’’تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کچھ اکتاہٹ سی محسوس ہورہی ہے۔ ویسے بھی ہم یہاں رک گئے ہیں، کوئی کام نہیں ہو رہا۔‘‘ اکرام نے اس طرح کہا کہ مجھے ہنسی آگئی۔ وہ معصوم نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔
’’ہم کام ہی کیا کرتے ہیں اکرام۔ بس یہاں وہاں۔ ویسے ابھی کچھ دن یہاں گزاریں گے۔ ابھی یہاں سے جانے کا وقت نہیں آیا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں نے بس ایسے ہی پوچھ لیا تھا۔‘‘
رات گزر گئی۔ نہ جانے کب تک نادر حسین کے بارے میں سوچتا رہا تھا اور ان حالات پر غور کرتا رہا تھا۔ نادر حسین بے شک خوش نصیب تھا کہ اس نے اتنا بڑا مقام پالیا تھا۔ دوسرا دن منگل کا تھا۔ آج عرضیاں لکھی جاتی تھیں۔ یہ سلسلہ یونہی چل رہا تھا۔ عرضیاں لکھی جاتیں، حاجت مندوں کی درد بھری آوازیں ہمیں مائیکروفون پر سنائی دیتیں اور ہم انہیں لکھ لیا کرتے، پھر جو کچھ میرے دماغ میں آتا، اس کے مطابق مشورے دے دیا کرتا۔ مشورے جمعرات کو دیئے جاتے تھے۔
معمول کے مطابق ہم تیار ہوکر بیٹھ گئے۔ اکرام بھی کاغذ، قلم لے کر بیٹھا تھا۔ دردمند اپنی اپنی کہانیاں سناتے رہے۔ بعض کہانیاں آنکھیں بھگو دیا کرتی تھیں۔ دعائیں اور دوائیں چل رہی تھیں۔ اچانک مجھے ایک آواز سنائی دی۔
’’دکھیاری ہوں سائیں بابا۔ میری کہانی سنو گے۔ سن لو سائیں بابا! سنو تو اچھا ہے، نہ سنو گے تو سمجھوں گی کہ تم بھی سب کی طرح ہو۔ سب کچھ کھو گیا ہے میرا سائیں بابا… کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ شمسہ ہے میرا نام، دو کڑیل بھائی تھے۔ ماں، باپ تھے میرے، ایک ماموں تھے۔ بھرا گھر اجڑ گیا سائیں جی… بھائی بچھڑے۔ ماں باپ جوان بیٹوں کے دکھ میں پاگل ہوگئے۔ دردر پھرے ہم پھر سائیں۔ نحوست میری طرف بڑھی۔ رشتہ آیا۔ میرے ماں باپ اس حالت میں نہیں تھے کہ شادی کریں، منع کردیا انہوں نے۔ وہ لوگ چڑ گئے، مجھے چھین لیا انہوں نے میرے ماں باپ سے… جبری نکاح پڑھایا۔ میرا میاں مجھے لے کر مارا مارا پھرتا رہا۔ دل برا تھا اس کا میری طرف سے۔ کبھی عزت نہیں دی اس نے مجھے، چار چوٹ کی مار مارتا ہے ذرا سی غلطی پر۔ تین بچے ہوگئے ہیں میرے، کوئی سہارا نہیں ہے ان کا جی۔ وہ بری عورتوں کے پھیر میں رہتا ہے سائیں… ماں باپ کا پتا نہیں ہے۔ میرے بھائی نہیں ملتے سائیں جی! میری مشکل دور کردو سائیں، میری منزل مجھے دے دو۔ مر بھی نہیں سکتی سائیں بابا… تین جانیں اکیلی رہ جائیں گی جی۔ کیا کروں ان کا، مشکل حل کردو سائیں جی…‘‘
دل کی حرکت بند ہونے لگی، خون کی روانی رک گئی، سانس تھم گیا۔ یہ دردوکرب میں ڈوبی ہوئی آواز میرے لئے اجنبی نہیں تھی۔ عرصہ ہوگیا تھا، صدیاں بیت گئی تھیں لیکن یہ آواز کیسے بھول سکتا تھا۔ ہر جملہ سسکی تھا، ہر لفظ زخم تھا۔ آہ! شمسہ میری بہن، میری بہن مجھ سے کچھ گز دور تھی۔ وہ مجھے اپنی کہانی سنا رہی تھی۔ وہ مجھے میری کہانی سنا رہی تھی پھر شامی کی آواز ابھری۔
’’چلو بہن… دوسرے کو آنا ہے۔‘‘
’’جاتی ہوں بھیا، جاتی ہوں سائیں۔ بڑی آس لے کر آئی ہوں۔ سائیں، میرے سائیں… سن لو، مجھ پر غور کرلو، کوئی سہارا نہیں ہے۔‘‘
’’چلو بہن، اٹھو جلدی کرو۔‘‘
’’اٹھتی ہوں بھیا، جاتی ہوں سائیں، بڑی آس لے کر آئی ہوں سائیں… جاتی ہوں بھائی، ابھی جاتی ہوں، جمعرات کو آئوں گی سائیں بابا۔ جمعرات کو… ہاں ہاں جاتی ہوں۔‘‘
درد و کرب میں ڈوبی چیخ کو نہیں روک سکا تھا اور اس آواز پر اکرام بری طرح اچھل پڑا تھا۔ ہچکیاں بندھ گئی تھیں میری۔ اکرام سب کچھ چھوڑ کر مجھ سے آ لپٹا تھا۔
’’مسعود بھائی، مسعود بھائی۔ کیا ہوگیا مسعود بھائی۔ کیا بات ہے، ارے یہ کیا حالت ہوگئی مسعود بھائی… مسعود بھائی۔‘‘ اکرام بے چین ہوکر مجھے جھنجھوڑنے لگا لیکن کچھ ایسا بے اختیار ہوا تھا کہ خود پر قابو ہی نہیں رہا تھا۔ اکرام نے پانی پلایا۔ اس کے بعد کوئی عرضی نہ لکھی جاسکی تھی۔ زمین پر لیٹ گیا۔ دل قابو میں نہیں آرہا تھا۔ اکرام اوپر جاکر شامی اور دوسرے لوگوں کو بلا لایا۔ بے وقوف کوئی بھی نہیں تھا، اب سب ہی میری حیثیت سے آشنا ہوچکے تھے۔ جانتے تھے کہ جب سے میں خانقاہ میں داخل ہوا ہوں، کایا ہی پلٹ گئی ہے۔ نقلی خانقاہ اصلی ہوگئی ہے۔ جو آتا ہے یہی کہتا ہوا آتا ہے کہ اس کا کام بن گیا۔ یہاں تک کہ ان کا بڑا بابا بھی میرا معتقد نظر آیا تھا۔ سب کو اس بات کا اندازہ تھا کہ اب خانقاہ میرے ہی دم سے چل رہی ہے اور ان لوگوں کی دال روٹی کا بندوبست ہے۔ چنانچہ سب ہی مجھ سے مانوس ہوگئے تھے، خصوصاً شامی۔ میری یہ حالت دیکھ کر وہ سب سخت پریشان ہوگئے اور طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔ کوئی ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا مشورہ دینے لگا تو کوئی دوائیں تجویز کرنے لگا۔ سب ایک ہی سوال کررہے تھے کہ کیا ہوگیا، اچانک ہی کیا ہوگیا اور اکرام گھبرا گھبرا کر انہیں بتا رہا تھا کہ بس بیٹھے بیٹھے ہی طبیعت بگڑ گئی ہے۔ کوئی ایسی بات تو نہیں ہوئی جو سمجھ میں آسکے۔ سب کی آوازیں میرے کانوں تک پہنچ رہی تھیں۔ مجھے اپنی اس کیفیت پر شرمندگی بھی تھی لیکن کچھ ایسا بے بس ہوا تھا کہ اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہوا جارہا تھا۔ شمسہ کی درد بھری باتیں کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی مانند اُتر رہی تھیں۔ کیسی بے بسی تھی اس کی آواز میں… میری بہن… آہ میری بہن… اس کے تصور سے آنکھوں سے آنسو ابلتے چلے آرہے تھے۔ روکنا چاہتا تھا ان آنسوئوں کو لیکن کچھ ایسے بے اختیار ہوئے تھے کہ کچھ بھی میرے بس میں نہیں رہا تھا۔ پانی پلایا گیا، سہارے دیئے گئے۔ نہ جانے کیسے کیسے جتن کرکے اپنی حالت پر تھوڑا سا قابو پایا۔ بھرائی ہوئی آواز میں ان لوگوں سے کہا کہ کوئی خاص بات نہیں ہے، بس اندر سے شدید گرمی کی ایک لہر اٹھی ہے اور کچھ نہیں ہے۔ ٹھیک ہوں۔ ہمدرد اور محبت کرنے والے یہ سن کر سہارا دیئے ہوئے زبردستی باہر لائے۔ خانقاہ کے عقبی حصے میں ایک صاف ستھری جگہ مجھے لٹا دیا گیا۔ ہر شخص ہی کسی نہ کسی چیز سے مجھے پنکھا جھل رہا تھا۔ ابھی خانقاہ کے دوسرے حصے میں زائرین موجود تھے۔ چنانچہ یہ عقبی حصہ منتخب کیا گیا تھا۔ میں نے خود پر قابو پانے کی کوششیں شروع کردیں۔ ہر خیال کو ذہن سے مٹا دیا۔ زخم تو دل پر ہمیشہ سے موجود تھے۔ بس ان پر ایک ہلکی سی تہہ چڑھا لی تھی لیکن کھرنڈ نہیں بن پائے تھے۔ زخم درست نہیں ہوئے تھے۔ ایک آواز سے ایک زخم کی جھلی اتر گئی تھی، خون تو بہنا ہی تھا، برسوں سے رکا ہوا تھا۔ بہتا رہا لیکن آخر کب تک… جب خون ہی ختم ہوجائے جسم میں تو کیا بہے گا۔ آنسوئوں کی روانی رک گئی۔ وہ قدرتی تسلی جو آسمانوں سے اترتی ہے، دل پر حاوی ہوگئی۔ سہارا دیا خود کو اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اب ان لوگوں کو سمجھانا بھی ضروری تھا جو بے چین تھے، افسردہ تھے، مضطرب تھے میرے لئے۔ مدھم سے لہجے میں، میں نے ان سے کہا۔
’’بہت معذرت خواہ ہوں آپ سب سے، خواہ مخواہ ایک ذرا سی گرمی سے کیفیت بگڑ گئی تو آپ لوگوں کو پریشان ہونا پڑا۔ بس دل پر ایک بوجھ سا آپڑا تھا۔ نہ جانے کیوں آنکھوں نے آنسو نکل پڑے۔ اب ٹھیک ہوں۔‘‘
’’آپ ہمارے لئے بہت بڑی چیز ہیں مسعود بھائی… خدا کیلئے خود کو سنبھالئے۔ ہم بے خانماں لوگ جو پہلے بہت برے تھے اور اب ہم میں سے ہر ایک یہ بات کہہ سکتا ہے کہ آپ کے آنے کے بعد ہماری کایا پلٹ ہوگئی۔ احمق نہیں ہیں۔ ہم لوگ غور کرتے ہیں، ہم برے راستوں کے راہی تھے۔ یہ خانقاہ دھوکے کا گھر تھی۔ آپ کے آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا یہاں تک کہ ہم بھی بدل گئے۔ مسعود بھائی خود کو سنبھالئے خدا کیلئے… آپ ہماری زندگی کا سہارا ہیں۔ آپ کو اگر کوئی نقصان پہنچ گیا تو بے موت مارے جائیں گے ہم سب۔‘‘ میں نے انہیں تسلیاں دی تھیں۔ کہا تھا کہ انسان ہوں اور انسان کی کیفیت کبھی نہ کبھی خراب ہو ہی جاتی ہے۔ بہرطور اس طرح ان لوگوں کی عیادت میں رات ہوگئی تھی۔ زائرین جا چکے تھے اور خانقاہ پر پھر وہی ہُو کا عالم طاری ہوگیا تھا۔ باہر ہی رہا اور ٹھنڈی ہوائوں نے کیفیت کافی بہتر کردی۔ ویسے بھی تمام لوگوں کا ساتھ تھا۔ سوچ کے دروازے عارضی طور پر بند ہوگئے تھے۔ چنانچہ سنبھل گیا۔ قوت ارادی سے بھی کام لیا تھا پھر واپسی کا فیصلہ کیا اور کچھ دیر کے بعد اکرام کے ساتھ تنہا رہ گیا۔ اکرام کے چہرے پر ایک عجیب سی مُردنی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے اس کے بعد مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ ظاہر ہے میرے لئے پریشان تھا مگر میں کیا کرتا۔ ایسا ہی ایک موڑ آگیا تھا کہ میری اپنی قوت فیصلہ جواب دے گئی تھی۔ کتنے عرصے کے بعد شمسہ کی آواز سنائی دی تھی۔ محبت کرتا تھا میں اپنی بہن سے، بہت محبت کرتا تھا۔ وہ ابتدائی دور یاد تھا جب ہم سب ساتھ رہتے تھے۔ شمسہ کی شرارتیں، ماموں ریاض کا مجھے ڈانٹنا، ہر چیز مجھے یاد آگئی تھی لیکن… لیکن یہ کیسی قید تھی، یہ کیسی پابندیاں تھیں کہ میں اپنی بہن تک نہیں جاسکتا تھا۔ مجھ سے کہا گیا تھا کہ صبر کروں۔ کیا انسانی قوت برداشت اس حد تک ہوسکتی ہے۔ ذہن بھٹکنے لگا۔ توبہ کی، آنکھیں بند کرلیں۔ سونا چاہتا تھا اور اس میں مجھے ناکامی نہیں ہوئی۔ یہ سہارا مجھے دے دیا گیا تھا اور نیند کے اس سہارے نے رات گزار دی۔ ایسا بے خبر سویا کہ فجر کے وقت ہی آنکھ کھلی تھی۔ وضو کیا، نماز پڑھی۔ اکرام میرے ساتھ تھا اور اسی طرح سنجیدہ سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ دل کو کچھ ڈھارس سی ملی تھی لیکن نماز کے بعد اکرام نے پھر پیمانۂ ضبط توڑ دیا۔ اس نے عرضی میرے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
’’مسعود بھائی! وہ شمسہ تھی نا آپ کی بہن؟‘‘ اس کی آواز رندھی ہوئی تھی۔
میں نے چونک کر اکرام کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ کہنے لگا۔ ’’بتایئے نا مسعود بھائی! وہ شمسہ ہی تھی نا؟‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے اس سے جھوٹ نہیں بولا۔
’’میں سمجھ نہیں پایا تھا اس وقت لیکن رات کو میں نے بہت غور کیا اور اس کے بعد یہ عرضی پڑھی جو صرف میں نے لکھی تھی، آپ نے نہیں لکھی تھی۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ سب اسی کا ردعمل ہے، جو کچھ آپ مجھے سنا چکے ہیں مسعود بھائی، اس سے میں نے یہ اندازہ لگا لیا کہ وہ ہماری بہن شمسہ تھی۔‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
’’ہاں اکرام! وہی تھی اور میری یہ کیفیت اسی وجہ سے ہوئی تھی۔‘‘
اکرام نے عرضی نکال لی اور کہنے لگا۔ ’’دوبارہ پڑھئے اسے مسعود بھائی، دوبارہ پڑھئے۔‘‘
’’نہیں اکرام، خدا کیلئے۔ میں اسے دوبارہ نہیں پڑھ سکوں گا۔ میں تو اسے لکھ بھی نہیں سکا تھا۔‘‘
’’حقیقتوں سے چشم پوشی ممکن نہیں ہے مسعود بھائی۔ آپ دنیا کے مسائل حل کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت اگر آپ اسے اپنی بہن نہ بھی تصور کریں تب بھی آپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کی مشکل کا حل تلاش کریں۔ آپ نے سن لیا ہے وہ سب کے دکھوں میں ڈوبی ہوئی ہے اور… اور اس کے بعد بھی اس کی زندگی کو کوئی بہتر راستہ نہیں ملا۔ وہ کہتی ہے کہ اس کا شوہر اسے لے کر مارا مارا پھرتا رہا۔ وہ اس کی عزت نہیں کرتا، مارتا ہے اسے۔ تین بچے ہیں اس کے اور کوئی سہارا نہیں ہے۔ کیا ہم اسے نظرانداز کردیں گے مسعود بھائی؟‘‘
’’خدا کیلئے اکرام، خدا کیلئے اکرام۔‘‘
’’نہیں مسعود بھائی۔ میں نے ہمیشہ آپ کی ہر بات پر سر جھکایا ہے۔ یہاں میں وفاداریوں کا حق نہیں ادا کر رہا بلکہ پہلی بار میرے دل نے آپ سے بغاوت کی ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ شمسہ پوری توجہ کی مستحق ہے۔ ہمیں اس پر خاص توجہ دینا ہوگی۔‘‘
میں نے بے بسی سے اکرام کو دیکھا۔ کیا بتاتا اسے، کیسے کہتا کہ مجھے اجازت نہیں ہے۔ اکرام نے کہا۔
’’وہ جمعرات کو آئے گی مسعود بھائی۔ وہ جمعرات کو آئے گی۔ آپ کو اس سے ملنا ہوگا۔‘‘
’’نہیں اکرام، کیسی باتیں کرتے ہو تم۔‘‘
’’میں ٹھیک کہتا ہوں مسعود بھائی۔ ہم اسے بھرپور سہارا دیں گے۔‘‘
’’اکرام ہماری دنیا ہی بدل جائے گی۔‘‘
’’تو بدل جائے… کیا کرسکتے ہیں، ہم بے بس ہیں، کمزور ہیں۔‘‘
’’بکو مت، یہ نہیں ہوسکتا۔ عمر بھر کی محنت اکارت جائے گی۔ اکرام یہ نہیں ہوسکتا۔ میں نے تم سے آخری بات کہہ دی ہے۔‘‘ اکرام خاموش ہوگیا۔ اس نے گردن جھکا لی تھی۔ ویسے بھی بہت زیادہ نہیں بولتا تھا مجھ سے۔ میرے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا تھا۔ دن بھر خاموش خاموش رہا۔ معمولات جاری رہے۔ میں جانتا تھا کہ وہ تعاون کرنے والوں میں سے ہے۔ نہ جانے کتنی بار ہوک اٹھی لیکن پھر دل کو مسوس کر خاموش ہوگیا۔ البتہ دوسرے دن میں نے اکرام سے کہا۔
’’وہ شام کو آئے گی اکرام۔ تم اسے تھوڑی سی رقم دے دینا۔ یہ کچھ پیسے ہیں میرے پاس، یہ اس کے حوالے کردینا اور اسے تسلیاں بھی دینا۔ یہ کام تم کرلینا، میں تمہیں اس کی اجازت دیتا ہوں۔‘‘
’’آپ نہیں ملیں گے اس سے مسعود بھائی؟‘‘
’’نہیں… سب کچھ ختم ہوجائے گا اکرام۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے بعد کیا ہوجائے۔ خدا کیلئے یہ سب کچھ نہ کرنا، مجھے اس کیلئے مجبور مت کرنا۔‘‘ اکرام نے کوئی جواب نہیں دیا۔ خاموش ہوگیا۔ شام ہوئی۔ عرضیاں تیار ہوچکی تھیں یعنی جن جن لوگوں نے اپنی مشکلات کا اظہار کیا تھا، انہیں ان کا حل بتا دیا گیا تھا۔ اکرام کو میں نے ہدایات دے دی تھیں لیکن دل تھا کہ قابو سے باہر ہوا جارہا تھا۔ اکرام، شمسہ سے ملے گا۔ جو کچھ بھی کہے گا وہ اس سے، وہ الگ بات ہے لیکن میں، میں اپنی بہن کا چہرہ بھی نہیں دیکھ سکوں گا۔ آہ! وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر موجود ہے۔ کتنے برسوں سے بچھڑی ہوئی ہے۔ کتنے دکھ سے اس نے کہا تھا کہ پورا خاندان منتشر ہوگیا ہے۔ بھائی بچھڑ گئے ہیں، کچھ بھی نہیں رہا ہے اس کے پاس۔ میں جانتا ہوں کہ وہ کچھ فاصلے پر موجود ہے لیکن میں… میں روتا رہا، اندر ہی اندر روتا رہا اور وقت گزر گیا۔ اکرام واپس میرے پاس نہیں آیا تھا۔ انتظار کررہا تھا میں اس کا، آئے۔ مجھے بتائے کہ شمسہ سے کیا بات ہوئی۔ کیا کیا اس نے، کیا کہا اس نے… لیکن اکرام کو ضرورت سے زیادہ دیر ہوگئی۔ وقت اتنا ہوگیا تھا کہ تمام زائرین واپس جا چکے تھے۔ اب ذرا بے چین ہوگیا۔ اکرام واپس کیوں نہیں آیا۔ پھر میں خود بھی باہر نکل آیا۔ شامی اور دوسرے لوگ اپنے معمولات میں مصروف تھے۔ میں نے اکرام کے بارے میں کسی سے پوچھا نہیں۔ بیکار ہی تھا۔ لگ رہا تھا کہ یہاں موجود ہی نہیں ہے۔ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ اکرام کو کیا ہوگیا، کہاں چلا گیا وہ۔ ذہن طرح طرح کے خیالات میں ڈوبا رہا۔ ایک گوشے میں بیٹھ کر اکرام کا انتظار کرنے لگا۔ اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ جذباتی ہوگیا ہے۔ کہیں وہ شمسہ کے پیچھے پیچھے ہی نہ نکل گیا ہو۔ ہوسکتا ہے بہرحال انسان ہے لیکن اگر اس نے ایسا کیا ہے تو حد سے تجاوز کرنے والی بات ہے۔ میں نے اس کو اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ پھر خود ہی اپنے آپ کو سمجھا بھی لیا۔ اکرام بس میرا ساتھی ہے، محکوم تو نہیں وہ میرا۔ اگر اس نے اپنے طور پر کوئی عمل کیا ہے تو ایسی بری بات بھی نہیں ہے کہ میں اس پر بگڑنے لگوں۔ اپنی مرضی کا مالک ہے وہ۔ کسی بھی لمحے میرے پاس سے جاسکتا ہے۔ ویسے یہ تصور ذرا عجیب سا لگا تھا۔ اب تو اکرام کی کچھ اس طرح عادت ہوگئی تھی کہ اسے اپنے ہی جسم کا ایک حصہ سمجھنے لگا تھا۔ پگلا کہیں کا وہ کام کررہا ہے جو میں نہیں کرسکتا، لیکن اچھا تو ہے، کم ازکم شمسہ کے بارے میں تفصیلات معلوم ہوجائیں گی۔ خدا کرے وہ اس کے پیچھے پیچھے ہی گیا ہو۔ کچھ معلومات حاصل کرکے آئے گا۔ ہوسکتا ہے ماں باپ کا کچھ پتا چل جائے۔ انہی خیالات میں بیٹھا رہا اور میرا اندازہ درست نکلا۔ اکرام واپس آگیا تھا۔ اس نے فوراً ہی مجھے تلاش کرلیا تھا۔ میرے قریب شرمندہ شرمندہ سا پہنچا۔ کہنے لگا۔
’’مجھے یقین تھا مسعود بھیا کہ آپ یہیں موجود ہوں گے، میرا انتظار کررہے ہوں گے۔ آج پہلی بار میں نے خانقاہ سے باہر جاکر اس شہر کو دیکھا ہے۔ یہ تو خاصا بڑا شہر ہے۔ بڑی گھنی آبادی ہے اس کی بھیا۔ میں شمسہ کے پیچھے گیا تھا۔ میں نے اسے تھوڑی سی رقم دے دی تھی جو آپ نے مجھے دی تھی اور میں نے اسے تسلیاں بھی دی تھیں کہ اللہ نے چاہا تو اس کی مشکلات آسان بھی ہوجائیں گی۔ بھیا پھر میں اپنے آپ کو باز نہیں رکھ سکا۔ اس کے پیچھے پیچھے وہاں تک پہنچا جہاں وہ رہتی ہے۔ ایک چھوٹا سا گھر ہے جو حسین خان نامی ایک شخص کا ہے۔ حسین خان، شمسہ کے شوہر کا دوست ہے۔ شمسہ کے شوہر کا نام فیضان ہے۔ فیضان عالم بہت اوباش طبع آدمی ہے، صورت ہی سے برا لگتا ہے اور اس کا دوست بھی کوئی اچھا آدمی نہیں ہے۔ کہیں باہر سے آکر یہاں قیام کیا ہے اور دونوں مل کر کچھ کررہے ہیں۔ شمسہ اکیلی اس گھر میں رہتی ہے کیونکہ اس کے دوست کی بیوی نہیں ہے۔ تین بچے ہیں شمسہ کے۔ دو بیٹے، ایک بیٹی اور مسعود بھیا… شمسہ کا ایک بیٹا جو پانچ سال کا ہے، بالکل آپ کا ہمشکل ہے۔ بالکل آپ جیسا۔‘‘ میں نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ لئے۔ دل بے قابو ہونے لگا تھا۔
’’بھیا! وہ بڑی غیر محفوظ ہے۔ اس کا شوہر درحقیقت ایک درندہ صفت آدمی ہے۔ لگتا ہی نہیں ہے کہ وہ شمسہ کو اپنی بیوی سمجھتا ہے۔ اس کا دوست شمسہ کو گندے فقرے کستا ہے لیکن وہ خاموشی سے بیٹھا ہنستا رہتا ہے۔ شمسہ اس گھر کے سارے کام کاج کرتی ہے، اپنے بچوں کو سنبھالتی ہے۔ بہت دکھی ہے وہ بھیا، بہت دکھی ہے۔‘‘
’’تو میں کیا کروں؟‘‘ میرے حلق سے ایک چیخ سی نکل گئی۔
’’نہیں مسعود بھائی! یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی کہ آپ کیا کریں۔ بھائی ہیں آپ اس کے۔ ٹھیک ہے آپ کچھ نہیں کرسکتے میں تو کرسکتا ہوں۔‘‘
’’کیا کرو گے مجھے بتائو، کیا کرو گے؟‘‘
’’مجھے اس بات کا جواب چاہئے مسعود بھائی کہ اگر آپ کی بہن آپ کے سامنے آگئی ہے۔ آپ جو کچھ بھی کررہے ہیں، وہ آپ جانتے ہیں لیکن اس بہن سے جو آپ کی سگی بہن ہے اور مصیتوں میں گرفتار ہے، اس سے یہ اجتناب کیسا؟‘‘
’’مجھے اجازت نہیں ہے کیا سمجھے اکرام، مجھے اجازت نہیں ہے۔‘‘
’’میں نہیں سمجھتا بھیا۔ انسانی رشتے اگر اتنی آسانی ہی سے چھین لئے جاتے تو ان رشتوں کا وجود نہیں ہونا چاہئے تھا۔‘‘
’’مجھے میرے گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔‘‘ میں نے غرا کر کہا۔
’’سزا آپ کو مل رہی ہے، شمسہ کو تو نہیں ملنی چاہئے؟‘‘
’’اکرام، کیا کہنا چاہتے ہو اکرام۔ کھل کر کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔ مجھے بتائو۔‘‘
’’شمسہ سے مل لیجئے، اسے تحفظ دیجئے اور کوئی نہیں ہے اس کا۔ آپ ہیں، میں ہوں۔ میں اسے اس طرح نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
’’تو جائو اس کی خبرگیری کرو، اس کے ساتھ رہو۔‘‘
’’انتہائی غمزدہ ہوں مسعود بھیا، انتہائی غمزدہ ہوں۔ سوچا تھا زندگی کے کسی حصے میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، چاہے دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے۔ مروں گا بھی آپ کے قدموں میں لیکن معاف کیجئے گا مسعود بھائی، آپ سے شدید اختلاف کررہا ہوں یہاں اور اس اختلاف کی بنیاد پر آپ سے علیحدہ ہورہا ہوں۔‘‘
میرا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اکرام کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے۔ اس نے کہا۔
’’آپ ہی کے حوالے سے میں اس سے روشناس ہوا ہوں لیکن ایک ایسی بے بس، ایک ایسی تنہا لڑکی جس کا کوئی سرپرست نہیں۔ جس کے سر پر کوئی سایہ نہیں ہے اور یہ معلوم ہونے کے بعد کہ اس کا ماضی کیا ہے، میرا ضمیر مجھے ملامت کررہا ہے کہ میں اس خانقاہ میں آپ کے ساتھ بیٹھ کر عیش و آرام کی زندگی گزارتا رہوں اور وہ اسی طرح زندگی کے جال میں الجھی ہوئی مصیبتیں اٹھاتی رہے۔ آپ ہی کے حوالے سے مسعود بھیا اس کا بھائی ہوں اور میرا فرض مجھے مجبور کررہا ہے کہ بہن کے سر پر ہاتھ رکھوں۔ جس قابل بھی ہوں میں، اس کی خبرگیری کروں گا۔ دیکھوں گا فیضان اسے کیا نقصان پہنچاتا ہے۔ بس بھیا میرا اور آپ کا ساتھ یہیں تک تھا۔ ہمیشہ آپ کو یاد کرتا رہوں گا لیکن یہ بات بھی آپ یاد رکھئے گا کہ جب آپ کی یاد میرے دل میں آئے گی تو میں سوچوں گا کہ آپ نے اپنی ذات کی بہتری کیلئے رشتوں کو ذبح کردیا ہے۔ میں متفق نہیں ہوں آپ سے بھیا۔‘‘
میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اکرام کو دیکھ رہا تھا۔ میرے اندر گڑگڑاہٹیں ہورہی تھیں اور میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کیا کروں۔ دل چاہ رہا تھا کہ اکرام کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دوں۔ کیوں میری زندگی کو ایک بار پھر تاریکیوں کی جانب دھکیل رہا ہے، کیوں ایسا کررہا ہے وہ… لیکن جو جذبے اس کے سینے میں موجزن ہوگئے تھے، ان سے منحرف تو میں بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اکرام سنجیدہ چہرہ بنائے کھڑا تھا۔ کہنے لگا۔
’’میری خواہش ہے مسعود بھیا۔ میری خواہش ہے کہ آپ شمسہ سے مل لیں۔ فیضان عالم کا قبلہ درست کریں کہ وہ ایک باعزت زندگی گزارے۔ میں اس کے بعد اور کچھ نہیں چاہوں گا لیکن اگر ہم اس کی طرف سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں تو یہ بہت بڑا گناہ ہوگا۔ آپ اس سے مل لیں، آپ اس سے ضرور مل لیں۔‘‘
’’اگر میں اس سے مل لیا تو… تو۔‘‘
’’ہاں! تو آگے کہئے۔‘‘
’’تو گناہگاروں میں شمار کیا جائوں گا، نافرمان تصور کیا جائوں گا۔‘‘
’’اور اس نافرمانی کی سزا ملے گی آپ کو۔ یہی نا؟‘‘
’’اکرام… اکرام۔ حد سے بڑھ رہے ہو۔‘‘
’’بڑھ رہا ہوں بھیا۔ جب رشتے ہی اتنے بے معنی ہوتے ہیں تو پھر میرا آپ کا کیا رشتہ۔ اپنی سزا سے ڈر رہے ہیں آپ اور وہ سزا جو چار افراد کو مل رہی ہے اور اس سے آگے بہت سے دوسروں کو مل رہی ہے، اس پر کیا کہیں گے؟ آپ جانتے ہیں آپ کا چھوٹا بھائی محمود سمندر پار ہے۔ وہ سب یعنی ماں باپ، ماموں ریاض زندگی کے عذاب میں گرفتار ہیں اور آپ… آپ صرف اپنی ذات کیلئے جی رہے ہیں، ان سب کو بھول کر۔‘‘
سارے بدن میں اینٹھن ہورہی تھی، دماغ میں شدید سنسناہٹ پیدا ہوگئی تھی۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں، دانت بھینچ لئے اور اپنے آپ کو ان آوازوں سے دور کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ عجیب لمحہ آیا تھا۔ ایک طرف شدید خوف دامن گیر تھا۔ جب بھی کبھی انحراف کی منزل میں داخل ہوا، ایسے ایسے عذابوں سے گزرا کہ زندگی لرز گئی اور اس کے بعد جو کچھ بیتی، وہ ایک الگ داستان تھی۔ میں منحرف نہیں ہونا چاہتا
تھا لیکن اب وہ محبتیں دل پر عجیب سا اثر کررہی تھیں جو فطرت کا ایک حصہ ہوتی ہیں۔ اکرام کے الفاظ نے دیوانگی طاری کردی تھی۔ کیا کروں، کیا نہ کروں، کیا کرنا چاہئے مجھے۔ آہ! کیا کروں۔ میں آنکھیں بھینچے ہوئے بیٹھا رہا۔ اکرام میرے سامنے ساکت تھا۔ گڑگڑاہٹیں آہستہ آہستہ رک گئیں اور مطلع صاف ہوگیا۔ میں مغلوب ہوگیا تھا، بالکل مغلوب ہوگیا تھا۔ واقعی بڑا عجیب و غریب تاثر تھا میرے ذہن پر۔ شمسہ کی کربناک آوازیں ابھر رہی تھیں۔ ’’رحم کرو سائیں، رحم کردو سائیں۔ چار چوٹ کی مار مارتا ہے وہ مجھے۔ تین بچے ہیں میرے، کوئی سہارا نہیں ہے۔ رحم کردو سائیں، رحم کردو۔‘‘
میں ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’کہاں رہتی ہے شمسہ؟‘‘ میں نے سوال کیا اور اکرام خوشی سے اچھل پڑا۔
’’میں اس کے گھر کا پورا پورا پتہ یاد کرکے آیا ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہاں لے جاسکتا ہوں۔‘‘
’’چلو اکرام۔ چلنا ہے مجھے، جانا ہے مجھے۔ میں شمسہ کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ تین بچے ہیں نا اس کے۔ چلو اکرام، چلو ٹھیک ہے۔ یہ بھی تقدیر ہی کا ایک حصہ ہے۔ آزما لوں اپنی تقدیر کو بھی۔ آہ چلو اکرام جلدی چلو۔ کہیں میرے پیروں میں لغزش نہ آجائے۔‘‘
’’چلئے مسعود بھیا۔‘‘ اکرام نے کہا اور میں لڑکھڑاتے قدموں سے اس کے ساتھ چل پڑا۔ ماضی کی تیز و تند ہوائیں ذہن سے گزر رہی تھیں۔ شمسہ کا بچپن یاد آرہا تھا۔ کیا درد ناک لہجے تھا اس کا اس وقت جب وہ اپنی بپتا سنا رہی تھی اور ایک اس کا بچپن تھا۔ شوخی اور شرارت سے بھرپور۔ میرے قدموں میں تیزی آتی جارہی تھی۔ اکرام کو میرے ساتھ ساتھ دوڑنا پڑ رہا تھا۔ ایک طویل فاصلہ تو ہمیں ایسے ہی طے کرنا پڑا کیونکہ آبادی ذرا دور تھی لیکن اس کے بعد اکرام نے مجھ سے آہستہ سے کہا۔
’’رفتار سست کرلیجئے مسعود بھیا۔ اس طرح دوڑ دوڑ کر چلیں گے تو لوگ ہماری جانب متوجہ ہوسکتے ہیں۔‘‘ میں نے بمشکل تمام اپنے آپ پر قابو پایا۔ اکرام پہلی بار اس آبادی میں آیا تھا لیکن شمسہ کے گھر کے پتے کو اس نے پوری طرح ذہن نشین کرلیا تھا اور اب وہ آہستہ آہستہ اسی جانب بڑھ رہا تھا۔ ’’تمہیں پتہ ٹھیک سے یاد ہے نا؟‘‘
’’ہاں! ہم ٹھیک راستے پر جارہے ہیں۔ وہ دیکھئے وہ چبوترہ اور اس پر پیپل کا درخت۔ یہاں شاید ہندو پوجا کرتے ہیں۔ وہ چونے کے نشانات۔‘‘
’’کتنی دور ہے یہاں سے؟‘‘
’’بس، وہ چھوٹا سا میدان عبور کرکے ہم ان گھروں کے سلسلے تک پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’جلدی کرو، تمہارے قدموں کی رفتار سست کیوں ہے؟‘‘ میں نے کہا تو اکرام مسکرا دیا۔ اس نے منہ سے کچھ نہیں کہا تھا لیکن میں نے اس کی مسکراہٹ محسوس کرلی تھی۔ ’’آنکھوں میں روشنی کی طرح پیاری تھی وہ مجھے، مگر کیا کرتا، کیا کرتا۔‘‘ میں نے کہا۔ اکرام اب بھی خاموش تھا۔ وہ میرے دل کی کیفیت کیا سمجھتا۔ کیا کیا وسوسے تھے، میرے دل میں کیسے کیسے خوف پنہاں تھے، میں ہی جانتا تھا۔ ملعون بھوریا چرن نے اس سے پہلے بھی تو مجھ پر ایسے کئی وار کئے تھے۔ مختلف شکلیں لایا تھا وہ میرے سامنے۔ کون جانے یہ بھی کوئی دھوکا یا پھر…!
میدان عبور کرلیا۔ مکانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پھر اکرام ایک مکان کے دروازے پر رک گیا۔
’’یہ ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ آگے بھی وہ کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن ایک دلدوز نسوانی چیخ نے اس کی آواز بند کردی۔ چیخ کی آواز اندر سے ہی اُبھری تھی۔
ہم دونوں ٹھٹک گئے، چیخ شمسہ کی تھی۔ میں نے مضطرب نگاہوں سے اکرام کو دیکھا۔ اس بار بھی کچھ نہیں بول پایا تھا کہ قدموں کی بھاری آواز سنائی دی۔ کوئی دروازے کے پاس آ گیا تھا۔ پھر نسوانی آواز اُبھری۔
’’بے آبرو نہیں ہوں۔ سمجھا کیا ہے تو نے مجھے۔ دو بھائیوں کی بہن ہوں۔ دو کڑیل بھائیوں کی، تیری اور تیرے بے غیرت دوست کی جاگیر نہیں ہوں۔ ہاں۔‘‘
دُوسری آواز سُنائی دی۔ ’’دروازے کو ہاتھ مت لگائیو۔ سوچ لے تیرے بچّے اندر سو رہے ہیں، تینوں کی گردنیں مار دوں گا۔‘‘ یہ ایک بھاری مردانہ آواز تھی لیکن اس دوران دروازے کی زنجیر نیچے گر چکی تھی۔
’’خدا کے لیے۔ تجھے خدا کا واسطہ۔ ہاتھ جوڑتی ہوں تیرے۔ مان لے میری بات۔‘‘ لجاجت بھری، آنسوئوں میں ڈُوبی آواز اُبھری۔ یہ آواز میری شمسہ کی تھی۔
’’نکل گئی ساری اَکڑ۔ آ جا۔ شاباش۔ اندر آ جا، تیرے بچوں کی زندگی کا سوال ہے۔ یہ زنجیر چڑھا دے۔ کوئی تیری مدد کو نہیں آئے گا۔ تیرے کڑیل بھائی کہیں مزے سے سو رہے ہوں گے۔ آ چل زنجیر چڑھا کر اندر آ جا۔‘‘
میرا پورا بدن لرزنے لگا۔ اکرام کی کیفیت بھی مجھ سے مختلف نہیں تھی۔ اس نے دروازے کو لات ماری اور دروازہ کھل گیا۔ شمسہ کھڑی ہوئی تھی۔ اس سے دو گز کے فاصلے پر ایک لمبا چوڑا آدمی کھڑا ہوا تھا۔ دونوں ہی اُچھل پڑے تھے۔
شمسہ کے حلق سے پھر چیخ نکل گئی۔ وہ دوڑ کر اکرام کے قریب آ گئی۔ ’’بچا لے مجھے میرے بھائی۔ تجھے اللہ کا واسطہ، بچا لے مجھے میرے بھیّا۔ میرے بھائی میرے بچّے اندر ہیں یہ مار دے گا انہیں۔ یہ … انہیں۔‘‘
پیچھے کھڑا شخص آگے بڑھ آیا اور غرائے ہوئے لہجے میں بولا۔ ’’کون ہو تم دونوں، اندر کیسے آئے۔ میں پوچھتا ہوں تم میرے گھر میں کیسے گھسے۔ ڈاکا ڈالنا چاہتے ہو۔ ابھی پولیس کے حوالے کرتا ہوں تمہیں۔‘‘
اکرام نے شمسہ کو پیچھے ہٹایا اور پتھرائے ہوئے انداز میں آگے بڑھا لیکن اس سے پہلے میں نے قدم آگے بڑھا دیئے۔ میں نے ہاتھ سیدھا کر کے اکرام کےسامنے کر دیا اور وہ رُک گیا۔ میں اس بدکار شخص کو گھورتا ہوا اس کےقریب پہنچ گیا۔ اس کے منہ سے بدبو کے بھپکے اُٹھ رہے تھے۔ اکرام نے کہا۔ ’’نہیں مسعود بھائی۔ تم شمسہ بہن کو سنبھالو، میں اسے دیکھتا ہوں۔‘‘ میں نے اکرام کو دوبارہ ہاتھ سے پیچھے دھکیل دیا۔ میری خونی نظریں سامنے کھڑے شخص کو گھور رہی تھیں۔
’’کون ہے تو۔ شوہر ہے اس کا؟‘‘ میں نے سرد لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں بھائی، میرے شوہر کا دوست ہے یہ۔ اسے نشہ کرا کے باندھ دیا ہے اس نے زخمی کر دیا ہے اسے۔ اور… اور اب یہ بے عزت کرنا چاہتا ہے۔‘‘ پیچھے سے شمسہ کی آواز اُبھری۔ حالانکہ اکرام نے مجھے مسعود کہہ کر پکارا تھا مگر شمسہ کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ یہ میں ہوسکتا ہوں، اس کا اپنا بھائی۔
صورت حال سمجھ میں آ گئی تھی۔ میرا اُٹھا ہاتھ اس شخص کے منہ پر پڑا اور وہ اُچھل کر کوئی پانچ فٹ دُور جا گرا۔ اس کے منہ سے خون کی دھار پھوٹ پڑی تھی۔ میں آگے بڑھا اور میں نے جھک کر اسے گریبان سے پکڑا۔ تھوڑا سا اُٹھا کر میں نے ایک لات اس کے سینے پر رسید کی اور اس کے منہ سے ہائے نکل گئی۔ وہ کہنیوں کے بل پیچھے کھسکنے لگا۔ چیخنے سے گریز کر رہا تھا کیونکہ خود مجرم تھا۔ شاید نہیں چاہتا تھا کہ باہر آواز جائے۔ میں نے اس کی پنڈلی پر ٹھوکر رسید کر دی اور وہ زمین پر لوٹنے لگا۔ کمر سینے اور پنڈلیوں پر لاتعداد ٹھوکروں سے وہ بے ہوش ہوگیا۔ اکرام نے آگے بڑھ کر مجھے پکڑ لیا۔
’’مر جائے گا بدبخت۔ چھوڑ دو بھیّا، بس چھوڑ دو۔ بس بھیّا۔ بس کرو۔ مسعود بھائی رُک جائو۔‘‘ اکرام اس طرح سامنے آیا کہ اب اگر میں اس شخص کو مارتا تو اکرام نشانہ بن جاتا۔ چنانچہ رُکنا پڑا۔
شمسہ خوف سے کانپ رہی تھی۔ بڑی مشکل سے اس نے کہا۔ ’’مظلوم ہوں۔ دُکھیاری ہوں میرے بھائی، تھوڑی سی مدد اور کر دو میرا مرد اندر بندھا پڑا ہے۔ نشے میں تھا، اس نے دھوکا دیا، اسے بھی مارو۔ اسے ذرا ہوش میں لے آئو، اللہ تمہیں اَجر دے گا۔ تم نے ایک بے آسرا کی مدد کی ہے۔ اللہ تمہیں اس کا صلہ دے گا۔ بس تھوڑی سی مدد اور کر دو۔‘‘
بے ہوش شخص کو وہیں چھوڑ کر ہم اندر چل پڑے۔ کمرے میں لالٹین روشن تھی۔ فرش پر ایک شخص بندھا پڑا تھا۔ یہی شمسہ کا شوہر تھا۔ ہم نے اسے سیدھا کیا۔ سر کے بال خون سے چپچپا رہے تھے۔ اس کا مطلب ہے سر زخمی ہے۔ شمسہ کراہتی آواز میں کہہ رہی تھی۔
’’جیسا بھی ہے میرے سر کا سائبان ہے، میرا چھپر ہے، بچوں کا باپ ہے، میرا تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، اللہ تمہیں عزت دے۔ میرے بھائیو۔ سگے بھائی بن کر آئے ہو میرے۔ ہائے تم نے میری آبرو بچا لی۔ اللہ تمہاری بہنوں کی آبرو بچائے۔ میرے بھی بھائی تھے، چھین لئے تقدیر نے، ہائے یہ ہوش میں آ جائے تو اس سے پوچھوں کہ اب کیا کرے گا، نشے کا بھی کوئی رشتہ ہوتا ہے۔ سارے رشتے بھول جاتے ہیں یہ سسرے۔ بھابی بھابی کہہ کر دھوکا دیا اس نے۔ فیضان ارے فیضان، اب تو اُٹھ جائو۔ اب تو جاگ جائو، فیضان۔‘‘
’’ایک کپڑا چاہیے بہن، ان کا سر زخمی ہے۔‘‘ اکرام نے کہا۔ میرے بدن میں اب بھی لرزش تھی۔ شمسہ کی آواز کا کرب۔ اس کی باتیں دل چھید رہی تھیں لیکن صبر کرنا آتا ہے مجھے۔ صبر کرنا جانتا تھا، خود کو سنبھالے ہوئے تھا۔ شمسہ نے اپنی اوڑھنی سے ہی ایک ٹکڑا پھاڑ دیا۔
’’کتنا خون بہہ گیا ہے، زخم گہرا تو نہیں ہے، لوہے کا کڑا مارا تھا سر میں، زیادہ زخم آیا ہے کیا؟‘‘
’’نہیں، فکر مت کرو، بچّے کہاں ہیں؟‘‘
’’دُوسرے کمرے میں ہیں، وہیں سو رہی تھی میں۔ ان دونوں کے لڑنے کی آواز سن کر اِدھر آئی۔ دیکھا تو فیضان زخمی ہوگیا تھا۔ یہ اسے باندھ چکا تھا اور پھر… اور پھر… خدا تمہیں خوش رکھے، تمہاری بہنوں کی آبرو بچائے۔‘‘
فیضان کو بستر پر لٹانے کے بعد میں نے اکرام سے کہا۔ ’’اسے بھی اندر گھسیٹ لائو، دیکھو مر تو نہیں گیا۔ فیضان ہوش میں آ جائے تو اس سےپوچھیں گے کہ اب وہ کیا چاہتا ہے۔‘‘
’’آپ بھی آیئے بھیّا، آیئے۔‘‘ اکرام نے کچھ اس طرح کہا کہ میں اس کے ساتھ باہر نکل آیا۔ ’’کچھ بات بھی کرنی تھی آپ سے۔‘‘
’’کہو۔‘‘ میری آواز حلق میں گھٹ رہی تھی۔
’’شکر ہے نشے میں ہونے کی وجہ سے یہ زیادہ چیخا چلّایا نہیں۔ اس طرح باہر والے متوجہ نہیں ہو سکے۔ ہمیں سوچنے کا وقت مل گیا ہے۔ اس مردود کو باندھ کر ڈالے دیتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ویسے آپ نے کمال ضبط کا ثبوت دیا ہے۔ بہت اچھا کیا ہے آپ نے۔‘‘
’’میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے اکرام۔ میرا وجود، چکنار چور ہوگیا ہے۔‘‘ میں نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا۔
’’کیا میں نہیں جانتا۔ لیکن مسعود بھائی، شمسہ بہن آپ کو بالکل نہیں پہچانیں۔‘‘
’’میرے گھر والے مجھے زندہ نہیں سمجھتے اکرام۔ شمسہ کو تو میری زندگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔ ماموں ریاض نے مجھے بدنصیب شمسہ کی کہانی سنائی تھی، اس وقت وہ اس ظالم شخص کے چنگل میں پھنس چکی تھی۔‘‘
’’میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔‘‘ اکرام بولا۔
’’کیوں۔ یہ اندازہ کیسے ہوا؟‘‘
’’اس نے کئی بار اپنے بھائیوں کا ذکر کیا ہے۔‘‘
’’اللہ جانے۔‘‘ میں نے بے چارگی سے کہا۔
’’مگر وہ آپ کو بالکل نہیں پہچان سکی۔ اس کی وجہ بھی میری سمجھ میں آ رہی ہے۔ وہ شاید ذہنی دبائو کا شکار ہے۔ میں نے آپ کو مسعود بھائی اور اسے شمسہ بہن کہہ کر پکارا ہے۔ مگر وہ اس بات پر بھی نہیں چونکی کہ میں نے اس کا نام کیسے لے لیا۔‘‘
’’ہاں۔ شاید تمہارا خیال درست ہے۔‘‘
’’عارضی طور پر میرے دل میں ایک خیال آیا تھا بھیّا۔‘‘
’’بتائو اکرام۔ میرا دماغ تو مائوف ہے، بتائو کیا کروں؟‘‘
’’شمسہ بہن، اس دوران خود آپ کو پہچان لیں تو دُوسری بات ہے، آپ خود انہیں کچھ نہ بتائیں۔ ہو سکتا ہے ان پر کچھ جذباتی اثرات مرتب ہو جائیں۔ اب ان حالات میں انہیں یہاں چھوڑنا تو مناسب نہیں ہوگا۔ ہم انہیں خانقاہ لئے چلتے ہیں، وہاں اطمینان سے سوچیں گے کہ اب کیا کریں۔‘‘
’’جیسا تم مناسب سمجھو اکرام۔‘‘
’’آپ کو اختلاف تو نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں۔ اب مجھے کسی بات سے اختلاف نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا اور اکرام مطمئن ہوگیا۔ اس کےبعد میں سارے کام کئے تھے۔ اس منحوس شخص کو باندھ کر ڈال دیا گیا جس نے دوستی کا بھرم کھویا تھا۔ شمسہ کا شوہر بھی آہستہ آہستہ ہوش میں آ رہا تھا۔ اس کا نشہ تو ویسے ہی اُتر چکا تھا۔ ہوش میں آ کر اس نے وحشت زدہ نظروں سے ماحول کو دیکھا۔ پھر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’کہاں۔ کہاں گیا وہ؟‘‘
’’سب ٹھیک ہے فیضان۔ ہوش کرو، سب ٹھیک ہے۔ اللہ نےمدد بھیج دی فیضان۔ میرے بھائیوں نے مجھے بچا لیا۔ ہائے فیضان تم نے تو مجھے کہیں کا نہ رکھا تھا۔ میں کہتی تھی کہ یہ اچھا آدمی نہیں ہے، اس پر بھروسا نہ کرو۔ مگر نہ مانے تم۔ ہائے فیضان مجھے اللہ نے بچا لیا۔‘‘ شمسہ روتے ہوئے بولی۔
’’بچّے… بچّے۔‘‘ فیضان گھٹے گھٹے لہجے میں بولا۔ ’’اللہ کا کرم ہے، سو رہے ہیں۔ ایک نظر دیکھ آئوں انہیں۔ بھیّا ابھی آئی۔‘‘ شمسہ کمرے کے دروازے سے نکل گئی۔ فیضان نے لالٹین کی روشنی میں ماحول کو دیکھا، پھر اس کی نظر اپنے دوست پر پڑی اور وہ اُچھل کر کھڑا ہوگیا۔ چند قدم آگے بڑھ کر اس کے قریب پہنچا، اسے دیکھتا رہا۔ پھر ہماری طرف دیکھ کر کہا۔ ’’اسے کیا ہوا؟‘‘
’’مارا ہے ہم نے۔‘‘ اکرام بولا۔
’’مر گیا؟‘‘
’’نہیں زندہ ہے۔‘‘
’’کم اصل ہے، ایسے کہاں مرے گا۔‘‘ فیضان نے کہا اور اسے ایک ٹھوکر رسید کر دی۔ پھر وہ ہماری طرف مڑ کر بولا۔ ’’تمہارا شکریہ ادا کرنا بیکار ہے۔ شکریہ کوئی عزت دار کسی عزت دار کے احسان کا ادا کرتا ہے۔ مجھ جیسے بے غیرت آدمی نے اگر تمہارا شکریہ ادا کر بھی دیا تو اس لفظ کی بھی توہین ہوگی۔ وہ داغدار ہو جاتی تو اور مشکلات میں ڈُوب جاتی، میں ہی اسے نہ جینے دیتا۔ اتنا ہی ذلیل انسان ہوں میں۔‘‘
اکرام نے حیران نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں خاموش رہا تھا۔ چند لمحات کے بعد فیضان نے کہا۔ ’’مگر تم دونوں رحمت کے فرشتے بن کر اس وقت یہاں کیسے آئے اور تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ …‘‘
’’ہم اِدھر سے گزر رہے تھے کہ ہمیں بہن کے چیخنے کی آواز سنائی دی ۔وہ دروازہ کھول کر باہر بھاگنا چاہتی تھی۔ ہم نے اس شخص کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا کہ اگر باہر نکلی تو وہ بچوں کو گردن دبا کر مار دے گا۔ بس ہم اندر گھس آئے۔‘‘
مسعود کی ملاقات کالے جادو کے ماہر بھوریاچرن سے کیا ہوئی، اس کی پوری زندگی گویا اندھیروں میں ڈوب گئی۔ بھوریا نے مسعود کو اپنا آلۂ کار بنانا چاہا لیکن اس کے انکار پر اس کا دشمن بن گیا۔ اس نے مسعود کو ذہنی اور جسمانی اذیتوں سے دوچار کرکے اسے تباہ و برباد کردیا تاہم اس کے انکار کو اقرار میں نہ بدل سکا۔ انہی حالات میں مسعود کچھ خاص ہستیوں کی نظر میں آیا اور ان کی مہربانیوں کے نتیجے میں شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لائق ہوگیا تاہم بھوریا اب بھی اس کے تعاقب میں تھا۔ مسعود کو خدمتِ خلق کا فریضہ سونپ دیا گیا تھا جسے وہ بخوبی نباہ رہا تھا۔ اسی دوران اس کی ملاقات ایک مظلوم لڑکی سے ہوئی جس کی زبان بھوریا نے اس لئے کاٹ ڈالی تھی کہ اس کے بھائی اکرام کو اپنے قابو میں کرکے اسے اپنا آلۂ کار بنا سکے۔ اس نے دونوں بہن بھائی کو ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا۔ مسعود کو اس بے زبان لڑکی سے محبت ہوگئی لیکن حالات کے تحت وہ اس سے دور ہونے پر مجبور ہوگیا۔ پھر ثریا کا بھائی اکرام اسے مل گیا لیکن اب ثریا کا کوئی پتا نہیں تھا۔ وہ دونوں ثریا کی تلاش میں نکلے جبکہ اس دوران مسعود کا خدمتِ خلق مشن بھی جاری تھا۔ اتفاقاً وہ ایک ایسی خانقاہ تک جاپہنچے جسے ایک جعلی پیر بابا چلا رہا تھا۔ بعد میں اس نے اپنی کہانی سنائی تو معلوم ہوا کہ وہ حالات کا ستایا ہوا تھا اور مجبوراً اس نے یہ ڈھونگ رچا رکھا تھا۔ پھر اچانک پیر بابا کا ذہنی توازن خراب ہونے پر خانقاہ کا انتظام مسعود کو سنبھالنا پڑا۔ وہ کلامِ الہٰی کی مدد سے وہاں آنے والے سائلین کی مدد کرنے لگا۔ انہیں سائلین میں ایک روز مسعود کو اپنی بچھڑی ہوئی بہن شمسہ دکھائی دی جو اپنے ظالم شوہر کے خلاف فریاد اور اس کی سدھر جانے کی منّت لے کر وہاں آئی تھی۔ مسعود کچھ مصلحتوں کے تحت اس کا سامنا کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن اکرام نے مسعود کو اس کی دادرسی پر مجبور کیا تو مسعود کو آگے بڑھنا ہی پڑا۔
(اب آپ آگے پڑھیے)
٭…٭…٭
’’کمینہ، کتا، میرے بچوں کو… میرے بچوں کو!‘‘ فیضان بے قابو ہو کر پھر اپنے دوست کی طرف دوڑا لیکن اکرام نے اسے کمر سے پکڑ لیا۔
’’وہ بے ہوش ہے۔ جذباتی ہونا بیکار ہے۔ اب یہ بتائو بھائی کہ آگے کیا کرنا ہے۔‘‘
’’یہ میرا بہت پرانا دوست تھا، بڑا مان تھا مجھے اس پر۔‘‘ فیضان نے کہا۔
’’اس کی اصلیت معلوم ہوگئی۔ افسوس کرنا بیکار ہے۔ تم دونوں جن راستوں کے راہی تھے وہ اچھے تو نہیں تھے۔‘‘
’’ہاں۔ احساس ہوگیا۔ آخر احساس ہو ہی گیا۔ مگر…‘‘ وہ خاموش ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد بولا۔ ’’یہیں کے رہنے والے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اکرام نے جواب دیا۔
’’کچھ اور رحم کرو گے ہم پر، تین معصوم بچوں اور ایک مظلوم عورت پر۔‘‘ اس کی آواز میں عجیب سی پشیمانی تھی۔
’’مظلوم عورت پر۔ تو کیا وہ تمہاری بیوی نہیں ہے؟‘‘
’’ہے تو سہی۔ اللہ کے سامنے تو میں نے یہی اقرار کیا تھا کہ اس کا محافظ بنوں گا۔ مگر وعدہ پورا نہیں کیا میں نے۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے، کیا کر سکتا ہوں۔ ظلم کئے ہیں میں نے اس پر۔ کاش آنکھ نہ کھلتی۔ اس سے بھی معافی نہیں مانگوں گا۔ جھوٹ سمجھے گی۔ کبھی یقین نہیں کرے گی۔ کوئی فائدہ بھی نہیں، کر کیا سکوں گا اس کے لئے۔ بیکار ہے۔ ارے ہاں اپنی بات لے بیٹھا۔ تم سے رحم کی بھیک مانگ رہا تھا، اپنی کہانی سُنانے لگا۔‘‘
’’بولو کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’اس سے تو دُشمنی ہوگئی۔ اب اس کے ساتھ تو رہا نہیں جا سکتا، تھوڑی سی مدد کر دو۔ عارضی طور پر سر چھپانے کی جگہ دے دو، کچھ کمانے کی کوشش کروں گا، پھر یہاں سے کہیں اور نکل لوں گا۔ یہ مت سمجھنا کہ نیکی گلے پڑ گئی۔ مجبوری ہے، چھوٹے بچوں کا ساتھ ہے ورنہ کہیں اور نکل لیتا۔ بن سکتی ہے کوئی بات۔‘‘
’’کسی سرائے وغیرہ میں رہو گے؟‘‘ اکرام نے پوچھا۔
’’پیسے نہیں ہیں۔‘‘ فیضان نے جواب دیا۔ اسی وقت شمسہ واپس آ گئی۔ فیضان کو دیکھ کر خوفزدہ لہجے میں بولی۔
’’چھوٹا جاگ گیا تھا، سُلانے میں دیر ہوگئی۔‘‘ فیضان نے آنکھیں جھکا لی تھیں۔ شمسہ نے آگے بڑھ کر پوچھا۔ ’’درد ہو رہا ہے سر میں؟ گھائو گہرا ہے کیا؟‘‘
’’نہیں ٹھیک ہوں۔‘‘
’’چلو فیضان، کچھ سامان ہو تو اُٹھا لو۔‘‘ اکرام نے کہا۔ اس بات پر میں نے بھی چونک کر اکرام کو دیکھا تھا۔ اکرام نے سب کچھ خود سنبھال لیا تھا۔ میری ذہنی کیفیت جانتا تھا اور اس لئے پورے اعتماد کے ساتھ عمل کر رہا تھا۔ ویسے بھی وہ بہت جذباتی ہوگیا تھا۔ شمسہ کے سلسلے میں اور اس کی وجہ بھی میں جانتا تھا۔ وہ خود بھی تو گھائل تھا۔
فیضان نے فوراً اس کی ہدایت پر عمل کیا۔ ٹین کا ایک صندوق اور کپڑوں کی پوٹلی۔ یہ اثاثہ تھا ان کا۔ شمسہ نے پوٹلی شانے سے لٹکائی اور فیضان سے بولی۔ ’’ایک بچّے کو اُٹھا لوگے؟‘‘ فیضان خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑا۔ اس کے پیچھے اکرام اور پھر میں۔ فیضان نے ایک بچّے کو اُٹھایا تو اکرام نے فوراً اپنی گود میں لے لیا۔ شمسہ نے دُوسرے بچّے کو اُٹھایا تو میں نے ہاتھ پھیلا دیئے۔ نرم ننھا سا وجود میری آغوش میں آیا تو محبت کے سوتے کھل گئے۔ بھانجا تھا میرا، ماموں تھا میں اس کا۔ اپنی خوشبو آ رہی تھی اس کے بدن سے، میں نے اسے بھینچ لیا۔ تیسرے بچّے کو فیضان نے اُٹھا لیا۔ اکرام نے صندوق بھی ہاتھ میں لٹکا لیا تھا۔ اسی طرح ہم گھر سے باہر نکل آئے۔ میں جانتا تھا کہ اکرام نے انہیں خانقاہ لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے عمدہ جگہ ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ خانقاہ کا رُخ کرتے ہوئے شمسہ چونکی تھی اور پھر میں نے اسے آنکھیں پھاڑ کر اکرام کو اور خود کو دیکھتے ہوئے پایا تھا۔ مجھے علم تھا کہ اکرام نے اس کی مالی مدد بھی کی ہے۔ ہو سکتا ہے شمسہ اسے پہچانتی ہو لیکن اوّل تو رات اور پھر اس حادثے کی بدحواسی نے اسے اکرام پر غور نہ کرنے دیا ہو۔ مگر اب راستہ طے کرتے ہوئے وہ بار بار ہمیں دیکھ رہی تھی۔
ہم خانقاہ پہنچ گئے۔ میں انہیں اپنی رہائش گاہ میں لے گیا تھا۔ اکرام نے کہا۔ ’’فیضان بھائی۔ آپ اور بہن یہاں آرام سے رہیں۔ اطمینان رکھیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’یہ مزار ہے کس بزرگ کا؟‘‘ فیضان نے کہا۔
’’جو کچھ بھی ہے، آپ کو یہاں تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘ ہم دونوں انہیں چھوڑ کر باہر نکل آئے۔ ایک کھلی جگہ پتھر پر بیٹھ گئے۔ تاحد نگاہ پُراسرار رات بکھری ہوئی تھی۔ انوکھی کہانیوں کی امین۔ اکرام نے کہا۔ ’’کیسی عجیب کہانی ہے اب آپ کیا سوچ رہے ہیں مسعود بھائی۔‘‘
’’پتہ نہیں اکرام۔‘‘
’’میری کسی بات کو فریب نہ سمجھیں مسعود بھائی۔ میری زندگی کا مقصد، میرا مسلک ثریا کی تلاش تھا۔ وہ مجھے شمسہ کی شکل میں مل گئی ہے۔ اگر وہ ثریا نہیں ہے تو کیا ہوا شمسہ تو ہے۔ بلکہ شمسہ کا مل جانا میرے لئے بڑی ڈھارس کا باعث ہے، جس طرح تقدیر نے مجھے شمسہ دے دی، اسی طرح ثریا بھی ضرور مل جائے گی، میرا ایمان ہے۔ اسے تلاش کرنے کے لیے میں کوئی جدوجہد نہیں کروں گا۔ ہاں انتظار ضرور کروں گا کسی ایسے لمحے کا جو ثریا کو میرے سامنے لے آئے۔ آپ کا مشن الگ ہے اور میں اس میں کوئی مداخلت نہیں کروں گا۔ آپ جس طرح چاہیں اپنا مشن جاری رکھ سکتے ہیں مگر میں اب شمسہ کی خدمت کروں گا۔ اس کی محرومیاں دُور کروں گا۔‘‘ اکرام سخت جذباتی ہو رہا تھا۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’کچھ بولیں گے نہیں مسعود بھائی۔‘‘
’’کیا کہوں اکرام؟‘‘
’’میں نے آج پہلی بار کئی کام آپ کی مرضی کے خلاف کر ڈالے ہیں۔ میرا مطلب ہے آپ سے پوچھے بغیر۔‘‘
’’میں نے تمہیں اپنا محکوم کبھی نہیں سمجھا۔‘‘
’’اس عمل سے آپ ناراض تو نہیں ہیں۔‘‘
’’وہ میری بہن ہے اکرام۔ اسے سہارا دیا ہے تم نے۔‘‘ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’شکریہ بھیّا، میرا حوصلہ بڑھ گیا ہے۔ میں اس کے لئے سب کچھ کروں گا، جو بن پڑے گا، کروں گا۔‘‘
’’میں ایک درخواست کروں گا تم سے اکرام۔‘‘
’’حکم دیں مسعود بھائی۔‘‘
’’اسے میرے بارے میں کچھ نہ بتانا۔‘‘
’’اوہ‘‘ اکرام آہستہ سے بولا۔ کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا۔ ’’ٹھیک ہے حالانکہ میں نے سوچا تھا کہ… کہ… خیر آپ جو بہتر سمجھیں۔ ٹھیک ہے میں نہیں بتائوں گا۔‘‘
’’جائو آرام کرو۔ کہیں بھی پڑ رہنا، خانقاہ وسیع ہے۔‘‘ اکرام کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ پھر وہاں سے اُٹھ کر ایک طرف چل پڑا۔ میرے دل و دماغ پر شدید بوجھ تھا۔ سخت ہیجان کا شکار ہو رہا تھا۔ شمسہ کو کلیجے میں بھر لینے کو جی چاہ رہا تھا۔ رُواں رُواں چیخ رہا تھا، سارے بدن میں جوار بھاٹے اُٹھ رہے تھے۔ مگر خوف کا شکار تھا۔ پتہ نہیں میرا یہ عمل مجھے کیا سزا دے۔
ابھی اجازت نہیں تھی، ابھی صبر کرنا تھا۔ اکرام کے الفاظ نے جذباتی کر دیا تھا اور میں شمسہ کے پاس پہنچ گیا تھا مگر یہ ضروری تھا۔ بروقت پہنچے تھے ہم لوگ۔ نہ جانے کیاہو جاتا، نہ جانے وہ منحوس شخص میری شمسہ کے ساتھ کیا سلوک کرتا۔ بے چینی عروج کو پہنچی تو آنکھیں بند کر کے مراقبہ کرنے لگا۔ اس وقت مجھے شمسہ کے لئے رہنمائی درکار تھی۔ آہ میں انہی کی محبت سے مغلوب ہو رہا تھا۔ مگر کوئی اشارہ نہیں ملا۔ کچھ نہیں ہوا۔ ایسا ہوتا تھا۔ بعض اوقات چھوٹی سی بات کے لئے اشارے مل جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ نہیں پتہ چلتا تھا۔ گویا معاملہ میری صوابدید پر ہے۔ تاہم اس فیصلے پر اٹل تھا کہ شمسہ پر خود کو ظاہر نہیں کروں گا۔ باقی رات بھی سوچتے ہوئے گزری تھی۔ فیضان اب بہتری کی طرف مائل ہے۔ اس کے بارے میں کسی حد تک معلومات حاصل ہوگئی تھیں۔ انہیں ایک نامعلوم مستقبل کے سپرد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کچھ کرنا ہوگا ان کے لئے، مگر کیا۔
دُوسری صبح شامی میرے پاس آ گیا۔ ’’وہ مسعود بھائی۔ آپ کے کچھ مہمان آئے ہیں۔‘‘
’’ہاں شامی؟‘‘
’’میں آپ سے ملنے گیا تھا مگر وہاں ایک خاتون اور چند بچوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔‘‘
’’وہ کچھ دن یہاں رہیں گے شامی۔‘‘
’’ٹھیک ہے مجھے ان کیلئے ہدایات دیدیں۔‘‘
’’ان کی ضرورتیں پوری کرنی ہیں۔ میرے اُوپر تمہارا احسان ہوگا۔‘‘ میں نے سماجت سے کہا۔
’’کیسی باتیں کررہے ہیں مسعود بھائی۔ اندھے تو نہیں ہیں سب لوگ، ہم جانتے ہیں کہ یہاں تمہارے دَم کا ظہور ہے۔ بڑا بابا تو نہ جانے کہاں گم ہوگیا۔ اسے تلاش کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ تم نے بس یہ کہہ دیا کہ وہ تمہارے مہمان ہیں، تو سب ٹھیک ہوگیا۔ ہمارا فرض ہے ان کی دیکھ بھال کرنا۔ تم اطمینان رکھو۔‘‘
’’شکریہ شامی۔‘‘ وہاں سے اُٹھ کر خانقاہ میں جا بیٹھا۔ ناشتہ وغیرہ وہیں کر لیا تھا۔ پھر اکرام آ گیا۔
’’شمسہ نے مجھے پہچان لیا ہے مسعود بھائی۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’وہ… آپ نے کچھ پیسے دیئے تھے نا مجھے۔ میں نے خود اسے دیئے تھے، صبح کو مجھے دیکھ کر حیران ہوگئی۔ بہت معصوم ہے وہ… فیضان کے سامنے ہی بول پڑی کہ بھیّا تم وہی ہو جس نے مجھے پیسے دیئے تھے۔‘‘
’’مجھے تو نہیں پوچھا تھا؟‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’پوچھا تھا۔‘‘
’’کیا کہا تھا۔‘‘
’’کہنے لگی دُوسرے بھیّا کہاں ہیں۔‘‘
’’تم نے کیا جواب دیا۔‘‘
’’میں نے کہا۔ وہ کہیں گئے ہیں، کسی بھی وقت واپس آ جائیں گے۔‘‘
’’فیضان کا کیا حال ہے؟‘‘
’’سخت شرمندہ نظر آتا ہے۔ بالکل خاموش ہے، ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا اس نے میرے سامنے۔‘‘
’’شمسہ سے کہنا، پردہ نشین لڑکیوں کی طرح اندر رہے، کسی کے سامنے نہ آئے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، کہہ دوں گا۔‘‘
’’اس کے بچوں کے کیا نام ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا اور اکرام مجھے ان کے نام بتانے لگا۔ وہ عجیب سی کیفیت کا شکار نظر آ رہا تھا۔ بہرصورت میں نے بڑے ضبط سے کام لیا۔ شمسہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر تھی۔ دل تو چاہتا تھا کہ اسے ایک لمحہ نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دوں۔ مگر رات کے بعد میں نے اسے دوبارہ نہیں دیکھا تھا۔
شام کو فیضان باہر نکل آیا۔ میں نے اسے مغرب کی نماز پڑھتے دیکھا تھا اور مجھے خوشی ہوئی تھی۔ انسان اللہ کے حضور سربسجود ہو جائے تو برائیاں مرجھا جاتی ہیں۔ اسے خوف ہوتا ہے کہ وہ سر جھکا کر اسے اپنی برائیوں کا کیا جواب دے گا۔ میں اس کے پاس تو نہیں گیا مگر جب شمسہ کے بچّے باہر نکل آئے تو میں خود کو باز نہ رکھ سکا۔ یہ میری بہن کے بچّے تھے۔ میں ان کا ماموں تھا۔ سگا ماموں… میں بے اختیار ہو کر ان کے پاس پہنچ گیا۔ فیضان نے مجھے پہچان لیا۔
’’آپ آ گئے شاہ صاحب۔‘‘
’’کہو کیا حال ہے فیضان میاں؟‘‘
’’حضور سخت زخمی ہوں۔ اپنے زخموں کیلئے مرہم چاہتا ہوں۔‘‘ فیضان سے سسکتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’اللہ تمہیں سکون عطا فرمائے۔‘‘ میں نے بچوں سے کھیلتے ہوئے کہا۔
’’دل و دماغ میں سخت ہیجان برپا ہے۔ نہ جانے کیا کیا کہنا چاہتا ہوں مگر کس سے کہوں۔ کیسے دل ہلکا کروں۔ کوئی ہے جو مجھ پر یقین کر لے۔‘‘
’’شمسہ تمہاری بیوی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’نظر ملانے کے قابل نہیں ہوں اس سے، جو کچھ میں نے اس کے ساتھ کیا ہے اللہ اسے کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘‘
’’اگر تم شمسہ کے مجرم ہو تو اس سے معافی مانگ لو، اس نے تمہیں معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور معاف کر دے گا۔‘‘
’’بہت شرمندہ ہوں میں اس سے، اس کی شخصیت تباہ کر دی ہے میں نے، بہت ذہین بہت سمجھ دار، بڑی زیرک اور معاملہ فہم تھی۔ اتنا ستایا میں نے اسے کہ اپنی اہلیت کھو بیٹھی۔ تیسرے درجے کی عورت بن گئی وہ۔ سب کچھ اس کے دل میں ہے۔ مجھ سے زیادہ اور کون جانتا ہے اسے۔‘‘ فیضان کی سسکیاں اُبھرنے لگیں۔
’’وہ کیا کہتی ہے۔‘‘
’’اب کچھ نہیں کہتی۔ بہت کچھ کہہ چکی ہے مگر… اس وقت میں نے سُنا نہیں تھا شاہ صاحب۔ میرے کان بند تھے۔‘‘
’’مجھے اپنے ماضی کے بارے میں کچھ بتائو گے فیضان۔‘‘
’’آپ سُن لیں گے شاہ صاحب۔ وعدہ کریں آپ سُن لیں گے۔ آپ مجھے ذلیل کریں گے، خوب ذلیل کریں گے۔ شاہ صاحب، آپ لوگوں نے، آپ نے اور اکرام بھائی نے میری بیوی کی عزت بچائی۔ وہ پاکباز عورت ہے۔ ایک شرابی ایک بدکار انسان ہونے کے باوجود میں اس پر ہر الزام لگانا چاہتا تھا، ہر طرح اسے ذلیل کرنا چاہتا تھا۔ مگر میں اس پر کبھی بدکاری کا الزام نہیں لگا سکا، اتنی ہی پاکیزہ ہے وہ۔ اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون ایسے نیک انسان کا خون ہے کہ… کہ اس کی بے حرمتی پر اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘‘
’’شکریہ فیضان۔‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ مگر فیضان جذبات میں اس قدر ڈُوبا ہوا تھا کہ اس نے میرے ان جملوں پر غور نہیں کیا۔ وہ بولا۔
’’بُرے لوگوں کا ساتھ رہا میرا۔ اچھائی پہ نظر ہی نہ گئی۔ یہ بڑا دربار ہے۔ میں سمجھتا ہوں مجھے یہاں جگہ بلاوجہ نہیں ملی ہے۔ شاید میرے گناہوں کا کفارہ ہو جائے۔‘‘ فیضان ڈرتے ہوئے بولا۔
’’ابا کیوں رو رہے ہیں۔‘‘ شمسہ کے بڑے بچّے نے منہ بسورتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں بیٹے۔ اب یہ ہمیشہ ہنسیں گے، اکرام۔‘‘ میں نے دُور سے گزرتے ہوئے اکرام کو آواز دی۔
’’جی بھائی۔‘‘ اکرام قریب آ گیا۔ اس نے جان بوجھ کر میرا نام لینے سے گریز کیا تھا اور نہ وہ مجھے خالی بھائی کبھی نہ کہتا تھا۔
’’بچوں کو ان کی ماں کے پاس پہنچا دو۔‘‘
’’جی۔‘‘ اکرام بچوں کو لے کر چلا گیا۔ فیضان نے پھر گردن خم کرلی تھی۔ کچھ دیر وہ سوچتا رہا، پھر بولا۔
’’میں سہارنپور میں رہتا تھا۔ ماں باپ مر چکے تھے۔ چار بھائی تھے ہم لوگ۔ تین شادی شدہ تھے۔ میں سب سے چھوٹا تھا۔ بھائیوں کے رحم و کرم پر تھا۔ بھائی مجھ سے بے نیاز تھے۔ احساس محرومی نے مجھے میرے دوستوں کا راہی بنا دیا تھا۔ برائی کی طرف قدم بڑھائو تو دوستوں کی کمی نہیں ہوتی۔ بہت سے بُرے دوست مل گئے تھے مجھے۔ بھاوجیں ہر طرح ذلیل کرتی رہتی تھیں۔ میں نے ایک دن بڑی بھابی سے کہا۔ بھابی میری شادی کر دیں۔‘‘
’’خوب… بیوی کو کہاں رکھو گے۔‘‘
’’یہ گھر میرا نہیں ہے کیا؟‘‘
’’آئینہ دیکھا ہے کبھی۔‘‘
’’کیوں۔‘‘
’’صاف صاف سُنو گے۔‘‘ بھابی بہت تیز طرار تھیں۔
’’اب تو سننا بہت ضروری ہے۔‘‘ میں نے بھی بھاری لہجے میں کہا۔
’’کتنے عرصہ سے کھا رہے ہو ہمارے سر پر… کیا خرچ ہے تہمارا۔‘‘
’’میرا خرچ تو بڑے بھیّا اُٹھاتے ہیں۔‘‘
’’کچھ شرم آئی ہے کبھی۔‘‘
’’آخر کیوں۔‘‘
’’سُنو فیضان غور سے سنو۔ تمہارے تینوں بھائیوں میں سے کوئی تمہارا خرچ اُٹھانے کیلئے تیار نہیں ہے اور کیوں اُٹھائیں وہ تمہارا خرچ، جوان ہو، تندرست ہو، یہ بات ہم سب کے درمیان ہو چکی ہے۔ اس مکان میں تمہارا حصہ تھا۔ آج تک تمہارا خرچ اس میں سے اُٹھایا جا رہا ہے۔ وہ حساب بھی برابر ہو چکا ہے، سمجھ میں آ گیا۔‘‘
بھابی کی بات مجھے بہت بُری لگی۔ مگر میں اس بات پر ناراض نہیں ہوا بلکہ میں نے سنجیدگی سے سوچا۔ واقعی میں بہت پست ہوگیا ہوں۔ میں نے ایک دم خود کو بدل دیا۔ نوکری کی، دوسرے کام کرنے لگا۔ تیز چالاک تھا میں۔ پیسے کمانا مشکل نہ ہوا۔ میں نے اپنی حیثیت بدل لی۔ بھائی بھی خوش تھے۔ بھاوجیں بھی، انہیں بھی بہت کچھ دیتا تھا۔ پرانے دوستوں کو چھوڑ کر، ہر بُری عادت چھوڑ کر مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی لیکن میں سب کچھ برداشت کر رہا تھا۔ ایک اچھا انسان بننا چاہتا تھا میں۔ پھر میں نے شمسہ کو دیکھا۔ یہ لوگ نئے نئے ہمارے محلّے میں آ کر رہے تھے۔ شمسہ مجھے بھا گئی۔ اس کے والد صاحب کا نام محفوظ احمد تھا۔ ایک اور صاحب ان کے ساتھ رہتے تھے جن کا نام ریاض احمد تھا۔ کس قدر پریشان حال تھے وہ لوگ مگر شریف تھے۔ بڑی آرزوئوں کے ساتھ میں نے اپنی بھابیوں کو شمسہ کے گھر رشتہ لے کر بھیجا۔ وہاں سے جواب ملا کہ ہم سوچ کر جواب دیں گے۔ میں انتظار کرتا رہا مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا۔ ایک بار پھر میں نے بھابیوں سے کہا تو میری منجھلی بھابی نے مجھ پرطنز کرتے ہوئے کہا۔
’’بے کار ہے فیضان، تمہاری شہرت دُور دُور تک ہے۔ کون جان بوجھ کر مکھی نگلے گا۔‘‘
’’اب میں ٹھیک ہو چکا ہوں بھابی۔‘‘
’’ہونہہ… ٹھیک ہو چکے ہو دیکھ لینا جو جواب ملے گا دیکھ لینا۔‘‘
’’اگر ایسا ہوا تو اچھا نہیں ہوگا بھابی۔‘‘
’’کہا نا خود دیکھ لینا۔‘‘
میری بھابی دوبارہ محفوظ احمد صاحب کے گھر گئیں مگر جواب واقعی منجھلی بھابی کے خیال کے مطابق تھا۔ محفوظ احمد صاحب نے کہا کہ تصدیق کرنے سے پتہ چلا ہے کہ لڑکے کا چال چلن اچھا نہیں ہے، اس لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔ بھابیوں نے میرا خوب مذاق اُڑایا اور میں جل کر کباب ہوگیا۔ میں خود ان لوگوں سے ملا۔ اپنا نام بتا کر میں نے کہا کہ بیشک میں نے کچھ وقت غلط لوگوں کے ساتھ گزارا ہے لیکن اب میں محنت کر کے روزی کما رہا ہوں۔ میری ذات سے انہیں یا ان کی بیٹی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ مگر شمسہ کے ماموں نے صاف انکار کر دیا۔ میری منت سماجت پر کوئی توجہ نہیں دی اور میرا دماغ پھر اُلٹ گیا۔ میں نے شمسہ کو اپنے چند دوستوں کی مدد سے اغوا کر لیا اور اسے لے کر سہارنپور سے دہلی آ گیا۔ پھر الٰہ آباد پہنچا اور وہاں اس سے نکاح کر لیا مگر ان لوگوں کی ضد نے مجھے پھر انہیں راستوں پر لا ڈالا تھا۔ اس کے بعد میں شمسہ سے انصاف نہیں کر سکا۔ اسے دیکھ کر مجھے اپنی توہین کا احساس ہوتا تھا۔ لیکن شمسہ…‘‘
فیضان خاموش ہوگیا۔ یہ میرے گھر کی کہانی تھی۔ ان سب کی کہانی تھی جن کیلئے میرا دل خون کے آنسو روتا تھا۔
بہت دیر تک خاموشی طاری رہی، پھر تجسس نے سر اُبھارا۔ میں نے کہا۔
’’شمسہ کے والدین پھر تو نہیں ملے فیضان۔‘‘
’’میں تو اپنے بھائیوں سے بھی نہیں ملا۔ ان بیچاروں سے بھلا کیا ملتا۔‘‘
’’تمہارا خاندان سہارنپور ہی میں آباد ہے۔‘‘
’’ہاں۔ وہیں پیدا ہوئے ہم لوگ۔ دادا، پردادا بھی وہیں کے ہیں۔‘‘
’’اور شمسہ کے اہل خاندان۔‘‘
’’وہ کہیں اور سے آ کر آباد ہوئے تھے۔‘‘ فیضان نے جواب دیا۔ فیضان کو کرید کرید کر میں اس دور کا تعین کرنے لگا جب ماموں ریاض مجھے تھانے میں ملے تھے اور انہوں نے مجھے شمسہ کے بارے میں بتایا تھا۔ یہ پتہ چلانا چاہتا تھا کہ کیا وہ لوگ اب بھی وہیں رہتے ہیں۔ فیضان اس بارے میں کچھ نہیں بتا سکا البتہ میں نے اس سے اس کے گھر کا پتہ پوچھ لیا تھا۔
دُوسرا دن عرضیوں کا دن تھا۔ دو دنوں کیلئے تیاریاں ہوتی تھیں۔ خاص خیال رکھا جاتا تھا، باقی دن عام ہوتے تھے حالانکہ خانقاہ کے عقیدت مند عام دنوں میں بھی آجاتے تھے۔ ان پر روک ٹوک نہیں تھی۔ لیکن وہ عام دنوں میں اس جھوٹی قبر پر نہیں جا سکتے تھے۔ بس منگل کو عرضیوں کیلئے اور جمعرات کو ان کے جواب کیلئے وہ اندر جاتے تھے۔ اس ڈھونگ پر میرا دل لرزتا تھا۔ مگر یہ میں نے نہیں رچایا تھا۔ اس کا سلسلہ تو بہت پہلے سے چل رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ جس نے اس سلسلے کا آغاز کیا تھا وہ مرتبہ پا چکا تھا اور بڑائی حاصل کر کے نہ جانے کہاں چلا گیا تھا۔ ہم لکیر پیٹ رہے تھے۔ ایک بار اکرام سے اس سلسلے میں بات ہوئی تھی اور اس نے مجھے بہت سہارا دیا تھا۔
’’یہ سب کچھ جو ہم کررہے ہیں اکرام… کیا یہ بہتر ہے؟‘‘
’’کیا مسعود بھیّا۔‘‘
’’ہمیں معلوم ہے کہ یہ سب فریب ہے، نہ یہ کسی کا مزار ہے نہ اس کی کوئی اور اہمیت ہے۔ لوگ اس کے بارے میں توقعات لے کر آتے ہیں اور ہم انہیں جھوٹے سہارے دیتے ہیں۔‘‘
’’وہ سہارے جھوٹے تو نہیں ہوتے بھیّا۔ انہیں فائدہ پہنچتا ہے جو کچھ آپ جانتے ہیں، انہیں بتا دیتے ہیں۔ سب ہی کہہ رہے ہیں کہ جب سے آپ خانقاہ میں آئے ہیں، ضرورت مندوں کو سب کچھ حاصل ہو رہا ہے۔ آپ کے یہاں آنے سے تو فریب کا سلسلہ ختم ہوا ہے اور حاجت مندوں کی اصل ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ بھیّا یہ کم ہے کہ لوگوں کو ڈاکو سنتو خاں سے نجات مل گئی ہے۔ آپ خود بتایئے کیا یہ گناہ ہے۔‘‘
’’مگر وہ ایک جھوٹی آس لے کر آتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ … عام حیثیت سے آتے تو۔‘‘
’’یہ ایک دُکان حکمت ہے بھیّا۔ آپ کسی بھی جگہ یہ دُکان کھول لیتے، اس کی حیثیت اس سے الگ نہ ہوتی۔ وہاں پھر لوگ کھل کر دل کی ہر بات نہ بتاتے۔ روحانی تعلق کچھ اور ہوتا ہے اور کسی اپنے جیسے سے دل کی بات کر لینے کا مسئلہ کچھ اور۔‘‘
’’ہمیں اس فریب سے روزی حاصل ہوتی ہے۔‘‘
’’یہاں وہی کچھ لے کر آتا ہے جسے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ آپ خود سوچیں اس طرح بہت سوں کو رزق حاصل ہو رہا ہے۔ پہلے یہ لوگ ڈاکا زنی کرتے تھے۔‘‘
میں ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہوگیا۔
عرضیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور میں انہیں لکھتا رہا۔ معمول میں کوئی فرق نہیں تھا۔ لیکن بدھ کی رات میرے لئے بڑی کٹھن تھی۔ اس رات مجھے شدید کرب سے گزرنا پڑا۔ عموماً میں ہر عرضی کیلئے مراقبہ کرتا تھا اور میری رہنمائی ہو جاتی تھی۔ لیکن اس رات… اس رات کچھ نہ ہوا۔ سپاٹ اور سنسان رات۔ میرے تمام رابطے ٹوٹ گئے تھے۔ مجھے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا اور میرا دل پنکھے کی طرح لرزنے لگا تھا۔ آہ یہ ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ خاموشی کا احساس دلایا جا رہا ہے۔ نافرمانی کا مجرم قرار دیا جا رہا ہے مجھے۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ آخر وہی ہوگیا۔ میں بار بار کوشش کرتا رہا لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ دل و دماغ سُن ہوگئے تھے۔ ہر احساس ختم ہوگیا تھا۔ معمولات جاری ہوگئے۔ شمسہ کے بچّے میرے پاس آ گئے، ان میں ایک واقعی میرا ہم شکل تھا۔ میرا بچپن بالکل ایسا ہی تھا اور کیا کروں۔ اور کیا کر سکتا ہوں، وہ میرے پاس ہے۔ میری رہائش گاہ میں ہے مگر وہ نہیں جانتی کہ اس کا برسوں سے بچھڑا ہوا بھائی اس کے اتنا قریب ہے اور میں نے دوبارہ اس کی صورت نہیں دیکھی تھی کہ کہیں محبت عود کر نہ آئے، کہیں سب کچھ کھو نہ بیٹھوں اور کیا کروں… اور کیا کروں؟‘‘
معمول جاری رکھنا تھا۔ عرضیوں کے جواب لکھنے۔ جو سمجھ میں آیا لکھتا رہا۔ شام کو یہ سارے جواب ضرورت مندوں کو پہنچائے۔ طریقہ وہی تھا جو نادر حسین نے ایجاد کیا تھا۔ پھر شمسہ کی آواز سُنائی دی۔
’’سائیں بابا۔ ولی تیرے صدقے واری۔ بگڑی بن گئی
میری تیری دُعا سے۔ میرا گھر والا ٹھیک ہوگیا۔ تیرے خزانے وسیع ہیں ولی۔ تیرے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ ہم ہوس کے بندے ہیں، مانگنا ہمارا کام ہے۔ دینا تیرا… گھر بچھڑ گیا ہے میرا۔ ماں باپ بھائی۔ سب ہیں ولی۔ دل تڑپتا ہے ان کیلئے۔ بگڑی بنا دے سائیں۔ ایک بار ملا دے سب سے۔ ایک بار صورت دکھا دے۔ تیرے واری ولی۔ تیرے صدقے سائیں۔‘‘
میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ میں شمسہ کا کرب محسوس کر رہا تھا۔ اس کے دل کی چیخیں سُن رہا تھا۔ پھر وہ چلی گئی۔ میرا ذہنی سکوت ختم نہیں ہوا تھا۔
ملاقاتیوں کا وقت ختم ہوگیا۔ شام کو باہر نکلا تو فیضان سے ملاقات ہوگئی۔ مغرب کی نماز پڑھ کر آیا تھا۔ میرے پاس آ گیا۔
’’کیا بات ہے فیضان؟‘‘
’’کچھ نہیں شاہ صاحب۔ میں یونہی قدموں میں بیٹھنے چلا آیا کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔‘‘
’’کہو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’شاہ صاحب بہت دن ہوگئے مزار کی روٹیاں کھاتے ہوئے۔‘‘
’’کوئی تکلیف ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’بتائو۔‘‘
’’شاہ صاحب۔ یہاں مجھے غیرت کا درس ملا ہے۔ یہاں میری کھوئی ہوئی انسانیت مجھے واپس ملی ہے۔ شاہ صاحب کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنا چاہتا ہوں۔ ہاتھ پائوں باندھ کر نہیں بیٹھنا چاہتا۔‘‘
’’مجھے بتائو، میں کیا کر سکتا ہوں۔ یہاں سے جانے کے خواہشمند ہو۔‘‘
’’یہاں جو سکون حاصل ہوا ہے مجھے، شاید دُنیا میں کہیں اور نہ ملے۔ میرا کوئی اور ٹھکانہ بھی نہیں ہے۔ دراصل باہر محنت کیلئے نکلنا چاہتا تھا۔ اتنا کر لوں کہ بیوی بچوں کو لے کر اس شہر سے چلا جائوں۔ اس وقت تک ہمیں یہاں رہنے کی اجازت مل جائے میں یہی چاہتا ہوں۔‘‘
’’تمہیں کسی نے کچھ کہا ہے۔‘‘
’’نہیں شاہ صاحب، میرے دل میں خود یہ خیال آیا ہے۔‘‘
’’اور تو کوئی بات نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں شاہ صاحب۔‘‘
’’تو پھر اس وقت تک یہاں رہو جب تک میں تمہیں جانے کی اجازت نہ دے دوں۔ تمہارے یہاں رہنے سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہے۔ کوئی احساس ذہن پر طاری نہ ہونے دو۔ ہاں ممکن ہو سکے تو پانچوں وقت نماز پڑھ لیا کرو۔‘‘
’’بہتر ہے شاہ صاحب۔‘‘
’’یہ میری درخواست ہے تم سے۔‘‘ میں نے کہا۔ فیضان نے گردن جھکالی تھی۔ کچھ دیر کے بعد وہ چلا گیا۔ میرے دل و دماغ پر وہی سحر طاری تھا۔ یہ رات بھی گزر گئی۔ دُوسرے دن کوئی گیارہ بجے کے وقت میں نے اکرام کو بلا کر کہا۔ ’’اکرام میں تمہیں کہیں بھیجنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کہاں مسعود بھائی۔‘‘
’’سہارنپور… ایک پتہ دے رہا ہوں، وہاں جا کر معلوم کرو کہ محفوظ احمد، ریاض احمد وغیرہ یہاں رہتے ہیں یا نہیں۔ بس یہ معلومات کر کے آنا ہے۔‘‘ اکرام اُچھل پڑا۔ پھر کسی قدر مسرور لہجے میں بولا۔ ’’محفوظ احمد تو آپ کے والد کا نام ہے۔‘‘
’’ہاں… فیضان سے پتہ چلا ہے۔ میں ان کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’آج ہی چلا جاتا ہوں۔‘‘
’’تیاریاں کرلو۔ واپسی بھی جلدی ہونی چاہئے اور سنو، صرف معلومات کر کے آنا ہے، کسی کو ساتھ نہ لے آنا، سختی سے تاکید کر رہا ہوں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ اکرام نے کہا۔ مجھ سے زیادہ وہ بے چین ہوگیا تھا۔ دوپہر کے بعد وہ چلا گیا۔ میرا دل دھڑک رہا تھا۔ اعصاب جیسے اینٹھ کر رہ گئے تھے۔ سکرات کا سا عالم طاری تھا لیکن شام کو یہ جمود ٹوٹ گیا۔ شامی میرے پاس آیا تھا۔ اس نے ایک نہایت خوبصورت مخمل کی ڈبیہ میرے سامنے کرتےہوئے کہا۔ ’’اسے دیکھئے مسعود بھائی۔‘‘
’’کیا ہے یہ؟‘‘
’’ایک عجیب واقعہ ہوا ہے۔ پچھلی شام عقیدت مندوں میں ایک دُبلا پتلا سوکھا سا آدمی بھی آیا تھا۔ اس نے خانقاہ میں یہ ڈبیہ نذرانے کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسے قبول کیا جائے۔ لوگ ایسی چیزیں بھی دے جاتے ہیں۔ میں نے یہ ڈبیہ طاق میں رکھی اور بھول گیا۔ ابھی تھوڑی دیر قبل اندر گیا تو یہ مجھے نظر آئی۔ میں نے اسے کھول کر دیکھا تو اُچھل پڑا۔ اس میں پیلے رنگ کی ایک بہت خوفناک مکڑی بیٹھی ہوئی تھی۔ ڈبیہ میرے ہاتھ سے گر گئی اور مکڑی برق رفتاری سے لمبے لمبے قدم اُٹھاتی ہوئی قبر کے پتھروں میں گھس گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے مسعود بھائی کہ جس آدمی نے یہ ڈبیہ دی تھی، اس کی آنکھیں بالکل اس مکڑی جیسی تھیں۔‘‘
’’پیلی مکڑی۔‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
میں اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔’’کہاں ہے کہاں گئی؟‘‘
’’مکڑی…‘‘ شامی نے پوچھا۔
’’ہاں! آئو جلدی آئو۔‘‘ میں نے تیزی سے خانقاہ کی طرف دوڑتے ہوئے کہا۔ شامی حیران حیران سا میرے پیچھے دوڑا۔ ظاہر ہے وہ میری بدحواسی کیا سمجھتا مگر میرا دل دھک دھک کرنے لگا تھا۔ پیلی مکڑی کے نام سے میرا دل لرز گیا تھا۔ مجھ سے زیادہ اس بارے میں کون جان سکتا تھا۔ شامی نے میرے ساتھ دوڑتے ہوئے کچھ کہا تھا مگر میرے کانوں میں کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔
اندر اندھیرا تھا۔ بس وہ مدھم چراغ روشن تھا جو عموماً وہاں روشن رہتا تھا۔ اس مدھم روشنی میں بھلا کیا نظر آتا۔ پھر بھی میں جعلی قبر کے پاس بیٹھ کر آنکھیں پھاڑنے لگا۔ شامی میرے قریب موجود تھا۔ کچھ سوچ کر اس نے اوپر رکھا چراغ اُتارا اور میرے قریب کردیا۔
’’بیکار ہے شامی۔ وہ… وہ اب یہاں کہاں ہوگا۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’کون؟‘‘ شامی نے پوچھا۔ میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ دیر تک میں وہاں بیٹھا رہا۔ شامی نے ہی مجھے آواز دی۔ ’’مسعود بھائی… مسعود بھائی۔‘‘
’’کیا بتائوں شامی۔‘‘
’’وہ سب کچھ تھا تو عجیب مگر میں نے غور نہیں کیا تھا۔ لوگ چڑھاوے چڑھاتے ہی ہیں۔ بہت سے عقیدت مند سونے کے چھلے، زنجیریں چادر میں پرو کر قبر پر ڈال جاتے ہیں۔ وہ ڈبیہ بھی میں نے ایسی ہی سمجھی تھی مگر اس کے بعد اس میں سے مکڑی نکلی۔ اس سے زیادہ آپ کی یہ کیفیت پریشان کن ہے۔ ایسی کیا خاص بات تھی اس مکڑی میں جس نے آپ کو اتنا پریشان کردیا؟‘‘
’’پیلی مکڑی نحوست کا نشان ہوتی ہے شامی۔ سخت نحوست کا نشان اور وہ نحوست یہاں آچکی ہے۔‘‘
’’تو پھر، اب کیا ہوگا؟‘‘ شامی کی آواز میں بھی خوف بیدار ہوگیا۔
’’پیلی مکڑی جہاں کہیں نظر آئے، اسے فوراً مار دینا، صرف پیلی مکڑی کو۔‘‘
’’ٹھیک ہے کل دن کی روشنی میں ہم سب اسے تلاش کریں گے مگر وہ آدمی کون تھا؟ اس کی آنکھیں بڑی عجیب تھیں، بالکل کسی مکڑی کی مانند۔‘‘
’’پتا نہیں کون تھا۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔ شامی دیر تک میرے پاس بیٹھا نہ جانے کیا کیا کہتا رہا مگر میری حالت بہتر نہ تھی۔ مجھے احساس ہورہا تھا کہ بات پھر بگڑ گئی ہے۔ میرے قدموں میں لغزش آگئی ہے۔ مجھے ایک بار پھر تنہائیوں سے واسطہ پڑا ہے۔ اکرام بھی موجود نہیں ہے جو کچھ سہارا ہو۔ یہ بے چارے لوگ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ان سے کیا کہوں، کیسے دل کا بوجھ ہلکا کروں۔
’’آرام نہیں کریں گے مسعود بھائی؟‘‘
’’ہاں… بس یہیں رہوں گا۔ تم جائو۔‘‘ شامی چلا گیا۔ اس نے اداس نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا۔ بالکل اکیلا رہ گیا ہوں۔ میں کیا کروں، انسان تو ہوں، ہوش و حواس میں ہوں۔ مجھ سے میرے حواس کیوں نہیں چھین لئے جاتے۔ کتنا جبر کروں دل پر، کیسے اس پیار کو کھرچ کر پھینک دوں جو خون میں رچا ہوا ہے۔ بہن ہے وہ میری… ماں جائی ہے۔ فریاد کرتی ہوئی آئی تھی، نیم دیوانی ہورہی تھی۔ ایک انسان کی قسم سے کیسے باز رہ جاتا۔ کتنا تو روکا تھا خود کو۔ خون جوش مار گیا اور پھر اگر اس کی مدد کو نہ جاتا تو وہ کس طرح تباہ ہوجاتی۔ کون تھا اس کا پرسان حال… اس کے بعد سے مسلسل جبر کررہا ہوں۔ دوبارہ اس کی صورت نہیں دیکھی۔ اس کے بچے سامنے آتے ہیں، ان میں سے ایک میں میرا بچپن سمایا ہوا ہے۔ ہوبہو میرا نقش ہے وہ۔ میں اس کا ماموں ہوں اور کتنا جبر کروں خود پر اور کتنا جبر کروں۔ انسان ہوں، مجھ سے میرے ہوش کیوں نہیں چھین لئے جاتے۔ مجھے وہ مقام کیوں نہیں دے دیا جاتا جو نادر حسین کو مل گیا؟ آہ… آہ… آہ! میں تڑپنے لگا۔ پورا وجود انگارہ بن گیا۔ صدیاں بیت گئیں خوشیوں سے دور ہوئے۔ خوف بس ایک خوف۔ رہنمائی کرو، میری رہنمائی کرو۔
آج آنکھوں سے آنسو نہیں بہے تھے۔ سنا گیا ہے کہ آنسو توبہ کی قبولیت کا پتا دیتے ہیں۔ دل کا گداز رہنما ہوتا ہے مگر آنکھیں خشک تھیں، سینہ جل رہا تھا۔ رات گزر گئی، کوئی خیال دل سے نہ گزرا، کوئی ہدایت نہ ملی۔ صبح کو سینہ پتھرا گیا، سوچوں سے چھٹکارا مل گیا۔ اس کے بعد کے معمول وہی رہے۔ دوسرا دن اور کئی دن گزر گئے۔ اکرام کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا لیکن ایک بات پر حیرت ہوئی عرضیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ان کے نتائج بھی سامنے آتے رہتے تھے۔ اس عالم میں بھی جو ہدایات دی تھیں، ان کے نتائج اچھے نکلے تھے۔ ایک حاجت مند آیا۔
’’شاہ بابا! اللہ مرتبہ بڑھائے شاہ بابا۔ مقدمہ جیت گیا۔ میرا سب کچھ مل گیا مجھے شاہ بابا! ہمیں نئی زندگی مل گئی ورنہ پورے گھرانے کو مرنا پڑتا۔ ہمیں نئی زندگی ملی ہے شاہ بابا۔ یہ نذرانہ ہے۔ جو بھی ضرورت مند آئے، اسے دے دیں۔‘‘ اس نے پچاس ہزار روپے شامی کو دیئے تھے۔
یہ رقم تقسیم ہوگئی مگر اس دن میرے ذہن میں ایک خیال آیا تھا شمسہ کیلئے کچھ کرنا چاہئے۔ فیضان اب درست ہوگیا تھا۔ وہ نماز پڑھتا تھا، باقی وقت بچوں پر صرف کرتا تھا۔ محنت کرکے زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ اگر کوئی ایسا ذریعہ ہو، جہاں کہ وہ ایک بہتر زندگی حاصل کرلے۔ کوئی دولت مند شخص اس کیلئے کچھ کردے تو، یہ ہوسکتا تھا۔ ایسے کسی شخص کو تلاش کیا جاسکتا تھا۔ بہت غور کیا تھا میں نے اس بات پر۔ پھر ایک شام اکرام آگیا۔ اسے دیکھ کر میرا دل بری طرح دھڑک اٹھا تھا مگر اکرام کے چہرے پر کوئی خوشی نہیں تھی۔
’’کیا ہوا اکرام؟‘‘
’’کچھ ہوا نہیں مسعود بھائی۔‘‘
’’پہیلیاں نہ بجھائو۔‘‘ میں نے زور سے کہا۔
’’دونوں پتے درست تھے۔ فیضان عالم کا خاندان وہیں آباد ہے۔ اس کے ہاں کوئی خاص بات نہیں ہے مگر محفوظ احمد کو تو اب لوگ بھول گئے ہیں۔ ان کی بیٹی کا اغوا ہوا تھا۔ اس کے کوئی سات ماہ بعد وہ لوگ وہاں سے چلے گئے تھے۔ کہاں، یہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘
’’فیضان کے خاندان والوں سے ملے تھے؟‘‘ میں نے صبر وسکون سے کہا۔ ’’کیا کہتے ہیں وہ اس بارے میں؟‘‘
’’فیضان ہی کو برابھلا کہہ رہے تھے۔ اسے بدکردار، اوباش اور آوارہ کہہ رہے تھے۔ اغوا کے واقعے سے خود کو لاتعلق ظاہر کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اب ان کا اپنے بھائی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔‘‘
’’کوئی نشاندہی نہیں کرسکے محفوظ احمد کی؟‘‘
’’نہیں…‘‘
’’چلو ٹھیک ہے، یہی بہتر ہوگا۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
’’ہر کام وقت پر ہوتا ہے مسعود بھائی۔ جس طرح ہمیں شمسہ ملی ہے، اسی طرح وہ لوگ بھی مل جائیں گے۔‘‘
’’ہاں… شاید!‘‘
’’شاید نہیں۔ یقیناً اسی طرح مسعود بھائی جیسے مجھے ثریا کے مل جانے کا یقین ہے۔‘‘
میں نے چونک کر اکرام کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر آفاقی سکون تھا۔ معاً مجھے خیال گزرا کہ اکرام بھی عظمت کا ثبوت دے رہا ہے۔ اس نے صبر و شکر کرلیا ہے۔ وہ ثریا کا نام بھی نہیں لیتا۔ وہ ان تمام مسائل میں خود کو ضم کرلیتا ہے جو سامنے آتے ہیں۔ وہ مجھ سے زیادہ باظرف ہے۔ شاید نادرحسین کا عقیدہ بھی مجھ سے زیادہ پختہ تھا۔ وہ اس معیار پر پورا اترتا تھا جس کے تحت اسے جذب کا مقام مل گیا اور اب اکرام کے چہرے پر اس لمحے جو کچھ نظر آیا تھا، اس نے نجانے کیوں ذہن میں یہ تصور پیدا کر دیا تھا کہ اس معصوم شخص کو بھی کچھ ملنے والا ہے۔ اس کے عقیدے کی پختگی، اس کا نیک عمل یہی ظاہر کرتا تھا۔ کیا ہی دلچسپ بات ہے اِدھر سے اُدھر دوڑتے رہو، سارا جہان کھنگال مارو۔ جو تلاش کررہے ہو، وہ صرف تمہاری آنکھوں کے تل کی اوٹ ہے۔ اس تل کے عقب میں اگر کچھ نظر آجائے تو ہاتھ بڑھا کر اٹھایا جاسکتا ہے لیکن تل کا سامنے سے ہٹنا ضروری ہے۔ مجھے ہنسی آگئی۔ اکرام نے چونک کر مجھے دیکھا اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔ پھر سہمی سہمی آواز میں بولا۔ ’’مسعود بھائی۔‘‘
میں نے اس کے لہجے پر چونک کر اسے دیکھا اور دوبارہ ہنس پڑا۔ وہ پھر اسی انداز میں بولا۔ ’’مسعود بھائی! خدا کیلئے ذہن کو قابو میں رکھئے۔ دیکھئے اللہ کی ذات پر پورا پورا بھروسا رکھئے۔ کیا آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ شمسہ اس طرح آپ کے سامنے آجائے گی۔ نہ صرف آپ کے سامنے آجائے گی بلکہ آپ صحیح وقت پر اس کا ہاتھ پکڑیں گے، اسے سہارا دیں گے۔ کہاں تھی وہ، کچھ معلوم تھا آپ کو۔ یہ تو امی اور ابو بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ کہاں ہے لیکن اللہ نے ذریعہ بنایا۔ اب کم ازکم وہ آپ کے سامنے تو ہے۔ تو آپ اس بات سے مایوس کیوں ہیں؟ امی اور ابو، محمود یا ماموں ریاض آپ کو ضرور ملیں گے۔ آپ یقین رکھیں۔ آپ اپنے آپ کو پوری طرح قابو میں رکھئے۔‘‘
’’نہیں میرے دوست، نہیں میرے بھائی… کیا اس ہنسی کو تو میری ذہنی خرابی سمجھ رہا ہے؟ نہیں اکرام! ایسا نہیں ہے۔ بس کچھ خیالات ذہن میں آئے تھے کہ ہنسی نکل گئی۔‘‘
’’مجھے تو ڈرا ہی دیا آپ نے۔ دراصل میں خود بھی سہما ہوا واپس آیا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ نجانے اس انکشاف سے آپ کے دل پر کیا بیتے گی لیکن اب بھی یہی کہوں گا کہ اللہ کے حکم کا انتظار کیجئے۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہوتا ہے، وقت سے پہلے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
’’میں جانتا ہوں اکرام، تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں تو طویل عرصے سے صبر کررہا ہوں اور اب بھی صبر کرتا رہوں گا۔ دیکھ لو شمسہ کے سامنے آج تک نہیں گیا۔ وہ پردے میں رہتی ہے، کس کس طرح دل نہیں تڑپتا اس کیلئے لیکن جائوں گا نہیں اس کے سامنے، بیکار ہے۔ ملیں گے تو سب ہی ملیں گے ورنہ کیا فائدہ۔ غم کی کچھ اور تحریریں رقم ہوجائیں گی، سینہ پھٹ جائے گا اس سے مل کر، جب وہ سب کے بارے میں پوچھے گی، میرے بارے میں پوچھے گی۔ ہمت نہیں کر پاتا اکرام، یقین کرو ہمت نہیں کر پاتا۔‘‘
اکرام نے گردن جھکا لی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ بہت دیر تک وہ غم میں ڈوبا بیٹھا رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’اسی لئے تو آپ سے ضد بھی نہیں کرتا حالانکہ ایک بہن کو اگر یہ پتا چل جائے کہ بچھڑا ہوا بھائی سامنے ہے تو کم ازکم ایک سہارا تو اسے حاصل ہوجائے گا۔‘‘
’’نہیں اکرام! میں اپنی تقدیر کے دروازے خود نہیں کھولنا چاہتا۔ بقول تمہارے جب یہ دروازے خودبخود کھلیں گے تب میں ان کے دوسری جانب جھانکوں گا ورنہ نہیں، نہ سہی۔‘‘ اکرام پھر خاموش ہوگیا تھا۔ بہت دیر تک یہ خاموشی طاری رہی۔ اب اکرام کو تقریباً ساری ہی باتیں معلوم ہوچکی تھیں۔ چنانچہ موضوع بدلنے کیلئے میں نے اس سے کہا۔ ’’ایک اور دلچسپ صورت حال سامنے آئی ہے اکرام۔‘‘
’’کیا بھیا؟‘‘
’’بھوریا چرن یہاں داخل ہوگیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ اکرام دہشت سے اچھل پڑا۔
’’ہاں۔‘‘
’’مم… مگر کیسے… آپ کو کیسے پتا چلا مسعود بھائی؟‘‘ اس نے سوال کیا اور میں نے اسے شامی کی ساری کہانی سنا دی۔ اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’اور یہ جگہ ایسی ہے کہ اس کا راستہ نہیں رک سکتا۔ میرا مطلب ہے یہ ایک جعلی خانقاہ ہے اور یہاں ہر ایک آجاسکتا ہے۔ کوئی روحانی تصور تو وابستہ ہے نہیں اس سے، یہ بات ہم جانتے ہیں مسعود بھائی۔ مم… مگر اب کیا کیا جائے؟ وہ کم بخت اس جگہ آگیا ہے، ہمارے راستے ضرور کاٹے گا۔‘‘
’’سامنا تو ہو اس بدبخت سے… اب تو وہ سامنے ٹکتا ہی نہیں ہے اکرام۔ بہرحال میں نے بطور تذکرہ تم سے کہہ دیا ہے، تم بھی ذرا ہوشیار رہنا۔ تمہاری طرف سے پریشان تھا۔ واپس آگئے، جی خوش ہوگیا ہے اور اطمینان بھی۔‘‘
’’مگر مجھے کوئی خوشی نہیں ہے مسعود بھائی۔ خیر چھوڑیئے ان باتوں کو، ذرا شمسہ بہن سے مل لوں، بچے تو ٹھیک ہیں نا؟‘‘
’’ہاں بالکل۔ مگر ذرہ برابر تذکرہ مت کرنا کسی بات کا۔ کیا سمجھے؟‘‘
’’ہاں! یہ تو سمجھتا ہوں۔ ظاہر ہے تذکرے کا کیا امکان ہے اور کہوں گا بھی تو کیا؟‘‘
کچھ دیر کے بعد اکرام میرے پاس سے چلا گیا اور میں آنکھیں بند کرکے سوچوں میں گم ہوگیا۔ وقت گزرتا رہا۔ بس اس بات پر حیرت تھی کہ اب عرضیوں کے جواب کیلئے مراقبہ کرتا تھا تو کوئی جواب نہیں ملتا تھا، کوئی رہنمائی نہیں ہوتی تھی۔ کوئی ایسی نشاندہی نہیں کی جاتی تھی جس کے تحت میں ان عرضیوں کا جواب لکھوں جبکہ اس سے پہلے ایسا ہوتا تھا اور مجھے بڑی آسانی ہوجاتی تھی لیکن اب سچی بات یہ ہے کہ ذہنی اختراع سے کام لے رہا تھا۔ عرضیاں لکھی جاتی تھیں۔ ان کے جو جواب سمجھ میں آتے تھے، دے دیتا تھا۔ ٹالنے والی بات ہوتی تھی لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کہ معیار وہی چل رہا تھا۔ حاجت مند جب آتے تو ان کے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ ہوتا اور چہروں پر خوشی کے آثار۔ ایک بھی ایسا نہیں آیا تھا جس نے کہا ہو کہ اس کی مراد پوری نہیں ہوئی بلکہ اب تو رش بڑھتا ہی جارہا تھا۔ دور دراز کے لوگ آنے لگے تھے اور خانقاہ کے معاملات بہت بہتر انداز میں چل رہے تھے۔ فیضان کو چونکہ میں نے منع کردیا تھا کہ ابھی وہ کہیں آنے جانے کی بات نہ کرے، خاموشی سے وقت گزارتا رہے۔ شرمندہ شرمندہ سا ضرور نظر آتا تھا لیکن اس کے بعد اس نے یہ سب کچھ نہیں کیا تھا۔ بے چارہ نہایت عقیدت کے ساتھ فاتحہ خوانی وغیرہ بھی کرتا تھا اور عبادت گزاری بھی۔ اب کسی کو کیا بتایا جاتا کہ اس خانقاہ کی کہانی کیا ہے۔ بھوریا چرن کا شبہ بے شک ہوا تھا لیکن خاصا وقت گزر جانے کے باوجود کوئی ایسا عمل نہیں ہوا تھا جو تردد کا شکار کردے، البتہ دل کو اس بات کا یقین تھا کہ کچھ ہوا ضرور ہے۔ بھوریا چرن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ اس نے کوئی نہ کوئی چکر چلایا ہوگا اور نجانے اس کے کیا نتائج سامنے آئیں۔ کیا کہا جاسکتا ہے، فیصلہ کرنا ناممکن ہی تھا۔ اس دن بھی منگل تھا اور منگل کو مرادیں مانگنے والے آیا کرتے تھے۔ ایک سیاہ رنگ کی بڑی سی گاڑی آئی تھی اور اس سے ایک بھاری بھرکم جسم کے مالک شیروانی، پائجامے میں ملبوس، وارنش کا پمپ پہنے ہوئے صاحب حیثیت آدمی معلوم ہوتے تھے۔ ہاتھوں میں انگشتریاں پڑی ہوئی تھیں، ساتھ میں تین چار ملازم قسم کے آدمی تھے۔ عقیدت سے خانقاہ پر پہنچے۔ ابھی وہ وقت نہیں ہوا تھا جب خانقاہ کے دروازے کھلتے تھے۔ شامی سے ملاقات کی اور کچھ معلومات حاصل کرنے لگے۔ اکرام معمول کے مطابق میرے پاس موجود تھا۔ اس نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کوئی بڑی شخصیت معلوم ہوتی ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’ویسے مسعود بھائی! انسان کو زندگی میں کوئی نہ کوئی سہارا درکار ہوتا ہے۔ وہ جو دولت میں کھیل کر بہت سے احساسات سے بے نیاز ہوجاتے ہیں، کسی نہ کسی لمحے روحانیت کا سہارا ضرور لیتے ہیں۔‘‘
میں نے اکرام کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ پھر عرضیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہم دونوں اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ مختلف لوگ مختلف باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ پھر ایک آواز سنائی دی۔
’’میں ایک گناہ گار انسان ہوں۔ یہ نہیں جانتا بابا صاحب کہ ایسی جگہوں کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے لیکن بس ایک مشکل ہے میری، بہت بڑی مشکل ہے، اسے حل کردیجئے۔ پریشان ہوں۔ نام ہے میرا عزت بیگ اور دھام پور نگینہ میں رہتا ہوں۔ کاروبار بہت اچھا چل رہا ہے میرا، دولت کی ریل پیل ہے مگر وہ حویلی جس میں، میں رہتا ہوں، آسیب زدہ ہے۔ حویلی کے آسیب مجھے بہت پریشان کرتے ہیں۔ بیوی اور بچے زندگی سے عاجز ہیں۔ کئی بار حویلی چھوڑ چھوڑ کر مختلف جگہوں پر جاکر رہا لیکن جب کہیں اور جاتا ہوں تو گھر کا گھر بری طرح بیمار ہوجاتا ہے اور مجھے واپس اسی حویلی میں آنا پڑتا ہے۔ کچھ اسی قسم کے واقعات پیش آتے ہیں کہ میری بیوی مجھے واپس حویلی میں لانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یہاں آکر پریشانیاں تو بے شک ہوتی ہیں مگر بیماریاں دور ہوجاتی ہیں۔ میں عجیب مصیبت میں گرفتار ہوں۔ کچھ دن پہلے ایک اور بابا صاحب نے نشاندہی کی تھی کہ میری حویلی آسیب زدہ ہے اور مجھے اس کیلئے انتظام کرنا چاہئے۔ بابا صاحب! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ اسے کون سن رہا ہے لیکن اگر میری مدد ہوسکتی ہے تو آپ میری مدد کیجئے۔ میرا کام بن گیا، مجھے سکون مل گیا تو میں اس خانقاہ کو سونے کا بنا دوں گا تاکہ جب عقیدت مند آئیں تو انہیں کوئی پریشانی نہ ہو۔ میری مدد کیجئے باباصاحب… جس طرح بھی ہوسکے میری مدد کیجئے۔ میں بہت دور سے آیا ہوں، آپ کے قدموں میں ہی رہوں گا جب تک کہ مجھے کوئی اشارہ نہ مل جائے۔‘‘
میں نے اس کا نام لکھ لیا۔ یونہی دل میں خیال آیا تھا کہ یہ وہی شخص ہوسکتا ہے جسے ہم نے سیاہ رنگ کی بڑی گاڑی سے اترتے دیکھا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ ایک اور تصور بھی میرے ذہن میں ابھر آیا تھا اور میں اس پر غور کرنے لگا تھا۔ اگر یہ شخص اتنا دولت مند ہے اور اگر اس کا کام ہوجائے تو اس جعلی خانقاہ کو پختہ کروانے سے بھلا کسی کو کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ اگر اس کے ذریعے شمسہ اور فیضان عالم کو کوئی فائدہ حاصل ہوجائے، اگر ان لوگوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی آجائے تو کیا یہ اس سے بہتر نہیں رہے گا؟ بس یہ خیال دل میں پختہ ہوگیا۔ یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ شخص جمعرات تک یہیں قیام کرے گا۔ لوگوں نے اسے تفصیلات بتا دی ہوں گی۔ چنانچہ وقت باقی ہے، اس سے ملاقات کرکے معاملات طے کئے جاسکتے ہیں۔ یہ احساس میں نے ابھی اپنے دل ہی میں رکھا تھا۔
عرضیاں نمٹ گئیں، کام ختم ہوگیا۔ میں اور اکرام باہر نکل آئے۔ اکرام نے کہا۔ ’’شمسہ تم سے ملنا چاہتی ہے۔‘‘ میں ٹھٹھک گیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’کوئی وجہ نہیں ہے۔ خوش ہے، مطمئن ہے۔ کہہ رہی تھی کہ وہ دوسرے بھیا کبھی نہیں آئے، ان سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
’’تم نے کیا کہا؟‘‘
’’میرے بجائے فیضان بول پڑا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’اس نے کہا وہ درویش منش ہیں، یاد اللہ میں کھوئے رہتے ہیں۔ انہیں پریشان کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’خاموش ہوگئی۔‘‘
’’یہی بہتر ہے۔‘‘
’’کب تک؟‘‘ اکرام نے پوچھا اور میں نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’کیا کرسکتے ہیں؟‘‘
’’کچھ تو کرنا ہوگا۔ یہ جھوٹ کا گھر ہے۔ کب کیا ہوجائے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کچھ نہ بھی ہو تو کیا اسے ہمیشہ یہاں رکھا جاسکتا ہے؟ یہ کوئی رہنے کی جگہ ہے؟ بچے ہیں اس کے، ان کا مستقبل ہے۔ اس طرح خانقاہ کی روٹیاں توڑ کر فیضان بھی نکما ہوجائے گا۔ ابھی لوہا گرم ہے۔ صحیح چوٹ لگ جائے تو صحیح شکل اختیار کرسکتا ہے۔ جتنی دیر ہوگی، اتنے ہی نقصان کا اندیشہ ہے۔‘‘
’’سوچنا پڑے گا۔‘‘
’’میں نے سوچا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’پہلے تم اس سے مل لو۔ ایک خوشی تو حاصل ہو اسے۔ نہ جانے کب سے خوشیوں سے محروم ہے۔ اس کے بعد کوئی بہتر حل نکل آئے گا۔‘‘
’’اس کے بعد یہ کبھی نہ کہنا سمجھے اکرام۔‘‘ میں نے سرد لہجے میں کہا اور اکرام مجھے دیکھنے لگا۔ پھر گہری سانس لے کر بولا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ مجھے اس کے لہجے میں نرمی نہیں محسوس ہوئی تھی، کچھ عجیب سا لہجہ تھا۔ دور سے میں نے سیاہ گاڑی والے صاحب کو دیکھا۔ ملازموں کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔
’’وہ عزت بیگ ہیں؟‘‘
’’شاید…‘‘
’’آئو۔‘‘ میں نے کہا اور اکرام خاموشی سے میرے ساتھ چل پڑا۔ خانقاہ کی گہرائیوں میں انہوں نے ڈیرہ لگایا تھا۔ گاڑی بھی قریب کھڑی ہوئی تھی۔ ہر طرح کا انتظام کرکے آئے تھے۔ ہمیں دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’حضور اگر ہمارے دسترخوان کو رونق بخشیں تو نوازش ہوگی۔‘‘
’’شکریہ۔ کھانا کھا چکے ہیں بلکہ اب افسوس ہو رہا ہے کہ جلدی آگئے۔ آپ براہ کرم کھانا کھایئے۔‘‘
’’یقین کیجئے کھانا کھا چکا ہوں۔ میں ان لوگوں کا ساتھ نباہ رہا تھا۔ آپ تشریف رکھئے۔ درویشوں کی چھت تقدیر والوں کو نصیب ہوتی ہے۔‘‘ ہم بیٹھ گئے۔
’’آپ کا اسم شریف؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’خاکسار کو عزت بیگ کہتے ہیں۔‘‘
’’کتنے عرصے سے آپ اس مشکل کا شکار ہیں؟‘‘
’’جی؟‘‘ مرزا صاحب چونک پڑے۔ اب وہ مجھے گھور رہے تھے۔ اکرام کے انداز میں ایک لمحے کیلئے بے چینی پیدا ہوئی تھی۔ پھر اس نے خود کو سنبھال لیا۔ یقیناً وہ میرے اس سوال پر حیران ہوا ہوگا کیونکہ یہ خلاف دستور بلکہ ایک طرح سے خطرناک تھا۔ مرزا صاحب بولے۔ ’’کوئی سات آٹھ ماہ ہوگئے۔‘‘
’’انہوں نے کوئی نقصان پہنچایا آپ کو؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ سارے نوکر کھانا ختم کرکے ہماری طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ مرزا صاحب کے منہ سے کچھ نہ نکل سکا۔
میں نے پھر پوچھا۔ ’’میرا مطلب ہے آپ کو ان کی موجودگی کا احساس کس طرح ہوا؟ کیا انہوں نے آپ کے اہل خاندان کو کوئی تکلیف پہنچائی جبکہ آپ ان کی وجہ سے حویلی چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہوگئے اور وہاں بیماریوں کا شکار ہوگئے اور پھر حویلی پہنچے تو بیماریاں ختم ہوگئیں لیکن اس کے باوجود آپ ان سے خوف زدہ ہیں۔ اس خوف کی وجہ جاننا چاہتا ہوں۔‘‘ اچانک ہی مرزا عزت بیگ اپنی جگہ سے اٹھے اور انہوں نے میرے پائوں پکڑ لئے۔
’’سمجھ گیا حضور، سمجھ گیا۔ مجھے میرا گوہر مقصود مل گیا۔ حضور… میری مدد کیجئے، بڑی آس لے کر آیا ہوں آپ کے پاس۔ آپ کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ ہاں! حویلی میں میری بیوی اور میرے بچوں کو طرح طرح سے ستایا جاتا ہے۔ وہ خوف سے دیوانے ہوجاتے ہیں، مختلف حرکات کرتے ہیں۔ وہ اور میرے بچے دہشت سے سوکھے جارہے ہیں۔ دو نوجوان بیٹیاں ہیں میری۔ ایک بیٹا ہے، بیوی ہے۔ چاروں کے چاروں ان کی شرارتوں کا شکار رہتے ہیں۔ عجیب و غریب شرارتیں ہوا کرتی ہیں۔ میں خود بھی اپنے آپ کو لاکھ سنبھالے رکھوں مگر انسان ہوں۔ جب ایسے بعید از عقل واقعات ہوں گے تو بھلا بہادری کیسے دکھا سکوں گا۔ حضور جب آپ نے اس قدر کرم فرمائی کی ہے تو میری مشکل کو دور فرمایئے گا۔ آپ کا بے حد احسان ہوگا۔‘‘
’’عزت بیگ صاحب! آپ کا یہ دھام پور نگینہ یہاں سے کتنے فاصلے پر ہے؟‘‘
’’حضور کوئی ایک سو بیس کوس ہے۔‘‘
’’مجھے وہاں جانا ہوگا۔ یہی حکم ملا ہے مجھے۔‘‘ میں نے کہا۔ اکرام نے ایک بار پھر پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھا لیکن اس طرح نہیں کہ کسی پر اظہار ہوجائے۔ عزت بیگ صاحب نے گردن خم کرکے کہا۔
’’بسر و چشم… بسر و چشم۔ اس کا مقصد ہے کہ میری تمنا پوری ہوگئی۔ حضور آپ تشریف لے چلئے، جو بھی خدمت ہوگی، کروں گا، جس طرح بھی حکم فرمائیں گے، جان و مال سے حاضر ہوں۔ آپ بس حکم کردیجئے۔‘‘
’’ہاں عزت بیگ! بہت کچھ قربان کرنا ہوگا آپ کو۔ زندگی کا صدقہ مال ہے۔ خاصے اخراجات کرنے پڑ جائیں گے آپ کو۔‘‘
’’بہت کچھ ہے میرے پاس، بچوں ہی کیلئے ہے۔ اگر ان کی مشکل حل ہوجائے تو بھلا مال و دولت کی کیا فکر لیکن آپ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ آپ نے میری مشکل اپنی زبان سے ادا فرما دی۔ میرے دل کو یقین ہے کہ جیسے ہی آپ کے قدم مبارک وہاں پہنچیں گے، شریر شیطان وہ جگہ چھوڑ بھاگیں گے۔ بس اب میں آپ کے پائوں نہیں چھوڑوں گا۔ حضور آپ کو میرے ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘
’’آج توقف فرمایئے، کل ہم آپ کے ساتھ روانہ ہوجائیں گے۔ آپ مطمئن رہیں، ہر طرح کے آسیبوں کو وہ جگہ چھوڑنی پڑے گی۔‘‘
’’مجھے تو گویا نئی زندگی عطا فرما رہے ہیں آپ۔ آہ… جیسا سنا تھا، ویسے ہی پایا اس عظیم جگہ کو حضور۔ اب تو بیتاب ہوں کہ آپ کب میرے ساتھ چلیں۔ ویسے حضور! کا اسم شریف معلوم کرسکتا ہوں؟‘‘
’’مسعود ہے میرا نام۔‘‘
’’میں سمجھتا ہوں، یہ میرے لئے ساعت مسعود ہے کہ مجھے اس طرح آپ کی قدم بوسی حاصل ہوئی۔ کب تشریف لے چلیں گے، وقت بتا دیجئے؟‘‘
’’آج تو یہیں قیام فرمایئے۔ جیسا کہ میں نے کہا کل دن کو دس بجے ہم لوگ روانہ ہوجائیں گے۔ آپ کے پاس انتظام تو ہے؟‘‘
’’یہ سب میرے دوست احباب ہیں۔ یہ صاحب گاڑی چلاتے ہیں، یہ دوسری ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ آپ اطمینان فرمایئے گا، سفر میں آپ کو کوئی دقت نہیں ہوگی۔‘‘
’’ٹھیک ہے، اب اجازت دیجئے۔‘‘ میں اٹھ کھڑا ہوا۔
’’حضور! اگر کچھ…‘‘
’’نہیں عزت بیگ صاحب! اس وقت کوئی حاجت نہیں ہے۔ آپ آرام کیجئے۔‘‘ میں واپسی کیلئے پلٹا۔ اکرام بیگ بھی میرے ساتھ ساتھ چل پڑا تھا لیکن اس کی بے چینی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ اوپر پہنچتے ہی اس نے کہا۔
’’تو تو آپ اس کے ساتھ جارہے ہیں مسعود بھائی! مگر آپ نے اچانک ہی یہ فیصلہ کیسے کرلیا؟‘‘
’’جانا ہے اکرام مجھے اس کے ساتھ۔ ابھی تم نے شمسہ کے بارے میں مجھ سے بہت سی باتیں کی ہیں۔ اس سے ملوں گا اکرام تو دل کے زخم تازہ ہوجائیں گے، کلیجہ پھٹ جائے گا اور اس کے بعد سارے کام ادھورے رہ جائیں گے۔ وہ بہن ہے میری۔ انسان ہوں، خود پر قابو نہیں پاسکوں گا۔ بھلا میں اس کے آنسو دیکھ کر کیسے یہ بات برداشت کرسکتا ہوں کہ ماں، باپ کی تلاش کے بجائے کوئی اور کام کروں۔ تم خود سوچو اکرام! کیا ہوگا، سارے راستے بند ہوجائیں گے۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ میں اس کیلئے آسائشیں حاصل کرنے کی کوشش کروں۔ میں نے اپنے آپ کو ختم کرلیا ہے اکرام… بہت نقصان کرلیا ہے میں نے اپنا۔ اس کے نتیجے میں میری بہن کو ایک بہتر زندگی تو مل جائے۔ تم نے دیکھا میں نے اس سے خرچ کی بات کی ہے۔ یہ میں اپنی بہن کیلئے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ صرف محبتیں ضرورتیں نہیں پوری کرسکتیں، کچھ نہ کچھ عملی طور پر بھی کرنا ہوگا۔‘‘ اکرام نے حیرت سے میری صورت دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اس کا مطلب ہے مسعود بھائی کہ آپ عزت بیگ کا کام کرکے جو کچھ حاصل کریں گے، وہ شمسہ کیلئے ہوگا؟‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ دل میں ایک اداس سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ میں جو کچھ کررہا تھا، اس کے نتائج مجھے معلوم تھے۔ یہ بھی دیکھنا تھا کہ عزت بیگ کے گھر میں جو شیطانی قوتیں رہائش پذیر ہیں، ان کے خلاف کوئی موثر عمل کر بھی سکوں گا یا نہیں۔ پہلے کی بات اور تھی۔ رہنمائی ہوتی تھی اور اقدامات کئے جاتے تھے لیکن اب تنہا بھگت رہا تھا۔ سب کچھ نہیں سمجھتا تھا کہ میری پہنچ کہاں تک ہوسکتی ہے۔ اکرام نے البتہ مطمئن لہجے میں کہا۔ ’’آپ یقین کیجئے آپ نے میرے دل میں بغاوت پیدا کردی تھی مسعود بھائی۔ میں سوچنے لگا تھا کہ شاید میں آئندہ آپ کا ساتھ نہ دے سکوں۔ شمسہ بہن کو میری ضرورت ہے لیکن آپ نے مجھے مشکل سے نکال لیا۔ اب میں بے حد پُرسکون ہوں۔ آپ تنہا ہی جائیں گے یا مجھے ساتھ چلنا ہوگا؟‘‘
’’نہیں، بھلا تمہارا ساتھ کس طرح ممکن ہے۔ یہاں شمسہ، فیضان اور بچے تنہا رہ جائیں گے۔ ہاں ایک بات میں تم سے کہے دیتا ہوں اکرام، وہ یہ کہ ان سب کا پورا پورا خیال رکھنا۔ ہوسکتا ہے مجھے کچھ زیادہ وقت لگ جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری غیرموجودگی میں ان لوگوں کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔ ایک بات اور تمہارے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں۔ بھوریا چرن کے آثار یہاں ملے ہیں لیکن اتنے عرصے میں نہ تو اس نے کچھ کیا اور نہ ہی کہیں دوبارہ کسی مکڑی کا وجود ظاہر ہوا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ خانقاہ جعلی ہے، اس لئے بھوریا چرن جیسی ناپاک روحیں یہاں آسکتی ہیں۔ تمہیں اس کی طرف سے بھی محتاط رہنا ہوگا۔‘‘
اکرام نے سنسنی خیز نگاہوں سے مجھے دیکھا لیکن منہ سے کچھ نہ بولا۔ میں مرزا عزت بیگ کے ساتھ جانے کے منصوبے کے بارے میں سوچتا رہا۔ نجانے کیسے وسوسے، نجانے کیسے کیسے خیالات میرے ذہن میں جاگزیں تھے لیکن یہ فیصلہ اٹل تھا کہ مجھے عزت بیگ کے ساتھ دھام پور نگینہ جانا ہے اور بالآخر دوسرے دن میں عزت بیگ کے ساتھ چل پڑا۔ وہ بڑے احترام کے ساتھ مجھے اپنی قیمتی گاڑی میں بٹھا کر لے چلا۔ راستے طویل تھے لیکن خوش اسلوبی سے طے ہوگئے۔ اچھا خاصا شہر تھا۔ شام کے کوئی ساڑھے چار بجے تھے جب ہم مرزا عزت بیگ کی حویلی میں داخل ہوئے۔ وسیع و عریض عمارت تھی لیکن بڑے پھاٹک سے داخل ہوتے ہی احساس ہوا کہ حویلی آسیب زدہ ہے۔ اس کی ویرانی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ یہاں غیرانسانی مخلوق کا قبضہ ہے۔ احاطے میں بے شمار درخت تھے لیکن ان کے پتے سوکھے ہوئے تھے۔ گھاس کے لان تھے لیکن پیلی اور جلی ہوئی گھاس کے۔ حویلی کا بیرونی حصہ بھی بدنما تھا۔ سامنے ایک اور کار کھڑی نظر آرہی تھی۔ کار کی آواز سن کر ایک ملازم اندر سے نکل آیا۔ کار رکتے ہی ڈرائیور اور دوسرے ملازم آگئے۔ عزت بیگ نے خود اپنے ہاتھوں سے میرے لئے دروازہ کھولا تھا۔ میں نے ایک نگاہ پھر حویلی کے بیرونی حصے پر ڈالی۔
’’آپ کے ہاں کتنے ملازم ہیں مرزا صاحب۔‘‘
’’کافی ہیں۔ میرا مطلب ہے چھ، سات مرد اور چار، پانچ خواتین۔ ہر ایک کے سپرد مختلف ذمہ داریاں ہیں۔‘‘
’’مالی نہیں ہے؟‘‘
’’ہے۔ شاید آپ یہ اجڑے ہوئے درخت اور سوکھی ہوئی گھاس دیکھ کر یہ بات کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’جی…‘‘
’’کچھ عرصہ قبل یہ درخت سرسبز تھے، یہ گھاس آنکھوں کو بہار دیتی تھی لیکن سات، آٹھ ماہ سے اس پر بھی خزاں آگئی۔ درخت سوکھ گئے، گھاس جھلس گئی حالانکہ مالی نے اس پر جان توڑ کوشش کی۔‘‘
’’یہ سلسلہ کتنے عرصہ قبل شروع ہوا ہے؟‘‘
’’آپ اسے دس ماہ کے عرصے کی بات سمجھ لیں۔ تشریف لایئے۔ آپ عمارت کا یہ بیرونی حصہ دیکھ رہے ہیں؟‘‘
’’جی…‘‘
’’اس پر کوئی تین ماہ قبل رنگ کرایا ہے میں نے۔ تین ماہ میں یہ پھر ایسا ہوگیا ہے۔‘‘
’’اور اندر کی کیا کیفیت ہے؟‘‘
’’تشریف لایئے۔‘‘ مرزا صاحب نے کہا اور میں صدر دروازے سے اندر داخل ہوگیا مگر بڑے ہال میں قدم رکھتے ہی مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا تھا۔ انتہائی نرم سرخ رنگ کا قالین بچھا ہوا تھا۔ وکٹورین طرز کے قدیم اسٹائل کے مگر بالکل نئے جیسے صوفے پڑے ہوئے تھے، دیواروں پر سرخ پردے لٹکے ہوئے تھے۔ رنگ و روغن بالکل درست تھا۔
’’گویا اندر کا ماحول ٹھیک ہے؟‘‘
’’آپ خود دیکھ لیجئے، یہ بیرونی حصہ ہے، اندر سے تمام حویلی بالکل درست ہے۔ شاہ بابا آپ اندر تشریف لے چلئے، بے شمار آراستہ کمرے ہیں یہاں، آپ جہاں پسند کریں، قیام کریں۔‘‘
’’کوئی بھی جگہ دے دیجئے۔ چند روز کا قیام ہے، اس میں کیا تکلف۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ بڑے ہال کے دروازے کے دوسری طرف ایک چوڑی راہداری تھی جس میں دو رویہ کمروں کی قطار تھی۔ میں نے ایک دروازے کی طرف اشارہ کردیا۔ مرزا صاحب نے خود دروازہ کھولا تھا۔ نہایت نفیس خواب گاہ تھی، تمام ضروریات سے آراستہ۔ ’’یہ کسی کے استعمال میں ہے؟‘‘
’’قطعی نہیں۔ خاصے کمرے ہیں اس حویلی میں۔ پانچ میں ملازم رہتے ہیں، دو میں ہم، باقی خالی ہیں۔‘‘
’’تو پھر یہ میرے لئے درست ہے۔‘‘
’’بہت بہتر، جائزہ لے لیجئے، کسی شے کی کمی ہو تو فرما دیجئے گا۔‘‘
’’ملازم بھی اندر ہی رہتے ہیں؟‘‘ میں نے کمرے میں داخل ہوکر سوال کیا۔
’’کیا بتائیں شاہ صاحب! سارا نظام ہی الٹ پلٹ گیا ہے۔ ملازموں کی رہائشگاہیں عقبی حصے میں ہیں لیکن ہم نے ان سے ساتھ ہی رہنے کی درخواست کی ہے۔ یہ لوگ ہمارے سب سے وفادار ساتھی ہیں۔ یوں سمجھ لیں پشتنی۔ پہلے ملازموں کی تعداد زیادہ تھی لیکن جو نئے تھے، وہ سب بھاگ گئے۔‘‘
’’خوف زدہ ہوکر؟‘‘
’’جی ہاں! ہم سب نے اپنے کمرے برابر برابر رکھے ہیں اور سب ایک دوسرے کی خبرگیری رکھتے ہیں۔‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’یہ زندگی گزار رہے ہیں ہم لوگ۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجئے۔ اچھا شاہ صاحب! سفر کی تھکن ہوگئی ہوگی، آرام کیجئے گا۔ چائے کس وقت پئیں گے؟‘‘
’’ایک گھنٹے کے بعد بھجوا دیجئے گا۔‘‘
’’مناسب، اجازت… ذرا اہل خانہ کو آپ کی آمد کی خوشخبری سنا دوں۔‘‘ مرزا صاحب باہر نکل گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں نے ایک بار پھر اس کمرے کا جائزہ لیا۔ فرش پر قیمتی قالین بچھا ہوا تھا، انتہائی موٹے گدے کی مسہری تھی۔ دیوار پر تصویر لگی ہوئی تھی جس میں ایک معمر شخص تلوار لئے کھڑا ہوا تھا۔ ایک گوشے میں مصنوعی درخت رکھا تھا جس میں شاخیں نکلی ہوئی تھیں اور ان شاخوں پر خوش رنگ مصنوعی پرندے بیٹھے ہوئے تھے۔ غرض نفیس ماحول تھا۔ دروازے کے عقب میں ایک کھڑکی تھی جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔
میں ایک آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ ذہن میں بے شمار خیالات آنے لگے۔ اس بار میں لالچ کے تحت یہاں آیا ہوں۔ ماحول کا جائزہ ظاہر کررہا ہے کہ بات کافی ٹیڑھی ہے۔ کامیاب ہوسکوں گا یا نہیں۔ میرے یہاں رہنے کا انداز وہی تھا جس طرح جادو، ٹونوں کے عامل کاروباری دوروں پر نکلتے ہیں۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
دیر تک سوچوں میں گم رہا پھر کچھ اکتاہٹ سی محسوس ہوئی تو اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑکی کا پردہ سرکایا اور چٹخنی کھول دی۔ کھڑکی کا پٹ کھولا ہی تھا کہ عقب سے شی شی کی آواز ابھری، پھر جملہ سنائی دیا۔
’’اے… اے… ہش ہش۔ کھڑکی مت کھولو، پرندے اُڑ جائیں گے۔‘‘ میں نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا۔ کوئی موجود نہیں تھا، دروازہ بند تھا۔ یہ آواز کہاں سے آئی؟ ابھی اسی تجسس میں تھا کہ اچانک پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دی اور میں نے برق رفتاری سے پلٹ کر دیکھا۔ مصنوعی درخت کے نقلی پرندے تمام شاخوں سے پھڑپھڑا کے بلند ہورہے تھے، پھر انہوں نے کھڑکی کی سیدھ اختیار کی اور ایک دوسرے کے پیچھے کھلی کھڑکی سے باہر نکل گئے۔ ابھی حیرت سے منہ کھولے یہ ناقابل یقین منظر دیکھ رہا تھا کہ تلوار بردار بوڑھے شخص کی تصویر کے فریم سے پیچ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ فریم خالی ہوگیا تھا اور اس میں نظر آنے والا بوڑھا تلوار سمیت نیچے کھڑا تھا۔
’’منع کیا تھا کہ کھڑکی مت کھولو۔ اڑا دیئے سارے پرندے، اب مشکل سے ہاتھ آئیں گے۔‘‘ اس کی منمناتی
آواز سنائی دی اور دوسرے لمحے اس نے کھڑکی کی طرف دوڑ لگا دی۔ پھر وہ لمبی لمبی لمبی چھلانگ لگا کر کھڑکی سے باہر نکل گیا۔
میں اپنی جگہ ساکت کھڑا رہ گیا۔ نگاہوں کے سامنے خالی درخت، خالی فریم اور کھلی کھڑکی تھی۔ چند لمحات حیران کھڑا رہا۔ پھر کھڑکی سے باہر جھانکا۔ باہر خاموش اور سنسان رات پھیلتی جا رہی تھی۔ میں نے گہری سانس لے کر کھڑکی بند کر دی۔ یہ عمل کسی انسان کے دل کی حرکت بند کر دینے کے لئے کافی تھا۔ اس کے نتیجے میں دیکھنے والے کی حالت خراب ہوسکتی تھی لیکن میری نہیں۔ یہ سب کچھ میرے لئے ایک لمحے کی حیرت تو بن سکتا تھا، خوف نہیں۔ چنانچہ میں واپس آ کر مسہری پر بیٹھ گیا۔ مرزا عزت بیگ کی بات کا یقین تو حویلی میں داخل ہوتے ہی ہو گیا تھا۔ تصدیق اب ہوگئی تھی۔ مجھے اب یہ سوچنا تھا کہ مجھے ان ناپاک رُوحوں کے خلاف کیا عمل کرنا چاہیے۔ ذہن پر ایک طرح کا جنون سوار تھا۔ یہ احساس بھی تھا کہ میں زیرعتاب نہ سہی، کم از کم ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے مجھے اس حویلی میں کامیابی حاصل نہ ہو لیکن اس کے باوجود میں کچھ کرنا چاہتا تھا۔ دل میں ایک سکون تھا، ایک فریاد تھی جو نہ الفاظ بن سکتی تھی، نہ جامع سوچ۔ بس ایک رویا رویا سا احساس تھا جیسے کسی اپنے نے بے اعتنائی کی ہو۔ جیسے کسی من چاہے نے ناکردہ گناہ کی سزا دی ہو۔ بہت دیر اسی طرح گزر گئی۔ پھر مسہری پر لیٹ گیا۔ آنکھیں بند کر لیں۔ جو کچھ ہو چکا تھا، وہ کچھ نہیں تھا میرے لئے۔ میں بھلا اس سے کیا خوفزدہ ہوتا۔ بند آنکھوں میں نیند نے بسیرا کر لیا۔ شاید سفر کی تھکن نے نڈھال کر دیا تھا۔ پھر دروازے پر دستک ہوئی اور میں چونک پڑا۔ آنکھیں پھاڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔
’’کون ہے، آ جائو۔‘‘ ملازم چائے لایا تھا۔ اس نے برتن میرے سامنے رکھ دیئے۔
’’مرزا صاحب کہاں ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کون مرزا؟‘‘ ملازم حیرت سے بولا۔
’’مرزا عزت بیگ؟‘‘ میں نے اس سے زیادہ حیرت سے کہا۔
’’کون مرزا عزت بیگ۔‘‘ ملازم نے اسی انداز میں کہا اور میں چونک پڑا۔ میں نے گھور کر اسے دیکھا تو اچانک ہی میرے دماغ کو شدید جھٹکا لگا۔ ملازم کی صورت جانی پہچانی تھی۔ وہ نادر حسین کی ہو بہو تصویر تھا۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’نن۔ نادر حسین۔ تم…‘‘
’’کون نادر حسین۔ نہ جانے کس کس کا نام لے رہے ہو۔ بات ہی اُلٹی ہو رہی ہے، ہم تو چلے…‘‘ ملازم دروازے کی طرف بڑھا تو میں اس کی طرف لپکا۔
’’سنو تو نادر حسین۔ سنو تو۔‘‘ مگر ملازم نے دروازے سے باہر چھلانگ لگا دی۔ میں برق رفتاری سے دروازے سے باہر نکلا اور اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے لگا۔ تاحدِ نگاہ خاموشی اور سنّاٹے کا راج تھا۔ کچھ دیر حیران کھڑا رہا۔ پھر ٹھنڈی سانس لے کر واپس اندر آ گیا۔ بہت عجیب، بہت پُراسرار واقعات تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ نادر حسین ہی تھا۔ آواز تک وہی تھی۔ اب احساس ہو رہا تھا مگر بالکل بدلا ہوا۔ پہچانا ہی نہیں جا رہا تھا۔ چائے کے برتنوں پر نظر ڈالی تو پھر ششدر رہ گیا۔ چائے دانی، شکر دانی اور دُودھ کا برتن تھا۔ لیکن چائے نام کی کوئی شے نہیں تھی البتہ برتنوں کے درمیان ایک چمکدار خنجر رکھا ہوا تھا۔ کوئی دس انچ کا پھل تھا، اس کا اور اس پر نہایت خوبصورتی سے درودپاک کندہ کیا گیا تھا۔ دل کو ایک دھکا سا لگا۔ ہاتھ بے اختیار آگے بڑھے اور بڑی عقیدت سے وہ خنجر میں نے ہاتھ میں اُٹھا لیا۔ درود پاک پڑھا۔ دل روشن ہوگیا۔ اک دم سے سارے بوجھ دل سے ہٹ گئے۔ سب کچھ غلط ہوسکتا ہے، ہر چیز فریب ہوسکتی ہے لیکن یہ کسی طور دھوکا نہیں ہو سکتا۔ آنکھیں بھر آئیں۔ اچانک تنہائی دُور ہوگئی۔ اچانک بے کسی کا احساس ختم ہوگیا۔ اسی وقت دروازے پر آہٹ سُنائی دی اور میں نے جلدی سے اس متاع بے بہا کو سینے کے قریب چھپا لیا۔
’’آ سکتا ہوں۔‘‘ دروازے سے عزت بیگ کی آواز سنائی دی۔
’’تشریف لایئے۔‘‘
’’نورچشمی قدسیہ بانو بھی ساتھ ہیں۔ آئو بیٹی…‘‘ ایک پیکر شباب اندر آ گئی۔ سادہ لباس مگر حسن سادہ بھی نہایت پُرکار… ’’قدسیہ نام ہے اس کا… بڑی بیٹی ہے میری شاہ بابا۔ آپ کے قدموں میں آئی ہے۔‘‘ عزت بیگ نے کہا۔ پھر چائے کے برتنوں کو دیکھ کربولے۔ ’’چائے پی لی کیا۔ مگر وہ احمق تو کچھ اور ہی کہہ رہا تھا۔‘‘
’’کون؟‘‘ میں نے پُراعتماد لہجے میں کہا۔ نگاہ قدسیہ پر پڑی۔ وہ بڑی میٹھی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔
’’شرفو ہے اس کا نام۔ کہہ رہا تھا کہ چائے لے کر جا رہا تھا کہ کسی نے برتن ہاتھ سے چھین لئے۔ ابھی ابھی تو خبر دی ہے اس نے، ادھر ہی آ رہا تھا۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہا تھا۔ برتن آئے تو ہیں مگر چائے سے خالی ہیں۔‘‘ میں نے برتنوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
’’دیکھ لیا آپ نے۔ یہ ہوتا ہے یہاں دن رات اور تو کوئی واقعہ نہیں پیش آیا؟‘‘ مرزا صاحب نے کہا۔
’’کوئی خاص نہیں۔ بس اس پیڑ کے پرندے اُڑ گئے۔ اس فریم میں جو تھا، وہ ان پرندوں کو پکڑنے نکل گیا۔‘‘ میں نے کہا اور مرزا عزت بیگ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
’’چلئے اچھا ہوا آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ یہی ہوتا ہے ان بچوں کے ساتھ۔ آپ تو دل کے مضبوط ہیں۔ ایسے واقعات بہت دیکھے ہوں گے آپ نے مگر یہ بچّے۔ یہ تو ڈرتے ہی ہیں کیوں قدسیہ…‘‘ مرزا صاحب نے بیٹی کی طرف دیکھا اور میری نظر دوبارہ اس کی طرف اُٹھ گئی۔ وہ ان باتوں سے بے نیاز صرف مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی اور اس کا چہرہ۔ اس کا چہرہ بھی جانا پہچانا لگا۔ کہاں دیکھا ہے یہ چہرہ۔ پھر مجھے وہ پورنیاں یاد آ گئیں جو بھوریا چرن کے ایک عمل کے تحت مجھ پر مسلط ہو گئی تھیں۔ یہ چہرہ ان جیسا تھا۔ میں چونک سا پڑا تھا۔
’’میں خود چائے لے کر آتا ہوں۔‘‘ مرزا عزت بیگ اپنی جگہ سے اُٹھے تو میں نے انہیں روک دیا۔
’’نہیں مرزا صاحب۔ اب ضرورت نہیں محسوس ہو رہی۔‘‘
’’شاہ صاحب۔ ناراض ہوگئے ہیں کیا۔‘‘
’’ارے بالکل نہیں۔ اس میں ناراضگی کی کیا بات ہے۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ آپ نے چند لمحے یہاں گزارے ہیں، مجھے دیکھئے۔ مسلسل ان حالات سے گزر رہا ہوں۔ میری بیوی، میری بچیاں ہر لمحہ خوف کا شکار رہتی ہیں۔ میں یہاں رہنے پر مجبور ہوں۔ زندگی مسلسل عذاب بن کر گزر رہی ہے۔‘‘ مرزا عزت بیگ کی آواز بھرّا گئی۔ پھر وہ اُٹھ گیا۔ ’’چائے لاتا ہوں۔‘‘ اب میں اسے نہیں روک سکا تھا۔ وہ باہر نکل گیا۔ اس کی بیٹی بیٹھی رہ گئی تھی۔ میری نگاہ اس پر پڑی تو وہ پہلے کی مانند مجھے دیکھ رہی تھی۔
’’آپ لوگ بہت خوفزدہ رہتے ہیں اس گھر سے؟‘‘
’’نہیں تو…‘‘ وہ جیسے میرے سوال کی منتظر تھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’مطلب… مطلب تو کچھ بھی نہیں۔‘‘ اس نے کہا اور ہنس پڑی۔ ’’مگر آپ کے والد تو یہی کہہ رہے تھے آپ کے سامنے…‘‘
’’والد… کون والد؟‘‘ اس نے پھر اسی انداز میں کہا اور میں بوکھلا گیا۔
’’مرزا صاحب کی بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’اپنی بات نہیں کرو گے۔‘‘ وہ دلآویز انداز میں بولی۔
’’آپ کا مطلب کیا ہے قدسیہ؟‘‘
’’قدسیہ، کون قدسیہ۔ سنو، ایک بات بتائوں تمہیں۔ میرا کمرہ اس کمرے کی آخری قطار کے دُوسری طرف ہے۔ تمہیں اس سے سرخ روشنی جلتی نظر آئے گی۔ جب رات ڈھلے، جب چاند آدھے آسمان پر آ جائے تم میرے پاس آ جانا۔ باٹ تکوں گی۔ دروازہ کھلا رکھوں گی… آنا ضرور…‘‘ وہ اُٹھ گئی۔ میں اسے نہ روک سکا تھا۔ دروازے پر رُک کر اس نے گردن گھمائی مجھے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں سُرخ روشنی چمک رہی تھی۔ وہ مسکرائی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی یہ مسکراہٹ ہوش چھین لینے والی تھی۔ پھر وہ باہر نکل گئی۔
میں چکرا کر رہ گیا تھا۔ یہ سب کچھ مجھے بہت عجیب لگا تھا۔ نہ جانے کیوں اس میں مایوسی کا احساس بیدار ہونے لگا تھا۔ میں دولت کے لالچ میں عزت بیگ کے ساتھ آ گیا تھا۔ یہ سوچ کر آ گیا تھا کہ اگر اس کا کام ہو جائے تو جو کچھ اس سے ملے گا، اسے شمسہ کے حوالے کر دوں گا۔ فیضان اس سے ایک نئی زندگی کا آغاز کرے گا اور میرے دل کو یہ سکون ہو جائے گا کہ میری بہن اچھی زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ بہت عجیب لگ رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سب کچھ نہیں ہو سکے گا، جو میں چاہتا ہوں۔ گناہ بے لذت سا ہوتا جا رہا تھا، حالانکہ مرزا عزت بیگ بتا چکا تھا کہ آسیب یہاں ہنگامہ آرائیاں کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ ان کے تابع ہے۔ مجھے یہی محسوس ہو رہا تھا، اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا تھا لیکن بس مایوسی کا ایک احساس خودبخود میرے دل میں پیدا ہوتا جا رہا تھا۔
کچھ دیر کے بعد عزت بیگ واپس آ گیا۔ چائے کے برتن وہ اپنے ہاتھوں میں اُٹھائے ہوئے تھا۔ اس نے وہ برتن میرے سامنے رکھے اور پھر اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا بولا۔ ’’ارے یہ قدسیہ کہاں چلی گئی؟‘‘
’’پتہ نہیں، بس اُٹھ کر چلی گئیں۔‘‘ میں نے کہا۔ مرزا عزت بیگ نے ٹھنڈی سانس لی اور آہستہ سے بولا۔
’’وہ سب آسیب زدہ ہیں۔ یہ گھر مکمل طور پر آسیب زدہ ہے، ہم یہاں سے کہیں جاتے ہیں تو بیماریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ جسمانی طور پر ہم اسی گھر میں تندرست رہتے ہیں لیکن ذہنی طور پر۔ آپ کو خود اندازہ ہوگیا ہوگا شاہ صاحب، سب کی یہی کیفیت ہے اور میرا دماغ چٹختا رہتا ہے، آپ چائے پیجئے…‘‘
’’نہیں مرزا صاحب آپ یقین کیجئے بالکل حاجت نہیں ہے۔ میں تو منع کر رہا تھا آپ کو، آپ نے خود ہی زحمت کر ڈالی۔ بہرحال مرزا صاحب میں اس پورے گھر کا جائزہ لوں گا، رات ہو چکی ہے، آپ اپنے مشاغل جاری رکھئے۔ آپ کے اہل خاندان سے بھی ملاقات کروں گا اور ان سے بھی جو یہاں آپ کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’شاہ صاحب بات اتنی ہی نہیں ہے کہ آپ ہماری مدد کریں گے بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ چند انسانی زندگیاں اس وقت آپ کے رحم و کرم پر ہیں اور آپ کی کاوشیں انہیں نئی زندگی سے روشناس کرا سکتی ہیں۔ ورنہ سچی بات یہ ہے کہ ہم نیم جان ہو گئے ہیں۔ آپ چائے پی لیتے تو اچھا تھا۔ حالانکہ وقت واقعی کافی ہوگیا ہے۔ رات کے کھانے میں بھی دیر نہیں رہ گئی۔ شاہ صاحب آپ یہ فرمایئے کب سے کام شروع کریں گے؟‘‘
’’آج ہی رات سے مرزا صاحب…‘‘
’’میرے لائق خدمت بتایئے؟‘‘
’’نہیں آپ اپنے کمروں میں محدود ہو جائیں۔ ہاں ذرا ملازمین کو بھی ہدایت کر دیجئے گا کہ میری کارروائیوں میں روک ٹوک نہ کریں۔‘‘
’’کہاں شاہ صاحب۔ بس رات کا کھانا تو جلدی کھا لیا جاتا ہے ہمارے ہاں اور اس کے بعد یہ بے چارے بچّے، یہ کچھ ملازم بس روایتی طور پر اپنی وفاداریاں نباہ رہے ہیں، اپنے اپنے کمروں میں جا گھسیں گے۔ سب ہی خوفزدہ ہیں۔ میں نے انہیں نجانے کن کن الفاظ میں تسلّیاں دی ہیں اور کہا ہے کہ یہ مصیبت دُور ہو جائے گی۔ آپ اطمینان سے اپنا کام کیجئے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ آپ مطمئن رہیں۔‘‘
مرزا عزت بیگ خود ہی چائے کے برتن لے کر چلا گیا تھا اور میں ایک ٹھنڈی سانس لے کر گہری سوچوں میں گم ہوگیا تھا۔ بہت دیر تک خیالات میں ڈوبا رہا اور اس کے بعد ذہن اس خنجر کی جانب متوجہ ہوگیا جو میرے لباس میں محفوظ تھا۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھ کر خنجر اپنے لباس سے نکالا اور اس پر کنداں درود پاک کا جائزہ لینے لگا۔ بہت حسین خنجر تھا اور اس کے بارے میں ایک لمحہ بھی یہ سوچنا کہ اس میں کوئی ایسی ویسی بات ہے، میرے لئے گناہ عظیم تھا۔ درود پاک اس کا مکمل ضامن تھا اور اس کے علاوہ کوئی اور ضمانت مجھے جیتے جی درکار نہیں تھی۔ پہلے دل کی جو کیفیت تھی اب نہیں رہی تھی۔ اب تو بڑا اعتماد ہوگیا تھا اور یہ بھی یقین تھا کہ وہ مقصد جو میرے دل میں ہے پورا ہو یا نہ ہو، لیکن کم از کم یہاں میری زبردست معرکہ آرائی رہے گی اور اس کا نتیجہ بہتر ہی نکلے گا۔
مسعود چین کی زندگی گزار رہا تھا کہ اس کی ملاقات کالے جادو کے ماہر بھوریا چرن سے ہوئی اور پھر یہ ملاقات گویا اس کے گلے کا ہار بن گئی۔ یہیں سے اس کیلئے مشکلات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، بھوریا نے اسے اپنا آلۂ کار بننے کی پیشکش کی لیکن جب مسعود نے اسے مسترد کردیا تو وہ اس کا دشمن بن گیا۔ اس نے مسعود پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ ڈالے لیکن مسعود کا انکار، اقرار میں نہ بدل سکا۔ مسعود انہی مشکلات سے نبرد آزما تھا کہ وہ کچھ خاص ہستیوں میں نظر آگیا اور ان کی مہربانیوں کی بدولت اس کی سختیوں میں کمی آنے لگی۔ وہ کالی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لائق ہوگیا تھا لیکن اس نے اپنی زندگی خدمتِ خلق کیلئے وقف کردی تھی۔ اسی دوران اس کی ملاقات ایک مصیبت زدہ لڑکی ثریا سے ہوئی تو وہ اسے پسند کرنے لگا لیکن حالات نے اسے ثریا سے دور ہونے پر مجبور کردیا۔ پھر حالات کا یہی دھارا اسے ثریا کے بھائی اکرام کے روبرو لے آیا تو معلوم ہوا کہ وہ دونوں بہن بھائی بھی بھوریا کی خباثتوں کا شکار ہوئے تھے۔ اس نے اکرام کو اپنا آلۂ کار بنانے کی خاطر ثریا کی زبان کاٹ ڈالی تھی اور پھر دونوں بہن بھائی کو ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا۔ مسعود، اکرام کے ہمراہ ثریا کی تلاش میں تھا جسے بھوریا نے نہ جانے کہاں غائب کردیا تھا۔ اسی دوران وہ ایک خانقاہ تک جاپہنچے جسے ایک جعلی پیر بابا چلا رہا تھا۔ یہاں قیام کے دوران جب پیر بابا کا ذہنی توازن خراب ہوا تو خانقاہ کا انتظام مسعود کو سنبھالنا پڑا۔ وہ کلامِ الہیٰ کی مدد سے وہاں آنے والے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے لگا تاہم اسے اصل امتحان اس وقت پیش آیا جب اس کی بچھڑی ہوئی بہن شمسہ اپنے ظالم شوہر کے سدھر جانے کی مراد لے کر خانقاہ میں آئی۔ مسعود بہن کے سامنے آنا نہیں چاہتا تھا لیکن اکرام کے زور دینے پر وہ درپردہ اس کی مدد کرنے کیلئے تیار ہوگیا۔ اسی اثناء میں عزت بیگ نامی ایک دولتمند شخص خانقاہ میں اپنی فریاد لے کر آیا، وہ اپنے گھر میں بسنے والے آسیب سے چھٹکارا چاہتا تھا جس نے اس کی اور اس کے گھر والوں کی زندگی عذاب کر رکھی تھی۔ مسعود اس کی مدد کیلئے اس کی حویلی جا پہنچا جہاں اس کا سامنا بھوریا کی پورنی سے ہوا جو عزت بیگ کی بیٹی کے روپ میں وہاں موجود تھی۔ اب مسعود آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کررہا تھا۔
(اب آپ آگے پڑھیے)
٭…٭…٭