ارے کیا عجیب ہے بھیا! بس بھگوان کا دیا کھا رہے ہیں۔ اچھی گزر ہوجاوے ہے۔‘‘
ابھی دو تین منٹ ہی ہوئے تھے کہ امام دین چچا خالی مشک کندھے پر ڈالے ہوئے اندر آگئے اور مسکراتے ہوئے بولے۔ ’’ہیں، اب لگی نا بات، جارے سندر تو اپنا کام کر۔ ہم گوشت پکائیں گے، بھاگے کا خوشبو سونگھ کر…‘‘
’’رام… رام… رام، چلے ہیں بھیا! یہاں تو خون خرابہ ہووے ہے!‘‘ سندر لعل نے کہا اور ناک پر ہاتھ رکھ کر باہر نکل گیا۔ امام دین ہنسنے لگے تھے، پھر وہ بولے۔
’’بھیا! سقے ہیں ذات کے، گھروں میں پانی بھرے ہیں اور اللہ روزی دے دے ہے۔ جو کچھ بھی ہے، حاضر ہے تمہارے لیے۔ گوشت رکھا ہے ابھی پکا لیتے ہیں۔ کھانا پکا لیں پہلے، بعد میں باتیں کریں گے۔‘‘
’’میں بھی آپ کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں امام دین چچا…‘‘
’’ارے کیسی باتیں کرو ہو۔ بیٹھو آرام سے منہ، ہاتھ دھو لو۔ وہ گھڑے میں پانی رکھا ہوا ہے اور وہ لوٹا رکھا ہے۔ جائو جائو مہمان ہو، بھلا ہم تم سے کام کرائیں گے…‘‘
بڑا مخلص اور سچا انسان نظر آتا تھا۔ مشک ایک طرف رکھی۔ تمباکو کا پُڑا جو سندر لعل ساتھ لایا تھا، دیوار میں بنے ہوئے ایک طاق میں رکھا اور اس کے بعد سامنے ہی بنے ہوئے چولہے کے قریب پہنچ گیا۔ یہاں تھوڑا سا سامان رکھا ہوا تھا۔ سلور کی ایک دیگچی میں اس نے ضروری کارروائیوں کے بعد مصالحے وغیرہ ڈالے اور پھر میرے پاس آبیٹھا۔
’’اکیلے ہیں۔ ماں، باپ بچپن ہی میں مر گئے تھے۔ نگر ہی میں پلے بڑھے۔ خاندانی سقے ہیں، وہی کام کررہے ہیں۔ تم سنائو بھیا! کہاں سے آرہے ہو؟‘‘
’’بس امام دین چچا! لاوارث ہوں میں بھی… نہ جانے کہاں کہاں سے بھٹکتا ہوا جنگل میں جا رہا تھا کہ بے چارہ سندر لعل اپنی بیل گاڑی پر مل گیا۔ مجھے تو پتا بھی نہیں تھا کہ نگر کتنے فاصلے پر ہے۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے اچھا ہوا۔ جب تک مرضی آئے، ہمارے ساتھ رہو۔ نگر بڑی اچھی جگہ ہے بھیا! وہ دیکھو تھوڑے فاصلے پر جو بلندیاں تمہیں نظر آرہی ہیں نا، وہاں سلیم بابا کی مسجد ہے اور وہ ادھر جو لال رنگ کی پکی عمارتیں نظر آرہی ہیں، وہ رانی جودھا بائی کا محل ہے۔ اکبر بادشاہ کی بہت سی کہانیاں نگر میں پھیلی ہوئی ہیں اور سارے کے سارے تمہیں اسی کی کہانیاں سنائیں گے۔‘‘
میں نے ان بلندیوں کی جانب دیکھا۔ مسجد کے مینار نظر آرہے تھے۔ بڑا سا گنبد! سلیم الدین چشتیؒ کا مزار بھی اسی مسجد میں ہے اور ان بزرگ کے نام سے بھلا کون واقف نہیں… ایک بار پھر دل کو ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا۔ امام دین سقے کے خلوص کا اندازہ ہوچکا تھا۔ ویسے بڑی متاثرکن شخصیت تھی اور میں یہاں آکر ایک عجیب سی فرحت محسوس کررہا تھا۔ انوکھا پن محسوس ہورہا تھا مجھے اس گھر میں… میں نے منہ، ہاتھ دھویا اور امام دین چچا نے جلدی سے ایک میلا سا تکیہ لا کر چارپائی کے سرہانے رکھ دیا اور بولے۔
’’لیٹ جائو بھیا! حقہ پیو ہو… بھر لیں؟‘‘
’’نہیں امام دین چچا! میں نہیں پیتا۔‘‘
’’ہم پئیں گے اور ساتھ ساتھ باتیں کریں گے۔‘‘ وہ حقہ لے کر آگے بڑھ گئے۔ حقے کو غسل دیا، چلم بھری، اسے حقے پر جمایا اور پھر ہاتھ میں اٹھائے میرے سامنے آبیٹھے۔ سادہ سادہ معصوم معصوم باتیں۔ پھر اچانک امام دین نے میرے چہرے اور بدن کے نشان دیکھے اور بولے۔ ’’یہ کیا ہوگیا ہے بھیا۔‘‘
’’بس چچا! بیماری ہوگئی ہے۔ یہ نشان پڑ گئے ہیں۔‘‘
’’مولا شفا دے گا۔ ہم پانی پڑھ کر دیں گے۔ مولا کے کرم سے ٹھیک ہوجائو گے۔‘‘ انہوں نے خلوص سے کہا۔ کچھ دیر گزری تھی کہ دو عورتیں ایک حلق پھاڑتے بچے کو لے کر آئیں۔ بچہ رو رو کر ادھ موا ہوا جارہا تھا۔ دونوں عورتیں بے حد پریشان تھیں۔ ان میں ایک عمر رسیدہ تھی، دوسری نوجوان۔
’’ارے ارے اسے کیا ہوگیا عیدن بہن۔‘‘
’’دیکھو تو امام بھیا! رو رو کر مرا جارہا ہے۔ صبح سے دودھ کا ایک قطرہ نہیں پیا۔‘‘ معمر عورت نے کہا۔
’’دیکھیں ہیں، دیکھیں…‘‘ امام دین نے کہا۔ گھڑے کے پاس جاکر پانی نکالا، کلی کی اور بچے کے پاس جا بیٹھے۔ کچھ پڑھا اور تین بار بچے پر پھونک دیا۔ بچہ ایک دم خاموش ہوگیا۔ میں ششدر رہ گیا تھا۔ اچانک ہی مجھے احساس ہوا تھا کہ امام دین سقہ کچھ ہے بلکہ بہت کچھ ہے۔ عجیب کردار تھا، انتہائی متاثر کن۔ امام دین نے کہا۔ ’’جارے، کیوں ماں اور دادی کو پریشان کررہا ہے۔ لے جائو عیدن بہن! سسرے کو نظر لگ گئی تھی۔ اب دودھ بھی پیئے گا۔‘‘ دونوں عورتیں چلی گئیں اور امام دین چچا پھر میرے پاس آبیٹھے۔ ’’نظر پتھر کو بھی کھا جائے ہے بھیا۔‘‘
’’آپ یہ علاج بھی کرتے ہیں چچا…؟‘‘
’’ارے نہیں… بھیا کی باتیں۔ ہم علاج کریں گے کسی کا، پڑھے نہ لکھے بس بسم اللہ پڑھ دے ہیں اور مولا عزت بنا دے ہے۔ پھر بھیا! بسم اللہ سے بڑا اور کیا ہووے ہے، بولو کچھ ہے۔ ہنڈیا جل رہی ہے شاید۔‘‘ وہ جلدی سے اٹھ گئے۔
کچے پکے گوشت کی لذت ناقابل بیان تھی۔ طبیعت سیر ہوگئی تھی۔ کھا پی کر سو گیا۔ امام دین یہ کہہ کر چلے گئے تھے کہ دوچار گھروں میں مشک ڈال آئیں۔ کب واپس آئے، پتا نہ چلا۔ مغرب کا وقت گزر چکا تھا۔ جب آنکھ کھلی، امام دین چچا کچھ پکا رہے تھے۔ دالان میں لالٹین لٹک رہی تھی اور اس کی پیلی روشنی پھیل رہی تھی۔ اس وقت باہر سے آواز سنائی دی۔ ’’چاچا جی… امام دین چاچا!‘‘
’’آجا رے گردھاری، آجا بھیا کیا بات ہے۔‘‘ دروازے سے دبلے پتلے بدن کا ایک آدمی دھوتی، کرتا پہنے اندر آگیا۔ اس کے ہاتھ میں پیتل کی گڑوی تھی۔
’’سندر لعل نے بتایا چاچا کے گھر مہمان آیا ہے۔ دودھ لائے ہیں اپنی گیّا کا مہمان کے لیے، لو بابو پی لو… خالص دودھ ہے، مکھن بھرا۔‘‘
’’جیتا رہ گردھاری۔ لے لو مسعود بھیا! بڑا اچھا آدمی ہے گردھاری۔‘‘ میں نے پیتل کی گڑوی لے لی۔ گاڑھے دودھ سے لبالب بھری ہوئی تھی۔ گردھاری چلا گیا۔امام دین بولے…
’’لائو دم کردیں۔ سفید چیز ہے، کھلے آسمان تلے آئی ہے۔ دم کردیں تو پی لو۔‘‘ میں نے گڑوی آگے بڑھا دی اور امام دین نے اس پر کچھ پڑھ کر پھونک دیا۔ پھر گڑوی مجھے دے کر بولے۔ ’’لو پی جائو۔‘‘
’’نہیں چچا، دودھ بہت کافی ہے، اتنا نہیں پی سکوں گا۔‘‘
’’ارے جوان آدمی ہو بھیا، پی جائو… چلو نا تو اس کٹورے میں پلٹ لو، باقی رکھ دو چائے بنا لیں گے!‘‘ میں نے اس ہدایت پر عمل کیا۔ کٹورہ لے کر دودھ الٹا مگر اچانک میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ دونوں برتن میرے ہاتھ سے لرز گئے… ’’یہ کیا… یہ…
کھلے کٹورے میں دُودھ کے ساتھ پور برابر لمبے لمبے کیڑے کلبلا رہے تھے۔ گڑوی میں بھی یہی حال تھا، کیڑوں کی تعداد ایک دو نہیں تھی بلکہ وہ بے شمار تھے۔
’’چاچا۔‘‘ میرے منہ سے سرسراتی آواز نکلی۔
’’کیا ہے۔‘‘ امام دین نے اطمینان سے پوچھا۔
’’یہ دیکھو، ذرا یہ دیکھو۔‘‘ میں نے کہا اور کٹورہ آگے بڑھا دیا۔ امام دین چچا نے کٹورہ میرے ہاتھ سے لے کر دیکھا۔ پھر لالٹین اُتار کر اس کی روشنی میں اسے غور سے دیکھا۔ اس کے بعد گڑوی بھی میرے ہاتھ سے لے لی۔ ان کے چہرے پر گہری سوچ کے آثار تھے۔ پھر وہ آہستہ سے بولے۔
’’سفلی۔‘‘
’’یہ کیا ہے چچا۔‘‘
’’ہے تو دُودھ، مگر اس پر گندا عمل کیا گیا ہے۔ بہت دن ہوگئے ہم ہاتھرس گئے تھے وہاں ایک بنیا ناتھورام رہتا تھا۔ مالک نے بہت دیا تھا مگر اولاد نہیں جیتی تھی۔ بچّے ہوتے تھے پر جونہی انہوں نے ماں کا دُودھ پینا شروع کیا ان کے ناک اور منہ سے ایسے ہی کیڑے نکلنا شروع ہو جاتے۔ پھر وہ سوکھ سوکھ کر مر جاتے۔ کسی سیانے نے دیکھا علاج کیا، پتا چلا کسی دُشمن نے ماں کے دُودھ پر سفلی کرایا ہوا تھا۔ ہم نے وہ کیڑے دیکھے تھے ایسے ہی ہوتے تھے۔ پر اس سسرے گردھاری کو کیا سوجھی۔‘‘ امام دین سوچ میں ڈُوب گئے۔ پھر جوش میں آ کر بولے۔ ’’ارے اس کی تو ایسی تیسی۔ آئیو ذرا۔‘‘
’’نہیں امام دین چچا، رہنے دیں۔‘‘
’’ارے تم آئو میرے ساتھ، اسے ہمارے مہمان سے کیا دُشمنی ہوگئی۔‘‘ امام دین چچا گرج کر بولے، گڑوی میرے ہاتھ سے لی اور باہر نکلے، میں انہیں آوازیں دیتا رہ گیا۔ پھر خود بھی ان کے پیچھے نکل آیا۔ وہ غصّے میں بھرے تیز تیز جا رہے تھے۔ راستے میں بھی میں نے ان کی خوشامد کی مگر وہ غصّے میں ڈُوبے ہوئے تھے نہ رُکے اور کچھ دُور جا کر ایک دروازے کے سامنے رُک گئے۔ انہوں نے دروازے کی زنجیر زور سے بجائی تھی۔ دروازہ ایک عورت نے کھولا، امام دین کو دیکھ کر جلدی سے اوڑھنی سر پر رکھی پھر اَدب سے بولی۔
’’سلام چاچا۔‘‘
’’جیتی رہ جانکی، تیرا گھر والا کہاں ہے ذرا بھیج اسے۔‘‘ امام دین نے کہا۔
’’بدری کے کاکا تو کل سے آگرے گئے ہیں، تاریخ تھی نا ان کی، کل آویں کو کہہ گئے ہیں۔‘‘ عورت نے بتایا۔
’’ہیں گردھاری آگرے گیا ہے؟‘‘ امام دین حیرانی سے بولے، میری طرف دیکھا پھر پریشانی سے بولے۔ ’’گیّا کس نے دوہی تھی۔‘‘
’’میں نے چاچا۔‘‘ عورت حیرانی سے بولی۔
’’کسی کو دُودھ بھیجا تھا۔‘‘
’’کسی کو نہیں چاچا۔ پر ہوا کیا؟‘‘
’’یہ، یہ گڑوی تیری ہے۔‘‘ امام دین نے گڑوی سامنے کر کے کہا۔
’’نہیں چاچا ہماری نہیں ہے، پر ہوا کیا۔‘‘
’’ایں کچھ نہیں۔ کسی نے دُودھ بھیجا تھا میرے ہاں۔ میں سمجھا گردھاری… ارے ہاں گردھاری کے مقدمے کی تاریخ تھی کل مجھ سے مل کر تو گیا تھا، اچھا جانکی آرام کر۔ آئو مسعود میاں۔‘‘ وہ پلٹ پڑے، گڑوی کے ساتھ کٹورہ بھی راستے میں پھینک دیا، پھر بولے۔ ’’گردھاری ہی تھا میں نے خود دیکھا تھا، پر یہ بھی سچ ہے کہ اس کے مقدمے کی تاریخ تھی پھر کون تھا جو گردھاری کے بھیس میں آیا تھا اور، اور یہ سب کچھ کیا۔‘‘
ہم گھر میں واپس آ گئے۔ امام دین سوچ میں ڈُوبے ہوئے تھے۔ پھر وہ مجھے دیکھ کر بولے کوئی دُشمن ہے تمہارا، کسی سے دولت جائداد کا جھگڑا ہے یہ دُودھ تمہارے لیے آیا تھا کوئی ایسی بات ہے مسعود میاں۔
’’نہیں چچا۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’پھر کیا بات ہے کچھ ہے ضرور۔‘‘ وہ پُرخیال انداز میں بولے۔ میں نے خاموشی ہی مناسب سمجھی تھی۔ ایک اور معصوم شخص کو موت کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے بھی جسے اپنی کہانی سنائی تھی وہ عذاب کا شکار ہو گیا تھا۔ بے چارے نیاز اللہ کے لیے ہی دل رو رہا تھا۔ ان کا حال تو پتا بھی نہیں چل سکا تھا جبکہ رامانندی کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔ امام دین البتہ بہت پریشان رہے اور طرح طرح کی باتیں کرتے رہے۔ رات کا کھانا ٹھیک سے نہ کھایا گیا۔
میں تو اپنی سوچوں میں گم تھا مگر امام دین میری وجہ سے پریشان تھے۔ رات کو میں سونے کی کوشش کرنے لگا، جنگل شاید زیادہ دُور نہیں تھا، گیدڑوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ بارہ بجے کے بعد اچانک بلیاں بھی رونے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے بہت سی بلیاں گھس آئی ہوں صحن میں، چھت پر ان کی دھما چوکڑیاں گونجنے لگیں۔
’’ارے تمہاری۔ کہاں سے آ مریں اِتی ساری۔‘‘ امام دین لکڑی لے کر پورے صحن میں ہش ہش کرتے پھرے۔ میں خاموش لیٹا رہا تھا، دل میں طرح طرح کے خیالات آتے رہے تھے۔ بلیوں نے ساری رات رَت جگا کیا۔ پھر اذان کی آواز اُبھری اور بے اختیار سلیم بیگ یاد آ گئے۔ وہاں اسپتال میں نماز پڑھی تھی اس کے بعد موقع ہی نہیں ملا تھا اُٹھ گیا۔ امام دین وضو کر رہے تھے مجھے دیکھ کر بولے۔
’’نماز پڑھو گے؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’جزاک اللہ۔ تو وضو کر لو۔‘‘ ہم دونوں نے نماز پڑھی اور امام دین چائے بنانے چلے گئے۔ پھر اچانک میں نے ان کی آواز سنی۔ وہ صحن میں جھک جھک کر جگہ جگہ دیکھ رہے تھے۔
’’کیا ہے چچا۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ارے دیکھو تو۔ یہ سسری آنگن میں کیا مہا بھارت ہوئی ہے۔ ساری رات بلیاں روتی رہی ہیں، کئی بار بھگایا مگر سسریوں نے آنگن کو پانی پت بنا رکھا تھا، سارے میں خون بکھرا ہوا ہے۔‘‘ میں نے بھی صحن میں سرخ خون بکھرا ہوا دیکھا مگر منہ سے کچھ نہ کہا۔ ’’برتن بھی خراب ہوگئے ہوں گے۔ دوبارہ دھونے پڑیں گے۔‘‘
’’میں دھوتا ہوں چچا۔‘‘
’’ارے نا بھیّا۔ چار برتن ہی تو دھونے ہیں مگر۔ کچھ ہے بھیّا، ضرور کچھ ہے۔ لائو چائے تو بنائیں۔‘‘ نہ جانے کیا کیا جتن کر کے امام دین چچا نے چائے بنائی، ایک پیالہ مجھے دیا اور دُوسرا خود لے کر میرے سامنے بیٹھ گئے۔
’’سفلی کیا ہوتا ہے چچا۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بھیّا ہم ٹھہرے گنوار۔ بس نماز روزہ کرلیں ہیں، دُعا درود پھونک دیں ہیں مگر یہ سسر ہووے بکٹ ہے۔ یوں سمجھ لو مالک نے شیطان کو بھی طاقت تو دی ہے کہ جا سسرے بہکا میرے بندوں کو۔ اللہ والوں کے آگے اس سسرے کی نا چلے ہے مگر سارے ہی تو پہنچے ہوئے نا ہوویں ہیں۔ یہ سارے کام شیطان کے ہیں بھیّا۔ اور یہ کولہی چمار ایسے کام زیادہ کرتے ہیں، ان کا کون سا دین دھرم ہوئے ہے۔‘‘
اس معصوم انسان کا علم درحقیقت اس سے زیادہ نہیں تھا۔ بہت زیادہ باتیں اس کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی تھیں۔ بھوریا چرن پھر پاگل ہو رہا تھا اور یہ سب اسی کا کیا دھرا تھا، چنانچہ میں خاموش ہوگیا۔
سورج نکل آیا۔ امام دین چچا نے مشک سنبھالی اور بولے۔ ’’چودہ گھروں میں پانی ڈالنا ہے۔ چلیں گے تم آرام کرو واپس آ کر یہ خون صاف کریں گے اور پھر کچھ سوچیں گے، گھبرانا نہیں کہو تو سندرلعل کو بھیج دیں۔‘‘
’’نہیں چچا آپ جائیں میں نے کہا اور وہ چلے گئے۔ میں سوچ میں ڈُوبا رہا اب کیا کروں، یہاں زیادہ رُکنا مناسب نہیں ہے۔ آج یہ ہوا ہے کہ کل کچھ اور ہوگا۔ یہ نیک انسان بھی میری وجہ سے اپنی نیکیوں کا شکار ہو جائے گا۔ نہیں اپنی مصیبت مجھے خود بھگتنا ہوگی۔ بہت سے لوگ میری وجہ سے موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں۔ آہ۔ کیا تقدیر پائی ہے، کیا خودکشی کرلوں، میری موت سے نہ جانے کس کس کو فائدہ پہنچے گا۔ تقدیر میں ماں باپ کا دیدار نہیں ہے جو کھویا اپنے ہاتھوں سے کھویا۔ اپنے کئے کا کیا علاج۔ زندگی تو بہت سے رُخ رکھتی ہے، وہ جو ہر جائز ناجائز طریقے سے دولت حاصل کر لیتے ہیں۔ بالآخر ایک دن شکار ہوتے ہیں بھوریا چرن کے نہ سہی کسی اور کے۔ آخر انسانیت کے راستے متعین کئے گئے ہیں، دُنیا گزارنے کے لیے کچھ بنایا گیا ہے کچھ ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ ہٹ جائو تو راستوں سے انجام تو ہوگا نا۔ دل میں نہ جانے کیا کیا خیالات آتے رہے۔ اچانک ایک نیا خیال آیا۔ دل ڈرا، مگر اس وقت تنہا تھا۔ لائو تجربہ توکروں۔ آواز دی۔
’’بھوریا چرن۔‘‘ اس نے یہی کہا تھا کہ وہ مجھ سے زیادہ دُور نہیں ہوتا، جب بھی اسے آواز دوں گا وہ آ جائے گا۔ دُوسری بار اسے پکارا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ کہیں کوئی تحریک نہیں تھی مگر دو ہی لمحوں کے بعد اچانک کسی چیل کی آواز سنائی دی، صحن میں اس کا سایہ نظر آیا۔ پھر وہ صحن میں آ بیٹھی، بڑی مکروہ صورت تھی چونکہ میں کسی کا منتظر تھا اس لیے میری نگاہ چیل پر جم گئی۔ چیلیں عموماً اس طرح صحنوں میں نہیں اُترتیں بلکہ بلند درختوں یا کہیں دیواروں پر بیٹھتی ہیں مگر میرا اندازہ دُرست تھا چیل کی پشت سے ایک سوکھی ٹانگوں والا بڑا سا مکڑا نیچے اُترا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا، چیل نے پنجے دبائے جسم تولا اور فضاء میں بلند ہوگئی۔ مکڑا میری طرف بڑھ رہا تھا اور اس کا حجم بڑھتا جا رہا تھا میں اسے دیکھتا رہا۔ مجھ تک پہنچتے پہنچتے وہ پورا قامت اختیار کرگیا۔ اس کے پائوں بھی چار رہ گئے پھر وہ سیدھا کھڑا ہوگیا، وہ پیلی بدنما آنکھوں سے مجھے گھور رہا تھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے پھٹی پھٹی آواز میں کہا۔
’’بہت دن سے تو ملا نہیں تھا میں نے سوچا ملاقات کر لوں۔‘‘ میں نے خود کو سنبھال کر کہا۔
’’بڑی ہمت ہوگئی ہے میاں جی۔‘‘ وہ طنزیہ بولا۔
’’ہاں ہمت تو ہوگئی ہے بھوریا چرن تو نے کیا کچھ نہ کرلیا میرے لیے، مگر دیکھ لے زندہ ہوں، ٹھیک ہوں۔‘‘
’’بھوریا چرن بائولا نہیں ہے میاں جی تم جیسے لونڈے تو اس کے جوتے چاٹیں مگر اپنا کام تم سے ہی کرانا ہے، ہم نے بھی وچن ہار لیا ہے تمہارے لیے۔ شکتی حاصل کریں گے تو تمہارے ذریعے، ابھی کھیل شروع ہوا ہے آگے بڑھے گا، ہم ہوں گے تم ہوگے اور ہمارے بیچ آنے والے مرتے رہیں گے۔ بائولے تم ہو میاں جی جو سوچ بھی نہیں سکتے بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہولیتے ہو، کوڑھ ٹھیک ہوگیا۔ تم جلال شاہ کے دوار، ارے پہنچ ہی نہ پاتے پر ہم نے سوچا چلو بڑے دن سے کوڑھی پھر رہے ہو اب کچھ دن ٹھیک رہ کر سانس لے لو تاکہ کوئی نیا کھیل شروع ہو تو جان تو ہو تمہارے بدن میں کہیں مرمرا نہ جائو۔‘‘
’’راستے تو روکے تھے تو نے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہم راستہ روکتے اور تم ایک قدم آگے بڑھ جاتے۔ آزمانا چاہتے ہو ہمیں میاں جی۔‘‘
’’وہ ملنگ کون تھے اور وہ؟‘‘
’’بیر تھے ہمارے جو من میں آیا کرتے رہے۔ ہم ہوتے تو وہ کرتے جو ہمارے من میں ہوتا۔ پر ہمیں تو تمہاری دوستی چاہیے اور ہم آہستہ آہستہ کوشش کر رہے ہیں۔ سوگند بھدونا چھنڈکی اپنی پر آ جائیں تو جس بستی میں تم قدم رکھو اسے موت میں لپیٹ دیں، دھرتی پھاڑ دیں، بیماریاں لگا دیں ایسی ایسی کہ حکیم وید سسرے سوچتے ہی رہ جائیں کہ یہ کیا بیماری ہے۔‘‘
’’تو بکواس کرتا ہے ناپاک کتّے۔ مخلوق خدا تیری جاگیر نہیں ہے کہ تو جب چاہے اسے ختم کر دے، زندگی لینا دینا صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ تو کیا اور تیری اوقات کیا۔‘‘ میں نے طیش میں آ کر کہا اور وہ مجھے گھورنے لگا پھر اچانک مسکرا پڑا۔
’’تم اپنی کہو میاں جی۔ دماغ ٹھیک ہوگیا ہو تو چلیں پیر پھاگن دوار؟‘‘
’’جائوں گا وہاں، ضرور جائوں گا، فاتحہ پڑھنے، چادر چڑھانے۔ بھلا تیرے گندے وجود سے وہ جگہ ناپاک کرنے جائوں گا۔‘‘
’’بوڑھے ہو جائو گے مر جائو گے۔ مرتے سمے سوچو گے کہ سارا جیون کھو دیا ضد میں ورنہ راجائوں کی طرح جیتے، محلوں میں رہتے ماتاپتا کو بھی عیش کرا دیتے مگر یہ سب تمہارے بھاگ میں نہیں ہے۔‘‘
’’تیرے دیئے ہوئے گندے علم کے ذریعہ مجھے یہ سب کچھ نہیں چاہیے۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے میرا بھی کیا جا رہا ہے، میں بھی انتظار کروں گا۔ کوششیں کرتا رہوں گا، شکتی ایسے ہی تو نہیں مل جاتی۔‘‘ اس نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
’’تو میرا پیچھا چھوڑ دے بھوریا چرن، آخر میں نے تیرا کیا بگاڑا ہے، بس ایک غلطی ہی تو ہوئی تھی مجھ سے میں بھٹک کر تیرے پاس جا نکلا تھا تو یہ کام کسی اور سے بھی لے سکتا ہے۔‘‘
’’اندھی آنکھوں والے ہو تم۔ ہمارے ساتھ آئو، ہمارا کام کر دو تو تمہیں بتائیں کہ ہماری کیا مجبوری ہے۔ جاپ کر رہے تھے ہم اس سمے جب تم ہمارے پاس آئے اس جاپ کے بیچ ایک کام کا آدمی آتا ہے، تم آ مرے عین اس سمے۔ ہم نے آنکھیں کھول کر تمہیں دیکھ لیا بس مجبور ہوگئے۔ دُوسرا کوئی اب یہ کام نہیں کر سکتا اور ہم جیون بھر کھنڈولے نہیں بن سکتے۔ ہمارا تو کچھ نہیں بگڑا، ہمارے پاس تو اب بھی بڑی شکتی ہے مگر تم میاں جی بلاوجہ ضد کئے جا رہے ہو، جو شکتی تم چاہتے تھے اس سے کہیں بڑی شکتی مل رہی ہے تمہیں۔ ریس کے گھوڑے تمہارے اشارے پر دوڑیں گے، سندر ناریاں تمہارے لیے آنکھیں بچھا دیں گی، راجہ اندر بن جائو تم ان کے بیچ، جو کچھ ایک بار منہ سے مانگو گے تمہارے سامنے آ جائے گا۔ ماتا، پتا، بہن بھائی کو راج دو گے اور کام اتنا سا۔ بولو اب بھی سمے ہے بات مان لو ہماری۔‘‘
’’مگر یہ قوتیں مجھے کیسے مل جائیں گی بھوریا چرن۔‘‘
’’ہمیں پھاگن دوار پہنچا دو، ہمیں مہان شکتی مل جائے گی اور ہم تمہیں ایک ایسی چیز دے دیں گے جس سے تمہارے یہ سارے کام بن جائیں گے۔‘‘
’’تم ہر وقت مجھ پر نگاہ رکھتے ہو بھوریا چرن۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’پچھلی رات تم نے میرے لیے کیڑوں بھرا دُودھ بھجوایا تھا۔‘‘
’’مجبوری تھی۔ وہ بائولا سقّہ تمہارے لیے جھاڑ پھونک کر رہا تھا۔ اگر وہ دُودھ پر پھونک نہ مار دیتا تو تم خاموشی سے دُودھ پی لیتے اور دُودھ پیتے ہی تمہارے من میں اس کے لیے نفرت پیدا ہو جاتی۔ یہ نفرت اتنی بڑھ جاتی کہ تم رات کو اسے جان سے مار دیتے اور پھر یہاں سے بھاگ جاتے مگر اس سسر نے پھونک مار کر سارا کام بگاڑ دیا۔ اصل بات پتا چل گئی۔‘‘
’’پیر پھاگن کے مزار پر تم خود نہیں جا سکتے۔‘‘
’’جا سکتے تو چلے نہ جاتے۔‘‘
’’وہاں جا کر تمہیں کیا مل جائے گا؟‘‘
’’یہ کالے منتر کے بھید ہیں مورکھ، تیری سمجھ میں نا آئیں گے۔ ایک شکتی بھنگ ہوگی تو دُوسری شکتی جاگے گی، تاج مل جائے گا ہمیں۔‘‘
’’اور اس کے لیے تجھے کسی مسلمان کا سہارا چاہیے۔‘‘
’’ہاں گھر والا گھر کے دوار کھولے تو پھر گندی ہوا کے جھونکے کیسے رُکیں گے۔‘‘
’’کون خوشی سے اپنے گھر میں گندگی کرتا ہے بھوریا چرن۔ میں مسلمان ہوں کوئی دھوکے سے مجھے گندا کر دے تو مجبوری ہے مگر جان بوجھ کر یہ کیسے ممکن ہے۔ میں نے پیر پھاگن کے تقدس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے اور آئندہ بھی تیری ساری حرکتیں برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
بھوریا چرن چونک پڑا۔ اچانک اس کے چہرے کی نرمی غائب ہوگئی، اس کی آنکھیں غصّے سے سرخ ہوگئیں۔ وہ مجھے گھورنے لگا پھر بولا۔ ’’تب تو نے مجھے کیوں بلایا تھا؟‘‘
’’یہ بتانے کے لیے کہ میں تیری بات نہیں مان رہا۔‘‘ میں نے کہا اور ہنس پڑا۔
’’بڑا مذاق اُڑا رہا ہے میرا۔ اتنی باتیں کیوں کیں تو نے مجھ سے، میرا قیمتی وقت کیوں برباد کیا۔‘‘ وہ غرّایا۔
’’تا کہ تجھے تکلیف ہو۔‘‘
’’تکلیف۔ تکلیف کا مزا دیکھنا چاہتا ہے تو، جاننا چاہتا ہے کہ تکلیف کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’ہاں بھوریا چرن، جاننا چاہتا ہوں، مجھے بھی اب تکلیفوں کی عادت پڑ گئی ہے، سکون ہوتا ہے تو بے چینی ہو جاتی ہے۔ تو پھر اب کیا دے رہا ہے مجھے۔‘‘
’’نرکھ… نرکھ دوں گا۔ اگنی میں جلا کر بھسم کر دوں گا تجھے۔ ایسی آگ لگائوں گا کہ جیون بھر نہ بجھے۔‘‘ اس نے پھنکارتے ہوئے کہا، اسی وقت باہر سے امام دین کی آواز سنائی دی۔
’’ارے بھئی مسعود بھیّا کیا کر رہے ہو، باہر آئو دیکھو کون آیا ہے۔ آ جا سندر لعل اندر آ جا۔‘‘
’’بھیّا کو باہر نکالو۔‘‘ سندر لعل کی آواز سنائی دی اور پھر امام دین سندر لعل کے ساتھ اندر داخل ہوگئے، بھوریا چرن ایک دم نیچے بیٹھ گیا۔ اس نے مکڑے کا رُوپ دھار لیا اور تیز تیز دوڑتا ہوا ایک دیوار پر چڑھ کر غائب ہوگیا۔
’’اچھے مہمان ہو بھیّا جی، چوپال بھی نہیں آئے، کسی سے ملے بھی نہیں۔ ارے تم تو بیربانی (عورت) ہوگئے۔‘‘ سندر لعل نے کہا۔
’’سُندر لعل سیکری جا رہا ہے جائو بلند دروازہ دیکھ آئو۔ چشتی صاحب کے مزار پر فاتحہ پڑھ آئو۔‘‘ امام دین بولے۔
’’ہاں چلو بھیّا چار بجے واپس آئیں گے تو تمہیں ساتھ بٹھاتے لائیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے کہا اور فوراً باہر نکل آیا۔ کچھ دُور پیدل چلے، پھر امام دین نے کہا۔
’’ہم چلے کام کرنے، تم سیر کرو جب دل چاہے آ جانا۔‘‘
’’آپ اجازت دیتے ہیں امام دین چچا۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ارے ہاں جائو بھیّا۔ مرد بچّے ہو کوئی چوڑیاں پہنا کر بٹھا لیں گے ہم، جائو جب دل چاہے آ جانا۔‘‘ امام دین نے کہا۔ دل کو اطمینان ہوگیا واپس یہاں نہیں آنا چاہتا تھا مگر امام دین جیسے شخص کو دھوکہ بھی نہیں دیا جا سکتا تھا۔ یہ الفاظ کہہ دیے تھے کبھی وقت نے موقع دیا تو ضرور آ جائوں گا اور یہ ضروری بھی تھا۔ بھوریا چرن امام دین کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔ سندر لعل نے بیل گاڑی ایک درخت کے نیچے کھڑی کر رکھی تھی، میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور اس نے بیل ہانک دیے۔
’’نگر بڑی چھوٹی سی جگہ ہے بھیّا۔ پسند تو نہ آئی ہوگی۔‘‘
’’یہاں تم جیسے بڑے لوگ رہتے ہیں سندر لعل جس کی وجہ سے یہ جگہ بہت بڑی ہوگئی ہے۔‘‘
’’ہم جیسے بڑے لوگ، لو بھیّا کی باتیں۔ ارے مکھیا کی چاکری کریں ہیں بیس نخرے اُٹھائے ہیں تب روٹی ملے ہے اور ہم ہوگئے بڑے لوگ خوب کہی بھیّا۔‘‘
’’سیکری کیوں جا رہے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مکھیا کے چھورا کا کچھ کام ہے شام کو کچھ سامان لے کر پلٹیں گے۔ ویسے سیکری ہے ہی کتنی دُور وہ رہی۔‘‘ سندر لعل نے کہا۔
ہم سیکری پہنچ گئے۔
فتح پور سیکری جہاں مغل تاریخ بکھری ہوئی ہے۔ عظیم الشان مسجد، رانی جودھا بائی کا محل، ہاتھی خانہ، جھروکے جہاں سے نگر کا نظارہ ہوتا تھا۔ وہ بساط جس پر اکبر، رانی کے ساتھ شطرنج کھیلتا تھا اور شطرنج کے خانوں پر مہروں کے لباس میں باندیاں کھڑی ہوتی تھیں۔ یہ باندیاں ان کے اشاروں پر جگہ بدلتی تھیں۔ وہ سب کچھ یاد کر کے دل پر ایک عجیب سا احساس طاری ہوگیا۔ دُنیا میں رہنے والوں نے اس طرح بھی زندگی گزاری ہے اور گزار رہے ہیں۔ سندر لعل نے مجھے نیچے ہی چھوڑ دیا تھا اور اپنے کام سے چلا گیا تھا، بہت سے سیاح تاریخ کی تلاش میں بھٹک رہے تھے ملکی اور غیر ملکی دیر تک، میں اس تاریخ کا ایک حصہ بنا رہا اور پھر مسجد کی طرف چل پڑا۔ بلند دروازہ دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ مغلوں نے تعمیر کی دُنیا میں ایک انقلاب برپا کیا اور ہندوستان کو یادگار بنا دیا جس کے نمونے نجانے کہاں کہاں بکھرے پڑے ہیں۔ ابھی بلند دروازے کی بلندیاں دیکھ رہا تھا کہ ایک بچہ پاس آ کھڑا ہوا۔
’’کو دے صاب۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں اس کی بات سمجھ نہ سکا!
’’اُوپر سے بائولی میں کودے۔‘‘ اس نے بلند دروازے کی بلندیوں اور پھر اس کی پستیوں میں بنی چھوٹی سی بائولی کی طرف اشارہ کیا جس کی تہہ میں کاہی کے دل چھائے ہوئے تھے۔
’’اُوپر سے کودو گے۔‘‘ میں نے منہ پھاڑ کر پوچھا۔ کچھ سیاح میرے پاس آ کھڑے ہوئے تھے۔
’’کودو! ان سیاحوں کے مقامی گائیڈ نے کہا اور بچہ دوڑتا ہوا ایک چھوٹے سے دروازے میں گھس گیا پھر چند بار پلک جھپکی تھی کہ وہ بلند دروازے کی آخری بلندی کے جھروکے میں نظر آیا اور پھر اس نے بیباکی سے اپنی جگہ چھوڑ دی، میری آنکھیں بند ہوگئی تھیں۔ آہ یہ ننھا سا وجود۔ آنکھیں کھولیں تو وہ سیاحوں سے اپنا محنتانہ مانگ رہا تھا، میں دل برداشتہ وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میں قلاش تھا اس شیردل کو کچھ نہیں دے سکتا تھا۔ سیڑھیاں عبور کر کے عظیم الشان مسجد میں داخل ہوگیا۔ صحن مسجد میں بہت سے لوگ نظر آ رہے تھے۔ میں بھٹکا بھٹکا آگے بڑھتا رہا ایک سمت درگاہ حضرت سلیم چشتیؒ نظر آئی۔ قدم اس جانب کھنچے چلے گئے، اندر داخل ہوگیا۔ درگاہ کے تقدس سے دل منور ہوگیا، مزار اقدس کے نزدیک دو زانو بیٹھ گیا۔ آنکھوں میں حسرت اُبھر آئی، دل میں ایک شکایت سی پیدا ہوگئی پھر یہ شکایت آنکھوں سے برسنے لگی۔ اس سے قبل رونے کا مزا ایسا کبھی نہ آیا تھا جو اب آ رہا تھا۔ ہاں رونے میں بھی مزا ہے، شرط ہے کہ آنسو آنکھوں سے نہیں دل سے نکلیں۔ ان آنسوئوں کی آواز تھی کہ اتنا مطعون ہوں، اتنا برا ہوں مجھ پر توجہ ہی نہیں، پلیدوں کی ٹھوکروں میں گزر رہی ہے۔ کوئی سایہ نہیں ہے کوئی دیوار نہیں ہے اور بھی تو گناہ گار ہوں گے میں ہی راندۂ درگاہ کیوں ہوں، ہمت ٹوٹ رہی ہے جی نہ سکا تو مر جائوں گا۔ بس مر جائوں گا۔ یوں لگا کوئی سن رہا ہے، کوئی سوچ رہا ہے کسی نے ٹھنڈی سانس لی ہے۔ کسی نے فیصلہ کیا ہے۔ جانے کب تک بیٹھا رہا، لوگ آتے رہے، جاتے رہے پھر اُٹھا اور باہر نکل آیا۔ چند قدم آگے بڑھا تو کالی داڑھی والے ایک درویش سے شخص نے پانی کا کٹورہ سامنے کر دیا۔
’’تحفۂ درگاہ ہے پیو۔‘‘ میں نے عقیدت سے پانی کا کٹورہ دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔ بے حد ٹھنڈا بے حد شیریں پانی تھا۔ وہ شخص دُوسرے لوگوں کو بھی یہ پانی دے رہا تھا۔
مسجد میں ایک کنواں ہے جس کی گہرائیاں لامحدود ہیں، اس سے پانی نکالنا کارِ دارد ہے لیکن اس سے جو پانی نکلتا ہے وہ بے مثال ہے۔ اتنا نمایاں فرق ہے کہ ہر ایک کو محسوس ہو جائے۔ دل سیر ہوگیا، کٹورہ واپس کر کے آگے بڑھ گیا۔ ظہر کی اذان ہوئی تو جلدی سے وضو کرنے جا بیٹھا۔ نماز پڑھی اور پھر ایک وسیع دالان میں جا بیٹھا۔ بڑی ٹھنڈک تھی اور اس ٹھنڈک میں بڑی فرحت تھی، لوگ آس پاس سے گزر رہے تھے جگہ جگہ کھڑے تھے پھر کچھ قدم میرے قریب رُک گئے، بہت سے لوگ تھے اور اس طرح رُکے تھے میرے قریب کہ حیرانی ہوئی تب ایک نرم آواز نے مجھے پکارا۔
’’مسعود۔‘‘ بدن کو جھٹکا لگا دل اُچھل کر حلق میں آ گیا۔ گردن اُٹھائی پھٹی پھٹی آنکھوں سے آواز دینے والے کو دیکھا اور پہچان لیا۔ وہ ریحانہ بیگم تھیں۔ گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔ بدن پر لرزش طاری ہوگئی تھی۔ قرب و جوار میں کھڑے لوگوں کو دیکھا، شاکر، نادیہ، سرفراز اور فریحہ سب تھے۔ بھلا چہرے پر شناسائی کیوں نہ اُبھرتی۔
’’آپ۔ آپ۔‘‘ میرے منہ سے لرزتی آواز اُبھری۔
’’یہ کیا حال بنا رکھا ہے مسعود۔ یہ چہرے کو کیا ہوگیا، یہ نشانات کیسے ہیں؟‘‘ ریحانہ بیگم نے دل سوزی سے کہا۔
’’امی، ابو، شمسہ، ماموں، ماموں۔‘‘ میری رُندھی ہوئی آواز اُبھری۔
’’یہاں تمہارے ساتھ اور کون ہے۔‘‘ ریحانہ بیگم نے پوچھا۔ ’’اکیلا ہوں۔‘‘
’’آئو چلیں آئو۔‘‘ ریحانہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’کہاں۔‘‘
’’چلو جہاں ہم جا رہے ہیں۔ فتح پور سیکری آئے تھے، فاتحہ پڑھنی تھی پڑھ لی، اب آگے چل رہے ہیں۔ آجائو کوئی بیکار بات مت کرنا۔‘‘ ان کی گرفت میری کلائی پر سخت تھی۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ ایک بار پھر میں نے پوچھا۔
’’میرے ماں باپ کا کوئی پتا چلا۔‘‘
’’افسوس نہیں، لیکن ضرور پتا چل جائے گا انشاء اللہ مل جائیں گے۔‘‘ مسجد سے دُور اس جگہ نکل آئے جہاں کاریں لاریاں کھڑی ہوئی تھیں۔ ایک بڑی سی قیمتی ویگن میں سب بیٹھ گئے۔ ریحانہ بیگم نے مجھے اپنے پاس بٹھایا تھا۔ ڈرائیور نے ویگن اسٹارٹ کرکے واپس موڑ دی اور وہ بلندی سے نیچے اُترنے لگی۔ نیچے میں نے سندر لعل کو بیل گاڑی لیے کھڑے دیکھا اور بے اختیار کہا۔
’’ذرا ایک منٹ کے لیے گاڑی رُکوا دیں۔‘‘ ریحانہ بیگم نے ڈرائیور کو حکم دیا اور ڈرائیور نے ویگن روک دی۔ نیچے اُتر کر میں سندر لعل کے پاس پہنچ گیا۔
’’سندر لعل مجھے کچھ لوگ مل گئے ہیں، میرے رشتے دار ہیں ان کے ساتھ جا رہا ہوں۔ امام دین چچا سے کہہ دینا موقع ملا تو دوبارہ آئوں گا۔ انہیں میرا سلام کہہ دینا۔‘‘
’’ٹھیک ہے بھیّا سلام۔‘‘ اس نے کہا اور میں دوبارہ ویگن میں جا بیٹھا۔ وہ سب خاموش تھے مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں ان کا انداز سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ ویگن آگے بڑھ گئی۔
’’آپ نے چچی جان بلاوجہ مجھے اپنے ساتھ لے لیا ہے۔ سب لوگ میری وجہ سے پریشان ہو جائیں گے۔ اور اور میں نے ایک ایک کا چہرہ دیکھا، نادیہ بولی۔
’’امی یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارا ان سے کوئی رشتہ نہیں ہے اور یہ سب کچھ رسمی ہے۔‘‘
’’اگر تمہارے ذہن میں یہ خیال ہے مسعود میاں تو اسے دل سے نکال دو، رشتے صرف خون کے نہیں ہوتے ہیں۔ تم سے کتنا لگائو ہے اس کا بالآخر تمہیں اندازہ ہو جائے گا۔‘‘ ریحانہ بیگم نے کہا میں ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہوگیا۔ ریحانہ بیگم بولیں، ’’آگرے میں ہم بیرسٹر جلال غازی کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ مجھے وہاں تھوڑا سا جھوٹ بولنا ہوگا جس کے لیے مجھے معاف کر دینا۔‘‘ میرے ساتھ سبھی لوگ ریحانہ بیگم کا چہرہ دیکھنے لگے۔ ریحانہ بیگم نے کہا۔‘‘ تمہارا نام ارشاد ہے اور تم سرفراز کے بھائی ہو۔ بہت عرصہ قبل گھر سے نکل گئے تھے، اب اچانک ملے ہو اور ہم تمہیں ساتھ لے آئے ہیں۔‘‘
’’ارے خدا کی قسم۔ زبردست چچی جان کیا بات سوجھی ہے، کیا دماغ پایا ہے۔ اس طرح میرا ان کے ہم شکل ہونے کا جواز بھی پیدا ہوگیا اور باقی مسئلے بھی حل ہوگئے۔ بھئی زندہ باد کمال ہے۔ واقعی کمال ہے۔‘‘ سرفراز نے اُچکتے ہوئے کہا۔
’’عجیب ہیں آپ لوگ۔ کیوں مجھ جنجال کو گلے لگا رہے ہیں۔ میں مصیبتوں کی جڑ ہوں۔ میں کسی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوں۔ مجھ سے ہمدردی کرنے والوں کو صرف نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘ میں نے آنسو بھری آواز میں کہا۔
’’ہم ان فضولیات کے قائل نہیں ہیں مسعود میاں۔ اللہ پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں، تقدیر میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہتا ہے اگر ہم پر کوئی مصیبت آنی ہے تو ضرور آئے گی۔ تمہارے ذریعہ نہ سہی کسی اور ذریعہ سے۔ یہ ہمارا ایمان ہے۔‘‘ ریحانہ بیگم نے کہا۔
’’آپ سمجھتے کیوں نہیں۔‘‘ میں نے اُلجھ کر کہا۔
’’اب واقعی تم یہ اظہار کر رہے ہو کہ تم ہمیں کسی حیثیت سے قبول نہیں کر سکتے۔‘‘
’’یہ بات نہیں ہے خدا کی قسم یہ بات نہیں ہے۔ مجھ پر تو یہ وقت آ پڑا ہے کہ کانٹے بھی دامن سے اُلجھ جائیں تو ان پر پیار آنے لگے۔ یہ سوچ کر کہ کسی نے روکا تو سہی۔‘‘ میں نے اسی انداز میں کہا۔
’’ہمیں کانٹوں کی بھی حیثیت حاصل نہیں ہے۔‘‘ ریحانہ بیگم کی آواز بھی رُندھ گئی۔
’’او یار چھوٹے بھائی۔ اب بولنے پر مجبور ہوں۔ کیوں خواہ مخواہ ٹریجڈی کر رہے ہو۔ خاموش بیٹھ جائو، جب ہم پر تمہاری وجہ سے مصیبتیں پڑیں گی تو ہم خود سارے رشتے ختم کر دیں گے۔‘‘ سرفراز نے کہا۔
’’آپ کی مرضی، بعد میں مجھے برا نہیں کہیں۔‘‘
’’نہیں کہیں گے بس…!‘‘ شاکر بھی چپ نہ رہا اور میں مسکرانے لگا پھر میں نے کہا۔
’’آپ لوگ یہاں کب پہنچے؟‘‘
’’آگرہ آئے ہوئے پانچ دن ہوگئے۔ اس سے پہلے کلیر شریف گئے تھے، صابر کلیریؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کرنے۔‘‘
’’چند بزرگانِ دین کے مزارات کی زیارت کرنے نکلے ہیں کئی اور جگہ جانا ہے۔ تم یقین کرو مسعود ہم نے تمام کوششیں کر لیں تمہارے والدین کو تلاش کرنے کی، بے چارے امتیاز عالم شاہ صاحب نے تو باقاعدہ شہر شہر کی پولیس سے بھی مدد لی مگر وہ کسی گمنام جگہ جا بسے ہیں۔کہیں مل کر ہی نہ دیئے۔‘‘
’’میرے جیسے بدنصیب بیٹے کے والدین ہیں وہ، گمنامی کی زندگی بسر نہ کریں گے تو اور کیا کریں گے۔‘‘
’’خدا تمہاری مدد ضرور کرے گا بیٹے حالانکہ امتیاز عالم شاہ صاحب تمہارے فرار سے خود بھی کافی پریشان رہے لیکن انہیں تم سے ہمدردی بھی ہے۔ انہوں نے تمہارے بارے میں ذاتی طور پر بھی کافی چھان بین کی اور بہت کچھ معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تمہارے خاندانی حالات، تمہارے خاندان کی شرافت، وہ حالات جن کا یہ خاندان شکار ہوا، تم شکار ہوئے۔ ان کا ذاتی خیال تھا کہ یہ ایک انوکھی کہانی ہے جو سمجھ میں نہیں آتی۔ تمہارے اہل محلہ نے وہ تمام حالات بتائے جنہوں نے تمہاری ہنستی بستی دُنیا اُجاڑ دی۔ قانون کے تقاضے اپنی جگہ، انسانی بنیادوں پر انہیں تم سے آج بھی ہمدردی ہے۔‘‘
’’انہیں میرے فرار کے بارے میں معلوم ہوگیا تھا…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ جس دُوسرے قیدی کو لے کر تم فرار ہوئے وہ تمہارا چھوٹا بھائی تھا۔‘‘
’’اور… اور اب انہیں میری تلاش ہوگی۔‘‘
’’نہیں۔ وہ ریٹائر ہو چکے ہیں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’ہاں اور شاید تم یقین نہ کرو کہ وہ آج بھی تمہارے والدین کو تلاش کر رہے ہیں۔ بہت متاثر ہوئے ہیں وہ تمہارے حالات سے۔ پراسرار علوم جاننے والوں سے رابطے بھی کئے ہیں انہوں نے۔‘‘
’’آپ لوگوں کو… میری بے گناہی پر یقین ہے…؟‘‘ میں نے سسک کر کہا۔
’’خدا کی قسم پورا پورا… ہم نے یہاں دُور سے تمہاری ایک جھلک دیکھی تھی۔ نادیہ نے تمہیں پہچان لیا اور سب کو متوجہ کیا۔ ہمیں تمہاری تلاش ہمیشہ ہی رہی۔‘‘
’’آپ لوگ زمین پر بسنے والے فرشتے ہیں، اس کے علاوہ اور کیا کہوں۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’نہیں یہ بات نہیں بلکہ ایک معصوم اور نیک سیرت انسان سے محبت کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ تمہاری وجہ سے ہمارا اُجڑا دیار بس گیا ہے۔ سرفراز اور فریحہ کی زندگی پر بہار آگئی ہے ورنہ ایک ماں کے لیے غمزدہ بیٹی سے بڑا دُکھ اورکیا ہوسکتا تھا اور پھر تم نے… تم نے وہ کیا جو بس فرشتے ہی کر سکتے ہیں۔ تم انکار کرتے رہے کہ تم سرفراز نہیں ہو اور ہم اصرار کرتے رہے۔ ہم نے تمہیں ہر طرح مجبور کیا مگر تم نے ہماری غلط فہمی سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا ورنہ کیا کچھ نہ ہو سکتا تھا۔ تم نے جس بُرے وقت کو انسانیت کے نام پر قبول کیا وہ بڑے دل گردے کا کام تھا۔‘‘
’’قطعی چھوٹے بھائی ورنہ ہم تو تباہ ہو چکے ہوتے۔‘‘ سرفراز نے گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’تمہارا چھوٹا بھائی کہاں ہے؟‘‘
’’خدا کے فضل سے محمود ملک سے باہر نکل گیا۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’تم نے بھی ایسا ہی کیوں نہ کیا۔ تم بھی چلے جاتے۔‘‘ ریحانہ بیگم نے کہا اور میں نے گردن جھکا لی۔ پھر آہستہ سے بولا۔
’’امی ہیں، ابو ہیں، شمسہ ہے۔ شاید کبھی مل جائیں۔‘‘ ریحانہ بیگم رو پڑیں، نادیہ اور فریحہ بھی رونے لگے۔ شاکر اور سرفراز خاموش تھے۔ میری آنکھوں سے بھی آنسو گرتے رہے پھر آگرہ آ گیا۔
بیرسٹر جلال غازی کی رہائش گاہ بڑی خوبصورت تھی اور وہ خود بھی بڑے کرو فر کے انسان تھے۔ گرجدار آواز، خان بہادر اسٹائل کی مونچھیں، مجھ سے ملے، وہی کہانی انہیں سنائی گئی تھی جو راستے میں طے کی گئی تھی۔
’’گھر سے کیوں بھاگے، ایں پڑھنے میں دل نہیں لگتا تھا۔‘‘ انہوں نے اتنی کڑک دار آواز میں پوچھا کہ میں گھبرا گیا۔
’’شروع سے پیری مریدی کے چکر میں پھنس گئے تھے صاحبزادے۔‘‘ سرفراز جلدی سے بولا۔
’’پیر بن گئے، ایں۔ بن گئے پیر، معرفت مل گئی ہوگی۔ گنڈے، تعویذ اور وہ پڑھے ہوئے پانی کی بوتلوں کا کاروبار شروع ہو گیا ہوگا۔ کس بھائو بیچتے ہو یہ سب کچھ! ایں…؟‘‘ بیرسٹر صاحب بہت ٹیڑھے تھے۔
’’ابھی کہاں جناب…؟ ابھی تو مبتدی ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’عزیزی دین کا مطالعہ کرو، الف بے کی شدبد سیکھو، دین میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ دین دُنیا ایک ساتھ گزارنے کی تلقین کی گئی ہے۔ سادھو بن کر جنگلوں میں پھرنا شیوۂ اسلام نہیں سمجھے۔ دُنیا کو نبھائو اور دیندار رہو یہ تعلیم ہے اسلام کی۔ جذب کی منزل تو بہت دُور کی بات ہوتی ہے۔ بہت دیر کی بات ہوتی ہے۔ یہ نشان کیسے پڑ گئے چہرے اور بدن پر ۔‘‘
’’جی وہ…!‘‘
’’قاسم… قاسم میاں۔ جائو حکیم جبار حسین کو بلا لائو۔ بچّے کو دکھانا ہے، غضب خدا کا تباہ کرلیا اپنے آپ کو۔ اُلٹے سیدھے چلّے کر کے تمام صحت خراب کرلی۔ اماں قاسم میاں، منہ دیکھ رہے ہو…‘‘
’’جی… جاتا ہوں۔‘‘ قاسم میاں ایک عمر رسیدہ ملازم تھے۔
’’یہ حکیم جبار حسین…‘‘ ریحانہ بیگم نے پوچھا۔
’’حکیم ہیں بھابی صاحبہ۔ کلائی میں ڈور باندھ کر بیٹھ جائیں پردے کے پیچھے، پانچ پشتوں کی بیماریاں بتا دیں گے۔‘‘ روایتیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایک روپیہ لیتے ہیں مرض تشخیص کرنے کا، اس کے بعد شفا ہونے تک کچھ نہیں لیتے۔ دوائیں بازار سے منگواتے ہیں۔ صبح کو بازار سے ایک کلو گیہوں خرید کر لاتے ہیں، اہلیہ چکی میں پیستی ہیں تب روٹی پکتی ہے۔ زر و جواہر کے انبار سامنے ڈال دو ہنس دیں گے اور بے نیازی سے چلے جائیں گے!‘‘
’’سبحان اللہ۔ یہ قیام کائنات کے امین ہیں۔‘‘ ریحانہ بیگم بولیں۔
سفید ڈاڑھی، دبُلے پتلے بدن والے حکیم جبار حسین نے مجھے دیکھا۔ نگاہیں جھکی ہوئی تھیں، ایک بار بھی نظر نہ اُٹھائی۔ کچھ دیر کے بعد بولے۔
’’گلاب کے تازہ پھول مل جائیں گے؟‘‘
’’کیوں نہیں۔ کتنے چاہئیں…؟‘‘ بیرسٹر صاحب بولے۔
’’بس ایک روزانہ درکار ہوگا۔‘‘ حکیم صاحب نے جواب دیا۔ قاسم میاں فوراً ہی پھول توڑ لائے تھے۔ حکیم صاحب نے پتیاں الگ کیں اور ان کے نیچے کا حصہ میرے منہ میں رکھ دیا۔ ’’ہر صبح ایک پھول کا یہ حصہ چبا لیا کیجئے رب العالمین شفاء عطا کرے گا۔‘‘
’’بس…؟‘‘ بیرسٹر صاحب بولے اور حکیم صاحب نے نظریں اُٹھا کر انہیں دیکھا۔
’’آپ اسے بس کہہ رہے ہیں۔ ذرا ایک پھول تخلیق فرما دیجئے۔‘‘
’’اوہ…!‘‘ بیرسٹر صاحب لرز گئے۔ میں بھی ہکا بکا رہ گیا تھا۔ حکیم صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور سلام کر کے باہر نکل گئے۔ سب اس جملے کے زیرِ سحر آ گئے تھے۔ کوئی ہے جو کسی ٹہنی پر گلاب کا ایک پھول اُگا دے۔ میں بھی اسی سوچ میں گم تھا۔ کافی دیر کے بعد بیرسٹر صاحب بولے۔ ’’سنا آپ لوگوں نے۔ ایسے ہی جملے تو خود سے بیگانہ کر دیتے ہیں مگر دُنیا ضروری ہے۔‘‘
’’حکیم صاحب ولی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
’’ان کے سامنے نہ کہہ دیں۔ بے لگام آدمی ہیں جو منہ میں آئے گا کہہ دیں گے۔ میرا بڑا لحاظ کرتے ہیں مگر یہ جملہ برداشت نہیں کریں گے، ہو چکی ہے ایک بار۔‘‘
بیرسٹر صاحب بے حد عظیم انسان تھے۔ مجھے اس گھر میں بڑی محبت دی گئی۔ سرفراز نے مجھے کئی لباس دیئے۔ نادیہ نے میرے لیے سوٹ کیس تیار کیا۔ سب بڑے پیار سے پیش آ رہے تھے۔ فریحہ کی آنکھوں میں محبت تھی اور میں زندگی کی یہ دُھوپ چھائوں دیکھ رہا تھا۔ میں نے کیا ہی کیا تھا ان لوگوں کے لیے، تقدیر کے پھیر میں تھا، مسلسل صعوبتوں سے بدحواس ہو رہا تھا ورنہ شاید بہک جاتا جو مل رہا تھا اسے حاصل کرلیتا، خواہ انجام کچھ بھی ہوتا۔ بدحواسی نیکی بن گئی تھی، کیا کچھ نہیں تھا۔ صبح کو دروازے پر دستک ہوئی تو جاگ گیا۔ باہر آیا تو بیرسٹر صاحب ہاتھ میں گلاب کا پھول لیے کھڑے تھے۔
’’صبح خیزی بہت سی بیماریوں کا علاج ہے اور بے تکلف میزبان بلائے جان۔ ہم نے سوچا علاج میں غفلت نہ ہو۔ چلو یہ دوا کھا لو اس کے بعد چاہو تو سو جائو۔ ورنہ ہمارے ساتھ چہل قدمی کرو…!‘‘ نہایت احترام سے پھول لیا حکیم صاحب کی ہدایت کے مطابق اس کا وہ حصہ کھایا جہاں سے پتیاں اُگتی ہیں اور بیرسٹر صاحب کے ساتھ چہل قدمی کرتا رہا۔ بہت سی باتیں ہوئیں، بڑی احتیاط برتنی پڑی۔ اتنے اچھے انسان سے مسلسل جھوٹ بولنا پڑ رہا تھا۔ مگر اس میں کسی کی عزت چھپی ہوئی تھی۔ پانچ دن خواب کے سے عالم میں گزر گئے۔ وہ سب کچھ ملا تھا جو قصۂ پارینہ بن گیا تھا۔ پیار، محبتیں، توجہ ہر ایک دلجوئی کرتا تھا۔ ان پانچوں دنوں میں صبح کا پھول بیرسٹر صاحب نے ہی پیش کیا تھا۔ پانچویں دن رختِ سفر بندھ گیا۔ جے پور جارہے تھے وہاں سے اجمیر شریف جانا تھا۔ بیرسٹر صاحب کے پورے خاندان نے اسٹیشن پر رُخصت کیا۔ یادوں کا، احسانات کا ایک بوجھ تھا، ایک انبار تھا کسی نے کمی نہیں کی تھی۔ سندر لعل نے بھی محبت دی تھی، چچا امام دین نے بھی اور پھر یہ لوگ۔
’’جے پور سے اجمیر شریف چلیں گے۔ دربار خواجہ میں حاضری دے کر دہلی کا سفر کیا جائے گا۔ سلطان دہلی خواجہ نظام الدین اولیاؒ، اور ان کے چہیتے امیر خسروؒ کے مزار پر حاضری دے کر گھر واپس چلیں گے۔ اس لیے بتا رہی ہوں کہ تم یہ نہ سوچو کہ تمہیں کچھ بتایا نہیں جاتا۔‘‘ ریحانہ بیگم نے کہا۔ میرے چہرے کے تاثرات میں تبدیلی ہوئی تو نادیہ بول پڑی۔
’’اب یہ کہیں گے کہ ان پر بڑے احسانات ہو رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں… میں یہ نہیں کہوں گا نادیہ صاحبہ…!‘‘ میرے الفاظ مجھے خود شرمسار کر دیتے ہیں۔
’’خدا کا شکر ہے۔ ویسے امی آپ ان کے یہ نشانات دیکھ رہی ہیں…؟‘‘ نادیہ بولی۔
’’ٹوکتے نہیں بیٹی۔ اللہ کا کرم ہے۔ ان تمام پاک بزرگوں کے مزارات پر فاتحہ خوانی کرنے کے بعد ان کے وسیلے سے اللہ سے دُعا مانگنا مسعود میاں کہ تمہاری مشکل ٹلے۔ اللہ تمہیں کالے جادو کے اَثر سے نکالے۔ تمہارے والدین بہن بھائی کو ہر آفت سے محفوظ رکھے اور تمہیں ان سے ملائے۔ ہم سب بھی تمہارے لیے یہ دُعا کریں گے!‘‘ ریحانہ بیگم نے کہا۔
’’آپ کو یہ علم ہے چچی جان…!‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’آپ نے کالے جادو کا تذکرہ کیا ہے…؟‘‘
’’اس سے تم یہ اندازہ لگا لو کہ ہم نے تمہیں کتنا یاد کیا ہے۔ خدا خوش رکھے امتیاز عالم شاہ کو انہوں نے تو تمہارے لیے بڑی جانفشانی کی ہے۔ اتنے بڑے افسر رہے ہیں،کہتے تھے زندگی میں کبھی ایسے واقعات سے سابقہ نہیں پڑا لیکن مسعود کے بارے میں جتنی تفتیش کی ہے اس نے دماغ ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نہ جانے کس کس سے ملے ہیں، اس سلسلے میں تصدیق کرتے پھرے ہیں کہ کالا جادو کیا ہوتا ہے، آخر میں تصحیح کرتے ہوئے کہا۔ ’’ارواح خبیثہ کا وجود ثابت ہے اور علوم خبیثہ کا وجود ملتا ہے۔ اس شخص کے بارے میں جتنی چھان بین کی اس سے یہی اندازہ ہوا کہ وہ ایک جال میں جکڑا گیا ہے اور جو کچھ اس سے منسوب ہے اس میں اس کا اپنا عمل شامل نہیں ہے۔ ایک بار قسمیں کھاتے ہوئے بولے کہ اگر تم ان کے ہاتھ آ جائو تو وہ تمہیں گرفتار نہیں کریں گے اور زندگی میں پہلی بار قانون سے انحراف کریں گے۔ انہوں نے بارہا خلوص دل سے تمہارے لیے دُعائیں کی ہیں۔‘‘
ایسی باتوں پر دل رونے کو چاہتا تھا مگر اب خود کو سنبھالنا سیکھ لیا تھا۔ خاموش ہوگیا۔
پتھروں کی زمین شروع ہوگئی، سنگلاخ پہاڑوں میں رانا سانگا سے لے کر چنبل کے ڈاکوئوں تک کی کہانیاں جھانک رہی تھیں۔ مان سنگھ، ہری چند ہاڑا، بھوپت اور پھولن دیوی، بھاگتے دوڑتے نظر آ رہے تھے۔ پھر جے پور آ گیا۔ راجائوں کے شہر کی شان ہی نرالی تھی۔ ان لوگوں نے جو اعتماد دیا تھا اس نے زندگی سے دلچسپی پیدا کر دی تھی۔ یہاں ایک دن قیام کیا پھر چھوٹی ریلوے لائن کے ذریعہ سفر کر کے دریائے فیض پہنچ گئے۔ خواجہ کا اجمیر صدیوں کی داستانیں سمیٹے نگاہوں کے سامنے تھا۔ تارا گڑھ کی بلندیاں اور اس کی پستیوں میں خواجہ کے عقیدت مند، ایک الگ ہی دُنیا آباد تھی۔ ہم بھی خواجہ کے گدائوں میں شامل ہوگئے اور فیض کے سمندر سے آب حیات پینے لگے۔
رات ہوگئی۔ سنگلاخ زمین پر خیمہ زنی کی گئی تھی۔ میرا خیمہ الگ تھا۔ قریب ہی دُوسرے خیمے بھی تھے۔ زمین پر لیٹے لیٹے دل میں ایک خیال آیا۔ حالات بہتری کی طرف رُخ کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے دل کو کوئی نیا دھکا نہیں لگا تھا بلکہ بھوریا چرن کا گندا علم شکست کھا رہا تھا، اس کا سلسلہ اسپتال سے شروع ہوا تھا۔ اسپتال سے… ہاں وہاں سے میں نے روشنی دیکھی تھی، بابا جلال شاہ کے مزار اقدس کی روشنی۔ مگر اس سے بھی پہلے ہاں اس سے بھی پہلے بزرگ سلیم بیگ نے مجھے نماز کی تلقین کی تھی اور میں نے نماز پڑھی تھی۔ آہ وہی وقت تو تھا جب میری تاریک آنکھوں نے روشنی دیکھی تھی۔ نماز نے میرے وجود کے اندھیروں کو نور بخشا تھا۔ یقیناً… یقینا، یہی نور میری زندگی کی بہاریں واپس لا رہا تھا۔ کوڑھ کے مرض سے نجات ملی تھی، اس اذیت ناک بھوک سے نجات ملی تھی اور پھر۔ اس وقت سے مسلسل بھوریا چرن ناکام ہو رہا تھا۔ اس کے بیر میرا راستہ نہ روک سکے تھے، امام دین کے ہاں وہ مجھے ناپاک دُودھ پلانے میں ناکام رہا تھا۔ پھر یہ لوگ ملے تھے اور اس کے بعد… اس کے بعد میری ان آنکھوں نے مزار خواجہ کا دیدار کیا تھا۔ کچھ سنوائی ہوئی ہے کیا…؟ کچھ سنوائی ہوئی ہے کیا…؟ دل کچھ اس طرح خوشی سے بے قابو ہوا کہ خیمے سے باہر نکل آیا۔ رات بکھری ہوئی تھی۔ بہت دُور مزار مقدس روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ قوالیوں کی تانیں اُبھر رہی تھیں اور کچھ فاصلے پر، کوئی شے متحرک تھی۔ غائوں غائوں کی ایک آواز سی اُبھر رہی تھی۔ فضا میں ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ میرے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی۔ سردی سی لگنے لگی… یہ کیا ہے…؟
دل میں نہ جانے کیا کیا خیالات آنے لگے۔ بھوریا چرن کے خوف سے خود کو آزاد نہیں کرسکا تھا مگر اس ناپاک سادھو کی کیا مجال کہ اس پاک جگہ قدم رکھے۔ یہ کچھ اور ہے مگر کیا؟ دل میں شدید تجسس جاگ اٹھا۔ وہ بدبو جو فضا میں پھیلی ہوئی تھی، اب سمجھ میں آنے لگی تھی۔ یہ سڑے گلے پھلوں کی بدبو تھی۔ دن میں اس جگہ پھل فروش ٹھیلے لگائے ہوئے تھے۔ گلے ہوئے پھل وہ یہیں پھینک گئے تھے، یہ بو انہی میں سے اٹھ رہی تھی اور وہ متحرک شے ممکن ہے کوئی چوپایہ ہو جو اس وقت یہ پھل کھا رہا ہو۔ اپنے ذہن میں یہ معمہ اس طرح حل کرلیا۔ ممکن تھا اس طرف سے لاپروا ہوجاتا لیکن ذہن تحقیق کا عادی ہوگیا تھا۔ سوچا قریب جاکر دیکھوں اور قدم آگے بڑھ گئے۔ میرے خیال کی تصدیق ہوگئی۔ بو پھلوں کے اسی ڈھیر سے آرہی تھی مگر وہاں کوئی چوپایہ نہیں تھا بلکہ وہ کوئی انسان تھا جو یہ گلے ہوئے پھل کھا رہا تھا۔ شاید کوئی بھوکا فقیر تھا۔ ممکن ہے خواجہ کے لنگر سے محروم رہ گیا ہو ، قریب جاکر اسے دیکھا۔ اس کے بدن پر چیتھڑے جھول رہے تھے، بال اور داڑھی مٹی سے اٹے ہوئے تھے۔ چہرہ عجیب سا تھا۔ بڑے انہماک سے پھل کھا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے پاس رکھی ہوئی چھڑی اٹھائی اور اسے بلند کرکے بولا۔
’’ہش ہش، بھاگ بھاگ‘‘ میں ٹھٹھک کر رک گیا۔ کوئی مجذوب تھا۔ خواجہؒ کے مقدس مزار کے احاطے میں، میں نے بے شمار قلندر، ملنگ اور مجذوب دیکھے تھے جو ہوحق کے نعرے لگاتے رہتے تھے، انہی میں سے کوئی تھا۔ دلچسپی پیدا ہوگئی۔ دل خوش تھا، دل لگی سوجھی۔ میں اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔
’’بھاگ بھاگ… گندگی کرے گا۔‘‘ مجذوب نے پھر لکڑی اٹھا کر کہا۔
’’میں بھی پھل کھانا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’چھونا مت ورنہ لکڑی سے ماروں گا۔‘‘
’’مجھے بھی کچھ پھل دے دو!‘‘ میں نے عاجزی سے کہا۔
’’منع کررہا ہوں، بھاگ جا۔ پھل کھائے گا گندا غلیظ کہیں کا! اتنا نہیں جانتا پہلے پھل چکھنا پڑتا ہے، پھر کھایا جاتا ہے۔ جا بھاگ ہش ہش!‘‘ وہ ایک سڑی ہوئی نارنگی اٹھا کر کھانے لگا۔
’’میں پھل چکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور وہ گردن جھکائے جھکائے ہنس پڑا۔ بار بار ہنستا رہا۔ پھر بے تحاشا ہنسنے لگا۔ پھر بولا۔
’’چکھ تو رہا ہے۔ جو کرتا رہا ہے، اس کا پھل چکھتا تو رہا ہے اور چکھے گا ابھی اور چکھے گا۔‘‘
’’میں دنگ رہ گیا۔ کیا رمز تھا اس کے جملے میں! دل میں عقیدت پیدا ہوگئی۔ میں نے عاجزی سے کہا۔
’’بہت پھل چکھ چکا ہوں، اب کھانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ایسے ہی کھانا چاہتا ہے۔ پہلے بیج بو، پودا لگا پھر اسے پروان چڑھا۔ جب وہ پھل دے تو پھل کھا۔ بھاگتا ہے یا ماروں پتھر؟‘‘ مجذوب غصے سے کھڑا ہوگیا۔ اس نے پاس پڑا پتھر اٹھا لیا تھا۔
’’مجھ پر رحم کردو۔ مجھے پھل دے دو۔‘‘ میں نے عاجزی سے کہا۔
’’مار رہا ہے۔ دیکھو! یہ مجھے مار رہا ہے۔ میں بھی ماروں گا پھر نہ کہنا۔‘‘ اس نے پیچھے رخ کرکے کہا۔ پھر جیسے کوئی آواز سن کر بولا۔ ’’بھگا دوں؟ بھگاتا ہوں۔‘‘ اس نے پتھر مجھ پر کھینچ مارا۔ نشانہ سر
تھا۔ میں بے اختیار جھگ گیا اور پتھر میرے اوپر سے نکل گیا۔
’’غیروں سے رحم مانگتا ہے۔ بھاگ یہاں سے بھاگ!‘‘ اس نے دوسرا پتھر اٹھا لیا اور یہ پتھر میری کمر میں لگا۔ اس کے بعد مجذوب نے مجھ پر پتھروں کی بارش کردی۔ بے شمار چوٹیں لگی تھیں، بھاگنا پڑا۔ وہ میرے پیچھے آرہا تھا اور پتھر اٹھا اٹھا کر مار رہا تھا۔ سر بچا ہوا تھا ورنہ اٹھنا مشکل ہوجاتا مگر اب بد حواسی طاری ہوگئی تھی۔ مجذوب میرے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ وہ منہ سے ایسی آوازیں نکالتا جارہا تھا جیسے کسی کتے کو بھگا رہا ہو۔ بہت دور نکل آیا۔ ساری روشنیاں پیچھے رہ گئیں۔ پھر ایک پتھریلی سی دیوار سامنے آگئی اور میں اس کے پیچھے پہنچ گیا۔ عجیب ناگہانی پڑی تھی۔ خیمے دور رہ گئے تھے اور مجذوب تھا کہ پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا۔ میں بری طرح تھک گیا تھا۔ اتنا فاصلہ طے کیا تھا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ یقین تھا کہ وہ اب ادھر بھی آجائے گا مگر وہ نہ آیا۔ دیر تک انتظار کرنے کے بعد میں نے اپنی جگہ چھوڑ دی۔ جھانک کر ٹیلے کے دوسری طرف دیکھا۔ وہ شاید واپس چلا گیا تھا۔ تاحد نگاہ کوئی نہیں تھا۔ سانس بحال ہونے لگی تھی۔ مزید کچھ دیر انتظار کیا اور اس کے بعد وہاں سے نکل آیا۔ پتا نہیں اس بھاگ دوڑ میں کتنا فاصلہ طے ہوگیا تھا۔ مجذوب کی باتیں دل کو عجیب طرح سے متاثر کررہی تھیں۔ ذرا سا غم کا احساس بھی تھا۔ وہ خوشی جو ایک تصور سے تھوڑی دیر پہلے ملی تھی، یعنی میں نے سوچا تھا کہ مصیبتوں کے لمحات ٹلنے لگے ہیں، کچھ بہتری ہورہی ہے میری زندگی میں اور اس بات نے ہی اتنی خوشی بخشی تھی کہ اپنے خیمے سے نکل کر باہر آگیا تھا۔ مجذوب کے الفاظ بڑی گہرائیوں کے حامل تھے۔ اس نے کہا تھا کہ پہلے پھل چکھا جاتا ہے اور اس کے بعد کھایا جاتا ہے اور اس کی تفصیل میری نگاہوں کے سامنے تھی۔ برائیوں کا پھل واقعی چکھا جاتا ہے اور نیکیاں جب پھل دیتی ہیں، تب وہ پھل کھایا جاتا ہے۔ کون سی نیکیاں کرلی تھیں میں نے بس برائیوں کے راستے پر نکلا تھا اور غلاظتوں میں ڈوبتا چلا گیا تھا۔
اب تو ہر چیز نگاہوں کے سامنے تھی، کوئی بات پوشیدہ نہیں رہی تھی۔ بھوریا چرن بھی اپنے ہی جال میں جکڑ گیا تھا۔ غالباً اس کے کالے جادو کا یہ بھی ایک حصہ تھا کہ اس وقت جو بھی کوئی اس کے سامنے آئے اور اپنی غرض کا اظہار کرے تو وہ اپنی بھی غرض کا تبادلہ کرے اور یہ بدنصیبی ہی میری تقدیر میں لکھی ہوئی تھی۔ نجانے اب اور کتنے پھل چکھنے پڑیں گے۔ مجذوب کا کہنا تو کچھ اس انداز کا تھا جیسے ابھی میں نے کوئی مصیبت بھگتی ہی نہ ہو۔ آہ! کیا میں مزید مشکلات کا شکار ہوسکتا ہوں۔ کیا میرے اندر اب اتنی سکت ہے کہ میں اپنے کیے کا پھل چکھوں، اگر میری تقدیر میں لکھا ہے تو پھل کھانے کو کب ملے گا۔ دل عجیب سی دکھن کا شکار تھا۔ بہرحال ان بیچاروں تک پہنچنا تو بے حد ضروری تھا جو مجھے اپنی محبت کے سہارے یہاں تک لے آئے تھے اور اس کے بعد مزید کہیں اور جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ دل سے ریحانہ بیگم کے لیے دعائیں نکلنے لگیں۔ بس ذرا سی بددلی پیدا ہوگئی تھی۔ لیکن میں یہ تکلیف بھی ہنسی خوشی برداشت کرلینا چاہتا تھا۔ کسی سے کہنا تو بے مقصد ہی ہوگا۔ کیا فائدہ کسی سے ان باتوں کا تذکرہ کرنے سے،آگے بڑھتا رہا۔ جس راستے سے دوڑتا ہوا اس سمت آیا تھا، اسی پر واپس جارہا تھا مگر نہ تو مزار اقدس کی روشنیاں نظر آرہی تھیں، نہ کوئی اور ہی روشنی تھی۔ بہت دیر تک چلتا رہا۔ پیر جواب دیتے جارہے تھے، جسمانی قوتیں ساتھ چھوڑتی جارہی تھیں لیکن وہاں پہنچنا ضروری تھا۔ نجانے کتنا وقت گزر گیا۔ پھر ایک جگہ رک کر میں نے ہراساں نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا۔ یہ کیا ہوگیا، کہاں نکل آیا ہوں میں، وہ سب کچھ نظر کیوں نہیں آرہا۔ کیا راستہ بھٹک گیا ہوں۔ ایسے کسی بلند ٹیلے کی تلاش میں نگاہیں دوڑائیں جہاں چڑھ کر دور دور کا جائزہ لے سکوں۔ ایسا ہی کیا۔ کافی فاصلے پر ایک پہاڑی ٹیلہ نظر آرہا تھا۔ اس کی جانب بڑھ گیا۔ اس پہاڑی ٹیلے پر چڑھنا بھی بڑا مشکل ثابت ہوا۔ ٹھوس پتھر کا پہاڑ تھا۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کہیں کہیں نظر آجاتے تھے۔ اگر کٹائو نہ ہوتے تو پائوں جمانا بھی مشکل ہوجاتا۔ خاصا بلند تھا، دور سے اتنا احساس نہیں ہوتا تھا۔ بالآخر کسی نہ کسی طرح بلندی پر پہنچ گیا۔ توازن سنبھالا اور دور دور تک دیکھنے لگا اور اس کے بعد نجانے کیوں دل ڈوبنے کا احساس ہوا۔ نگاہ کی حد تک اور آسمان کی بلندیوں تک کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ ہوتا ہے کہ کہیں اگر روشنیاں ہورہی ہوتی ہیں تو وہاں آسمان پر ایک سفیدی سی آجاتی ہے جو ان روشنیوں کا پتا دیتی ہے لیکن یہاں تو جدھر نظر اٹھتی، آسمان سیاہ ہی نظر آتا۔ آہ! کیا تقدیر پھر کالی ہوگئی ہے، خواجہؒ کے دربار میں آنے کے باوجود معافی نہیں ملی۔ پھل چکھنا ہے۔ اتنا فاصلہ تو طے نہیں کیا تھا۔ بے شک دوڑتا ہوا آیا تھا، پھر یہ سب کچھ نگاہوں سے کیوں اوجھل ہوگیا۔ کتنی دور بھگا دیا مجھے اس مجذوب نے خواجہ کے دربار سے…! ایک بار پھر دل میں گداز پیدا ہوا اور آنسو سسکیوں میں ڈھل گئے۔ پہاڑی ٹیلے کی بلندی پر بیٹھ کر ہی رونے لگا تھا۔ بہت رویا اور رونے سے دل درحقیقت ہلکا ہوگیا۔ پھر نیچے اترا آیا اور ٹھنڈی آہ بھر کر وہیں پہاڑی ٹیلے کے دامن میں بیٹھ گیا۔ دن کی روشنی میں پھر کوشش کروں گا۔ دن کی روشنی پھوٹنے میں بہت زیادہ دیر نہیں لگی۔ ساری رات ہی گزر گئی تھی۔ یہ بھی تقدیر کا لکھا تھا ورنہ خیمے سے باہر کیوں نکلتا۔ ایک لمحے کی خوشی تھی، دل ہی میں سمائے رکھتا لیکن ایک طرح سے اچھا بھی ہوا تھا۔ کم ازکم غلط فہمیوں سے نکل آیا تھا۔ ابھی میری زندگی کو قرار نہیں ہے، ابھی بے قراریوں میں بسر کرنی ہے۔ شاید مجھے زندگی کے آخری لمحے تک معافی نہ مل سکے۔ میری مشکل کا کوئی حل دریافت نہ ہوسکے۔ سورج نے پہاڑوں سے جھانکا اور اس کے بعد فضا میں اٹھتا چلا گیا۔ مجھے احساس تھا کہ اس لق و دق صحرا میں زندگی بھی مشکل ہوجائے گی۔ پانی نہ خوراک، ایک بار پھر مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دل تھا کہ سینے کا خول توڑ کر باہر آجانا چاہتا تھا۔ میں وہاں سے چل پڑا۔ مایوسی کے عالم میں چل پڑا۔ پھل چکھنا ہے مجھے، نجانے کون کون سے پھل چکھنے ہیں۔
سورج بلند ہوتا رہا۔ پتھریلے اور چٹانی راستے پر سفر کرنا بھی آسان نہیں تھا۔ بہت دور نکل آیا۔ تھوڑی سی بلندی پر تھا۔ نیچے کچھ گھاٹیاں اور گہرائیاں نظر آرہی تھیں۔ دفعتاً ہی ایک قطار پر نظر پڑی۔ غالباً کچھ لوگ گاڑیوں اور خاص قسم کے رتھوں پر سوار ہوکر جا رہے تھے۔ میں فاصلے کا اندازہ لگانے لگا۔ کوئی قافلہ تھا جو ادھر سے گزر رہا تھا۔ اگر میں اس تک پہنچ جائوں تو بہت سی مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔ پانی بھی مل جائے گا اور مزار شریف تک پہنچنے کا راستہ بھی دریافت ہوجائے گا۔ تیزی سے آگے بڑھنے لگا، پھر دوڑنے لگا اور یہ طویل فاصلہ ہزار دقتوں سے طے کیا۔ جو لوگ قافلے کے شریک سفر تھے، وہ چہروں سے عجیب و غریب لگتے تھے، غالباً یہ خانہ بدوشوں کا کوئی قبیلہ تھا جو نقل مکانی کرکے کہیں جارہا تھا۔ ان کے چہرے خشک اور خوفناک تھے۔ عورتیں اور مرد سبھی تھے۔ مجھے دیکھ لیا گیا۔ قافلہ رک گیا۔ میں ان کے قریب پہنچ گیا۔ جو شخص سب سے پہلے نظر آیا، وہ مجھے کڑی نگاہوں سے گھور رہا تھا۔ میں نے زبان باہر نکال دی اور اس شخص نے گردن ہلا کر پیچھے رخ کرکے کسی سے کچھ کہا۔ الفاظ میری سمجھ میں نہیں آسکے تھے۔ پھر ایک اور قوی ہیکل شخص گاڑی سے اتر کر میرے نزدیک پہنچ گیا اور اس نے کرخت لہجے میں پوچھا۔ ’’کون ہے یہ… کیا ہے؟‘‘
’’مسافر ہے سردار۔ پیاس سے مر رہا ہے۔‘‘
’’بٹھا لو گاڑی میں سفر کرنا ہے۔‘‘ سردار نے کہا۔ مجھے پانی بھی پیش کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی دو آدمیوں نے سہارا دے کر مجھے گاڑی میں بٹھا دیا۔ میں نے پانی پی کرگہری گہری سانسیں لیں۔ میرے ساتھ ہی دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ بیل گاڑیوں پر مشتمل یہ قافلہ آگے بڑھ گیا۔ بیلوں کے گلوں میں بندھی ہوئی گھنٹیاں بڑا شور پیدا کررہی تھیں۔ اور یہ شور کانوں کو لگ رہا تھا۔ کسی قدر حواس بحال کرکے قریب بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا۔
’’کہاں جارہے ہو بھائی؟‘‘ اس شخص نے مجھے گھور کر دیکھا۔ کوئی جواب نہیں دیا۔ عجیب سا وحشت ناک انداز تھا۔ میں خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔
اس رویّے کے بعد ہمت تو نہیں پڑ رہی تھی کہ کچھ اور پوچھوں مگر مجبوری تھی۔ پہلے سے زیادہ عاجزی سے پوچھا۔ ’’بس اتنا بتا دو بھائی کہ مزار شریف یہاں سے کتنی دور ہے اور کس طرف ہے؟‘‘
’’کونسا مزار؟‘‘ اس شخص نے کہا۔
’’خواجہ غریب نوازؒ کا مزار؟‘‘
’’وہ تو اجمیر میں ہے۔‘‘
’’اور یہ… یہ کونسی جگہ ہے؟‘‘
’’یہ تو پہاڑ ہیں۔ کوئی سو کوس دور بوندی ہے۔ کوٹہ بوندی!‘‘
’’اور اجمیر شریف…!‘‘
’’ارے وہ یہاں کہاں ہے رے! پاگل ہوگیا ہے کیا۔ سیکڑوں کوس ہے یہاں سے۔‘‘ اس نے کہا اور میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ بڑے صبر سے میں نے یہ الفاظ سنے تھے۔ پھل چکھنا تھا مجھے۔ خواہ مخواہ غلط فہمی کا شکار ہوگیا تھا، خواہ مخواہ۔ اس کے بعد اس سے کوئی بات نہیں کی اور آگے بڑھتا رہا۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے کہیں اتار دیں گے۔ اس کے لیے تیار تھا۔ سورج سر سے گزر گیا تھا۔ اندھیرے اتر آئے۔ دن بھر چلچلاتی دھوپ پڑتی رہی تھی، چٹانیں تپ کر سرخ ہوگئی تھیں۔ سورج چھپا تو کچھ امن ہوا۔ خانہ بدوشوں نے مناسب جگہ دیکھ کر ڈیرے ڈال دیے۔ چولہے جل گئے، دیگچیاں چڑھ گئیں۔ عورتیں کام کرنے لگیں، ننگ دھڑنگ بچے
کلیلیں کرنے لگے۔ رات ہوئی تو موٹی موٹی دو روٹیاں اور ایک پیالے میں دال مجھے دی گئی۔ خدا کا شکر ادا کرکے کھایا، پانی پیا اور صاف جگہ تلاش کرکے دراز ہوگیا۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک آدمی میرے پاس آگیا۔
’’سردار بلاتے ہیں۔‘‘ میں جلدی سے اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا۔ سردار وہی آدمی تھا جس نے مجھے پانی دینے کے لیے کہا تھا۔
’’کیا نام ہے تیرا؟‘‘
’’مسعود!‘‘
’’کہاں رہتا ہے؟‘‘
’’بہت دور رہتا تھا۔ زیارت کرنے آیا تھا، بھٹک کر ادھر نکل آیا۔‘‘
’’جھوٹ کیوں بول رہا ہے۔ جھوٹ تجھے مروا دے گا۔ تو ان لوگوں سے اجمیر کا پتا پوچھ رہا تھا۔‘‘
’’جھوٹ نہیں بول رہا سردار! میں خواجہ کے مزار پر تھا۔ راستہ بھول کر ادھر آنکلا۔ پھر بہت سفر کیا ہے میں نے!‘‘
’’اتنا لمبا سفر پیدل…! کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ خیر اب بول کہاں جائے گا؟‘‘
’’کوئی آبادی نظر آجائے سردار میں وہاں رک جائوں گا۔‘‘
’’کیا کریں اس کا؟‘‘
’’بوندی چھوڑ دینا سردار… یہاں چھوڑ دیا تو مر جائے گا سسرا۔‘‘ ایک اور شخص نے کہا۔
’’چار دن حرام کا کھائے گا، نہیں۔ بوندی لے چلیں گے تجھے مگر چھ جوڑیاں مالش کرنی پڑیں گی روز… تین وقت روٹی، پانی ملے گا۔‘‘
’’جو حکم سردار۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اٹھائی گیری کی تو دونوں ٹانگیں توڑ کر کسی گھاٹی میں پھینک دیں گے سمجھا۔‘‘ سردار آنکھیں نکال کر بولا۔
’’جا سوجا…!‘‘ وہ بولا اور میں گردن جھکا کر آگے بڑھ گیا۔ زمین پر لیٹ کر میں نے سوچا۔ اب کسی غلط فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہیے۔ اسی طرح گزرنی ہے، بس دل کو یہ دھچکے لگتے رہیں گے اور دل تڑپتا رہے گا۔ ان کیفیات کو برداشت کرنا ہے۔ بیج ڈالنے سے پودا اگتا ہے تاکہ وہ پھل دے اور پھل کھانے کا موقع ملے۔ یہ دل ان کیفیات سے بے نیاز کیوں نہیں ہوجاتا، اپنا تماشائی کیوں نہیں بن جاتا میں… آہ… یہ قوت کہاں سے پیدا کروں؟ سوتا جاگتا رہا اور ایک بھیانک چیخ سن کر پوری طرح جاگ گیا۔ نسوانی چیخ تھی اور کہیں قریب سے آئی تھی۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ کچھ بھگدڑ سی مچ گئی تھی۔ لوگ کسی کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ نسوانی چیخیں بہت بھیانک تھیں۔ ان میں وحشت پائی جاتی تھی۔ پھر بھاگنے والے کو پکڑ لیا گیا۔ میں خود بھی آگے بڑھ کر ان لوگوں میں شامل ہوگیا اور یہ منظر دیکھنے لگا۔ وہ ایک نوجوان لڑکی تھی۔ سیاہ لباس میں ملبوس، خانہ بدوش عورتوں سے بالکل مختلف…! نرم و نازک نقوش، دبلا پتلا بدن، چمکدارآنکھیں، خانہ بدوشوں نے اسے بری طرح دبوچ رکھا تھا…!
’’کیسے نکل گئی یہ؟‘‘ سردار نے دھاڑ کر پوچھا۔
’’دانتوں سے رسیاں کھول لیں سردار۔‘‘ کسی نے جواب دیا۔
’’حرام خور… حرام کھانا چھوڑ دو۔ رسی ایسے باندھی جاتی ہے؟‘‘
’’وہ رو رہی تھی اور سردار سے کہہ رہی تھی کلائیاں ٹوٹی جارہی ہیں۔ میں نے رسی تھوڑی ڈھیلی کردی تھی۔‘‘
’’جمنے۔‘‘ سردار نے کسی کو آواز دی۔
’’حکم…؟‘‘ ایک آدمی لپک کر بولا۔
’’گوری کی نگرانی کر! چار پانچ دن کی بات ہے۔ مال کھرا کرنا ہے اس کا۔‘‘
’’فکر مت کرو حکم، جمنے اسے آنکھوں میں قید رکھے گا۔‘‘
’’لے جا حرام خور کو۔‘‘ سردار بولا اور جمنے لڑکی کی کلائی پکڑ کر کھینچتا ہوا لے گیا۔ میں سکتے کے سے عالم میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ ایک معصوم لڑکی ان لوگوں کی قید میں ہے۔ نہ جانے کون ہے بیچاری… اوپر سے سردار کے الفاظ میرے دل میں ہلچل مچا رہے تھے۔ مال کھرا کرنا ہے اس کا، کیا یہ لوگ لڑکیوں کی خرید و فروخت بھی کرتے ہیں۔ میں نے ان میں سے ایک کے الفاظ سنے۔
’’ایک بات مجھے پریشان کررہی ہے سردار۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’لڑکی خوبصورت ضرور ہے مگر پاگل ہوگئی ہے۔ خریدار کو پتا چل گیا تو کیا ہوگا۔‘‘
’’ہاں! یہ بات مجھے بھی پریشان کررہی ہے۔‘‘
’’کچھ دن انتظار کرلو حکم آگے بن کیسری ہے۔ یہاں رک جائیں اور کچھ دن گزاریں۔ کچھ ٹھیک ہوجائے تو!‘‘ دفعتاً وہ چپ ہوگیا۔ اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی تھی۔ اس نے سردار کو اشارہ کیا اور سردار چونک کر مجھے دیکھنے لگا۔
’’تو یہاں کیا کررہا ہے۔‘‘ اس نے خونخوار لہجے میں کہا۔
’’مم… میں… میں!‘‘ میں گھبرا گیا۔
’’کیا کررہا ہے یہاں۔‘‘
’’ہنگامہ دیکھنے آگیا تھا سردار… کیا ہوگیا۔‘‘
’’صورت مٹا لے اپنی جہاں مر رہا تھا، وہاں مرتا ہے یا…‘‘
سردار نے اپنی کمر کا خنجر کھینچ لیا۔ میں خوف زدہ ہوکر وہاں سے ہٹا اور اپنی جگہ آلیٹا مگر رخ انہی کی جانب رکھا تھا۔ فوراً ہی احساس ہوگیا کہ میں ان کی نگاہوں میں مشکوک ہوچکا ہوں۔ وہ بار بار میری طرف دیکھ رہے تھے اور کچھ باتیں کرتے جارہے تھے۔ ’’جہنم میں جائیں جو سوچ رہے ہیں، سوچتے رہیں۔ میں کیا کروں۔ جو ان کا دل چاہے کریں میرے ساتھ۔ ہاں لڑکی کے معاملے کو میں نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔
پتا نہیں وہ پہلے سے پاگل تھی یا اپنے اوپر پڑنے والی افتاد سے دماغی توازن کھو بیٹھی تھی مگر میں اس کے لیے کیا کرسکتا ہوں۔ اول تو وہ پاگل ہے اور پھر ان کی سخت نگرانی میں۔ یہ لوگ بہت خونخوار معلوم ہوتے تھے۔ اگر لڑکی کے لیے کچھ کیا جائے تو بڑے خطرات مول لینا پڑیں گے۔ خوب سوچ سمجھ کر ہی قدم اٹھانا چاہیے۔ آدھی رات سے زیادہ جاگتا رہا پھر نیند آگئی۔ شاید ہی کچھ دیر سویا ہوں گا کہ کسی نے جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ میں نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں۔
’’اٹھ جا… بھور ہوگئی…‘‘ کسی نے کہا۔
’’کیا ہے…‘‘ میں نے جھنجھلاتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’ارے جوڑیاں نا ملے گا کیا… سردار نے کہا تھا تجھ سے۔ چل اٹھ راجکمار۔ نہیں تو لات پڑے گی کمر پر۔‘‘ میں اٹھ کھڑا ہوا اور پھر مجھے بیلوں کی مالش کرنی پڑی۔ بیلوں کی پنڈلیوں میں تیل لگا کر پوری قوت سے اسے جذب کرنا ہوتا تھا۔ بدن چور چور ہوگیا۔ سورج نکل آیا تھا۔ صبح کو چائے کی قسم کا ایک پیالہ سیال جو دودھ کے بغیر تھا اور کسی خاص گھاس کو ابال کر بنایا گیا تھا اور جوار کی ایک بسکٹ نما روٹی دی گئی جو خوب وزنی تھی۔ اطمینان سے کھائی اور جب سارے بیل جت گئے تو خود بھی اچک کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ قافلہ چل پڑا۔ خدا کا شکر تھا کہ آج آسمان نے تعاون کیا تھا اور کالے بادلوں نے سورج کو چھپا لیا تھا، اس لیے آگ نہ برسی بلکہ دوپہر کے بعد ابر رحمت کے چند چھینٹے آسمان سے زمین پر اتر آئے اور بنجاروں میں زندگی دوڑ گئی۔ عورتوں اور مردوں نے کوئی سمجھ میں نہ آنے والا گیت شروع کردیا اور طرح طرح کے سوانگ بھرنے لگے۔ یہ چند چھینٹے ہی ان کے لیے عنقا تھے کیونکہ ان علاقوں میں بارش نایاب چیز تھی مگر ان کا یہ گیت بھی بڑا بے تکا تھا اور اسی گیت کے دوران وہ پھر نکل بھاگی۔ ایک رتھ نما بیل گاڑی سے کودی تھی اور لڑکھڑاتی ہوئی سنگلاخ زمین پر دوڑ پڑی تھی۔ لینا، پکڑنا مچ گئی اور میں بے بسی سے اسے دیکھنے لگا۔ دن کی روشنی میں اس کا سراپا واضح ہوگیا تھا۔ نازک اندام، دراز قامت، جوانی کی دین سے مالا مال مگر ناقدری اور مصیبت کا شکار۔ کئی بار لڑکھڑائی مگر سنبھل گئی۔ بالآخر بنجاروں نے جالیا اور بری طرح دبوچ لیا مگر وہ سخت جدوجہد کررہی تھی۔ انہیں کاٹ رہی تھی، بھنبھوڑ رہی تھی۔ بمشکل تمام وہ اسے قابو میں کرکے گاڑی تک لائے۔ سردار شاید ذمہ داروں کو برا بھلا کہہ رہا تھا مگر کیا کہہ رہا تھا، یہ معلوم نہیں ہوسکا۔ لباس اور حلیے سے وہ کسی اچھے گھرانے کی معلوم ہوتی تھی۔ جس تراش خراش کا لباس پہن رکھا تھا، اس سے ماڈرن بھی لگتی تھی۔ میرا دل ایک بار پھر اس کے لیے دکھنے لگا۔ کیا کروں، کیا کرنا چاہیے مجھے!
رات ہوگئی، صبح ہوئی اور بیلوں کی خدمت گزاری کرنی پڑی لیکن یہ اندازہ آسانی سے لگا لیا تھا کہ اب مجھ پر بھرپور نظر رکھی جاتی ہے بلکہ رات کو دو آدمی خاص طور سے میرے پاس لیٹتے تھے تاکہ فرار نہ ہوسکوں۔ صبح کو میں نے اپنے ساتھ بیلوں پر کام کرنے والے ایک خانہ بدوش سے پوچھا۔
’’بوندی کب آئے گا؟‘‘
’’چکر بدل لیا ہے حکم نے‘‘
’’میں سمجھا نہیں…؟‘‘
’’آگے کسیری بن ہے، وہاں ڈیرہ پڑے گا پھر بوندی جائیں گے۔‘‘
’’وہاں ٹھہرو گے؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’کتنے دن؟‘‘
’’ہمیں کیا معلوم… سردار جانے…‘‘ وہ میرے پے درپے سوالات سے تنگ آکر بولا۔ پھر کہنے لگا۔ ’’بوندی ابھی دور ہے۔ اکیلے مت بھاگ جانا، راستے میں مر جائے گا۔ پانی ملے گا نہ کھانا اور سردار بگڑ گیا تو ویسے ہی مر جائے گا۔‘‘ وہ آگے بڑھ گیا۔ میں نے صبر و سکون سے یہ سب کچھ سنا تھا۔ میرے کون سے اپنے میرا انتظار کررہے تھے۔ اچھا ہے کچھ وقت ان کے ساتھ گزر جائے۔ ہوسکتا ہے لڑکی کی مدد کرنے کا کوئی موقع نکل آئے۔ اس رات ہم بن کسیری پہنچ گئے۔ آبشار تھا جو کسی پہاڑ کے درمیان سے نکل پڑا تھا۔ بلندیوں پر شاید اس کی روانی تیز ہو کیونکہ دور تک بکھرے ہوئے پہاڑی سلسلے سے آیا تھا۔ لیکن زمین پر وہ ایک پہاڑی کے درمیان سے نکلا تھا تاہم پانی نے اپنا کام کر دکھایا تھا۔ درخت بھی تھے، گھاس بھی۔ خانہ بدوش پانی دیکھ کر دیوانے ہوگئے۔ خود سردار بھی پانی میں جا گھسا تھا۔ عورتیں کپڑے دھونے بیٹھ گئیں۔ اندھیرے میں ہی یہ سب کچھ ہورہا تھا۔ جس جگہ پر لوگ رکے تھے، وہ میدان نما تھی اور یہ میدان بہت وسیع تھا۔ یہاں سے فرار بھی ممکن نہیں تھا۔ انسان کتنی دور جاتا، تھوڑی دور سے ہی اسے دیکھا جاسکتا تھا۔ یہاں بھی ان لوگوں نے مجھے نگاہوں میں رکھا تھا۔
رات کا کھانا کھایا تھا اور طبیعت پر کسل طاری تھی کہ سردار کچھ لوگوں کے ساتھ قریب آگیا۔ کچھ خوشگوار موڈ میں تھا۔ میں نے اٹھ کر اسے تعظیم دی تو وہ خوش ہوگیا۔ ’’پانی سے ڈر لگتا ہے تجھے؟‘‘
’’نہیں سردار…!‘‘
’’نہایا نہیں تو؟‘‘
’’سردار کا نمک کھا رہا ہوں۔ اجازت کے بغیر کوئی کام کیسے کرسکتا ہوں۔‘‘ میں نے عاجزی سے کہا۔
’’غلام کس نے کہا تجھے؟‘‘
’’جس پانی میں سردار تھے، میں اسے کیسے چھو سکتا تھا۔‘‘
’’یہ تو اچھا آدمی لگتا ہے۔ جا نہا لے اور پھر ہمارے پاس آ تجھ سے باتیں کریں گے یا پھر صبح نہا لینا۔ یہاں تو ہمارا ڈیرہ پڑے گا!‘‘
’’جو حکم سردار…!‘‘ میں نے کہا اور سردار میرے پاس بیٹھ گیا۔ دوسرے آدمی بھی بیٹھ گئے تھے۔
’’تو ہے کون… کہاں رہتا ہے؟‘‘
’’زیارت کے لیے آیا تھا سردار… راستہ بھٹک کر ادھر آگیا۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’یہی بات تو سمجھ میں
نہیں آتی۔ اتنا لمبا فاصلہ کیسے طے کیا تو نے۔ خیر تو جانے تیرا کام۔ ایک بات بتا۔‘‘
’’جی سردار…!‘‘
’’پرسوں رات جب لڑکی بھاگی تھی تو ہمارے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ تو نے ہماری باتیں سنی تھیں۔ کیا سمجھا تھا تو ان سے؟‘‘ میں نے سوچنے میں ایک لمحہ ضائع نہ کیا۔ اچھا موقع ملا تھا سردار کا اعتماد حاصل کرنے کا اور میں جانتا تھا کہ مجھے کیا کہنا ہے… چنانچہ میں نے فوراً کہا۔
’’مجھے علم ہوگیا تھا کہ سردار اسے بیچنا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ الفاظ میں نے اتنی سادگی سے کہے تھے کہ سردار کو حیرانی ہوئی۔ اس نے معنی خیز نظروں سے اپنے ساتھ بیٹھے لوگوں کو دیکھا۔ پھر مجھ سے بولا۔
’’تجھے حیرت نہیں ہوئی اس بات پر؟‘‘
’’سردار! میں دوسروں کے کام میں دخل نہیں دیتا۔ یہ میری عادت ہے۔ میں مشکل میں تھا، راستہ بھٹک کر پہاڑوں میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ نہ کھانے کو تھا نہ پینے کو، تم نے مجھ پر احسان کیا اور مجھے نئی زندگی مل گئی۔ تمہاری وجہ سے میں زندہ رہ کر آبادی تک پہنچ جائوں گا اور پھر وہاں سے اپنے گھر چلا جائوں گا۔ میں تو تمہارا احسان مانتا ہوں۔ ادھر ادھر کی باتوں میں کیوں پڑوں گا!‘‘
’’تو اچھا آدمی ہے۔ یہ ہمارا دھندہ ہے۔ ہم یہی سب کچھ کرتے ہیں اور اگر کوئی ہمارے راستے میں مشکل بنتا ہے تو پھر اس کا جینا مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘
’’مجھے بوندی پہنچا دو سردار۔ میں تمہارا ہمیشہ احسان مند رہوں گا، باقی مجھے کسی چیز سے غرض نہیں ہے۔‘‘
’’تجھے ایک اور کام کرنا ہے ہمارا؟‘‘
’’جو حکم سردار دیں۔‘‘
’’آج سے تو جوڑی مالش نہیں کرے گا بلکہ اس چھوکری کا خیال رکھے گا۔ تو بنجارہ نہیں ہے اس لیے وہ تجھ سے نہیں ڈرے گی۔ خوف اور گرمی سے وہ پاگل ہوگئی ہے، کچھ دن پہلے ٹھیک تھی۔ تو اسے تسلی دے۔ اس سے کہہ دے کہ تو اسے اس کے گھر پہنچا دے گا۔ اس کا خوف دور کر ہوسکتا ہے، تیری وجہ سے وہ ٹھیک ہوجائے۔ یہ ضروری کام ہے ورنہ ہم اس کے دام کھرے نہ کرسکیں گے۔‘‘
’’میں کوشش کروں گا سردار۔‘‘ میں نے کہا۔
’’نیت مت خراب کرنا اس پر۔ تو اچھا آدمی ہے اس لیے کہہ رہا ہوں۔ کوئی گڑبڑ کی تو ہم تجھے خاموشی سے مار دیں گے، کسی کو پتا بھی نہ چلے گا۔ کچھ دن لگ جائیں گے بوندی جانے میں مگر صرف اس لڑکی کی وجہ سے تو جتنی جلدی اس کو سنبھال لے گا، اتنی جلدی بوندی پہنچ جائے گا۔ کیا سمجھا؟‘‘
’’پورا قبیلہ ہے تمہارا سردار اور میں تنہا ہوں۔ تمہارا احسان مند ہوں۔ تمہارے حکم سے سر بھی نہیں ہلاسکتا۔ مجھے صرف حکم دو کہ مجھے یہ کام کرنا ہے، مارنے کی بات مت کرو۔‘‘
’’ہاں ہاں ٹھیک ہے۔ میں نے تو صرف تجھے بتایا ہے۔‘‘
’’مگر وہ پاگل ہے سردار۔ کیا تسلیاں دینے سے ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘
’’ڈری ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے خوف سے پاگل ہوگئی ہو۔ زیادہ چالاک لگتی تو نہیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاگل بن رہی ہو۔ یہ بھید تو کھل سکتا ہے خاص طور سے تیرا خیال اسی لیے دل میں آیا ہے۔ تو جو چاہے اس سے کہہ سکتا ہے۔ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ تو اسے یہاں سے بھگا لے جائے گا۔ سارے کھیل کھیلے جاسکتے ہیں۔ بس اصلیت پتا چل جائے۔ ہوسکتا ہے وہ پاگل نہ ہو۔‘‘
’’یہ کام تم مجھ پر چھوڑ دو سردار!‘‘
چھوڑ دیا۔ اب چلتا ہوں ارے او جمنے اس کا ڈیرہ لڑکی کے پاس لگا دے۔‘‘ سردار نے کہا اور قوی ہیکل جمنے نے گردن ہلا دی۔ لڑکی کو ایک رتھ میں رکھا گیا تھا۔ مجھے اس رتھ کے پاس سونے کی اجازت دے دی گئی اور پھر سارے خانہ بدوش آرام کرنے لگے۔ میں دم سادھے پڑا تھا۔ اب ایک نیا کھیل شروع ہوگیا۔ لڑکی کے لیے میرے دل میں صرف ہمدردی کے جذبات تھے۔ سردار سے میں نے جو باتیں کی تھیں، ان میں منافقت تھی۔ میرے دل میں کچھ اور تھا اور مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ مجھے اس کا موقع مل گیا ہے۔ نہ جانے بیچاری کون ہے، نہ جانے ان لوگوں کے چنگل میں کیسے پھنس گئی۔ اگر ان لوگوں نے اسے فروخت کردیا تو کیا بنے گا اس کا۔ ظاہر ہے انسانوں کو خریدنے والے انسان نہ ہوں گے۔ جان کی بازی لگا دوں گا اس کے لیے۔ جان پر کھیل کر اس کی مدد کروں گا۔ اگر اسی طرح جان جاتی ہے تو جائے۔ نیند آگئی۔ صبح کو چھوٹے سے تالاب میں نہایا اور نئی زندگی پائی۔ پھر وہی ڈرامہ ہوا۔ لڑکی کسی طرح نکل بھاگی تھی۔ اسے کچھ فاصلے پر دبوچ لیا گیا۔ اسی وقت میں اسے دبوچنے والوں کے سامنے پہنچ گیا اور میں نے گرج کر کہا۔
’’چھوڑ دو اسے، چھوڑ دو ورنہ۔‘‘ میں نے نزدیک پڑی ہوئی لوہے کی ایک سلاخ اٹھا لی۔ سب چونک پڑے۔ انہوں نے لڑکی کو چھوڑ دیا اور پھر ان میں سے دو نے خنجر نکال لیے، ایک نے کلہاڑا۔ انہوں نے مجھے گھیر لیا اور میں سلاخ سنبھال کر سیدھا ہوگیا۔ اسی وقت جمنے دوڑتا ہوا آگیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا۔ مجھے دیکھا اور میں نے اسے آنکھ مار دی۔ جمنے سمجھ گیا تھا۔ اس نے کڑک کر کہا۔ ’’کیا ہورہا ہے یہ؟‘‘
’’یہ سورما ہم سے لڑکی کو چھڑا رہا ہے جمنے۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔
’’اور تم خون خرابہ کرنے پر اتر آئے ہو۔ بے وقوفو، یہ اور لڑکی جائیں گے کہاں۔ کتنی دور جائیں گے۔ ایک کوس بھی نکل گئے تو پتا چل جائے گا۔ ہاتھ جوڑے واپس آجائیں گے۔ جانے دو… جانے دو…!‘‘
’’سردار کو جواب تو دے گا جمنے۔‘‘
’’مجھ سے زبان مت لڑائو۔ چلو جائو اپنا کام کرو۔‘‘ جمنے نے آنکھیں بدل کر کہا اور وہ ہمیں گھورتے ہوئے وہاں سے ہٹ گئے۔ لڑکی پھر اچھل کر بھاگی تھی اور میں اس کے ساتھ دوڑ پڑا تھا۔ جمنے کا کہنا بھی بالکل ٹھیک تھا حالانکہ یہ اس نے منصوبے کے تحت کیا تھا۔ ہم دونوں کافی دور نکل آئے اور وہ لڑکھڑانے لگی پھر ٹھوکر کھا کر گرنے لگی تو میں نے اسے سنبھال لیا۔
’’چھوڑ دو۔ پیچھے ہٹ جائو، مر جائوں گی مگر…‘‘ وہ حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخنے لگی۔ اس کے شروع کے الفاظ اس کی ذہنی صحت کا پتا دیتے تھے۔ بعد میں اسے شاید اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا اور اس نے چیخنا شروع کردیا تھا۔
’’اگر تم پاگل نہیں ہو تو مجھ پر غور کرو۔ میں خانہ بدوش نہیں بلکہ ان کا قیدی ہوں۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے اور جان دے کر بھی تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ ایسے زمین پر لیٹ جائو جیسے بے ہوش ہوگئی ہو۔ وہ دور ہیں لیکن ہم دونوں کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم واقعی اس طرح یہاں سے فرار نہیں ہوسکتے، وہ دوڑ کر ہمیں پکڑ لیں گے۔ اعتبار کرسکتی ہو مجھ پر۔‘‘ اس نے مجھے دیکھا اور دیکھنے کے اس انداز میں ہوش مندی تھی۔
’’میرے ہاتھوں سے نکل جائو، کچھ دور اور دوڑو اور پھر زمین پر لیٹ جائو۔ میں تمہیں اس طرح دیکھوں گا جیسے تمہاری بے ہوشی سے پریشان ہوں۔ وہ لوگ ہمارے پاس آئیں گے، ہم اس دوران باتیں کریں گے۔‘‘
اس نے ایک دھاڑ ماری اور پھر میرے ہاتھ سے نکل کر دوڑنے لگی۔ کافی فاصلے پر جاکر وہ زمین پر گری اور بے سدھ ہوگئی۔ نیچے لیٹ کر اس نے ہانپتے ہوئے کہا۔
’’بھگوان کے نام پر اگر تمہاری ماں اور بہن ہے تو اس کی لاج کے نام پر مجھے بچا لو۔ میری مدد کرو۔ مجھ سے دھوکا نہ کرنا۔ دولت مانگو گے تو اتنی دلوا دوں گی کہ جیون بھر دولت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جو کہہ رہی ہوں، وہ پورا کروں گی۔ مجھے بچا لو، مجھے ان بھیڑیوں سے بچا لو۔‘‘
’’لڑکی میں مسلمان ہوں۔ میرے پاس سب سے قیمتی چیز میرا ایمان ہے۔ اپنے ایمان کی قسم تم سے دھوکا نہیں کروں گا۔ اگر ایسی کوئی بات محسوس کرو تو اسے میری چال سمجھنا۔ ان لوگوں کو شبہ ہے کہ تم پاگل نہیں ہو۔ میں بھی ایک طرح سے ان کا قیدی ہوں اور سردار نے میری ڈیوٹی لگائی ہے کہ میں تمہارے بارے میں معلوم کروں۔ میں نے مصلحتاً ان سے وعدہ کرلیا ہے کہ مجھے تمہارے قریب رہنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ہم دونوں کو ڈرامہ کرنا پڑے گا۔ مجھ پر، میری ان سے کہی ہوئی باتوں پر شک نہ کرنا، انہیں مصلحت سمجھنا۔ وہ لوگ ادھر چل پڑے ہیں، کچھ دیر کے بعد یہاں پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’آرہے ہیں وہ…؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’کتنے فاصلے پر ہیں؟‘‘
’’دور ہیں ابھی۔‘‘
’’ہم نکل نہیں سکتے؟‘‘
’’ناممکن ہے۔ راستے سنگلاخ اور پرخطر ہیں۔ پیدل سفر ممکن نہیں ہوگا۔ موقع ملتے ہی کچھ کریں گے۔‘‘ وہ آسمان دیکھتی رہی پھر بولی۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’مسعود۔‘‘
’’میرا نام کوشلیا ہے۔ ماتا، پتا کوشل کہتے ہیں۔‘‘ وہ رکی، ایک سسکی سی لی پھر بولی۔ ’’کوشل کہتے تھے۔‘‘
’’بس اب خاموش ہوکر آنکھیں بند کرلو۔ میں تمہیں کندھے پر ڈال کر آگے بڑھتا ہوں۔‘‘ اس نے میری ہدایت پر عمل کیا۔ بڑے نرم و نازک اور ہلکے پھلکے بدن کی مالک تھی۔ میں نے اسے آسانی سے اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور خانہ بدوشوں کی طرف چلنے لگا۔ ابھی ان کا فاصلہ کافی تھا۔ لڑکی نے میرے کندھے پر جھولتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں مشکل ہورہی ہوگی۔‘‘
’’نہیں! تم بہت ہلکی ہو۔‘‘
’’تم ان کے قیدی کیسے بن گئے؟‘‘
’’تمہاری وجہ سے…‘‘
’’میری وجہ سے…؟‘‘
’’ہاں۔ میں بھٹکتا ہوا ان کی طرف آنکلا تھا۔ وہ بوندی نامی کسی بستی جارہے ہیں۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ مجھے بوندی چھوڑ دیں گے لیکن میں نے تمہارے بارے میں ان کی باتیں سن لیں اور وہ میری طرف سے مشکوک ہوگئے۔‘‘
’’میرے بارے میں؟‘‘ لڑکی نے کہنا چاہا مگر میں نے آواز دبا کر اسے خاموش کردیا اور بتایا کہ وہ قریب آگئے ہیں۔ جمنے آگے آگے تھا۔
’’بے ہوش ہوگئی۔‘‘ جمنے نے پوچھا۔
’’ہاں چھوٹے سردار۔‘‘ میں نے خوشامدی لہجے میں کہا۔
’’چھوٹے سردار۔‘‘ جمنے کے ساتھ آئے ہوئے ایک آدمی نے کہا اور ہنس پڑا۔ ایک اور شخص بھی مسکرایا تھا۔ وہ شاید جمنے کا مذاق اڑا رہے تھے۔
’’دانت کیوں نکال رہا ہے۔ موت آئی ہے۔ چلو اسے سنبھالو اور لے چلو۔‘‘ جمنے نے خونخوار لہجے میں کہا اور وہ دونوں جو ہنسے تھے، منہ بنائے ہوئے آگے بڑھ آئے۔ دونوں نے لڑکی کو سنبھال لیا اور واپس چل پڑے۔ جمنے میرے ساتھ چل پڑا۔
’’کچھ اندازہ ہوا بابو؟‘‘ اس نے کہا۔
’’ابھی نہیں چھوٹے سردار۔‘‘
’’ہاں ہم دیکھ رہے تھے۔ بھاگ دوڑ ہی رہی۔‘‘
’’میں نے اس پر اثر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ دوچار بار ملوں گا تو مانوس ہوجائے گی۔‘‘
’’جتنی جلدی کام ہوجائے اچھا ہے۔ تمہیں بھی آزادی مل جائے گی۔‘‘
’’میں پوری کوشش کروں گا چھوٹے سردار۔‘‘
’’او نئیں بابا۔ میں چھوٹا سردار نہیں ہوں۔ اب یہ مت کہنا مجھے یہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں۔ پٹیں گے کتے میرے ہاتھوں سے۔‘‘ ہم واپس چلتے رہے۔ کچھ دور چل کر وہ دونوں رک گئے اور جمنے کو گھورتے ہوئے بولے۔
’’دوسرے بھی ہیں، فاصلہ بہت ہے، اب ان سے اٹھوائو۔‘‘
’’ارے واہ سورمائوں دھڑی بھر کی چھوکری کو اٹھاتے ہوئے کمر ٹوٹ رہی ہے۔ دانت خوب نکالتے ہو، چلتے رہو۔‘‘ بالآخر کچھ دیر کے بعد سب واپس قیام گاہ پہنچ گئے۔ سردار تشویش بھری نظروں سے بے ہوش لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے کہا۔
’’یہ بار بار بھاگ کیسے نکلتی ہے آخر۔ کس کر ڈال دو سسری کو۔ چوٹ پھینٹ لگ گئی تو اور بری ہوگی۔‘‘
’’میں کچھ کہنا چاہتا ہوں سردار۔‘‘ میں نے کہا اور وہ چونک کر مجھے دیکھنے لگا۔ ’’آپ نے میری ڈیوٹی لگا دی ہے۔ میں جان سے زیادہ اس کی حفاظت کروں گا۔ اسے باندھیں نہیں۔ میں اس کے قریب رہوں گا۔ اس تبدیلی پر وہ چونکے گی اور مجھے اپنا کام کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔‘‘
’’سردار۔ یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔‘‘ جمنے نے کہا۔