹھے رہو، دیکھوں میں بھی کہ کب تک بیٹھے رہتے ہو، بھوک سے مرو گے تو باہر نکلو گے۔‘‘
’’وہی بات ہے بھوریا چرن کہ شریف اپنی شرافت سے مرتا ہے اور ذلیل سمجھتا ہے کہ شریف اس سے ڈر گیا، ٹھیک ہے یہ بھی دیکھیں گے، یہ بھی دیکھ لیں گے… چلو میاں یہ بائولا کتّا تو دانت مار کر خاموش ہوگیا ہے، اپنا وقت کیوں ضائع کرتے ہو، آرام کرو۔‘‘
بابا فضل حسین میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے اپنے جھونپڑے نما حصے میں داخل ہوگئے، میرا دل لرز رہا تھا، بدن پر کپکپی طاری تھی، وہ میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دینے والے انداز میں بولے۔
’’اطمینان سے آرام کرو، اگر ان ناپاک قوتوں کو ایسی ہی طاقت مل جائے تو دُنیا کا سکون غارت ہو جائے، یہ کالے جادو کے ماہر اپنے جنتر منتر سے بے شک ناپاک قوتیں حاصل کر لیتے ہیں لیکن میاں کائنات اللہ کی تخلیق ہے اور اللہ کا نام سب سے بڑا ہے۔ شیطان کو طاقت دی گئی ہے اور شیطان اپنی طاقت آزماتا پھرتا ہے لیکن بس محدود ہے وہ۔ اس سے آگے اس کے راستے بند ہیں، آرام کرو۔‘‘
وقت کا صحیح طور پر اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا۔ یہ سارا بھیانک ڈرامہ نجانے کتنی دیر جاری رہا تھا۔ اب چاروں طرف گہری تاریکی پھیل گئی تھی، میں سیدھا سیدھا لیٹ گیا، اندر کھانے پینے کا جو سامان موجود تھا رات کو کھانے کے طور پر استعمال کیا، میں نے بڑی مشکل سے تھوڑا بہت کھایا، دل پر خوف و دہشت طاری تھی، باہر بھوریا چرن علی الاعلان موجود ہے اور ہمیں بھوکا مارنے کی فکر میں ہے، کم بخت نے سارے درخت تباہ کر دیئے، چشمہ غلیظ کر دیا تھا اور اب اس کا پانی کسی بھی طور پینے کے قابل نہیں رہ گیا تھا۔ آنے والا وقت اپنی آواز میں بتا رہا تھا کہ کیا لمحات آنے والے ہیں۔
بابا فضل حسین جائے نماز بچھا کر عبادت میں مصروف ہوگئے۔ عشاء کی نماز میں نے بھی پڑھی اور اس کے بعد میں پھر دراز ہوگیا۔ دل چاہ رہا تھا کہ میں باہر نکل کر دیکھوں کہ بھوریا چرن کوئی نئی کارروائی تو نہیں کر رہا ہے، کیا کیا پینترے نہیں بدلے تھے اس نے مگر کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ ایک بار پھر دل کو ڈھارس ہو رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے میری دادرسی کی جا رہی ہو لیکن بہت زیادہ پُرامید نہیں تھا۔ نجانے کس وقت نیند آ گئی، جاگا تو دن چڑھ چکا تھا اور دُھوپ خوب تیز پھیل گئی تھی، بابا صاحب ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے، میں نے کہا۔
’’بھوریا چرن موجود ہے؟‘‘
’’ہاں کتّا تاک لگائے بیٹھا ہوا ہے۔‘‘
’’اب کیا ہوگا بابا صاحب…؟‘‘
’’کچھ نہیں میاں وقت خود فیصلے کرے گا میں نہیں جانتا کہ اب کیا ہوگا…؟‘‘
’’باہر نکل کر دیکھ سکتا ہوں میں اسے؟‘‘
’’ہاں ہاں، جو جگہ ہم نے قائم کر دی ہے اور تم سے درخواست کی ہے کہ اس سے باہر قدم نہ نکالنا بس وہیں تک رہنا، دس بار چاہو تو جا سکتے ہو۔‘‘
میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا باہر نکل آیا۔ بابا صاحب میرے پیچھے ہی تھے، بھوریا چرن اپنی مخصوص جگہ آنکھیں بند کئے دُھونی رمائے بیٹھا ہوا تھا، اس کا بھیانک اور بدہیئت چہرہ بڑی عجیب و غریب کیفیات کا حامل تھا۔ میرے قدموں کی آہٹ پر بھی اس نے آنکھیں نہیں کھولیں، میں نے بابا صاحب سے کہا۔
’’اگر ہم اس جگہ سے باہر قدم نکالنا چاہیں تو کیا ہماری راہ میں بھی رُکاوٹ ہوگی؟‘‘
’’بالکل نہیں… مگر ایسا کرنا نہیں تم، جب تک میں نہ کہوں۔‘‘ ہم بھوکے رہیں گے تو یہ بدبخت بھی تو بھوکا ہی مرے گا… یہ اپنے لیے غلاظتیں ضرور حاصل کر سکتا ہے مگر یہ غلاظتیں اس کی شکم سیری نہیں کر پائیں گی۔‘‘
یہ سارے رمز میری سمجھ میں نہیں آ رہے تھے۔ بس دیکھتا تھا، دیکھتا رہتا تھا، کئی بار دل میں یہ خیال اُبھرا تھا کہ کاش مجھے بھی ان تمام چیزوں سے آشنائی حاصل ہوتی، بھوریا چرن کو دیر تک دیکھتا رہا اور اس کے بعد ٹھنڈی سانس لے کر واپس اپنی جگہ آ گیا۔
بابا فضل حسین بھی خاموشی سے ایک جگہ بیٹھ گئے تھے۔ یوں پورا دن گزر گیا، پھر رات گزرنے لگی۔ پیاس شدید محسوس ہو رہی تھی۔ بھوک بھی لگ رہی تھی مگر زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکالا تھا۔ البتہ یہ محسوس کیا تھا کہ بابا صاحب نے کئی بار مجھے تشویشناک نگاہوں سے دیکھا ہے اور ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہوگئے ہیں۔
تین دن گزر گئے، پورے تین دن، اب تو ہاتھ پیروں میں جان بھی نہیں رہی تھی۔ ہمارا دُشمن ہمارے سامنے دُھونی رمائے بیٹھا تھا۔ رات کو اگر وہ کچھ کھا پی لیتا ہو تو کھا پی لیتا ہو، دن میں کئی بار اس پر نگاہیں ڈالتے تھے اور اسے اسی طرح ساکت و جامد بیٹھے پاتے تھے۔ وہ بھی جان ہی کو اَٹک گیا تھا کیونکہ بدترین شکست سے دوچار ہوا تھا۔ میں اپنی تمام ہمتیں کھو بیٹھا، تین دن بھوکا پیاسا رہنا معمولی بات نہیں تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے بدن کی ساری قوتیں ختم ہوگئی ہوں۔ گلا خشک تھا، سر چکرا رہا تھا، آنکھوں کی بینائی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ کبھی کبھی بابا فضل حسین کے چہرے پر نگاہ دوڑاتا تو اس پر تشویش کے آثار پاتا، اس وقت بھی وہ جائے نماز پر بیٹھے ہوئے آنکھیں بند کئے کسی سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے گردن اُٹھائی میری طرف دیکھا اور پھر ان کی آواز اُبھری۔
’’مسعود میاں اُٹھ کر آئو، میرے پاس آئو، میں نے نجانے کس کس طرح اپنے لاغر اور بے جان جسم کو گھسیٹا۔ کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا، بہرطور کسی نہ کسی طرح بابا فضل حسین کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔ ان کے چہرے پر بھی مردنی چھائی ہوئی تھی، ہونٹ خشک تھے۔ آواز بھی نحیف ہوگئی تھی، کہنے لگے۔
’’میں جانتا ہوں بڑا مشکل کام ہے، بہت مشکل ہے میں تو شاید اسے اس طرح برباد کر دیتا کہ دوبارہ کسی کو للکارنے کی جرأت نہ ہوتی اسے، لیکن میاں تم نوجوان ہو، تمہارے بدن کو ہر چیز کی ضرورت ہے، اس لیے کچھ اور سوچ رہا ہوں، دیکھو میاں کہنے کی بات نہیں ہے، نہ ہی احسان ہے کسی پر، بس کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو اپنے لیے وقت مانگتی ہیں اور جب وقت آتا ہے تب انسان کچھ بھی کرے، تکمیل خودبخود ہو جاتی ہے، میرا خیال ہے میری باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہی ہوں گی، ظاہر ہے غذا اور پانی اللہ کا حکم ہے اور اس سے دُوری بہرطور بہت سی کمی پیدا کر دیتی ہے، میرا خیال ہے مسعود میاں بات ختم کر دینی چاہیے، لو یہ لوح رکھو، تمہارے لیے بڑے کام کی چیز ہے۔ انہوں نے اپنے لباس سے ایک سفید چھوٹی سی تختی نکال کر مجھے دی۔
’’یہ میرا اثاثۂ حیات ہے، سامنے کی سمت رُخ کر کے داہنے بازو پر باندھ لو، اس کے ساتھ ہی جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے پورے غور سے سنو، ہوش و حواس ساتھ دے رہے ہیں۔‘‘
’’جی بابا فضل حسین۔‘‘ میں نے کہا۔
’’میں بے علم انسان ہوں مسعود میاں، بڑی کم معلومات ہیں مجھے، تمہیں کوئی علم نہیں دے سکتا، بس جو تھوڑا بہت جانتا ہوں بتائے دے رہا ہوں۔ علم کی وسعت اس کائنات کے سارے سمندروں سے کروڑوں گنا زیادہ ہے۔ معرفت عطیۂ الٰہی ہے جو ہر کسی کو نہیں ملتا، بس اس کی دین ہے جسے چاہے اشارے کر کے دے دے، جو کچھ مل جائے اس پر شکر ضروری ہے اور کی ہوس سب کچھ چھین لیتی ہے، چنانچہ قناعت کرنا جو ملے، اسے امانت جاننا اور امانت میں اپنا حصہ نہیں ہوتا، ہاں صاحب امانت جو اجازت دے، بدی کو تلاش نہیں کرنا پڑتا، بدی خود بولتی ہے، جان لو تو تفریق نہ کرنا دین دھرم کی کہ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور سب اسی مٹی کی تخلیق ہیں اور مٹی کا مالک آسمان والا ہے، ہوش و حواس ساتھ دے رہے ہیں…؟‘‘
’’جی…‘‘ میں نے کہا۔
’’ان الفاظ کو گم نہ کرنا… یہ امانت کے طور پر دے رہا ہوں تمہیں۔ آنکھیں بند کرلو ذہن کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ آنکھیں بند کرلو۔‘‘ انہوں نے دوبارہ کہا اور میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ فضل حسین بولے۔ ’’صاحب ایمان ہو، ایمان قائم ہے یہی تمہاری جیت ہے، وہ نہ مانگنا جو نہ ملے کچھ طلب کیا جائے اور پائو تو دے دینا، دل وہ چیز ہے جو فیصلہ کرنے میں مدد دیتا ہے لیکن سرکشی کرے تو تسلیم نہ کرنا…!‘‘ اپنی طلب اپنی ذات کو پیچھے رکھنا تاوقتیکہ لکیر ختم نہ ہو جائے۔ تمہیں یہ لکیر ایک سرے سے دُوسرے سرے تک عبور کرنی ہے بس اس کے بعد تمام راستے کشادہ ہو جائیں گے، اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔‘‘
بابا صاحب خاموش ہوگئے۔ میں آنکھیں بند کئے بیٹھا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ وہ کچھ بولیں، دس منٹ، پندرہ منٹ، بیس منٹ اور شاید آدھا گھنٹہ گزر گیا، پھر آنکھیں خودبخود کھل گئیں، پہلی نگاہ بابا صاحب پر ڈالی اور دَہل کر رہ گیا وہ کروٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے۔ آنکھیں بے نور تھیں اور بدن ساکت… گھبرا کر نبضیں ٹٹولیں مگر جسم سے رُوح کا رشتہ منقطع ہو چکا تھا، وہ رُخصت ہوگئے تھے، یقین نہ آیا، نہ جانے کتنی آوازیں دیں، انہیں ہلایا، جلایا اور دَم بخود رہ گیا۔ آہ… بابا فضل حسین اب دُنیا میں نہیں تھے۔ یہ کیا ہوگیا، کیسے ہوگیا سب کچھ بھول گیا، سارا خوف دل سے نکل گیا نہ بھوریا چرن یاد رہا نہ بھوک پیاس… بابا فضل حسین کے بچھڑ جانے کا غم تھا اور دِل رو رہا تھا، بہت دیر اسی طرح گزر گئی، میں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے چنانچہ اُٹھا اس پتھروں سے چنی ایک کمرے کی عمارت کے بائیں سمت گیا، وہاں کدال پڑی ہوئی تھی، اُٹھائی اور پتھروں میں سوراخ کرنے لگا۔ میری کدال نے چٹانیں شق کر دیں اور میں نے رُکے بغیر ایک گہرا گڑھا تیار کرلیا، اس کے بعد بابا فضل حسین کے جسدِ خاکی کو اس میں اُتار کر میں نے اسے بند کر دیا۔ پتھروں سے اسے اچھی طرح ڈھکنے کے بعد میں نے ان کے لیے دُعائے مغفرت کی، انہوں نے کہا تھا۔
’’اب یہاں رُکنا مناسب نہیں ہے مسعود میاں۔ یہاں سے چل پڑو اور چلتے رہو۔‘‘ میں نے ایسا ہی کیا، اس جگہ پہنچا جہاں بھوریا چرن دھرنا مارے بیٹھا تھا، وہ وہاں موجود نہیں تھا۔ شاید اُکتا کر وہاں سے چلا گیا
تھا، کوئی خاص خیال نہ آیا چلتا رہا، ساری رات سر سے گزر گئی، صبح کی روشنی میں ایک بستی کے آثار نظر آئے، قدم اس کی طرف بڑھ گئے۔ آموں کے درخت جھول رہے تھے، پکے آموں کی خوشبو فضا میں رچی ہوئی تھی، کوئی باغ تھا، بستی کی کسی مسجد سے اذان کی آواز اُبھری اور قدم رُک گئے۔ مسجد کی تلاش میں نظریں دوڑائیں، دُور سے کچھ مینار نظر آئے اور قدم اس طرف اُٹھ گئے۔ آہستہ آہستہ چلتا مسجد کے نزدیک پہنچ گیا۔ مسجد کے عین سامنے ایک جھونپڑا نما ہوٹل تھا، جہاں دو آدمی صفائی ستھرائی میں مصروف تھے، میں ان کے سامنے سے گزرا اور میں نے انہیں سلام کیا، دونوں چونک کر مجھے دیکھنے لگے۔
’’مسلمان ہو؟‘‘ میں نے رُک کر پوچھا۔
’’جی… جی ہاں۔‘‘ دونوں بیک وقت بولے۔
’’سلام کا جواب نہیں دیا۔‘‘
’’غلطی ہوگئی وعلیکم السلام۔‘‘
’’کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’تیاریاں… نمازی نماز سے فارغ ہو کر چائے پینے آتے ہیں، اس وقت تک ہم چائے تیار کر لیتے ہیں۔‘‘
’’اور نماز نہیں پڑھتے۔‘‘ میں نے کہا اور وہ دونوں جھینپے جھینپے نظر آنے لگے۔ ’’واہ دوستو، چراغ تلے اندھیرا۔ اللہ کے گھر کے سامنے رہتے ہو اور اللہ کے سامنے نہیں جاتے، بری بات ہے۔ آئو چلو نماز پڑھو۔‘‘ وہ دونوں سب کچھ چھوڑ کر میرے ساتھ چلتے ہوئے مسجد میں داخل ہوگئے، بہت سے بندگانِ خدا نماز پڑھنے آرہے تھے، میں وضو کرنے بیٹھ گیا، غذا اور پانی کو ترسا ہوا تھا مگر کسی چیز کی حاجت نہ ہو رہی تھی، وضو کرتے ہوئے کلی بھی کی تھی مگر پانی کا قطرہ حلق سے نہ اُتارا، وہ دونوں میری تقلید کر رہے تھے، قریب کھڑے ہو کر نماز پڑھی، نماز کے خاتمے کے بعد مؤذن صاحب نے کہا۔
’’شیخ رحمت اللہ صاحب کے بیٹے عظمت اللہ کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا ہے، جنازہ گیارہ بجے پڑھایا جائے گا، آپ لوگوں میں سے جسے وقت ملے شرکت فرما لیجئے۔‘‘ میرے ساتھ نماز پڑھنے والے دونوں افراد میں سے ایک نے کہا۔
’’ارے عظمت اللہ کی بیوی کا انتقال ہوگیا، ابھی پچھلے سال ہی تو شادی ہوئی تھی اس کی۔‘‘
’’ہاں مجھے خود حیرت ہے۔‘‘ پھر ان میں سے ایک نے مجھ سے کہا۔
’’ہمارے ساتھ آیئے حضرت ایک پیالی چائے پی لیجئے ہمیں خوشی ہوگی۔‘‘
’’نہیں میاں ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں؟‘‘
’’شرمندہ نہ فرمایئے حضرت ہماری چھوٹی سی خواہش پوری ہو جائے گی ہم بہت غریب ہیں مگر یہ معمولی سی خدمت تو کر سکتے ہیں۔‘‘
’’اصرار کر رہے ہیں تو انکار نہیں کریں گے۔‘‘ میں نے کہا اور ان کے ساتھ مسجد سے باہر نکل آیا، ان میں سے ایک نے کہا۔
’’ہمارا یہ ہوٹل بھائیوں کا ہوٹل کہلاتا ہے، ہم دونوں سگے بھائی ہیں، میرا نام شعبان ہے اور میرے بھائی کا نام رمضان ہے۔ ہم شادی شدہ ہیں اور بیوی بچّے ہیں، ہماری گزر بسر مشکل سے ہوتی ہے، بس اللہ کا احسان ہے۔‘‘ میں ان کے ساتھ ہوٹل آ گیا، وہ جلدی جلدی تیاریاں کرنے لگے، لوگ آنا شروع ہوگئے اور بینچوں پر بیٹھ گئے۔
’’چلو بھئی رمضان چائے پلائو۔‘‘ آنے والوں میں سے ایک نے کہا۔
’’بس ابھی تیار ہوئی۔‘‘
’’شعبان میاں آج تو مسجد میں نظر آ رہے تھے، نماز شروع کر دی کیا۔‘‘ ایک بزرگ نے پوچھا۔
’’ہاں علیم چچا بس اللہ کا کرم ہے۔‘‘
’’میاں ہوگیا کرم، اور دلدّر دُور۔‘‘ علیم چچا نے کہا بہت سے لوگ آ کر بینچوں پر بیٹھ گئے تھے، ایک نے کہا۔
’’اَماں فضل بھائی یہ شیخ صاحب کی بہو کو کیا ہوگیا۔‘‘
’’کچھ پتہ نہیں پہلوان… تین چار دن سے بڑی بھاگ دوڑ دیکھ رہا تھا مگر بھائی بڑے آدمی ہیں، کون پوچھے، کون بتائے اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں یہ لوگ، ویسے دِل دُکھا، شادی کو سال پورا ہوا ہوگا۔‘‘
’’بال بچّے کی خبر سنی تھی کچھ۔‘‘
’’ہو سکتا ہے؟‘‘
’’چکر تو لگانا چاہیے۔‘‘
’’ہاں ہاں بستی والے ہیں جائیں گے کیوں نہیں۔‘‘ رمضان اور شعبان چائے بنا رہے تھے اور لوگ آ آ کر بیٹھتے جا رہے تھے مگر چائے کی پہلی پیالی رمضان نے مجھے لا کر دی تھی۔
’’دُوسرے مہمان بھی تو ہیں رمضان بھائی۔‘‘
’’سب کو دے رہا ہوں میاں صاحب آپ لو۔‘‘ میں نے چائے لی، صبر و سکون سے ٹھنڈی ہونے کا انتظار کرتا رہا اور پھر شکر الحمد للہ کہہ کر چائے کا پہلا گھونٹ لیا، نہ جانے کتنے دِن کے بعد یہ دُودھ چینی کا سیال حلق سے اُترا تھا مگر کوئی خاص بات نہیں محسوس ہوئی، مالک نے سیری بخشی تھی خاموشی سے چائے پیتا رہا۔ رمضان اور شعبان کچھ حیران نظر آرہے تھے، دونوں خوب بھاگ دوڑ کررہے تھے، گاہک تھے کہ ٹوٹ نہ رہے تھے، سورج خوب چمک اُٹھا رمضان نے شعبان سے کہا۔
’’شعبان… سامان لائو… ابراہیم بھائی کی دُکان کھل گئی ہوگی، پتّی اور چینی لے لینا، پہلے دُودھ لے لینا کہیں ختم نہ ہو جائے۔‘‘
’’جاتا ہوں۔‘‘ شعبان نے کہا اور کچھ برتن لے کر چلا گیا۔
’’میاں صاحب لو اور چائے پیو۔‘‘ رمضان دو پیالی چائے لے کر میرے سامنے آ بیٹھا، اس نے شیشے کی برنی سے کچھ بسکٹ بھی ایک پلیٹ میں رکھ لیے تھے۔
’’بس میاں مہمان نوازی تو ہوگئی یہ سب ضروری نہیں ہے۔‘‘
’’آپ کو ہماری قسم میاں صاحب لے لو… ہماری خوشی پوری کرو۔‘‘ رمضان عاجزی سے بولا۔
’’افوہ… قسم بھی دے دی۔‘‘ میں نے تھوڑے سے تکلف سے چائے لے لی۔
’’پیٹ کے ہلکے ہیں میاں صاحب، جو دِل میں آ رہا ہے کہے بغیر نہ رہ سکیں گے۔‘‘ رمضان بولا۔
’’کہو رمضان میاں۔‘‘
’’میاں صاحب، پہنچے ہوئے لگتے ہو، ایک نگاہ دیکھا تو دل نے کہا کہ جو کہہ رہے ہیں مان لو رمضان میاں… اَماں اَبّا نے زندگی بھر کہا بچو نماز پڑھا کرو، ٹال دیتے تھے مگر تمہارے کہنے سے یوں لگا جیسے کسی نے گلے میں رَسّی ڈال دی ہو، بندھے ہوئے مسجد پہنچے تھے اور پھر نقد سودا ہوگیا، جتنے گاہک اتنی دیر میں آئے ہیں رات تک آتے ہیں، سودا بھی ختم ہوگیا اور منگوانا پڑا، یہی عالم رہا تو بھائیوں کا ہوٹل تو پکا بن جائے گا۔ کھانا بھی پکانے لگیں گے وارے نیارے ہو جائیں گے ہمارے تو۔‘‘
مجھے ہنسی آ گئی میں نے کہا۔ ’’جہاں تک پہنچا ہوا ہوں رمضان میاں خود جانتا ہوں۔ تم معصوم آدمی ہو اسی لیے ایسا سمجھ رہے ہو، میں خود بھی نماز کی نعمت سے محروم تھا۔ ایک اللہ والے نے کہا کہ نماز جاری کر دو بس اسی کی بات دِل میں بیٹھ گئی، اس آبادی میں داخل ہوا تو اذان ہو رہی تھی، تم سے نماز کے لیے کہہ کر اپنا فرض پورا کیا، تم نے میری بات مان لی، یہ اللہ کا حکم تھا۔‘‘
’’تم کچھ بھی کہو میاں صاحب اپنے دِل پر بڑا اثر ہوا ہے، بڑی غربت ہے ہمارے ہاں، بس یوں سمجھ لو پھٹے پرانے میں بسر ہو رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا شدن خان شاہی باورچی کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ ابا کا نام شدن خان تھا۔ باورچی کا کام کرتے تھے نہ صرف جمال گڑھی میں بلکہ آس پاس کی بستیوں میں دُھوم تھی۔ دُور دُور راجوں نوابوں کے ہاں کھانا پکانے جاتے تھے۔ ہمیں بھی کام سکھایا مگر پیاز کاٹنا اور دیگوں میں کرچھا ہلانا ہمیں اچھا نہیں لگتا تھا۔ ابا نے سختی کی تو گھر سے بھاگ گئے خوب خاک اُڑائی اور جب کہیں کچھ نہ ملا تو واپس آ گئے۔ ابا کو گٹھیا ہوگئی، کام دھندا ختم ہوگیا تھا، جمع پونجی چل رہی تھی، رشتے کی لڑکیوں سے شادی کر دی مگر کوئی دھندا نہیں جما۔ پہلے اماں مریں پھر ابا چل بسے۔ یہ ایک جگہ چھوڑ گئے تھے مسجد کنے، کام آگئی، گھر والیوں کے ہار بُندے بیچ کر چار برتن ڈالے اور چائے بیچنے بیٹھ گئے میاں صاحب کچھ نظر کر دو۔‘‘
’’ارے رمضان میاں تم غلط سمجھ رہے ہو، دُعا ضرور کر سکتا ہوں تمہارے لیے اور میرے بس میں کچھ نہیں۔‘‘
’’ایک بات کہی تھی تم نے ابھی میاں صاحب۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’تم کہہ رہے تھے کہ اس بستی میں داخل ہوا تو اذان ہو رہی تھی کہیں باہر سے آئے ہو؟‘‘
’’ہاں تمہاری اس بستی کا نام جمال گڑھی ہے؟‘‘
’’پکا، میاں کوئی رشتے دار رہتا ہے تمہارا؟‘‘
’’تم ہو تو سہی دیکھ لو سب سے پہلے تم ہی ملے۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا اور رمضان جذباتی ہوگیا، گاہک چلے گئے تھے، ہم دونوں ہی تھے اس وقت رمضان نے اپنی چائے کی پیالی رکھی اور نیچے بیٹھ کر میرے دونوں پائوں پکڑ لیے، وہ گلوگیر لہجے میں بولا۔
’’تین بچّے میرے ہیں دو میرے بھائی کے۔ تمہیں ہمارے بچوں کی قسم ہے میاں صاحب، ہمارے مہمان بن جائو، کچھ دن ہمارے ساتھ رہو، کچھ ملے یا نہ ملے ہمارا دل کہہ رہا ہے کہ تمہاری برکت ضرور ہوگی، پانچ معصوم بچوں کی قسم دی ہے انکار نہ کرنا دل ٹوٹ جائے گا۔‘‘
میں ہکا بکا رہ گیا، عجیب صورتِ حال تھی اب کیفیت یہ تھی کہ میں اس سے پائوں چھڑا رہا تھا اور وہ کیکڑے کی طرح میرے پائوں سے لپٹا جارہا تھا۔ ’’وعدہ کرلو میاں جی وعدہ کر لو تمہیں میرے بچوں کی قسم…‘‘
’’پائوں چھوڑو رمضان… اگر تم مجھے مہمان بنانا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے، میں وعدہ کرتا ہوں کہ کچھ عرصے تمہارے ساتھ رہوں گا، وعدہ کرتا ہوں میں رمضان۔‘‘ تب کہیں جا کر رمضان نے میرے پائوں چھوڑے اور کرتے کے دامن سے آنسو خشک کرتا ہوا بولا۔
’’دِل بڑا دُکھا ہوا ہے میاں صاحب، زندگی کی ساری خوشیوں سے دُور ہوگئے ہیں، کوئی عزت نہیں رہی بستی میں، سب حقارت سے دیکھتے ہیں۔ تم سے دِل کی باتیں ہی کرلیں گے جی خوش ہو جائے گا، ہمارے ہاں کون مہمان آئے گا۔‘‘
’’کچھ باتیں ضرور سن لو رمضان۔‘‘
’’جی میاں صاحب…؟‘‘
’’میں خود اتنا گناہ گار انسان ہوں کہ میری نحوست سے بہت سوں کو نقصان پہنچا ہے۔ تم یہ بات کان کھول کر سن لو کہ میں ایک منحوس انسان ہوں، کل تم خود ہاتھ پکڑ کر مجھے گھر سے نکالنے پر مجبور ہو جائو گے… اپنے گناہوں سے توبہ کر رہا ہوں بس یہ سمجھ لو… کوئی پہنچا ہوا آدمی نہیں ہوں، کل اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو مجھے الزام نہ دینا۔‘‘
’’چلو وعدہ… آئی گئی خود ہمارے سر… اب وعدے سے نہ پھر جانا۔‘‘ وہ ایسے بولا کہ مجھے پھر ہنسی آ گئی۔
’’خوب ہو رمضان میاں، اچھا ایک بات تو مان لو گے ہماری، جب تک ہمیں اپنے پاس رکھو ہم سے ہوٹل کے کام لینا، میاں صفائی کریں گے، گاہکوں کو چائے تقسیم کریں گے اور جو بھی کام ہوا۔‘‘
’’بالکل نہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے ہاں گلّے پر بیٹھ جانا، ہم منع نہیں کریں گے، بولو منظور۔‘‘ میں ہنستا رہا، شعبان سامان لے کر آ گیا تھا، اس نے چائے کا پانی چڑھا دیا اور گاہک آتے جاتے رہے، پتا نہیں یہ معمول تھا یا واقعی اتفاق ہو رہا تھا۔ رمضان اور شعبان کو فرصت نہیں مل رہی تھی۔ تقریباً گیارہ بجے شیخ رحمت اللہ کے ہاں سے جنازہ آ گیا، بے شمار افراد تھے، کلمے کا ورد کرتے ہوئے آرہے تھے، میں بھی تیار ہوگیا اور مسجد کی طرف چل پڑا، جنازہ صحن مسجد میں رکھ دیا گیا، لاتعداد غمزدہ چہرے نظر آ رہے تھے، کچھ لوگوں کی حالت بہت خراب نظر آ رہی تھی، دفعتاً میرے دل میں کلبلاہٹ ہونے لگی، یوں لگنے لگا جیسے کوئی میرے دِل کو اُنگلیوں سے ٹٹول رہا ہو، پھر ایک سرگوشی سی ذہن میں اُبھری اور میں اسے سننے لگا، آواز کس کی تھی سمجھ میں نہیں آئی لیکن الفاظ واضح تھے۔
’’مسعود میاں آنکھیں کھلی رکھا کرو۔‘‘ میں ششدر رہ گیا، کوئی آواز میرے منہ سے نہ نکل سکی، سرگوشی پھر اُبھری۔ ’’یہ کور بینا لوگ ہیں، یہ جس لڑکی کا جنازہ پڑھانے لائے ہیں وہ مری نہیں ہے زندہ ہے، تھوڑی سی کوشش سے اس کے دِل کی دھڑکنیں بحال ہو سکتی ہیں کسی سے رابطہ کرو اور اسے ترکیب بتائو…‘‘
مجھے جو کچھ بتایا گیا اسے سُن کر میرا سر چکرا کر رہ گیا، ہدایات اتنی واضح تھیں کہ کوئی وہم نہ رہ گیا تھا، بات اتنی عجیب تھی کہ عقل ساتھ چھوڑ رہی تھی، میں یہ کیسے کروں مگر وہ آواز… وہ الفاظ… آنکھیں بند کرلو، دل کے دروازے کھل جاتے ہیں، ایک عجیب سا اعتماد دل میں پیدا ہوگیا، آگے بڑھا نماز جنازہ کھڑی ہونے میں شاید کچھ دیر تھی، اس معمر شخص کو دیکھا جس کے چہرے پر حسرت و یاس تھی۔ آنکھیں متورّم تھیں، آنسو رُکنے کا نام نہ لیتے تھے۔ وہ کئی دُوسرے لوگوں کے درمیان تھا، لوگ اسے سنبھالے ہوئے تھے، میں پُراعتماد قدموں سے آگے بڑھا، اس کے قریب پہنچ گیا، میں نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور بولا۔
’’کچھ بات کرنی ہے آپ سے۔‘‘ سب چونکے مگر کسی نے کچھ نہ کہا، معمر شخص نے روتی آنکھوں سے مجھے دیکھا، سسکی بھری اور بولا۔
’’جی بھائی…؟‘‘
’’ذرا اِدھر آیئے۔‘‘ میں نے اسے گھسیٹا، یقیناً بڑا آدمی تھا لیکن مصیبتیں پڑتی ہیں تو آدمی صرف آدمی ہوتا ہے چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔
’’جی کہیئے۔‘‘ اس نے روتی آواز میں کہا اور دُوسرے لوگوں سے کچھ دُور ہٹ آیا۔
’’آپ لڑکی کے کون ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’باپ ہوں بدنصیب… اکلوتی بیٹی تھی میری ایک سال پہلے شادی کی تھی۔‘‘
’’خدا کا شکر ہے بڑے صحیح انسان سے ملاقات ہوئی، میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی لڑکی مری نہیں ہے زندہ ہے۔‘‘
’’ایں… کیا مطلب؟‘‘ وہ حیران ہو کر مجھے دیکھنے لگے۔
’’جی وہ زندہ ہے میرا حکم ہے جنازہ واپس لے چلیے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ اور آپ سب لڑکی کے قاتل قرار پائیں گے، میں اپنی زندگی میں اس کی تدفین نہ ہونے دوں گا۔ آپ اسے قبر میں اُتاریں گے تو میں اس قبر میں داخل ہو جائوں گا اور آپ کو مجھ پر بھی مٹی ڈالنی پڑے گی۔‘‘
اس شخص کا منہ حیرت سے کھل گیا، وہ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر دُوسرے لوگ بھی قریب آ گئے، ایک نے کہا۔ ’’کیا بات ہے چچا جان… کیا کہہ رہے ہیں یہ…؟‘‘
’’ان سے سے پوچھو، ان سے پوچھو۔ یہ کون ہیں۔ کوئی جانتا ہے۔‘‘ معمر شخص نے دِل پر ہاتھ رکھ لیا۔
’’کیا بات ہے۔ آپ کون ہیں؟‘‘
’’میں کوئی بھی ہوں لیکن آپ اس لڑکی کو زندہ دفنانے جا رہے ہیں، میری بات مان لیں لڑکی زندہ ہے، میں آپ کو ترکیب بتا سکتا ہوں کہ اس کی زندگی کیسے واپس لائی جا سکتی ہے۔‘‘
سب اچنبھے میں رہ گئے۔ بات پھیل گئی، کچھ اور افراد قریب آ گئے، ایک شخص نے نرم لہجے میں کہا۔ ’’آپ کوئی بری بات نہیں کہہ رہے خدا کرے ایسا ہو لیکن آپ کے دل میں یہ خیال کیسے آیا؟‘‘
’’آپ کون ہیں؟‘‘
’’میں ڈاکٹر ہوں۔ ڈاکٹر للت رام بھلّا میں شیخ صاحب کا فیملی ڈاکٹر۔‘‘
’’اگر آپ جنازے کو گھر لے چلیں تو میں وہ ترکیب بتا سکتا ہوں جس سے اس کی زندگی واپس لائی جا سکے۔‘‘
’’ایسا نہ ہو آپ؟‘‘
’’ہر سزا قبول کروں گا۔ مجھے رسیوں سے باندھ دیں تا کہ بھاگ نہ سکوں۔‘‘
’’کہرام مچ گیا سب میرے ہی گرد جمع ہوگئے۔‘‘
ایک نوجوان نے روتے ہوئے کہا۔ ’’میں جنازہ واپس لے جائوں گا۔‘‘
’’یہ گناہ ہوتا ہے عظمت اللہ، میّت کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ یہ کوئی پاگل لگتا ہے۔‘‘ کچھ بزرگوں نے کہا۔
’’ایک منٹ، ایک منٹ محترم۔ آپ کا اس بارے میں کیا مؤقف ہے اور آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر بھلّا نے کہا۔ یہ مناسب وقت تھا کہ میں اپنے دل کی بات بتا دوں جو کچھ میرے دل میں اُبھرا تھا وہ میرے لیے ایمان کی طرح مستحکم تھا اور مجھے نتائج کا کوئی خوف نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے جو کچھ مجھ سے کہا گیا تھا دُہرا دیا۔ ڈاکٹر بھلّا منہ کھول کر رہ گئے تھے۔ دُوسروں نے بھی میری بات سنی تھی ڈاکٹر بھلّا نے کہا۔
’’آپ لوگ خود فیصلہ کریں۔ یہ آپ کا مذہبی معاملہ ہے۔‘‘
’’میں لاش واپس لے جائوں گا۔‘‘ عظمت اللہ نے کہا اور چاروں طرف یہ آوازیں اُبھرنے لگیں۔
’’جنازہ واپس جائے گا، جنازہ واپس جائے گا۔‘‘ مجھے ایک طرح سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ لوگ میرا جائزہ لے رہے تھے، تمام لوگوں کو تو یہ معلوم نہیں تھا کہ میں نے کیا کہا ہے لیکن اس انہونی کو مجھ سے منسوب سمجھ لیا گیا تھا۔ وہ جن کے دل کو لگی تھی مجھے آس بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے، کچھ لوگ اسے دیوانگی قرار دے رہے تھے، ایک شخص نے ڈاکٹر بھلّا سے کہا۔
’’یہ کیا دیوانگی ہے؟‘‘
’’یہ دیوانگی ہی سہی لیکن اس شخص نے جو کچھ کہا ہے وہ قابل غور ہے اور طبّی نقطۂ نگاہ سے اسے ممکنات میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ شیخ رحمت اللہ آپ نے کیا فیصلہ کیا؟‘‘ بھلّا صاحب بولے۔
’’بھئی اب میں مخالفت نہیں کروں گا۔ لڑکی کے والد ناظم حیات جنازہ واپس لے جانے پر متفق ہیں، اس کا شوہر آمادہ ہے تو میں مخالفت نہیں کروں گا۔ مگر یہ انوکھا انکشاف ہے اور اس نوجوان پر پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اس نے تو متوفیہ کو دیکھا بھی نہیں۔‘‘
’’بلا وجہ دیر کی جارہی ہے آپ لوگ واپس کیوں نہیں چلتے۔‘‘ عظمت اللہ نے بگڑ کر کہا۔
’’ہاں۔ چلو، جنازہ اُٹھوائو۔‘‘ رحمت اللہ بولے۔
’’میں کچھ دیر کے لیے اجازت چاہتا ہوں، کچھ ساتھی ڈاکٹروں کو لے کر ابھی پہنچ رہا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر بھلّا نے کہا۔ جنازہ واپسی کے لیے اُٹھ گیا، لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے اور میں سوچ میں ڈوبا ان کے ساتھ چل رہا تھا۔
بالآخر جنازہ گھر واپس پہنچ گیا، محشر کا سا سماں تھا۔ جوان موت تھی، اندر سے بین کرنے کی آوازیں اُبھر رہی تھیں۔ جنازہ واپس پہنچا تو عجیب سی سنسنی پھیل گئی۔ مردوں نے سمجھداری سے کام لیا عورتوں کو کچھ نہیں بتایا۔ سب کو سختی سے ہٹا کر لاش ایک کمرے میں پہنچا دی گئی۔ مجھے بھی اسی کمرے میں لے آیا گیا تھا۔ اسی وقت ڈاکٹر بھلّا ایک لیڈی ڈاکٹر اور تین ڈاکٹروں کے ساتھ اندر داخل ہوگئے۔
مجھے جو ہدایات ملی تھیں، اس کے مطابق تمام انتظامات کئے گئے، سارا کام آناً فاناً ہوگیا۔ پوری بستی ہی اُمنڈ آئی تھی۔ بات ہر طرف پھیلتی جا رہی تھی۔ لوگ شیخ رحمت اللہ کی کوٹھی کے سامنے جمع ہو رہے تھے۔ کمرہ خالی کرا لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر بھلّا ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ موجود تھے۔ لیڈی ڈاکٹر مسز گھوش نے تیاریاں کر لی تھیں۔ میں عظمت اللہ، رحمت اللہ اور ناظم حیات کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ وقت چیختا ہوا گزر رہا تھا۔ ایک ایک لمحہ سنسنی خیز تھا، پھر لیڈی ڈاکٹر کی آواز اُبھری۔
’’او مائی گاڈ۔ او مائی گاڈ!‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ بھلّا کی کپکپاتی آواز اُبھری۔
’’یہ زندہ ہے۔ ٹھیک ہے۔‘‘
’’دل کی مالش کرو۔‘‘i
’’میں کر رہی ہوں۔‘‘ لیڈی ڈاکٹر مسز گھوش نے کہا۔
’’کیا کہا ہے۔ کیا کہا ہے ڈاکٹر گھوش نے؟‘‘ عظمت اللہ کی گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔
’’وہ زندہ ہے۔ وہ ٹھیک ہے۔ مگر براہ کرم خود پر قابو رکھیں۔ براہ کرم کوئی ہنگامہ نہ ہونے دیں۔‘‘ عظمت اللہ روتا ہوا اپنے باپ سے لپٹ گیا۔ ناظم صاحب بازو پھیلا کر مجھ پر جھپٹے اور پاگلوں کی طرح مجھ سے لپٹ کر مجھے چومنے لگے۔ پھر بے ہوش ہوگئے۔ ہنگامہ کہاں رُکتا۔ کوئی کمرے سے نکل گیا اور پھر تو وہ کہرام مچا کہ توبہ ڈاکٹر پریشان تھے۔ ناظم حیات کو باہر نہیں لے جایا جا سکا۔ عظمت اللہ نے بھی میری ہڈیاں کڑکڑائیں، عجیب جملے کہے جانے لگے میرے بارے میں، مجھے بھی خوشی تھی لڑکی کے بچ جانے کی بھی اور اپنے یقین کی پختگی کی بھی۔
پھر لڑکی ہوش میں آ گئی۔ عورتوں نے حملہ کر دیا۔ مردوں کو ہٹنا پڑا۔ ہم سب باہر نکل آئے۔ خاندان کے بے شمار لوگ تھے۔ انہوں نے سب کو گھیر لیا تھا اور مجھے موقع مل گیا مگر میں بڑے دروازے سے باہر نہیں نکل سکا تھا کیونکہ وہاں پوری جمال گڑھی کے لوگ جمع ہوگئے تھے۔ مجھے احاطہ کود کر بھاگنا پڑا اور کافی دُور آ کر میں نے اطمینان کی سانس لی۔ اس کے بعد بھائیوں کے ہوٹل کے سوا کہاں جا سکتا تھا مگر ہوٹل خالی پڑا تھا۔ سامان یونہی بکھرا ہوا تھا۔ دونوں بھائی غائب تھے۔ مجھے ہنسی آ گئی، یقیناً وہ دونوں بھی وہیں موجود ہوں گے۔ ایک طرف پڑی چارپائی پر لیٹ گیا اور ان واقعات پر غور کرنے لگا۔ دُھوپ تیز تھی۔ گرمی بھی خوب پڑ رہی تھی۔ مگر یہاں ٹھنڈک تھی۔ میرے بدن میں سنسنی ہورہی تھی۔ وہ آواز کس کی تھی، کون میرے اندر بولا تھا، کس نے مجھے یہ اعتماد دیا تھا۔ کیا ہوگا اب کیا ہوگا۔ آئندہ مجھے کیا کرنا ہوگا کچھ نہیں جانتا تھا، کچھ آہٹیں ہوئیں اور میں نے گردن اُٹھا کر دیکھا شعبان تھا۔
’’ارے شعبان تم آ گئے۔‘‘ میں نے شعبان سے کہا۔ اور اس کے ہاتھ سے دیگچی گر گئی۔ دُوسرے لمحے اس نے میری طرف چھلانگ لگائی، میرے پاس آیا اور میرے ہاتھ پکڑ کر چومنے لگا۔ ’’کیا ہو گیا تمہیں شعبان؟‘‘
’’آپ اللہ والے ہو میاں صاحب۔ قسم اللہ کی غلام بنا لو ہمیں اپنا! ہمیں بھی کچھ دے دو میاں صاحب۔‘‘
’’خدا سے ڈرو شعبان۔ کیا بچپنا ہے۔ کہاں چلے گئے تھے تم؟‘‘
’’ہم وہیں تھے جی شیخ صاحب کی حویلی پر، تمہارے ساتھ ہی گئے تھے۔ وہاں تمہاری ڈھونڈ مچی ہوئی ہے چاروں طرف۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کررہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے آسمان سے اُترے تھے۔ آسمان میں اُڑ گئے کوئی کچھ کہتا ہے رمضان کوپکڑ رکھا ہے انہوں نے۔‘‘
’’رمضان کو کیوں پکڑ رکھا ہے؟‘‘
’’بس میاں صاحب وہ اس سے تمہارے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ ہوا یوں تھا کہ جب مسجد میں تم نے شیخ صاحب کے سمدھی کو کچھ بتایا تھا تو لوگ ایک دُوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ یہ آدمی کون ہے۔ کسی نے کہہ دیا کہ پاگل ہے، رمضان بگڑ گیا۔ اس نے کہہ دیا کہ پاگل نہیں درویش ہے۔ یہ بھی بتا دیا کہ تم ہمارے ہاں ٹھہرے ہوئے ہو۔ سب شیخ صاحب کی حویلی پر جمع تھے۔ سب کو پتہ چل گیا کہ شیخ صاحب کی بہو ٹھیک ہوگئی ہے اور اب سب تمہیں تلاش کر رہے ہیں۔ اس آدمی نے کسی کو بتا دیا کہ میاں صاحب رمضان کے مہمان ہیں، بس رمضان گھر گیا ان میں اور اس نے مجھے ادھر پُھٹا دیا کہ موقع سے فائدہ اٹھائوں۔‘‘
’’موقع سے کیا فائدہ اُٹھائو گے؟‘‘ میں نے مسکرا کر پوچھا۔
’’دس سیر دُودھ پکڑ لایا ہوں چینی بھی لے لی ہے، پتّی رمضان لیتا آئے گا، دیکھنا میاں صاحب آج سارا دُودھ لگ جائے گا بلکہ کم پڑ جائے گا کیونکہ اب ادھر مجمع لگے گا تمہاری وجہ سے! مگر میرے کو خطرہ تھا۔‘‘ شعبان بولا۔
’’کیا خطرہ تھا؟‘‘ میں نے بے اختیار ہنستے ہوئے پوچھا۔ ان معصوم لوگوں کی توقع شناسی پر مجھے بہت ہنسی آئی تھی۔
’’سوچ رہا تھا کہ کہیں گھبرا کر نکل نہ جائو، اِدھر سے اسی لیے تمہیں دیکھ کر حیران ہو گیا تھا۔ ویسے ایک بات کہوں میاں صاحب؟‘‘
’’ضرور کہو شعبان!‘‘ میں نے پیار سے کہا۔
’’گھر والی نے چھ روزے رکھے تھے بڑی منتیں مرادیں مانی تھیں، برکت کے لیے، ہاں، عید آئے، بقرعید آئے بچوں کے کپڑے بھی نہیں بنے کئی سال سے۔ تنگ آ گئے تھے ہم تو۔ سن لی اللہ نے برکت کے لیے تمہیں بھیج دیا۔ قسم اللہ کی مہینہ بھر رُک جائو تو عید من جائے گی اس بار۔‘‘ شعبان نے کہا۔ اور میرا دل دُکھنے لگا، کیا معصوم خواہش ہے! میں نے سوچا۔ دُور سے بہت سے لوگ اس طرف آتے نظر آئے تو شعبان جلدی سے بولا۔
’’لو سنبھالو آ گئے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے چائے کے لیے پانی کا بڑا دیگچہ بھر کر چولہے پر چڑھا دیا چائے کے لیے۔
ایک لمحے کو میں شعبان کی بات نہیں سمجھ پایا تھا مگر پھر اس کے سمجھانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ میں نے خود ان لوگوں کو دیکھ لیا جو کافی تعداد میں تھے اور اسی طرف آرہے تھے۔ بوکھلاہٹ تو سوار تھی مگر کیا کرتا، بھاگ کر کہاں جاتا۔ اس کے علاوہ بھاگنا بے معنی تھا۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ کوئی میرے ہات چوم رہا تھا تو کوئی میرے پائوں پکڑ رہا تھا۔ میں نے خود کو ساکت چھوڑ دیا تھا۔ انہیں روکنا ممکن نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کو دھکے دیتے رہے پھر ان کے سوال شروع ہوگئے۔
’’مرشد۔‘‘ حضور، قبلہ! میری بیوی بیمار ہے۔ میاں صاحب! میرا ایک بچہ گھر سے بھاگ گیا ہے۔ گھر والی لبِ دم ہے۔ سرکار! ایک بیٹے کا سوال ہے۔ مرشد! سال بھر سے بیکار ہوں خدا کے لیے…!
شعبان کی آواز ابھری۔ ’’کھاتے پیتے رہو بھائیو! میاں صاحب کی برکت والی چائے!‘‘ یہ جملے تیر بہدف ثابت ہوئے۔ لوگ چائے پر ٹوٹ پڑے۔ خوب دھکا مکی ہونے لگی۔ رمضان کھڑا ہوگیا۔
’’پیسے ادھر بھائیو! پیسے ادھر، خبردار کوئی بے ایمانی نہ کرے، بخشش نہیں ہوگی۔‘‘ رمضان کا گلہ بھر گیا۔ جب سب نے مجھے چوم چاٹ لیا اور مجھے کچھ کہنے کا موقع ملا تو میں نے زور سے کہا۔
’’آپ لوگوں کو جو کچھ میرے ساتھ کرنا تھا، کرلیا یا کچھ باقی رہ گیا ہے؟‘‘
’’مرشد! ہماری مراد پوری کردو۔‘‘
’’یہ کفر آپ بک رہے ہیں۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔‘‘
’’ہم سمجھے نہیں مرشد؟‘‘
’’جس عقیدت کا اظہار آپ کررہے ہیں، میں اس کے قابل نہیں ہوں کہ میں نے اس کا اظہار کیا۔‘‘
’’آپ اللہ والے ہیں مرشد!‘‘
’’آپ سب بھی اللہ والے ہیں۔ اللہ کے بندے ہیں۔ کوئی مراد پوری نہیں کرتا سوائے اللہ کے۔ کائنات کا ہر ذرہ اس کا محکوم ہے اور اس کی رضا کے بغیر کوئی جنبش نہیں کرسکتا۔ اس کے سوا کسی اور سے مانگنا شرک ہے اور شرک ناقابل بخشش ہے۔ آپ لوگ اس گناہ سے توبہ کریں۔ میں اس کا سب سے زیادہ گناہگار بندہ ہوں۔‘‘
’’مگر آپ نے رحمت اللہ کی بہو کی جان بچائی ہے۔‘‘ کسی نے کہا۔
’’صرف اللہ نے۔ صرف اللہ نے، میں نے بس ان کی ایک غلطی کی نشاندہی کردی تھی۔‘‘
’’یہ معمولی بات تو نہیں ہے۔‘‘
’’آپ لوگ واقعی اگر مجھ سے کچھ چاہتے ہیں تو میں اللہ کے حضور آپ کے لیے عاجزی سے دعا کرسکتا ہوں۔ اللہ آپ کی مشکلات دور کرے۔ جس کی جو جائز حاجت ہو، وہ پوری کرے۔ جس کی بیوی بیمار ہے وہ شفا پائے۔ جس کا بیٹا گھر سے چلا گیا ہے، وہ واپس آجائے۔ بس یہی میرے بس میں ہے۔ ایک وعدہ ضرور کریں مجھ سے، بولیں کریں گے؟‘‘
’’آپ حکم دیں میاں صاحب!‘‘
’’حکم نہیں درخواست کرتا ہوں۔‘‘
’’فرمایئے میاں صاحب!‘‘
’’یہ رمضان اور شعبان آپ کے بھائی ہیں۔ جمال گڑھی کے پرانے باشندے ہیں، ان کا خیال رکھیں۔ جس کے گھر کوئی تقریب ہو، ان سے کھانا پکوائے اور انہیں معقول معاوضہ ادا کرے اور کسی کی حاجت پوری ہو تو جو کچھ ان کے لیے کرسکتا ہے، کرے۔‘‘
’’ایسا ہی ہوگا میاں صاحب!‘‘
’’تو پھر جایئے اور یقین رکھئے کہ آپ کی ضرورتیں اللہ تعالیٰ پوری کرے گا۔ جایئے آرام کیجئے۔‘‘ لوگ منتشر ہونے لگے۔ سادہ دل لوگ تھے۔ اپنی عقیدت کا اظہار اسی طرح کرسکتے تھے، میں انہیں کیسے روکتا۔ کچھ دیر کے بعد مجمع صاف ہوگیا۔
’’میاں صاحب! چائے لیجئے۔‘‘ شعبان بولا۔ رمضان نوٹ اور ریزگاری جمع کررہا تھا۔
’’کیا کمایا میاں رمضان؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’حاضر ہے میاں صاحب!‘‘ رمضان نے ساری کمائی میرے قدموں میں ڈھیر کردی۔
’’مبارکباد! اچھی آمدنی ہوئی ہے۔‘‘
’’میاں صاحب! پورے مہینے کی کمائی ایک دن میں ہوگئی۔ اب تو سامان بھی نہیں ہے، کل خریدنا پڑے گا۔ میاں صاحب! اب کیا کہوں منہ سے آپ نے تو ہمارے دلدّر دور کردیئے۔‘‘ رمضان کی آواز بھرا گئی۔
’’تم نے بھی تو ہمیں سیر کیا تھا رمضان میاں! نہ جانے کتنے وقت کے بعد ہمیں چائے اور پانی نصیب ہوا تھا۔‘‘
’’میاں صاحب! گھر چلیں؟‘‘
’’ہوٹل بند کرو گے؟‘‘
’’کام بند کردیں گے۔ اس ہوٹل میں دروازے ہی کہاں ہیں۔‘‘
’’ہماری رائے ہے سامان منگوا لو۔ ہم گھر جاکر کیا کریں گے، یہیں ٹھیک ہیں۔‘‘
’’جیسا حکم!‘‘ رمضان نے کہا۔ پھر وہ شعبان سے بولا۔ ’’گھر جا شعبان! کھانا لے آ اور دودھ والے سے کہہ دیجیو زیادہ دودھ پہنچائے شام کے لیے!‘‘ شعبان چلا گیا۔ رمضان میرے پاس بیٹھ گیا۔
’’میاں صاحب! کمال کردیا آپ نے! وہ تو وہ بے چاری زندہ ہی دفن ہوجاتی۔‘‘
’’یہ سب اللہ کی مرضی ہے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ شعبان کھانا لے آیا۔ موٹی موٹی روٹیاں، چٹنی، دال، اللہ کا شکر ادا کرکے کھائی اور وہیں چارپائی پر لیٹ گیا۔ لوگ آتے رہے۔ شام ہوگئی پھر دو افراد ہوٹل پر آگئے۔ ملازم قسم کے لوگ تھے۔ انہوں نے میرے ہاتھ چومے اور پھر کہا۔
’’میاں صاحب! آپ کو زمیندار صاحب نے بلایا ہے، رات کا کھانا وہیں ہے۔‘‘
’’کون زمیندار صاحب…؟‘‘
’’یہ رحمت اللہ کے منشی ہیں میاں صاحب۔‘‘ رمضان بولا۔
’’رحمت اللہ نے بلایا ہے ہمیں۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی میاں صاحب!‘‘
’’ہماری طرف سے سلام کہنا اور شکریہ ادا کردینا ان کا۔ کہنا ہم رمضان اور شعبان کے مہمان ہیں اور یہاں خوش ہیں۔ وہاں اب ہمارا کوئی کام نہیں ہے اس لیے وہاں نہیں آئیں گے۔‘‘
ملازموں نے گھبرا کر مجھے پھر رمضان اور شعبان کو دیکھا۔ دونوں بیک وقت بولے۔ ’’میاں صاحب کی مرضی ہے، ہم نے منع نہیں کیا۔‘‘
’’وہ ناراض ہوں گے۔‘‘ ایک ملازم بولا۔
’’نہیں میاں ان سے کہہ دینا… یہ ہماری مرضی ہے۔ بس جائو۔‘‘ وہ چلے گئے تو رمضان نے کہا۔
’’سخت مزاج ہیں رحمت اللہ خان صاحب! برا مان جائیں گے۔‘‘
’’مان جانے دو۔ تمہیں فکر نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
شام ڈھل گئی۔ رمضان اور شعبان نے میرے لیے یہیں آرام کا بندوبست کردیا تھا۔ چراغ جل گئے۔ پھر ناظم حیات جو رحمت اللہ کے سمدھی تھے اور لڑکی کے باپ تھے، کچھ لوگوں کے ساتھ میرے پاس آئے۔ انہوں نے بہت زیادہ عقیدت کا اظہار کیا اور کپڑے میں لپٹی کوئی چیز میرے حوالے کرتے ہوئے بولے۔
’’حضور! اسے قبول فرمایئے۔‘‘
’’کیا ہے؟‘‘
’’کچھ نذرانہ ہے۔ آپ نے جو کچھ کیا ہے، اس کا کوئی صلہ نہیں ہے۔ آپ یہ قبول کرلیں، مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
’’آپ جب غم زدہ تھے تو مجھے معقول آدمی معلوم ہوئے تھے۔ کتنی رقم ہے اس میں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’حضور! دس ہزار۔‘‘ ناظم حیات نے کہا۔
’’استغفراللہ…! اتنے بڑے آدمی کی بیٹی کی زندگی کی اتنی معمولی قیمت! بڑی سستی ہے آپ کی بیٹی تو…‘‘
’’آپ حکم کریں حضور! دراصل سفر میں ہوں، میرا گھر دوسرے شہر میں ہے۔‘‘
’’برا نہ مانئے حیات صاحب! یہ بڑا ظلم ہے ہم پر آپ ہمیں ہماری محبت کا معاوضہ دینے آئے ہیں۔ ہم نے تو صرف خلوص سے یہ کام کیا تھا۔ جایئے دعا کیجئے ہمارے لیے کہ اللہ نے جس طرح آپ کی بگڑی بنائی ہے، اسی طرح وہ ہماری بگڑی بنائے۔ یہی ہماری اجرت ہوگی۔ ہم نے کیا ہی کیا ہے بس ایک اندازہ پیش کردیا تھا۔ حاجت روا صرف وہی ہے۔ اپنے اندر خلوص پیدا کریں۔ کاغذ کے ٹکڑوں کے لین دین کو سب کچھ نہ سمجھ لیں۔‘‘ حیات صاحب شرمندہ نظر آنے لگے۔ ہاتھ جوڑ کر بولے۔
’’مجھے معاف کردیں میاں صاحب! سخت شرمندہ ہوں۔ یہ صرف اظہار عقیدت تھا، کوئی معاوضہ نہیں تھا۔‘‘
میں خاموش ہوگیا۔ حیات صاحب کچھ دیر بیٹھے پھر سلام کرکے چلے گئے۔ رات گئے تک رمضان اور شعبان ہوٹل میں رہے۔ انہوں نے یہاں میرے سونے کا بندوبست کردیا تھا۔ اس دوران لوگ آتے رہے تھے۔ پھر میں نے ہی کہا۔
’’تم لوگ اپنے گھر جائو، آرام کرو، صبح وقت پر ہوٹل کھولنا ہے۔‘‘ میرے کہنے سے وہ چلے گئے۔ بستی سنسان ہوگئی تھی۔ کتے بھونک رہے تھے۔کہیں سے چوکیدار کی آواز بھی آرہی تھی۔ میں پلنگ پر چت لیٹ گیا۔ آج کا دن برسوں کی کہانی معلوم ہوتا تھا۔ جتنے واقعات گزر گئے تھے، وہ بہت زیادہ تھے۔ دل میں خوشی تھی کہ وہ لڑکی زندہ دفن ہونے سے بچ گئی تھی لیکن اس آواز کا معمہ حل نہ ہورہا تھا۔ مجھے یہ اطلاع کس نے دی تھی، کیا فضل بابا نے…!
’’نہیں میاں مجھے گناہگار کیوں کرتے ہو، میں کہاں اور یہ منزل کہاں! تم مجھ سے سے افضل ہو بلکہ تمہاری وجہ سے مجھے منصب ملا اور پیغام رساں مقرر کیا گیا۔‘‘ بابا فضل کی آواز میرے ذہن میں گونجی اور میں اچھل کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔
’’بابا فضل!‘‘ میرے منہ سے آواز نکلی۔
’’ایمان کی سلامتی بڑی قدر و قیمت رکھتی ہے۔ ہم جو بوتے ہیں، سو کاٹتے ہیں۔ جو بیچتے ہیں، اس کا منافع کماتے ہیں۔ تم نے زندگی میں جو کچھ کیا، وہ برا تھا لیکن ایک مقصد کو تم نے اپنے وجود کا حصہ بنا لیا اور وہ تھا حق کا سودا! منافع تو ملنا ہی تھا۔ تم نے پھل چکھے، اب کھائو مگر خود پر نازاں نہ ہوجانا۔ انکساری بلندیوں کا راستہ ہوتی ہے۔ اپنی طلب کو دشمن جاننا۔ نفس کی مانگ ہی کالا جادو ہے۔ اس گندے سحر کی گرفت میں نہ آنا، ضمیر بولتا ہے۔ اس کی آواز سچی ہوتی ہے، اس سے رابطہ رکھنا۔‘‘
’’بابا فضل… آپ کہاں ہیں؟‘‘
’’تمہارے ذہن میں ہماری جگہ اب ہوائوں میں فضائوں میں نہیں ہے۔ یہ آخری آواز تمہارے سوال کا جواب ہے۔ غور سے سن لو… شیطان کو اجازت ملی ہے کہ شر پیدا کرے اور اس نے شر کے لیے قوت مانگی ہے۔ اسے دی گئی لیکن یہ قوت حق کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ شیطان حق کے سامنے شرمندہ ہوگا۔ یوں منصب تقسیم کردیئے گئے۔ خود کو درویش، ولی یا ابدال و قطب نہ جاننا کہ ان درجات کے لیے لاکھوں بار فنا ہونا پڑتا ہے۔ تم تو ایک رنگروٹ ہو، ایک ادنیٰ کارکن جسے کچھ کام دے دیئے گئے ہیں۔ صرف اپنے کام کرنا کہ تم صرف ذریعہ ہو اور جو ہدایت ملے گی، اس کی پرکھ دی جائے گی تمہیں بس! نہ کچھ اس سے آگے ہے، نہ پیچھے۔‘‘
میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ نہ جانے کیوں پھوٹ پھوٹ کر رونے کو جی چاہ رہا تھا۔ سسکیاں ہچکیاں بن گئیں۔ تنہائی میں رونا کتنا سکون بخش تھا مگر شاید تنہائی نہیں تھی۔
’’میاں صاحب… میاں صاحب! خدا کے لیے خاموش ہوجایئے۔ خدا کے لیے مجھے بتایئے آپ کیوں رو رہے ہیں۔‘‘ ایک ہمدرد ہاتھ میرے شانے سے آلگا اور میں چونک پڑا۔ گردن موڑ کر دیکھا۔ پہچاننے کی کوشش کی اور پہچان لیا۔ عظمت اللہ تھا۔ متوحش نگاہوں سے اس کے آس پاس دیکھا۔ ایک عورت چادر اوڑھے قریب کھڑی ہوئی تھی۔
’’ارے… تت… تم! اور یہ…‘‘ میں جلدی سے چارپائی سے نیچے اتر آیا۔
’’ثمینہ ہے، میری بیوی! وہ جس کی تدفین کی جارہی تھی۔‘‘
’’خدا کی پناہ! کیوں آئے ہو تم دونوں۔ اور انہیں اس عالم میں۔‘‘
’’آپ نے میرا اجڑا ہوا گلزار بسا دیا ہے میاں صاحب… سب اہل دل ہیں مگر جو آگ میرے اردگرد پھیل گئی تھی، میں ہی جانتا ہوں۔ مجھ سے کیا چھن گیا تھا، وہ مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’اللہ نے فضل کیا میاں! اس کا شکر ادا کرو۔‘‘
’’یہ اب ٹھیک ہیں۔ تنہائی ملی تو مچل گئیں کہ میں سلام کرنے ضرور جائوں گی۔ ہم چھپ کر چلے آئے۔‘‘
’’وعلیکم السلام۔ اب جائو بی بی! تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔‘‘
’’میں اب ٹھیک ہوں جناب! آپ نے…‘‘
’’خدا کے لیے اس واقعہ کو مجھ سے منسوب نہ کرو، ہم نابینا ہیں، بینائی کا فقدان ہے ہمارے پاس۔ اوپر اوپر سے دیکھتے ہیں، اندر سے نہیں دیکھتے۔ جو تمہیں دنیا میں پہچانتا ہے، وہ جانتا ہے کہ تمہیں دنیا میں کیسے رہنا ہے، کیا کرنا ہے اور یہ سب کہانیاں ہوتی ہیں تمہیں سمجھانے کے لیے! بس انہیں سمجھ لو، سب ٹھیک ہے۔‘‘
’’وسیلہ تو آپ تھے میاں صاحب! فرشتۂ رحمت توآپ بنے میرے لیے، میری بیوی کی زندگی آپ نے بچائی، ورنہ ہم اسے زندہ قبر میں اتار دیتے۔‘‘
’’بچ گئی تمہاری بیوی! خدا تم دونوں کو خوش رکھے۔ میری طرف سے مبارکباد! اب جائو۔‘‘
’’میاں صاحب! ہم آپ کی کچھ خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’کیسی خدمت۔ رقم لائے ہو میرے لیے۔‘‘
’’نہیں میاں صاحب! ابو بہت شرمندہ ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے آپ کو کچھ دینا چاہا، آپ نے اسے ٹھکرا دیا۔‘‘ ثمینہ نے کہا۔
’’اگر کچھ دن آپ ہمارے ساتھ گزاریں تو ہمیں بے حد خوشی ہوگی۔‘‘
’’نہیں میاں! تمہارے والد نے بھی ہمیں طلب کیا تھا۔ ہم سے گزر نہ ہوگی تمہاری اونچی حویلی میں، یہ دو غریب بھائی…‘‘ اچانک میں رک گیا۔ ایک خیال آیا میرے دل میں۔ میں نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’عظمت اللہ ہے تمہارا نام…؟‘‘
’’جی میاں صاحب…‘‘
’’عظمت اللہ! ہماری کچھ مالی مدد کرسکتے ہو؟‘‘
’’جی…!‘‘ وہ حیران ہوکر بولا۔
’’ہاں ہمیں کچھ رقم درکار ہے۔ دو گے ہمیں۔
’’آپ حکم کریں میاں صاحب! آپ حکم تو کریں۔‘‘
’’تو کل دن میں آجانا، ہم حساب کرکے بتا دیں گے۔ اب جائو، خوب رات ہوگئی ہے۔ اس سے زیادہ باہر رہنا اچھا نہیں ہے تمہاری بیوی کے لیے۔ جائو میاں! حجت نہیں کرتے۔‘‘
’’صبح کو آئوں گا میں۔‘‘ عظمت اللہ نے کہا۔
’’ہاں ضرور… ہم انتظار کریں گے۔‘‘ میں نے کہا اور وہ دونوں سلام کرکے واپس چلے گئے۔ جب وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگئے تو میں دوبارہ چارپائی پر لیٹ گیا تھا۔
صبح ہوگئی۔ مسجد زیادہ دور نہیں تھی۔ اذان ہوتے ہی وہاں پہنچ گیا۔ نمازی دوڑتے آرہے تھے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ رمضان اور شعبان بھی آگئے تھے۔ نماز پڑھ کر ہم ساتھ باہر نکلے۔
’’ہمیں پتا تھا آپ یہیں ہوں گے۔ نیند آگئی تھی آرام سے۔‘‘ شعبان نے پوچھا۔
’’ہاں! خوب آرام سے سویا۔ نماز ہمیشہ پڑتے ہو؟‘‘
’’نہیں میاں صاحب! بس آج سے شروع کردی ہے۔ پہلے غلطی ہوگئی تھی۔‘‘ رمضان نے کہا۔
’’ایک اچھی بات ہے۔ تم نے آج سے نماز شروع کی ہے، آج ہی سے اس کی برکتیں بھی دیکھ لینا۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ہوٹل آکر رمضان اور شعبان جلدی جلدی کام کرنے لگے۔ چائے کے دور شروع ہوگئے تھے۔ لوگ مجھ سے بڑے احترام سے مل رہے تھے، باتیں کررہے تھے۔ دس بجے رحمت اللہ، اس کا سمدھی ناظم حیات اور بیٹا عظمت اللہ ہوٹل پہنچ گئے۔ وہ تو جمال گڑھی کے سب سے دولت مند لوگ تھے۔ کبھی بھائیوں کے ہوٹل کے سائے سے گزرے بھی نہ ہوں گے۔ لوگ حیرانی سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ تینوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور بنچ پر بیٹھ گئے۔ رمضان اور شعبان کے سانس پھول رہے تھے۔
’’سب سے پہلے تو میں آپ سے معافی مانگتا ہوں میاں صاحب! بلاشبہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ بڑی سادگی سے ملازموں کو بھیج دیا تھا آپ کو لینے کے لیے! آپ کی توہین مقصود نہیں تھی۔ بعد میں غلطی کا احساس ہوا مجھے خود آنا چاہیے تھا۔‘‘ رحمت اللہ نے کہا۔
’’ہم نے برا نہیں مانا رحمت اللہ صاحب! آپ بلاوجہ اس بات کو اہمیت دے رہے ہیں۔ جن دونوں بھائیوں نے اس وقت ہمیں خلوص سے اپنے پاس خوش آمدید کہا، جب ہم اس بستی میں داخل ہوئے، ہم نے سوچا کہ جو دوچار روز یہاں گزارنے ہیں، وہ انہی کے پاس گزاریں۔ بس اتنی سی بات ہے۔‘‘
’’ان لوگوں کا بھی احسان ہے مجھ پر!‘‘ رحمت اللہ کے پاس کھڑے رمضان اور شعبان نے کہا اور دونوں نے ہاتھ جوڑ دیئے۔
’’نہیں سرکار! نہیں بڑے سرکار…! ہم تو نمک کھاتے آپ کا، ہم تو رعیت ہیں آپ کی۔‘‘ دونوں بیک وقت بولے اور میں ہنس پڑا۔
’’واہ رحمت اللہ صاحب! آپ کی رعیت اس بے کسی کے عالم میں گزارہ کررہی ہے۔ تن ڈھکتے ہیں تو پیٹ خالی رہ جاتا ہے، پیٹ بھرتے ہیں تو بدن کھل جاتا ہے۔ ایسے تو آپ کی بادشاہت نہ چل سکے گی۔‘‘
’’نہیں میاں صاحب… میں کہاں کا بادشاہ! محبت ہے ان لوگوں کی جو اتنی عزت کرلیتے ہیں۔ آپ حکم دیں، میں ان کے لیے کیا کروں۔‘‘ رحمت اللہ بولے۔
’’قدیم باورچی خاندان ہے مگر حالات نے تباہ کردیا ہے۔ بڑی مشکل سے گزارہ کررہے ہیں۔ آپ دیکھ لیجئے کیا ہے یہاں! چائے بیچ کر جی رہے ہیں، کچھ کریں ان کے لیے۔‘‘
’’تم بتائو شعبان… کیا چاہیے تمہیں۔‘‘
’’حضور، سرکار… باپ، دادا سے حویلی کی خدمت کرتے آئے ہیں۔ سب کچھ پکانا آتا ہے ہمیں، سارے مصالحے ابا نے بتا دیئے ہیں مگر آپ شہر کے باورچی بلاتے ہیں۔ ہمیں کوئی کام نہیں ملتا۔‘‘
’’اب ملے گا۔‘‘ رحمت اللہ نے کہا۔ ’’اور کچھ بتائو۔‘‘
’’سرکار! دو چار بھانڈے مل جائیں، چمچہ، ڈوئی ہو تو کسی کے دوسرے کام بھی کرلیں۔‘‘ رمضان بولا۔
’’اور کچھ۔‘‘ رحمت اللہ مسکرا کر بولے۔
’’اوپر ٹین کی چادریں پڑ جائیں تو ہوٹل بن جائے پورا۔‘‘ شعبان خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔
’’عظمت اللہ! یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ انہیں جو ضرورت ہے، پوری کردو۔‘‘ رحمت اللہ نے کہا۔
’’جی ابو ٹھیک ہے۔‘‘
’’اب آپ فرمایئے میاں صاحب! ہم آپ کی کیا خدمت کریں؟‘‘
’’بس رحمت اللہ صاحب! دعائے خیر کریں ہمارے لیے۔‘‘
’’میری آرزو ہے کہ آپ ایک وقت کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں۔‘‘
’’ایک شرط ہوگی اس کی۔‘
’’ارشاد فرمایئے۔‘‘
’’بہو کی زندگی بچ جانے کی خوشی کیجئے، شعبان اور رمضان سے کھانا پکوایئے، ہم بھی کھائیں گے۔‘‘
’’بہتر ہے۔‘‘ رحمت اللہ نے کہا اور پھر واپسی کے لیے اٹھ گیا۔ عظمت اللہ وہیں رک گیا تھا۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو اس نے کہا۔
’’حضور نے مجھے بھی طلب کیا تھا، حکم فرمایئے؟‘‘
’’میاں عظمت اللہ! بس یہی درکار تھا ہمیں، ہماری مانگ پوری ہوگئی۔‘‘
’’میرا یہی خیال تھا۔ میں تعمیل حکم کروں گا۔‘‘ عظمت اللہ چلا گیا۔ دولت کے کھیل دلچسپ ہوتے ہیں۔ کوئی بارہ بجے لاتعداد مزدور، معمار، سیمنٹ اور اینٹوں کے ساتھ پہنچ گئے۔ عظمت اللہ ساتھ تھا۔ رمضان اور شعبان کے ہوٹل کا سارا سامان مزدوروں نے ہٹایا اور کام شروع ہوگیا۔ مزدور بے پناہ تعداد میں تھے۔ ہم ہوٹل کے سامان کے ڈھیر پر بیٹھے چراغ کے جنوں کو کام کرتے دیکھتے رہے۔ بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ احاطے کی نیو کھودی گئی، سیمنٹ گھولا گیا اور اینٹوں کی دیواریں کھڑی ہونے لگیں۔ شعبان اور رمضان سحر کے عالم میں تھے۔ سکتے میں بیٹھے ہوئے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ عظمت اللہ نے ٹھیکیدار کو بتا دیا تھا کہ کیا بنانا ہے۔ سامان پر سامان چلا آرہا تھا۔ یہاں تک کہ تندور بھی لگایا گیا، مالک کے بیٹھنے
کا چبوترہ بھی بنایا گیا۔ ہر چیز قرینے سے کی جارہی تھی۔ آخرمیں چھت پر سیمنٹ کی چادریں بچھا دی گئیں اور اندر سے صفائی کی جانے لگی۔ عظمت اللہ خود ایک لمحے کے لیے وہاں سے نہ ہٹا تھا۔ وہ حقیقی معنوں میں مجھے خراج پیش کررہا تھا۔ پھر اس نے کہا۔
’’ملاحظہ فرما لیں میاں صاحب! کل یہاں ضروری فرنیچر اور برتن وغیرہ پہنچ جائیں گے۔ یہ چیزیں جمال گڑھی میں دستیاب نہیں تھیں۔ میرے آدمی خریداری کرنے گئے ہیں، صبح تک پہنچیں گے۔‘‘
’’تو پھر ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس نعمت کے صلے میں اولاد نرینہ کی نعمت سے نوازے۔‘‘ میں نے مسرور لہجے میں کہا۔
’’اللہ آپ کی زبان مبارک کرے۔‘‘ میرے ساتھ شعبان اور رمضان بھی اپنے ہوٹل میں داخل ہوئے تھے۔ دونوں بری طرح کانپ رہے تھے۔ ان کے چہرے دھواں دھواں ہورہے تھے۔ مزدور کام مکمل کرکے چلے گئے۔
’’جو کمی ہو بتا دیں رمضان! پوری ہوجائے گی۔‘‘
رمضان نے کچھ بولنا چاہا مگر آواز نہیں نکل سکی تھی۔ بالآخر عظمت اللہ چلا گیا۔ میں نے چارپائی پر بیٹھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’چلو رمضان میاں! اب چائے ہوجائے۔ نیا ہوٹل مبارک ہو۔‘‘ دونوں سسک سسک کر رو پڑے تھے۔ مجھے دلی مسرت ہورہی تھی۔ اس حد تک میں نے بھی نہ سوچا تھا جو کچھ ہوا تھا، طلسم ہی لگتا تھا۔ مجھے اتنی خوشی ہورہی تھی تو ان دونوں کا کیا حال ہوگا جن کا مستقبل سنور گیا تھا۔ بعد کے کچھ روز بڑے سحر خیز تھے۔ عظمت اللہ نے قول نبھایا تھا اور سب کچھ مہیا کردیا تھا۔ یہ سب میری خوشی کے لیے ہورہا تھا۔ پورا ہوٹل بن گیا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے تھے۔ سب یہی کہتے تھے کہ میری آمد نے ان دونوں کی خوش بختی کے دروازے کھول دیئے۔ چار دن تک تو ہوٹل کا کام نہ ہوسکا۔ پانچویں دن افتتاح ہوا اور ہوٹل میں خوب بکری ہوئی۔ اسی دوران رحمت اللہ نے اس تقریب کا اہتمام کرلیا۔ رمضان اور شعبان نے وہاں کھانا پکایا۔ میرا وہاں بہترین استقبال کیا گیا تھا۔ بے شمار پھول پہنائے گئے مجھے عورتوں اور مردوں نے، مجھے بہت عجیب لگا۔ بہرحال یہ ان کی خوشی تھی۔ خاموش ہوگیا۔ اس کے بعد بھی دو تین روز گزر گئے۔ پھر ایک دن میں نے ان دونوں سے کہا۔ ’’اب مجھے اجازت دو دوستو! بہت دن گزر گئے۔‘‘
’’آپ کہاں جائیں گے میاں صاحب؟‘‘
’’بس کہیں اور جانا ہے۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔ آپ یہیں ہمارے پاس رہیں۔‘‘ رمضان بولا۔
’’نہیں میاں! یہ کیسے ممکن ہے۔ بس تمہارے ساتھ خوب گزری، اب آگے بڑھیں گے۔‘‘ وہ لوگ حجت کرنے لگے مگر ان کی گفتگو درمیان میں رہ گئی۔ ایک موٹر ہوٹل کے سامنے آکر رکی تھی۔ ہم سب ادھر دیکھنے لگے۔ موٹر سے ڈاکٹر بھلاّ اور دوسرے کچھ افراد نیچے اترے اور اندر داخل ہوگئے۔ وہ لوگ میرے سامنے آکر رکے تھے۔
’’یہ ہیں میاں صاحب!‘‘ بھلاّ صاحب نے میری طرف اشارہ کرکے کہا اور کھادی کے کرتے اور ململ کی دھوتی میں ملبوس ایک بھاری بدن کے شخص نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا۔
’’نمسکار مہاراج۔‘‘ بھلاّ صاحب بولے۔
’’مجھے پہچانا میاں جی؟‘‘
’’کیوں نہیں، آپ ڈاکٹر بھلاّ ہیں۔‘‘
’’ہمیں کچھ وقت دیں گے میاں جی! کچھ کام ہے آپ سے!‘‘
’’بیٹھئے! کہئے کیا بات ہے۔‘‘ وہ سب بیٹھ گئے۔ بھلاّ نے کہا۔
’’ایک سوال ہے آپ سے مہاراج۔ آپ مسلمان ہیں۔ آپ کا دھرم تو کہتا ہے کہ انسان سب ایک جیسے ہیں۔ کوئی مشکل میں ہو تو دین دھرم سب بھول کر اس کی مدد کی جائے۔ کیا آپ دھرم کی یہ بات مانتے ہیں؟‘‘
’’سوفیصدی بھلاّ صاحب!‘‘
’’یہ سری رام جی ہیں۔ چندوسی کے رہنے والے ہیں۔ بڑی بپتا پڑی ہے ان پر۔ آپ کی سن کر آئے ہیں۔ اگر آپ انسانیت کے رشتے سے ان کی مدد کردیں تو آپ کو دعائیں دیں گے۔‘‘
’’اگر میں کسی قابل ہوں تو حاضر ہوں۔ کیا مشکل درپیش ہے انہیں۔‘‘
’’یہاں سب کچھ بتانا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ساتھ چلنا ہوگا آپ کو۔‘‘ بھلاّ صاحب نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، چلتا ہوں۔‘‘ شعبان نے آگے بڑھ کر مجھے روکنا چاہا لیکن میں نے اسے سمجھا بجھا کر اس سے رخصت لی اور میں ان لوگوں کے ساتھ موٹر میں بیٹھ گیا اور موٹر چل پڑی۔ ڈاکٹر بھلاّکی کوٹھی بھی شاندار تھی۔ وہ لوگ میرا بڑا احترام کررہے تھے۔ مجھے ایک بیٹھک میں لے آیا گیا۔ سری رام جی میرے سامنے بیٹھ گئے۔ بھلاّ جی کپڑے بدل کر وہاں آگئے۔ انگور اور دوسرے بہت سے پھل لا کر میرے سامنے رکھ دیئے گئے۔ بھلاّ صاحب نے کہا۔
’’ہمارے ہاں کا پکا تو آپ نہ کھائیں گے میاں صاحب! پر یہ پھل پھول تو بھگوان پکے ہیں۔ ان میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتی۔ کچھ لیجئے، ہمیں خوشی ہوگی۔‘‘ میں نے ایک سیب اٹھا لیا۔ بھلاّ صاحب نے کہا۔ ’’علم بھی بھگوان کی دین ہے۔ میرا اندازہ ہے میاں صاحب کہ آپ کی عمر بہت چھوٹی ہے۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں آپ کو اتنا بڑا علم کیسے حاصل ہوگیا۔‘‘
’’میں نے کسی علم کا دعویٰ کبھی نہیں کیا بھلاّ صاحب! ایک چھوٹی سی بات تھی۔ میرا ایک اندازہ جو درست نکلا، رحمت اللہ صاحب کی لڑکی بچ گئی۔ نہ میں نے اس وقت درویش ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور نہ اس کے بعد لوگوں کے سامنے جو اپنے سادہ لوحی سے یہ سمجھے تھے کہ میں کوئی فقیر یا بزرگ ہوں۔ اب لوگ ہی نہ مانیں تو میں کیا کروں؟‘‘
’’مانتا تو خیر میں بھی نہیں ہوں میاں صاحب! آپ نے جس اعتماد کے ساتھ وہ بات کہہ دی تھی، وہ بے مقصد نہیں تھی۔ صرف اندازے پر اتنا اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور پھر وہ سب کچھ بالکل سچ نکلا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے پوراچیک اَپ کیا تھا، نہ صرف میں نے بلکہ دوسروں نے بھی۔ آپ نے تو لڑکی کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ اگر آپ طب سے متعلق ہوتے تو بھی میں آپ کو ایک درویش حکیم کہتا اور اسے صرف حکمت نہ مانتا۔ خیر چھوڑیئے! ہم دوسری باتوں کی طرف بھٹک گئے۔ میں سیٹھ سری رام کا بھی فیملی ڈاکٹر ہوں حالانکہ یہ چندوسی میں رہتے ہیں جو یہاں سے سو میل دور ہے۔ ان کے اہل خاندان کا علاج میں ہی کرتا ہوں۔ یہ کافی دنوں سے مشکل حالات کا شکار ہیں۔ اس بار میں خصوصی طور پر اتنا لمبا سفر طے کرکے ان کے پاس گیا اور انہیں آپ کے بارے میں بتایا۔ یہ فوراً ہی میرے پاس چلے آئے۔ میں نے دونوں کا سامنا کرا دیا ہے۔ اب یہ جانیں اور آپ…!‘‘
’’مگر ڈاکٹر صاحب! میاں جی تو کہتے ہیں کہ یہ پیر اور درویش نہیں ہیں اور صرف اندازے کی وجہ سے ایسا ہوگیا تھا۔‘‘ سری رام نے کہا اور بھلاّ صاحب ہنس پڑے۔ پھر مجھ سے بولے۔
’’آپ نے دیکھا کتنے سادہ انسان ہیں ہمارے سری رام جی! مہاشے جی ہم بے وقوف نہیں ہیں جو اتنی دور پہنچے تھے آپ کے پاس۔ درویش اپنے منہ سے خود کو کچھ نہیں کہتے۔ آپ اپنی مشکل بتائیں۔‘‘
’’معاف کردیں مہاراج! بدھی الٹ گئی ہے اپنی۔ ایسی ہی کٹھنا پڑی ہے ہم پر… بھگوان نے اتنا دیا ہے ہمیں کہ رکھنے کی جگہ کم پڑ گئی۔ پر سنتان میں کمی کردی۔ بڑی مان مرادوں سے ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ وہ بھی بھگوان سورگ میں جگہ دے صالحہ اماں کو چلے میں بیٹھ گئی تھیں چالیس دن کے اور کہہ کر بیٹھی تھیں کہ سری رام تیرے لیے اولاد لے کر ہی اٹھوں گی اور ایسا ہی ہوا۔ ہمیں پاگل مت سمجھنا میاں جی۔ جو منہ میں آرہا ہے، بک رہے ہیں۔ تم صالحہ اماں کو کیا جانو۔ ہمارے بچپن کا دوست ہے سلامت علی۔ ساتھ اٹھے، ساتھ پلے بڑھے۔ ساتھ ساتھ پڑھے اور اب بھی آمنے سامنے رہتے ہیں۔ چندوسی میں ہماری محبت مشہور ہے۔ اس کے بال، بچے اپنے چاچا، تائو سے زیادہ ہمیں مانتے ہیں۔ صالحہ اماں اس کی ماں تھیں، اب سورگباش ہوگئی ہیں تو انہی کی دعا سے بھگوان نے بیٹی دی ہمیں۔ پالی پوسی جوان کی مگر…!‘‘ سری رام جی کی آواز کپکپا گئی۔
’’وہ خیریت سے تو ہے؟‘‘
’’بس میاں جی! کیا خیریت سے ہے، کیا بتائیں۔‘‘
’’سب کچھ بتائو سری رام جی! کوئی بات چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ بھلاّ صاحب نے کہا۔
’’جوانی آتے ہی مصیبت میں پھنس گئی ہماری اکلوتی بیٹی۔‘‘
’’کیا ہوا…؟‘‘ میں نے کہا۔
’’گووندا حرام خور چمار کی اولاد ہے۔ تیرہ سال کا تھا سو گھر سے بھاگ گیا۔ واپس آیا تو کالی موری پر اڈہ بنا لیا اپنا اور چندوسی والوں کو پریشان کرنے لگا۔‘‘
’’وہ کہیں سے سفلی علم سیکھ آیا ہے۔ کالی موری چندوسی کے کنارے پر ایک ویرانہ ہے جہاں زمانۂ قدیم میں کالی دیوی کا ایک مندر تھا جو ٹوٹ پھوٹ گیا۔ اس حرام خور نے وہیں اپنا ٹھکانہ بنایا اور گندے کام شروع کردیئے۔ کسی کی پگڑی اچھالی، کسی سے مال اینٹھا۔ سارے کے سارے پریشان ہیں اس سے۔ ہماری بٹیا بھی اس کی نظروں میں آگئی اور سسرا ہمارے پاس آکر بولا کہ پنڈت جی! ہمارا بیاہ کردو اپنی بٹیا سے۔ من جو لگی، وہ تو ہم ہی جانتے ہیں۔ بھری سبھا میں کیچڑ پھینکی اس نے ہم پر، مگر جانتے تھے کہ وہ نہیں بول رہا، اس کا کالا جادو بول رہا ہے۔ برداشت کرگئے حالانکہ ایک اشارہ کردیں تو سو پچاس مارے جائیں اس کی ذات کے۔ بہت سوں نے ہم سے کہا پر ہم نہ مانے۔ ہم نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ بات اس نیچ ذات نے کہی ہے، دوسروں کا کیا دوش ہے۔ دنگا فساد نہ کرائو، بے گناہ مارے جائیں گے، گناہگار کا کچھ نہ بگڑے گا۔ بڑی مشکل سے لوگ مانے مگر وہ نہ مانا اور اپنی اڑ پر لگا رہا۔ ہمارے گھر پر جادو ٹونے ہونے لگے، تجوریوں میں بچھو بھر گئے، سونے کے زیور سانپ بن گئے اور نہ جانے کیا کیا ہونے لگا…‘‘
’’تجوریوں میں بچھو بھر گئے!‘‘ میرے بجائے بھلاّ صاحب بول پڑے۔
’’ارے ہاں بھلاّ جی۔ ایک ہو تو بتائیں۔ روپیہ رکھا رہتا ہے تجوریوں میں ایک دن کچھ ضرورت پڑی تجوری کھولی ہاتھ ڈالا تو بچھو نے کاٹ لیا۔ جھانک کر دیکھا تو کوئی دس بیس بچھو ڈنک اٹھائے بڑے مزے سے اندر گھومتے پھر رہے ہیں۔ ارے بھیا وہ بچھو چڑھا کہ نانی ہی یاد آگئی۔ دوسروں کو بتایا سب نے بچھو دیکھے گواہی دلوا دیں گے۔ دھرم پتنی زیور پہن کر شادی میں گئی عورتیں چیخیں مارنے لگیں، گردن میں سانپ لٹک رہا تھا۔ دھرم پتنی بے ہوش ہی ہوگئی ڈر کے مارے۔ بعد میں زیور پھر زیور بن گیا۔ ایسے بہت سے کھیل ہوئے۔
’’اصل واقعہ بتائو سری رام جی۔‘‘ بھلاّ صاحب بولے۔
’’وہی بتا رہے ہیں ڈاکٹر بھیا! تنگ آگئے ہیں ہم تو۔ بات بہت لمبی ہے، میاں جی پریشان تو نہیں ہوگئے؟‘‘
’’نہیں…!‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’وہ پاجی ہم سے کہتا رہا کہ پوجا وتی اسے دے دی جائے ورنہ یہ گھر نرکھ بن جائے گا۔ اس بیچ کئی رشتے آئے ہوئے تھے ہماری پوجا کے، ہم نے سوچا اس کی شادی کردیں تاکہ ہمیں نجات مل جائے۔ اس لیے ہم نے سوچ بچار کرکے پنڈت اوم پرکاش کے بیٹے ست پرکاش کا رشتہ منظور کرلیا۔ اوم پرکاش جی خود بھی یہی چاہتے تھے کہ چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوجائے۔ ہم نے بھی آمادگی کا اظہار کردیا۔ وہ بھی بہت بڑے آدمی ہیں۔ چندوسی کے قریب ہی ان کا اپنا گائوں ہے روپ نگر… بہرحال بھیا! ساری باتیں طے ہوگئیں۔ روپ نگر سے ست پرکاش کی بارات آگئی۔ ہم نے بھی دھوم دھام سے ساری تیاریاں کی تھیں اور آدمی لگا دیئے تھے اپنے کالی موری پر کہ پاپی گووندا کوئی گڑبڑ نہ کرے۔ کہہ دیا تھا ہم نے اپنے آدمیوں سے کہ اگر گووندا کالی موری کے علاقے سے باہر نکل کر ہماری طرف آنے کی کوشش کرے تو لاٹھیاں مار مار کر اس کا بھیجا نکال دیا جائے۔ ہمارے آدمی وہیں اس کی نگرانی پر لگ گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ گووندا ایک لکیر کاڑھ کر اس کے بیچ کھڑا ہوگیا تھا اور وہیں کھڑا رہا تھا۔ ادھر یہ ہوا بھیا کہ بارات آئی، سب ٹھیک ٹھاک تھا، مہمان خوش تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہیں گووندا کی بدمعاشی معلوم تھی۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ کالے جادو کا ماہر کہیں کوئی جادو نہ کرے۔ بڑی پریشانی تھی ہمیں بھی اور ہماری دھرم پتنی کو بھی! سارے کے سارے ہی گووندا کی وجہ سے پریشان تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ بھگوان کرے کہ یہ شادی آرام سے ہوجائے۔ مگر کہاں میاں جی۔ ’’ہون کنڈ‘‘ تیار تھا۔ اگنی جل رہی تھی، پنڈت اشلوک پڑھ رہا تھا۔ پوجا کا پلو ست پرکاش کے دامن سے باندھ دیا گیا تھا۔ پہلا پھیرا ہوگیا۔ دوسرا جو ہونے لگا تو اچانک ہی پوجا کی بھیانک چیخ ابھری اور پھر چاروں طرف سے چیخیں ابھرنے لگیں۔ ہم نے بھی دیکھا ست پرکاش، ست پرکاش نہیں رہا تھا بلکہ ایک ڈھانچہ بن گیا تھا۔ سوکھی ہوئی ہڈیوں والا انسانی ڈھانچہ! جس کے ہاتھ، پائوں لٹک رہے تھے۔ وہ پوجا کا پلو اپنے ایک ہاتھ میں تھامے ’’ہون کنڈ‘‘ کے کنارے کنارے سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ست پرکاش کے پتاجی کی چیخیں ابھرنے لگیں اور پوجا بے ہوش ہوکر نیچے گر پڑی۔ بڑی مشکل سے اس ڈھانچے کے ہاتھ سے پوجا کا پلّو چھینا گیا۔ پوجا کو اٹھا کر اندر لے جایا گیا۔
ادھر سارے کے سارے چیخ چلا رہے تھے اور ست پرکاش ایک ڈھانچے کی شکل میں ’’ہون کنڈ‘‘ کے کنارے کھڑا ہوا بھیانک انداز میں اپنی سوکھی ہوئی کھوپڑی ہلا رہا تھا۔ پھر کسی نہ کسی طرح پنڈت اوم پرکاش جی کو پتا چل گیا کہ معاملہ کیا ہے۔ بتانے والے بھلا کیوں زبان بند رکھتے، بس میاں جی عزت لٹنی تھی، سو لٹ گئی۔ گریبان پکڑ لیا پنڈت جی نے ہمارا، کہنے لگے کہ دھوکا کیا ہے ہم نے۔ اب بھلا بتائو ہم نے کیا دھوکا کیا۔ ایک گندے علم کا ماہر، ایک سفلی علم جاننے والا ہمارے پیچھے لگ گیا تھا تو اس میں ہمارا کیا قصور تھا۔ کہتے بھی تو کیا۔ یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ اس ڈھانچے کے ساتھ پوجا کے پھیرے کرا دو۔ جب سارے کام ہونے والے تھے تو یہ ہوگیا تھا۔ بھیا! عزت الگ لٹی، گالیاں الگ کھائیں، پنڈت اوم پرکاش اور ان کی پتنی دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ پھر یہ طے کیا انہوں نے کہ جو کچھ بھی ہے، ست پرکاش کے ڈھانچے ہی کو ساتھ لے جائیں۔ سوکھا ہوا ڈھانچہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہا تھا۔ ویسے ان کا کہنا بھی ٹھیک ہی تھا۔ ہماری ہی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا تھا۔ بہرحال عجیب تماشا تھا۔ لوگ ڈھانچے کے قریب آنے سے ڈر رہے تھے۔ ماتا،پتا بھی دھاڑیں تو مار رہے تھے مگر قریب کوئی نہیں آرہا تھا۔ ست پرکاش کو ایسی ہی شکل میں واپس لے جایا گیا اور پھر جو کہانی سنی، وہ یہ تھی کہ جیسے ہی ست پرکاش چندوسی کی سرحد سے باہر نکلا، اس کی اصلی شکل واپس آگئی۔ وہ کھویا کھویا سا تھا۔ اسے اپنا بدن تو واپس مل گیا لیکن اس کا دماغ ٹھیک نہیں رہا۔ آج بھی سنا ہے کہ وہ باولا ہے اور ادھر سے ادھر مارا مارا پھرتا رہتا ہے۔ بے چارے اوم پرکاش جی جگہ جگہ اس کا علاج کراتے پھر رہے ہیں۔ ہم سے تو دشمنی پڑ گئی ہے ان کی، ہمارا نام سن کر تو کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ یہ ہے ہماری بپتا میاں جی! اس کے بعد بھی کچھ کہانی ہے۔ وہ یہ ہے ساری باتیں تمہیں بتا دینا ضروری ہیں۔ اب جب اتنی باتیں بتائی ہیں تو اور کچھ چھپانے سے کیا فائدہ…
میں دلچسپی سے یہ سب کچھ سن رہا تھا اور میری آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔