’’مگر تم میری دھرم پتنی ہو۔‘‘
’’میرا دھرم اب صرف سیوک دھرم ہے۔‘‘
’’میرا اب تم سے کوئی ناتا نہیں رہا؟‘‘
’’سنسار کی نگاہوں میں جو ہے، سو ہے۔ تم چاہو تو اسے توڑ دو، چاہو بنا رہنے دو، یہ تمہاری مرضی ہے۔ ویسے میری مدد کیلئے آج ناتھ کے سیوک بن جائو، سب کچھ مل جائے گا تمہیں۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ اب سوریہ کرن وہ سوریہ نہیں رہی جو تھی۔ وہ بہت آگے نکل چکی تھی۔ اب تو اس سے بھی ڈرنا پڑے گا۔‘‘
’’کیا سوچنے لگے مول چند بابو؟‘‘ اس نے مجھے خاموش پا کر کہا۔
’’سوچ رہا ہوں کہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں تو سرکار سے اس بارے میں بات کرنے جارہا تھا۔‘‘
’’کیوں اپنے جیون پر کشٹ مول لیتے ہو؟ کچھ حاصل نہیں ہوگا اس سے تمہیں جو کہا جارہا ہے، وہی کرو۔ اس میں جیون سوارت ہوسکتا ہے، نہیں تو نقصان اٹھا جائو گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ دھمکیاں کیوں دے رہی ہو مگر آخر ایسی کیا بات ہے اس تعویذ کے اندر جس کی وجہ سے گرج ناتھ سیوک جیسا مہان کنور ریاست علی سے ڈرا ہوا ہے؟‘‘
’’دیکھو جو کام کہا جائے، بس اس کے بارے میں سوچو۔ کیا ہے، کیوں ہے، کیسے ہے، یہ ساری بیکار کی باتیں ہیں اور ان سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ میں نے دل ہی دل میں اسے بہت سی گالیاں دی تھیں۔ دھرم پتنی میری تھی اور بات ایسے کررہی تھی گرج ناتھ سیوک کے بارے میں جیسے اس سے جنم جنم کا رشتہ ہو۔ بہرطور میں نے وعدہ کرلیا مگر دل میں، میں نے سوچا کہ بھول کر بھی ایسا کوئی کام نہیں کروں گا۔ صاف صاف کہہ دوں گا کہ اس کوشش میں، میں کامیاب نہیں ہوسکا اور اس کے بعد میں خود ہی کنور ریاست علی کی حویلی پہنچ گیا۔ سلام دعا کی ان سے مگر کنور صاحب اپنے ہی رنگ میں مست تھے۔ کہنے لگے۔ ’’کہو لالہ جی، کیا خبر لے کر آئے ہو؟ آج کل تو تمہارے آدمی خوب بھاگ دوڑ کررہے ہیں مسلمانوں کے خلاف۔ سنا ہے بلوہ فساد کرانا چاہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں کنور صاحب! اگر آپ کے دل میں یہ خیال ہے تو اسے دل سے نکال دیجئے لیکن کچھ ایسی باتیں ہوچکی ہیں جن سے صورت حال بگڑنے لگی ہے۔‘‘
’’چلی نا بننے والی چال، اپنی جان بھی بچا رہے ہو اور حرکتیں وہی کی وہی جاری ہیں۔ ٹھیک ہے بابو مول چند، جو کچھ ہورہا ہے، ہم بھی اس کا جواب اسی انداز میں دیں گے۔ یہ مت سوچنا کہ یہاں مسلمان، ہندوئوں سے ہلکے پڑ جائیں گے۔ تمہارے ہرکارے جو کچھ کررہے ہیں، ہم اس سے بھی نمٹ لیں گے۔‘‘
’’ارے تم کیا نمٹو گے کنور صاحب، آج تک ہم نے تمہاری عزت کی ہے مگر تمہارا منہ سیدھا ہی نہیں ہوتا۔ کتے کی دم کی طرح ٹیڑھے کے ٹیڑھے ہی ہو۔‘‘ میں نے کہا۔ اچانک ہی ایک منصوبہ میرے ذہن میں آگیا تھا۔ کنور صاحب کیلئے تو یہ الفاظ گویا بم کے دھماکے سے کم نہیں تھے، ہتھے سے اکھڑ گئے۔ مجھے چار آدمیوں کے ذریعے اٹھا کر حویلی سے باہر پھنکوا دیا اور خوب بے عزتی کی میری! میں خوش تھا اس بات پر مہاراج کہ وہ کام منٹوں میں ہوگیا جس کیلئے میں پریشان تھا۔ میں وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔ میری اس درگت سے ہندوئوں میں اشتعال پیدا ہوگیا تھا لیکن میں نے انہیں دھیرج رکھنے کیلئے کہا۔ گھر واپس آگیا اور میرا اندازہ ٹھیک نکلا۔ یہ خبر گرج ناتھ سیوک کو پہنچ چکی تھی۔
وہ سوریہ کرن کے ساتھ ہی میرے کمرے میں آیا اور مجھ سے ساری صورت حال کے بارے میں پوچھنے لگا تو میں نے کہا۔ ’’وہ کنور کا بچہ تو سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ کام دوسروں کا ہے، ہماری دوستی میں فرق نہیں آنا چاہئے تو مجھ پر بگڑ گیا۔ کہنے لگا۔ ’’او دال کھانے والے بنئے! میری اور تیری دوستی کیا معنی رکھتی ہے۔ اپنی اوقات بھول گیا؟‘‘ بس مجھے بھی غصہ آگیا اور اس کے بعد اس نے مجھے اپنی حویلی سے نکلوا دیا۔
’’چنتا مت کر مول چند بابو، چنتا مت کر، اب تجھے ایک اور کام کرنا ہے۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بتاتا ہوں، بتا دوں گا۔‘‘ وہ بولا۔ ’’سن ری سوریہ کرن۔‘‘ وہ سوریہ کرن سے بولا۔ ’’آج رات کو تو اس کے ساتھ مایا مکنڈ آجانا۔ سورج چھپنے کے فوراً بعد تم دونوں کو مایا مکنڈ پہنچ جانا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر گرج ناتھ سیوک چلا گیا۔ سوریہ کرن نے اپنے کمرے میں داخل ہوکر کمرا بند کرلیا اور میں یہ سوچنے لگا کہ نجانے اب وہ پاپی جادوگر کیا کرنا چاہتا ہے۔ کنور ریاست علی خان سے لڑائی لے کر میں نے کم ازکم وہ خطرہ تو ٹال دیا تھا کہ دوست بنا کر مجھے ان کے بازو کا تعویذ حاصل کرنا پڑے۔
لیکن کنور ریاست علی خان صاحب بات نہیں سمجھے تھے۔ اب اس کا نتیجہ ادھر سے نہ جانے کیا ہو۔ شام سورج چھپتے ہی سوریہ کرن میرے پاس آگئی اور میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ ریاست باغ میں داخل ہوکر میں اس مندر کے سامنے پہنچ گیا جس میں کوئی دروازہ نہیں تھا۔ میرا حلق خشک ہورہا تھا مہاراج! بڑا ڈر لگ رہا تھا مجھے، نہ جانے اب کیا ہو۔ کہیں اس جادوگر کو یہ پتا نہ لگ جائے کہ میں من سے اس کے ساتھ نہیں ہوں یا کنور صاحب کے بارے میں اس سےچال چلی گئی ہے اور پھر یہ طلسمی مندر۔
ایک دیوار کے سامنے پہنچ کر سوریہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور پھر ہم دونوں دیوار سے گزر کر اس طرح اندر آگئے جیسے وہ صاف دھویں کی دیوار ہو۔ کوئی رکاوٹ نہیں ہوئی تھی مگر مہاراج! اندر داخل ہوکر میری کھوپڑی چکرا گئی۔ کنور صاحب کا یہ باغ اتنا بڑا تو نہ تھا اور پھر مندر تو بہت ہی چھوٹا تھا لیکن اندر آکر مجھے ایسا لگا جیسے میں سیکڑوں بیگھے پر پھیلے ہوئے کسی عظیم الشان قلعے میں کھڑا ہوں۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی، پھول کھلے ہوئے تھے۔ ان کے بیچ سنہرے چمکتے ہوئے مجسمے کھڑے ہوئے تھے جنہیں قریب سے دیکھنے پر پتا چلا کہ سونے کے ٹھوس مجسمے ہیں۔ ان میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ در بنے ہوئے تھے، ان پر بھی سونے کی پترکاری کی ہوئی تھی۔ عجیب مندر تھا بھگوان کی سوگند مہاراج وہاں سیکڑوں من سونا سجا ہوا تھا، کروڑوں کی مالیت کے ہیرے بھرے ہوئے تھے۔ وہ سچ مچ مایا کنڈ تھا۔ میری تو آنکھیں پھٹی رہ گئی تھیں۔ پھر وہیں مجھے گرج ناتھ ملا۔ راجہ بنا ہوا تھا داسیوں کے جھرمٹ میں۔ مجھے دیکھ کر سب کو ہٹا دیا اور پھر ایک در میں جا بیٹھا۔
’’بیٹھو مول چند بابو! وہ سسرا مسلمان بہت چالاک ہے مگر سیوک سے بچ کر کہاں جائے گا۔ بس اسی کا کانٹا ہے ورنہ سب ٹھیک ہوجاتا۔ اب تمہیں دوسرا کام کرنا ہے۔‘‘
’’حکم دیں مہاراج۔‘‘
’’جائو سوریہ، لے آئو۔‘‘ گرج ناتھ نے کہا۔ سوریہ کرن چلی گئی۔ پھر وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھوں میں ایک تھالی تھی جو چاندی کی بنی ہوئی تھی۔ اس میں آٹے کے بنے ہوئے دو پتلے رکھے ہوئے تھے۔ گرج ناتھ انہیں دیکھ کر مسکرانے لگا۔ ’’یہ ہندو‘‘ اس نے ایک پتلا اٹھا کر کہا۔ ’’اور یہ مسلمان۔‘‘ اس نے دوسرے پتلے کو دیکھ کر کہا۔ پھر اس تھالی میں سے اس نے دو سوئیاں اٹھائیں اور بولا۔ ’’اور یہ ہیں نفرت کی سوئیاں۔ ایک اس کے دل میں، دوسری دوسرے کے دل میں۔‘‘ اس نے دونوں سوئیاں گندھے ہوئے آٹے کے پتلوں میں چبھو دیں۔ پھر مجھ سے بولا۔ ’’تم یہ دونوں پتلے لے جائو مول چند، اور انہیں جوالاپور کے چوک جوالا میں بیچوں بیچ گاڑھ دو، پھر دیکھو تماشا۔‘‘
میرا دل کانپ اٹھا تھا مہاراج، مگر مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ اب اس سے منہ موڑوں۔ امبھا چرن میرے ساتھ بھیجا گیا اور میں نے آدھی رات کو وہ دونوں پُتلے زمین میں گاڑ دیئے۔ پھر مہاراج تین دن تک لوگ ان نفرت کے پُتلوں سے گزرے اور چوتھے دن اس چوک میں پہلا فساد ہوا۔ وہ جگہ خون میں نہا گئی اور اس کے بعد سے اب تک فساد جاری ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ امبھا چرن روز رات کو جاکر وہاں انسانی خون ڈالتا ہے۔ وہ جگہ ہمیشہ خون میں ڈوبی رہتی ہے جہاں پُتلے دبے ہوئے ہیں۔ دونوں طرف کے لوگ مر رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے مہاراج کہ اس مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی ہے۔ رام بھروسے میرا آدمی ہے، یہ بھی دوسروں کے ساتھ جھگڑے میں تھا مگر اس نے واپس جاکر مجھے یہاں کی کہانی سنائی اور مہاراج میں ہمت کرکے یہاں آگیا۔‘‘
پوری کہانی سننے کے بعد میں نے کہا۔ ’’اب تم کیا چاہتے ہو مول چند؟‘‘
’’بھگوان کی سوگند مہاراج، آپ یہ مسجد پورے باغ پر بنا لیں۔ میں خوشی سے کہتا ہوں سسری دھرتی کون سی کسی کے ساتھ جائے گی مگر کوئی اپائے کرو، انسان بچ جائیں، یہ دیوانگی ختم ہوجائے۔ ہندو ہوں یا مسلمان، ہیں تو انسان، برسوں کے ساتھ رہنے والے۔ ایسے دشمن ہوگئے ایک دوسرے کے اسے روکئے مہاراج۔‘‘
’’تم اچھے انسان ہو مول چند۔ اِن شاء اللہ یہاں فساد بند ہو جائے گا۔‘‘
’’میرے لئے کوئی حکم ہو تو بتایئے؟‘‘
’’نہیں۔ خاموشی سے اپنا کام جاری رکھو۔‘‘
’’ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں مہاراج۔‘‘
’’ہوں… کہو۔‘‘
’’ہوسکتا ہے دھرم کے دیوانے دوبارہ یہاں کوئی حرکت کرنے آئیں۔ آپ اسے میرا کام نہ سمجھیں۔ میں کھل کر یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ میرے من میں کیا ہے مگر آپ سے کہہ چکا ہوں کہ آپ چاہیں تو میرے اس پورے باغ کو مسجد بنا لیں، مجھے اعتراض نہ ہوگا۔‘‘
’’میں سمجھتا ہوں مول چند۔‘‘
’’پھر میں چلتا ہوں مہاراج۔‘‘
’’جائو اور اطمینان رکھو، تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگائے۔ رام بھروسے نے بھی ایسا ہی کیا اور پھر وہ چلے گئے۔ اکرام کسی پتھر کے بت کی مانند ساکت تھا۔ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا، پھر کہا۔ ’’کیا بات ہے اکرام، کچھ بولو گے نہیں؟‘‘
’’یہ سب کچھ کتنا عجیب ہے۔‘‘
’’ہاں! دنیا کی کہانیاں ہیں، ایسی ہی ہوتی ہیں اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ چلو ٹھیک ہے کام جاری ہے، آگے بڑھ رہا ہے۔ تم گھبرائے تو نہیں ہو؟‘‘
’’بالکل نہیں مسعود بھیا۔‘‘
’’اندر تعمیر کا سامان پڑا ہے، وہاں سے دو کدالیں اٹھا لاؤ۔ جا کر لے آؤ۔‘‘ میں نے کہا اور اکرام چلا گیا۔ پھر کدالیں لے کر آگیا۔
’’یہ میں نے پہلے نہیں دیکھی تھیں۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔
’’آؤ چلیں۔‘‘ میں نے ایک کدال سنبھال کر آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ اکرام بھی میرے ساتھ چل پڑا۔ وہی ویرانی اور ہیبت ناک سناٹا۔ اکرام خوفزدہ تھا مگر ہمت کئے ہوئے تھا۔ اسے خوف تھا کہ کسی طرف سے چھپا ہوا کوئی ہندوؤں کا غول نہ نکل آئے۔ بمشکل اس نے کہا۔
’’ہم کہاں چل رہے ہیں مسعود بھیا؟‘‘
’’جوالا چوک۔ یہاں سے ہم زمین کھود کر پہلے وہ نفرت کے پُتلے نکالیں گے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
میں نے اکرام کے چہرے پر اس جواب کے نتائج نہیں دیکھے تھے۔ وہ مجھ پر اندھا اعتماد کرنے لگا تھا لیکن انسان تھا اور ایسے حالات سے خوفزدہ ہو جانا انسانی فطرت کے عین مطابق تھا۔ یعنی اس وقت صورت حال یہ تھی کہ جوالاپور کے رہنے والے ہندو، مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کب کہاں سے گھات لگائے ہوئے درندے نکل کر حملہ آور ہو جائیں۔ دن کی روشنی تک میں لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل رہے تھے۔ یہ تو رات کے ہولناک سناٹے تھے۔ ہم چلتے رہے۔ ایک آدھ بار پولیس گاڑی کی روشنی نظر آئی تو آڑ میں ہو گئے۔ پتہ نہیں اکرام پر کیا بیت رہی تھی۔ ہم جوالا چوک پہنچ گئے۔ چاروں طرف ویران سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ کسی ذی رُوح کا پتہ نہیں تھا۔ میں مدھم قدرتی روشنی میں زمین دیکھتا آگے بڑھتا رہا اور پھر وہ جگہ بالکل صاف نظر آ گئی جہاں خون کے چکتے جمے ہوئے تھے۔ جادو کے پتلوں کو غسل خونیں دیا جاتا تھا اور نہ جانے کہاں کہاں سے یہ خون حاصل کیا جاتا رہا ہوگا۔
’’یہ…یہ وہ جگہ ہے نا۔‘‘ دفعتاً اکرام کے منہ سے نکلا۔
’’ہاں۔ ٹھیک سمجھے ہو۔ سب سے پہلے ہمیں یہاں سے نفرت کے ان پتلوں کو نکالنا ہے۔‘‘ میں نے کہا اور کدال سیدھی کر لی۔ پھر میں نے پہلی کدال زمین پر ماری تھی کہ چھن کی آواز آئی اور اکرام کی گھگھی بندھ گئی۔ نہ جانے کہاں سے ایک عورت اور ایک مرد نمودار ہو گئے تھے۔ ان کے چہرے بھیانک سیاہ تھے۔ سرخ زبان باہر لٹکی ہوئی تھی۔ انہوں نے دونوں ہاتھ سامنے کئے ہوئے تھے۔ اکرام تو کانپنے لگا مگر میں نے پُرسکون نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’تو تمہاری ڈیوٹی یہاں ہے۔‘‘ میں نے کہا اور وہ بھیانک آواز میں اپنا جسم توڑنے مروڑنے لگے۔ ان کے جسم کے اعضاء خوفناک شکلیں پیش کرنے لگے۔ کبھی ان کی آنکھیں حلقوں سے ایک ایک فٹ آگے نکل آتیں، کبھی ناک لمبی ہو جاتی، کبھی ہونٹ ٹھوڑی سے نیچے لٹک جاتا اور لمبے دانت نظر آنے لگتے۔ وہ یہ حرکتیں کرتے ہوئے ڈرانے والے انداز میں آگے بڑھ رہے تھے، تب میں نے دوبارہ کہا۔
’’رمبھا چرن، نتھیا اور گرج ناتھ کے پالتو کتو! بھاگ جائو یہاں سے ورنہ خاک ہو جائو گے۔‘‘ میں نے دونوں ہاتھ سیدھے کئے تو وہ رک گئے۔ اچانک ہی دونوں زمین پر لیٹ گئے، پھر لڑھکتے ہوئے دور چلے گئے اور نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ میں نے دوبارہ کدال زمین پر چلائی تو پھر وہ چھن چھن کرتے ہوئے آ گئے اور ہمارے جسموں پر جھپٹے مارتے ہوئے دور نکل گئے۔ میں نے اکرام کو دیکھ کر کہا۔
’’چلو اکرام شروع ہو جائو۔ یہ مکھیاں تو ایسے ہی بھنبھناتی رہیں گی۔ آئو جلدی کرو۔‘‘ اکرام کیا اچھے اچھوں کے ہوش خراب ہو جاتے جو حرکتیں یہ لوگ کر رہے تھے۔ اس بار پھر وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ اکرام خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا مگر کدال اس کے ہاتھوں میں لرز رہی تھی۔ ’’بسم اللہ کر کے شروع ہو جائو۔‘‘ میں نے اسے جگہ دے کر کہا۔ اکرام نے کدال بلند کی اور پھر ایک گھٹی گھٹی آواز نکال کر رک گیا۔ میں نے بھی دیکھ لیا۔ نتھیا اچانک زمین پر اس جگہ نمودار ہو گئی جہاں کدال کی ضرب لگنے والی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اکرام سے رکنے کی درخواست کی تھی۔ میری کدال اوپر اٹھی تو رمبھا چرن نے اسے پیچھے سے پکڑ لیا۔ میں نے ایک زوردار جھٹکا دیا تو اچھل کر سامنے آ گیا اور لٹو کی طرح گھومنے لگا۔
’’ٹھیک ہے۔ اب پہلے تمہارا کام کرنا پڑے گا۔ آئو ذرا دیکھوں تمہیں۔‘‘ میں نے کہا اور بسم اللہ پڑھ کر درود شریف پڑھنا شروع کر دیا، جو میں نے درود پاک کا آغاز کیا ،دفعتاً وہ اٹھ بھاگے۔ بھاگتے ہوئے وہ چیخ رہے تھے۔
’’دوڑو اے دوڑو مسلے آ گئے۔ آگئے رے آ گئے مسلے آ گئے۔‘‘ اس کے بعد وہ واپس نہیں پلٹے۔ مگر کچھ گھروں میں روشنیاں ہو گئی تھیں۔
’’چلو اکرام… اب نہیں آئیں گے وہ۔‘‘
میں نے کہا اور زمین پر کدال چلانے لگا۔ اکرام یہاں بھی بدروحوں کی ناکامی دیکھ چکا تھا اور اسے اطمینان ہو گیا تھا۔ چنانچہ وہ بھی مصروف ہو گیا۔ وہ دونوں نہ جانے کہاں تک چیختے ہوئے گئے تھے۔ لوگ جاگ بھی گئے تھے مگر کوئی دیوانگی میں باہر نہیں نکلا اور ہم دونوں اپنا کام کرتے رہے۔ ویسے بھی ہمیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی، پتلے زیادہ گہرے نہیں گاڑے گئے تھے۔ تھوڑی سی کوشش سے ہی وہ ہمیں نظر آ گئے۔ آگ کی طرح دہک رہے تھے۔ میں نے کدال کی نوک ہی سے انہیں باہر کھینچ لیا اور پھر ان پر تھوک دیا۔ تھوک کی چھینٹیں ان پر پڑیں تو ایسی ہی آوازیں ابھریں جیسے جلتے لوہے پر پانی سے پیدا ہوتی ہیں۔ میں نے دوبارہ ان پر تھوکا تو دونوں پُتلے اچھل کر بھاگے مگر میں نے لپک کر ان میں سے ایک پر پائوں رکھ دیا اور دوسرے پر کدال پھینک ماری۔ دونوں پچک گئے۔ میں نے پائوں کے نیچے موجود پُتلے کو بری طرح مسل دیا اور وہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ پھر آگے بڑھ کر دوسرے کا بھی یہی حشر کیا اور پھر اکرام سے کہا کہ ان کے ٹکڑے جمع کرے۔ اکرام کی ہمت بحال ہو گئی تھی۔ اس نے ان پُتلوں کا ملغوبہ سمیٹا۔ اب وہ بالکل ٹھنڈے ہو گئے تھے، پھر ہم وہاں سے چل پڑے۔ رخ باغ کی طرف تھا۔ راستے میں کوئی مزاحمت نہیں ہوئی اور ہم باغ میں داخل ہو گئے۔ باغ کے ایک گوشے میں پُتلوں کا ملغوبہ زمین پر ڈال کر اس میں آگ روشن کر دی۔ چند لمحوں میں وہ جل کر خاکستر ہو گئے۔ تب ہم مسجد واپس آ گئے۔ اکرام خاموشی سے اپنی مخصوص جگہ جا لیٹا تھا۔
دوسرا دن معمول کے مطابق تھا۔ صبح، دوپہر پھر شام ہو گئی۔ مغرب ہونے میں دیر باقی تھی کہ مسجد کے بڑے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے خود دروازہ کھولا تھا۔ مول چند تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے اور بولا۔ ’’سلام مہاراج۔‘‘
’’کیسے ہو مول چند؟‘‘
’’دیا ہے بھگوان کی۔ ہمارے آنے کا برا تو نہیں مانے مہاراج۔‘‘
’’نہیں بھئی برا کیوں مانتا۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’بھگوان کی سوگند، بتا نہیں سکتا آپ کو کہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔ بڑا من لگ گیا ہے آپ سے…‘‘
’’یہ تمہاری محبت ہے۔ کہو جوالاپور کے کیا حالات جا رہے ہیں؟‘‘
’’ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں آپ سے؟‘‘
’’پوچھو۔‘‘
’’جوالاپور چوک کی زمین کھدی ہوئی ہے، دوسرے اس بارے میں نہیں جانتے، پر میں جانتا ہوں کہ وہاں کیا تھا۔ آپ نے مہاراج… کیا آپ نے۔‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔
میں نے ایک لمحے کے لئے کچھ سوچا، پھر کہا۔ ’’ہاں مول چند تم نے اس نفرت کی وجہ مجھے بتا دی تھی اور سب سے پہلا کام یہی ضروری تھا کہ نفرت کی وجہ ختم کی جائے۔ میں نے وہ دونوں جادو کے پُتلے نکال کر خاکستر کر دیئے ہیں اور اب ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘
مول چند کے چہرے پر خوشی کے تاثرات پھیل گئے۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’جے ہو مہاراج کی۔ بھگوان کی سوگند، میرا خیال سیدھا اسی طرف گیا تھا اور مجھے یاد آ گیا تھا کہ میں نے مہاراج کو ان پُتلوں کے بارے میں بتایا تھا۔ یہ کام مہاراج ہی کا ہو سکتا ہے۔ ہوا یوں مہاراج کہ اٹھارہ آدمیوں پر بنی ہوئی ایک کمیٹی میرے پاس آئی، اچھے اچھے لوگ شامل ہیں اس میں، سمجھدار ہیں، جوالاپور کے رئیسوں میں سے بھی ہیں، کاروباری ہیں۔ سارے کے سارے ہندو تھے۔ میرے سامنے آئے اور کہنے لگے کہ مول چند مہاراج آخر یہ قتل و غارت گری کب تک ہوتی رہے گی۔ مسلمان بھی مر رہے ہیں، ہندو بھی مر رہے ہیں، فائدہ کسی کو نہیں ہے، کیوں نہ ایک بھائی چارہ کمیٹی بنائی جائے اور اس سلسلے میں بات کی جائے، اب یہ لڑائی ختم ہو جانی چاہئے، جہاں تک بات گرج ناتھ سیوک کی ہے تو مہاراج گرج ناتھ خود جو من چاہے کرے، بھوانی کنڈ بنائے، جوالاپور کو مایا مکنڈ بنا دے، ہمیں کیا۔ ہم کیوں لڑیں آپس میں اور جہاں تک مسلمانوں کے جوالاپور سے نکال باہر کرنے کا سوال ہے تو مہاراج نے دیکھ لیا کہ اگر مسلمان جوالاپور میں نہ رہے تو ہندو ہی کتنے بچیں گے۔ برابر کی چوٹ جاری ہے چار ہم ان کے مارتے ہیں تو پانچ وہ ہمارے مار دیتے ہیں۔ کیا اس طرح مسلمانوں کو جوالاپور سے ختم کیا جا سکے گا۔ بات تو یہ ہوتی کہ ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے فوراً ہی بات اچک لی اور کہا۔
’’یہ تو تم لوگوں کی سوچنے کی بات ہے، میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ میں اگر باہر نکل کر تم سے یہ بات کہتا تو تم لوگ یہی کہتے کہ میں بزدل ہوں اور مسلمانوں کے ڈر سے ان سے سمجھوتہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’بات ڈر، خوف یا بزدلی کی نہیں ہے مہاراج مول چند، آپ ہمیں یہ بتایئے کہ اب تک کتنے ہندو مرے ہیں اور کتنے مسلمان۔ یہ جھگڑا تو لمبا ہی چلے گا۔ سرکار تک کچھ نہیں کر پا رہی، پولیس والے ادھر جاتے ہیں تو ادھر سے حملہ ہوتا ہے، نقصان ان کا بھی ہوتا ہے اور ہمارا بھی ہوتا ہے۔ بہت سے گھر برباد ہو گئے ہیں مہاراج۔ اب یہ دھندا ختم ہو جانا چاہیے۔‘‘
’’تو پھر تم جیسا کہو بھائیو! میں تیار ہوں۔ میں نے کب اس بات سے انکار کیا ہے۔‘‘
’’ہونا کیا چاہیے مہاراج۔ ہم اسی لئے آپ کے پاس جمع ہو کر آئے ہیں۔‘‘
’’پہلے یہ بتائو کہ جو بھائی چارہ کمیٹی تم نے بنائی ہے، کیا تمہاری بات دوسرے بھی مانیں گے۔‘‘
’’ارے سسرے کیسے نہیں مانیں گے۔ بھلا لڑنے بھڑنے میں کوئی فائدہ ہو رہا ہے کسی کا۔ سارے کام دھندے چوپٹ پڑے ہوئے ہیں، گھروں میں فاقوں کی نوبت آ گئی ہے اور پھر اگر جو نہیں مانے لگا اس سے ہم منوائیں گے ڈنڈوں کے زور پر۔ پولیس بھی ہمارا ساتھ دے گی، کون چاہتا ہے کہ فسادات ہوتے رہیں۔‘‘
تو پھر اب تمہاری کیا رائے ہے مکھیا سنگھ۔‘‘ میں نے ان میں سے ایک بڑے آدمی سے پوچھا۔
’’کنور ریاست علی سے بات کئے بنا بات نہیں بن سکتی۔ جس طرح سے ہندو آپ کی بات مان رہے ہیں مول چند مہاراج، اسی طرح مسلمان کنور ریاست علی صاحب کی بات مان رہے ہیں بلکہ اُڑتی اُڑتی خبر تو ہم نے یہ سنی ہے کہ کنور ریاست علی نے چوری چھپے بڑا اسلحہ منگوایا ہے اور اب وہ ہندوئوں کے خلاف استعمال ہو گا۔ رام رام رام مہاراج اتنے مریں گے کہ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ آپ ریاست علی کی ٹکر کے آدمی ہیں، آپ ان سے بات کریں اور یہ فیصلہ کر لیں کہ اب آپس میں جھگڑے بند کر دیئے جائیں۔ مل بیٹھ کر سمجھوتہ کر لیا جائے، ایک کمیٹی ادھر سے بنی ہے، ایک کمیٹی کنور ریاست علی خان بنائیں۔ تب ہی بات نمٹ سکتی ہے۔‘‘
’’اگر آپ لوگ یہ چاہتے ہیں تو میں کنور ریاست علی خان کے پاس جانے کو تیار ہوں۔‘‘
’’ہم تو یہی چاہتے ہیں مہاراج مگر آپ کا کیا خیال ہے کیا کنور ریاست علی خان یہ بات مان جائیں گے۔‘‘
’’بھئی کوشش تو کرنی چاہیے۔‘‘
’’ہاں، ٹھیک ہے تو پھر کل صبح کنور ریاست علی خان کے پاس چلا جائے اور مہاراج یہ بات طے ہو گئی ہے۔ وہ لوگ تو یہ کہہ سن کر چلے گئے ہیں مگر میں نے سوچا کہ آپ کی آشیرواد لے لوں۔ آپ سے پوچھ لوں کہ یہ ٹھیک رہے گا یا نہیں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک رہے گا۔ تم یہ نیک قدم ضرور اٹھائو مول چند اور کنور ریاست علی کے پاس چلے جائو، اس سے بات کرو۔‘‘
’’ٹھیک ہے مہاراج۔ پر جب یہ کمیٹی بنی اور لوگ ہمارے پاس آئے اور چلے گئے تو میں سب سے پہلے جوالا چوک پہنچا، وہاں جا کر میں نے وہ زمین دیکھی جہاں پُتلے میرے ہی ہاتھوں گڑے تھے۔ زمین کھدی ہوئی ملی مہاراج اور میرے من میں سیدھی بات یہی آئی کہ مہاراج کی کرپا ہو گئی، بس عقیدت میں چلا آیا ہوں۔‘‘
’’تمہارا بہت بہت شکریہ مول چند، انسانی خون تو ویسے بھی نہیں بہنا چاہیے، چاہے وہ ہندو کا ہو یا مسلمان کا، ہے تو وہ انسان ہی، تم جائو اور اب یہ ضروری ہو گیا ہے۔ مجھے آ کر خبر دینا کہ ریاست علی خان سے کیا بات ہوئی؟‘‘
/>’’ٹھیک ہے مہاراج اجازت دیں۔‘‘ مول چند چلا گیا اور میں واپس آ گیا۔ واقعی یہ ایک دلچسپ بات ہوئی تھی اور اب اس میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا کہ مجھے جوالاپور کی بشارت بے مقصد نہیں ہوئی تھی۔ میرا اعتماد تو اب آسمان سے اونچا ہو گیا تھا، کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا تھا۔ رہنمائی ہوتی تھی جہاں کچھ بتانا ضروری ہوتا تھا وہاں بتا دیا جاتا تھا۔ ہر طرح کی اعانت ہوتی تھی یہاں تک کہ میرے کھانے پینے تک کا بندوبست کر دیا جاتا تھا۔
صحیح معنوں میں مجھے بڑا مرتبہ دیا گیا تھا۔ شکرگزاری میرے رگ و پے میں رچی ہوئی تھی مگر اپنا تجزیہ کرنے کا جب بھی وقت ملتا بڑی شرمندگی ہوتی تھی۔ میں خود کو کسی قابل نہیں بنا سکا تھا۔ میں جانتا تھا کہ دل کے زخموں پر کھرنڈ آ گئی ہے، نیچے زخم ہرے ہیں۔ جب بھی یادوں کی ہوا چلتی، یہ زخم کسکنے لگتے اور اب تو اس کسک میں ایک اور کسک شامل ہو گئی تھی یعنی ثریا۔ نہیں بھول سکا تھا اسے۔ نہیں بھول پا رہا تھا، اس کے تصور کو خود سے بھی چھپاتا تھا، دل میں خیال آ جاتا تھا تو خود سے شرمندہ ہو جاتا تھا۔ وہاں سے مجھے اس قدر بلندیاں بخشی گئی ہیں اور یہاں میں اتنا ہی پست انسان ہوں۔ اپنی محبتوں، اپنی چاہتوں کے جال میں جکڑا ہوا ہوں۔ دنیا مجھے اسی طرح سمیٹے ہوئے ہے۔ سب یاد آتے تھے، سب پکارنے لگتے تھے اس وقت جب یادوں کی ہوا چلتی اور یہ لمحات میرے لیے بڑے جاں گسل ہوتے تھے جب میں خود سے چھپتا تھا۔ اکرام کی صورت میں ثریا کے نقوش جھلکتے تھے اور کبھی کبھی تو میں اسے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا تھا۔ پھر یاد آ گیا تھا، وہ سب کچھ پھر یاد آ گیا تھا۔ نہ جانے اکرام کو بھی وہی موضوع کیوں سوجھ گیا۔
’’بڑے دلچسپ واقعات ہیں مسعود بھائی۔ آپ کے خیال میں کیا کنور صاحب مان جائیں گے۔‘‘
’’اللہ جانے۔ دیکھنا پڑے گا۔‘‘
’’میرے خیال میں مان جائیں گے کیونکہ نفرت ختم ہو چکی ہے۔‘‘ اکرام نے کہا۔ پھر بولا۔ ’’جوالاپور میں کب تک رکیں گے بھیا؟‘‘
’’کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’نہیں کوئی وجہ نہیں ہے بس ایسے ہی۔ ویسے یہ مسجد بڑی پُرسکون ہے۔ پہلے مجھے یہاں خوف محسوس ہوا تھا، اب، اب یوں لگتا ہے جیسے یہاں جتنے لوگ بھی ہیں، دوست اور محبت کرنے والے ہیں۔ اور بھیا ایک بات کہوں۔ دل سے کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’ضرور کہو۔‘‘
’’میں نے ثریا کا بھی صبر کر لیا ہے بس ایک بے بس بھائی کی طرح، ہر نماز کے بعد اس کے لیے دعا کرتا ہوں، اپنے اللہ سے کہتا ہوں کہ میں کیا اور میری اوقات کیا بلکہ میں نے تو اپنی اوقات دیکھ لی۔ ایک لمحے بہن کا محافظ نہیں بن سکا۔ مجھ مجبور بے کس کی کیا مجال ہے کہ میں اس کے کسی بندے کی حفاظت کر سکوں۔ اپنے بندوں کی محافظ اللہ کی ذات ہے۔ بس دعا کرتا ہوں کہ اللہ میری ثریا کو اپنی پناہ میں لے لے اور اس شیطان مردود کے ستم سے اسے بچائے۔ بھیا تمہاری صحبت میں مجھے یہ درس ملا ہے حالانکہ اللہ نے تمہیں بزرگی بخشی ہے، تم بہت سوں کے مسائل حل کر سکتے ہو لیکن میں جانتا ہوں کہ تم نے اپنے کنبے کو اللہ کی رضا پر چھوڑ دیا ہے۔‘‘
روح بے قرار ہو گئی تھی۔ ہاں ایسا ہی ہے۔ ایک ہی سہارا تو ہوتا ہے انسان کے پاس۔ میرے پاس بھی بس وہی سہارا تھا مگر میں تو ان کے لیے دعا بھی نہیں کرتا تھا۔ وہ یاد آ جاتے تھے اور یہ یاد ممنوع تھی میرے لیے…!
مول چند کو واقعی مجھ سے عقیدت ہو گئی تھی۔ دوسرے دن دوپہر ڈھائی بجے میرے پاس آ گیا۔ اس کی دستک سے میں سمجھ گیا تھا کہ وہی ہو سکتا ہے، چہرہ کسی قدر اترا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر افسردگی سے ہاتھ ماتھے پر رکھ دیئے۔
’’کہو مول چند۔ خیریت ہے!‘‘
’’خیریت نہیں ہے مہاراج۔‘‘
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘
’’کنور ریاست کے پاس گئے تھے ہم لوگ۔‘‘
’’پھر…‘‘
’’وہ نہیں مان رہے۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’میری بڑی بے عزتی کی انہوں نے۔ کہا دال بھاجی کھانے والے ہندو، شیردل مسلمانوں کا کیا مقابلہ کریں گے۔ ابھی لڑائی چلنے دو، نتیجہ سامنے آنے والا ہے۔ میرے ساتھ کے دوسرے تو بگڑ گئے مگر میں نے خود کو سنبھالے رکھا۔ میں نے کہا مجھے اور گالیاں دے لیں مہاراج مگر انسانوں کا خون بہنے سے روکیں۔‘‘
’’کیا کہا انہوں نے…‘‘
’’کہا انسانوں کے خون کی بات نہ کرو۔ ہندوئوں کے خون کی بات کرو۔ شاید تمہیں پتہ چل گیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہمیں تو بس یہی پتہ چلا مہاراج کہ کنور ریاست نے اسلحہ منگایا ہے۔ اب پتہ چلا ہے کہ کہیں سے کچھ آدمی بھی آ رہے ہیں جوالا پور کے ہندوئوں سے مقابلہ کرنے۔ کنور صاحب پورا پورا بدلہ لینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔‘‘
’’ہوں۔ آخری بات کیا ہوئی؟‘‘
’’کہنے لگے مسلمانوں کا نقصان پورا کر دو۔ ہر زندگی کی قیمت ادا کر دو ورنہ تمہیں بتائیں گے کہ جوالاپور ہندوئوں سے خالی ہوتا ہے یا مسلمانوں سے۔ بس یہ آخری بات تھی۔‘‘
’’گویا وہ نہیں مانے۔‘‘
’’یہی بات ہے مہاراج۔‘‘ مول چند نے افسردگی سے کہا۔ پھر بولا۔ ’’سارے کئے دھرے پر پانی پھر رہا ہے مہاراج۔ ہمارے ساتھ جو گئے تھے اب وہ افسوس کر رہے ہیں، ان سے غلطی ہو گئی ہے۔ ریاست علی خان شاید اسے ہماری کمزوری سمجھ رہے ہیں۔ ان کے دماغ پلٹتے جا رہے ہیں مہاراج۔‘‘
’’کیا کرنا چاہتے ہیں وہ؟‘‘
’’بس ابھی سوچ رہے ہیں۔ بات کچھ بگڑتی نظر آ رہی ہے۔‘‘
’’نہیں بگڑے گی۔ فکر مت کرو، بندگان خدا کا خون بہانے کا حق کسی کو نہیں ہے، ریاست علی خان کو بھی نہیں ہے۔ انہیں بھائی چارہ کمیٹی سے اتفاق کرنا پڑے گا۔‘‘
’’مگر کیسے مہاراج؟‘‘
’’ذرا ان کی رہائش گاہ کا پتہ بتائو۔‘‘ میں نے کہا اور مول چند نے مجھے پتہ سمجھا دیا۔ پھر بولا۔ ’’آپ جائیں گے مہاراج…؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے بڑے یقین سے کہا۔
’’آپ حکم دیں تو ہم بھی چلیں۔‘‘
’’نہیں مول چند۔ تم اپنے گھر جائو۔ میں تمہاری توہین نہیں چاہتا۔ ریاست علی خان اگر ایسے آدمی ہیں تو دوبارہ تمہیں دیکھ کر سوچیں گے کہ تم ان سے ڈر گئے ہو۔‘‘
’’ٹھیک ہے مہاراج۔‘‘ مول چند نے کہا اور پھر وہ چلا گیا۔ اکرام نے کہا۔
’’کنور صاحب بہت مغرور معلوم ہوتے ہیؒں۔‘‘
’’ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’پھر کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’عصر کے بعد چلیں گے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ نماز عصر سے فارغ ہو کر میں نے اکرام کو ساتھ لیا اور مسجد سے باہر نکل گیا۔ راستہ طے کرتے ہوئے اک ذرا سی تبدیلی یہ نظر آئی کہ اب سڑکوں پر اکا دکا لوگ چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے جب کہ اب سے پہلے جوالا پور، شہر خموشاں لگتا تھا۔ کنور ریاست علی خان کی حویلی پہنچ گئے۔ قلعہ بنا رکھا تھا انہوں نے حویلی کو۔ طرز تعمیر بھی قلعے جیسی تھی۔ دروازے پر دو مسلح آدمی کھڑے تھے مگر دروازہ کھلا تھا۔
’’جی۔ فرمایئے؟‘‘ انہوں نے مجھے گھور کر پوچھا۔
’’کنور ریاست علی خان سے ملنا ہے۔‘‘
’’ہندو ہیں یا مسلمان؟‘‘
’’الحمدللہ ہم دونوں مسلمان ہیں۔‘‘
’’جائو۔ کنور صاحب کے پاس لے جائو۔‘‘ ایک پہریدار نے دوسرے سے کہا۔ دوسرا میرے قریب آ کر بولا۔ ’’تلاشی دو۔‘‘
’’کیسی تلاشی؟‘‘ اکرام بولا۔
’’ہاتھ اوپر اٹھا دو۔ دیکھنا ہے کہ تمہارے پاس ہتھیار تو نہیں ہیں۔‘‘
’’دیکھ لو بھائی۔ جلدی کرو…‘‘ میں نے بیزاری سے کہا۔ پھر وہ شخص ہمیں اندر لے گیا۔ سامنے کے حصے سے گزر کر اندرونی حصے میں داخل ہوئے۔ پھر ایک خوبصورت کھلے حصے میں نکل آئے جہاں سرخ اینٹوں کا فرش تھا، گملے سجے ہوئے تھے، ان میں طرح طرح کے پھول مہک رہے تھے۔ درمیان میں کنور صاحب باریک ململ کا کرتا اور لٹھے کا پائجامہ زیب تن کئے ایک خاص قسم کی آرام کرسی پر نیم دراز تھے۔ سامنے پیچوان رکھا ہوا تھا جس سے خمیرے کی خوشبو اڑ رہی تھی۔ سرخ و سفید چہرے اور اچھی صحت کے مالک روایتی قسم کے نواب نظر آ رہے تھے۔ سرکنڈے سے بنی میز پر خاصدان رکھا ہوا تھا اور کنور صاحب کے ہونٹوں پر پان کی دھڑی نظر آ رہی تھی۔ آس پاس بہت سے مونڈھے پڑے ہوئے تھے جن میں سے چار پر چار افراد بیٹھے تھے، باقی خالی تھے۔ ویسے حویلی میں خوب چہل پہل تھی اور یہاں تک آتے ہوئے کوئی بیس پچیس افراد نظر آئے تھے۔ کنور صاحب نے ہمیں دیکھ کر کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا البتہ سوالیہ نظروں سے ادھر دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ پہریدار ہمیں لے کر ان کے قریب پہنچ گیا۔ میں نے بہ آواز بلند سلام کیا جس کا جواب ملا۔ اس کے فوراً بعد پہریدار نے کہا۔
’’قدم بوسی کے لیے حاضر ہوئے ہیں یہ دو حضرات۔ حکم کے مطابق حاضر خدمت کیا۔‘‘
’’جائو…‘‘ کنور صاحب نے الٹے ہاتھ سے اشارہ کیا اور پہریدار سر جھکا کر چلا گیا۔ کنور صاحب سوالیہ نظروں سے ہمیں دیکھنے لگے۔
’’سبحان اللہ۔ لگتا ہے دربار اکبری میں آ گئے بلکہ حاضری کی اجازت عطا کر کے وہاں بھی شاید مہمانوں کی کچھ پذیرائی کی جاتی ہو۔ بس اتنا فرق محسوس ہوتا ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میرے الفاظ کو محسوس کر لیا، سمجھ لیا گیا۔ ناگواری کے اثرات نمودار ہوئے۔ پھر نخوت بھرے لہجے میں کہا گیا۔
’’مونڈھے گھسیٹو اور بیٹھ جائو۔‘‘
’’چلو اکرام، بیٹھ جائو۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا اور ہم دونوں بیٹھ گئے۔
’’کون ہو اور کیوں آئے ہو؟‘‘ کنور صاحب نے کہا۔
’’بندگانِ خدا ہیں اور بندگانِ خدا کی جان بخشی کرانے آئے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’جوالا پور میں داخل ہوئے تو عجیب حال دیکھا۔ ملال ہوا۔ جو بھی مر رہا ہے انسان ہے، چاہے کوئی مذہب ہو اس کا۔ آپ صاحب اقتدار ہیں۔ بہتری تلاش کیجئے۔‘‘
’’جوالاپور میں کہاں سے داخل ہوئے۔ یہاں کے رہنے والے نہیں ہو کیا؟‘‘ کنور صاحب نے پوچھا۔
’’ہاں۔ کہیں اور سے آئے تھے۔ اسٹیشن پر اترے تو پتہ چلا کہ یہاں تو کشت و خون کا بازار گرم ہے۔‘‘
’’بازار تو اب گرم ہو گا۔ ذرا آگے دیکھنا۔ ہوا کھسک رہی ہے لالوں کی، اب ناک رگڑنے آ رہے ہیں وفد لے کر، بھائی چارہ کمیٹیاں بنا بنا کر، ایک دو روز کی بات ہے پھر شروع ہو گا کھیل۔‘‘ کنور صاحب نے بے رحمی سے کہا۔
’’نتیجہ کیا ہو گا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہاں نہ گھڑدوڑ نہ میدان جو ہو گا سامنے آ جائے گا۔ مگر تم بہت پریشان لگ رہے ہو۔ یہاں پھنس گئے ہو تو تمہارے باہر نکلنے کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ آئے کہاں سے ہو اور جوالاپور کس کام سے آئے تھے؟‘‘
’’جو کھیل آپ شروع کریں گے کنور صاحب، اس میں ایک بھی مسلمان کی جان نہیں جائے گی؟‘‘ میں نے ان کا سوال نظرانداز کر کے کہا۔
’’کوشش تو پوری پوری کریں گے کہ ایسا نہ ہو… مگر بنّے جب دو مرغے لڑیں گے تو زخم تو آئیں گے۔‘‘
’’انسانوں کی بات کر رہا ہوں کنور صاحب۔‘‘ میں نے کسی قدر غصیلے لہجے میں کہا۔
’’اماں تو تم کیوں دبلے ہو رہے ہو شہر کے اندیشے سے۔ تمہارے بال بچے بھی ساتھ ہیں کیا؟‘‘
’’اس لیے کنور صاحب کہ آپ نے اپنی حویلی کو قلعہ بنا لیا ہے۔ آپ ان کے بارے میں نہیں سوچ رہے جو مر رہے ہیں۔ راتوں کو جاگ رہے ہیں۔ فاقہ کشی کر رہے ہیں۔‘‘
’’لڑائی ہم نے تو شروع نہیں کی۔‘‘
’’آپ جوالا پور کے رئیس ہیں۔ آپ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ اپنے لوگوں کی مدد کریں۔‘‘
’’کیا کریں۔ وہ کتے کا پلا جوالا پور کو مسلمانوں سے خالی کرا کے اسے بھوانی کنڈ بنانا چاہتا ہے۔ بنانے دیں اسے؟‘‘
’’مگر وہ لوگ اپنی غلطی کا احساس کر کے آپ کے پاس آئے تھے۔‘‘
’’ہم نے کہہ دیا نقصان پورا کریں مسلمانوں کا، مان جائیں گے۔‘‘
’’آپ جانتے ہیں یہ نہیں ہو سکے گا۔‘‘
’’ہم جانتے ہیں یہ ہو سکے گا سمجھے۔ گھر لٹیں گے سسروں کے۔ اور ہم نقصان پورا کریں گے۔‘‘ کنور صاحب پُرجوش لہجے میں بولے۔
’’آپ اچھی طرح جانتے ہیں کنور صاحب کہ یہ نفرت کا کھیل گرج ناتھ سیوک کا شروع کیا ہوا ہے۔‘‘
’’تو جوالا پور کے ہندو کس کے بل پر اچھل رہے ہیں۔ اسی کے نا…؟‘‘
نواب صاحب نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔ وہ جارحانہ انداز میں بول رہے تھے لیکن میں نہایت حلیمی سے انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے کہا۔ ’’اور آپ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کنور صاحب کہ گرج ناتھ سیوک کالے علوم کا ماہر ہے، وہ گندے علم والا ان لوگوں کو اپنی گھنائونی قوتوں سے متاثر کر کے یہ سارے عمل کرا رہا ہے۔ آپ کو اصل میں تفصیل نہیں معلوم۔ اس وقت گرج ناتھ نے جوالاپور کو اپنی گندگی کا مسکن بنانے کے لئے یہ ضروری سمجھا ہے کہ مسلمان یہاں سے دور ہٹ جائیں۔ دیکھئے کنور صاحب یہ تو ایک طے شدہ بات ہے کہ جس شہر کے کسی بھی گوشے میں اللہ کا نام خشوع و خضوع سے لیا جائے، وہاں گندے علم کی پرورش ناممکن ہے، ہندوئوں نے گرج ناتھ سیوک کے اشارے پر جو کچھ شروع کر رکھا ہے، وہ اچھا نہیں ہے لیکن اسے ختم کرنے کے لئے اگر کچھ سمجھداروں نے کوشش کی ہے تو آپ کو ان کوششوں کی پذیرائی کرنی چاہیے۔ میں آپ کو دعوے سے یہ تفصیل بتاتا ہوں کہ اس نے اپنے کالے علم کے دو پُتلے جوالا پور کے جوالا چوک کے درمیان زمین میں دفن کئے اور پھر جب لوگ ان پر سے گزرے تو ان کے دلوں میں نفرتیں بیدار ہوئیں اور یوں اس فساد کا آغاز ہوا… لیکن وہ پُتلے اب وہاں سے نکال کر پھینک دیئے گئے ہیں۔ چنانچہ ایک دم ہی ان کے اثرات ختم ہونے لگے ہیں۔ میرا خیال ہے اب کافی دن تک اس بات کا امکان نہیں ہے کہ مزید فساد ہو جب تک کہ وہ کوئی دوسری کوشش نہ کرے۔ میری رائے یہ ہے کنور صاحب کہ آپ مول چند کی پیشکش کو قبول کر لیں اور اس سے امن و امان کے سلسلے میں ضرور بات کریں۔‘‘
’’کہانی اچھی ہے میاں صاحب، لگتا ہے ہندوئوں سے کچھ لے دے کر تمہیں اس کام کے لئے آمادہ کیا گیا ہے۔ بہرحال جو کچھ بھی ہے لیکن ہم نے جو بات کہہ دی سو کہہ دی، مسلمانوں کا نقصان پورا کر دیا جائے جھگڑا ختم ہو جائے گا، نہیں تو پھر بات بہت آگے بڑھ جائے گی۔ ارے ایک بات ہو تو کہیں، گرج ناتھ سیوک کو ہم نے تو اپنے سر پر نہیں بٹھا لیا۔ کالے علم کا ماہر ہے، ہم پر آزمائے اپنا کالا علم، دیکھ لیں گے اسے۔ ان لوگوں کو ہی اس کے کالے علم کا شکار ہونا تھا، جائو ہماری زمین پر مندر بن گیا ہے جادو کا، توڑ دو بھائیو، زمین تو ہماری ہے، سارے ہندوئوں کو پتہ ہے، ارے ہماری زمین پر سے مندر ہٹا لو، چلو سارا جھگڑا ختم کر دیں گے، کیا سمجھے…‘‘
’’مندر توڑنے کی کوشش تو آپ لوگوں نے بھی کی تھی کنور صاحب، کیوں نہ توڑ دیا؟‘‘
’’دیکھو میاں گھر کے دروازے پر پہنچے ہو، عزت سے اندر بلا لیا ہے، اب جوتوں سمیت آنکھوں میں اترنے کی کوشش مت کرو، سمجھے، جائو چلو دوسری شرط رکھ دی ہے ہم نے، وہ مندر توڑ دو، ہم مول چند کی بات مان لیں گے۔‘‘
’’مول چند کی زمین پر بھی تو مسجد آباد ہو گئی ہے کنور صاحب۔‘‘ میں نے زیرلب مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہاں کہانی سنی تو ہے ہم نے بھی، دیکھیں گے ذرا وہاں بھی جا کر…‘‘
’’اور لوگ کہتے ہیں کہ اس مسجد سے اٹھنے والی اذان کی آوازیں جگہ جگہ سنی جا رہی ہیں…‘‘
’’ہم نے خود یہاں سنی ہیں۔‘‘ پہلی بار کنور صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے بے اختیار کہہ دیا۔
کنور صاحب کہنے لگے۔
’’ٹھیک ہے یہ بات بھی ہے، ذرا انہی سے ملیں گے جن کی آواز اس مسجد سے ابھرتی ہے اور جن کے چرچے جوالا پور میں ہونے لگے ہیں۔ ان سے ملنے کے بعد یہ فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔‘‘ میں نے کسی قدر مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
’’بہرحال کنور صاحب میں بڑی امیدیں لے کر آیا تھا آپ کے پاس، میرے خیال میں انسانی خون بہنے سے رکنا چاہیے، آپ جو کچھ بھی کریں جلد فیصلہ کر لیں۔ یہ بہتر ہو گا کہ امن کمیٹی بن جائے اور انسانی زندگی خطرات سے نکل آئے۔‘‘
’’دیکھیں گے۔ سوچیں گے۔‘‘ کنور صاحب نے کہا۔ پھر اپنے ایک ساتھی سے بولے۔ ’’اماں حق صاحب ذرا چلیں تو کسی وقت جان علی کی مسجد دیکھیں، کیا قصہ ہے؟‘‘
’’ضرور قبلہ۔ مگر سوچ لیجئے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’مول چند کے باغ میں ہے وہ۔‘‘
’’تو پھر…اماں ڈرتے ہو۔ دس بیس لونڈے لے کر چلیں گے۔ کیا کرے گا وہ بنیا ہمارا۔‘‘
’’پھر بھی کافر ہے، ہوشیار رہنا ضروری ہے۔‘‘
’’اماں چھوڑیئے حق صاحب۔ اس طرح ڈرے تو جی لیے اس دنیا میں۔ ہاں بھائی میاں اور کوئی خدمت ہمارے لیے۔‘‘
’’نہایت شکریہ۔ یہی عرض لے کر حاضر ہوا تھا۔ اجازت مرحمت فرمایئے۔ اٹھو اکرام۔‘‘ میں اٹھ کھڑا ہوا۔
’’بیٹھو بیٹھو۔ کچھ کھا پی کر جائو۔ آتے ہی ایسی باتیں شروع کر دیں جنہوں نے جان جلا دی۔ اپنی باتیں ہو ہی نہیں سکیں۔ یہاں کس کے پاس آئے تھے۔ کوئی رشتہ داری ہے؟‘‘
’’ہاں۔ جوالاپور کے تمام مسلمانوں سے رشتہ ہے۔ سب کی بہتری اور سلامتی کی دعائیں کرتا ہوں۔ اللہ حافظ…‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا اور واپسی کے لئے پلٹ پڑا۔ کنور صاحب دیکھتے رہ گئے تھے۔ باہر نکل آیا۔ حویلی سے باہر نکلا اور پھر اکرام کے ساتھ مول چند کے باغ کی طرف چل پڑا۔ اکرام خاموش تھا۔ کچھ فاصلے پر آ کر اس نے کہا۔ ’’بڑا ناگوار اثر چھوڑا ہے اس شخص نے ذہن پر۔‘‘
’’ہاں۔ خود پرستی کا شکار ہے۔‘‘
’’بداخلاق بھی ہے۔‘‘
’’ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔‘‘
’’مانے گا نہیں۔‘‘
’’مان جائے گا۔‘‘
’’لگتا تو نہیں ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہو جائے گا اکرام میاں، فکر مت کرو۔‘‘
’’آپ نے اس کے تعویذ کے بارے میں کچھ اندازہ لگایا۔ اکرام نے کہا اور میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ مجھے ہنسی آ گئی۔
’’واہ اکرام میاں۔ اب تو تم بھی ان باتوں پر بڑی گہرائی سے سوچنے لگے ہو اور ان پر غور کرنے لگے ہو۔‘‘
’’صحبت صالح جو مل گئی ہے۔‘‘ اکرام نے بھی مسکرا کر کہا۔
’’ایسی باتیں نہ کیا کرو اکرام میاں۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
’’کیوں۔ غلط کہا ہے میں نے۔ ویسے تعویذ والی بات رہ گئی۔‘‘
’’کسی بزرگ نے نظر کرم کر دی ہو گی۔ کالے سحر کا عمل بے شک سخت ہوتا ہے کیونکہ اس میں شیطان شریک ہوتا ہے لیکن اللہ کے کلام سے ٹکرانے کی قوت کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔‘‘
’’شاید کنور صاحب اسی پر اکڑتے ہیں۔‘‘
’’یہ اس کی خوبی ہے۔‘‘
’’تعویذ کی؟‘‘
’’نہیں کنور کی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’عقیدے کی پختگی بڑی چیز ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کے نتائج بے حد اہم نکل آتے ہیں اور پھر کیوں نہ ہو، عقیدہ ہی تو ایمان ہے۔ اگر وہ کسی مرد خدا کے دیئے ہوئے تعویذ پر اتنا عقیدہ رکھتا ہے تو یقین کرو اسے کبھی مایوسی نہ ہو گی، تمہیں پوری کہانی پر غور کرنا چاہیے۔‘‘
’’مثلاً؟‘‘
’’بھئی مول چند نے تمہارے سامنے سنائی تھی۔‘‘
’’کہانی تو مجھے یاد ہے لیکن تم کون سے پہلو کی طرف اشارہ کر رہے ہو، اس کا اندازہ نہیں ہو سکا۔‘‘
’’تمہارے سوال ہی کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔‘‘
’’یعنی تعویذ؟‘‘
’’ہاں! گرج ناتھ سیوک نے جادو کا مندر تعمیر کر ڈالا جسے کنور کے لاتعداد آدمی گھن چلا کر نہیں توڑ سکے۔ اس کے علاوہ مول چند نے اور بھی کہانیاں سنائیں جیسے سوریہ کرن کا معاملہ۔ اس سے کیا تاثر ظاہر ہوتا ہے۔‘‘
’’یہی کہ وہ کالے جادو کا ماہر شخص بے حد خطرناک ہے۔‘‘
’’بے شک۔ اور وہ کالے جادو کا ماہر کنور ریاست علی خان کے اس تعویز سے خوفزدہ ہے۔ وہ اسے خود نہیں حاصل کر سکتا اور اس کے لیے مول چند کی مدد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس سے خوفزدہ ہے۔ اس کا بس اس کے بغیر ریاست علی خان پر نہیں چل سکتا۔‘‘
’’سمجھ گیا۔‘‘ اکرام نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ پھر بولا۔ ’’مگر وہ مغرور شخص مجھے پسند نہیں آیا۔ اس کے اندر جو خودسری ہے وہ اسے ضرور نقصان پہنچائے گی چاہے اسے کتنے ہی تعویذوں کا سہارا حاصل ہو۔‘‘
’’نہیں اکرام، بے ضرر آدمی ہے۔ میرا مطلب ہے ان حالات سے متاثر ہو کر انتقام لینے پر تل گیا ہے لیکن سمجھ جائے گا، ایسے لوگ ذہن کے کچے ہوتے ہیں، جو دماغ کے بجائے دل سے سوچتے ہیں، ایک بات اس کے دل کو لگ گئی، سو سمجھ لو کہ لگ گئی۔‘‘
’’مول چند کو کیا جواب دیں گے؟‘‘ اکرام نے سوال کیا اور مجھے پھر ہنسی آ گئی۔
’’اس سے کہیں گے کہ کنور ریاست علی مان گئے ہیں، دوبارہ کمیٹی لے کر ان کے پاس جائو، وہ تم سے تعاون کریں گے۔‘‘ میں نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا اور اکرام چونک کر میری صورت دیکھنے لگا۔ پھر بولا۔ ’’لل۔ لیکن کیسے آخر کیسے… میرا مطلب ہے کہ مول چند۔‘‘ اکرام بات پوری نہیں کر پا رہا تھا۔
’’بھئی کنور سے بات ہو گی ہماری۔ وہ آئے گا مسجد میں ہم سے ملاقات کرنے، اسے سمجھا بجھا دیں گے، اپنا گھر تھا، اس کی چمک دمک تھی، کمزور انسان کے اندر غرور پیدا ہو ہی جاتا ہے۔ وہاں نہیں مانا ہماری بات، اللہ کے گھر میں آ کر تو مان لے گا۔‘‘ اکرام نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بہت بڑا دعویٰ کر دیا تھا میں نے… لیکن اکرام کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ اس سے انحراف کرے۔ مول چند کے باغ پہنچ گئے یا مسجد میں آ گئے اور اس کے معمولات میں مصروف ہو گئے۔ مغرب کی نماز پڑھی، دیئے جلا دیئے اور میرا انتظار کرنے لگے۔ نماز ختم ہوئی، آدھے گھنٹے سے زیادہ نہیں گزرا تھا کہ مسجد کے دروازے پر دستک ہوئی اور میں نے اکرام کو اشارہ کیا۔ اکرام نے دروازہ کھولا اور سلام و دعا کی آوازیں ابھریں۔ میں بھی سامنے آ گیا تھا۔ باہر کافی افراد تھے اور سب سے آگے کنور ریاست علی خان اپنے ان چاروں گرگوں کے ساتھ۔ میں نے انہیں اندر آنے کی دعوت دی، تمام ہی لوگ جوتے اتار کر اندر آ گئے تھے۔ کنور ریاست علی خان اور ان کے چاروں ساتھیوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں، وہ عجیب سی کیفیت کا شکار نظر آ رہے تھے… پھر انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’آپ… آپ… آپ؟‘‘
’’تشریف لایئے کنور صاحب، میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘ کنور ریاست علی خان نے بڑی عقیدت سے جھک کر مجھ سے مصافحہ کیا اور کہنے لگے۔
’’حضور آپ نے تو… آپ نے تو ہمیں سمندر میں ڈبو دیا۔ بخدا کتنی ندامت ہو رہی ہے۔ بخدا کیا ہم یہ داغ اپنی پیشانی سے دھو سکیں گے، وہ آپ تھے جو خود چل کر ہمارے سامنے آئے تھے۔ میاں عبدالحق، غفور احمد آپ دونوں نے بالکل درست کہا تھا، ہم ہی کور چشم تھے جو اس نیک روح کو نہ پہچان سکے۔ حضور بڑی داستانیں سن رہے ہیں آپ کے بارے میں، تو حملہ ہوا تھا اس مسجد پر، راتوں رات یہ تعمیر ہوئی تھی اور آپ نے اس میں اذان دی تھی، اس غلطی کو معاف بھی کیا جا سکتا ہے کیا… میاں ہمیں احساس شرمندگی ہے، گردن خم ہے ہماری آپ کے سامنے…‘‘ کنور ریاست علی خان ایک دم موم ہو گئے تھے۔ میں نے ان کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’بخدا نہ مجھے آپ سے کوئی شکایت ہے اور نہ اس شکایت کا کوئی جواز، اب آپ مجھے کانٹوں میں گھسیٹ رہے ہیں، تشریف رکھئے، خانہ خدا میں تو ہر شخص کی گنجائش ہے لیکن بس ایک عرض ہے جو آپ سے کرنا چاہوں گا…‘‘ تمام لوگ صحن مسجد میں بیٹھ گئے… اور میں ان کے سامنے بیٹھ گیا۔
کنور کی گردن عقیدت سے جھکی ہوئی تھی۔
’’آپ نے دیکھا کنور صاحب۔ یہ مول چند کا باغ ہے۔ اس میں مسجد تعمیر ہوئی ہے مگر خانہ خدا کا دروازہ بند تھا۔ آپ کے تعاون سے میں یہ دروازہ کھولنا چاہتا ہوں۔ ہر نمازی کے لیے۔‘‘
’’مول چند کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہوں گے یہ سن کر…‘‘ کنور صاحب نے کہا۔
’’نہیں کنور صاحب۔ وہ کہتا ہے کہ اس پورے باغ کے گرد مسجد کا احاطہ تعمیر کر لیا جائے، وہ اسے مسجد کی نذر کرتا ہے۔‘‘
’’مول چند…؟‘‘
’’ہاں خانہ خدا میں جھوٹ کا گزر نہیں۔‘‘ میں نے کہا اور کنور ریاست علی کا چہرہ بدل گیا۔ ان پر ان الفاظ کا بے حد اثر ہوا تھا۔ بمشکل انہوں نے کہا۔
’’مول چند نے یہ کہا ہے تو اس سے جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم۔ اس نے پہلی بار اپنے لیے عزت کا مقام پیدا کیا ہے۔ آپ کے سامنے اقرار کر رہا ہوں۔ میری طرف سے اس سے دشمنی کا دروازہ بند ہو گیا… اور حضور قبلہ… یہ افراد جو میرے ساتھ آئے ہیں اور میں خود یہاں سے بابو مول چند کے گھر جائیں گے۔ میں اس سے کہوں گا کہ یہ میری بھائی چارہ کمیٹی ہے۔ میں جوالاپور کے ہندوئوں کے ساتھ امن چاہتا ہوں۔ اس نے اتنی بڑی بات کہی ہے تو میں اسے ضرور گلے لگائوں گا۔‘‘
’’جزاک اللہ۔‘‘ میں نے مسرور لہجے میں کہا۔
’’مگر حضور… آپ نے مجھے معاف کر دیا۔ میں نے شیطان کے بہکائے میں آ کر اپنے دروازے پر آپ کی توہین کی۔ اس کی معافی چاہتا ہوں۔‘‘
’’بخدا مجھے یا اکرام میاں کو اس کا کوئی احساس نہیں۔‘‘
’’بے حد شکریہ۔ میں عشاء کی نماز یہاں پڑھتا لیکن اس سے پہلے میں بابو مول چند کے پاس جانا چاہتا ہوں تاکہ اس نیک عمل کا آغاز ہو جائے۔‘‘
’’ضرور کنور صاحب۔ نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ وہ سب احترام سے رخصت ہو گئے۔ اکرام عقیدت بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے کہا۔
’’اور تم نے جو کہا تھا وہ ہو گیا مسعود بھائی۔‘‘
’’ہاں۔ بفضل تعالیٰ اب امن قائم ہو جائے گا اور اس کے بعد… اس کے بعد ہم اطمینان سے گرج ناتھ کی مشکیں کس سکیں گے۔‘‘ میں نے پُرخیال لہجے میں کہا۔
دلچسپ واقعات تھے۔ لُطف آ رہا تھا۔ سب کچھ بھول کر اب ان واقعات میں دلچسپی لے رہا تھا۔ ابھی تو بہت سے مراحل تھے جن سے گزرنا تھا۔ اکرام بھی اب بہت سنبھل گیا تھا۔ ویسے اس نے ایک اچھا ساتھی ہونے کا ثبوت دیا تھا اور کسی لمحہ میرے لیے تکلیف دہ نہیں ثابت ہوا تھا۔
دُوسرے دن سورج چڑھے، مسجد کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں اور اکرام باہر آئے تو کنور ریاست اور مول چند کو کھڑے پایا۔ کنور صاحب نے سلام کیا اور مول چند نے دونوں ہاتھ جوڑ کر پیشانی سے لگا دیئے۔
’’تم دونوں کو ساتھ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے مجھے۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’برسوں سے دلوں پر لدا بوجھ اُتر گیا مہاراج۔ آپ کے چرنوں کا یہاں آنا ہمارے لیے تو بڑا بھاگوان رہا۔‘‘ مول چند نے عقیدت سے کہا۔
’’دُوسروں کو بھی ایسے ہی ملا دو۔‘‘
’’آپ کا آشیرواد لینے آئے ہیں۔‘‘
’’میری دُعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ مجھے خبر دیتے رہنا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہم تو آپ ہی کی رہنمائی کے طالب رہیں گے شاہ صاحب، ہمیں اجازت دیں کہ آپ کےپاس حاضری دی جاتی رہے۔‘‘ کنور ریاست نے کہا۔
’’ہاں ہاں۔ کیوں نہیں۔ تم لوگ جب چاہو آ سکتے ہو۔‘‘
’’مسجد کے دروازے کھول دیں مہاراج۔ نمازیوں کو نماز کیلئے بلائیں۔ اب یہ میرا نہیں آپ کا باغ ہے۔‘‘ مول چند بولا۔
’’وہ بھی کھل جائیں گے مول چند۔ ویسے میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’حکم مہاراج۔‘‘
’’تمہارا تعلق ہندو دھرم سے ہے۔ ہندو دھرم کی اپنی روایات ہیں، یہ کالا دھرم تو نہیں ہے جبکہ گرج ناتھ کالے دھرم کا پرچار کر رہا ہے۔ جوالاپور کے ہندو اپنا دھرم چھوڑ کر کالے دھرم کے پیروکار کیوں بن رہے ہیں۔ تم نے ان سے پوچھا کہ وہ کالے دھرم کو کیوں اپنا رہے ہیں؟‘‘
مول چند سوچ میں ڈُوب گیا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے کہا۔ ’’میں انہیں سمجھائوں گا مہاراج…‘‘
’’ہاں یہ بات انہیں بتائو۔ بہت ضروری ہے۔‘‘
وہ لوگ چلے گئے۔ اب میرے دل میں ایک اور خیال آیا۔ اکرام کو میں نے ساتھ نہیں لیا کیونکہ یہ مناسب نہیں تھا لیکن اس دن پہلی بار میں نے مسجد کے اس عقبی ویران گوشے کا رُخ کیا جس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ ادھر آبادی ہے۔ وہیں سے ہمارے لیے کھانا پک کر آتا تھا۔ وہیں سے ہماری ضرورتیں پوری ہوتی تھی۔ میں آہستہ آہستہ اس سمت پہنچ گیا۔ سُرخ اینٹوں کا ایک دَر بنا ہوا تھا جس میں دروازہ لگا ہوا تھا۔ میں اس دروازے کے پاس پہنچ گیا۔
’’کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔‘‘ میں نے مدھم آواز میں کہا۔ چند لمحات تک کوئی آواز نہ سُنائی دی مگر پھر ہلکی ہلکی آہٹیں اُبھریں اور بند دروازہ کھل گیا۔ خوشبو کے کئی جھونکے آئے۔ میری نظر سامنے اُٹھ گئی۔ تھوڑا سا کچا راستہ تھا، اس کے بعد تین سیڑھیاں تھیں۔ اُوپر ایک وسیع دالان نما جگہ تھی جہاں تین قبریں نظر آ رہی تھیں، ان پر گلاب کے تازہ پھول پڑے ہوئے تھے۔ ایک سمت اگردان سے ہلکا ہلکا دُھواں نکل رہا تھا جس سے بڑی مسحورکن خوشبو اُٹھ رہی تھی۔ بائیں سمت تین دَر بنے ہوئے تھے جن کے دُوسری سمت تاریکی تھی۔ میں آگے بڑھا۔ سیڑھیوں سے نیچے جوتے اُتارے اور پھر قبروں کے قریب پہنچ کر دوزانو بیٹھ گیا۔ فاتحہ پڑھی۔ چند لمحات خاموشی اختیار کی، پھر آہستہ سے اُٹھ گیا۔ اسی وقت عقب سے آواز آئی۔
’’السلام علیکم۔‘‘ چونک کر پلٹا تو ایک عمر رسیدہ شخص کو بیٹھے ہوئے پایا۔ جواب دیا تو وہ فوراً بولے۔
’’بیٹھو۔‘‘ میں دوبارہ بیٹھ گیا۔ ’’کہو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی یہاں۔‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’عنایات کا شکرگزار ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’فرض میزبانی تھا۔‘‘ وہ بولے۔
’’ایک اجازت لینے حاضر ہوا تھا۔‘‘
’’کہو؟‘‘
’’کیا نمازیوں کیلئے مسجد کا دروازہ کھولا جا سکتا ہے؟‘‘
بزرگ نے عجیب سی نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ پھر بولے… ’’خانۂ خدا پر کسی کی آمد کی پابندی لگانا بھلا ہمارے لیے کیسے ممکن ہے، مسجد نمازیوں کے لیے ہی ہوتی ہے، بھلا نمازیوں پر اس کے دروازے کیسے بند کئے جا سکتے ہیں؟‘‘
’’میں یہی اجازت لینے حاضر ہوا تھا۔ طویل عرصے سے مسجد غیرآباد تھی اور آپ یہاں فروکش، یقیناً اب آپ کو زحمت ہوگی؟‘‘
’’میاں کیسی باتیں کرتے ہو، ہم کہہ چکے ہیں کہ خانۂ خدا کے دروازے بھلا عبادت گزاروں پر کیسے بند کئے جا سکتے ہیں، رہی ہماری بات تو ہمارا یہ حجرہ الگ تھلگ ہے، ہم ذرا اسے اور محفوظ کرلیں گے، اس میں اجازت کی ضرورت نہیں، ویسے عزیزی تمہیں کچھ تکلیفیں ہوتی ہوں گی یہاں جن کے لیے معذرات خواہ ہیں۔‘‘
’’نہیں محترم میں خود آپ کی عنایات کا شکرگزار ہوں میرے لیے کوئی رہنمائی فرمایئے؟‘‘
’’اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تمہیں تمہارے مقاصد میں کامیاب کرے۔‘‘ بزرگ نے جواب دیا۔ میں ایک بار پھر جنبش کر کے اُٹھا تو بزرگ خود بھی اُٹھ گئے کہنے لگے۔
’’جب تک یہاں قیام ہے مسعود میاں، کوئی ضرورت ہو تو بلاتکلیف کہہ دینا، ہمیں تو غم ہے کہ صحیح طور پر میزبانی نہ کر سکے۔‘‘ میں نے کچھ اور کلمات کہے جن سے شکرگزاری جھلکتی تھی اور اس کے بعد خاموشی سے وہاں سے پلٹ آیا، کچھ دیکھنا کچھ سوچنا مناسب نہیں تھا۔ بات تو پہلے ہی سمجھ میں آ گئی تھی۔ اکرام کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی اور اس سے کہا کہ مسجد کا دروازہ کھول دے۔ حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ سامنے کا علاقہ مسلسل سنسان تھا، لیکن اب نہ تو گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور نا ہی کوئی ’’ہاہاکار‘‘ کانوں تک پہنچتی تھی۔ ایک عجیب سا سکوت چھایا ہوا تھا… لیکن میرے نمائندے مجھ سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے تھے۔ مول چند نے آ کر بتایا کہ حالات بالکل پرسکون ہیں۔ کسی محلے میں کوئی فساد نہیں ہوا ہے۔ امن کمیٹیوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کو بھائی چارے کا سبق دیا ہے اور اس کا نتیجہ کم از کم یہ تو نکلا ہے کہ کسی نے کسی پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ پورے جوالاپور میں کسی ایسے واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔ یہ بات بڑی دل خوش کن تھی اور میں بڑا مطمئن تھا۔ نمازیوں نے ابھی تک جان علی کی مسجد کا رُخ نہیں کیا تھا۔ شاید ڈر یا خوف تھا… لیکن اس شام مغرب کی نماز میں کنور ریاست علی پندرہ بیس افراد کے ساتھ پہنچے تھے۔ میں اذان سے فارغ ہوا تھا کہ میں نے ان لوگوں کو اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ وضو کرنے بیٹھ گئے، خاموشی سے پہلے مغرب کی نماز پڑھی، اس کے بعد مجھ سے سلام دُعا کی پھر کنور ریاست علی نے مجھے صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔
’’حضور قبلہ شاہ صاحب، یہ چار دن تو بڑے پُرسکون گزرے ہیں، گو ابھی جوالاپور کے بازاروں میں دُکانیں وغیرہ نہیں کھلی ہیں اور لوگ آزادانہ طور پر سڑکوں اور گلیوں میں آتے جاتے ہوئے ہچکچا رہے ہیں لیکن بفضل تعالیٰ کوئی حادثہ وغیرہ نہیں ہوا اور حالات پُرسکون ہیں… لیکن آج شام کو پانچ بجے گرج ناتھ سیوک کے کچھ نمائندے ہندو محلوں میں ایک اعلان کرتے پھر رہے ہیں۔‘‘
’’کیسا اعلان ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’عجیب و غریب اعلان ہے، ان کا کہنا ہے کہ دیوی بھوانی جوالا چوک پر استھان کرے گی اور رات ٹھیک بارہ بجے جب چاند ٹیکا ٹیک آسمان کے بیچ پہنچے گا، بھوانی دیوی جوالا چوک پر براجمان ہوگی اور اس کے چرنوں میں دُنبے کی قربانی دی جائے گی جسے وہ لوگ اپنی زبان میں بلی کہتے ہیں، ہندوئوں کو دعوت دی گئی ہے کہ بھوانی کا استھان دیکھیں اور دُنبے کی قربانی میں حصہ لیں۔ ہندوئوں میں ایک بار پھر کھلبلی مچ گئی ہے اور کاناپھوسیاں ہو رہی ہیں۔‘‘
’’آج رات بارہ بجے…‘‘ میں نے سوال کیا…!
’’جی شاہ صاحب…‘‘
’’آپ نے مول چند کو یہ بات بتائی؟‘‘
’’بات تو سب ہی کوپتہ چل گئی ہے۔‘‘
’’میرا مطلب ہے مول چند تو آپ کے پاس نہیں پہنچا؟‘‘
’’نہیں…‘‘
’’تو پھر آپ کا کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’مداخلت کی جا سکتی ہے شاہ صاحب، پتہ نہیں یہ کیا چکر ہے، لیکن آپ کی اجازت کے بغیر نہیں۔ میرے پاس ساٹھ بندوقیں ہیں اور انہیں چلانے والے بھی موجود ہیں، کارتوسوں کا ذخیرہ ہے، اگر آپ حکم دیں تو جوالا چوک پر ایک بھی ہندو کو نہ پہنچنے دیا جائے۔‘‘ کنور ریاست علی نے کہا اور میں نے ہنس کر ہاتھ اُٹھا دیا۔
’’نہیں کنور صاحب، خون بہانے کا مقصد تو پورا ہو جائے گا گرج ناتھ کا۔ اگر ہم نے وہاں ایک بھی ہندو کا خون بہایا… ایسا نہ کریں انہیں نفرت کی بجائے محبت دیں۔ آپ دیکھ لیجئے، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’بھلا کس کافر کو خوشی ہے کہ کسی انسان کا خون بہائے لیکن یہ تعصب بڑھنا نہیں چاہئے شاہ صاحب، ورنہ ایک ایک مسلمان کٹ مرے گا، ہندوئوں کا تسلط نہیں ہونے دے گا جوالاپور پر۔ یہ میں آپ سے عرض کئے دے رہا ہوں۔‘‘
’’نہیں ہوگا کنور صاحب، کوئی تسلط نہیں ہوگا کسی پر، آپ مطمئن رہیں، اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا، آپ لوگ بالکل الگ تھلک رہیں اس معاملے سے، بلکہ چاہیں تو مسلمان بھی تماشا دیکھیں، آپ اطمینان رکھئے وہاں بھی کوئی فساد نہیں ہوگا۔‘‘
’’آپ نے کہا… میں نے خلوص جان سے تسلیم کیا، بس یہی اطلاع دینے حاضر ہوا تھا۔ اجازت چاہتا ہوں۔ ریاست علی چلے گئے، اکرام نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ گویا معاملہ ابھی سرد نہیں ہوا مسعود بھیّا…؟‘‘
’’سرد ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ گرج ناتھ سیوک کی ان تین چار دنوں کی خاموشی ہی میرے لیے حیران کن تھی۔ اس نے کیسے برداشت کر لیا اس بات کو کہ فسادات بند ہو جائیں۔ ویسے اسے پتہ تو چل گیا ہو گا کہ نفرت کے وہ پُتلے وہاں سے نکال پھینکے گئے ہیں۔ وہ دونوں ہرکارے یقیناً وہاں پہنچ کر اسے سب کچھ بتا چکے ہوں گے جو اس وقت ہمارے قریب آئے تھے جب ہم نے جوالا چوک سے پُتلے نکال پھینکے تھے۔‘‘ میں نے اکرام سے کہا۔ ’’رات کو اس وقت بھی ہم جوالاچوک پر پہنچیں گے، جب یہ سارا کھیل ہوگا۔‘‘ اکرام نے آنکھیں بند کر کے گردن ہلا دی۔ ہم تقریباً پونے گیارہ بجے مسجد کے دروازے سے باہر نکل آئے، چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔ میں اور اکرام فاصلے طے کرتے ہوئے بالآخر جوالا چوک پہنچ گئے یہاں البتہ خاموشی نہیں تھی۔ عقیدت مند ہندو بہت پہلے سے وہاں جمع ہونا شروع ہوگئے تھے اور اس وقت بھی جب صرف گیارہ بجے تھے وہاں اچھا خاصا رش تھا لیکن میں نے مسلمانوں کو بھی دیکھا، ذرا فاصلے پر کھڑے ہوئے تھے۔ کوئی کسی کے کام میں مداخلت نہیں کر رہا تھا۔ البتہ کچھ شرپسندوں کے چہروں پر شرارت کے آثار نظر آ رہے تھے۔ میں خود بھی خاموشی سے ان لوگوں میں شامل ہوگیا اور ایک جگہ رُک کر صورت حال کا جائزہ لینے لگا۔ اچانک ہی مول چند کوئی پندرہ
آدمیوں کے ساتھ جو ہاتھوں میں بندوقیں لیے ہوئے تھے، وہاں پہنچ گیا اور ٹھیک اس جگہ پہنچنے کے بعد جہاں پُتلے گڑے ہوئے تھے۔ اس نے کھڑے ہو کر اپنے تمام بندوق بردار ساتھوں کو نیم دائرے کی شکل میں پھیلا دیا اور پھر بولا۔
’’بھائیو، تم لوگ مجھے جانتےہو گے، میں بابو مول چند ہوں، برسوں سے جوالاپور میں ہندو دھرم کی خدمت کر رہا ہوں، تم لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں دھرم سیوک نہیں ہوں۔ میں تم میں سے ایک ہوں اور تمہیں اپنے من کی ایک بات بتانا چاہتا ہوں، کیا تم سنو گے؟‘‘
’’ضرور کہو بابو مول چند… ہمیں تم پراعتماد ہے، ہم تم پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘ بہت سے لوگوں نے کہا… مگر کچھ آوازیں ایسی بھی آئیں۔
’’بابو مول چند تم غدار ہو، تم بک چکے ہو، تم ڈرپوک ہو، تم کنور ریاست علی سے ڈر گئے ہو۔‘‘ مول چند گرج کر بولا۔
’’کون ماں کا لال ہے وہ جو یہ جملے کہہ رہا ہے، پیٹھ پیچھے چھپ کر جو من چاہے کہہ دو۔ ارے سامنے آئو پاپیو، مجھے غدار کہہ کر تم اپنے باپ کو گالی دے رہے ہو، کون سی غداری کی ہے میں نے، ارے بے وقوفو کالے جادو کے پھیر میں آ کر تم انسان سے شیطان بن گئے ہو، ذرا بتائو تو سہی مجھے مہاراج۔ ہے کوئی یہاں، کوئی پنڈت، کوئی دھرم سیوک، بھوانی دیوی تو ہماری بھی دیوی ہے، اسے کالے جادو والوں نے کیسے اپنا بنا لیا، وہ گرج ناتھ سیوک جو جوالاپور کو مسلمانوں سے پاک کر کے اپنے کالے دھرم کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے، کیا ہندو دھرم سے ہے، کیا تمہارا دھرم کالا ہے۔ بولو، بے وقوفو، بھوانی مکنڈ، مایا کنڈ اور ایسے ہی دُوسرے نام دے کر کیا تمہیں کالے جادو والا نہیں بنایا جا رہا۔ کنتا بھوانی تو ہماری بھی دیوی ہے، بھلا اس پر کالے دھرم کی چھاپ کیسے لگائی جا سکتی ہے۔ میں کہتا ہوں تمہارا اپنا ایک دھرم ہے، ہمارے ریت رواج ہیں، تم ان سب کو بھول کر کالے دھرم کے پجاری بننے جا رہے ہو۔ گندی کیچڑ کھائو گے، غلیظ پانی پیو گے، اور اس کے بعد اپنے آپ کو ہندو کہو گے۔ ارے کالے دھرم والوں کا تو کوئی دھرم ہی نہیں ہوتا۔ ان کے دھرم میں تو لوٹا چماری، بھیروں اور شیروں ہوتے ہیں۔ بھلا ان کا ہندو دھرم سے کیا تعلق، سارے کے سارے اپنا دھرم چھوڑنے پر تُل گئے ہو۔ آخر کس لئے… تم سب کالے جادو کے اَثر میں آگئے ہو، بے وقوفوں کی سی باتیں مت کرو، گرج ناتھ سیوک کالا جادوگر ہے، وہ تم سب کو اُلّو بنا رہا ہے۔ بڑی مشکل سے بھائی چارہ قائم ہوا ہے، اگر بھوانی دیوی یہاں استھان کرتی ہے تو ہمیں اعتراض نہیں اور نہ ہی ہمارے مسلمان بھائیوں کو ہوگا، یہ تو مندر اور مسجد کا معاملہ ہے، لیکن اگر کوئی ایسا کالادھرم یہاں استھان کرتا ہے جو یہاں کے جوالاپور کے رہنے والوں کو نقصان پہنچا سکے، تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے ہم اسے یہاں استھان نہیں کرنے دیں گے۔‘‘
دفعتہً ہی ایک عجیب سا شور مچا اور لوگ گردنیں گھما گھما کر دیکھنے لگے۔ مول چند
نے کچھ اور بھی کہا تھا۔ لیکن اس کی آواز اس شور کی آواز میں دَب گئی۔ میری نظریں بھی سامنے کی سمت اُٹھ گئیں، تب میں نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ پورے دعوے اور اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا تھا کہ وہ پتھر ہی کا مجسمہ ہے اور اس میں گوشت پوست کی کوئی رَمق نہیں ہے۔ اس کے پورے جسم سے مدھم مدھم آگ نکل رہی تھی اور یہ پتھر کا مجسمہ جس کی لمبائی کوئی نو فٹ تھی اور جس کی جسمانی ساخت عجیب و غریب، آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہوا جوالا چوک کی جانب آ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر بڑے بھیانک تاثرات تھے۔ لوگ خوفزدہ ہو کر کائی کی طرح چھٹ گئے اور مجسمہ آگے بڑھتا ہوا جوالا چوک کے عین درمیان آ کھڑا ہوا۔ لوگ خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہے تھے۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ میں بھی اس کا جائزہ لے رہا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ گندے علوم کے بہت سے مظاہرے دیکھے ہیں میں نے۔ کالے جادو کے ماہر گندے عمل کرتے ہیں لیکن زیادہ تر چھپ کر، اس طرح ایک پوری آبادی کے سامنے خود کو ظاہر کرنے والا پہلا ہی دیکھا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ گرج ناتھ سیوک زیادہ قوت رکھتا ہے۔ اپنی معلومات کے مطابق میں نے سوچا کہ کیا وہ کھنڈولا ہے۔ ممکن ہے ایسا ہو۔ پھر میں نے دُوسری بات سوچی اور میرے دل سے دُعا نکلی۔
’’رب العزت، عزت و ذلت تیرے رحم و کرم کی بات ہے۔ یہاں کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے۔ بے چارے مول چند نے زندگی دائو پر لگا کر آج گرج ناتھ کے خلاف کچھ کہا ہے۔ اس کے خلاف اتنا کچھ کہہ کر اس نے اس کا غضب مول لے لیا ہے۔ اس نے مجھ پر تکیہ کیا ہے اور بات یہاں صرف میری عزت اور مول چند کی زندگی کی نہیں ہے۔ تیرے بے شمار بندگان خطرے میں ہیں۔ اس شیطانی طاقت کے خلاف مجھے تیری مدد درکار ہے ورنہ میں کیا ہوں، یہ تو خود جانتا ہے، اس وقت بہت سے عوامل یکجا ہو گئے ہیں۔ اندر سے ایک دَم سکون کا سا احساس اُبھرا۔ یوں لگا جیسے کسی نے دل پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔
جادو کا مجسمہ چند لمحات شُعاعیں بکھیرتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ سرد ہوگیا اور اب وہ صرف پتھر کا مجسمہ تھا۔ چند عقیدت مند ہندوئوں نے نعرے لگائے۔ وہ کنتا بھوانی کی جے جے کار کررہے تھے۔ اچانک ہی پھر غلغلہ سا اُٹھا اور جے بھوانی، جے مایا مکنڈل کی آوازیں آنے لگیں۔ میری نظریں پھر اسی طرف اُٹھ گئیں۔ ایک لمحے میں اندازہ ہوگیا کہ گرج ناتھ سیوک خود آیا ہے۔ اس کے چاروں طرف بیر اُچھل کود رہے تھے اور وہ ان کے بیچوں بیچ تھا۔ گرج ناتھ کو ماننے والوں نے پھر نعرہ لگایا۔ ’’جے سیوک مہاراج۔‘‘
’’جے سیوک بھوانی۔‘‘
’’جے بھوانی۔‘‘ گرج ناتھ نے اس نعرے کا جواب دیا۔ اور پھر وہ سامنے آ گیا۔ ایک کالامینڈھا اس کے ساتھ تھا۔ نہایت تنومند لمبے لمبے سینگوں والا۔ اس کے گلے میں مالائیں پڑی ہوئی تھیں اور وہ اس طرح جھوم رہا تھا۔ جیسے اسے نشہ پلا دیا گیا ہو۔ اس کی زنجیر سیوک نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی۔ گرج ناتھ بھوانی کے مجسّمے کے پاس آ کھڑا ہوا۔ اس نے پھر نعرہ لگایا۔
’’جے بھوانی جے مایا مکنڈل۔‘‘ جوالا پور کے دھرم داسیو مجھے جانتے ہو۔ میں گرج ناتھ سیوک ہوں، جوالاپور کے ہندو دھرم والوں کا سیوک، میں جوالاپور میں مایا مکنڈل کا بنانے والا ہوں اور تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ یہ سب کچھ میں اپنے لئے نہیں کر رہا، تمہارے لیے کر رہا ہوں۔ ہاں صرف تمہارے لیے اور اس کے لیے میں نے جوالاپور کا چنائو کیا ہے، ایسے ہی نہیں، وجہ ہے اس کی، کیا سمجھے۔ اس کی وجہ ہے، پہلے بھی تمہیں بتا چکا ہوں کہ میں جوالاپور کو، پورے بھارت ورش میں ایک ایسی آبادی بنانا چاہتا ہوں، جہاں کے لوگوں کو باقی دیش والے دیکھیں تو جلن سے کلیجہ پکڑ کر رہ جائیں، جوالاپور کے گھر جیسے سونے کے گھر ہوں گے۔ مایا تمہارے چرنوں میں لوٹے گی اور یہ سب کچھ میں تمہیں دوں گا، بھوانی کنڈل کے زیراثر… جوالاپور کے ہندو دھرم والو، میں نے تم سے کہا تھا کہ ایک پکا بھوانی مکنڈل بنانے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے ملیچھوں کا خاتمہ کر دیا جائے، ایک بھی مسلمان جوالاپور میں نہ رہے، یہ میرا نہیں تمہارا کام تھا۔ تمہیں سرانجام دینا تھا۔ لیکن میں نے دیکھا تم نے کوشش تو کی۔ مگر ناکام کوشش، کوئی کامیابی تمہیں نہ مل سکی اور بھلا کامیابی کیسے ملتی، جبکہ خود تمہارے بیچ غدار موجود ہیں اور انہوں نے اپنے ہی بھائیوں کی گردن کاٹی ہے جوالاپور کے دلیر واسیو، یہ ملیچھ جہاں بھی رہتے ہیں، دھرتی کو ناپاک کرتے ہیں۔ ہماری گئو ماتا کا خون بہاتے ہیں، اسے کاٹ کر کھا جاتے ہیں۔ جانوروں کا گوشت یہ بڑے آرام سے کھا پی لیتے ہیں، جبکہ ایک پورا بھوانی مکنڈل بننے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی باتیں نہ ہونے پائیں اور بھوانی مکنڈل ملیچھوں سے پاک ہو۔ میں نے گہری نظروں سے سب کچھ دیکھا ہے، مجھے پتہ ہے کہ ہمارے بیچ غدار کون کون ہے۔ مگر ہم غدار کو ماریں گے نہیں۔ اس کی غداری اپنی موت آپ مر جائے گی جب بھوانی مکنڈل بن جائے گا۔ تو میں تم سے کہہ رہا تھا کہ غداری کر کے ہمارا کام روک دیا گیا ہے۔ ورنہ تھوڑے تھوڑے ہی کر کے سہی، سارے ملیچھ مارے جاتے، ارے سرکار ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی، یہ سارے انتظامات تو میں نے کر لیے تھے۔ ایک طرف وہ کنور ریاست ہے جو زور لگائے ہوئے ہے، میں تو یہ دیکھ رہا تھا کہ تم لوگ کیا کرتے ہو، جب چاہوں اسے بھسم کر کے رکھ دوں گا، آگ لگا دوں اس کی حویلی میں۔
مگر میں نہیں کرنا چاہتا تھا یہ کام، یہ کام تم ہی کرو گے، کیونکہ یہ تمہارا ہی کام ہے اور یہ ضروری بھی ہے۔ اب آ جاتے ہیں ہم ان غدّاروں پر، نام نہیں لوں گا کسی کا۔ وہ ملیچھوں سے رابطہ قائم کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسا کام کیا ہے اس جوالا چوک میں، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ سے ہمارا کام رُک گیا ہے۔ سُنا ہے یہاں ایک مہا آتما بھی آئی ہے جس نے بابو مول چند کے باغ پر قبضہ جما لیا ہے اور وہاں کی پرانی مسجد میں اذان دیتی ہے، نماز پڑھتی ہے، ارے کسی جگہ بند ہو کر یہ سارے کام کرنا تو بچوں جیسی بات ہے، ہمت ہے تو کبھی گرج ناتھ سیوک کے سامنے آئے وہ… اور ہندو دھرم کا سیوک اسے یہ بتائے کہ مہانتا کیا ہوتی ہے۔ گھر میں تو کتا بھی شیر ہوتا ہے۔ میں تم لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو بھائی چارہ کمیٹیاں بنی ہیں، سب ڈھونگ ہے، مسلمانوں نے ہمیشہ ہی ہندوستان میں ہندوئوں کی کھوپڑیاں توڑی ہیں اور کبھی انہیں سر نہیں اُٹھانے دیا۔ میں جانتا ہوں کہ تم میں سے کچھ لوگ ان مسلمانوں کی ساری کارروائیوں کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم جوالاپور سے یہ تحریک شروع کرتے ہیں اور اس کے بعد دیکھیں گے کہ اپنے دھرم رکھشا کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ دولت سب کے پاس ہونی چاہئے اور اس کے بل پر بہت سے کام ہو جاتے ہیں۔ کسی کی باتوں میں نہ آئو، کسی کی نہ سنو، اپنا کام آہستہ آہستہ جاری رکھو۔ میں نے اب ایک اور فیصلہ کیا ہے، وہ یہ کہ اپنے بیروں کو تمہاری مدد پر لگائوں گا، اس طرح تمہیں بزدلی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ میں نے اسی لیے بھوانی ماتا کو تمہارے بیچ بھیج دیا ہے اور اب بھوانی ماتا خود تمہاری رکھشا کرے گی۔ تمہیں جب بھی کوئی مشکل پیش آئے، اس کے چرنوں میں چلے آنا، یہ تمہیں طاقت دے گی اور تمہارے لیے صحیح راستے منتخب کرے گی۔ جوالاپور کے لوگو، کسی غدّار کے پھیر میں مت آنا، ملیچھ ہمارے دوست یا ہمارے بھائی ہو ہی نہیں سکتے، یہ صرف ہمارے دُشمن ہیں اور جب بھی موقع ملے گا، یہ تم پر وار کریں گے، ان سے ہوشیار رہنا، اپنا کام جاری رکھو، ان کا خون بہاتے رہو، تمہاری منزل تمہارے سامنے آ جائے گی۔ جے بھوانی، جے بھوانی، اس نے ایک بیر کو اشارہ کیا اور وہ ایک چنڈول لیے سامنے آ گیا۔ گرج ناتھ سیوک نے چنڈول میں ہاتھ ڈال کر مٹھی بھر اشرفیاں اُٹھائیں اور سونے کی اشرفیاں بھوانی کے مجسّمے پر اُچھال دیں، اس کے بعد وہ چنڈول میں ہاتھ ڈال ڈال کر سونے کی اشرفیاں اُچھالتا رہا اور اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہوگیا۔ لوگ یہ اشرفیاں لوٹ رہے تھے۔ اب ان میں کون ہندو تھا کون مسلمان۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل تھا، سب لوٹ مار میں لگے ہوئے تھے، پھر چنڈول خالی ہوگیا تو گرج ناتھ سیوک نے کہا۔
’’بس اب پیچھے ہٹ جائو۔ ہم بھوانی ماتا کے چرنوں میں اس مینڈھے کی بَلی دے رہے ہیں۔ بھوانی ماتا کے چرنوں کو پہلے جاندار کا خون دے کر ہم اسے اَمر کر دیں گے اور اس کے بعد تم لوگوں کے لیے کوئی مشکل نہ رہے گی۔‘‘
لوگ پیچھیے ہٹ گئے۔ شراب کے نشے میں جھومتے ہئوے مینڈھے کو زنجیر سے آزاد کر دیا گیا۔ چار آدمی جن کے ہاتھوں میں نیزے تھے، جن کی اَنیاں چاندنی میں سونے کی مانند چمک رہی تھیں، چاروں سمت کھڑے ہوگئے۔ مینڈھا سر جھکائے کھڑا ہوا تھا۔ دفعتہً ہی گرج ناتھ سیوک نے دونوں ہاتھ بلند کئے اور ان چاروں بلم والوں نے بلم سیدھے کر کے مینڈھے پردے مارے۔ میں مینڈھے کو دیکھ رہا تھا۔ گرج ناتھ سیوک کو پہلے ہی مرحلے پر ناکامی سے دوچار ہونا چاہئے تھا ورنہ یہاں سے اس کی بات لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جاتی اور شاید اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف ایسے فسادات ہوتے جو اب تک جوالاپور میں نہیں ہوئے تھے۔
مسعود اتفاقاً کالے جادو کے ایک ماہر بھوریا چرن کے چنگل میں پھنس گیا۔ وہ مسعود کو اپنا آلۂ کار بنانا چاہتا تھا لیکن اسے کسی قیمت پر یہ منظور نہیں تھا، نتیجتاً بھوریا اس کا دشمن بن گیا اور اس کی زندگی عذاب بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حالات کی انہی سختیوں کے دوران کچھ خاص ہستیوں کی نظر مسعود کی جانب ہوئی جنہوں نے اسے روحانی طور پر اتنا طاقتور بنا دیا کہ وہ شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کرسکے۔ اس طرح مسعود، بھوریا کے چنگل سے تو نکل آیا لیکن اسے جب بھی موقع ملتا، مسعود پر اپنا وار کر جاتا تھا۔ مسعود نے خدمت خلق کو اپنا مشن بنا لیا تھا کہ اس کی ملاقات ثریا نامی ایک بے سہارا لڑکی سے ہوئی جو بول نہیں سکتی تھی۔ مسعود کو اس سے محبت ہوگئی تھی لیکن حالات نے اسے ثریا سے دور کردیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ثریا کو اس حال تک پہنچانے والا بھوریا ہی تھا جو اس کے بھائی اکرام کو اپنا آلۂ کار بنانا چاہتا تھا۔ جب اکرام نے اس کی بات نہیں مانی تو اس نے ثریا کی زبان کاٹ دی تھی۔ اب دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے جدا لیکن ایک دوسرے کی تلاش میں تھے۔ مسعود نے جب انہیں ملانا چاہا تو معلوم ہوا کہ بھوریا، ثریا کو غائب کرچکا تھا۔ کچھ اشارے ملنے پر مسعود اس کی تلاش میں اکرام کے ہمراہ جوالا پور پہنچا لیکن وہاں ہندو مسلم فسادات ہو رہے تھے۔ ان فسادات کا ذمہ دار کالے جادو کا ایک ماہر گرج ناتھ تھا، وہ جوالا پور کو اپنا ٹھکانہ بنانا چاہتا تھا۔ مسعود اپنی تدبیروں سے جوالاپور کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس دوران اس کا مقابلہ گرج ناتھ سے ہوا جس میں مسعود نے اسے شکست دے دی۔ جوالا پور والے مسعود کے معتقد ہوگئے تھے جن میں ہندو بھی شامل تھے۔ ہندو ساہوکار مول چند کی پتنی مسعود سے اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے اس کے سامنے اسلام قبول کرلیا۔ اب چونکہ وہ اپنے پتی کے گھر نہیں جاسکتی تھی لہٰذا مسعود کے سامنے اس کی رہائش کا مسئلہ تھا۔ وہ پریشان تھا کہ اس مسئلے کو کس طرح حل کرے۔
(اب آپ آگے پڑھیے)
٭…٭…٭