’’یہ موجودہ معاشرے کے غلط اُصولوں کا شکار ہے جیسا کہ میں تھا، میں تم سے پھر کہہ رہا ہوں ان گہرائیوں میں نہ اُترو تمہیں اور اسے دونوں کو نقصان ہو جائے گا اور ہماری ان باتوں سے اور بہت سوں کا نقصان ہوگا۔ کالا جادو سیکھنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لو جیسے گھورے یا گندے کیچڑ میں پڑی سونے کی اشرفیاں، ہاتھ گندے ہوتے ہیں مگر اشرفیاں ہاتھ آ جاتی ہیں۔ ایمان کھونا پڑتا ہے مگر سونا مل جاتا ہے اور جو وقت گزر رہا ہے وہ تیرے سامنے بھی ہے نیاز اور میرے سامنے بھی، ایمان تو بہت سے کھو چکے ہیں بس وہ کالا جادو نہیں جانتے۔ رشوت، چور بازاری، ڈکیتی اور نہ جانے کیا کیا۔ یہ سب ایمان کے سہارے تو نہیں ہوتا۔ ان سارے دھندوں میں ایمان تو سلامت نہیں رہتا۔ بس اتنا سا فرق ہے کہ وہ سب کالے جادو کے سہارے نہیں کرتے، ان کا اپنا جادو دُوسرا ہے مگر انہیں کالے جادو کے بارے میں بتا دیا جائے تو وہ ضرور اسے سیکھ لیں گے تاکہ ان کا کام اور آسان ہو جائے مگر میں تمہیں بھیروں کے بارے میں ضرور بتائے دیتا ہوں۔‘‘
’’چلو وہی بتائو۔‘‘
’’سارے کے سارے پلید ہوتے ہیں۔ پہلے کچھ کام کرنے ہوتے ہیں، اس کے بعد پہلا جاپ کرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’وہ کس لیے؟‘‘
’’پہلے جاپ کے مکمل ہونے کے بعد ’’ہیر‘‘ قبضے میں آتا ہے۔ ہیر ’’اشیش‘‘ ہوتا ہے من کھونے والا اور وہ من کے اندر بس جاتا ہے مگر اس کا وجود باہر بھی ہوتا ہے اور تم اسے خبریں لانے کے کام میں لا سکتے ہو۔ دُوسرے جاپ سے ’’ویر‘‘ ملتا ہے تمہارا دُوسرا غلام، جب ہیر اور ویر تمہارے قبضے میں آ جاتے ہیں تو ’’بیر‘‘ کی باری آتی ہے۔ بیر بہت سے ہوتے ہیں، بارہ بیر بس میں کرنے کے بعد بھیروں جاگتا ہے۔ بھیروں ایک ہوتا ہے مگر سب کا میت، سب کے کام آنے والا۔ اسے بس میں کرنے والا شنکھا کہلاتا ہے اور شنکھا کے پاس بڑی طاقتیں ہوتی ہیں۔‘‘
نیازاللہ صاحب بڑی دلچسپی سے یہ باتیں سن رہے تھے۔ مجھے بھی یہ سب کچھ بہت عجیب لگ رہا تھا۔ نیازاللہ نے کہا ’’تمہارا کون سا درجہ ہے۔‘‘ رامانندی مسکرا دیا۔
’’بتانا منع ہوتا ہے۔‘‘
’’اوہ! اچھا تب میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا مگر ایک بات ضرور بتائو۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’یہ بھوریا چرن، پیر پھاگن کے مزار پر جا کر کیا کرنا چاہتا تھا؟‘‘ نیازاللہ صاحب نے ایک نہایت اہم سوال کیا اور راما نندی سوچ میں ڈوب گیا پھر آہستہ سے بولا۔ ’’وہ کھنڈولا بننا چاہتا ہے۔‘‘
’’کھنڈولا؟‘‘
’’چھٹی منزل کا شہنشاہ اور اس کے لیے کسی صاحب ایمان کے گھر کو گندا کرنا ہوتا ہے مگر کوئی شنکھا اپنے پیروں سے چل کر کسی پاک بزرگ کے مزار پر جانے کی قوت نہیں رکھتا۔ ایسی کوشش کرے تو جل کر راکھ ہو جائے۔ ہاں کسی دُوسرے صاحب ایمان کا سہارا لے کر وہ ایسا کام کر سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ شنکھا ایسا ہی چاہتا ہوگا!‘‘
دماغ کھل گیا تھا، ساری کہانی ایک دَم سمجھ میں آ گئی تھی۔ بھوریا چرن کے الفاظ بھی یہی تھے، اس نے کہا تھا کہ تو میرا کام کر دے، میں تیرا کام کر دوں گا، وہ کچھ بنا دوں گا تجھے کہ تو سوچ بھی نہیں سکتا، اس کا مطلب ہے کہ بھوریا چرن میرے ذریعے پیر پھاگن کے پاک مزار کو ناپاک کرنا چاہتا تھا اور جب میں پہلی بار اس کا پتلا لے کر اس پاک مزار کی سیڑھیاں طے کر رہا تھا تو میرا راستہ روکا گیا تھا، فاصلے طویل کر دیے گئے تھے تاکہ یہ گناہ مجھ سے سرزد نہ ہو سکے۔ آہ یہ تو بہت ہی اچھا ہوا، بہت ہی اچھا، اگر مجھ پر یہ مصیبتیں اس لیے نازل ہوئی ہیں کہ میں ایک مقدس بزرگ کے پاک مزار کو ناپاک بنانے کا مرتکب نہ ہو سکا تو ایسی لاکھوں مصیبتیں میں بھگتنے کے لیے تیار تھا لیکن یہ غلیظ کام میں قیامت تک نہیں کروں گا۔ میرے دل میں اب یہ عزم نئے سرے سے تازہ ہو گیا تھا اور رُوح کو بڑی فرحت کا احساس ہو رہا تھا۔
نیازاللہ صاحب گردن جھٹک کرگہری گہری سانسیں لینے لگے پھر بولے۔ ’’عجیب کہانی ہے بھئی ہمارے مذہب میں تو یہ سب کچھ نہیں ہے، سیدھے سادے عبادت کرو اور خدا کی خوشنودی حاصل کرو۔ نہ اس میں غلاظت کا کوئی کھیل ہے نہ دل کو گندا کرنے کا، ہمارے ہاں لاتعداد علوم ہیں لیکن سارے کے سارے انسانی بہتری کے لیے، خدا کے کلام سے کسی کو نقصان پہنچانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور خدا کے کلام میں وہ تمام قوتیں پوشیدہ ہیں جو ہزاروں جادوئوں میں نہیں۔ اب تم خود دیکھ لو رامانندی کہ تم اپنی گندی قوتیں حاصل کرنے کے لیے بھی ایک مزار پاک کو گندہ کیے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے، کیا انوکھی بات ہے۔‘‘
راما نندی نے آنکھیں بند کرلیں۔ ایک اور بات کا مجھے بڑے تاثر انگیز انداز میں احساس ہوا تھا، وہ یہ کہ راما نندی بے انتہا مخلص انسان تھا حالانکہ وہ کالے جادو کا ماہر تھا اور جو تھوڑا سا تماشا میں نے یہاں دیکھا تھا اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا تھا کہ مکمل طور پر دُنیا دار ہے اور لوگوں کو بیوقوف بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی وہ ایک غیر مذہب سے اتنا مخلص تھا کہ اس کے لیے اس نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا، اندر کی باتیں بتائی تھیں جو کوئی اور کسی کو نہیں بتا سکتا تھا۔ رامانندی نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
’’تو پھر نیازاللہ اب یہ بتائو کہ میں کیا کروں…؟‘‘
’’بھئی میں تو کچھ بھی نہیں جانتا اس سلسلے میں ، جو کچھ ان کے ساتھ بیتی تھی میرے ذہن میں تمہارا ہی خیال آیا تھا اور پورے اعتماد کے ساتھ میں تمہارے پاس آ گیا اور یہ فیصلہ تم خود ہی کرو گے کہ یہ بچہ کس طرح مصیبتوں سے نکل سکتا ہے، یہ میں نہیں جانتا، تم جانتے ہوگے۔‘‘
رامانندی نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’تو پھر نیازاللہ ایسا کرو کہ اسے میرے پاس چھوڑ جائو۔‘‘ میں چونک پڑا۔ میں نے سنسنی خیز نگاہوں سے رامانندی کو دیکھا لیکن زبان سے کچھ نہ بولا۔ نیازاللہ صاحب نے میری طرف دیکھا اور بولے۔
’’کیوں میاں کچھ دل ٹھکتا ہے اس بات پر۔‘‘ میں چند لمحات خاموش رہا پھر میں نے کہا۔
’’میں جس عذاب سے گزر رہا ہوں نیازاللہ صاحب، آپ کو اب تو اس کے بارے میں سب کچھ معلوم ہو چکا ہے، بے شک میں اپنی زندگی بھی چاہتا ہوں اور وہ سب کچھ بھی جس کا اظہار میں آپ سے کر چکا ہوں۔ ماں باپ بہن بھائی میرے دل میں کسکتے ہیں لیکن آج بھی اس بات پر میں بہت خوش ہوں کہ میں نے وہ گندا کام نہیں کیا اور آئندہ بھی میں ان سب کی زندگی کی قیمت پر یہ کام نہیں کرنا چاہتا۔ اب اس روشنی میں جو بھی فیصلہ میرے لیے مناسب ہو وہ آپ کریں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میرا ایمان جا کر ہی میرے ماں باپ مجھے مل سکتے ہیں تو میں آج ہی اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہوں اور اگر مجھ پر سے یہ مصیبت کسی اور ذریعے سے ٹل سکتی ہے تو اس کے لیے کوشش کر لی جائے آپ لوگوں کا احسان مند ہوں گا۔‘‘
’’تم میرے پاس کچھ روز رہو گے لڑکے اور تمہیں میرے احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔‘‘
’’اس سلسلے میں، میں واضح طور پر ایک بات کہہ دینا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے سخت لہجے میں کہا۔
’’کیا…؟‘‘ راما نندی نے سوال کیا۔
’’پہلی بار جب مجھے حکیم سعداللہ کے پاس لے جایا گیا تھا تو انہوں نے بھی مجھے اپنے پاس رکنے کے لیے کہا تھا اور پھر وہیں سے میری زندگی کا ایک بدنما دور شروع ہوگیا۔ حکیم سعداللہ مجھ سے اس بارے میں تفصیلات معلوم کر رہے تھے اور میری آنکھوں کے سامنے منحوس بھوریا چرن ایک مکڑی کی شکل میں لہرا رہا تھا اور پھر میرے ہی ہاتھوں حکیم سعداللہ قتل ہوگئے کہیں وہ کہانی پھر سے نہ شروع ہو جائے۔‘‘
’’ہو سکتی ہے، ضرور ہو سکتی ہے، مگر اب میں اس سے واقف ہوں اس لیے ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
’’اگر یہ بات ہے تو پھر مجھے آپ کے پاس رُکنے میں بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے رامانندی جی۔‘‘
’’تو بس ٹھیک ہے نیاز، آپ آرام کریں اور ایک دو ہفتے کے لیے اسے بالکل بھول جائیں، جو کچھ بھی بن پڑے گا، کروں گا اس کے لیے۔‘‘
نیازاللہ صاحب کھڑے ہوگئے اور بولے… ’’رامانندی بڑا وقت لیا ہے میں نے تمہارا اور بہت کچھ مانگ لیا ہے تم سے، سوائے دُعا کے میں اور کیا کر سکتا ہوں تمہارے لیے، میں تو ایک معمولی سا آدمی ہوں خدا کا گناہ گار بندہ۔ میری تو دعائوں میں بھی یہ اثر نہیں ہے کہ وہ کسی کے کام آ جائیں… لیکن اس کے باوجود اپنے خدا سے مایوس نہیں ہوں، میں اور مسعود میاں، بھروسہ رکھنا، تمہاری بہن اور میں۔ تمہارے لیے دُعائیں کرتے رہیں گے، اللہ تعالیٰ بہتری کرے گا۔ اچھا تو رامانندی پھر مجھے اجازت دو۔‘‘
’’ٹھیک ہے نیاز، کام بھی دیا تو نے ہمیں تو ایسا کہ جس کو پورے بھروسے کے ساتھ نہیں کر رہے۔ لیکن چنتا مت کرنا رامانندی نے ہوش سنبھالنے کے بعد تیری صورت دیکھی تھی اور اگر مر بھی گیا تو تیری صورت آنکھوں میں ہوگی۔ چنتا مت کرنا اس کے لیے ، جو کچھ بھی ہم سے بن پڑے گا کریں گے مگر سنو ایک بات کہے دیتے ہیں کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے اور جو کھو جائے اس کی ذمہ داری خود تم پر ہوگی۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں رامانندی۔‘‘ نیازاللہ صاحب نے کہا۔
’’میں سمجھا بھی نہیں سکتا تمہیں اس وقت۔‘‘ رامانندی نے کہا اور نیازاللہ اس کا چہرہ دیکھتے رہے پھر بولے…
’’اس کے باوجود میں جانتا ہوں کہ تو جو کچھ بھی کرے گا بہتر ہی کرے گا۔‘‘ رامانندی نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے اور نیازاللہ واپسی کے لیے پلٹے، میں اور رامانندی انہیں باہر تک چھوڑنے آئے تھے۔
’’تم اطمینان سے یہاں رہو میں اسی تانگے میں واپس چلا جائوں گا، کل پھر آئوں گا۔‘‘
’’نہیں نیازاللہ، جب تک میں تجھے یہاں نہ بلائوں تو یہاں نہ آنا، یہ میری درخواست ہے تجھ سے۔‘‘ رامانندی نے کہا اور نیاز اللہ چونک کر اسے دیکھنے لگے، پھر ٹھنڈی سانس لے کر بولے۔
’’ٹھیک ہے میں تیرے کسی کام میں مداخلت نہیں کروں گا۔ اچھا تو پھر چلتا ہوں مسعود میاں، اجازت ہے۔‘‘ میں نے نیازاللہ صاحب سے مصافحہ کیا اور اس کے بعد وہ چلے گئے۔ رامانندی نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنے ساتھ آنے کے لیے کہا۔ اس بار وہ کھنڈر میں واپس نہیں گیا تھا بلکہ ٹہلنے کے سے انداز میں دُوسری جانب چل پڑا تھا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا۔ ’’مسعود ہے نا تمہارا نام…؟‘‘
’’ہاں…‘‘
’’دیکھو مسعود… میں ایک بات پورے خلوص سے کہنا چاہتا ہوں تم سے۔ جو واقعات اور حالات میرے علم میں آئے ہیں۔ ان سے میں نے ایک اندازہ لگایا ہے۔ میری حیثیت اس وقت ایک حکیم کی سی ہے، جو مریض کو دیکھتا ہے اس کے مرض کی تشخیص کرتا ہے اور اس کے لیے دوا تجویز کرتا ہے۔ تم صاحبِ ایمان ہو، بے شک مانتا ہوں حالانکہ میرے اور تمہارے دھرم میں اختلاف ہے، میرا دھرم کچھ اور ہے تمہارا دھرم کچھ اور… لیکن کیا تم اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرو گے کہ بعض اوقات صحت کے لیے مریض کو کڑوی دوائیں بھی دینی پڑتی ہیں۔‘‘
’’ہاں بے شک۔‘‘
’’اس کے علاوہ ڈاکٹروں کی اقسام ہوتی ہیں۔ کوئی ایلوپیتھک ہوتا ہے، کوئی ہومیوپیتھک اور کوئی جڑی بوٹیوں سے علاج کرتا ہے ہر ایک کا اپنا انداز ہوتا ہے، میرا اپنا طریقہ علاج ہے میں تو وہی کرسکتا ہوں۔‘‘
’’کیوں نہیں۔‘‘
’’مجھ پر اعتماد رکھنا، میرا تم سے کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ بس میں تمہاری صحت چاہتا ہوں اور جو کچھ کرسکتا ہوں اس کے لیے کروں گا۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘
’’آج سنیچر وار ہے تمہیں منگل وار تک انتظار کرنا ہوگا۔ منگل کی رات کو تمہیں بہت سی مشکلوں سے چھٹکارا مل جائے گا۔ اس دوران تم یہاں رہو، جہاں من چاہے گھومو پھرو کچھ فاصلے پر باغ ہے اس میں پھل لگے ہوئے ہیں۔ کھیت بھی ہیں۔ مکئی پک رہی ہے، بھٹے بھون کر کھا سکتے ہو۔ میں تمہیں اپنے ہاں کی کوئی چیز نہیں کھلائوں گا تاکہ تمہیں اس سے کراہیت ہو۔‘‘
’’آپ بہت عظیم انسان ہیں رامانندی جی۔‘‘ میں نے متاثر ہو کر کہا اور رامانندی مسکرا دیا۔
’’زندگی بہت تھوڑی سی ہوتی ہے، مسعود بھیا۔ انسان اچھی طرح جانتا ہے کہ کچھ بھی کر لے کچھ بھی پا لے مگر اسے مرنا ہوگا۔ جیون بھر کی محنت سے جو کچھ حاصل کیا ہے اسے چھوڑنا ہوگا۔ مگر اس کی فطرت میں طلب ہے۔ سب کچھ جان کر بھی وہ سب کچھ پانا چاہتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو سنسار کے سارے کام رُک جائیں۔ مگر رُوح کی طلب بھی ایک چیزہوتی ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے رُوح کی آسودگی کے لیے کرتا ہے اور رُوح کی آسودگی کے لیے محبت بھی بہت بڑی چیز ہے۔ نیازاللہ اور میں ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ ہماری یہ محبت ہمیشہ بڑھی ہے کبھی گھٹی نہیں۔ میں اس کی ایک ایک جنبش کا احترام کرتا ہوں۔ اس سے پیار کرتا ہوں۔‘‘
’’یہ ایک مثالی دوستی ہے۔‘‘
’’ہاں۔ تم کہہ سکتے ہو۔‘‘ تو سمجھ گئے نا میری بات اور ایک بات میں تمہیں اور بتا دوں میاں ڈرنا نہیں بھوریا چرن جو کچھ بھی ہے میرے حلقے میں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ہمارے بیچ معاہدے ہوئے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے نہیں لڑتے ورنہ نقصان دونوں کو ہو جاتا ہے۔ ہمارے بیر آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کچھ نہیں کرتے اور سارا کھیل بیروں کا ہوتا ہے۔ بیر ایک طرح سے ہمارے سپاہی ہوتے ہیں۔ اس لیے تم ایک ایک کوس کے بیچ جہاں چاہو گھوم پھر سکتے ہو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔‘‘
’’ٹھیک ہے رامانندی جی۔‘‘
’’اس کے علاوہ رات کو جب بھی آرام کرو اسی کھنڈر میں کسی چھت کے نیچے آرام کرنا کھلی جگہ کبھی مت سونا۔‘‘
’’بہتر ہے۔‘‘
’’منگل کو ملوں گا اگر کوئی ایسی بات جو مجھ سے کرنا ضروری ہو تو کسی آدمی سے کہہ دینا وہ تمہیں میرے پاس پہنچا دے گا۔ یہاں ضرورت مند آتے رہتے ہیں ان سے زیادہ مت گھلنا ملنا اور رات کو کسی جاپ کرنے والے کے پاس مت جانا وہ لوگ جو جوہڑ کنارے بیٹھے ہوتے ہیں۔‘‘
’’میں خیال رکھوں گا۔‘‘
’’بس اب میں جائوں۔‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے کہا اور رامانندی اندر کھنڈر میں چلا گیا۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور ایک پتھر پر جا بیٹھا۔ دِل و دماغ پر ایک سل سی رکھی محسوس ہو رہی تھی۔ یہ جو کچھ ہوا تھا اس کے بارے میں کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن دل و دماغ اپنے بس میں کہاں ہوتے ہیں اور یہ ’’بس‘‘ ہے کیا چیز، سمجھنا مشکل ہے۔ کچھ نہ کچھ آ ہی گھستا ہے دماغ میں اس کا راستہ کون روکے۔ چنانچہ چشم تصور سے نیازاللہ صاحب کو تانگے میں واپس جاتے ہوئے دیکھا۔ دل نے دُعا کی کہ خدا خیر کرے۔ رامانندی تو مضبوط ہے مگر نیازاللہ بھی بھوریا چرن کی کہانی سے واقف ہوگئے ہیں، کہیں وہ کتا انہیں نقصان نہ پہنچائے۔ مگر کیا کر سکتا تھا کچھ بھی تو نہیں کر سکتا تھا۔
سارا دن وہیں گزار دیا۔ تانگے آ کر رُکتے تھے اور اس سے مرد عورتیں بچے اُترتے۔ رامانندی کے آدمیوں سے ملتے۔ پھر نہ جانے کیا ہوتا وہ واپس چلے جاتے۔ مجھے بھوک لگی اور میں باغوں کی تلاش میں نکل گیا۔ اس کے لیے مجھے زیادہ دُور نہیں جانا پڑا کوئی سو گز دور چلا تھا کہ باغ نظر آ گیا۔ سامنے ہی ناشپاتیاں لگی ہوئی تھیں۔ بس شکم سیری کی بات تھی چنانچہ اس پر گزارا کر لیا۔ احساس ہوا تھا کہ باغ کے مالک کی اجازت کے بغیر ایسا کر رہا ہوں لیکن اور کون سے اقدار نبھائے جا رہے تھے جو اس سے بچتا۔ زندگی زخم تو بن گئی تھی اور یہ زخم ہمیشہ بے کل رکھتے تھے۔ رات کو رامانندی کی ہدایت کے مطابق کھنڈر کے ایک کمرے میں جا گھسا اور زمین پر لیٹ کر سو گیا۔ دُوسرا دن، دوسری رات، پھر تیسرا دن، رامانندی ایک بار بھی نظر نہیں آیا تھا، البتہ اب اس کے چیلے چانٹوں سے دوستی ہوگئی تھی۔ جاپ کرنے والوں کو بھی دیکھتا تھا، رات میں کبھی باہر نہیں نکلا تھا ہاں اپنی مخصوص آرام گاہ میں کبھی کبھی راتوں کو میں نے بڑی بھیانک آوازیں سنی تھیں۔
تیسرا دن بھی تمام ہوا، اگلے دن منگل تھا۔ اس وقت شام کے کوئی سات بجے تھے۔ ناشپاتیوں کا ڈنر لے کر پلٹ رہا تھا اور کھنڈرات کے آس پاس لوگ نظر آ رہے تھے۔ سامنے ہی رنگین کپڑوں میں لپٹی ایک عورت اپنے بچّے کو کندھے سے لگائے میرے آگے آگے جا رہی تھی۔ اس نے میرے قدموں کی چاپ سنی تو رُک گئی اور جب میں اس کے قریب سے گزرا تو اس نے مجھے آواز دی۔
’’مہاراج سنیے، مہاراج۔‘‘ میں رُک گیا، اسے دیکھا پچکے گال، دھنسی ہوئی آنکھیں۔ پیلے چہرے پر عجیب سی ویرانی، اس کے کندھے سے جو بچہ لگا سو رہا تھا وہ بالکل سوکھا ہوا تھا۔ میری اُنگلیوں کے برابر موٹی اس کی پنڈلیاں تھیں، باقی بدن بھی ایسا ہی تھا، سر بالوں سے صاف اور جسم کی نسبت بہت بڑا نظر آ رہا تھا۔
’’کیا بات ہے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اسے میری گود سے اُتار دو۔‘‘ اس نے بچّے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’اُترتا ہی نہیں ہے۔ میں اسے لیے لیے تھک گئی ہوں۔‘‘
’’کوئی اور نہیں ہے تمہارے ساتھ۔‘‘
’’کوئی نہیں ہے۔ اسے تھوڑی دیر کے لیے لے لو، میں تھک گئی ہوں۔ ایک سال ہوگیا پورا ایک سال۔ یہ میری گود سے نہیں اُترتا۔‘‘ میں چونک پڑا عجیب سے الفاظ تھے۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی۔
’’تم یہاں کیا کر رہی ہو۔ کیا یہ بچہ بیمار ہے۔‘‘
’’سوکھے کی بیماری ہے اسے۔ مگر تم اسے لے لو نا!‘‘ وہ آگے بڑھ کر میرے پاس پہنچ گئی۔ میں کشمکش کا شکار تھا کیا کروں کیا نہ کروں۔ اسی وقت بچے نے ماں کے شانے سے سر اُٹھایا۔ پتلی گردن گھمائی اور اس کا چہرہ میرے سامنے آ گیا۔ اس نے مجھے دیکھ کر ایک آنکھ دبائی اور اس کے ہونٹوں سے سیٹی کی آواز نکلی، سیٹی بجا کر وہ شرارت سے مسکرایا۔ مگر وہ چہرہ… وہ چہرہ کسی بچّے کا نہ تھا۔ وہ ایک معمر آدمی کا چہرہ تھا اور وہ معمر آدمی بھوریا چرن کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ بھوریا چرن، جس کا بدن ایک بیمار مدقوق بچّے کا بدن تھا مگر چہرہ مکمل…! میرے پورے بدن پر کپکپی طاری ہوگئی، رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
انسان ہی تھا، خوف تو فطرت کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ لاکھ سب کچھ جانتا تھا اور کافی حد تک ناقابل یقین مناظر کا عادی ہوگیا تھا لیکن آپ خود تصور کریں آبادیوں سے دُور ایک ویران اور سنسان علاقہ جہاں چاروں طرف ہولناک سناٹا پھیلاہوا ہو، وہ کھنڈر بھی یہاں سے خاصا دُور، جہاں کیسے ہی سہی کم از کم انسانی شکل کے لوگ نظر آ جاتے تھے۔ سامنے ہی ایک پُراسرار عورت جس کے انوکھے الفاظ کہ یہ بچہ ایک سال سے میری گود سے نہیں اُترا اور پھر سوکھے کیکڑے جیسے ہاتھ پائوں والا ایک بچہ جس کا سر بھوریا چرن کا تھا مجھے دیکھ رہا ہو، چہرے پر خباثت اور شیطانی مسکراہٹ، پھر اس کی آواز اور اس کا انداز… دہشت سے برا حال نہ ہو جاتا تو کیا ہوتا۔ بالآخر بھوریا چرن کسی نہ کسی طرح میرے سامنے پہنچ ہی گیا تھا اور رامانندی کا عمل پورا نہیں ہوا تھا۔ سارے دن گزر گئے تھے بس ایک دن باقی تھا۔ اگلا دن منگل تھا اور رامانندی نے کہا تھا کہ منگل گزر جائے تو میں ان مصیبتوں سے آزاد ہو جائوں گا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ رامانندی کیا کرنے والا تھا لیکن ان دنوں تو تنکے کا سہارا بھی میرے لیے بڑی حیثیت رکھتا تھا۔
بھوریا چرن نے ایک بار پھر سیٹی بجائی اور عورت سے بولا۔ ’’چل اُتار دے، اُتار دے مجھے اپنی گود سے۔‘‘ عورت نے اس طرح اسے جھٹک کر پھینک دیا جیسے کسی بہت بڑی مصیبت سے چھٹکارا ملا ہو۔ بھوریا چرن زمین پر گر کر گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل اس طرح کھڑا ہو گیا جیسے چھوٹے بچّے جو اپنے پیروں سے چلنا نہیں جانتے، کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اس کا بھیانک چہرہ مسلسل مجھے مسکراتی نظروں سے دیکھ رہا تھا… پھر اس نے کہا۔
’’کہو میاں جی مہاراج کیسے ہو… ارے ہم سے بچ کر سنسار کے کون سے کونے کھدرے میں بھاگو گے۔ جہاں جائو گے ہمیں پائو گے، تم نے تو نہ بلایا ہمیں مگر دیکھو ہم تمہاری کتنی خبر رکھتے ہیں۔‘‘ دفعتاً ہی میرے وجود میں چنگاریاں سی بھر گئیں، دہشت تو پہلے ہی دِل و دماغ میں منجمد تھی، ہاتھ پائوں البتہ چند لمحات کے لیے ساکت ہوگئے تھے لیکن اچانک ہی مجھے ہوش آ گیا اور دُوسرے لمحے میں نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور اس طرح دوڑنے لگا کہ شاید کوئی گھوڑا بھی اس وقت میرا مقابلہ نہ کر سکتا۔ میں نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا تھا لیکن میرے کان عجیب سی سرسراہٹیں سن رہے تھے اور مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ بھوریا چرن اسی طرح گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل دوڑتا ہوا میرے پیچھے آ رہا ہے حالانکہ میں اپنی اس رفتار کو ناقابل یقین کہہ سکتا ہوں لیکن پھر چند ہی لمحات گزرے کہ بھوریا چرن ننھے سے بچّے کی شکل میں دوڑتا ہوا مجھ سے آگے نکل گیا۔ کچھ دُور جانے کے بعد اس نے اپنے دونوں ہاتھ پائوں زمین پر پھیلائے اور پھر میں نے دیکھا اس کے سارے بدن میں پائوں ہی پائوں نکل آئے ہیں۔ وہ مکڑی کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔ ان پیروں پر لمبے لمبے بال اُگ آئے تھے بس اوپری بدن بھوریا چرن کا تھا اور اس مکڑی کا سائز بلاشبہ کوئی ڈھائی فٹ کے دائرے میں تھا، بھوریا چرن کی خونخوار آنکھیں اب بھی مجھے دیکھ رہی تھیں۔ میں نے رُخ تبدیل کیا تو وہ پھر میرے ساتھ دوڑنے لگا لیکن اب وہ اپنے سارے ہاتھ پیروں سے دوڑ رہا تھا۔ میرے ہوش و حواس گم تھے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آگے کیا ہوگا لیکن کسی نہ کسی طرح میں ان کھنڈرات تک پہنچ جانا چاہتا تھا اور بالآخر کئی بار اسے چکر دے کر میں کھنڈرات کے نزدیک پہنچ گیا، جہاں مدھم مدھم روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔ رامانندی کا علاقہ آ گیا تھا۔ وہ جوہڑ جس کے کنارے لوگ بیٹھے جاپ کیا کرتے تھے، قریب آ گیا تھا اور دفعتاً ہی میں نے جوہڑ سے کچھ فاصلے پر رامانندی کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں ساکت کھڑا ہوا تھا۔ پھر میں نے پلٹ کر دیکھا تو بھوریا چرن مکڑی کے رُوپ میں میرے قریب آتا جا رہا تھا اور چند ہی لمحات کے بعد وہ میرے بالکل قریب پہنچ گیا۔ میں دہشت سے چیختا ہوا رامانندی کے بالکل قریب جا کھڑا ہوا تھا۔ رامانندی نے میرا بازو پکڑ لیا اور بھوریا چرن کو دیکھنے لگا۔ بھوریا چرن بھی آن کی آن میں ہمارے قریب پہنچ گیا۔ اس نے مجھ سے نگاہیں اُٹھا کر رامانندی کو دیکھا اور اس کے بعد اچانک سر اُٹھا کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔ اب اس کے دو ہاتھ اور دو پائوں ہی تھے اور وہ اپنے اس رُوپ میں نظر آ رہا تھا جس رُوپ میں اسے میں نے پہلی بار دیکھا تھا، یعنی جوگی کے رُوپ میں۔ رامانندی خاموش نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا پھر رامانندی کے ہونٹوں سے مدھم سی آواز نکلی۔
’’اکھنڈ شنکھا…‘‘
بھوریا چرن نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی نگاہیں اب رامانندی پر جمی ہوئی تھیں، بڑی بڑی آنکھیں سرخ ہوتی جا رہی تھیں۔ پھر ایک اور منظر دیکھا میں نے… اس کی آنکھوں سے سرخ دھاریں بہنے لگیں۔ دونوں آنکھوں سے خون جیسی سیال شے اُبل کر نیچے گر رہی تھی اور اس کے پیر اس میں بھیگتے جا رہے تھے۔ رامانندی ساکت کھڑا ہوا تھا۔ چند لمحات کے بعد اس کے منہ سے پھر آواز نکلی۔
’’پدم شنکھا…‘‘
’’چپ ہو جا رے چپ ہو جا، ارے او پاپی چھچھوندرے، کالے دھرم کا کھائے ہے اور دھرم ہی کا اپمان کرے ہے، کیوں رے تیری یہ مجال…؟‘‘
’’پدم شنکھا…‘‘
’’ارے چپ، شنکھا کے گھونسلے، کونسی بیڑی ہے تیری رے، کونسی بیڑی ہے؟‘‘
’’تیسری بیڑی، پدم شنکھا…‘‘ رامانندی نے جواب دیا۔
’’اور باتیں ایسے کرے ہے جیسے کھنڈولا بن گیا ہو، کیوں رے، کھنڈولا ہے نا تو…؟‘‘
’’نہیں پدم شنکھا، میں کھنڈولا کہاں، داس ہوں تیرا۔‘‘
’’ارے واہ رے داس… داس بنے ہے اور شنکھا کی برابری کرے ہے، شنکھا کے راستے روکے ہے، ارے تیرے کالے دھرم نے تجھے یہ نہ بتایا کہ ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے، ہمارے راستے بند کرنا چاہتا ہے، ارے تیرے اپنے راستے نہیں بند ہوتے تھے اس سے… اگر تو اس کا دھرم خراب کر دیتا اور ہم کھنڈولے بن جاتے تو تیرا کیا نقصان ہوتا۔ ایک کھنڈولا سو شنکھا کی رکھشا کرتا ہے اور ایک شنکھا ہزاروں بیڑیوں کے کام آتا ہے۔ تو اپنی بیڑ خراب نہیں کر رہا تھا رے تیسری بیڑ والے بول جواب دے اور تو… ارے او دھرم داس، تجھ سے کہہ رہا ہوں میں… تو اپنا دھرم خراب کرنے جا رہا تھا اس کے ہاتھوں… جانتا ہے تو یہ کل منگل کو کیا کرتا، اس کا خیال یہ تھا کہ یہ شنکھا کو دھوکا دے رہا ہے، شنکھا کو نقصان پہنچا رہا ہے، مگر شنکھا اس سے بہت بڑا ہے۔ ارے بلا اپنے بیروں کو، ذرا پہلے ان کا حساب کتاب کر دیں، بلا رے بلا، بلاتا کیوں نہیں ہے؟ ارے کہاں ہو تیسری بیڑی کے بیرو، کہاں ہو بیرو ذرا سامنے تو آئو، اپنے مالک کا کھیل دیکھو…‘‘
مجھے عجیب سا محسوس ہو رہا تھا، رامانندی نے میرا بازو چھوڑ دیا تھا اور اب اس کے بازو سیدھے ہو گئے تھے۔ دفعتاً ہی میں نے کچھ عجیب و غریب شکلیں دیکھیں۔ ان کے قد ڈھائی ڈھائی اور تین تین فٹ کے تھے اور چہرے غیر انسانی معلوم ہوتے تھے۔ کالے سیاہ کسی کے کان ہاتھیوں کے کان جیسے، کسی کی سونڈ لٹکی ہوئی، کسی کی زبان باہر نکلی ہوئی… وہ سب کے سب بے لباس تھے اور اُچھلتے کودتے آ رہے تھے۔ عجیب سا منظر تھا، تعداد ان کی کوئی دس بارہ کے قریب ہوگی، سارے کے سارے سامنے آ کھڑے ہوئے اور پھر ان کے منہ سے آواز نکلی۔
’’اکھنڈ شنکھا، پدم شنکھا…‘‘ وہ سارے کے سارے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ آگے رکھ لیے، یہ منظر عجیب و غریب تھا، دماغ چٹخا دینے والا۔ آنکھیں دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں، دل کی دھڑکنیں بند ہو چکی تھیں، زبان خشک تھی اور اب ہر احساس دل سے فنا ہوتا جا رہا تھا۔ خوف کی انتہا نے بدن کو پتھرا دیا تھا، کان سن سکتے تھے، دماغ بھی کام کر رہا تھا۔ کسی حد تک ان کی آوازیں سمجھ میں آ رہی تھیں لیکن اعضاء اس طرح ساکت ہوگئے تھے کہ اگر کوشش بھی کرتا تو بدن کو جنبش نہ دے پاتا۔ یہ سب کیا جنجال تھا۔ بھوریا چرن کی آواز پھر اُبھری۔
’’اس سسرے کے بیر بنے ہو، تم اس کے بیر ہو، تم جو اپنی ہی بیڑی کاٹے ہے، جو اپنا ہی کالا دھرم خراب کئے دیوے ہے، ارے تو سن رہا ہے نا بڑے دھرم والے، کیا کرتا یہ تیرے ساتھ جانتا ہے، کیا کرتا یہ تیرے ساتھ! رے او دیندار اس کے جال میں پھنسا تھا تو، اس کے جال میں یہ گندا خون جمع کر رہا ہے، ایسا گندا خون جس کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں سکتا اور پھر کل منگل کو چاند نکلے، یہ وہ خون تجھے پلا دیتا۔ تیرے شریر میں تیرے بدن میں یہ ناپاک خون اُتر جاتا اور تو بھی ناپاک ہو جاتا۔ اس طرح تو ہمارے بڑے گہرے دوست پیر پھاگن کے مزار پر نہ جا سکتا تھا۔کسی گندے آدمی کو مزار کے احاطے میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے، یہ مہان تین بیڑا سوچتا تھا کہ گندا خون پلا کر تجھے ہمارے لیے ناکارہ بنا دے اور اس کے بعد ہم خود ہی تیرا پیچھا چھوڑ دیں۔ مگر تیرے دھرم کا کیا ہوتا، دھرم ہی کے ناتے تو تو اب تک موت کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ ارے اگر ایسے ہی دھرم کھونا تھا تو ہم کیا برے تھے، تو ہمارا کام کر دیتا تو تجھے بھی کچھ مل جاتا، ارے اتنا کچھ مل جاتا تجھے کہ سنسار میں تیرے لیے پھول ہی پھول ہوتے۔ مگر تو اس کے ہاتھوں دھرم کھو رہا تھا پھر جانتا ہے کیا ہوتا؟ تو دھوبی کا کتا بن جاتا، گھر کا رہتا نہ گھاٹ کا، کالے دھرم کو تو مانتا نہیں اور اپنے دھرم سے دُور ہو جاتا، یہی ارادہ تھا اس کا۔ ارے ایسا ہی اپنا دھرم خراب کرنا تھا تو اس کل کے بیڑے کے چکر میں کیوں پھنسا، مان لے ہماری اب بھی مان لے، لے چل ہمیں پیر پھاگن کے دوار اور پا لے سارے سنسار کو… بول اب بھی موقع ہے مگر ٹھہر پہلے تیرے اس مددگار کا کریا کرم کر دیں، پہلے اسے اس کے حال پر پہنچا دیں۔ ارے او بیرو او دھیرو، جائو اپنا کام کرو، جائو ڈوب مرو جوہڑ میں، چلو چلو ہم حکم دے رہے ہیں تمہیں۔ زمین پر بیٹھی ہوئی عجیب و غریب مخلوق بین کرنے لگی… وہ رو رہے تھے، پیٹ رہے تھے، اپنا سر دُھن رہے تھے، بال نوچ رہے تھے اور رامانندی کو خونخوار نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ رامانندی اب بھی خاموش اور ساکت کھڑا ہوا تھا پھر خوب رو پیٹنے کے بعد وہ سارے کے سارے اُٹھے اور اس کے بعد انہوں نے ایک ایک کر کے اس کالی کیچڑ کے جوہڑ میں چھلانگیں لگا دیں، ایسا لگتا تھا جیسے وہ خودکشی کر رہے ہوں۔ میں اب ایک خاموش تماشائی کی طرح یہ سارے مناظر دیکھ رہا تھا۔ رامانندی پتھرایا ہوا کھڑا تھا، ان عجیب و غریب لوگوں کے غائب ہو جانے کے بعد بھوریا چرن پھر رامانندی کی طرف متوجہ ہوگیا۔‘‘
’’ہاں رے تیسری بیڑی والے، بول اب تیرا کیا کریں ہم چھوڑ دیں تجھے یا سزا دے دیں تجھے، بول کیا تھا تیرے پاس اسے دینے کے لیے؟ اس کا دھرم خراب کرتا تو صرف اس لیے نا کہ پھر یہ ہمارے کام کا نہ رہے یہی منصوبہ تھا نا تیرا؟‘‘
’’ہاں پدم شنکھا۔‘‘ رامانندی نے جواب دیا۔
’’پدم شنکھا، میرے بچپن کے دوست نے مجھ سے یہ کہا تھا۔‘‘
’’ارے بچپن کا دوست تجھ سے یہ کہتا کہ اپنا دھرم چھوڑ کر مسلمان ہو جا تو تو ہو جاتا کیوں؟‘‘
’’ہاں بھوریا چرن اگر وہ سچ مچ مجھ سے یہ بات بھی کہتا تو میں اس کی یہ بات بھی مان لیتا۔‘‘
’’یہی سننا تھا تیرے منہ سے ہمیں، یہی سننا تھا۔ ارے کالے دھرم کو بدنام کرنے والے، تیرا اس سنسار میں رہنا اچھا نہیں ہے۔ پتا نہیں کب بہک جائے، کب بھٹک جائے ایں… ٹھہر ہم تیرا بندوبست کئے دیتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر بھوریا چرن نے اپنے مختصر سے لباس میں ہاتھ ڈالا اور شاید چمڑے کی بنی ہوئی ایک گول سی بوتل نکال لی۔ رامانندی کے بدن پر کپکپاہٹ طاری ہوگئی تھی، بھوریا چرن نے اُنگلی سے اس طرح جھٹکا دیا جیسے کسی چیز کے چھینٹے دیئے جاتے ہیں اور میں نے پورے ہوش و حواس کے عالم میں دیکھا کہ رامانندی کے پیروں میں لوہے کی ایک زنجیر جکڑ گئی ہے۔ بھوریا چرن نے دوبارہ اُنگلی اسی طرح جھٹکی اور رامانندی کے دونوں ہاتھ بھی پیچھے جا بندھے۔ رامانندی چیخنے لگا۔
’’چھوڑے دے بھوریا چرن، چھوڑ دے پدم شنکھا چھوڑ دے مجھے شما کر دے، معافی چاہتا ہوں تجھ سے، آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گا، ارے دال روٹی کھانے دے مجھے بھی پدم شنکھا، تیرا کچھ نہیں لوں گا میں، بھول ہوگئی، مجھ سے بھول ہوگئی۔‘‘
’’بھول ہوگئی تو بھگت بائولے، یہ… یہ سسرا تو چٹ پٹ ہو جاتا ہمارے ہاتھوں اگر ہمارے کام کا نہ ہوتا، ارے اس کی اوقات کیا ہے ہمارے سامنے، کیا ہے یہ، بڑا میاں جی کا پلا بنا پھرتا ہے، ارے کیا ہے یہ دو منٹ میں ٹھیک کر دیتے اسے، مگر… مگر جب ہم نے اسے اپنے کام کے لیے ٹھیک کر لیا تو پھر ٹھیک کرلیا۔ ہمیں یہی حکم ہوا تھا، کھنڈولوں کی طرف سے، سمجھا، کھنڈولا بننے کے لیے، یہی ہمارے کام آ سکتا ہے اور سب کچھ بتا دیا تو نے اسے، بتا دے ہمارا کیا بگاڑ لے گا سسرا، دیکھ لیں گے ہمارے سامنے کب تک سینہ پھلائے پھلائے پھرتا ہے، چل تو آ جا اپنی جون میں آ جا اپنی جگہ۔‘‘
’’معاف کر دے بھوریا، معاف کر دے۔‘‘ رامانندی بری طرح تڑپنے لگا، لیکن وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں پا رہا تھا، پائوں نہیں ہٹا سکتا تھا وہ اپنی جگہ سے۔ اس کے دونوں پائوں جکڑے ہوئے تھے اور شاید وہ زمین پر بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔ بھوریا چرن نے اسے دیکھا، کچھ منہ ہی منہ میں بدبدایا، اور پھر رامانندی پر پھونک مار دی۔ رامانندی کے بدن کی کیفیت سے ایسا ہی اظہار ہوا جیسے اچانک ہی وہ شعلوں میں گھر گیا ہو، اس نے بے اختیار چیخنا شروع کر دیا، ایسی بھیانک چیخیں تھیں کہ کانوں کے پردے پھٹے جا رہے تھے۔ رامانندی دہشت سے چیخ رہا تھا اور اس کا بدن عجیب سے انداز میں رنگ بدلتا جا رہا تھا، پہلے یہ رنگ پیلا ہوا، پھر نارنجی، اس کے بعد سفید ہوگیا، بالکل یوں لگا جیسے رامانندی جل کر راکھ ہوگیا ہو، سفید سفید راکھ، اب اس کی آواز بھی بند ہوگئی تھی۔ پھر دفعتاً ہی اس کے بدن سے سفید سا دُھواں خارج ہونے لگا اور بھوریا چرن نے شیشی کا ڈھکن کھول دیا۔ دُھویں نے بل کھایا اور پتلی لکیر کی شکل میں شیشی کے اندر داخل ہونے لگا۔ میرے ہوش و حواس گم تھے۔ آنکھیں یہ منظر دیکھ رہی تھیں اور میرے وجود میں کوئی جنبش نہیں تھی۔ یہ سب کچھ یہ سب کچھ ایک انوکھے خواب کی مانند تھا۔ سارا دُھواں سمٹ کر شیشی میں بھر گیا تو بھوریا چرن نے شیشی میں ڈاٹ لگائی اور اس کے بعد پوری قوت سے شیشی جوہڑ میں اُچھال دی۔ کوئی آواز نہیں ہوئی تھی۔
وہ جو جوہڑ کنارے بیٹھے جاپ کررہے تھے، نہ جانے کب اُٹھ کر بھاگ گئے تھے۔ غالباً ان خوفناک چہروں اور خوفناک آوازوں نے انہیں ان کے جاپ سے چونکا دیا تھا اور وہ سب کچھ چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے۔ کوئی بھی یہاں نہیں تھا سوائے بھوریا چرن کے… جو میرے سامنے کھڑا مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
’’دیکھ لیا اپنے مددگار کا انجام، اب بول تو کیا چاہتا ہے۔ ہاں بول اب کیا کہے گا تو؟‘‘
میں نے کچھ کہنے کے لیے ہونٹ ہلائے، لیکن آواز حلق سے باہر نہیں آ سکی تھی۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے بھوریا چرن کو دیکھتا رہا۔ رامانندی کا یہ انجام میرے لیے بڑا ہی دردناک تھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا، کالے جادو کا ماہر تھا یا ایک غلیظ ہندو… لیکن میرے لیے انسانیت کے تمام دروازے کھول دیئے تھے اس نے… وہ جو کچھ بھی کرنا چاہتا تھا میں نہیں جانتا تھا۔ بھوریا چرن کی زبانی یہ سن کرکہ وہ مجھے گندا خون پلا کربھوریا چرن کے لیے ناقابل قبول بنا دینا چاہتا ہے، مجھے کراہت تو ہوئی تھی اور یقیناً میرا وجود کسی گندی اور غلیظ شے سے ناپاک ہو جاتا تو میں خوش نہ ہوتا، بے شک بھوریا چرن کی مصیبت سے بچ جاتا لیکن اپنے ایمان ہی کے لیے تو میں نے اب تک یہ مصائب برداشت کئے تھے۔ مجھے یقینی طور پر اس کا وہ کھیل اچھا نہ لگتا لیکن اس نے خلوص دل سے جتنا وہ جانتا تھا کوشش کر ڈالی تھی۔ بھوریا چرن کی زبان میں سمجھ رہا تھا اور وہ جو کچھ کہہ رہا تھا میری سمجھ میں آ گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود مجھے رامانندی کے اس انجام کا افسوس
تھا۔ بھوریا چرن میرے قریب آیا اور اپنی اس مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا…
’’عقل آ رہی ہے اب شاید تجھے، ارے چنتا کاہے کرے ہے بٹوا، سنسار دے دوں گا تجھے، سارا سنسار دے دوں گا، بس ایک بار… صرف ایک بار مجھے پیر پھاگن دوارے پہنچا دے، سمجھ رہا ہے نا… بول تیار ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ نجانے کس طرح میرے منہ سے یہ آواز نکلی اور بھوریا چرن کا چہرہ ایک بار پھر ست گیا… ’’نہیں؟‘‘
’’نہیں بھوریا چرن…‘‘ اچانک میری آواز صاف ہوگئی؟
’’ارے کس کی نسل ہے رے تو، کس کی نسل ہے، ارے کب مانے گا پاپی، کب مانے گا، کتنا انتظار کرائے گا ہمیں، دل نہیں بھرا تیرا… ابھی دل نہیں بھرا، کچھ اور چاہئے تجھے، کچھ اور چاہئے۔‘‘
’’ہاں بھوریا چرن مجھے کچھ اور چاہئے، سمجھا؟ سچ مچ مجھے کچھ اور چاہئے، لیکن میں تیری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہونے دوں گا، بھوریا چرن، تو دیکھنا، آزما لینا اپنے آپ کو، موت دے سکتا ہے تو مجھے، یہ کام تیرے لیے بہت آسان ہے میں یہ بات جانتا ہوں لیکن میرے ارادے کو نہیں بدل سکتا، کوشش کر بھوریا چرن، کوشش کر۔‘‘ بھوریا چرن اچانک ہی زمین پر بیٹھ گیا اور بری طرح اُچھل کود کرنے لگا… بڑا بھیانک لگ رہا تھا وہ اس انداز میں بھی… غالباً یہ اس کے جنون کا انداز تھا، بہت دیر تک وہ زمین پر لوٹتا رہا اور اس کے بعد سیدھا کھڑا ہوگیا پھر اس نے کہا۔
’’آخری بار… آخری بار کہہ رہے ہیں، مان لے دیکھ مان لے… ورنہ نقصان اُٹھائے گا؟‘‘
’’لعنت ہے تیری صورت پر بھوریا چرن، لعنت ہے تیری صورت پر۔ تو مجھے کیا مجبور رکھ سکے گا، کوشش کرلے، جتنی کی جا سکتی ہے تجھ سے، جتنی کوششیں تجھ سے کی جا سکتی ہیں کر لے، اور اب میں چلتا ہوں…‘‘
’’ہلنا مت اپنی جگہ سے، کہہ دیا ہم نے، ہلنا مت۔‘‘ وہ بولا اور دفعتاً ہی میرے پائوں اپنی جگہ ساکت ہوگئے۔ بھوریا چرن کی قوتیں میرے اُوپر کارگر ہو رہی تھیں لیکن اس کا بس میرے دل و دماغ پر نہیں چل سکتا تھا۔ میرے ارادوں کو وہ نہیں تبدیل کر سکتا تھا۔ یہ میری مرضی پر ہی منحصر تھا کہ میں اس کی بات مانوں یا نہ مانوں، بھوریا چرن ایک بار پھر زمین پر بیٹھ گیا۔ اس نے دونوں گھٹنوں میں اپنا سر دے لیا، دیر تک بیٹھا رہا اور اس کے بعد اچانک ہی اس کے ہاتھ پائوں بڑھنا شروع ہوگئے، وہ ایک بار پھر مکڑی کی شکل اختیار کرگیا، اس کا چہرہ اور جسم جوں کا توں تھا، بس مکڑی کی طرح اس کے بدن میں ہاتھ پائوں اُگ آتے تھے۔ اس وقت بھی وہ ایک کالی مکڑی کی شکل اختیار کرگیا تھا اور خونی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ مکڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھی، میرے پائوں تو پہلے ہی اپنی جگہ ساکت ہوگئے تھے، جیسے اس نے مجھے بھی کسی ان دیکھی زنجیر میں جکڑ لیا ہو، وہ میرے بالکل قریب پہنچ گیا، اور پھر اس نے اپنے آگے کے دو پائوں میرے بدن پر رکھے۔ پورے بدن میں جھرجھری آ گئی تھی لیکن کم بخت اعضاء ساکت ہوگئے تھے۔ اس نے مجھے اپنے جادو کے جال میں جکڑ لیا تھا۔ اس کے پائوں کچھ اور آگے بڑھے، میری رانوں تک پہنچ گئے۔ وہ آہستہ آہستہ میرے بدن پر چڑھ رہا تھا اور میرے پورے وجود میں سرد لہریں دوڑ رہی تھیں لیکن نہ ہاتھ اس قابل تھے کہ میں اسے اپنے آپ سے دُور کرسکوں اور نہ پائوں ساتھ دے رہے تھے۔ بس میں گردن جھٹک رہا تھا اور پسینے سے تر ہوگیا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ میرے چہرے کے بالکل قریب پہنچ گیا اور پھر اس نے اچانک اپنا منہ میری گردن کے قریب کر دیا، اس کے بعد اس نے اپنے باریک نکیلے دانت میری گردن میں پیوست کر دیئے۔ مجھے شدید تکلیف کا احساس ہوا، بدن میں سوئیاں سی چبھیں لیکن میں اسے اس کے عمل سے نہ روک سکا۔ نہ جانے کیا کر رہا تھا وہ کم بخت، چند لمحات وہ اسی طرح میری گردن سے چمٹا رہا اور پھر نیچے اُتر گیا۔ گردن میں ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں مگر میں ہاتھ اُٹھا کر گردن مسل بھی نہیں سکتا تھا۔ بھوریا چرن نے پھر رُوپ بدل لیا اور سیدھا کھڑا ہوگیا۔
’’بہت کچھ جان لیا ہے تو نے ہمارے بارے میں لڑکے، ہمارا کچھ نہ بگڑے گا، ضد کئے جا، نقصان اُٹھائے جا، ہم پھر تجھ سے یہ کہہ کر جا رہے ہیں کہ جب بھی ہمارا کام کرنے کا من کر جائے، ہمیں آواز دے لینا۔ تجھ سے دُور ہی کتنے ہوتے ہیں ہم، آ جائیں گے اور کھلی چھوٹ ہے تجھے جو من چاہے کر ہمارے خلاف، کچھ نہ کر پائے گا، یہ ہم تجھ سے کہے دے رہے ہیں، ٹھیک ہے جا دیکھ سنسار کو، کیسا ہے یہ، بڑا اچھا لگے گا تجھے، ہم پھر ملیں گے تجھے، جب ضرورت ہوگی۔‘‘ بھوریا چرن نے کہا اور رُخ تبدیل کر کے وہاں سے آگے بڑھ گیا، جیسے ہی اس نے رُخ تبدیل کیا، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا بدن پھر سے متحرک ہوگیا ہو اور پہلا کام میں نے یہی کیا کہ اپنی گردن کے اس حصے کو ملنے لگا جس میں شدید سوزش ہو رہی تھی، نجانے اس کتے نے کیا کر دیا تھا، گردن کے اس حصے کو چھونے ہی سے ٹیسیں اُٹھنے لگتی تھیں، سب کچھ ذہن میں آتا جارہا تھا۔ آہ! بے چارہ رامانندی ختم ہوگیا میری وجہ سے اور پتا نہیں نیازاللہ صاحب کا کیا ہوا؟ خداناخواستہ کہیں وہ بھی اس کالے جادو کے ماہر کے عتاب کا شکار نہ ہو جائیں، بڑا غم ہوگا مجھے اگر ایسا ہوگیا تو، اپنی مصیبت میں تو گرفتار تھا ہی، نیازاللہ صاحب کا خدشہ اور دل میں بیدار ہوگیا۔ میں نے ادھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں، یہاں رُکنا تو اب بے مقصد ہی تھا۔ جوہڑ میں جاکر اس شیشی کو تو تلاش نہیں کر سکتا تھا، یہ ساری باتیں میری سمجھ سے باہر تھیں۔ بس وقت نے نجانے کیا کیا بے تکی چیزیں سمجھائی تھیں، جنہیں میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا…
کھنڈرات سے واپس چل پڑا۔ دل میں نیازاللہ صاحب کا خیال بھی تھا اور اپنی تکلیف بھی بے چین کئے دے رہی تھی۔ چلتا رہا بس بے دھیانی کا سا عالم تھا حالانکہ کافی فاصلہ طے کرکے تانگے میں بیٹھ کر نیازاللہ صاحب یہاں آئے تھے لیکن میں چلا جا رہا تھا۔ نیازاللہ صاحب کی خیریت مل جائے، بس اس کے بعد ان کی طرف رُخ نہیں کروں گا۔ میری نحوستیں کسی بھی اس شخص کو نہیں چھوڑیں گی، جس کے دل میں میرے لیے محبت کا تھوڑا سا بھی جذبہ اُبھرے گا اور جو میری کہانی سے واقف ہو جائے گا۔ خدا کرے، خدا کرے نیاز اللہ صاحب خیریت سے رہیں، خدا کرے اس بدبخت سادھو کے دل میں ان کا خیال نہ آئے۔ بس یہی دُعا میرے دل میں تھی۔ نجانے یہ سفر کب تک جاری رہا۔ وقت کا بھی کوئی اندازہ نہیں ہو رہا تھا، نیم دیوانگی کی سی کیفیت طاری تھی، بار بار گردن پرہاتھ پہنچ جاتا اندازہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا کہ گردن پر کیسا زخم ہے، ٹٹولنے سے کوئی احساس نہیں ہوتا تھا۔
نجانے کتنا سفر طے ہوگیا پھر مجھے روشنیاں نظر آئیں۔ مدھم مدھم روشنیاں آبادی کا نشان دے رہی تھیں، میں شاید شہر کی حد میں داخل ہوگیا تھا۔ شہر میں داخل ہوا لیکن یہ سب کچھ تو اجنبی اجنبی لگ رہا تھا… یہ وہ جگہ تو نہیں تھی، میرا مطلب ہے وہ آبادی تو نہیں تھی جہاں نیازاللہ صاحب رہتے تھے۔ راستہ بھٹک کر کسی اور ہی سمت نکل آیا تھا۔ اتنے دن میں تھوڑا بہت اندازہ ان علاقوں کے بارے میں لگا چکا تھا۔ یقینی طور پر یہ نیازاللہ صاحب کی بستی نہیں تھی۔ دل چاہا کہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑوں۔ صبح ہونے میں شاید تھوڑی ہی دیر رہ گئی تھی۔ ایک درخت نظر آیا اور اس کے نیچے جا بیٹھا، پھر درحقیقت آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں دیر تک دل کی بھڑاس نکالتا رہا۔ بھوک لگ رہی تھی اور چاروں طرف نظریں دوڑا رہا تھا۔ ویسے بھی رامانندی کے ساتھ قیام کے دوران کھانے پینے کو کچھ نہیں ملا تھا، بس درختوں کے پھلوں وغیرہ پر ہی گزارا کرتا رہا تھا۔ اس وقت بھوک کچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگی تھی۔ آنسو خشک کئے، گردن کی تکلیف کم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی، اپنی جگہ سے ہٹا اور کافی دُور چلنے کے بعد مجھے ایک جگہ روشنی سی نظر آئی۔ یہ کوئی چھوٹا سا جھونپڑا ہوٹل تھا جہاں شاید نہاری پکائی گئی تھی اور تندور پر روٹیاں لگ رہی تھیں۔ ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہی بھوک نے کچھ ایسی شدت اختیار کی کہ میرے قدم اس کی جانب بڑھ گئے۔ چند افراد کاموں میں مصروف تھے، غالباً صبح ہی صبح تمام تیاریاں کرلی گئی تھیں۔ گاہکوں کے آنے میں ابھی دیر تھی، پیسے نام کی کوئی چیز میرے پاس موجود نہیں تھی لیکن دل مچل رہا تھا، وہ کرنے پر آمادہ ہوگیا جو کبھی نہیں کیا تھا۔ میں ان لوگوں کے پاس پہنچ گیا۔
’’کھانا کھانا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تیار ہے بابو، بہت صبح گھر سے نکل آئے۔‘‘ تھڑے پر بیٹھے ہوئے بھاری بھرکم شخص نے کہا۔
’’مسافر ہوں بھائی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’بیٹھو، اندر بیٹھ جائو۔‘‘ اس نے نرمی سے اشارہ کیا اور میں اندر جا بیٹھا۔ ’’رمضان دیکھ بابو کو۔‘‘ اس شخص نے زور سے کہا اور ایک دُبلا پتلا آدمی میرے پاس پہنچ گیا۔
’’بولو بابو…؟‘‘
’’کھانا لے آئو بھائی۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا اور وہ آوازیں لگانے لگا۔ میرا دل دھڑک رہا تھا، پیٹ کا دوزخ تو بھر جائے گا مگر اس کے بعد جو بے عزتی ہوگی اس کا احساس تھا، ان لوگوں کی نرمی کیا رُخ اختیار کر جائے گی۔ آہ! کبھی ایسا نہیں کیا تھا دل رو رہا تھا مگر یہ لمحے بھی میری تقدیر میں لکھے تھے۔ پھولی ہوئی خمیری روٹیاں اور سرخ تار والی نہاری کیا لذت دے رہی تھی بیان نہیں کر سکتا۔ کاش کچھ پاس ہوتا وہی دے کر ان لوگوں کو مطمئن کر سکتا۔ کھانا لیا، دو روٹیاں ختم ہوگئیں پیٹ میں پتا ہی نہ چلا میں نے اسے اور کھانا لانے کے لیے کہا، چھ پلیٹ سالن اور بارہ روٹیوں تک تو کام چل گیا حالانکہ میرے ہر بار کے آرڈر پر کھانا لانے والے کے چہرے پر حیرت پھیل جاتی تھی اور جب میں نے ساتویں پلیٹ مانگی تو وہ کسی قدر خوفزدہ ہوگیا، اس نے مجھے خوفزدہ نظروں سے دیکھا اور بولا۔
’’یہ سب کہاں جا رہا ہے بابو…‘‘
’’ایں…؟‘‘ میں چونک پڑا۔
’’دیکھنے میں تو معمولی لگتے ہو کوئی پہلوان ہوکیا۔‘‘
’’اور کھانا لا سکتے ہو…؟‘‘
’’ہمیں کیا… دیگ کھا جائو پوری۔‘‘ وہ آگے بڑھ گیا البتہ اس نے دیگ پر بیٹھے ہوئے آدمی سے کچھ کہا تھا اور وہ بھی چونک کر مجھے دیکھنے لگا تھا۔ دونوں میں کچھ باتیں ہوئیں اس بار وہ چھ روٹیاں اور سالن لے آیا۔ اس کے احساس دلانے سے میں بھی چونکا تھا اور مجھے اندازہ ہوا تھا کہ میں کتنا کھا چکا ہوں مگر پیٹ… یوں لگتا تھا جیسے کچھ نہ کھایا ہو۔ آہ! یہ نئی افتاد تھی۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے لاکھ کئی دن کے بعد گوشت چکھا تھا مگر بارہ روٹیاں؟ مجھے تعداد یاد تھی مگر ہاتھ نہ رُکے، میں ان روٹیوں کو بھی چٹ کر گیا اب کیا کروں؟ میں نے کھانا لانے والے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں مگر وہ کہیں کھسک لیا تھا، سامنے پانی کا بھرا ہوا جگ رکھا تھا۔ گلاس میں پانی اُنڈیل کر پیا اور پھر پانی پیتا چلا گیا چند گلاس میں ہی جگ خالی ہوگیا تھا، نہاری کی دیگ کے پیچھے بیٹھے شخص نے دیکھ لیا تھا اور اس کام دَم خشک لگ رہا تھا۔ میں اپنی جگہ سے اُٹھا اور جیسے ہی بنچ کے پیچھے سے نکلا وہ شخص بھی جلدی سے تھڑے سے نیچے اُتر آیا۔
’’اور پانی مل سکے گا بھائی۔‘‘
’’ہو… ہو… ہے۔‘‘ اس نے ٹنکی کی طرف اشارہ کیا اور میں وہاں پہنچ گیا، گلاس پر گلاس پیئے جا رہا تھا مگر نہ بھوک مٹی تھی نہ پیاس۔ جھلّا کر گلاس رکھ دیا اور پھر آخری مرحلے سے نمٹنے کے لیے تیار ہوگیا مگر ایک عجیب چیز دیکھنے کو ملی، تھڑے پر بیٹھا ہوا شخص غائب تھا۔ بیرا تو پہلے ہی غائب ہوگیا تھا یہاں تک کہ تندور پر روٹیاں لگانے والے بھی اپنی جگہ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ ایک لمحے تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا مگر پھر ہنسی آ گئی۔ کام دُوسرے انداز میں بن گیا۔ وہ لوگ شاید میری خوراک سے خوفزدہ ہوگئے تھے اور نہ جانے کیا سمجھ کر بھاگ نکلے تھے مگر عزت رہ گئی تھی۔ میں خود بھی تیز تیز قدموں سے وہاں سے چل پڑا اور اس جگہ سے بہت دُور آ کر سکون کی سانس لی… مگر قصہ کیا ہے؟ یہ کوئی بیماری ہے، اتنے دنوں کی بھوک ہے یا بھوریا چرن کا کوئی انعام؟ آہ! آخری بات دل کو لگتی تھی۔ بھوک اب بھی کم نہیں ہوئی تھی اور گردن کی تکلیف کا بھی وہی عالم تھا۔
آبادی جاگتی جا رہی تھی، زندگی کے معمولات شروع ہوگئے تھے، ایک پلیا پر بیٹھ کر میں ان خوش نصیبوں کو دیکھنے لگا جو اتنی صبح جاگ کر زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے نکل کھڑے ہوئے تھے، اپنے عیش و آرام کو ترک کر کے لیکن میری نسبت وہ کس قدر خوش نصیب تھے کہ انہیں ایسی کسی مصیبت میں نہیں گرفتار ہونا پڑا تھا۔ آہ! کاش میرے ابتدائی اقدامات بھی دُرست ہوتے، میں بھی دُنیا کے ان رہنے والوں کی مانند ایک اچھے انسان کی طرح زندگی گزارتا اور انہی لوگوں کی مانند تلاش رزق میں نکل کھڑا ہوتا۔ آہ! کاش میں آسان ذرائع سے جائز اور ناجائز طریقوں سے دولت کے ڈھیر لگانے کے باے میں نہ سوچتا، کیا حسین زندگی ہوتی ہے، صبح سے شام تک محنت کی جائے اور اس کے بعد گھر کا رُخ کیا جائے جہاں اپنے ہوتے ہیں لیکن ایک میں بدنصیب تھا بھائی، بہن، ماں، باپ، پیار کرنے والا دوست ماموں، لیکن سب سے دُور، سب کے لیے عذاب کا باعث، کاش تھوڑا سا سوچنے کا موقع مل جاتا اور میں اپنے راستے دُرست کر سکتا مگر اب تو سب کچھ چھن گیا تھا، سب کچھ… ہاتھ تھا کہ مسلسل گردن پر مصروف تھا، گردن پھوڑا سی لگ رہی تھی، جو کچھ ابھی ہو چکا تھا وہ بھی ناقابل یقین تھا لیکن قابل یقین بات ہی کونسی تھی، لوگوں کو بتاتا تو سب حیرت زدہ ہی ہوتے، اب تک ایسا ہی ہوا تھا، بڑا عجیب معاملہ تھا اور میں سمجھ رہا تھا کہ بھوریا چرن کا یہ وار سب سے زیادہ سخت ہے، اب تک تو دُنیا ہی سے چھپتا پھرا تھا اور دُنیا کے لیے اپنے آپ کو نقصان دہ سمجھتا رہا تھا… لیکن بات اب اپنی ہی ذات پر آگئی تھی، اس بھوک کا کیا ہوگا؟ ناقابل یقین حد تک کھا پی کر آیا تھا، بھلا اتنی ساری روٹیاں اور اتنا سارا سالن جو میری جیسی جسامت کے آٹھ دس آدمیوں کے لیے کافی ہو، میں اکیلا ہی چٹ کر گیا تھا۔ اتنا پانی پی گیا تھا کہ بیچارے ہوٹل میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی اُٹھ کر بھاگ گئے مگر بھوک… بھوک نہ مٹی تھی، ہونٹ خشک ہو رہے تھے، اس عالم میں کیا جی سکوں گا، دل یہ چاہ رہا تھا کہ کچھ کھائوں لیکن ذہن تسلیم نہیں کر رہا تھا۔ بے بسی کی نگاہوں سے وہیں پلیا پر بیٹھا لوگوں کو دیکھتا رہا۔ سورج نکل آیا تھا پھر نیازاللہ صاحب کا خیال آیا، یہ بستی کون سی ہے آخر… یہ نیازاللہ صاحب کی بستی تو نہیں ہے؟ کوئی منظر وہاں کا سا نہیں ہے، نجانے کہاں نکل آیا ہوں، دل میں تجسس سا جاگا اور معلومات کرنے نکل پڑا اور پھر اس بستی کا نام بھی معلوم ہوگیا، وہ جگہ نہیں تھی، پتا نہیں بے چارے نیازاللہ صاحب کا کیا ہوا؟ خدا انہیں محفوظ رکھے، ایک درخت کے نیچے آ بیٹھا، نیند کا سا جھونکا محسوس ہوا اور آنکھیں بند ہوگئیں، درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا۔ نجانے کب تک سوتا رہا۔ جاگا تو شام ہو چکی تھی اور بھوک تھی کہ کم بخت پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی، کیا کروں، آہ! کیا کروں؟ وہاں سے ہٹا اور آگے بڑھ گیا، ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں پھلوں کا کاروبار ہوتا تھا، ایک سمت گلے سڑے پھلوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ قدم رُک گئے اور وہیں بیٹھ گیا اور ان گلے سڑے پھلوں کو اُٹھا اُٹھا کر کھانے لگا، لوگ مجھے دیکھتے ہوئے گزر رہے تھے لیکن اب جو افتاد پڑی تھی اسے گزارنا ہی تھا۔ یہ پھل میں اپنے معدے میں اُتارتا رہا اور خاصا بڑا حصہ صاف کر دیا لیکن بھوک نہیں مٹی تھی، آہ! بھوک نہیں مٹی تھی۔ وہاں سے ہٹا اور تھوڑے فاصلے پر جا بیٹھا، اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا، پورا دن گزر گیا تھا، مجھے اندازہ تھا کہ مصیبت میرا پیچھا نہیں چھوڑے گی، جو کچھ ہوا ہے اسے ٹالنے کا کوئی ذریعہ میرے پاس نہیں تھا، گزاروں گا، اس طرح بھی گزاروں گا بھوریا چرن، لیکن تیری بات نہیں مانوں گا، کسی قیمت پر نہیں مانوں گا کتے، یاد رکھنا، یاد رکھے گا تو بھی کہ کس سے واسطہ پڑا تھا۔
رات گہری ہوگئی تو سونے کی کوشش کرنے لگا۔ نیند نہیں آ رہی تھی پھر آدھی رات گزری تو آنکھیں خود بخود ایک دُوسرے سے جڑ گئیں۔ صبح شام، دن رات میں سڑکوں اور گلیوں میں مارا پھرتا تھا ایک اور کیفیت مجھے محسوس ہونے لگی تھی، جس کا پہلا نمونہ دیکھتے ہی میرا دل خون کے آنسو رو پڑا، وہ یہ تھی کہ بدن کے مختلف حصوں میں ننھے ننھے سرخ دانے نمودار ہوگئے تھے، پھر ان دانوں میں سوراخ ہوگئے اور ان سوراخوں سے باریک مٹی جیسی کوئی چیز باہر نکلنے لگی، یہ چیز ان سوراخوں کے اُوپر جمع ہو جاتی تھی میں اسے صاف کرتا تو ایک ہلکی سی سوزش محسوس ہوتی اور اس میں لذت کا سا احساس ہوتا…! پتا نہیں یہ کیا ہو رہا تھا۔ دانے پورے بدن پر پھیل گئے۔ وہی ہوتا، پہلے دانے نکلتے پھر سوراخ ہو جاتے۔ دو تین دن کے بعد ان سوراخوں سے مٹی جیسی خشکی نکلنا بند ہوئی اور گاڑھا سیال نکلنے لگا، بدن پر سفید سفید نشان بننے لگے تھے۔ حواس معطل رہے، سب سے زیادہ بھوک نے نڈھال کر دیا تھا۔ لوگ مجھ سے دُور بھاگنے لگے وہ مجھ سے گھن کھاتے تھے۔ ویسے وہ مجھے کھانے پینے کی چیزیں دے دیا کرتے تھے، کئی بار ایسا بھی ہوا کہ میں تھک ہار کر کسی جگہ بیٹھ گیا اور لوگوں نے میرے سامنے پیسے پھینکنا شروع کر دیئے۔ لباس بوسیدہ ہوگیا تھا اور بدن کے سوراخوں سے نکلنے والا سیال لباس کو بھگو کر سڑنے لگتا تھا جس سے بدبو اُٹھتی تھی۔ پھر ایک دن میں ایسے ہی بیٹھا اپنی تقدیر پر غور کر رہا تھا کہ ایک سفید گاڑی میرے پاس آ کر رُکی۔ بڑی سی وین نما گاڑی تھی، اس سے کئی افراد نیچے اُترے، ایک شخص ان کی رہنمائی کر رہا تھا۔
’’یہ ہے۔‘‘ رہنمائی کرنے والے شخص نے کہا۔
’’ہوں…! پاگل بھی ہے؟‘‘ دُوسرے شخص نے پوچھا۔
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔‘‘ دُوسرا آدمی دو اور آدمیوں کو اشارہ کر کے میرے قریب آ گیا۔
’’اُٹھو…!‘‘ اس نے کہا۔
’’جی…؟‘‘ میں حیرت سے بولا۔
’’مگر کہاں…؟‘‘
’’اسپتال، تمہیں علم نہیں ہے کہ تم کوڑھی ہو؟‘‘
’’کک… کوڑھی۔‘‘ میری آواز رندھ گئی۔ میں نے کوڑھ کا صرف نام سنا تھا، یہ علم تھا مجھے کہ یہ بہت خطرناک مرض ہے مگر اپنے بارے میں یہ خیال مجھے کبھی نہیں آیا تھا، اپنے جسم کی اس کیفیت سے یہ تصور میرے ذہن میں کبھی نہیں اُبھرا تھا۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں، حلق میں ایک گولا سا آ پھنسا۔
’’گھبرانے کی بات نہیں تمہارا علاج ہوگا تم ٹھیک ہو جائو گے مگر تمہارا اس طرح سڑکوں پر پڑے رہنا اچھا نہیں ہے۔ یہ یہاں کی میونسپلٹی کے رُکن ہیں انہوں نے ہمیں تمہارے بارے میں اطلاع دی اور ہم تمہیں لینے آ گئے۔ آئو ہمارے ساتھ چلو، میں خاموشی سے اُٹھ کر گاڑی میں جا بیٹھا اور گاڑی چل پڑی، دل رو رہا تھا یہ بھی ہونا تھا۔ ٹھیک ہے، ہو جائے اس کے بعد کیا ہوگا۔‘‘
گاڑی کا سفر بہت طویل تھا اس کا اختتام ایک شاندار عمارت پر ہوا تھا۔ مجھے اُتار کر ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ میں کرسی پر بیٹھ گیا، بڑی صاف ستھری جگہ تھی کچھ دیر کے بعد ایک نرس آئی اور اس نے مجھے ایک لباس دیتے ہوئے کہا۔
’’میرے ساتھ آئو…!‘‘ میں خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑا۔ ایک دروازے کے قریب رُک کر اس نے کہا۔ ’’یہ غسل خانہ ہے، اندر ایک بڑا ڈبہ رکھا ہے جس پر ڈھکن ہے، اپنا یہ لباس اُتار کر اس ڈبے میں ڈال دینا اور غسل کر کے یہ لباس پہن لینا۔‘‘
’’بہتر ہے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا اور غسل خانہ میں داخل ہوگیا، نرس کی ہدایت پرعمل کر کے میں دُوسرے لباس میں باہر آیا تو نرس میرا انتظار کر رہی تھی۔ وہ مجھے ساتھ لے کر ایک اور بڑے کمرے میں داخل ہوگئی اور اس نے مجھے یہاں ایک جگہ بٹھا دیا، دو عورتیں اور تین مرد یہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ بھی میری طرح کوڑھی تھے۔ کافی دیر انتظار کرنا پڑا پھر میری طلبی ہوگئی، اندر کئی ڈاکٹر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا گیا اور پھر ان میں سے ایک نے کہا۔
’’کیا نام ہے تمہارا…؟‘‘
’’مسعود احمد…!‘‘
’’باپ کا نام…؟‘‘
’’محفوظ احمد…!‘‘
’’تمہارے اہل خاندان کہاں ہیں؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم…!‘‘
’’کیوں…؟‘‘
’’میں طویل عرصے سے ان سے بچھڑا ہوا ہوں۔‘‘
’’خاندان میں، والدین میں کوئی اور اس مرض کا شکار تھا…؟‘‘
’’خدا نہ کرے… یہ بدنصیبی صرف میرے حصے میں آئی ہے۔‘‘ انہوں نے اس مرض کی ابتدا پوچھی، عرصے کے بارے میں معلوم کیا، مزید کیفیات پوچھیں تو میں نے بھوک کے بارے میں بتایا۔‘‘
’’یہاں تم پیٹ بھر کر کھانا، ایک ہمدرد ڈاکٹر نے کہا اور پھر مجھے اس اسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ جنرل وارڈ تھا، بہت سے مریض تھے، بھیانک چہرے، جذام کا شکار انہیں دیکھ کر خوف آتا تھا مگر تقدیر میں یہ بھی لکھا ہوا تھا۔ میرے بہت سے ٹیسٹ ہوئے، ان کی رپورٹیں موصول ہوئیں تو ڈاکٹروں کو حیرت ہوئی کیونکہ ان کے خیال کے مطابق میرے خون میں کوڑھ کے جراثیم نہیں تھے۔ مجھے ڈاکٹروں کے بورڈ کے سامنے ان تمام رپورٹوں کے ساتھ پیش کیا گیا اور ڈاکٹروں نے پھر انٹرویو لیا مگر میں اس پناہ گاہ کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا، یہاں کچھ سکون تھا۔ میں نے انہیں بھوریا چرن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا مگر مجھے جنرل وارڈ سے اسپیشل وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ میرا انوکھا مرض ڈاکٹروں کو دلچسپ لگا تھا اور وہ اس پر تحقیق کرنا چاہتے تھے۔ مجھے بھوک کی تکلیف کے سوا اور کوئی تکلیف نہیں تھی۔ اسپیشل وارڈ میں میرے ساتھ تین مریض تھے جن میں ایک معمر شخص جو کافی تعلیم یافتہ اور نمازی آدمی تھا، نام سلیم بیگ تھا اور دُوسرا شہزادہ تھا جس کی عمر تیس سال کے قریب تھی، تیسرا فرید شاہ تھا۔ سلیم پانچوں وقت کا نمازی اور خوش اخلاق آدمی تھا، اس سے میری زیادہ دوستی ہوگئی تھی لیکن میں نے اسے بھی اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔
ڈاکٹروں نے پہلا تجربہ میری بھوک پرکیا اور انہوں نے مجھے کھانے کے انبار کے سامنے بٹھا دیا، مجھے کھانے کی کھلی چھٹی تھی، میں نے کھانا شروع کر دیا اور ڈاکٹروں کو چکر آ گئے۔ بہت دیر کے بعد انہوں نے مجھے کھانے سے روکا، میرا وزن کیا مگر وزن نارمل تھا۔ ان سب کے لیے یہ نہایت حیران کن بات تھی۔ ایک ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا۔
’’تم ہمیشہ اتنا کھاتے ہو…؟‘‘
’’نہیں ڈاکٹر صاحب… اس مرض کے آغاز کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔‘‘
’’مزید کتنا کھا سکتے ہو…؟‘‘ دُوسرے ڈاکٹر نے سوال کیا۔ ’’کوئی انتہا نہیں ڈاکٹر صاحب…!‘‘
’’اگر تمہیں علاج کے لیے ملک سے باہر جانا پڑے تو جائو گے؟‘‘
’’ہاں جینا چاہتا ہوں ڈاکٹر صاحب…!‘‘ میں نے درد بھرے لہجے میں کہا۔ آنکھوں میں خودبخود آنسو آ گئے تھے۔ ڈاکٹروں نے مجھے تسلیاں دیں اور چلے گئے۔ اس رات دِل بڑا بے چین تھا، طبیعت پر بوجھ طاری تھا، بستر سے اُٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ باہر پُرسکون سنّاٹا پھیلا ہوا تھا۔ دُور بلندی پر کچھ روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ میں ان روشنیوں کو دیکھتا رہا۔ دل میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے۔ اس کائنات میں لوگ بڑے بڑے جرم کر لیتے ہیں۔ پھر بھی بعض تو آرام سے زندگی بسر کر جاتے ہیں۔ کیا میں اس دُنیا میں سب سے بڑا مجرم ہوں…؟ کیا اللہ کے حضور میری توبہ کے دروازے بند ہو چکے ہیں؟ کیا میری توبہ کبھی قبول نہ ہوگی؟ دل بہت دُکھ رہا تھا، آنکھوں میں حسرت اُبھر آئی تھی۔ اچانک دل ہل کر رہ گیا کسی نے عقب سے میرے شانے پر ہاتھ رکھ دیا تھا، کوئی آواز نہیں سنائی دی پھر یہ ہاتھ کس کا ہے، گھوم کر دیکھتے ہوئے خوف محسوس ہو رہا تھا…!
بدن پر کپکپی تھی۔ اب تو اعصاب بھی کمزور ہوگئے تھے۔ کون ہے یہ کون ہے۔ کیا بھوریا چرن…؟
’’رو رہے ہو بیٹے۔‘‘ عقب سے آنے والی آواز نرم اور شفیق تھی۔ میں اس آواز کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر مجھے اپنے اس خوف پر شرمندگی ہوئی۔ آواز تو سلیم بیگ کی تھی۔ میرے خوف سے کپکپاتے بدن کو دیکھ کر سلیم بیگ سمجھا تھا کہ میں رو رہا ہوں۔ میں نے گہری سانس لے کر رخ بدل لیا۔
’’نہیں سلیم چچا…!‘‘
’’ایسا ہی لگا تھا۔ رات تو بہت گزر گئی، نیند نہیں آئی؟‘‘
’’ہاں! طبیعت کچھ بے چین ہے۔‘‘
’’ایک بات کہوں بیٹے۔‘‘
’’جی چچا!‘‘
’’نماز پڑھا کرو۔ ساری بے چینی دور ہوجائے گی۔ اللہ نے اپنی مخلوق کو خود سے قریب آنے کے بہت سے راستے کھولے ہیں اور ان میں سب سے افضل نماز ہے جس میں تم اس کے حضور ہوتے ہو، تمہارا تصور اس کی حمد و ثناء میں ہوتا ہے اور جب خیال اس ذات باری کی طرف ہو تو کوئی اور خیال بے چین نہیں کرتا۔ نماز شروع کرکے دیکھو بیٹے! ایک تجربہ کرلو، تمہیں فائدے کا خود اندازہ ہوجائے گا۔‘‘
دل کو ایک عجیب سا دھکا لگا تھا۔ سب کچھ کرتا رہا تھا۔ نہ جانے یہ کیوں نہ کیا تھا۔
’’نماز آتی ہے؟‘‘
’’بھول گیا ہوں چچا…!‘‘
’’کوئی مشکل ہی نہیں۔ تھوڑی دیر میں یاد کرا دوں گا۔‘‘
’’ہمارے کپڑے۔ بدن کا کوڑھ۔ کپڑے تو خون اور پیپ سے گندے ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’یہ مجبوری ہے۔ بیماری بھی خالق کا تحفہ ہے۔ دل کی طہارت ضروری ہے، غلاظت تو ہمارے سارے وجود میں بھری ہے۔ روح سے بدن عاری ہوجائے تو اس غلاظت کا تعفن دیکھو ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ بس روح طاہر ہے، اس کی طہارت افضل ہے۔ دل سے ضرور پاک رہو، وہ مجبوریاں معاف کردیتا ہے۔ آئو پھر بے چینی کے یہ لمحات اس کی یاد میں گزار دیں۔ دیکھو بے چینی کیسے بھاگتی ہے۔ فجر کی نماز دونوں ساتھ پڑھیں گے۔‘‘ میں کھڑکی کے پاس سے ہٹ آیا اور سلیم بیگ مجھے طریقۂ نماز سکھانے لگے۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ بہت کچھ یاد آرہا تھا۔ بڑے عجیب سے احساسات ہورہے تھے۔ ہم کس طرح وقت کے دھارے میںبہہ جاتے ہیں۔ بچپن تھا۔ محمود بھی چھوٹا تھا۔ عید آتی تھی، امی دونوں بھائیوں کو تیار کرتی تھیں، ماموں ریاض انگلیاں پکڑے ہوتے تھے۔ ہم نماز پڑھنے جاتے تھے۔ ابو نماز کی تلقین کرتے تھے۔ چھوٹے تھے تو خوف سے نماز پڑھتے تھے، بڑے ہوئے تو سرکشی شروع کردی۔ جمعہ کے دن غائب ہوگئے۔ رفتہ رفتہ ابو نے کہنا چھوڑ دیا۔ سلیم بیگ صاحب آیات الٰہی دہراتے رہے اور میرا ذہن ماضی میں بھٹکتا رہا۔
’’اب سو جائو، فجر کے وقت جگا دوں گا۔ جگا دوں نا…‘‘
’’جی…!‘‘ میں نے کہا اور لیٹ گیا۔ سلیم بیگ صاحب بھی لیٹ گئے۔ جانے کب نیند آئی تھی، پتا نہیں سویا بھی تھا یا نہیں۔ سلیم بیگ صاحب نے جھنجھوڑا تو فوراً آواز دی۔ ’’ہاں چچا! جاگ رہا ہوں ، کیا بات ہے؟‘‘
’’بھول گئے۔ فجر کی اذان ہورہی ہے، اٹھ جائو بیٹے! نماز افضل ہے نیند سے۔‘‘
’’جی چچا…!‘‘ میں نے کہا اور اٹھ گیا۔ نماز پڑھی اور پھر سلیم بیگ سے باتیں کرتا رہا۔ دو دن گزر گئے۔ کوئی تکلیف نہیں تھی مگر بھوک کی تکلیف سے نڈھال رہتا تھا۔ حالانکہ مجھے ایک وقت میں کم ازکم چھ افراد کی خوراک دی جاتی تھی۔ کھاتے ہوئے شرمندگی ہوتی تھی مگر دل نہیں بھرتا تھا۔ تیسری دوپہر کچھ نئے ڈاکٹر آئے اور مجھے خصوصی طور پر ان کے سامنے پیش کیا گیا۔ میری ساری رپورٹیں ان کے سامنے تھیں۔
’’ہم تمہیں جرمنی بھیجنا چاہتے ہیں۔ تمہاری تفصیل وہاں بھجوائی جا چکی ہے اور وہاں کے ڈاکٹر تم پر تجربات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تجربات تمہاری موت پر بھی ختم ہوسکتے ہیں۔ تم کہتے ہو تم لاوارث ہو اس لیے کسی اور سے تو تمہارے بارے میں کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ تم بتائو، تم تیار ہو۔‘‘
’’جی…؟‘‘ میں ہکابکا سا رہ گیا۔
’’تم سے اس بارے میں پوچھا گیا تھا اور تم نے آمادگی کا اظہار کیا تھا۔‘‘ پرانے ڈاکٹروں میں سے ایک نے کہا۔
’’جی ہاں! مجھے یاد ہے۔ مجھے کب جانا ہوگا…‘‘
’’کچھ دن لگ جائیں گے۔ حکومت تمہاری روانگی کے انتظامات کرے گی۔ تمہاری موت کی تو محض ایک بات کہی گئی ہے۔ زیادہ امکانات تمہارے درست ہوجانے کے ہیں۔ تمہارے کوڑھ کے مرض کا تو یہاں علاج ہورہا ہے۔ اصل مسئلہ تمہاری اس بھوک کا ہے اور جرمنی کے ڈاکٹر اسی سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ شاید وہ تمہارے معدے کا آپریشن کریں۔ اس کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر تم آمادہ ہو تو اس فارم پر دستخط کردو۔‘‘ انہوں نے ایک فارم میرے سامنے کردیا۔
’’میں سوچنا چاہتا ہوں ڈاکٹر صاحب!‘‘
’’کیسی باتیں کرتے ہو۔ ہم نے تمہارے لیے بڑی کوشش کی ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔
’’اگر میں آپ کو اس بھوک کی کہانی سنا دوں ڈاکٹر صاحب تو آپ اسے محض ایک دلچسپ افسانہ کہیں گے، اس پر کبھی یقین نہ کریں گے۔ میرا علاج جرمنی میں نہیں ہے بلکہ… بلکہ اسی ملک میں ہے۔‘‘
’’بقراط بننے کی کوشش نہ کرو۔ ہمیں کسی کہانی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جانا چاہتے ہو تو اس فارم پر دستخط کردو۔‘‘
’’سوچنا چاہتا ہوں ڈاکٹر صاحب! اور یہ ضروری ہے۔‘‘
’’ہم اسے مجبور نہیں کرسکتے۔ یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ اسے سوچنے کا موقع ضرور دو!‘‘ نئے آنے والے ڈاکٹروں میں سے ایک نے کہا اور مجھے واپس میرے کمرے میں بھجوا دیا گیا۔ میں نے جو کچھ کہا تھا، سچ کہا تھا۔ میری بیماری جو کچھ تھی، میں جانتا تھا۔ یہ بے چارے یا جرمنی کے ڈاکٹر کیا کرسکتے تھے۔ ہاں دل میںایک خیال ضرور آرہا تھا۔ بھوریا چرن سے اتنا دور نکل جائوں تو شاید اس سے جان بچ جائے گی لیکن سب یہیں رہ جائیں گے۔ ان سے ملنے کی آخری آس بھی ٹوٹ جائے گی۔ یہ آس بھی زندگی تھی اور میں اس زندگی سے دور نہیں جانا چاہتا تھا۔ اس رات پھر بے چینیوں نے دل میں بسیرا کرلیا تھا۔ عشاء کی نماز پڑھ کر کھانا کھایا اور پھر لیٹ گیا۔ سب سو گئے تھے۔ میں اٹھا، کھڑکی کھول کر کھڑا ہوگیا۔ تاریکیاں سامنے تھیں۔ بہت دور انہی بلندیوں پر روشنی ٹمٹما رہی تھی۔ ہوا کے دوش پر کچھ شور کی سی آوازیں ابھر رہی تھیں۔ دل بوجھل ہورہا تھا۔ ڈاکٹر دوبارہ مجھ سے سوال کریں گے، کیا جواب دوں گا انہیں۔ کیسے بتائوں گا کہ میرا علاج تو بہت آسان ہے۔ اس گندی روح کو آواز دوں، وہ آجائے گی۔ مجھے کسی نہ کسی طرح یہاں سے نکال لے جائے گی۔ اس کی مکروہ خواہش پر سر جھکا دوں، ایمان کھو دوں۔ سب ٹھیک ہوجائے گا سوائے اس کے کہ عاقبت کے لیے کچھ نہ ہوگا بجز گناہوں کے انبار کے!
’’عرس ہورہا ہے شاید…!‘‘ پیچھے سے آواز ابھری اور میں چونک پڑا۔ نہ جانے کب سلیم بیگ میرے پیچھے آکھڑے ہوئے تھے۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ پھر بولے۔ ’’قوالیاں ہورہی ہیں۔‘‘
’’کہاں…؟‘‘
’’مزار پر…!‘‘
’’کونسے مزار پر…؟‘‘
’’یہ آوازیں نہیں سن رہے۔ وہیں سے آرہی ہیں۔‘‘
’’مزار کہاں ہے…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ روشنیاں جو نظر آرہی ہیں، مزار ہی کی تو ہیں۔‘‘
’’کس کا مزار ہے؟‘‘
’’بابا جلال شاہ کا۔ لوگ یہی کہتے ہیں۔ دیکھا تو کبھی نہیں ہے۔‘‘ سلیم بیگ نے کہا۔
’’کافی فاصلے پر ہے۔‘‘
’’ہاں! بہت دور ہے۔ دن میں تو نظر بھی نہیں آتا، رات کو بس روشنیاں نظر آجاتی ہیں۔ اس وقت قوالیوں کی آوازیں بھی ہوا کے ساتھ آرہی ہیں۔ ہوا کا رخ بدل جائے تو آواز بھی نہیں آئے گی۔‘‘
’’چلیں…؟‘‘ میں نے بے اختیار کہا۔
’’کہاں…؟‘‘ سلیم بیگ حیرت سے بولے۔
’’عرس دیکھیں، قوالیاں سنیں۔‘‘ میں نے کہا اور سلیم بیگ خاموش ہوگئے۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ساکت کھڑے رہ گئے تھے۔ میں ان کے جواب کا انتظار کرتا رہا۔ پھر کچھ بولنا چاہتا تھا کہ اچانک ان کی سسکیاں ابھرنے لگیں اور میں حیران ہوگیا۔ ’’ارے… ارے سلیم چچا! میں نے تو کچھ نہیں کیا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں بیٹے! بس ایسے ہی دل بھر آیا تھا۔ تمہارا دل چاہتا ہے نا سب دیکھنے کو۔ عمر ہی ایسی ہے مگر… اللہ کا حکم… وہ خود ہی سب کچھ جانتا ہے۔ بیٹے ہمیں کوئی اپنے درمیان کہاں قبول کرے گا۔ لوگ ہم سے گھن کھاتے ہیں۔ ہم کیسے جاسکتے ہیں وہاں۔‘‘
’’ہم ان سے دور رہیں گے چچا…‘‘
’’نہیں بیٹے! ویسے بھی گیٹ بند ہوگا۔ چوکیدار اس وقت نہیں جانے دے گا۔‘‘
’’میرا دل چاہ رہا ہے چچا! میں جائوں گا۔‘‘
’’ارے نہیں بیٹے! ممکن نہیں ہے۔ مزار شریف بہت دور ہے اور پھر باہر کیسے جائو گے۔ کمرے کے باہر بھی رات کی ڈیوٹی کے ڈاکٹر ہوں گے۔ سختی کریں گے۔‘‘
’’یہ کھڑکی زیادہ اونچی تو نہیں ہے، کود جائوں گا۔‘‘
’’زخمی ہوجائو گے بیٹے…!‘‘
’’زخمی تو میں ہوں چچا!‘‘
’’ضد سوار ہوگئی ہے تم پر۔ مگر ٹھیک نہیں ہوگا بیٹے! مناسب نہیں ہے۔‘‘
’’میں جارہا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور کھڑکی پر چڑھ گیا۔ سلیم بیگ ’ارے… ارے‘‘ کرتے رہ گئے مگر میں نیچے کود گیا۔ بس دل پر یہ طلب طاری ہوگئی تھی اور پھر میں کوڑھی نہیں تھا۔ میرا بدن مضبوط تھا۔ میں یہ فاصلہ طے کرسکتا تھا۔ میں نے احاطے کی دیوار عبور کی اور تیزی سے دوڑنے لگا۔ مجھے دوڑنے میں کوئی دقت نہیں ہورہی تھی۔ رخ کا تعین کرلیا تھا اور اسی طرف دوڑ رہا تھا۔ ماحول پر دہشت ناک سناٹا طاری تھا۔ چاروں طرف ہوکا عالم طاری تھا۔ اسپتال کی عمارت بہت پیچھے رہ گئی۔ راستے ناہموار تھے۔ کئی جگہ ٹھوکریں لگیں اور میں نے دوڑنے کی رفتار ہلکی کردی۔ اب یہ خوف نہیں رہا تھا کہ اسپتال کے ملازم مجھے پکڑ لیں گے۔ پیچھے ایسے آثار بھی نہیں تھے۔ میرے اردگرد جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں اور کہیں کہیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں نے دوڑنا ترک کرکے چلنا شروع کردیا۔ کچھ اور آگے بڑھا تو کہیں دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ابھریں، پھر اچانک کہیں گیدڑ رونے لگے۔ یہ آوازیں کبھی کبھی انسانی آوازیں لگنے لگی تھیں۔ اچانک میرے حلق سے ایک خوفناک آواز نکل گئی اور میں رک گیا۔ کالے رنگ کا ایک ہولناک کتا مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک جھاڑی کی آڑ سے نکل آیا۔ کتا ہی تھا لیکن اس کی جسامت ناقابل یقین تھی۔ قدو قامت میں وہ کسی گدھے جتنا لگتا تھا۔ آنکھیں رات ہونے کے باوجود چمک رہی تھیں اور خون میں ڈوبی محسوس ہوتی تھیں۔ جبڑے کانوں تک کھلے ہوئے تھے۔ اس نے غرانا شروع کردیا اور ایسی پوزیشن بنا لی جیسے مجھ پر چھلانگ لگانا چاہتا ہو۔ میرے آگے بڑھنے کے راستے مسدود ہوگئے۔ خوف کے مارے میری گھگھی بند گئی۔ اصولاً مجھے پلٹ کر بھاگنا چاہیے تھا مگر بھاگنے کی ہمت بھی نہیں ہورہی تھی۔ کتا خوفناک آواز میں غراتا رہا۔ پھر وہ وحشتناک انداز میں چیخا اور اس نے اگلے دونوں پنجے دبا کر مجھ پر چھلانگ لگا دی۔ میری آنکھیں خودبخود بند ہوگئیں۔ میں مرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ مجھے یقین تھا کہ ایک لمحے میں وہ مجھے دبوچ لے گا، میری گردن اپنے انتہائی حد تک کھلے جبڑوں میں دبا لے گا اور اس کے بعد شاید میں دوسری سانس بھی نہ لے سکوں گا۔ مجھے اس کے بدن کی ہوا اپنے سر سے گزرتی محسوس ہوئی۔ وہ شاید میرے اوپر سے گزر کر دوسری طرف نکل گیا تھا۔ چھلانگ کی غلطی ہوگئی تھی اس سے مگر اس کے گرنے کی آواز نہیں سنی تھی میں نے۔ البتہ میرا پلٹنا فطری تھا۔ بس اسے بچائو کی ایک کوشش کہا جاسکتا تھا لیکن پیچھے کچھ نہیں تھا۔ میرا منہ حیرت سے کھل گیا اور دور دور تک نگاہیں دوڑائیں مگر کوئی متحرک شے نہ نظر آئی۔ دور دور تک وہی خاموشی، وہی سناٹا طاری تھا۔ تب اچانک مجھے احساس ہوا کہ وہ کتا نہیں تھا بلکہ…! بلکہ میرا راستہ روکا جارہا تھا۔ آہ! میرا راستہ روکا جارہا تھا۔ اس احساس نے مجھے ہمت بخشی۔ اگر یہ بات ہے تو پھر میرا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا بلکہ اس کوشش نے میری ہمت بندھا دی تھی۔ میرے دانت بھنچ گئے، دماغ میں خون کی گردش تیز ہوگئی۔ کنپٹیاں گرم ہوگئیں اور میں نے آگے قدم بڑھا دیے۔ کچھ فاصلہ طے کیا تھا کہ اچانک پھٹ پھٹ کی آواز سنائی دی۔
ایک بڑی جھاڑی کے پیچھے سے کچھ گدھ نکل آئے تھے۔ ان کی لمبی گردنیں ہل رہی تھیں اور انہوں نے اپنے پَر چادر کی طرح پھیلائے ہوئے تھے۔ آسمان پر کھلے ہوئے تاروں کی چھائوں میں وہ بہت بھیانک لگ رہے تھے۔ ان کی تعداد چھ تھی اور وہ اس طرح قطار میں پھیل گئے تھے کہ دور تک کا راستہ بند ہوگیا تھا۔ پھر انہوں نے میری طرف بڑھنا شروع کردیا۔ بالکل یوں لگ رہا تھا جیسے بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے کسی پر گھیرا ڈال رہے ہوں۔ میرے حلق سے ایک وحشیانہ دھاڑ نکلی اور میں خود ان کی طرف دوڑ پڑا۔ خوف اور جوش میں ڈوبی اپنی آواز خود مجھے بہت بھیانک لگی تھی اور اچانک وہ گدھ آگے بڑھنے سے رک گئے تھے۔ پھر ان میں ابتری پھیل گئی اور وہ اپنے پیروں پر اچھلنے لگے۔ اسی طرح اچھلتے ہوئے وہ پیچھے ہٹ رہے تھے۔ جونہی میں ایک گدھ کے قریب پہنچا تو اس نے بھیانک چیخ ماری، پَر دبائے اور فضا میں پرواز کرگیا۔ یہ دوسروں کے لیے پروانہ تھا کیونکہ اس کے اڑتے ہی دوسرے گدھوں نے بھی زمین چھوڑ دی۔ اس کے بعد وہ دوبارہ نیچے نہیں جھکے اور بلند ہوکر مختلف سمتوں کو پرواز کرگئے۔ خوف میرے روئیں روئیں میں سما گیا تھا لیکن خوف کے ساتھ جوش بھی تھا۔ بدن اینٹھ رہا تھا مگر قدم دیوانہ وار آگے بڑھ رہے تھے۔ اب شاید میں مزار کے قریب پہنچ رہا تھا کیونکہ جھاڑیوں کے ایک اونچے سلسلے کے دوسری طرف سے روشنی چھن رہی تھی۔ ادھر سے کچھ آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ انسانی آوازیں تھیں۔ وہ کچھ گا رہے تھے، نہ جانے کیا۔ آوازیں مبہم تھیں۔ میں تیز قدم اٹھاتا ہوا جھاڑیوں کے دوسری طرف نکل آیا۔ روشنیاں مشعلوں کی تھیں جو چند لوگوں نے ہاتھوں میں اٹھائی ہوئی تھیں۔ انہوں نے ایک حلقہ سا بنا رکھا تھا اور ان کے درمیان چند ملنگ رقص کررہے تھے۔ وہ کچھ گاتے بھی جارہے تھے جو سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ان کے جسموں پر مٹیالے رنگ کی کفنیاں تھیں جو لہرے لے رہی تھیں۔ وہ کسی قدر گہرائی میں تھے اور میں بلند جگہ جہاں سے میں انہیں بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ میرا اندازہ غلط تھا۔ مزار ابھی دور تھا اور یہ لوگ درمیان میں تھے۔ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ان کے قریب پہنچ گیا مگر قریب سے دیکھنے پر ایک اور انکشاف ہوا۔ ان میں سے کسی کی گردن اس کے شانوں پر موجود نہیں تھی۔ ان کے جسم رقصاں تھے، آوازیں بھی آرہی تھیں مگر سب کے شانے گردنوں سے خالی تھے۔ اس بھیانک منظر کو دیکھ کر میں نے آنکھیں بند کرلیں مگر قدم نہ روکے۔ اب مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ خوف اب دل میں ختم ہوتا جارہا تھا۔ آنکھیں بند کرکے چلنے سے جگہ جگہ ٹھوکریں لگ رہی تھیں، میں لڑکھڑا رہا تھا مگر رک نہیں رہا تھا۔ ملنگوں کی آوازیں مجھے اپنے آگے آگے چلتی محسوس ہورہی تھیں۔ ایک بار آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ سب مجھے اپنے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے نظر آئے۔ انہوں نے مشعلیں پکڑی ہوئی تھیں۔ بے سر والے ناچ رہے تھے، گا رہے تھے اور میرے آگے جلوس کی سی شکل میں آگے بڑھ رہے تھے۔ میں نے رفتار تیز کی تو وہ بھی تیز چلنے لگے۔ آہ! نہ جانے کونسی قوت مجھے زندہ رکھے ہوئے تھی ورنہ اس منظر کو دیکھ کر دل کی دھڑکن بند ہوجانی چاہیے تھی۔ نہ جانے کتنی دور تک چلتا رہا۔ دماغ سنسنا رہا تھا، بدن کی قوتیں سلب ہوتی جارہی تھیں اور اب نہ جانے کون چل رہا تھا، وہ میں تو نہ تھا۔ آوازیں بند ہوگئیں۔ اب قوالی کی آواز نمایاں ہورہی تھیں۔ قوال گا رہے تھے۔
من کی پیاس بجھانے آیا داتا ایک سوالی۔
آنکھیں کھل گئیں۔ بے شمار خلقت تھی، روشنیاں جگمگا رہی تھیں، خوب چہل پہل تھی۔ لوگ نہیں بول رہے تھے، سر کٹے ملنگوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ میں بیٹھنے کے لیے جگہ تلاش کرنے لگا۔ انسانوں کے ہجوم کے درمیان تھا۔ جہاں تک پہنچا تھا، وہیں بیٹھ گیا۔ کچھ فاصلے پر بہت سے لوگ دری بچھائے بیٹھے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ عرس میں شرکت کرنے والوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ لنگر بانٹ رہے تھے۔ میرے قریب آکر رک گئے۔
’’کھانا لو گے؟‘‘
’’ہاں… ہاں!‘‘ میں نے بھرئی ہوئی آواز میں کہا۔
’’برتن ہے…؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’تو پھر کھانا کیسے لو گے؟‘‘
’’رکابی دے دو ایک!‘‘ کسی ہمدرد نے کہا اور انہوں نے سلور کی ایک رکابی میں مجھے چاول دے دیئے۔ بھوک تو سانسوں کا حصہ بن چکی تھی۔ یہ تھوڑے سے چاول کیا حیثیت رکھتے تھے۔ میں انہیں کھانے لگا۔ دری پر بیٹھے ہوئے لوگ مجھے دیکھ رہے تھے۔ جب میں چاول کھا چکا تو ان میں سے ایک نے پوچھا۔
’’پانی چاہیے…؟‘‘
’’دے دو بھائی۔‘‘ میں نے عاجزی سے کہا اور ایک نوجوان پانی لے آیا۔ اس نے جھک کر مجھے پانی دیا اور پھر ایک دم سیدھا ہوگیا۔
’’تم کوڑھی ہو؟‘‘ اس نے بے اختیار کہا۔
’’ایں!‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ وہ جلدی سے پیچھے ہٹ گیا اور پھر اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ کر انہیں میرے بارے میں بتانے لگا۔ میں نے ان سب کے منہ سے کوڑھی، کوڑھی کے الفاظ سنے تھے۔ پھر سب کھڑے ہوگئے۔ دری وہاں سے اٹھا لی گئی اور وہ کسی اور سمت چلے گئے۔ مجھے دلی رنج ہوا تھا مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اچانک چھ سات آدمی میرے پاس پہنچ گئے۔
’’تم یہاں کیوں آبیٹھے، کیا کوڑھ پھیلانا چاہتے ہو؟‘‘
’’نہیں بھائی! میں۔‘‘
’’اٹھو یہاں سے اٹھو۔‘‘ ایک آدمی گرج کر بولا۔
’’چلو بھاگو یہاں سے۔‘‘ دوسرے نے کہا۔ میں بادلِ ناخواستہ اٹھ گیا تھا۔ رکابی اور پانی کا گلاس میں نے نیچے چھوڑ دیا تھا۔ اسی شخص نے پھر چیخ کر کہا۔
’’برتن اٹھائو اپنے، چلو دفع ہو یہاں سے لاحول ولاقوۃ ابے! چلا جا لگائوں ایک ڈنڈا…‘‘ اس جوشیلے شخص نے کہا اور ایک موٹی لکڑی سے مجھے دھکیلنے لگا۔
’’جا رہا ہوں بھائی! جارہا ہوں۔‘‘ میں نے صبر کرتے ہوئے کہا اور دونوں برتن اٹھا کر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ دل رو رہا تھا۔ کیا ناقدری ہے، کیا عزت افزائی ہے واہ! مگر صبر ضروری تھا۔ اس سے دور نکل آیا۔ یہ مزار کا عقبی حصہ تھا۔ پتھر چاروں طرف بکھرے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔ زمین ناہموار تھی۔ اس طرف کوئی نہیں تھا۔ ہاں بلندی سے روشنی ضرور آرہی تھی۔ ایک پتھر پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ خودپر
غور کرنے لگا۔ عجیب سا دل ہورہا تھا۔ کیا بقیہ زندگی یہی ہوگی، کیا اب کبھی میری دنیا مجھے واپس نہیں ملے گی؟ بہت دیر گزر گئی پھر گھنگھروئوں کی آواز سنائی دی۔ کسی کے قدموں کی چاپ تھی۔ گردن اٹھا کر دیکھا تو ایک ملنگ تھا مگر اس کا سر اس کے شانوں پر موجود تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک موٹا سا ڈنڈا دبا ہوا تھا جس پر رنگین کپڑے اور گھنگھرو لگے ہوئے تھے۔ ڈنڈا ٹیکنے سے گھنگھرو بج رہے تھے۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’یہاں نہ بیٹھو بھائی!‘‘ میں نے کہا۔
’’کیوں تیری جاگیر ہے کیا؟‘‘ وہ بولا۔
’’نہیں! میں کوڑھی ہوں۔‘‘
’’مجھے کیا، ہوگا۔‘‘
’’ادھر بیٹھا تھا، ان سب نے مجھے دھکے دے کر بھگا دیا۔‘‘
’’وہ سب کوڑھی ہیں۔ سنا تو نے وہ سب کوڑھی ہیں۔ ان کے دلوں میں کوڑھ ہے۔ یہ دیکھ یہ کیا ہے۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھ سامنے کردیئے جن کی مٹھیاں بند تھیں۔ ’’بتا کیا ہے ان میں…؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘
’’ہاتھ پھیلا۔‘‘ اس نے کہا۔ میں نے ہتھیلی اس کے سامنے کردی۔ ’’کون سی مٹھی کا مال لے گا؟‘‘
’’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘
’’چاہیے، جھوٹ مت بول بتا کونسی مٹھی کھولوں؟‘‘ ملنگ نے کہا۔
’’یہ…!‘‘ میں نے ہتھیلی اس کے ایک ہاتھ کے سامنے کردی اور اس نے مٹھی میں دبی چیز میری ہتھیلی پر رکھ دی۔ ہلکی سی کالی سی کوئی چیز تھی جو میرے ہاتھ پر کلبلانے لگی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا ہے۔ ہاتھ چہرے کے قریب کرکے دیکھا اور حلق سے دھاڑ نکل گئی۔ وہ سیاہ رنگ کا پہاڑی بچھو تھا۔ میں نے بے اختیار چیخ کر اسے ہتھیلی سے جھٹکنا چاہا مگر وہ میری درمیانی انگلی میں اٹک گیا۔ میں نے پھر اسے جھٹکا اور اس نے میری انگلی میں کاٹ لیا۔ ایک ٹیس ہوئی اور میں نے ہاتھ پتھر پر دے مارا۔ بچھو میرے ہاتھ سے گر پڑا اور میں نے دوسرے ہاتھ سے انگلی دبا لی لیکن درد کی ٹیسیں میرے پورے ہاتھ میں پھیل گئیں۔ کالے پہاڑی بچھوئوں کے بارے میں، میں نے سنا تھا کہ پتھر پر ڈنک مار دیتے ہیں تو سنکھیا بن جاتا ہے۔ ہاتھی کو کاٹ لیں تو اس کا گوشت پانی بن کر بہہ جاتا ہے۔ اسی بچھو نے مجھے کاٹا تھا۔ درد تھا کہ خون کی روانی کے ساتھ شانے، سینے، کمر اور پھر پورے بدن میں پھیل گیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ میں اس ناقابل برداشت تکلیف سے پاگل ہوگیا۔ اپنے حلق سے نکلنے والی چیخیں مجھے اجنبی لگ رہی تھیں۔ سوچنے سمجھنے کی قوتیں سلب ہوگئی تھیں۔ میرا بدن زمین سے کئی کئی فٹ اونچا اچھل اچھل کر نیچے گر رہا تھا۔ سارے بدن میں درد کے انگارے دہک رہے تھے۔ نہ جانے کس طرح اٹھا اور اندھوں کی طرح دوڑ پڑا۔ نہ جانے کتنی دور دوڑا، نہ جانے کس چیز سے ٹکرایا اور سر میں چوٹ لگ گئی مگر سر کی یہ چوٹ مہربان تھی۔ اس نے مجھے اس اذیت سے نجات دلا دی تھی۔ شاید بے ہوش ہوگیا تھا۔ نہ جانے کب تک بے ہوش رہا۔ ہوش آیا تو پرندے چہچہا رہے تھے، صبح کا سہانا وقت تھا۔ سر پر کسی درخت کا سایہ تھا اور بدن پانی میں بھیگا ہوا تھا۔ میں پانی میں پڑا ہوا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک کراہ کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ بڑی پراسرار، بڑی عجیب جگہ تھی۔ برگد کا عظیم الشان درخت مجھ سے کوئی دس گز کے فاصلے پر تھا مگر اس کا پھیلائو کوئی پچاس گز کے دائرے میں تھا۔ اس کی ڈاڑھیاں لٹکی ہوئی تھیں۔ جس جگہ میں پڑا ہوا تھا، یہاں گھاس اگی ہوئی تھی، کاہی لگے پتھر پھیلے ہوئے تھے اور ان پتھروں سے مدھم سے شرر شرر کے ساتھ پانی ابل رہا تھا۔ یہ پانی گھاس کو بھگوتا ہوا نالیوں کی شکل میں بہتا دور نکل جاتا تھا۔ شاید ان پتھروں سے چشمہ ابل رہا تھا۔ تاحد نگاہ کسی انسان کا وجود نہیں تھا۔ ہاں پرندے بکثرت نظر آرہے تھے جو برگد کی شاخوں پر پھدک رہے تھے۔ ادھر سے ادھر پرواز کررہے تھے۔ زمین پر بکھرے پتھروں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ فضا میں خربوزوں کی تیز مہک پھیلی ہوئی تھی۔ میں اجنبی نظروں سے ماحول کو دیکھتا رہا۔ گزرے واقعات یاد آنے لگے۔ ملنگ نے بدترین حرکت کی تھی۔ نہ جانے اس کی دوسری مٹھی میں کیا تھا۔ آہ! اس خطرناک بچھو کے کاٹنے کے بعد بھی میں زندہ ہوں۔ شدت تکلیف میں شاید مزار شریف سے دوڑتا ہوا بہت دور نکل آیا تھا ورنہ وہ آس پاس ضرور نظر آتا۔ یہ تو آبادی سے دور کوئی ویران جگہ تھی۔ نہ جانے کون سی جگہ ہے اور میں اس سے کتنا دور نکل آیا ہوں۔ ہاتھ میں اب تکلیف نہیں تھی۔ اس انگلی کو دیکھا جس پر بچھو نے کاٹا تھا، انگلی پر تو کوئی نشان نہیں تھا لیکن کچھ اور نظر آیا اور جو نظر آیا، اس نے ایک بار پھر دیوانہ کردیا۔ کوڑھ میرے پورے بدن پر پھیل چکا تھا۔ ہاتھ، پائوں کی شکل بدلتی جارہی تھی۔ انگلیاں اور ہتھیلی، خون اور پیپ سے بھری ہوئی تھی مگر اس وقت ان زخموں پر کھرنڈ نظر آرہے تھے۔ کالے کالے کھرنڈ جیسے زخم اچانک سوکھ گئے ہیں۔ میرے زخم ٹھیک ہوگئے تھے، میرا کوڑھ سوکھ رہا تھا۔ کسی کے الفاظ یاد آئے۔ زہر، زہر کا تریاق ہوتا ہے۔ کالے پہاڑی بچھو کے زہر نے مجھے کوڑھ سے نجات دلا دی تھی۔ دیوانوں کی طرح بدن کے ایک ایک حصے کو دیکھنے لگا۔ سب جگہ خاک سی اڑ رہی تھی۔ میں ٹھیک ہوگیا تھا۔ دل عقیدت سے بھر گیا۔ میری لگن رنگ لائی تھی۔ چشمۂ فیض سے مجھے صحت ملی تھی۔ آہ! میں ٹھیک ہوگیا تھا۔ میں ٹھیک ہوگیا تھا۔ بے اختیار دل بھر آیا، آنسو بہے پھر ہچکیاں بندھ گئیں۔ مجھے یوں لگا جیسے روٹھی ہوئی ماں نے اچانک مجھے کھینچ کر آغوش میں لے لیا ہو۔ میری بے سکونی، سکون پا گئی تھی۔ سجدہ ریز ہوگیا اور نہ جانے کب تک سجدے میں پڑا روتا رہا۔ دل کا غبار نکل گیا تو اٹھا، کھڑے ہوکر چاروں طرف دیکھا۔ کچھ فاصلے پر خربوزوں کی بیل پھیلی ہوئی تھی۔ پیلے پھل بڑی تعداد میں لگے ہوئے تھے۔ آگے بڑھ کر ایک پکا پھل توڑا اور اسے ہاتھوں سے دبا کر بیج نکال دیئے پھر اس کا شیریں گودا کھانے لگا۔ پھل کا وزن کوئی ایک سیر ہوگا مگر میں اسے پورا نہ کھا سکا۔ تب اس بھوک سے نجات کا اندازہ ہوا جس نے میرا حیات کا ہر لمحہ عذاب ناک بنا دیا تھا۔ خوشیاں رگ رگ سے پھوٹ پڑی تھیں۔ اس ویرانے میں مجھے خوشیوں کا جو خزانہ حاصل ہوا تھا، وہ سنبھالے نہ سنبھالا جارہا تھا۔ میں فرط مسرت سے بے خود ہوا جارہا تھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس مسرت کا اظہار کیسے کروں۔ بہت دیر تک وہاں بیٹھا رہا پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ یہاں کب تک رک سکتا ہوں۔ انسان ہوں۔ حالات کچھ بھی ہیں، انسانوں میں ہی رہ سکتا ہوں۔ نہ جانے اب کیا ہوگا۔ بھوریا چرن مجھ سے غافل تو نہیں ہوگا۔ اسے علم ہوگیا ہوگا کہ میں اس کے دیئے ہوئے عذاب سے نجات حاصل کرچکا ہوں۔ آہ! اب تو اس منحوس کا تصور بھی مجھے خوف زدہ کردیتا تھا۔ کیا یہ ویرانہ میرے لیے گوشۂ عافیت ہے۔ کہیں یوں نہ ہو کہ یہاں سے نکلوں اور پھر کسی عذاب کا شکار ہوجائوں مگر یہاں بھی کیا کرسکتا ہوں۔ کب تک دنیا کو ترک کرکے یہاں پڑا رہوں گا۔ اللہ مالک ہے۔ اب جو ہوگا، دیکھا جائے گا۔ یہاں سے چلا جائے۔ کسی بلند جگہ کی تلاش میں نگاہیں دوڑائیں۔ دیکھوں تو سہی کہاں ہوں۔ آس پاس کچھ ہے یا نہیں! برگد کا وہ درخت ہی معاون ہوا اور اس پر چڑھنا مشکل نہ ثابت ہوا۔ کافی اونچا جاکر میں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ بہت دور کوئی شے متحرک محسوس ہوئی۔ غور سے دیکھا تو ایک بیل گاڑی نظر آئی جو ایک پگڈنڈی پر جارہی تھی لیکن یہ پگڈنڈی اسی سمت سے گزرتی تھی۔ تھوڑا سا فاصلہ طے کرکے میں اس تک پہنچ سکتا تھا۔ درخت سے اتر کر اس طرف چل پڑا اور کچھ دیر کے بعد پگڈنڈی پر جاکھڑا ہوا۔ بیل گاڑی دور سے آتی نظر آرہی تھی۔ ایک سیدھا سادا سا آدمی اسے ہانک رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا اور بیلوں کی رفتار سست کردی۔ اس کے چہرے پر خوف کے آثار تھے۔ قریب آکر وہ رک گیا اور اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگا دیئے۔
’’جے رام جی کی مہاراج…‘‘
’’کہاں جارہے ہو بھائی…‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نگر جارہے ہیں مائی باپ!‘‘
’’مجھے بھی لے چلو گے ساتھ…؟‘‘
’’کاہے نا بیرا… آئو بیٹھ جائو۔‘‘ میں اُچک کر بیل گاڑی میں بیٹھ گیا اور اس نے بیل ٹخٹخائے۔ رفتار پہلے سے زیادہ تیز تھی۔ بیل گاڑی ہانکنے والا کچھ خوف زدہ لگ رہا تھا۔ مجھے کچھ دیر کے بعد ہی احساس ہوگیا۔ نہ جانے کیا سمجھ رہا ہے بے چارہ! سچ بھی تھا ویرانے میں کوئی ملے تو ڈر لگتا ہی ہے۔
’’کیا نام ہے تمہارا بھیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’سندر لعل!‘‘
’’نگر میں رہتے ہو؟‘‘
’’ہاں بھیا! نمبردار کی چاکری کریں ہیں۔ مکھیا گڑھی گئے تھے نمبردار کی جورو کو چھوڑنے، وہاں اس کا میکہ ہے۔‘‘
’’نگر کتنی دور ہے یہاں سے۔‘‘
’’سات کوس۔‘‘
’’کتنی بڑی آبادی ہے۔‘‘
’’بہت لوگ ہیں بھیا! وہاں پہلے کبھی ناگئے کیا؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’ایک بات پوچھیں بھائی! برا تو نا مانو گے۔‘‘
’’نہیں ضرور پوچھو۔‘‘
’’یہاں جنگل میں کیا کررہے تھے۔‘‘
’’بس نگر تلاش کررہا تھا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہم تو ڈر گئے تھے بھیا!‘‘ وہ بولا۔
’’کیوں؟‘‘
’’جی بھیا! ہم سمجھے ڈکیت لگ گئے۔ آدھا خون خشک ہوگیا ہمارا تو۔‘‘
’’نہیں سندر لعل! میں ڈاکو نہیں ہوں۔‘‘
’’معاف کردینا بھیا! کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’مسعود ہے میرا نام…‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
’’میاں جی ہو… نگر میں کوئی جان پہچان ہے کیا؟‘‘
’’کوئی نہیں۔‘‘
’’نگر رہو گے یا آگے جائو گے؟‘‘
’’آگے کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’سیکری اور اس سے آگے آگرہ!‘‘ سندر لعل نے جواب دیا اور میرا سر چکرا کر رہ گیا۔ میں اتنے فاصلے پر کیسے نکل آیا۔ میں تو کہیں اور تھا، یہاں سے نہ جانے کتنے فاصلے پر! مگر یہاں سیدھا کام ہی کونسا ہورہا تھا۔ سندر لعل کو جب میری طرف سے یہ اطمینان ہوگیا کہ میں ڈاکو نہیں ہوں اور اسے مجھ سے کوئی خطرہ نہیں ہے تو اس کے منہ سے باتوں کا سیلاب امنڈ پڑا۔ نہ جانے کہاں کہاں کی کہانیاں سنا ڈالیں اس نے مجھے، یہ سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔ فاصلہ طے ہوگیا، نگر نظر آنے لگا تھا۔ اس کا اصل نام فتح پور تھا مگر یہاں کے رہنے والے اسے نگر کہتے تھے۔ ہندو، مسلمانوں کی ملی جلی قدیم آبادی تھی اور دور اکبری سے اس کا گہرا تعلق تھا۔ کچے پکے مکانات دور دور تک بکھرے ہوئے تھے۔ پہلی شخصیت ایک مرد کی نظر آئی جس کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ عمر ستر سال سے کسی طرح کم نہیں ہوگی لیکن بدن سیدھا اور مضبوط، کمر پر چمڑے سے بنی ہوئی پانی سے بھری مشک لدی ہوئی تھی مگر وہ بزرگ شخص بالکل سیدھا کھڑا تھا جیسے اس کے لیے مشک کا کوئی وزن نہ ہو۔
’’ارے او سندر! آگیا مکھیا گڑھی سے۔‘‘ کڑک دار آواز سنائی دی۔
’’ہاں امام الدین چاچا! ابھی تو آئے ہیں۔‘‘
’’میری چیز لایا…؟‘‘
’’کاہے نا چاچا! بھول کر کھوپڑیا سسر تڑوانی تھی کیا۔ یہ کیا ہے۔‘‘ سندر لعل نے گاڑی سے ایک پُڑا نکالا جس سے حقے کے تمباکو کی بُو اٹھ رہی تھی۔
’’جیتا رہ، پیسے لے لی جیو گھر سے۔ یہ کون ہے۔‘‘
’’مسافر… راستے میں مل گیا تھا۔ نگر میں کوئی پہچان نہیں ہے بے چارے کی۔‘‘
’’نہیں… تو کیا ہوا بھیا! ہم مر گئے کیا… ارے ہم جو ہیں پہچان والے۔ نام کیا ہے تمہارا بھیا۔‘‘
’’مسعود احمد…!‘‘ میں نے کہا اور امام دین چونک پڑے۔ پھر انہوں نے سندر لعل کو گھورتے ہوئے کہا۔ ’’ارے تو کہاں لے جارہا ہے انہیں، ہمارے مہمان ہیں، مسلمان ہیں۔‘‘
’’لو فرق کردیا نا چاچا ہندو، مسلمان کا، ارے ہندو ہو یا مسلمان، لائے ہم ہیں، مہمان تمہارے کیسے ہوگئے۔‘‘ سندر لعل جھگڑنے لگا۔
’’اتار… اتار… یا چل ایسا کر ہمارے گھر پہ چھوڑ دے، ابھی یہ مشک ڈال کے آرہے ہیں۔ بھیا سنو! اس کی بات مت ماننا۔ ارے تم اب اس بنئے کے ہاتھ کا کھائو گے کیا! جائو یہ تمہیں ہمارے گھر پہنچا دے گا۔ ابھی آئے دو منٹ میں، یہ پانی کی مشک ڈال کے، جارے سندر لعل جو کہہ رہے ہیں، وہی کریو، ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔‘‘
سندر لعل نے ہنس کر گاڑی آگے بڑھا دی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے ایک چھوٹے سے ٹوٹے پھوٹے گھر کے سامنے بیل گاڑی روک دی… اور پیچھے دیکھتے ہوئے بولا… ’’اندر چلے جائو بھیا جی! دروازہ کھلا ہوا ہے۔ یہاں بس امام دین ہی رہتے ہیں۔ بڑے بھلے آدمی ہیں۔ ہندو، مسلمان کا کوئی فرق نا ہووے ہے بس ہمارے نگر میں، کوئی مہمان آجائے، جسے موقع ملے ہے، لے اڑے ہے۔ ہم بھی آئیں گے تمہارے پاس اور سنو! یہ مت سمجھنا کہ تم امام دین ہی کے مہمان ہو۔ ہمارا بھی اتنا ہی حق بنے ہے۔ جو بھی خدمت ہوسکے گی، ہم کریں گے۔ ٹھیک ہی تو کہتے تھے چاچا امام دین، نگر میں بھلا تمہاری جان پہچان والا کوئی کیسے نہیں ہے۔ سارے کے سارے ہیں۔ دیکھنا تم! جسے پتا چلے گا، دوڑا چلا آئے گا تمہارے پاس…‘‘
’’سندر لعل یہاں اس گھر میں امام دین چاچا کے علاوہ اور کوئی نہیں رہتا…‘‘
’’نہیں بھیا اکیلے ہیں۔ شادی ہی نہ کری، بال بچے کہاں سے ہوتے۔ جائو اندر جاکر آرام کرو۔‘‘
میں بیل گاڑی سے نیچے اتر آیا اور اس چھوٹے سے کٹیا نما مکان میں داخل ہوگیا۔ چھوٹا سا احاطہ تھا۔ بس احاطہ ہی تھا۔ گھاس پھوس کی دیواریں، اندر ایک کچی مٹی سے بنا ہوا کمرہ جس پر چھپر پڑا ہوا، کمرے کے سامنے بھی چھپر ڈال کر دالان بنا لیا گیا تھا۔ دالان میں دو چارپائیاں پڑی تھیں۔ ایک طرف ایک حقہ رکھا ہوا تھا۔ میں چارپائی پر بیٹھ گیا اور سندر لعل اندر آکر میرے سامنے بیٹھ گیا۔
’’بس امام دین چاچا آتے ہی ہوں گے، سو ہم چلے جائیں گے۔ نمبردار کو پتا دینا ہے کہ مالکن میکے پہنچ گئیں۔‘‘
’’تمہاری یہ نگری بڑی عجیب ہے سندر لعل۔‘‘