’’اللہ تمہاری رہنمائی کرے۔‘‘ میں نے کہا۔ اس کے بعد میں نے اسے آرام کرنے کے لئے کہا تھا مگر اکرام خوف سے ساری رات نہیں سویا تھا۔ وہاں حمام بنے ہوئے تھے۔ میں نے اسے غسل کرنے کیلئے کہا۔ غسل سے فراغت ہوئی ہی تھی کہ فجر کی اذان ہوئی اور اس کے بعد وہاں موجود نمازی نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے، ہم دونوں بھی صف میں شامل ہوگئے تھے۔ نماز سے فراغت حاصل کرنے کے بعد میں اسے ساتھ لے کر مزار شریف سے باہر آگیا۔ عرس اختتام کو پہنچ رہا تھا، زائرین کی واپسی شروع ہوگئی اور کافی لوگ کم ہوگئے تھے، اس وقت کی نسبت جب میں یہاں آیا تھا۔ میں نے ابھی تک اپنے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ یہاں آنے کا مقصد ایک حد تک میرے علم میں آچکا تھا۔ جو واقعات پیش آئے تھے، ان کے تحت یہی سوچ سکتا تھا کہ مزار پاک کی بے حرمتی سے روکنے کیلئے مجھے یہاں بھیجا گیا ہے لیکن ابھی تک واپسی کا کوئی اشارہ نہیں ہوا تھا اور میرے لئے کسی بھی شکل میں یہ ممکن نہیں تھا کہ میں واپس چل پڑوں۔ جہاں تک ثریا کے تصور کا تعلق تھا تو اس وقت میں اپنی تمام دعائوں میں اس دعا کو اولیت دیتا تھا کہ میرے دل و دماغ سے اس کا تصور مٹ جائے۔ میں تو خود ہوائوں کا مسافر تھا۔ قدم نہ زمین پر تھے اور نہ آسمان پر…! بس خلا میں کٹی ہوئی پتنگ کی مانند ڈول رہا تھا۔ کہیں بھی گر سکتا تھا۔ ذرا سی لغزش ایک بار پھر مجھے پستیوں کے انہی گڑھوں میں دھکیل سکتی تھی جن میں گرنے کی اب سکت باقی نہیں رہی تھی۔ بے چارہ اکرام میری ہی طرح مصیبت کا شکار تھا مگر میں اسے کیا بتاتا کہ میں کیسی کیسی مصیبتوں سے گزر چکا ہوں۔ اسے تو ان کے عشر عشیر کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا لیکن خدا کا شکر تھا کہ اس نے ہی مجھے یہ قوت بخشی تھی کہ میں اب تک زندگی سے لڑ رہا تھا۔ جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنا وظیفہ تلاش کیا تو یہ دیکھ کر آنکھیں حیرت و خوشی سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ آج چار روپے کی جگہ میری جیب سے آٹھ روپے برآمد ہوئے تھے۔ اس احساس سے دل سرشار ہوگیا کہ میرے اقدام کو برا نہیں تصور کیا گیاہے اور ازراہ کرم مجھے اکرام کا وظیفہ بھی عطا کردیا گیا ہے۔ دل بڑھ گیا۔ گویا میرا عمل ناپسندیدہ نہیں رہا ہے۔ ایک جگہ اکرام کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کیا اور ناشتے سے فراغت ہوئی تھی کہ عرس کے خاتمے کا اعلان ہونے لگا۔ سجادہ نشین نے زائرین کو واپسی کی اجازت دے دی تھی اور عرس کی تقریبات مکمل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا مقصد تھا کہ اب میری بھی واپسی ہوجائے۔ اکرام کو ساتھ رہنے کی اجازت ان آٹھ روپے کی موجودگی سے مل گئی تھی چنانچہ اکرام نے ہی مجھ سے سوال کردیا۔
’’مسعود بھائی! اب کیا کریں گے ہم…؟‘‘
’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’جونا پوری جانا چاہتا ہوں مگر آپ کے ساتھ!‘‘
’’ٹھیک ہے، چلتے ہیں۔‘‘ اور اس کے بعد ہم نے جونا پوری کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ ایک لاری یہاں سے جونا پوری بھی جاتی تھی۔ تین تین روپے کرایہ تھا۔ میں ڈیڑھ روپیہ خرچ کرچکا تھا ناشتے میں، آٹھ آنے موجود تھے میرے پاس۔ باقی چھ روپے کے ٹکٹ خرید لئے اور ہم لاری میں بیٹھ کر جونا پوری چل پڑے۔ میں تھوڑی سی الجھن کا شکار تھا۔ اصل بات اسے نہیں بتا سکتا تھا۔ غرض یہ کہ جونا پوری پہنچ گئے اور وہ بھی نشاندہی کرتا ہوا اپنے محلے میں جا پہنچا۔ وہاں پہنچنے کے بعد اس کے منہ سے مسرت بھری آواز نکلی۔
’’مسعود بھیا! وہ ہے… وہ ہے میرا گھر! آہ میں اس شیطان کے چنگل سے آزاد ہوگیا۔ آہ! وہی میرا گھر ہے۔‘‘ وہ دیوانہ وار اپنے گھر کی جانب دوڑنے لگا۔ گھر کے دروازے پر زنجیر لگی ہوئی تھی۔ میں جانتا تھا کہ ثریا اسے اس گھر میں نہیں ملے گی لیکن اس کے احساس کی تکمیل کیلئے میں نے خاموشی ہی اختیار کررکھی تھی۔ زنجیر کھول کر وہ دیوانہ وار اندر گھس گیا اور زور زور سے بہن کو آواز دینے لگا۔ میں دروازے پر ہی کھڑا ہوا تھا۔ کچھ لوگ آگئے اس کی آوازیں سن کر انہی میں سے ایک معمر بزرگ نے اندر داخل ہوکر اسے پکارا۔
’’اکرام… آکرام… آگیا تو کہاں غائب ہوگیا تھا دیوانے…! کہاں چلا گیا تھا بہن کو چھوڑ کر…؟‘‘
’’چچا…! ثریا کہاں ہے؟ ثریا کہاں ہے چچا!‘‘ اکرام نے دیوانہ وار پوچھا اور معمر شخص کی گردن جھک گئی۔ اکرام پھر چیخا۔
’’چچا! میں اسے آپ کے حوالے کرکے گیا تھا، کہاں چلی گئی وہ… کہاں ہے وہ…؟‘‘ معمر شخص نے آہستہ سے کہا۔
’’مجھے افسوس ہے اکرام…! ہم اس کی حفاظت نہ کرسکے۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہیں آپ چچا؟ خدا کیلئے جلدی بتایئے مجھے، کیا ہوا…؟‘‘
’’تو تو واپس ہی نہیں آیا۔ ہم تیرا انتظار کرتے رہے۔ سب لوگ اس کی خبرگیری کرتے تھے مگر ایک صبح جب شبراتن اس کے گھر گئی تو چیختی ہوئی باہر نکل آئی۔ اس نے بتایا کہ ثریا کے منہ سے خون بہہ بہہ کر سینے پر جم چکا ہے۔ اس کے ہاتھوں کی انگلیاں بھی کٹی ہوئی ہیں اور وہ بے ہوش پڑی ہوئی ہے۔ سارے کے سارے دوڑ پڑے۔ اسے اٹھا کر ڈاکٹر کی دکان پر لے گئے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کی زبان کاٹ دی گئی ہے اور اس کی انگلیوں کو بھی چھری سے کاٹ دیا گیا ہے۔ نجانے کس ظالم نے یہ کام کیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ یہاں اس کا علاج نہیں ہوسکتا، شہر لے جانا پڑے گا اسے! محلے والوں نے آپس میں چندہ کیا اور اسے لے کر شہر چل پڑے۔ شہر کے ایک اسپتال میں اسے داخل کردیا گیا۔ چھ سات دن تک تو شبراتن اس کے ساتھ رہی۔ خیراتی اسپتال تھا۔ ہم نے اسپتال والوں سے بات کی اور اسپتال والوں نے کہا کہ اس کا علاج تو بہت عرصے تک کیا جائے گا۔ بھیا! سچی بات ہے کہ ہم بھی غریب لوگ تھے۔ تو نے تو واپس مڑ کے ہی نہیں دیکھا۔ جب تک ہوسکا، اس کی خبرگیری کرتے رہے۔ آخری بار جب رشید خان شہر جاکر اس کی خبر لینے گئے تو پتا چلا کہ وہ اسپتال میں نہیں ہے، کہیں چلی گئی تھی۔ وہ وہاں سے کسی کے ساتھ چلی گئی تھی۔ کچھ اور پتا نہیں چل سکا بھیا…! بس یہ ہے بیچاری ثریا کی کہانی!‘‘
اکرام پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔ ایسا بلک بلک کر رو رہا تھا وہ کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہورہے تھے۔ بہت سے لوگ سسکیاں لے رہے تھے اور میں
خاموش ایک کونے میں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ بعد کی کہانی میرے علم میں تھی اور میں اپنے آپ سے سوال کررہا تھا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے۔ میں سوچوں میں گم رہا اور اکرام دل کی بھڑاس نکالتا رہا۔ محلے والے ہمدردی ظاہر کررہے تھے مگر اکرام کو قرار نہیں تھا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ وہ آرام کریں، میں اکرام کو سنبھال لوں گا۔ ایک ایک کرکے لوگ چلے گئے۔ اکرام سسکتا ہوا بولا۔ ’’اس نے یہی دکھایا تھا مجھے مسعود بھیا! جو کچھ اس نے مجھے دکھایا تھا، وہی سچ تھا۔ آہ میری پیاری بہن… کیا ہوگیا اسے۔ آہ وہ گونگی ہوگئی مسعود بھیا، اب کیا کروں… کیا اب بھی مجھے جینا چاہئے؟‘‘
’’جینا تو ہے تمہیں اکرام!‘‘
’’کس کیلئے جیوں، کیا کروں جی کر…؟‘‘
’’تو کیا خودکشی کرو گے؟‘‘
’’اب تو یہی کرنا چاہئے۔ آہ اب تو…؟‘‘
’’توبہ کرو اکرام! توبہ کرو، خودکشی حرام ہے۔‘‘
’’پھر میں کیا کروں بھیا، بتائو میں کیا کروں؟‘‘
’’ثریا کو تلاش کرنا ہے تمہیں!‘‘
’’کہاں تلاش کروں؟ آہ میں اسے کہاں تلاش کروں؟‘‘
’’صبر کرو اللہ سے روشنی طلب کرو۔ وہ سب کو روشنی دکھاتا ہے۔‘‘ بمشکل میں نے سمجھایا بجھایا۔ محلے والے پرسش احوال کو آرہے تھے۔ کچھ اس کیلئے کھانے پینے کی اشیاء بھی لائے تھے۔ وہ حتیٰ المقدور اس کی دلجوئی کررہے تھے۔ ہم نے تین دن وہاں قیام کیا۔ اکرام باقاعدگی سے نماز پڑھنے لگا تھا، وہ تہجد بھی پڑھنے لگا تھا۔ اکثر اس کی آنکھوں میں آنسو نظر آتے تھے۔ گھنٹوں دعا کیلئے ہاتھ پھیلائے بیٹھا رہتا تھا۔ مجھے علم تھا کہ وہ بہن کی سلامتی کیلئے دعائیں کرتا ہے۔ اسے اس کیفیت میں دیکھ کر میرا سینہ بھی دکھنے لگتا تھا۔ میری بھی بہن تھی، بھائی تھا۔ ماں، باپ تھے، بھرا کنبہ تھا، بھرا گھر تھا لیکن اب کچھ بھی نہیں تھا اور… اور جو کچھ تھا، اس کے بارے میں جاننے کی مجھے اجازت نہیں تھی۔ ان تین دنوں میں مجھے آٹھ روپے روز ملتے رہے تھے۔ کھانے پینے کی اشیاء محلے والے بدستور لا دیتے تھے۔ یہ پیسے جمع ہوگئے۔ میں نے اکرام سے کہا۔
’’اکرام! یہاں رکو گے؟ میرے ساتھ چلو گے؟‘‘
’’مجھے اپنے ساتھ رکھو گے مسعود بھیا…؟‘‘
’’ہاں…! اس وقت تک جب تک تمہاری بہن تمہیں مل جائے۔‘‘
’’وہ مل جائے گی مسعود بھیا…؟‘‘
’’ان شاء اللہ!‘‘ میں نے کہا۔ وہ خوش ہوگیا اور بولا۔ ’’آپ کہتے ہیں تو وہ ضرور مجھے مل جائے گی۔‘‘
ہم نے تیاریاں کیں اور اس کے بعد میں نے خورجہ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ ثریا، گنگا دھر کے پاس تھی مجھے علم تھا مگر میں نے مصلحتاً اکرام کو اس بارے میں نہیں بتایا تھا۔ خدا کرے وہ محفوظ ہو۔ وقت سے پہلے آس دلا کر اسے ہیجان میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خورجے کے بارے میں سن کر اکرام نے پوچھا۔ ’’خورجہ کس کام سے جارہے ہیں مسعود بھیا…!‘‘
’’وہاں کچھ کام ہے۔‘‘ میں نے کہا اور وہ خاموش ہوگیا۔ بھوریا چرن کا پھر کوئی نشان نہیں ملا تھا اور مجھے کچھ اطمینان ہوا تھا مگر جانتا تھا کہ وہ زندہ ہے اور وار کرنے سے نہیں چوکے گا۔ میری وجہ سے اسے پھر ناکام ہونا پڑا تھا اور اس ناکامی نے اسے دیوانہ کردیا ہوگا۔ چنانچہ اس سے ہوشیار بھی تھا۔ ہم خورجے پہنچ گئے۔ ایک سرائے میں قیام کیا اور پھر میں نے گنگا دھر جی کے بارے میں معلومات شروع کردیں۔
’’کیا کام کرتے ہیں گنگا دھر جی…؟‘‘
’’یہ تو مجھے نہیں معلوم، ان کی بیٹی رکمنی ڈاکٹر ہے اور بیٹا…!‘‘
’’خورجہ چھوٹی سی جگہ تو نہیں ہے۔ کچھ اتا پتا ہوتا تو…!‘‘ مگر کوئی اتا پتا نہیں تھا میرے پاس! بڑی غلطی ہوگئی تھی۔ ان سے پتہ تو پوچھ لیتا مگر اس وقت احساسات مختلف تھے۔ ان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا تھا کیونکہ ثریا ان کے پاس تھی اور مجھے سرزنش کی گئی تھی۔ کیا پتا تھا کہ اسے اس طرح تلاش کرنا پڑے گا۔ واقعی خورجہ چھوٹا نہیں تھا۔ ہم گنگا دھرجی کو تلاش کرتے پھرے۔ کہیں سے پتا نہیں چل رہا تھا۔ میری نگاہیں سڑکوں پر چلتے ان لوگوں کا جائزہ لے رہی تھیں مگر نہ دھرما، نہ رام جی…! کوئی بھی نظر نہیں آیا تھا۔ اب کیا کروں… کیا کرنا چاہئے۔
’’کوئی بہت ضروری کام تھا اس سے؟‘‘ اکرام پوچھتا۔
’’ہاں…!‘‘
اس شام خورجے کے ایک تنگ بازار سے گزر رہا تھا کہ کسی نے شانے پر ہاتھ رکھ دیا اور ایک آواز ابھری۔ ’’اماں تم…! تم یہاں کہاں…؟‘‘
چونک کر پیچھے دیکھا اور پہچان لیا۔ کمال الدین پہلوان تھے۔ بابا شاہجہاں کے مزار پر انہوں نے مجھ پر دو احسان کئے تھے۔ ’’اماں! پہچانا ہمیں یا نہیں میاں صاحب…؟ وہ بابا جی کے مزار پر… ایں! یہ تو وہی لونڈا ہے جس نے تم پر وار کئے تھے گدے سے!‘‘ اس بار کمالے پہلوان نے اکرام کو دیکھ کر کہا۔ میں نے کمالے پہلوان کو سلام کیا اور کہا۔ ’’کیوں نہیں پہلوان صاحب! پہچان لیا میں نے۔‘‘
’’اماں! خورجہ کب آئے؟‘‘
’’تین چار دن ہوگئے۔‘‘
’’اور ہمارے پاس نہیں آئے اماں! قسم اللہ کی حد ہوگئی بے مروتی کی اور یہ بات سمجھ میں نہیں آئی پیارے! دشمن کو گلے لگائے لگائے پھر رہے ہو۔‘‘
’’دوستوں کو سب گلے لگاتے ہیں پہلوان صاحب! مزا دشمنوں کو گلے لگانے میں ہے۔‘‘ میں مسکرا کر بولا۔
’’ہائے… ہائے… ہائے! لاکھ روپے کی بات کہہ دی۔ ایمان کی قسم میاں! اللہ والوں کے درجے کو کون پہنچ سکتا ہے۔ ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پہنچے ہوئے ہو مگر ایک شکایت ہے قسم اللہ کی!‘‘
’’کیا پہلوان صاحب…؟‘‘
’’خورجے آئے اور ہمیں نہ پوچھا کسی سے حالانکہ دعوت دے کر آئے تھے۔‘‘
’’آپ کی بے حد مہربانی ہے۔ ایک کام سے خورجے آیا تھا۔‘‘
’’میاں! سارے کام ہوں گے مولا کے فضل سے۔ چلو ہمارے ساتھ! ایمان کی قسم اب نہیں چھوڑنے کے۔‘‘
’’کمالے پہلوان…!‘‘ میں نے کچھ کہنا چاہا۔
’’نہ… بالکل نہ! جو کہنا ہے گھر چل کر کہنا۔‘‘ وہ کچھ اس طرح پیچھے پڑے کہ ایک نہ چلنے دی۔ مجبوراً ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہوگیا۔ کمالے پہلوان ہم دونوں کو اپنے گھر لے گئے۔ صاحب حیثیت معلوم ہوتے تھے، گھر بھی بڑا تھا، مہمان خانہ الگ تھا۔ اسی سے متصل اکھاڑہ بنا ہوا تھا۔ ایک بڑے سے کمرے میں لے پہنچے۔ ’’یہ تمہاری قیام گاہ ہے میاں صاحب!‘‘
’’ہم آپ کے حکم سے یہاں آگئے ہیں۔ کچھ دیر رک کر چلے جائیں گے۔‘‘
’’میاں! بڑی مشہور کہاوت ہے کہ مہمان آئے اپنی مرضی سے ہے، جائے کمالے پہلوان کی مرضی سے ہے۔ ابھی تو تم سے بڑی برکتیں سمیٹنی ہیں میاں صاحب! چھری تلے دم لو۔ تم تو ایسے بھاگ رہے ہو جیسے بجھار پیچھے لگا ہو۔‘‘
’’ہمارا سامان سرائے میں ہے۔‘‘
’’چمن خان آتے ہوں گے، اٹھا لائیں گے۔‘‘
’’سرائے کا مالک دے دے دگا؟‘‘
’’کمالے پہلوان کا نام لیں گے چمن خان، میاں صاحب! آپ کی دعا سے اللہ نے بڑی بنا رکھی ہے۔‘‘ غرض کمالے پہلوان کسی طور آمادہ نہ ہوئے۔ مجبوراً ہتھیار ڈالنے پڑے۔ جگہ بہت عمدہ تھی۔ کمالے پہلوان سرائے کا نام پوچھ کر نکل گئے۔ اکرام خاموش تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ چائے کے ساتھ واپس آئے لیکن ساتھ میں اتنا کچھ لائے تھے کہ دیکھ کر آنکھیں پھیل گئیں۔ تین سینیاں بھری ہوئی تھیں جن میں مٹھائی، پھل اور نہ جانے کیا کیا تھا۔
’’ارے یہ آپ نے کیا کیا…؟‘‘
’’اماں مولا قسم! ہم نے کچھ نہیں کیا، اللہ نے تمہارے لئے بھجوایا ہے۔وہ ایک لونڈے نے شاگردی کی ہے، بڑے آدمی کا لونڈا ہے، وہی سب کچھ لایا ہے۔ کرم ہے مولا کا…!‘‘ اس کے بعد کمالے پہلوان کا اصرار کہ سب کچھ کھائیں۔ ناک میں دم کردیا۔ نہ کھانے سے ناراض ہونے لگے۔ ناک تک ٹھونسنا پڑا۔ چمن میاں سرائے سے سامان اٹھا لائے۔ بدقسمتی سے رات ہوگئی۔ بدقسمتی سے اس لئے کہ پھر کھانے کا وقت آگیا تھا۔ کمالے پہلوان کھانے کے دیوانے تھے اور کھلانے کے شوقین! ان کا خیال تھا کہ تکلف کررہے ہیں۔ نہ جانے کس طرح پیچھا چھوٹا۔ رات کو نومولود کو اٹھا لائے۔ ’’میاں صاحب! دم کردو، تم اللہ والے ہو۔‘‘
’’میں گناہگار بندہ ہوں کمالے پہلوان! غلط فہمی میں نہ پڑو۔‘‘
’’سب پتا ہے مولا قسم ہمارے کو! جو دشمنوں کو گلے لگا لے، وہ کیا ہوسکتا۔ آہا ہاہا…! کیا لاکھ روپے کی بات کہہ دی ہے تم نے میاں صاحب!‘‘ یہ مرحلہ بھی گزرا اور پھر دوسری صبح ان سے مدعائے دل کہا۔
’’میاں! ہمیں ایک صاحب کی تلاش ہے پہلوان صاحب!‘‘
’’نام بولو۔‘‘
’’گنگا دھر ہے ان کا نام، بیٹے کا نام ماتھر ہے۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’سمجھ گئے۔ ویسے ایک بات کہیں میاں صاحب! خورجے میں کوئی پچاس گنگا دھر ہوں گے مگر ہم اس لئے سمجھ گئے کہ بابا جی کے مستانے وہی گنگا دھر ہیں جن کا تم نام لے رہے ہو۔ شاہجہاں کے مزار پر ملے تھے نا…؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’بس! اسی لئے سمجھ لیا ہم نے۔ کیا کام ہے ان سے…؟‘‘
’’ملنا ہے۔‘‘
’’دوپہر کا کھانا کھا کر چلیں گے۔ ابھی کچھ لونڈوں کو زور کرانا ہے۔‘‘
’’بس! پتہ بتا دیں۔‘‘
’’جلدی ہے کیا؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’شکور کو بھیج دیں تمہارے ساتھ؟‘‘
’’کون شکور؟‘‘
’’شاگرد ہے اپنا میاں صاحب! سب سے کام کا لونڈا ہے۔ کھٹیا کلی اور کلاجنگ تو ایسی مارتا ہے کہ پلک نہ جھپکے۔‘‘
’’وہ پتہ جانتا ہے؟‘‘
’’سمجھا دیں گے اسے!‘‘
’’عنایت ہوگی آپ کی!‘‘ میں نے عاجزی سے کہا۔ کمالے پہلوان نے اپنے کلاجنگ کے ماہر شاگرد کو بلایا اور بولا۔ ’’شکورے چندا! ذرا میاں صاحب کو گنگا دھر کے گھر لے جا۔ دیکھ، چھپی کی نگلیا دیکھی ہے نا…؟‘‘
’’ہاں استاد!‘‘
’’بس! اس کے پیچھے دھنیا رام کا کوٹھا ہے، برابر کا گھر گنگا دھر جی کا ہے۔‘‘
’’وہ ڈاکٹرنی کے تائو؟‘‘ شکورے نے پوچھا۔
’’بس… بس، وہی۔‘‘ کمالے پہلوان نے کہا اور شکورے تیار ہوگیا۔ میں نے اکرام کو ساتھ لینا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
وہ کسی قدر پریشانی سے بولا۔ ’’کتی دیر میں آپ کی واپسی ہوگی مسعود بھائی! اور تو کوئی پریشانی نہیں بس پہلوان صاحب کھلا کھلا کر ہلاک کردیں گے۔ آپ دیکھ رہے ہیں بس رات کو چند گھنٹے مل گئے تھے ورنہ ہر تھوڑی دیر کے بعد کچھ نہ کچھ آرہا ہے۔ ناشتے ہی نے حلیہ خراب کردیا ہے۔‘‘ میں ہنسنے لگا۔ میں نے وعدہ کیا کہ زیادہ دیر نہں لگائوں گا۔ بس دل نے کہا تھا کہ اسے ساتھ نہ لے جائوں، خدا جانے کیا صورتحال پیش آئے۔ ہاں وہاں سے روانہ ہوکر جب کافی دور نکل آیا تو دل کئی بار بری طرح دھڑکا۔ میں نے استغفار پڑھی۔ خود کو سمجھایا، دل کو سمجھایا۔ بیکار ہے اسے دل میں بسانا بیکار ہے۔ میں انسان ہوں ہی کہاں! میں تو بس ایک گناہ ہوں۔ زندگی کی جتنی سانسیں باقی ہیں، بس کفارہ ہیں، صرف کفارہ…! اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ثریا کے بارے میں گنگا دھر جی کو بتا دوں گا کہ وہ کون ہے۔ بس ضروری باتیں بتا دوں گا۔ تفصیل کی کیا ضرورت ہے۔ کہہ دوں گا کہ اس کا بھائی موجود ہے۔ یہ بھی کہوں گا کہ ان بے چاروں کو کہیں رکھوا دیں بلکہ اس کے لئے کمال الدین پہلوان زیادہ موزوں ہیں۔
ان دونوں کی ذمہ داری ان کے سپرد کردی جائے یا اگر اکرام کچھ اور پسند کرے تو پھر اسے اس کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ ظاہر ہے میں انہیں کہاں ساتھ لئے پھروں گا اور پھر مناسب بھی نہیں ہوگا، بھٹکتا رہوں گا۔
راستہ انہی سوچوں میں گزر گیا۔ اس وقت چونکا جب کسی نے قریب آکر کہا۔ ’’ارے تم بھیا…! تم…؟‘‘ چونک کر دیکھا رام جی تھے۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا۔
’’کیسے ہو رام جی…؟‘‘
’’چولہے میں گئے رام جی! ہم تمہارے کون ہیں؟‘‘
’’ناراض ہو رام جی…؟‘‘
’’واہ رے ٹانگیں سوج گئیں ہماری، سارا دن تلاش رہی تمہاری۔ دھرما الگ، ہم الگ۔ کم پریشان کیا گنگا جی نے؟‘‘
’’اوہ! وہاں…؟‘‘
’’تو اور کیا…؟‘‘
’’ہم جائیں یا ہمارے ساتھ چلو گے؟‘‘ شکورے نے پوچھا۔
’’تم جانا چاہو تو چلے جائو۔ رام جی! تم کمالے پہلوان کو جانتے ہو؟‘‘
’’لو انہیں کون نہ جانے۔‘‘
’’گھر پتا ہے ان کا…؟‘‘
’’پتا ہے۔‘‘
’’بس ٹھیک ہے شکور! تم جائو، میں آجائوں گا۔‘‘ شکور کو روانہ کرکے میں نے رام جی سے کہا۔ ’’اب شکایتیں کئے جائو گے یا گنگا دھر کے پاس لے جائو گے؟‘‘
’’سو تو لے جانا ہی ہے مگر ہم تمہیں ایک بات اور بتائیں۔‘‘ رام جی نے اتنا ہی کہا تھا کہ اچانک سامنے کے دروازے سے پریما دیوی باہر نکل آئیں۔ رام جی کو آواز دینا چاہتی تھیں کہ مجھے دیکھ کر رک گئیں۔ پھر تیزی سے آگے بڑھیں اور مجھے بغور دیکھ کر بولیں۔
’’ارے تم یہاں بھی آگئے؟ جان چھوڑ دو ہماری بھیا! بھرپائے… ارے بھرپائے سب سے!‘‘ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگاتے ہوئے کہا۔
’’گنگا جی سے مل کر چلا جائوں گا چاچی جی!‘‘
’’پھر چلے گئے تم! ضرور چلے گئے۔ ارے بھیا! مصیبتوں میں پھنسے ہوئے ہیں ہم، شما کردو ہمیں!‘‘
’’مالکن…! مالک سنیں گے تو ناراض ہوں گے۔ اندر لے چلیں انہیں۔ میری بھی موت آجائے گی۔‘‘ رام جی نے کہا۔
’’لے جا… لے جا… بس آگئی شامت! آئو۔‘‘ وہ برا سا منہ بنا کر بولیں اور میں رام جی اور پریما دیوی کے ساتھ چل کر اندر داخل ہوگیا۔ گنگا دھر ایک مسہری پر لیٹے حقہ پی رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر ان کی حالت بھی خراب ہوگئی تھی۔ کھلے ہوئے منہ میں حقے کی ’’نے‘‘ اٹکی رہ گئی۔ پھر وہ زور سے اچھل کر سیدھے ہوگئے۔ آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں، مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ پھر بڑے غصے سے حقے کی ’’نے‘‘ منہ سے نکالی اور سنبھل کر بولے۔ ’’تم… تم! یہاں کیسے آگئے میاں جی…؟‘‘
’’گنگا جی…! میں… میں مسعود ہوں۔‘‘
’’ارے تو کیا ہم بائولے ہوگئے ہیں، اندھے ہوگئے ہیں کیا کہ تمہاری شکل بھی نہ پہچانیں؟ ارے ہمارا تمہارا واسطہ کیا، مل گئے تھے رستے میں! رشتے ناتے تو نہیں تھے، وہ تو انسانی ہمدردی تھی جو تم نے سمیٹی اور اس کے بعد کہے سنے بنا رفوچکر ہوگئے۔ بھیا! میل جول تو وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی رشتہ ناتا ہو، یہاں تو دھرم بھی ایک نہیں ہے پھر یہاں کیسے آگئے تم…؟‘‘
’’اگر آپ میرے کہے سنے بغیر چلے جانے پر ناراض ہیں گنگا دھر جی! تو خدا کیلئے مجھے معاف کردیجئے گا۔ آپ لوگوں سے کچھ اتنا پیار ہوگیا تھا وہاں کہ جدا ہوتے ہوئے دل دکھ رہا تھا۔ بس میں نے سوچا کہ آپ مجھے وہاں سے اپنے ساتھ لے جانے کیلئے کہیں گے، میں جا نہیں سکتا تھا۔ بس اسی الجھن کا شکار ہوکر خاموشی سے آپ سے دور ہوگیا۔‘‘
’’خاموشی سے آپ سے دور ہوگیا! ارے کتنے پریشان رہے تھے ہم تمہارے لئے، یہ تو سوچا ہوتا۔ انسان، انسان سے ملتا ہے۔ کون کسی کو روک سکتا ہے بھیا! نہ دھرم، نہ ناتا۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ دیتے کہ خورجے آئو تو ہم سے مل لینا۔ پیار ہو ہی جاتا ہے انسان کو انسان سے… مگر تمہیں نہیں ہوا بھیا! اب کیسے آگئے یہاں گنگا دھر کے ہاں…؟‘‘
’’گنگا دھر جی! بڑی عجیب سی کہانی ہے۔ آپ کی ناراضی کو دل سے مانتا ہوں مگر آپ یقین کیجئے میرا آپ سے دور ہوجانا ہی مناسب تھا۔ کیا آپ کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ وہاں آپ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، میری ہی وجہ سے ہوا؟ وہ سادھو میرا دشمن ہے۔ میری ہی وجہ سے اس نے آپ کو وہاں سے واپس جانے کیلئے کہا تھا کیونکہ آپ مجھ سے ہمدردی کررہے تھے۔ وہ اسی کا ہرکارہ تھا گنگا دھر جی! جس نے مجھ پر حملہ کیا تھا۔ میں نے اس رات کے واقعات کے بعد یہی سوچا کہ آپ سے دور ہوجائوں، کہیں آپ کسی مصیبت کا شکار نہ ہوجائیں۔‘‘
’’تمہاری کیا دشمنی ہوگئی تھی اس سے… ارے وہ تو اس بے چاری بچی کا دشمن تھا۔ لے گیا پاپی اسے! بھگوان اس کا ناس کرے۔ سادھو نہیں تھا بھیا وہ… ارے وہ تو جادوگر تھا۔ مہا پاپی، گندا، اگھوری، چھی…!‘‘ گنگا دھر جی نےزمین پر تھوک دیا مگر ان کے الفاظ نے مجھے ششدر کردیا تھا۔
’’لے گیا… ہے، کک، کسے…؟‘‘ میں نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’ارے وہ بچی تھی نا ہمارے پاس، بے چاری ثریا! تمہارا بھی دشمن تھا وہ اور اس کا بھی! ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ اس کی جیپ بھی اس پاپی نے کاٹی تھی اور انگلیوں کے پور بھی! بھیا نجانے کیا دشمنی چل رہی تھی۔ بچی تو بڑی معصوم تھی۔‘‘
’’وہ ثریا کو لے گیا کب، کیسے اور کہاں…؟‘‘ میں نے بے اختیار سوالات کئے۔
’’لمبی کہانی ہے۔ بیٹھ جائو مسعود! بھگوان کی سوگند دل کے اتنے نرم ہوتے تو سچ مچ پریما کے کہنے کے مطابق کچھ بن گئے ہوتے مگر یہ پاپی جو سینے میں دھڑکتا ہے نا بڑا پیار کرتا ہے انسانوں سے… سارے کرودھ دھل جاتے ہیں۔ بس کیا بتائیں تمہیں۔ ارے بیٹھو! اونٹ کی طرح منہ اٹھائے کیوں کھڑے ہو؟ جب آئے ہو کچھ سمجھ کے تو تھوڑی دیر بیٹھو۔ کچھ جل پان کرو۔‘‘
’’گنگا دھر جی! مجھے… مجھے ثریا کے بارے میں بتایئے۔‘‘ میرا دل سینے میں بیٹھا جارہا تھا۔ اس وقت بھلا گنگا دھر کی باتوں میں کیا دلچسپی لے سکتا تھا۔
’’بتاتے ہیں، بتاتے ہیں۔ ہم دن بھر تمہیں وہاں تلاش کرتے رہے۔ رام جی سے پوچھ لو، دھرما سے پوچھ لو، ماتھر سے پوچھ لو۔ ارے سب سے پوچھ لو۔ نہیں ملے تم ادھر گھر والی کی جان نکلی جارہی تھی۔ سو چل پڑے بھیا! گھر آگئے اپنے دو تین دن تک تمہیں یاد کرتے رہے اور پھر اپنے منہ پر تھپڑ لگائے کہ ہر ایک کو دل میں بسا لیتے ہو۔ ارے کوئی کہیں کا، کوئی کہیں کا! پھر وہی بات کہیں گے کہ نہ دھرم کا ناتا، نہ خون کا! ملے، کام نکلا چلے گئے۔ بس بھول گئے تمہیں! مگر اس پاپی نے پھر یاد دلا دیا۔‘‘
شام کا وقت تھا۔ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ دروازہ کھٹکھٹایا کسی نے۔ ماتھر نے کھولا تو وہ اس سادھو کو دیکھ کر ڈر گیا۔ پاپی گھسا ہی چلا آیا۔ ہم بیٹھے تھے برآمدے میں، دھرم پتنی بھی ساتھ تھیں۔ وہ تو بس ہے ہی بھگوان کی گیا! چیخ مار کر اندر بھاگ گئی۔ سادھو مہاراج نے ہمیں گھورتے ہوئے کہا کہ وہ لڑکی ثریا کہاں ہے؟ سچ بتائیں تمہیں ہماری بھی سٹی گم تو ہوگئی تھی مگر ہم نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولے۔ ’’کون ہو تم بھائی…؟‘‘
’’بھوریا چرن ہے ہمارا نام!‘‘
’’ہم سے کیا کام ہے مہاراج…؟‘‘
’’تمہاری دھرم پتنی جانتی ہے کہ ہمیں تم سے کیا کام ہوسکتا ہے۔’’
’’ارے تم وہی سادھو تو نہیں جس نے ہمیں شاہجہاں بابا کے مزار سے بھگایا تھا؟‘‘
’’لعنت ہے تم پر… ہندو دھرم کے ہو اور مزاروں کی باتیں کرتے ہو۔ آخر تمہارے دھرم سے ان مزاروں کا کیا واسطہ…؟‘‘ بھیا! ہمیں بھی غصہ آگیا۔ بات یہ ہے کہ بابا شاہجہاں پر تو ہم جان دیتے ہیں۔ ارے کوئی بھی دھرم ہو کسی کا، انسان تو انسان ہی ہوتے ہیں۔ بابا جی کے مزار پر جاکر ہمیں ہمیشہ سکون ملتا ہے تو چلے جاتے ہیں۔ ہم نے اس سے کہا کہ وہ اپنی بتائے وہ کیا چاہتا ہے اور ثریا سے اس کا کیا واسطہ ہے تو اس نےکہا کہ خاموشی سے ثریا کو اس کے حوالے کردیا جائے۔ اس کا یہاں رہنا ہمارے لئے نقصان دہ ہی ہوسکتا ہے۔ کہہ کر گیا کہ ثریا کو خاموشی کے ساتھ پیتل کنڈ پہنچا دیا جائے، وہ وہاں موجود ہوگا۔ ہم نے کہا جائو جائو ہوگے سادھو سنت اپنے گھر کے، ہمارا نام بھی گنگا دھر ہے۔ وہ یہ کہہ کر چلا گیا کہ اگر ثریا پیتل کنڈ نہ پہنچی تو نقصان کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔ پیتل کنڈ ایک پرانا کھنڈر مندر ہے۔ کبھی اس میں کرشن بھگوان کی پیتل کی بہت بڑی مورتی لگی ہوئی تھی مگر کچھ پاپی چور اسے چرا کر لے گئے اور اس کے بعد سے وہاں طرح طرح کے کھیل ہونے لگے۔ چنانچہ بھیا! لوگوں نے ادھر آنا جانا بند کردیا۔ ہم بڑے حیران کہ آخر یہ سادھو بیچاری ثریا کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے۔ گھر والی اندر کھٹیا پر جا پڑی تھی۔ پوچھا اس سے تو کہنے لگی۔ وہی سادھو تھاجو وہاں خیمے میں آگھسا تھا اور جس کی وجہ سے وہاں سے بھاگنا پڑا تھا۔ سب پوچھنے لگے ہم سے کہ اب وہ یہاں کیوں آیا تھا تو ہم نے ثریا کے بارے میں بتا دیا۔ رکمنی تو جان کو آگئی۔ کہنے لگی۔ پران دے دے گی، ثریا کو گھر سے نہیں جانے دے گی۔ ماتھر خاموش تھا مگر پریما دیوی کی زبان چل پڑی تھی کہ ثریا کو فوراً گھر سے نکال دیا جائے۔ جو دیکھا ہے، اس کے بعد خطرہ مول نہ لیا جائے۔ بھیا! انسان تھی، گونگی تھی بیچاری، سیدھی سادی تھی۔ ہم تو ہیں ہی پریم کے مارے، لڑ گئے گھر والی سے کہ ثریا نکلی تو ہم بھی گھر سے باہر نکل جائیں گے۔ رکمنی ہمارے ساتھ تھی باقی لوگ کوئی رائے نہیں دے رہے تھے مگر رات کو بھیا بھونچال آگیا۔ گھر کا گھروا ہوگیا۔ ارے رات بھر انگارے برسے۔ جو چیز کھلے میں پڑی تھی، جل کر راکھ ہوگئی۔
رکمنی کے کمرے میں اندر سے آگ لگ گئی، سارا سامان جل گیا اس کا کپڑے، پلنگ، بستر وہ تو ہماری بٹیا بچ گئی، نہیں تو وہ بھی بھسم ہوجاتی۔ بڑی پریشانی ہوگئی۔ رکمنی تو رونے لگی تھی مگر پریما دیوی نے سارے ہاتھ، پائوں نکال لئے، مرنے مارنے پر تیار ہوگئیں، آتم ہتھیا کرنے پر تل گئیں۔ ثریا کو بھی صورتحال کا پتا چل گیا تھا۔ سادھو کو تو اس نے نہیں دیکھا تھا مگر روئے جارہی تھی مسلسل! پھر اس نے اشاروں میں کہا کہ اسے سادھو کے حوالے کردیا جائے۔ اس کا یہاں رہنا گھر والوں کیلئے خطرناک ہے۔ بھیا! ہماری زبان بھی بند ہوگئی۔ اب اپنے گھر میں کون آگ لگاتا ہے، تم خود سوچو… پھر یہ بلا ٹلی تو دوسری رات گھر میں مکڑیاں گھس آئیں۔ جدھر دیکھو مکڑیاں، جدھر دیکھو مکڑیاں! ہر چھت سے مکڑیاں اتر رہی تھیں۔ دیواروں پر، زمین پر پائوں رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ چھت پر سے جالے بنا بنا کر نیچے اتر رہی تھیں۔ کسی کے کندھے پر تو کسی کے سر پر! گھر سے نکل بھاگے سارے کے سارے۔ بھلا کیسے ٹکتے، بات سمجھ میں آگئی تھی۔ ثریا بھی گھر سے باہر نکل آئی تھی اور رو رو کر اشارے کررہی تھی کہ اسے سادھو کے حوالے کردیا جائے۔ بھیا، کوئی چارہ نہ رہا اس کے سوا کہ ثریا کو پیتل کنڈ پہنچا دیں۔ روتے پیٹتے چھوڑ آئے اسے وہاں اور کیا کرتے، مجبوری تھی۔ بالکل ہی مجبوری تھی۔‘‘
گنگا دھر جی کی آواز بھرا گئی لیکن میرا دل بری طرح دکھ رہا تھا ۔میں خون کے آنسو رو رہا تھا۔ ایک بار پھر دل میں ثریا کی محبت سینہ توڑ کر ابھر آئی تھی اور میری آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہوگئے تھے۔ میں نے پوچھا۔
’’گنگا دھر جی، پیتل کنڈ کہاں ہے؟‘‘
’’جائو گے وہاں…؟‘‘
’’ہاں! اسے تلاش کروں گا۔‘‘
’’مگر… مگر تمہارا اس سے کیا واسطہ ہے؟‘‘
’’گنگا دھر جی، بس آپ یہ نہ پوچھیں تو اچھا ہے۔‘‘
’’ارے بھیا! ہمیں بھی انسان سمجھو۔ تم تو چار گھنٹے کی ملاقات میں اس کیلئے آنسو بہا رہے ہو، ہم سے پوچھو، رکمنی سے پوچھو جو بیمار پڑی ہوئی ہے۔ بستر سے لگ گئی ہے اس کے غم میں۔ پریما بھی خوش تھوڑی ہے اسے نکال کر! پریم سے رکھا ہوا تھا بیٹیوں کی طرح مگر کیا کریں اپنے گھر پر جب مصیبت ٹوٹے تو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘ گنگا دھر جی دکھ سے بولے۔
’’گنگا دھر جی! وہ بڑی مظلوم لڑکی ہے۔ اس کا بھائی میرے ساتھ آیا ہے۔ بے چارہ بھائی اپنی بہن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ یوں سجھ لیجئے ایک لمبا چکر ہے اور آپ اس کے بارے میں نہ ہی جانیں تو زیادہ اچھا ہے۔ آپ کا ہنستا کھیلتا گھرانہ تباہ ہوجائے گا۔ اچھا ہی ہوا آپ نے اس بیچاری کو اپنے گھر سے نکال دیا مگر اس کا بھائی اس کیلئے دیوانہ ہورہا ہے، میرے ساتھ ہی یہاں تک آیا ہے۔ میں شاید خورجہ نہ آتا لیکن آپ کو تلاش کرتا ہوا آیا ہوں ثریا کی وجہ سے تاکہ وہ اپنے بھائی کو مل جائے۔‘‘
گنگا دھر جی نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔ بہت دیر تک خاموش بیٹھے رہے پھر بولے۔ ’’ہم ہی لے چلتے ہیں تمہیں پیتل کنڈ، بہت دور ہے آبادیوں سے… مگر اب وہ تمہیں وہاں کہاں ملے گی۔ بیکار ہی ہے، سب کچھ بیکار ہی ہے۔‘‘
رکمنی کو بھی میری آمد کا پتا چل گیا تھا۔ خود ہی اٹھ کر گنگا دھر کے کمرے میں آگئی۔ میں نے دیکھا وہ پہلے کی نسبت کافی لاغر ہوگئی ہے۔ مجھ سے کہنے لگی۔ ’’میرے ساتھ آئو گے، کچھ باتیں کرنی ہیں تم سے!‘‘
’’جی…!‘‘ میں نے کہا۔
’’جائو ہو آئو اس کے ساتھ، جب سے بیمار پڑی ہے سمجھائو اسے کچھ نہیں ملے گا بھیا، یہ جادو ٹونوں کے چکر ہیں۔ ارے ہم کیا اور ہماری اوقات کیا کہ ان جھگڑوں سے نمٹیں۔ پریما جی ٹھیک کہتی ہے۔ جائو چلے جائو اس کے ساتھ…!‘‘
میں رکمنی کے کمرے میں آگیا۔ رکمنی کافی غمزدہ معلوم ہوتی تھی۔ کہنے لگی۔ ’’تائو جی نے تمہیں ساری باتیں بتا دی ہوں گی مسعود…؟‘‘
’’ہاں رکمنی دیوی!‘‘
’’نجانے قصہ کیا ہے، ایک ہندو جوگی کو جو گندے علم کا ماہر بھی معلوم ہوتا ہے، ثریا کی کیا ضرورت تھی۔ ویسے بھی مسعود، وہ بڑی پراسرار لڑکی تھی۔ اس کے بارے میں کچھ جان ہی نہیں سکی میں لیکن یقین کرو بڑی محبت ہوگئی تھی مجھے اس سے۔ تم بھی اس معاملے میں کچھ ملوث ہو۔ کم ازکم دل کے سکون کیلئے یہ تو بتا ہی دو کہ اصل قصہ کیا ہے؟‘‘
’’میں اس معاملے میں ملوث نہیں ہوں رکمنی دیوی… بس یوں سمجھ لیجئے کہ وقت نے مجھے اس میں ملوث کردیا۔ یہ سب کالے جادو ہی کا چکر ہے۔ وہ بدمعاش جوگی جس کا نشان مکڑی ہے، ایک غلیظ جادوگر ہے اور ثریا کے بھائی اکرام سے وہ اپنے جادو کی تکمیل کیلئے کوئی کام لینا چاہتا تھا۔ اکرام نے وہ کام نہیں کیا تو اس نے اکرام کو قیدی بنا لیا۔ ثریا کی زبان بھی اس نے کاٹی۔ صرف اس شخص کو اپنے کام کیلئے آمادہ کرنے کی وجہ سے… غرض یہ کہ وہ نوجوان لڑکا مجھے مل گیا۔ اس نے مجھے اپنی بہن کی کہانی سنائی اور مجھے یہ پتا چل گیا کہ ثریا ہی اس کی بہن ہے۔ بس، میں اسے ساتھ لے کر یہاں آیا تھا اور یہاں آکر یہ غمناک خبر سنی کہ ثریا کو وہ جوگی ایک بار پھر لے گیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس کی وجہ کیا ہے۔‘‘
’’کیا وجہ ہے؟‘‘ رکمنی نے بے اختیار پوچھا۔
’’جب اس جوگی نے دیکھا کہ وہ اپنے کام میں ناکام ہوگیا ہے تو اس لڑکی کے ذریعے اس کے بھائی کو مجبور کرنے کیلئے اس نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس بات کا مجھے علم ہے کہ بھوریا چرن اب وہی سب کچھ کرے گا اس شخص کے ساتھ جو اس نے… جو اس نے!‘‘ اور پھر میں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ بے خیالی میں، میں رکمنی کو اپنے بارے میں بتانے جارہا تھا۔ رکمنی نے بھی شاید میری بات پر توجہ نہیں دی تھی۔ کہنے لگی۔
’’یہ تو ظلم ہے، ایک انسان کا انسان پر ظلم! کوئی اس بے چاری کو اس ظالم سے نہیں بچا سکتا۔‘‘
’’اللہ بچانے والا ہے، یقینی طور پر وہ اس کی مدد کرے گا۔‘‘ رکمنی مجھے دیکھنے لگی۔ پھر بولی۔
’’ہنسو ایک بار… تمہاری ہنسی کائنات کا نقشہ بدل دیتی ہے۔‘‘
’’نہیں ہنس سکتا رکمنی دیوی! نہیں ہنس سکتا۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘ اس نے مجھے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بس نہیں ہنس سکتا۔ ہنسی میری تقدیر سےنکل چکی ہے۔‘‘
’’تو کیا تم بھی!‘‘ رکمنی نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جی…؟‘‘ میں سوالیہ انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
’’تو کیا تم بھی اس سے محبت کرتے ہو، کیا تم بھی اسے چاہنے لگے ہو؟‘‘ رکمنی کے سوال نے مجھے ششدر کردیا۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا تو وہ بولی۔
’’میں دعوے سے کہتی ہوں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہ وہ تمہیں چاہنے لگی تھی۔ عورت ہوں میں اور عورت ہی عورت کو صحیح طور پر سمجھ سکتی ہے۔ ایسی اداس اداس سی رہتی تھی ہمیشہ جیسے اس سے کوئی بہت ہی قیمتی شے چھن گئی ہو۔ میں نے ایک بار تمہارا نام لے دیا تھا اس کے سامنے، پوچھا تھا اس سے کہ کیا وہ تمہیں چاہنے لگی ہے تو ایسی بلک بلک کر روئی تھی کہ دل پھٹنے لگا تھا۔ بھگوان کی سوگند مسعود! وہ تمہیں چاہنے لگی تھی۔ بہت زیادہ، بہت زیادہ…! عورت ایسی ہی ہوتی ہے۔ گھائل ہوتی ہے تو ایک ہی نظر میں اور نہیں ہوتی تو اس کے پورے بدن کو داغدار کردو، کبھی گھائل نہیں ہوتی۔ اب کیا کرو گے یہ بتائو، کیسے مدد کرو گے اس کی، کہاں ملے گی وہ…؟‘‘
’’اللہ جانتا ہے، میں کیا کہوں۔‘‘ رکمنی کے ساتھ خاصا وقت گزرا پھر گنگا دھر جی نے ہی آواز دی تھی۔
’’ارے چل رہے ہو کیا…؟ میں نے تانگہ منگا لیا ہے۔‘‘ میں رکمنی سے اجازت لے کر گنگا دھر جی کے ساتھ باہر نکل آیا اور تانگہ اس سمت چل پڑا جسے پیتل کنڈ کا نام دیا گیا تھا۔
پرانا مندر تھا اور اب کھنڈر بن چکا تھا۔ اس کے عقب میں مرگھٹ تھا مگر میں خود بھی جانتا تھا کہ یہاں آنا بیکار ہے۔ بھوریا چرن یہاں بیٹھا تھوڑی ہوگا۔ پھر بھی ہم نے مندر کا ایک ایک گوشہ چھان مارا۔ گنگا دھر نے تو حلق پھاڑ پھاڑ کر ثریا کو آوازیں بھی دی تھیں۔ ان کی آواز میں محبت تھی، درد و کرب تھا۔
’’بھگوان ناس کرے اس کا کہ جانے کہاں لے گیا، نہ جانے!‘‘
’’چلیں…؟‘‘ میرے حلق سے بمشکل آواز نکل سکی تھی۔
’’تو اور کیا… بس نہ جانے کیوں من چاہا تھا تمہارے ساتھ ادھر آنے کا۔‘‘ تانگے والے کو روکے رکھا گیا تھا، وہ انتظار کررہا تھا۔ ہم اس میں بیٹھ کر واپس چل پڑے۔ ’’پتا ہی نہیں چل سکا کچھ، کون تھی، کیا بپتا پڑی تھی بے چاری پر! تم نے بتایا تھا اس کا بھائی ملا ہے تمہیں!‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’کہاں ہے وہ…؟‘‘
’’یہیں میرے پاس ٹھہرا ہوا ہے۔‘‘
’’کہاں…؟‘‘
’’کمال الدین پہلوان کے ہاں، آپ مجھے وہیں اتار دیں۔‘‘
’’میرے پاس نہیں رکو گے؟‘‘
’’ابھی نہیں گنگا دھر جی! اسے سنبھالنا بھی ضروری ہے۔‘‘ میں نے کہا اور گنگا دھر خاموش ہوگئے۔ دیر تک خاموشی طاری رہی پھر گنگا دھر نے کہا۔ ’’ایک بات کہیں بیٹا، پوری کردو گے؟‘‘
’’کہئے گنگا جی!‘‘
’’وچن دو ہمیں اگر ثریا مل جائےتو ایک بار بس ایک بار اسے ہمارے پاس ضرور لانا۔ بیٹی سمجھنے لگے تھے ہم اسے۔ ہمارے بھیا کے یہ دو بچے تھے ہمارے ہی پاس رہے۔ سسری گونگی تھی مگر بھول نہ سکیں گے اسے جیون بھر!‘‘ گنگا دھر رونے لگے۔ میرے بھی آنسو آگئے تھے۔ ان سے وعدہ کرکے میں اپنی منزل پر اتر گیا۔ اچھا ہوا تھا کہ اکرام کو ساتھ نہیں لے گیا تھا۔ اس سے اس بارے میں بات بھی نہیں کی تھی ورنہ اسے آس ہوجاتی۔ اسے کچھ بھی نہیں معلوم تھا، پتا چل جاتا تو اس کا نہ جانے کیا حال ہوتا۔ کمالے پہلوان کے گھر میں داخل ہوگیا۔ کمالے پہلوان موجود نہیں تھے۔ کچھ شاگرد اکھاڑے میں کام کررہے تھے۔ مجھے بڑے ادب سے سلام کیا۔ شاید کمالے پہلوان نے انہیں میرے بارے میں کچھ الٹا سیدھا بتا دیا تھا۔ اکرام کمرے میں موجود تھا، مجھے دیکھ کر بے اختیار مسکرا دیا۔ بڑی مشکل سے میں نے خود کو سنبھالا ورنہ دل تو اندر سے بری طرح زخمی تھا۔
’’کہاں ہو آئے مسعود بھائی…؟‘‘
’’بتایا تھا تمہیں۔ گنگا دھر جی سے ملاقات ہوگئی۔‘‘
’’اوہو، کام ہوگیا آپ کا…؟‘‘
’’ہاں!‘‘ میں نے تھکے تھکے انداز میں کہا اور اکرام ہنسنے لگا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو وہ بولا۔ ’’خورجے کب چلنا ہے مسعود بھائی…؟‘‘
’’کیوں… کیا بات ہے؟‘‘
’’کمالے پہلوان ہمیں کھلا کھلا کر ہلاک کردیں گے۔ بڑا دلچسپ نظریہ ہے ان کا!‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں نے بیٹھ کر پوچھ۔
’’کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں زمین پر اتاری ہیں، ان سے بہرہ ور ہونا ضروری ہے ورنہ روز قیامت ایک اور گناہ کا جواب دینا پڑے گا۔‘‘
’’کچھ اور کھلایا ہے؟‘‘ میرے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی کیونکہ صبح کا ہولناک ناشتہ مجھے یاد تھا جو استاد کمال الدین نے ہمیں ناک تک ٹھنسا دیا تھا۔
’’آپ کے جانے کے کچھ دیر کے بعد سرخ سرخ ٹماٹر نمک چھڑکے ہوئے سینی بھر کے لے آئے اور بیٹھ گئے کھلانے۔ کہنے لگے خون کی کمی پوری ہوتی ہے ٹماٹروں سے! بڑی مشکل سے خاصے ٹماٹر کھانے کے بعد پیچھا چھوڑا تھا کہ کچھ دیر کے بعد سیر سیر بھر کی شکرقندیوں کے ساتھ نازل ہوگئے۔ فرمایا کہ بھاڑ پر بھنوا کر منگوائی ہیں خاص طور سے ہمارے لئے۔ نہ کھانا گناہ بلکہ اگر زیادہ انکار کیا جائے تو دھوبی پاٹ مار کر چت کردیں اور سالم شکرقندی حلق میں اتار دیں۔ ایسے ہی تیور ہوتے ہیں ان کے کسی چیز کے کھانے سے انکار کرنے پر…!‘‘ ہنسے بغیر نہیں رہ سکا۔ اکرام نے کہا۔ ’’ہنس لیجئے آپ کیلئے بھی احکامات دے دیئے گئے ہیں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں نے سہم کر پوچھا۔
’’کافی بچ گئی تھیں مگر شاگردوں میں تقسیم کردی گئیں ساتھ ہی ایک شاگرد کو حکم دیا گیا کہ شبن بھڑبھونجے سے کہہ دے کہ شام کو کچھ اور شکرقندیاں بھون دے میاں صاحب کیلئے… ٹھنڈی ہوکر خراب ہوجاتی ہیں۔‘‘
’’واقعی خوب ہیں ہمارے پہلوان!‘‘
’’ماشاء اللہ ان کی خوراک بھی قیامت ہے حالانکہ جسامت ایسی نہیں مگر خوب کھاتے ہیں۔‘‘
تھکن ہوگئی تھی، اپنی بپتا کسی کو نہیں سنا سکتا تھا۔ دل پر بھاری بوجھ تھا۔ بھوریا چرن نے جوابی کارروائی کی تھی۔ نہ جانے بے چاری ثریا کس حال میں ہو۔ وہ جانتا تھا کہ اکرام میرے پاس ہے اور یقیناً اپنی داستان بھی سنائے گا اور اس کے بعد میں خورجے کا رخ ضرور کروں گا چنانچہ وہ ثریا کو لے گیا تھا۔ زیادہ دیر آرام نہیں کرسکا تھا کہ کمال الدین پہلوان کی دھاڑ سنائی دی۔
’’اماں آگئے کیا میاں صاحب…! ابے کچھ کھلایا پلایا میاں صاحب کو یا سوکھا ہی ڈال رکھا ہے؟‘‘ یہ الفاظ انہوں نے اپنے کسی شاگرد سے کہے تھے۔ پھر اندر آگئے تھے۔ ’’ملاقات ہوگئی میاں صاحب! گنگا دھر سے؟‘‘
’’جی پہلوان صاحب!‘‘
’’ایک خوشخبری لایا ہوں آپ کیلئے!‘‘
’’کیا پہلوان صاحب!‘‘
’’وہ تمنا خان پہلوان میرٹھ والے کو سنا ہے کبھی؟‘‘
’’نہیں…!‘‘
’’جادو ہے آواز میں، پاگل کردیتے ہیں سننے والے کو! کل شام کو آرہے ہیں۔ صوفی جبار کے ہاں قوالیوں کی محفل جمے گی۔ صوفی جبار کے پوتے کا عقیقہ ہے۔ بتایا تھا میں نے آپ کے بارے میں، بے چین ہوگئے ملنے کیلئے مگر انتظام میں لگے ہوئے ہیں، شام کو خود آئیں گے دعوت دینے۔‘‘ مجھے کچھ کہنے کا موقع دیئے بغیر انہوں نے کلائی الٹی کرکے گھڑی میں وقت دیکھا اور بولے۔ ’’ابے لو… کھانے کا ٹیم ہوگیا اور میں یہاں بیٹھا ہوں۔ کھانا لگواتا ہوں میاں صاحب، ہاتھ، منہ دھو کر تیار ہوجائو۔‘‘
کھانے سے فراغت پانے کے بعد اکرام نے پوچھا۔ ’’خورجے میں کب تک قیام کریں گے مسعود بھائی…؟‘‘
’’اب یہاں کوئی کام نہیں رہا ہمارا۔‘‘
’’کل عقیقے میں شرکت کریں گے؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’کمال الدین پہلوان چھوڑ دیں گے ہمیں؟‘‘
’’ہاں اکرام… یہ مشکل پیش آئے گی مگر اس کا یہی حل ہے کہ خاموشی سے نکل جایا جائے۔‘‘
’’اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا؟‘‘ اکرام نے کہا۔ میں خاموشی سے کچھ سوچتا رہا پھر میں نے اسے مخاطب کیا۔ ’’اکرام… تمہارا اب کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’کیا ہوسکتا ہے بھائی… میری زندگی تو کھلی کتاب ہے۔ بہن کی تلاش کی حسرت ہے، وہ مل جائے تو جینے کی سوچوں ورنہ زندگی کا اور کیا مقصد ہوسکتا ہے۔‘‘
’’میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں اکرام…؟‘‘ میں نے کہا اور وہ چونک کر مجھے دیکھنے لگا۔ پھر آنکھوں میں آنسو بھر کر بولا۔
’’مجھے خود سے جدا کرنا چاہتے ہیں مسعود بھائی…؟‘‘
’’یہ تو کرنا پڑے گا اکرام… تم میرا ساتھ کہاں دو گے۔‘‘ میں نے کہا اور وہ چھلک پڑا پھر ہچکیاں لیتے ہوئے بولا۔
’’میرا بھی تو دنیا میں کوئی نہیں بھائی… کوئی منزل بھی نہیں ہے میری، کوئی نشان بھی نہیں ہے کہ بہن کو تلاش کروں۔ بھٹکنا ہی ہے مجھے، اپنے ساتھ رہنے دیں مجھے بھائی۔ جہاں بھی جائیں، آپ کے ساتھ چلوں گا،
کبھی آپ کے کسی کام میں دخل نہیں دوں گا۔ آپ کا ہر حکم چھوٹے بھائی کی طرح بجا لائوں گا۔ آپ پر کبھی بوجھ نہیں بنوں گا۔ میں اکیلا کیسے جی سکتا ہوں۔‘‘ وہ زاروقطار رونے لگا اور میرا دل بھی بھر آیا۔ میں نے اسے سینے سے لگا کر کہا۔
’’تجھے میرا غم نہیں معلوم اکرام… تجھے میرے بارے میں کچھ نہیں معلوم میرے بھائی، میں بھی سینے میں طوفان چھپائے پھر رہا ہوں۔ میرا بھی بہت کچھ کھو گیا ہے۔ اتنا کچھ کھو گیا ہے کہ تو تصور بھی نہیں کرسکتا۔ میرے سینے میں بھی زخم ہی زخم ہیں مگر میرے لئے کچھ ہدایات ہیں۔ آہ! میں، میں ابھی تجھ سے کوئی وعدہ نہیں کرسکتا۔ میرا دل تیرے لئے دکھا ہوا ہے لیکن شاید میرے پاس تیرے درد کا درماں نہ ہو۔ خیر اللہ مالک ہے۔ دیکھیں گے، سوچیں گے کہ کیا کرنا چاہئے۔ تو اپنی بہن کو تلاش نہیں کرے گا؟‘‘
’’کہاں تلاش کروں؟ اتنا بے دست و پا ہوں کہ کوئی فیصلہ ہی نہیں کرسکتا۔ ہاتھ بندھے ہوئے ہیں میرے، پیر بندھے ہوئے ہیں، کوئی منزل نہیں ہے میرے سامنے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ دیکھو بھائی! اگر تم نے مجھے تنہا چھوڑ دیا تو مر جائوں گا۔ میں مجھےسہارا درکار ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کا سہارا بنے رہیں تو کیا حرج ہے۔ وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے کسی کام میں کبھی مداخلت نہیں کروں گا۔ کبھی تمہیں شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔‘‘ میں نے اکرام کا شانہ تھپتھپایا حالانکہ اپنے طور پر میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکا تھا، کہاں ساتھ لئے پھرتا اسے۔ بے چاری ثریا، بھوریا چرن کے قبضے میں تھی۔ ہاں بھوریا چرن کا جب بھی سامنا ہوا، میں اس مظلوم لڑکی کو اس کے چنگل سے آزاد کرانے کی کوشش کروں گا لیکن اس کے بعد، اس کے بعد کیا ہوگا؟اس دوران اکرام نجانے کہاں سے کہاں نکل جائے۔ جی سکے یا نہ جی سکے۔ بیچارے کمالے پہلوان اپنی عادت سے مجبور تھے، نچلا بیٹھنا ہی نہیں آتا تھا۔ خاطرمدارات کے چکر میں دیوانے ہوگئے تھے۔ کچھ سوچنے سمجھنے نہ دیا۔ ایک بار پھر نازل ہوئے۔ اس بار ایک بڑی سی سینی میں گنڈیریاں اور سنگھاڑے رکھے ہوئے تھے۔ لاکر ہمارے سامنے رکھ دیئے۔
’’کالی تال کے سنگھاڑے ہیں۔ کیوڑے کے رس گلے کھا کر دیکھو، کمرے بھر میں خوشبو نہ پھیل جائے تو ہمارا نام کمالے پہلوان نہیں ہے اور یہ گنے لالہ بنواری لعل کے کھیت کے ہیں جن کی ہم نے گنڈیریاں کتروائی ہیں آپ کیلئے میاں صاحب… چلو شروع ہوجائو، دیر نہ کرو۔‘‘
’’کمالے پہلوان، ابھی تو کھانا کھایا ہے۔‘‘
’’اماں تو کھانے کے بعد ہی کی تو چیز ہے یہ۔ چلو چلو تکلف نہ کرو۔ کچھ بھی ہے جوان تو ہو، یہی کھانے پینے کی عمر ہوتی ہے۔ اس عمر میں نہ کھایا تو پھر کیا بڑھاپے میں کھائو گے۔ جب منہ میں دانت ہوں گے، نہ پیٹ میں آنت…! چلو بھائی شروع ہوجائو۔ تم کیسے ہو شکل دیکھنے لگتے ہو کھانے پینے کی چیزیں دیکھ کر… جب ہم جوان تھے ناں تو بس یوں سمجھ لو، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کسے کھا جائیں۔‘‘
بہرحال کمالے پہلوان کا انداز ایسا تھا کہ پھر کچھ دیر کیلئے ذہن سےسارے خیالات ہٹ گئے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اکرام کا تو دم نکلنے لگا تھا اب کمالے پہلوان کی صورت دیکھ دیکھ کر۔ ہم نے ان کے کہنے سے کچھ گنڈیریاں اٹھا لیں اور انہیں چبانے لگے۔ کمالے پہلوان گنڈیریوں کی افادیت پر لیکچر دینے لگے تھے جو مسوڑھوں اور دانتوں کے بارے میں تھا۔ پھر اللہ کے فضل سے کسی نے انہیں باہر سے آواز دے لی اور وہ چلے گئے۔ اکرام خاموش خاموش تھا۔ میں نے بھی کوئی گفتگو نہیں کی۔ بہرحال مسئلہ تو گمبھیر تھا اور اس بارے میں فیصلہ کرنا میرے لئے بھی مشکل… ہاں میں نے یہ ضرور سوچ لیا تھا کہ اب مدد طلب کئے بغیر چارئہ کار نہیں ہے۔ مجھے ہدایات ضرور لینا پڑیں گی اور اس کیلئے کشف کرنا پڑے گا۔ وہ عام بات نہیں تھی جس کا فوراً ہی فیصلہ کرلیا جائے چنانچہ گنڈیریاں اور سنگھاڑے مصیبت بنے رہے اور اس کے بعد کمالے پہلوان ایک بار پھر آگئے۔
’’اماں ایک خوشخبری سنائیں آپ کو میاں، صبح گنے کا رس نکلوایا ہے۔ رساول پکا رہی ہے گھر والی، رات کے کھانے میں مزہ آئے گا۔ میں نے کہہ دیا ہے کہ ساتھ میں گوبھی گوشت پکا لے، کیسا رہے گا؟‘‘
’’بہت اچھا!‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ اب ساری توجہ اس بات پر ہوگئی تھی کہ اکرام کو ساتھ رکھا جائے یا نہیں! خود کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ رساول اور گوبھی گوشت معدے میں ٹھونسنا پڑا۔ میزبان کی دل آزاری بھی گناہ تھی۔ پھر جب رات بھیگ گئی، اکرام سو گیا تو اٹھ کر وضو کیا۔ ایک گوشہ منتخب کرکے بیٹھ گیا۔ درود پاک کا ورد مبارک کیا، رہنمائی کی دعا مانگی اور انتظار کرنے لگا۔ ملعون بھوریا چرن ایک بڑی سی مکڑی کی شکل میں نظر آیا۔ زمین سے آسمان تک اس نے جالا تان رکھا تھا اور بڑے بڑے بدنما پیروں سے اس پر دوڑ رہا تھا۔ اس کی سرخ آنکھیں کسی خاص سمت دیکھ رہی تھیں۔ میں نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا تو دور سے اکرام نظر آیا۔ وہ حیران پریشان اس جالے کے تاروں پر چل رہا تھا۔ اس کے بھٹکے قدم کبھی ایک سمت اٹھتے کبھی دوسری سمت… مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ اکرام کو شکار کرنا چاہتا ہے اپنے گھنائونے مقصد کیلئے۔ ظاہر ہے وہ میرے ذریعے اس مقصد کی تکمیل میں ناکام رہا تھا اور اب اکرام اس کی امید کا مرکز تھا۔ وہ آسانی سے اسے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس کیلئے وہ سب کچھ کرے گا۔ پھر میں نے اسے اکرام کے عقب میں پہنچتے دیکھا۔ اکرام اس کی گرفت میں آنے والا تھا۔ اچانک ہی میں نے آگے بڑھ کر اکرام کا ہاتھ پکڑ لیا اور بھوریا چرن مجھے دیکھ کر واپس بھاگ گیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ منظر ختم ہوگیا۔ یہ گویا اکرام کو ساتھ رکھنے کی اجازت تھی۔ میں نے اسے ذہن نشین کرلیا۔ اس کے بعد پھر ذہن میں ریل چلنے لگی۔ میں خود کو ریل میں سفر کرتا محسوس کررہا تھا۔ باہر مناظر دوڑ رہے تھے، اسٹیشن آرہے تھے اور ٹرین ان سے گزر رہی تھی۔ پھر ٹرین کی رفتار سست ہونے لگی اور وہ رک گئی۔ اسٹیشن کا بورڈ نظر آرہا تھا۔ اس پر جوالا پور لکھا ہوا تھا۔ میں خاموشی سے ٹرین میں بیٹھا رہا پھر ایک آواز سنائی دی۔ آخری اسٹیشن ہے، تمام مسافر اتر جائیں، آخری اسٹیشن ہے۔ میں خود بھی نیچے اتر آیا۔ پورا اسٹیشن خالی پڑا ہوا تھا۔ آدم نہ آدم زاد… چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میں حیران پریشان کھڑا ادھر ادھر نظریں دوڑا رہا تھا۔ پھر میں اسٹیشن سے باہر جانے والے راستے پر چل پڑا۔ باہر نکلا تو کسی گھوڑے کے ناک سے آوازیں نکالنے کی آواز سنائی دی۔ پورے اسٹیشن پر ایک تانگہ نظر آرہا تھا۔ تانگے بان سامنے کے حصے میں کمبل اوڑھے بیٹھا تھا۔ چاروں طرف ملگجا سا اجالا پھیلا ہوا تھا۔ میرے قدم تانگے کی طرف بڑھ گئے اور تانگے والے نے کمبل اتار دیا۔ ایک سفید ریش بوڑھا شخص تھا۔ مجھے دیکھ کر بولا۔ جلدی کرو، دیر ہورہی ہے۔ میں جلدی سے تانگے میں بیٹھ گیا اور تانگے والا تانگہ ہانکنے لگا۔ بہت لمبا راستہ طے کرنا پڑا اور تانگہ ایک پرانی مسجد کے سامنے رک گیا۔ فجر ہوچکی تھی اور میرے کشف کا اختتام بھی…مجھے میرے آئندہ عمل کی نشاندہی کردی گئی تھی۔ اذان کی تکرار کرتا ہوا اٹھ گیا۔ اکرام کو بھی جگانا تھا۔ دل کو بے انتہا سکون کا احساس تھا۔ گویا میرے راستے اطمینان بخش ہیں۔
اکرام معصوم بچوں کی طرح سو رہا تھا۔ اس کے قریب پہنچ کر میں نے اس کا چہرہ دیکھا اور دل پھر بُری طرح دھڑک اُٹھا۔ کبھی غور نہیں کیا تھا اس پر، کبھی نگاہ نہیں جمائی تھی لیکن اس وقت غور کیا تو اس کے چہرے میں ثریا کی شباہت نظر آئی۔ بہت مماثلت تھی بہن بھائی کے چہرے میں۔ دل میں ہوک اُٹھی۔ ثریا کی آنکھیں یاد آئیں، ان آنکھوں میں سب کچھ تھا۔ وہ اپنی ذات میں مکمل تھی۔ بس اس سے، اس کا اپنا آپ چھین لیا گیا تھا۔ اسے کچھ نہ رہنے دیا تھا اس شیطان نے۔ کتنے لوگ اس کے ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔ کتنی دلدوز کہانیاں جنم دی ہیں اس نے۔ اس ناپاک علم نے نجانے کہاں کہاں کس کس کو کیا کیا نقصانات پہنچائے ہیں۔ یہ سفلی علوم کتنے خاندانوں کی بربادی کا باعث بنے ہیں لیکن بہرحال شیطان کو آزادی دی گئی ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو گمراہ کرے اور جو صاحب ِایمان ہیں وہ اس سے اپنا بچائو کریں۔ اللہ نے ان کیلئے تحفظ قائم کیا ہے، مگر اس کا توڑ مکمل ہونا چاہئے۔ کم از کم ان لوگوں کو ظلم کا شکار نہیں ہونا چاہئے جو کالے جادو کا توڑ نہیں جانتے۔ اس کیلئے کون سا ایسا عمل ہو جو بروئے کار لایا جائے سوائے اس کے کہ کہیں کسی سفلی علم کے ماہر کو دیکھا جائے اور اسے فنا کر دیا جائے، یقیناً یہ گناہ نہیں تھا۔ میں مقدور بھر کوشش کر سکتا تھا اس سلسلے میں، بلکہ مجھے اس کوشش کا آغاز فوراً کر دینا چاہئے تھا۔ آہ بے چاری ثریا مزار پرجا کر دُعائیں مانگتی تھی۔ رو رو کر فریادیں کرتی تھیں راتوں کو اُٹھ کر نمازیں پڑھتی تھی، یقینی طور پر اس کے ہاتھ اپنے بھائی کی زندگی کے لیے پھیلتے ہوں گے۔ اس کی مصیبتوں کے خاتمے کے لیے وہ بے زبانی کے انداز میں دُعائیں مانگتی ہوگی اور ظاہر ہے بھائی کے علاوہ اور کون اس کی محبتوں کا محور ہوتا۔ اکرام کا جو معاملہ جہاں تھا بھوریا چرن اس کی تاک میں تھا اور بے چارہ معصوم نوجوان اس شیطان کی شیطینت سے اپنا بچائو کیسے کر سکتا تھا۔ جس قدر اس کے بس میں تھا اس نے مدافعت کی تھی پھر اس کی مدافعت دَم توڑ گئی تھی اور وہ بحالت مجبوری اس کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے آمادہ ہوگیا تھا۔ لیکن اللہ کو منظور نہیں تھا کہ ایک صاحب تقدیس کے مزار کی بے حرمتی کرائی جائے سو اس نے رہنمائی فرما دی۔
لیکن اب کچھ تبدیلیاں ہونی چاہئیں۔ بھوریا چرن اب تک وار کرتا رہا ہے، اب میری طرف سے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ مجھے اس کا تعاقب کرنا چاہئے اور اس کی شیطینت کو ختم کرنے کے لیے رہنمائی طلب کرنی چاہئے۔ ذہن عجیب و غریب احساسات میں بٹا رہا۔ اکرام کے چہرے کے نقوش میں ثریا کی شباہت نظر آئی اور دل کی جو حالت ہوئی اس نے مجھے یہ احساس دلایا کہ ثریا کو بھولنا میرے لیے ممکن نہیں ہے حالانکہ مجھے اجازت نہیں دی گئی تھی… لیکن اپنے اس دل کو کیا کرتا جس میں لمحہ لمحہ وہ نقوش اُجاگر ہو جاتے تھے۔ دُعائیں بھی مانگی تھیں میں نے اس کے لیے کہ میرا دل اس کے تصور سے آزاد ہو جائے، لیکن ہر بار کچھ کچوکے دل پر لگ جاتے تھے۔ آہ رُکمنی نے بتایا تھا کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے، اس نے بڑے ٹھوس لہجے میں کہا تھا کہ عورت کو عورت جانتی ہے، اس نے کہا تھا کہ میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ تمہیں چاہنے لگی تھی۔ ایسی افسردہ سی رہتی تھی جیسے اس سے کوئی بہت ہی قیمتی شے چھن گئی ہو۔ میں نے ایک بار تمہارا نام لے دیا تھا اس کے سامنے اور اس سے پوچھا تھا کہ کیا وہ تمہیں چاہنے لگی ہےتو ایسی بلک بلک کے روئی تھی کہ دل پھٹنے لگا تھا، بھگوان کی سوگند مسعود وہ تمہیں چاہنے لگی تھی۔ رکمنی کے ان الفاظ نے دل میں گہرے زخم ڈالے دئے تھے۔ مگر کیا کر سکتا تھا اس کے لیے، کیا کر سکتا ہوں؟
دفعتاً چونکا، اذان ہو چکی تھی اور سپیدئہ سحر نمودار ہونے لگا تھا۔ نماز کی ادائیگی ہر چیز سے افضل ہے۔ جلدی سے اکرام کا پائوں پکڑ کر زور زور سے ہلایا اور وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ خوف زدہ نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ دیکھتا رہا، پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ ’’جی مسعود بھیّا۔ کوئی بات ہوگئی کیا…!‘‘
’’ہاں نماز کا وقت ہوگیا ہے اور دیر ہو رہی ہے جلدی اُٹھو…‘‘ اکرام نے پھرتی سے پلنگ پر سے چھلانگ لگا دی تھی اور اس کے بعد ہم دونوں نماز میں مصروف ہوگئے۔
نماز سے فراغت حاصل ہوگئی۔ اب ایک دلچسپ مرحلہ پیش آنے والا تھا۔ یعنی ناشتہ…کمالے پہلوان کی زندگی میں غالباً یہی مرحلہ سب سے زیادہ اہم تھا۔ میں نے مسکراتی نگاہوں سے اکرام کا چہرہ دیکھا۔ میرا اندازہ تھا کہ وہ بھی اس وقت اس بارے میں سوچ رہا ہوگا لیکن میں نے اس کے چہرے پر مردنی پائی اور ایک لمحے کے لیے اس مردنی کی وجہ سمجھ نہ سکا لیکن دُوسرے لمحے مجھے اندازہ ہوگیا کہ اکرام اب کیا سوچ رہا ہے، اور میرے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ پھیل گئی…!
’’غالباً تم کمالے پہلوان کے بارے میں سوچ رہے ہو، جو ناشتے کی خوفناک تیاریوں میں مصروف ہوں گے۔‘‘ میں نے انجان بن کر کہا اور اکرام کے ہونٹوں پر بھی پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’ہاں وہ ناشتہ بھی ہمیں خوفناک ہی کرائیں گے۔‘‘ اس نے مدھم سے لہجے میں کہا۔
’’کیا بات ہے، نیند نہیں پوری ہوئی…؟‘‘
’’نہیں مسعود بھائی ایسے ہی بس سوچ رہا تھا کہ اب نجانے آپ کا کیا اِرادہ ہو، بتائیں گے مجھے…؟‘‘
’’یہ تو طے کر چکے ہیں ہم اکرام کہ خاموشی سے خورجے سے نکل چلیں گے اور بلاشبہ یہ بری بات ہے، میزبان سے اجازت لینا ضروری ہےلیکن تم خود سمجھ لو، ہمیں یہ اجازت آسانی سے نہیں ملے گی لیکن اب زبردستی بھی یہاں پڑے رہنا مناسب نہیں ہوگا۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہے… واقعی اس طرح سے جانا ذرا افسوسناک ہوگا لیکن کمالے پہلوان سے ہم نے ذکر بھی کیا تو بگڑ جائیں گے اور ہو سکتا ہے ایک آدھ پٹخ لگا دیں۔‘‘ میں بھی ہنسنے لگا تھا، اکرام نے آہستہ سے کہا۔ ’’مسعود بھائی میرے بارے میں کیا سوچا۔ ایک بار پھر آپ سے وہی عرض کر رہا ہوں، آپ یقین کیجئے میں آپ کی غلامی کروں گا۔ کسی بھی مشکل میں آپ پر بار نہیں بنوں گا۔ محنت مزدوری کر کے اللہ کا عطا کیا ہوا رزق حاصل کروں گا۔ دونوں مل کرکھائیں گے، بس مجھے اپنے ساتھ رہنے دیں۔ آپ جہاں بھی جائیں گے اس پر اعتراض نہیں کروں گا۔ آپ کا جو بھی مشغلہ ہوگا اس میں مداخلت نہیں کروں گا، بس مجھے اپنے ساتھ رہنے دیجئے… مسعود بھائی مجھے اپنے ساتھ رہنے دیں۔‘‘ ٹھیک ہے اکرام میں تمہیں خود سے جدا نہیں کروں گا۔ اکرام کی آنکھوں میں خوشی کےآنسو آ گئے تھے۔ ’’وہ دیر تک آنسو بہاتا رہا اور میں نے اس کےآنسو خشک کر دیئے۔‘‘
’’نہیں اکرام میرے بھائی نہ رو، میرا دل دُکھتا ہے تمہارے لیے۔ براہ کرم نہ رو…‘‘ اکرام خاموش ہوگیا۔ اس نے دُکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا، زندگی طویل ہوتی ہے اور مسائل اس قدر کہ جینے کو جی نہیں چاہتا ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیسے جیا جائے…؟‘‘
’’نہیں زندگی اللہ کی عطا کی ہوئی ہوتی ہے اور ہمیں جینا ہوتا ہے۔‘‘ ابھی ہم یہی گفتگو کررہے تھے کہ کمالے پہلوان کی آواز سنائی دی۔
’’اَماں جاگ گئے کیا…ہم تو پہلے ہی سمجھ رہے تھے کہ بھلا تم اور نہ جاگے ہوگے۔‘‘ وہ اندر آ گئے اور ہم سے سلام دُعا کرنے لگے پھر بولے۔
’’مجھے تو نکل جانا ہے، عقیقے کی تیاریوں میں، اَماں دوستی تو نبھانی ہی پڑتی ہے۔ بس کیا کیا جائے، ذرا جلدی سے ناشتہ وغیرہ کر لیتے ہیں۔ میں نے ذرا جلدی تیاریاں کرا لی ہیں کیا خیال ہے…؟‘‘
’’جیسا آپ کا حکم ہو کمالے پہلوان۔‘‘میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اکرام بھی مسکرانے لگا تھا۔ ناشتہ آ گیا اور ہماری توقع کے مطابق ہی تھا، خاموشی سے ناشتہ کیا۔ کمالے پہلوان بولے۔
’’اَماں محسوس نہ کرئیو، دوستی کا معاملہ ہے، صبح ہی صبح نکل جانا پڑے گا اپنے سارے پٹھوں کے ساتھ، دوپہر کو ملاقات ہوگی۔ تم بھی گھوم پھر آنا خورجے میں، بڑھیا جگہ ہے، ابھی تم نے اسے دیکھا ہی کہاں ہے۔‘‘
’’جی کمالے پہلوان۔‘‘ میں نے کہا شکر ہے انہوں نے نہ کوئی اقرار لیا اور نہ ہی کوئی ایسی بات کہی جو بعد میں ہمارے لیے وعدہ خلافی کا باعث بن جاتی۔ پھر وہ چلے گئے۔ یہ بھی شکر تھا کہ ان کی غیرموجودگی میں ہمیں نکلنے کا موقع بآسانی مل جائے گا۔ اکرام کو ابھی میں نے اپنا پروگرام نہیں بتایا تھا۔ لیکن جب مکمل طور پر کمالے پہلوان کےچلے جانے کا اطمینان ہوگیا تو میں نے اس سے کہا۔ ’’ہمیں یہاں اور کوئی کام تو نہیں ہے اکرام۔‘‘
’’یہ تو آپ بتایئے مسعود بھیّا، میں تو زندگی میں پہلی بار یہاں آیا ہوں۔ بس نام سنا تھا اس شہر کا دیکھا پہلی بار ہے۔‘‘ اکرام نے سادگی سے کہا۔
’’مجھے افسوس ہےکمالے پہلوان کے سلسلے میں، لیکن بہرحال جانا ہے۔ تیاریاں کرو، ممکن ہے ان کا کوئی ہرکارہ ہی یہاں پہنچ جائے یا پھر صوفی جبار بنفس نفیس ہمیں دعوت دینے نہ آ جائیں۔‘‘ اکرام تیار ہوگیا۔ اُستاد اپنے تمام پٹھوں کے ساتھ گئے ہوئے تھے اس لیے کسی سے کچھ کہنا بھی نہیں پڑا؎ اور میں اکرام کے ساتھ بار نکل آیا۔ گنگادھر یاد آئے لیکن اب سب بیکار تھا اب تو جوالا پور ذہن پر سوار تھا۔
’’کسی سے ریلوے اسٹیشن کے بارے میں معلوم کرو…‘‘ میں نے اکرام سے کہا، عقب سے آواز آئی۔
’’دو سواری ٹیشن، دو سواری ٹیشن۔‘‘ تانگہ تھا چندافراد اس میں بیٹھےہوئے تھے۔ ہم دونوں بھی بیٹھ گئے اور پھر اسٹیشن پر جا اُترے۔ اکرام سر جھکائے میرے ساتھ تھا۔ اس نے کچھ بھی نہیں پوچھا کہ کہاں جا رہا ہوں۔ بکنگ سے میں نے جوالاپور کے بارے میں پوچھا۔
’’جوالاپور چھوٹا اسٹیشن ہے۔ تمہیں ٹونڈلا جانا پڑے گا۔ وہاں سے گاڑی جوالاپور کے لیے مل سکتی ہے۔‘‘ بکنگ کلرک نے بتایا۔ میں نے اس سے دو ٹکٹ طلب کر لیے اور بڑے اعتماد سے جیب میں ہاتھ ڈال کر مطلوبہ رقم نکالی اور اس کے حوالے کر دی۔ ٹرین کے لیے ایک گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ پھر ٹرین آ گئی۔ جگہ کیوں نہ ملتی بلاوے پر جا رہے تھے۔ آرام سے ایک کمپارٹمنٹ میں بیٹھ گئے اور کچھ دیر کے بعد سفر جاری ہوگیا۔ اکرام اب مطمئن نظر آ رہا تھا۔ ٹونڈلے تک کوئی اہم واقعہ پیش نہیں آیا۔ وہاں اُترے پھر معلوم کر کے جوالاپور کے ٹکٹ خرید لیے۔ کوئی پانچ گھنٹے کا راستہ تھا۔ جوالاپور پہنچے تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ ٹرین دو منٹ سے زیادہ نہیں رُکی لیکن یہ پہلا ریلوے اسٹیشن دیکھا تھا جہاں پورے پلیٹ فارم پر ایک بھی انسان کا وجود نہیں تھا سوائے ان دو افراد کے جو ٹرین سے پلیٹ فارم پر اُترے تھے۔ ایک بزرگ تھے اور ایک برقعہ پوش خاتون۔ بزرگ کے پاس ٹین کا ایک صندوق تھا اور خاتون کےہاتھ میں بڑی سی ٹوکری۔ وہ صاحب خود ہکا بکا کھڑے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں انہیں مخاطب کرتا وہ خود ہی میری طرف متوجہ ہوگئے۔
’’عزیزی! زحمت دوں گا ذرا…‘‘ وہ چند قدم آگے بڑھےتو میں خود ان کے قریب پہنچ گیا۔ ’’یہ سب کچھ کیا ہے۔ کوئی سانحہ ہوگیا کیا…؟‘‘
’’میں خود حیران ہوں محترم، پورا پلیٹ فارم خالی پڑا ہے۔ یہاں تک کہ اسٹیشن ماسٹر کا کمرہ بھی۔‘‘ میں نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’خدا خیر کرے، آثار کچھ بہتر نہیں ہیں۔ آپ بھی جوالاپور میں اجنبی ہیں؟‘‘ بزرگ بولے۔
’’جی ہاں، پہلی بار آیا ہوں۔‘‘
’’تب تو صورت حال آپ کے لیے بھی اتنی ہی پریشان کن ہے۔ یہاں کون ہے آپ کا؟‘‘
’’کوئی نہیں۔‘‘
’’پھر آمد کیسے ہوئی؟‘‘
’’بس اتفاقیہ۔‘‘
’’عجب ہُو کا عالم ہے، ٹرین بھی روانہ ہو چکی ہے۔ نہ جانے کیا قصہ ہے۔ رات بھر کوئی اور ٹرین بھی نہیں آئے گی کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ بھی بہتر ہے کہ آپ کا…‘‘ بزرگ نے جملہ اَدھورا چھوڑ دیا۔ پھر کچھ رُک کر بولے ’’حضور کا اسم شریف…؟‘‘
’’مسعود۔‘‘
’’الحمد للہ مسلمان ہیں۔ آپ کے ساتھی بھی مسلمان ہیں؟‘‘
’’جی… اس کا نام اکرام احمد ہے۔‘‘
’’احقر کو غلام سبحانی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ لکھنؤ سے آیا ہوں میرے ساتھ اہلیہ ہیں۔ یہاں میری بیٹی رہتی ہے، نورچشم ضمیرالدین میرے داماد ہیں، دُکان کرتے ہیں بساط خانے کی۔ بچوں سے ملنے آیا تھا۔ ویسے آثار کچھ بہتر نہیں ہیں، ضمیر میاں نے لکھا تھا کہ پچھلے کچھ عرصے سے بڑی ریشہ دوانیاں ہو رہی ہیں۔ کچھ متعصب ہندو فساد کے درپے ہیں۔ مگر کوئی تازہ خبر نہیں تھی۔ ورنہ نہ آتا۔ اب کیا کیا جائے۔‘‘
’’آیئے دیکھیں کیا قصہ ہے۔‘‘ میں نے کہا اور آگے بڑھ کر صندوق بزرگ کے ہاتھ سے لے لیا۔
’’رب العزت صحت و زندگی قائم رکھے۔ ہم نے سوچاتھا کہ قلی وغیرہ مل جائیں گے۔ بڑی ناگہانی پڑی ہے۔‘‘ بزرگ نے پریشان لہجے میں کہا۔ اکرام نے خاتون کےہاتھ سے ٹوکری لی اور پھر صندوق میرے ہاتھ سے لینا چاہا مگر میں نے منع کر دیا۔ ہم سب آگے بڑھےاور اسٹیشن ماسٹر کے کمرے کے سامنے پہنچ گئے۔ کمرے کے دروازے کے باہر کی سفید دیوار پر خون کے بڑے بڑے دَھبّے نظر آ رہے تھے۔ زمین پر بہت سا خون پڑا ہوا تھا جسے دیکھ کر ہم سب ہی دہشت زدہ ہوگئے۔ بزرگ کے بدن میں تھرتھری دوڑ گئی تھی۔ وہ متوحش نظر آ رہے تھے۔
’’کوئی ہے… اندر کوئی ہے۔‘‘ میں نے آواز دی، اور پھر دروازہ کھول کراندر داخل ہوگیا۔ بلب روشن تھا اور اندر دو انسانی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ نہ جانے کون تھے۔ باہر نکل آیا خود کو پرسکون رکھنے کی انتہائی کوشش کی تھی۔
’’اندر کوئی ہے۔‘‘ بزرگ آگے بڑھے تو میں نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر انہیں روک دیا۔ ’’آیئے باہر چلیں۔‘‘
’’یہاں ہمیں تو چکر آ رہا ہے خدا کے لیے ہمیں سنبھالو، کیا کریں ہم سمجھ میں نہیں آ رہا۔ آہ اب کیا ہوگا۔‘‘ غلام سبحانی بہت نروس ہوگئے تھے۔ میں انہیں سہارا دے کر باہر لایا۔ باہر بھی وہی کیفیت تھی مگر ہم دو قدم آگے بڑھے تھے کہ کسی گاڑی کی روشنیاں نظر آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہمارے پاس آ گئی۔ پولیس کی بڑی سی جیپ تھی جو ہمارے قریب آ کر رُک گئی۔ اس میں سے پولیس کے کئی جوان نیچے اُتر آئے۔ ان میں سے ایک نے کرخت لہجے میں پوچھا۔ ’’کون ہیں آپ لوگ؟‘‘
’’مسافر ہیں، ریل سے اُترے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’موت آئی ہے آپ لوگوں کی، یہاں فساد ہو رہا ہے اور آپ کو سفر کی سوجھی ہے۔ کہاں سے آئے ہیں آپ؟‘‘
’’لکھنؤ سے۔‘‘ غلام سبحانی نے جواب دیا۔
’’ٹکٹ ہیں آپ کے پاس؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’کون سے محلے جانا ہے؟‘‘
’’کاچھی نگریا۔ مکان نمبر بارہ سو اٹھانوے۔ عزیزی ضمیرالدین…‘‘
’’یار فیض اللہ۔ میں اندر جاتا ہوں تم ان چاروں کو کاچھی نگریا چھوڑ آئو ورنہ مارے جائیں گے بے چارے۔‘‘
’’ٹھیک ہے سر… میں جاتا ہوں۔ آئو بھئی۔‘‘ ہم خاموشی سے آگے بڑھ گئے۔ بزرگ نے میرے کان میں سرگوشی کی۔
’’بالکل خاموش رہنا، خود کو ہم سے جدا نہ بتانا۔ اس وقت موقع بھی نہیں تھا کسی تکلف کا چنانچہ ہم خاموشی سے بیٹھ گئے۔ دو پولیس والے ہمارے ساتھ تھے۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر ہندو ہوتے تو صورت حال مختلف ہوتی۔ گاڑی چل پڑی۔ اسٹیشن سے کچھ دُور ہی نکلے ہوں گے کہ شور شرابے کی آواز سنائی دی۔ پھر کچھ مشعلیں نظر آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک مکان سے شعلے اُٹھنے لگے۔ فیض اللہ اور دُوسرے کانسٹیبل نے رائفلیں سنبھالیں اور ہوائی فائر کرنے لگے۔ ڈرائیور نے گاڑی کی رفتار تیز کردی اور مشعلوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ فیض اللہ اور اس کا ساتھی مسلسل ہوائی فائر کر رہے تھے۔ اس نے شاید ڈرائیور سے کہا۔
’’رمضان اُستاد… گاڑی تیزی سے بھگا لینا۔ کسی نے برقعہ دیکھ لیا تو آفت مچ جائے گی۔ اَمّاں جی سر نیچے کر لو ذرا…‘‘ غلام سبحانی نے بیوی کی گردن سیٹوں میں دبا دی۔ مگر فسادی پولیس فائرنگ کی آواز سن کر بھاگ گئے تھے۔ گاڑی جلتے مکان کےقریب سے گزر گئی۔ اندر سے چیخ و پکار کی آوازیں آ رہی تھیں۔ بزرگ کپکپاتی آواز میں آیت الکرسی پڑھ رہے تھے اور میں سوچ میں گم تھا۔ جوالاپور، آخری اسٹیشن، مسجد، یقیناً کوئی ذمّے داری سونپی گئی ہے مجھے… اور سہارے بھی عطا کئے گئے ہیں ورنہ یہ لمحات بڑے پریشان کن ہوتے۔ اس فساد زدہ آبادی میں کہاں جاتے ہم دونوں…! پھر شاید مطلوبہ جگہ آگئی۔ فیض اللہ نے پوچھا۔
’’مکان پہچانتے ہو بابا جی…؟‘‘
’’ہاں، وہ سامنے سرخ اینٹوں والا۔‘‘غلام سبحانی نے اشارہ کیا اور گاڑی اس مکان کے سامنے جا رُکی۔ بہت وسیع مکان تھا۔ دُوسرے کانسٹیبل نے اُتر کر زور زور سے دروازہ بجایا مگر اندر سے آواز نہیں آئی۔
’’او خدا کےبندوں، مہمان آئے ہیں تمہارے۔ انہیں اندر بلا لو ڈرو مت…‘‘ میں نے محسوس کیا تھا کہ آس پاس کے مکانوں میں بھی آہٹیں ہونے لگی ہیں۔ مگر سرخ اینٹوں والے مکان کا دروازہ نہیں کھلا۔ پھر کسی دُوسرے مکان کی چھت سے آواز آئی۔
’’نعرئہ تکبیر…‘‘
’’اللہ اکبر۔‘‘ چاروں طرف سے آوازیں اُبل پڑیں۔ فیض اللہ اور دُوسرا کانسٹیبل چیخا۔
’’او خبردار… خبردار پولیس ہے کوئی حرکت نہ ہو۔ خبردار۔ اوباباجی نیچے اُترو خود آواز دو۔‘‘ فیض اللہ کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ بڑا عجیب ماحول تھا بڑی مشکل سے غلام سبحانی صاحب کو نیچے اُتارا گیا اور وہ دروازے پر پہنچ گئے۔ پھر انہوں نے لرزتی آواز میں کہا۔
’’میاں ضمیرالدین، ہم غلام سبحانی ہیں۔ تہمارے سسر، لکھنؤ سے آئے ہیں شومیٔ تقدیر… میاں تمہیں اللہ کا واسطہ دروازہ کھول دو۔‘‘ اچانک اندر سے آوازیں اُبھریں اور مضبوط دروازہ کھل گیا۔ پھر ایک آواز سنائی دی۔ ’’ارے، ابّا میاں آپ…‘‘ ایک توانا شخص باہر نکل آیا۔
’’امی بھی ہیں تمہاری۔ انہیں اُتارو۔‘‘
’’چلو جلدی کرو بھائی۔ واپس جانا ہے۔‘‘ ہم بھی نیچے اُتر آئے بزرگ نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم سب اندر داخل ہوگئے۔
’’ارے بھئی سنتی ہو… نورجہاں… ابّا میاں اور امی آئے ہیں لکھنؤ سے…‘‘ ضمیرالدین نے دروازہ بند کر کے آواز لگائی۔ مگر اندر سے کوئی آواز نہیں آئی تھی۔ ضمیرالدین کو اب ہمارا خیال آیا اور وہ ہمیں گھورتا ہوا بولا۔ ’’یہ کون ہیں ابّا میاں۔‘‘
’’یہ تعارف کا وقت ہے۔ آہ کس بُری گھڑی گھر سے نکلے تھے۔ پانی پلوائو ہمیں نیم جان ہیں۔‘‘
’’جی جی آیئے اندر آ جایئے۔ شکر ہے جلدبازی میں حملہ نہیں ہوگیا یہاں تو سب تیار بیٹھے ہیں۔ آیئے۔‘‘ ہم اندر داخل ہوگئے۔ وسیع و عریض دالان، لاتعداد کمرے، حویلی نما گھر تھا۔ ہمیں ایک وسیع کمرے میں لایا گیا۔ بیٹھنے کے لئے کہا گیا اور ہم بیٹھ گئے۔ ضمیرالدین نے کہا۔ ’’امی آپ آیئے اندر آیئے نورجہاں ڈری ہوئی ہیں، اس لیے ان کی آواز نہیں سنائی دی۔‘‘ برقعہ پوش خاتون اندر چلی گئیں۔ غلام سبحانی نے کہا۔
’’میاں قیامت ٹوٹی ہے۔ اسے کہتے ہیں ناگہانی۔ یہاں تو محاذ جنگ کھلاہوا ہے۔ سنو میاں ذرا بھی غیریت نہ سمجھنا۔ ہمارا تم سے تفصیلی تعارف نہیں ہے مگر انسان اور مسلمان ہونا کافی ہے۔ ویسے تمہارا کوئی شناسا ہے جوالاپور میں۔‘‘
’’نہیں ہے۔ لیکن بس ہمیں ایک رات اس چھت کے نیچے پناہ دلوا دیجئے صبح کو چلے جائیں گے۔‘‘
’’یعنی یہ ہماری محبت سے انحراف نہیں کیا، ہم تمہیں جانے دیں گے ایسے اور کیا تمہارا جانا مناسب ہوگا؟‘‘
’’آپ خود یہاں مہمان آئے ہیں محترم اور پھر ان حالات میں کسی پر بار بننا مناسب نہیں ہے۔‘‘
’’ہرگز نہیں تمہاری زندگی بھی تو ہمیں عزیز ہے۔ فاقے کرنے پڑے تو مل کر کریں گے۔ ہمیں تو بالکل علم نہیں تھا کہ جوالاپور اس طرح فسادات کی لپیٹ میں ہے۔ تم بھی یقیناً لاعلمی میں یہاں آ گئے ہوگے۔ اگر یہاں تمہاری شناسائی نہیں ہے تو بھلا کہاں جائو گے۔ یہاں لوگوں پر خون سوار ہے۔ یہ جنون فرو ہو جائے تو ہمیں بھی جانا ہے اور تمہیں بھی۔ اس لیے جانے کے موضوع کو تو دماغ سے نکال دو۔‘‘
کچھ دیر کے بعد دو خواتین اور ضمیرالدین اندر آگئے۔ ایک بیگم ضمیرالدین یعنی نورجہاں تھیں جن کا چہرہ دہشت سے سفید پڑا ہوا تھا۔ دُوسری غلام سبحانی کی اہلیہ یعنی نورجہاں کی والدہ تھیں۔ نورجہاں آگے بڑھ کر باپ سے لپٹ گئیں اور غلام سبحانی ان کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ پھر بولے۔
’’یہ کیا حال بنا لیا تم نے نورجہاں۔ اگر یہاں یہ حالات تھے تو گھر میں تالا لگا کر لکھنؤ آ جاتے۔ یہاں کیوں پڑے رہے، ہمیں کسی طرح خبر کر دیتے۔ بس اللہ نے بچا لیا ورنہ ہم تو گئے تھے۔ یہ دونوں بچّے نہ ملتے تو۔ تو اللہ جانے کیا ہوتا۔‘‘
’’اس کا موقع ہی کہاں ملا ابّامیاں۔ اس قدر اُمید ہی کہاں تھی وہ تو بس ہوگیا جو ہونا تھا۔‘‘ ضمیرالدین نے کہا۔
’’ابّامیاں کھانے کا بندوبست کروں، بھوک لگ رہی ہوگی، اتنا وقت گزر گیا ہے‘‘… نورجہاں نے کہا۔
’’کس نامعقول کو بھوک پیاس لگ رہی ہے، یہاں تو ان گناہ گار آنکھوں نے جو کچھ دیکھ لیا ہے اس سے پیٹ بھر گیا ہے۔ ارے ہاں مگر یہ دونوں بچّے بھی تو ہیں۔ بھئی تمہیں تکلیف تو کرنا پڑے گی اس وقت۔‘‘
’’نہیں محترم براہ کرم کوئی تکلیف نہیں کیجئے گا۔ ہم انتہائی عاجزی سے یہ درخواست کرتے ہیں۔‘‘
’’میاں کچھ کھائو گے پیئو گے نہیں کیا… نورجہاں کیا پکایا تھا دن میں…؟‘‘
’’ابّامیاں جان سولی پر اٹکی ہوئی ہے، کیا کھانا کیا پکانا۔ بے چارہ فخرو بھی بخار میں پڑا ہوا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں نا فخرو کو۔‘‘
’’تمہارا نوکر نا، کیوں نہیں جانتا۔‘‘
’’اس کے بھی بال بچّے خدا کا شکر ہے جوالاپور سے باہر گئے ہوئے ہیں، ہمارے پاس ہی رہ رہا ہے آج کل۔ ایک ریلوے بابو سے ملاقات تھی اس کی، اس سے کہلوا دیا ہے بچوں کو کہ ابھی واپس نہ آئیں۔‘‘
’’یہ کام تم لوگ بھی تو کر سکتے تھے۔‘‘
’’ہمیں تو موقع ہی نہ ملا ابّامیاں آپ یقین کیجئے حالات ایک دَم سے خراب ہوئے…‘‘
’’نورجہاں ہمت کرو بھئی، جائو اور کچھ نہیں تو چائے بنا لائو اور ساتھ میں جو کچھ بھی مل سکے۔‘‘ ضمیرالدین نے کہا۔
’’چائے کی حد تک ٹھیک ہے مگر آپ تو ویسے ہی بہت پریشان ہیں نورجہاں بہن…‘‘ میں نے کہا اور نورجہاں نے پہلی بار تجھے دیکھا۔ پھر خاموشی سے اُٹھ کر باہر نکل گئی۔ غلام سبحانی کی اہلیہ نے کہا۔ ’’یہ بچّے تو بالکل ہی اپنے لگنے لگے ہیں۔ بیٹا تم آئے کہاں سے ہو…؟‘‘
’’ٹونڈلہ سے سوار ہوئے تھے ریل میں، جوالاپور آنے کے لیے، یہاں اُترے تو یہ سب کچھ دیکھا…‘‘
’’مگر ضمیر میاں جوالاپور میں تو اس سے پہلے کبھی ایسا فساد نہیں ہوا تھا، چھوٹی موٹی واردات تو ہر جگہ ہی ہوتی رہتی ہے۔ جہاں چار برتن ہوتے ہیں کھڑکتے ہی رہتے ہیں۔ یہ ہوا کیا، فساد کس سلسلے میں ہوگیا…؟‘‘
’’بات بہت عرصے سے چل رہی تھی ابّامیاں۔ حالانکہ یہاں ہندو مسلمان سب ہی مل جل کر رہتے ہیں، لیکن جب سے گرج ناتھ سیوک یہاں آیا ہے اور اس نے چکر چلایا ہے، تعصب ہی تعصب پھیل گیا…‘‘
’’یہ گرج ناتھ سیوک کون ہے… پہلے کبھی نہیں سنا اس کا نام۔‘‘ غلام سبحانی نے کہا…
’’ایک ہندو سادھو ہے، کم بخت نجانے کہاں سے آن مرا ہمارے جوالاپور میں۔ آ کر آگ پھیلا دی۔ مایہ کنڈ کا پجاری کہلاتا ہے اور اس نے بابو مول چند پر قابو پا لیا ہے…‘‘
’’بابو مول چند… وہی زمیندار…؟‘‘
’’جی ہاں… کنور ریاست علی خان نے اس کی بڑائی پہلے بھی کبھی قبول نہیں کی۔ برابر کا درجہ ہے دونوں کا، جتنی زمینیں بابو مول چند کی ہیں اتنی ہی کنور ریاست علی خان کی ہیں۔ دونوں میں اچھی خاصی دوستی تھی۔ لیکن گرج ناتھ کی وجہ سے یہ دوستی اب دُشمنی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جتنا نقصان ہندوئوں نے مسلمانوں کا کیا ہے۔ اتنا ہی مسلمانوں نے ہندوئوں کا بھی کیا ہے۔ یہاں برابر کی ٹکر ہے لیکن بہرحال نقصان نقصان ہی ہے۔ جو لڑنے مرنے والے ہوتے ہیں وہ تو لڑ مر کر نکل بھاگتے ہیں جو اِکّا دُکّا بے چارے اِدھر اُدھر پھنس جاتے ہیں ان پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ بے گناہوں کا ہی نقصان ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ستّر، اَسّی آدمی مر چکے ہیں اور ہر گھر میں خوف کا بسیرا ہے۔‘‘
’’یہ کمینہ گرج ناتھ آخر چاہتا کیا ہے۔ کون ہے، کہاں سے آیا ہے…؟‘‘
کچھ نہیں معلوم، بس ایک ٹوٹا پھوٹا پرانا مندر تھا، وہیں آ کر آباد ہوگیا۔ مندر میں پوجا پاٹ نہیں ہوتی تھی، ساری دیواریں گری ہوئی تھیں لیکن پھر راتوں رات لوگوں نے دیکھا کہ وہ مندر پھر سے تعمیر ہوگیا ہے۔ یہ واقعی سچ ہے کیونکہ مندر کنور ریاست علی خان کی زمینوں میں آتا تھا اور اس لیے ٹوٹ پھوٹ گیا تھا کہ وہاں کنور ریاست علی خان نے اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس کے بجائے بابو مول چند نے ایک اور جگہ دے دی اور وہاں بڑا مندر تعمیر ہوگیا، لیکن گرج ناتھ سیوک نے راتوں رات یہ مندر تعمیر کرلیا۔ مجھے تو اچھا خاصا جادوگر معلوم ہوتا ہے وہ… ورنہ سب ہی نے مندر کو دیکھا اور حیران رہ گئے… کنور ریاست علی خان کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے مندر گرانے کا حکم دے دیا اور ان کے آدمی وہاں پہنچ گئے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مندر کی دیواروں پر کدالیں برسائی جاتی رہیں اور کدالیں اس پر پڑ پڑ کر اُچٹتی رہیں لیکن مندر کی دیواروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ تب گرج ناتھ سیوک سامنے آیا اور اس نے کہا کہ یہ جگہ مایا مکنڈ ہے اور یہاں مایا کنڈل تعمیر ہوگا۔ اس جگہ کو چھوڑ دیا جائے ورنہ نقصانات ہی نقصانات اُٹھانے پڑیں گے۔ کچھ ہندو بھی اس کے ہمنوا ہوگئے اور اس کی کرامت پر غور کرنے لگے لیکن کنور ریاست علی خان نے اپنے نمائندے بابو مول چند کے پاس بھیجے اور کہا کہ اس مسئلے کو روکیں… بابو مول چند پہلے تو ٹھنڈے دماغ سے اس کام کے لیے تیار ہوگئے۔ انہوں نے گرج ناتھ سیوک کو اپنے گھر بلا کر دعوت دی اور مندر کے بارے میں بات چیت کی لیکن اس کے بعد ان کا دماغ بھی پلٹ گیا اور انہوں نے کنور ریاست علی خان کو پیشکش کی کہ اگر وہ چاہیں تو یہ زمین ان کے ہاتھوں فروخت کر دیں تاکہ مندر قائم رہے۔ کنور ریاست علی خان نے بھی اس بات کو اپنی اَنا کا معاملہ بنا لیا اور کہنے لگے کہ اس مندر میں بھی پوجاپاٹ نہیں ہوگی اور لوگ آ جا نہیں سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے وہاں پہرہ لگوا دیا۔ بیشتر ہندو وہاں پوجا کرنے کے لئے گئے لیکن انہیں مار پیٹ کر بھگا دیا گیا۔ اس طرح بابو مول چند کا دماغ بھی پھر گیا اور انہوں نے دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دو مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی۔ مسلمانوں نے اس پر شدید احتجاج کیا۔ مندروں پر حملے بھی ہوئے اور بس یوں سمجھ لیجئے کہ یہ چھوٹے چھوٹے واقعات بڑھتے چلے گئے، جن کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ گلی گلی محلہ محلہ جہاں ہندو زیادہ تعداد میں ہیں وہاں مسلمانوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور جہاں مسلمان زیادہ تعداد میں ہیں وہاں ہندوئوں کے گھر لوٹ لیے گئے ہیں۔ یہ فساد بڑھتا ہی جا رہا ہے، سنا ہے بابو مول چند نے اب باہر کی بستیوں سے آدمی بلوائے ہیں تا کہ یہاں فساد بڑھایا جا سکے۔ وہ جادوگر کہتا ہے کہ پورے جوالاپور کو مایا کنڈل بنا دے گا۔ بڑی عجیب و غریب باتیں ہوئی ہیں۔ مسجدوں سے لائوڈ اسپیکرز چوری کر لئے گئے تاکہ اذان کی آوازیں باہر نہ آ سکیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں۔‘‘
’’اور وہ گرج ناتھ سیوک کہاں ہے…؟‘‘
’’مندر کا دروازہ بند کر کے بیٹھ گیا ہے، اصل بات یہی ہے کہ وہ جادوگر ہے اور ہندوئوں کا عقیدہ اس کے جادو کی جانب منتقل ہوتا جا رہا ہے یعنی یہ کہ کنور ریاست علی خان نے مندر تڑوانے کی ہرممکن کوشش کرلی لیکن مندر ٹوٹتا نہیں ہے۔ دروازہ بند ہے اور اس پر پتھر کی ایک بڑی سی سل لگوا دی گئی ہے جسے کدالوں سے بھی نہیں توڑا جا سکا۔ گرج ناتھ سیوک اندر موجود ہے۔ سنا ہے اسے کئی بار باہر بھی دیکھا گیا ہے لیکن کہاں سے باہر آتا ہے اس کا کوئی پتہ نہیں… بہرحال اب وہ اس مندر کو مایا مکنڈ کہتا ہے۔‘‘
’’ہوں، اس طرح تو اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوگا۔ حکومت نے کوئی قدم اُٹھایا۔‘‘
’’بس پولیس فسادات کو روکنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ ویسے زمینیں چونکہ ریاست علی خان کی ہیں اس لیے لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ جب قانون حرکت میں آئے گا تو بات ریاست علی خان کی مرضی کی ہوگی۔ وہ اپنی زمینیں نہیں بیچنا چاہتے، نہیں بیچیں گے۔ شاید کچھ گفت و شنید ہوئی تھی سرکاری حکام سے۔ انہوں نے سروے کے لئے ایک وفد بھی بھیجا تھا جس نے غالباً یہی رپورٹ دی کہ ہندوئوں کا عقیدہ بھی بڑا مضبوط ہے اس مندر کےبارے میں۔ نتیجہ فساد کےعلاوہ اور کچھ نہیں ہوگا چنانچہ امن و امان کے نام پر ریاست علی خان سے درخواست کی گئی کہ وہ یہ زمین فروخت کر دیں لیکن وہ بھی اس کے لیے تیار نہیں ہیں چنانچہ کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ یہ فساد بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہمارا محلہ بھی جنگ کے لیے تیار ہے۔ یہاں سارے کے سارے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ رہتے ہیں،جو خود آگے بڑھ کرکچھ نہیں کرتے لیکن اپنے محلے کے بچائو کے لیے انہوں نے معقول انتظامات کر رکھے ہیں۔ اب آپ دیکھئے نا کہ پولیس آئی تھی آپ کو لے کر۔ مگر محلے والے سمجھے کہ شاید ہندوئوں کی طرف سے کوئی کارروائی ہوئی ہے۔ نتیجے میں نعروں کی آوازیں آنے لگیں اور اگر کوئی ذرا سی بھی غلط فہمی ہو جاتی تو پتھرائو شروع ہو جاتا…‘‘
’’بس میاں، خدا نےبچا لیا آج ہمیں۔ ورنہ ہم میاں بیوی تو آج گئے تھے۔ ارے ان بچوں کا شکریہ نہیں ادا کیا تم نے…‘‘
’’آپ نے تعارف ہی نہیں کرایا ابّا میاں…‘‘
’’یہ مسعود میاں ہیں اور ان کا نام اکرام ہے۔ یہاں جوالاپور میں کسی کام سے آئے تھے بیچارے، خود بھی پھنس گئے۔ یہاں ان کا کوئی نہیں ہے۔ اب ظاہر ہے ان حالات میں جبکہ انہوں نے مجھے سہارا دیا تھا میں انہیں اپنے ساتھ نہ لے آتا تو کیا کرتا…؟‘‘
’’یہ تو آپ نےبہت اچھا کیا ہے ابّا میاں۔ بڑی خوشی سے ہم انہیں اپنے مہمان کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ اب ان حالات میں ظاہر ہے ان کا جو کام ہے وہ بھی نہیں ہوگا، چنانچہ خاموشی سے وقت گزارا جائے بلکہ اچھا ہے ذرا رونق ہوگئی آپ لوگوں کے آ جانے سے۔ ورنہ ان نورجہاں بیگم نے تو ناک میں دَم کر دیا ہے نہ کھاتی ہیں نہ پیتی ہیں، بس خوف کا شکار ہیں۔ ایک وہ بے چارہ فخرو ہے وہ بھی ان کا ساتھی ہے۔ دونوں ایک دُوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں خوف زدہ ہونے کا۔ اسے تو بخار آ گیا ہے ڈر کے مارے…‘‘
سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی واقعی ان حالات میں تو ان لوگوں کے لیے ہمارا آنا بہتر ہی ہوا لیکن میری مسکراہٹ میں کوئی اور بات بھی چھپی ہوئی تھی۔ میں نے گرج ناتھ سیوک کا نام سنا ہوا تھا، جو یہاں مایا مکنڈ نام کی چیز قائم کرنا چاہتا ہے اور اس نے ایک ایسا مندر بنا لیا ہے جس پر کدالیں اثر نہیں کرتیں۔ اس کا مقصد ہے کہ میرے شانوں پر پھر کچھ ذمّہ داریاں عائد کی گئی ہیں ورنہ جوالاپور ہی کا رُخ کیوں اختیار کرایا جاتا۔ صاف صاف اشارہ کیا گیا تھا کہ میں جوالاپور پہنچوں لیکن اس مسجد کے بارے میں ابھی تک کوئی علم نہیں ہوا تھا جو کسی ویرانے میں واقع تھی اور جس کی نشاندہی کی گئی تھی۔ میرے سفر کا اختتام عالم تصور میں وہیں ہوا تھا۔
نورجہاں بیگم نے چائے کے ساتھ خاصے لوازمات کا انتظام کر لیا تھا۔ ملازم فخرو بھی ساتھ تھا۔ اس نے سلام کیا اور غلام سبحانی اس کی مزاج پرسی کرنے لگے۔ پھر خاطر مدارات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چائے وغیرہ سے فراغت کے بعد ضمیرالدین نے کہا۔
’’مسعود میاں اور اکرام میاں، وہ جو کہا ہے کسی نے کہ چمگادڑ کے مہمان آئے اور اُلٹے لٹک گئے۔ اس وقت یہی کیفیت یہاں کی ہے۔ معبود کریم کے فضل و کرم سے اس غریب خانے میں کھانے پینے کی کمی بالکل نہیں ہے۔ گھر کے عقبی حصے کو میں نے ترکاری کا کھیت بنا دیا ہے چنانچہ مٹر کی بیلیں کدو اور لوکی کی بیلیں پھل پھول رہی ہیں۔ کوئی ستّر مرغیاں موجود ہیں جو انڈے اور گوشت کی ضرورت پوری کرتی ہیں۔ بقرعید کے لیے چار بکرے تیار ہیں۔ البتہ چائے کالی پی جائے گی کیونکہ دُودھ کا کال ہے۔ اناج بھی کئی ماہ کے لیے کافی ہے۔ اس لیے کھانے پینے کی تو کوئی مشکل نہیں ہوگی البتہ اگر بدبخت ہندوئوں نے ادھر حملہ کیا تو آپ دو جوان ہماری سپاہ میں ضرور شامل ہوں گے چنانچہ آیئے اور اپنی رہائش گاہ دیکھ لیجئے۔ دو بلّم، چھریاں اور لاٹھیاں آپ کو پیش کی جائیں گی۔‘‘
’’ہاں میاں آرام کرو۔ اللہ محفوظ رکھے۔‘‘ غلام سبحانی نے کہا۔ ہمیں حویلی نما مکان کے ایک وسیع کمرے میں پہنچا دیا گیا جہاں آرام کا مکمل بندو بست تھا۔ بلم اور لاٹھیاں وغیرہ بھی دے دی گئی تھیں۔ آرام کے لمحات ملے تو میں نے مسکراتے ہوئے اکرام کو دیکھا۔ ’’کہو اکرام میاں، لطف آ رہا ہے میرے ساتھ رہ کر…؟‘‘
’’بہت مسعود بھیّا۔‘‘ وہ بھی مسکرا کر بولا۔
’’تم بھی سر پھرے ہی لگتے ہو۔‘‘
’’نہیں مسعود بھیّا۔ اپنوں اور محبتوں سے محروم انسان ہوں۔ کون ہے میرا اس کائنات میں، بہن مشکلات میں گم ہوگئی ہے۔ تنہا رہ گیا تو جینا ناممکن ہوگا مگر مرنا نہیں چاہتا اور پھر آپ کے ساتھ رہ کر مجھے اس شیطان سے تحفظ حاصل ہے۔‘‘
’’ان حالات کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
’’جہاں آپ وہاں میں، حالات کیسے بھی ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا پھر بولا۔ ’’ویسے مسعود بھیّا میں تو آپ کا مرید بھی ہوں۔‘‘
’’مرید…؟‘‘ میں نے اسے حیرت سے دیکھا۔
’’ہاں دل و جان سے۔ کیا میں بھول سکتا ہوں کہ وہ منحوس اور کمینہ سفلی علم کا ماہر آپ سے خوفزدہ تھا۔ وہ سب کچھ کر سکتاہے مگر اپنے ناپاک علم سے آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس کی مکڑیاں آپ کے قائم کئے حصار کو نہیں عبور کر سکتیں۔ مسعود بھیّا آپ نے مجھے بھائی کہنے کی اجازت دی ہے ورنہ میں تو آپ کو مرشد کہتا۔ انسان ہوں یہ ساری باتیں نظرانداز تو نہیں کر سکتا۔ بھیّا انشاء اللہ آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ کبھی اپنی اوقات سے بڑھنے کی کوشش نہیں کروں گا یہ میرا وعدہ ہے۔ کوئی بات سمجھ میں نہ آئی تو اس کے بارے میں آپ سے کبھی سوال نہیں کروں گا۔ میں جانتا ہوں بھیّا کہ آپ خورجے بلاوجہ نہیں گئے ہوں گے اور جوالاپور بھی بلاوجہ نہیں آئے ہوں گے مگر یہ اللہ والوں کی باتیں ہیں ہم جیسوں کو ان کی کرید نہیں کرنی چاہئے حالانکہ آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ کا دل بھی دُکھا ہوا ہے۔ آپ کے دل میں زخم ہیں، داغ ہیں۔ دل بے چین ہوگیا تھا یہ سن کر، مگر میں نے کچھ نہیں پوچھا اور بھیّا خدا کی قسم کبھی نہیں پوچھوں گا۔ آپ مجھے اپنے قدموں کی خاک تصور کریں۔ جہاں آپ وہاں میں مجھے کیا غم ہو سکتا ہے۔‘‘
میں خاموش ہوگیا۔ اکرام کے جذبے قابل قدر تھے۔ لیکن مجھے خاموشی ہی اختیار کرنی تھی۔ اس بیچارے کو کیا بتا سکتا تھا۔ پھر اکرام تو سو گیا میں وضو کر کے تہجد پڑھنے بیٹھ گیا۔ اس کے بعد مراقبہ کرنے لگا۔ یہاں آ گیا تھا اور اب مجھے رہنمائی درکار تھی۔ آنکھوں میں اسی مسجد کا نقشہ اُبھرا جو اس وقت دیکھی تھی اور پھر سب کچھ معلوم ہوگیا۔ شاید ابھی اتنا ہی کافی تھا۔ البتہ حالات کے بارے میں ضرور سوچتا رہا۔ بابو مول چند، کنور ریاست علی خان اور گرج ناتھ سیوک۔
دُوسری صبح پرسکون تھی… جاگے ہوئے تھے۔ اکرام اور میں نماز سے فارغ ہوئے تھے کہ عقب سے غلام سبحانی کی آواز سنائی دی۔
’’سبحان اللہ، معبود کریم قبول کرے۔ جوانی کی عبادت اللہ کو پسند ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تم نماز کے پابند ہو۔ ورنہ آج کل کے نوجوانوں کا تو وتیرہ ہی کچھ اور ہے۔‘‘
’’کالی چائے تیار ہے دوستو، کہو تو پیش کی جائے۔‘‘ ضمیرالدین نے کہا۔
’’ضرور ضمیر صاحب۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔ سب یکجا ہوگئے تھے۔ پھر کچھ دن چڑھا تو ناشتہ کیا۔ ناشتے سے فراغت ہوئی تو چند اہل محلہ رات کے مہمانوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے آ گئے۔ ہمیں ان سے ملایا گیا۔ شہر کی صورت حال پر تبصرہ ہوا۔ ابھی کوئی بہتری نہیں نظر آ رہی تھی۔
’’ریاست علی خان ہی کچھ لچک پیدا کر لیں تو کیا حرج ہے۔‘‘ ایک صاحب نے کہا۔
’’کیسی باتیں کرتے ہو چچا نذیر، مسلمانوں کی بھی تو کوئی آن ہے۔‘‘ دُوسرے صاحب نے کہا۔
’’میں تو خلق اللہ کی بھلائی کے لیے کہہ رہا تھا۔‘‘
’’اللہ مالک ہے، ہم ریاست علی خان کے ساتھ ہیں اور پھر تمہیں جان علی کی مسجد یاد نہیں ہے۔ ریاست علی خان بھی اس بات پر چڑے ہوئے ہیں جب وہ کافر مسجد کی تعمیر کی اجازت نہیں دیتا تو ہم کیوں مندر بنانے دیں۔‘‘
’’مگر مندر تو بن چکا ہے۔‘‘ کسی اور نے کہا۔
’’وہ تو جادو کا مندر ہے۔‘‘
’’ہے تو سہی۔‘‘
میرے کان کھڑے ہوگئے، کسی مسجد کا تذکرہ ہوا تھا۔
میں نے فوراً مداخلت کی۔ ’’جان علی کی مسجد کا کیا قصّہ ہے؟‘‘
’’میاں پرانی مسجد تھی۔ مول چند کی زمینوں پر تھی سارا کیا دَھرا ان سسرے انگریزوں کا تھا۔ جگہ جگہ فساد کھڑے کر گئے۔ ورنہ وہ زمینیں تو اصل میں جان علی کی تھیں۔ لاولد مر گئے، زمینیں سرکار کی تحویل میں چلی گئیں بعد میں مول چند کے پرکھوں نے انگریزوں کی چاپلوسی کر کے زمینیں اپنے نام کرا لیں۔ مسجد بھی انہیں میں آ گئی۔ وہ تو خیر پہلے ہی مسلمانوں سے دبے ہوئے تھے، مل جل کر رہتے تھے مگر بعد میں ان سسروں کے پر پرزے نکل آئے۔ ریاست علی خان نے کہا تھا کہ وہ مسجد کی مرمت کرانا چاہتے ہیں، مول چند نے صاف منع کر دیا۔ مسجد پر اللہ کا سایہ ہے، سنا ہے کہ مول چند نے کئی بار اسے شہید کرنا چاہا مگر میا مر گئی سسرے کی، وہاں جن رہتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی کی صفائی کرا چکا ہوتا…؟‘‘
’’یہ مسجد کس طرف ہے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ کوئی آدھے کوس کا فاصلہ ہوگا۔ کربلا کے پیچھے ہی تو ہے۔‘‘
’’یہاں سے راستہ جاتا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں پیچھے سے نکل کرسیدھے چلے جائو۔ کانسی کاکا کے کھیت آتے ہیں، اس کے بعد مول چند کی حد شروع ہو جاتی ہے۔ مسجد وہیں سے نظر آ جاتی ہے۔‘‘ لوگوں نے یونہی سرسری انداز میں مجھے بتا دیا تھا مگر میں نے پتہ ذہن نشین کر لیا۔
مسلمان اپنے طور پر ہوشیار تھے اور ہندو اپنے طور پر… اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں، میں نے جو کچھ دیکھا تھا اس سے صورت حال کا اندازہ ہو جاتا تھا مگر کرفیو نہیں تھا۔ پولیس بس انتظامی امور پر مستعد تھی۔ دوپہر کو میں نے اکرام سے کہا۔ ’’اکرام، باہر جانے کی ہمت ہے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’بس ایسے ہی باہر نکل کر بتائوں گا کہاں جانا ہے۔‘‘
’’آپ چل رہے ہیں تو ٹھیک ہے۔‘‘
’’خاموشی سے نکلنا ہوگا ورنہ یہ لوگ نہیں جانے دیں گے۔‘‘
’’اس میں تو ہم ماہر ہوگئے ہیں مسعود بھیّا۔‘‘ اکرام مسکرا کر بولا۔ دوپہر کے کھانے کےبعد ہم آنکھ بچا کر نکل آئے۔ مکانوں کی آڑ لیتے ہوئے ہم عقبی حصے میں آئے۔ تھوڑا سا میدان تھا پھر کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ میدان کو دوڑ لگا کر عبور کیا اور کھیتوں میں داخل ہوگئے۔ پورے پکے ہوئے جوار کے کھیت تھے۔ بالیں پیلی ہو رہی تھیں اور جوار کے بھٹّے لٹکے پڑ رہے تھے۔ ہم چونکہ تیز رفتاری سے ان کے درمیان سے نکل رہے تھے اس لیے جواری ہل رہی تھی۔ آدھا کھیت طے کرلیا تھا کہ اچانک دُور سے آواز سنائی دی۔
’’ارے ہیرا۔ داھو، بھیم جی… دوڑو رے۔ مسلّے گھس آئے، کھیت جلانے آئے ہیں دوڑو رے…!‘‘
’’کہاں… کہاں… کہاں؟‘‘ بہت سی آوازیں اُبھریں اور سچ مچ اس وقت رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
’’بھاگو اکرام۔‘‘ میں نے اکرام کی کلائی پکڑی اور ہم بے تحاشہ دوڑنے لگے لیکن ہمارے پیچھے بھی جواری بری طرح ہل رہی تھی اور کئی بلّموں کی تیز انیاں چمک رہی تھیں جن کا فاصلہ کم سے کم ہوتا جا رہا تھا…‘‘
بلّموں کی چمکتی ہوئی انیوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کی تعداد دس بارہ سے کم نہیں ہے۔ وہ برق رفتاری سے دوڑ رہے تھے۔ ہم کوئی چال بھی نہیں چل سکتے تھے کیونکہ فاصلہ بہت کم رہ گیا تھا اور وہ ہلتی ہوئی جوار کی بالیوں سے ہماری صحیح سمت کا اندازہ لگا چکے تھے۔ اگر رُک کر رُخ بدلنے کی کوشش کرتے تب بھی جوار ہلتی اور وہ اس طرف مڑ جاتے۔ وہیں کھڑے رہتے تو وہ سر پر پہنچ جاتے اور سوچے سمجھے بغیر ہمیں گود کر رکھ دیتے اس لیے بھاگتے رہنے کے سوا چارہ نہیں تھا اور ہم جی توڑ کربھاگ رہے تھے۔ اچانک کھیتوں کا سلسلہ ختم ہوگیا، سامنے ہی ایک چوڑا نالہ بہہ رہا تھا جو دُوسری سمت کے علاقے کی حدبندی کرتا تھا۔ میں نے اور اکرام نے دوڑتے ہوئے نالہ عبور کیا۔ وہ لوگ بھی آگے آ گئے تھے پھر ان میں سے کسی کی آواز سنائی دی۔
’’وہ رہے… وہ ہیں۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے بلم، نیزوں کی طرح پھینک کر مارے مگر نشانہ درست نہیں لگا سکے تھے۔ کئی بلم ہم سے آگے سنسناتے ہوئے نکل گئے۔ اسی وقت مجھے مسجد کے بوسیدہ گنبد نظر آئے۔ مسجد زیادہ فاصلے پر نہیں تھی اور ہمارا رُخ اس کی جانب تھا۔ اکرام کو کوئی پروا نہیں تھی وہ بس میرا ساتھ دے رہا تھا۔ اب چونکہ کھلا علاقہ تھا اور وہ ہمیں صاف دیکھ رہے تھے چنانچہ انہوں نے بلم پھینک کر مارنے شروع کر دیئے تھے لیکن وہ ہمارے دائیں بائیں سے نکلتے رہے اورہم مسجد کے بڑے دروازے کے قریب پہنچ گئے۔ دروازے کے عین سامنے لکھوری اینٹوں کا ایک ڈھیر پڑا ہوا تھا جسے پھلانگ کرہم اندر گھس گئے اور پھر میں رُک گیا۔ مجھے یہاں آنے کی ہدایت کی گئی تھی اور میں یہاں آ گیا تھا۔ اس کے بعد مجھے کوئی ہدایت نہیں تھی چنانچہ اب میری جدوجہد ختم ہو جاتی تھی اور مزید ہدایت کے بغیر میں کچھ کرنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اگر وہ میری زندگی کے دُشمن ہیں اورمجھے اور اکرام کو ہلاک کر دینا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے اللہ کو یہی منظور ہے تو یہی سہی۔
آوازیں معدوم ہوگئیں۔ وہ رُگ گئے تھے۔ شاید وہ مسجد کے قریب آنے کی ہمت نہیں کر رہے تھے۔ ویسے بھی جان علی کی اس مسجد کے بارے میں روایت تھی کہ یہاں جنّوں کا بسیراہے۔ ممکن ہے اس روایت نے ان کے قدم روک دیئے ہوں۔ اکرام سانس درست کر رہا تھا۔ کئی منٹ گزر گئے تو اس نے باہر جھانک کر دیکھا پھر بولا بھاگ گئے؟
’’ہاں شاید۔‘‘
’’اپنے بلّم بھی چھوڑ گئے، اُٹھا لائوں؟‘‘
’’کیا کرو گے؟‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’مقابلہ کریں گے ان سے، ہو سکتا ہے مشورہ کر رہے ہوں اور دوبارہ لڑنے کی کوشش کریں۔‘‘
’’نہیں آئیں گے۔‘‘ میں نے اعتماد سے کہا۔
’’تب ٹھیک ہے۔‘‘ اکرام نے مجھ سے زیادہ پُراعتماد لہجے میں کہا اور میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ اکرام مجھ سے کتنی عقیدت رکھتا ہے۔ میرے ایک جملے نے اسے مطمئن کر دیا تھا۔
’’اب ان کا خیال چھوڑو، آئو ہم اپنا کام کریں۔‘‘ میں نے اکرام کو اشارہ کیا اور وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ مسجد کے بے شمار گوشے گرد آلود تھے۔ جگہ جگہ اینٹوں کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے۔ ایک بہت بڑا سا پیپل کا درخت تھا جس کے پتّے بکھرے ہوئے تھے۔ اندر منبر گرد آلود تھا۔ میں نے پتّوں کی سینکیں جمع کرکے جھاڑو بنائی اور سب سے پہلے ہم نے اندرونی حصے کی صفائی شروع کر دی۔ اکرام نے قمیض اُتاری اور منبر صاف کرنے لگا۔ چٹائیوں کی صفیں بے ترتیب پڑی ہوئی تھیں، انہیں جھاڑ کر صاف کیا اور دونوں نے مل کر انہیں ترتیب سے بچھایا۔ غالباً عصر کا وقت ہوگیا تھا، میں نے اکرام سے کہا۔
’’اکرام… پانی کا مسئلہ ہے۔‘‘
’’نہیں مسعود بھیّا، بائیں سمت کنواں ہے ڈول بھی رکھا ہوا ہے۔‘‘
’’اوہو میں نے نہیں دیکھا تھا تب پھر پانی بھرو وضو کریں گے۔ وضو سے فراغت پا کر میں نے صحن مسجد میں ایک بلند جگہ منتخب کی اور اذان دینے کھڑا ہوگیا۔ اذان سے فارغ ہو کر ہم دونوں نے نماز پڑھی اور پھر مغرب تک مسجد کے دُوسرے حصوں کی صفائی میں مصروف رہے۔ جان توڑ کر محنت کر رہے تھے اور پھر مغرب کا وقت ہوگیا۔ اکرام نے ایک لفظ نہیں کہا تھا۔ رات ہوگئی، کوئی آٹھ بجے ہوں گے ہم مسجد کے دالان میں بیٹھے ہوئے بیکراں اندھیرے کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک مسجد کے عقبی حصے میں ایک روشنی سی متحرک ہوئی، ساتھ ہی اینٹوں پر کسی کے چلنے کی آواز بھی آئی۔ اکرام جلدی سے کھڑا ہوگیا مگر میں نے پُرسکون لہجے میں کہا۔
’’بیٹھ جائو اکرام… اطمینان سے بیٹھے رہو۔‘‘ روشنی گھوم کر سامنے آ گئی۔ بارہ تیرہ سال کا ایک خوبصورت لڑکا ایک ہاتھ میں لالٹین پکڑے دوسرے ہاتھ میں لوٹا لیے ہمارے سامنے آ گیا۔ اس نے بڑے اَدب سے ہمیں سلام کیا پھر بولا ہاتھ دھو لیجئے کھانا آ رہا ہے۔
’’شکریہ بیٹے بسم اللہ۔‘‘ میں اپنی جگہ سے اُٹھ گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر لوٹا اور لالٹین اس کے ہاتھ سے لے لی۔ بچہ فوراً واپس مڑ گیا تھا۔ لالٹین لے کر میں گھوما تو اکرام پر نگاہ پڑی، پتھرایا ہوا کھڑا تھا۔ ’’یہ لالٹین کسی مناسب جگہ رکھ دو اکرام اور آئو ہاتھ دھو لو۔‘‘
اکرام آگے بڑھ آیا۔ اس کے ہاتھوں میں لرزش محسوس ہوئی تھی لیکن اس نے منہ سے ایک لفظ نہیں کہا۔ بچہ کچھ دیر کے بعد پھر واپس آیا۔ اس کے عقب میں ایک شخص تھا جس نے کھیس اوڑھا ہوا تھا۔ چہرہ تک کھیس میں ڈھکا ہوا تھا بس ہاتھ کھلے ہوئے تھے اور ان کھلے ہوئے ہاتھوں میں وہ بڑی سی ٹرے سنبھالے ہوئے تھا جس میں قابیں ڈھکی رکھی تھیں۔ ایک بڑی پلیٹ میں چار خوشبودار آم رکھے ہوئے تھے۔ ساتھ میں چھری بھی تھی۔ بادیئے میں گرم روٹیاں تھیں۔ لڑکا اپنے ہاتھوں میں جگ اور گلاس تھامے ہوئے تھا۔ اس نے دونوں چیزیں ایک طرف رکھیں، ساتھ لایا ہوا دسترخوان بچھایا اور کھیس والے شخص نے ٹرے اس پر رکھ دی پھر وہ دونوں واپس چلے گئے۔
’’آ جائو اکرام…!‘‘ میں نے اسے آواز دی اور اکرام میرے سامنے بیٹھ گیا۔ قاب اُٹھاتے ہی زعفران کی خوشبو پھیل گئی۔ زعفرانی قورمہ اور خمیری نان سے ضیافت کی گئی تھی۔ قورمہ بھی شاید ہرن کے گوشت کا تھا۔ بسم اللہ کہہ کر کھانے میں مصروف ہوگیا۔ اکرام نوالے ٹھیل رہا تھا، مجھے کہنا پڑا۔ ’’لذیذ خوراک سے اجتناب میزبانوں کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے، اطمینان سے کھائو۔‘‘ اکرام نے میری بات سمجھی اور جلدی جلدی شروع ہوگیا۔ وہ بری طرح ڈرا ہوا تھا۔ کھانے کے بعد آموں کی باری آئی تو وہ بولے بغیر نہ رہ سکا۔
’’آموں کا موسم تو نہیں ہے مسعود بھائی۔‘‘
’’جو سامنے ہو اسی کا موسم ہے، کھائو۔‘‘ ان الفاظ کیساتھ مجھے ہنسی آ گئی اور میں نے کہا۔ ’’مجھے اُستاد کمال الدین یاد آ گئے تھے۔ اگر واقعی آموں کا موسم ہوتا تو… نہ جانے کیا ہوتا۔‘‘ اکرام میرے الفاظ سے لطف اندوز نہیں ہو سکا تھا۔
کھانے سے فارغ ہو کر عشاء کی نماز پڑھی اور پھر وہیں آرام کرنے لیٹ گئے۔ اکرام نے اس بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا۔ وہ سہما ہوا تھا، اسے سمجھانا ضروری تھا۔ ’’اکرام…!‘‘ میں نے اسے آواز دی۔
’’جی مسعود بھیّا۔‘‘
’’خوف زدہ ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
’’یہاں کے ماحول سے ان واقعات سے یا باہر کے خطرات سے…؟‘‘
’’یہاں پیش آنے والے واقعات سے، میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔‘‘ اکرام نے سچ بولا۔
’’بڑی عام سی بات ہے اکرام… کائنات کا ہر گوشہ اللہ کی ملکیت ہے۔ انسان بھٹکا ہوا ہے کہ اس کی زمین کو اپنی ملکیت سمجھ لیتا ہے۔ وہ اس کیلئے فساد کرتا ہے۔ خون خرابہ کرتا ہے، چالبازیاں کرتا ہے۔ اسے اپنا قرار دیتا ہے حالانکہ اس کا کچھ نہیں ہے۔ وہ سب کچھ بناتا ہے اور اسے بنانے کیلئے انسانیت کے معیار سے اتنا گر جاتا ہے کہ اسے انسان کہتے ہوئے شرم آئے۔ جنت شدّاد کی داستان لے لو، شدّاد نے کتنے ظلم و ستم کر کے اپنی جنّت بنائی مگر اسے دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ اس نے اللہ کی زمین پر حق جتایا تھا۔ یہی کیفیت ہر ذی رُوح کی ہے، نہ جانے کیا کیا کرتا ہے پھر ساکت ہو جاتا ہے۔ رُوح نکل جاتی ہے، لوگ اسے اُٹھا کر مٹّی کے نیچے دفن کر آتے ہیں۔ کیا رہا اس کے پاس؟ جو کچھ اس نے کیا۔ اس کا سب کچھ کسی دُوسرے کا سب کچھ بن گیا۔ اللہ کی زمین پر اس کی کون کونسی مخلوق رہتی ہے وہی جانتا ہے۔ لاکھوں کیڑے مکوڑے پنکھ پکھیرو نہ جانے کون کون کہاں رہتا ہے۔ یہ اسے ہی سمجھنے دو۔ خود نہ سمجھو، کیا سمجھے؟‘‘
’’جی۔‘‘ وہ کچھ سمجھا، کچھ نہ سمجھا۔
’’سکون سے سو جائو، اللہ بہتر کرے گا۔‘‘ اکرام نے پھر کچھ نہ کہا، کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔ میں اس کی سانسوں کا تجزیہ کرتا رہا، وہ پُرسکون تھا۔ کچھ دیر کے بعد میں اُٹھ گیا، ماحول میں کسی آواز کی بازگشت نہیں تھی، گہرا سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔ جن لوگوں نے ہمارا تعاقب کیا تھا، وہ مسجد کے پاس آنے کی جرأت نہیں کرسکے تھے اور یہاں سے بھاگ گئے تھے۔ اب کوئی آواز نہیں تھی۔ میں باہر نکل آیا لیکن آگے قدم بڑھا رہا تھا کہ دفعتاً دو سائے نظر آئے جو تیزی سے میرے قریب آ گئے۔
’’السلامُ علیکم۔‘‘ انہوں نے بیک وقت کہا۔ جواب دینے کے بعد میں نے انہیں غور سے دیکھا، باریش مگر نوجوان تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا۔
’’کوئی حاجت ہے؟‘‘
’’نماز پڑھنا چاہتا تھا۔‘‘
’’آج اندر ہی پڑھ لیں تو بہتر ہے۔ کل سے آسانی ہوگی، باہر کام ہو رہا ہے۔‘‘
’’کام…؟‘‘
’’ہاں مسجد تعمیر ہو رہی ہے۔ دراصل پہلے اسے آباد کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اب آبادی ہوئی ہے تو اس کی دُرستگی بھی ضروری ہے۔ صرف آج کی بات ہے صبح تک کام مکمل ہو جائے گا اور ہاں فجر کی اذان آپ اس بلندی پر کھڑے ہو کر دیں وہ جو اس طرف ہے۔‘‘ ایک شخص نے ایک سمت اشارہ کر کے کہا۔
’’بہتر…‘‘ میں نے کہا۔
’’ابھی تک آپ نے جتنی اذانیں کہی ہیں پوری آبادی میں سُنی گئی ہیں اور بے دینوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔‘‘
’’میری اذان دُور دُور تک سُنی گئی ہے؟‘‘
’’ہر گھر میں اور جب آپ اس جگہ کھڑے ہو کر اذان کہیں گے تو بستی کے آخری گوشے تک آواز جائے گی، اس کا انتظام کرلیا گیا ہے۔ بس اب اندر جایئے ہماری باری آ گئی ہے۔‘‘ وہ دونوں پھر سلام کر کے وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ میں اندر آ گیا اور ایک جگہ منتخب کر کے میں نماز پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔ کوئی اضطراب نہیں تھا، کوئی تردّد نہیں تھا۔ دل میں کوئی سوال نہیں تھا۔ سجدے میں ہی نیند آ گئی پھر کسی نے شانہ ہلایا اور ایک آواز سنائی دی۔ ’’اُٹھئے ! فجر کا وقت ہوگیا۔‘‘ ہڑبڑا کر اُٹھ گیا، کوئی موجود نہیں تھا۔ اُجالے نمودار ہوتے محسوس ہوئے تھے۔ باہر نکل آیا، سب کچھ بدلا بدلا محسوس ہو رہا تھا۔ ہر چیز صاف سُتھری، قرینے سے صفیں بچھی ہوئی تھیں۔ نلوں میں پانی آ رہا تھا۔ ایک ایک شے چمک رہی تھی۔ جگہ جگہ روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔ ایک لمحے میں بہت کچھ یاد آ گیا۔ خاموشی سے اس بلند جگہ پر پہنچا اور پھر اذان کہنے کیلئے کھڑا ہوگیا۔ اکرام اذان کی آواز سے جاگ گیا اور وضو کیلئے شاید کنویں کی طرف دوڑا لیکن پھر اس کی چیخ اُبھری، دُوسری اور پھر تیسری۔ اس کے بعد وہ میرے قریب آ کھڑا ہوا۔ میں اذان مکمل کر کے نیچے آیا تو وہ ہیجانی لہجے میں بولا۔ ’’مسعود بھائی… یہ دیکھئے… وہ دیکھئے… سب کچھ… سب کچھ بدل گیا وہ دیواریں… وہ مینار… وہ دروازہ… اور یہ ذرا دیکھئے نلوں سے پانی آ رہا ہے۔ مسعود بھیّا وہ صفیں اور … اور… یہ سب کچھ راتوں رات۔‘‘
’’وضو کر لو اکرام… نماز کو دیر ہو جائے گی۔‘‘
’’ایں… ہاں… اوہ…‘‘ اکرام کا لہجہ نڈھال ہو گیا۔ اس کے بعد وہ آہستہ قدموں سے وضو کرنے چل پڑا۔ میں نے اب مسجد کا جائزہ لیا، بالکل مکمل تھی۔ مجھے رات ہی کو بتا دیا گیا تھا اور جن لوگوں نے اس کام کی ذمّہ داری سنبھالی تھی ان کیلئے یہ کچھ مشکل بھی نہیں تھا۔ اکرام کی کیفیت البتہ فطری تھی اسے سنبھالنا تھا، نماز سے فراغت ہوئی دوسری حیرت تیار تھی لیکن میرے لیے نہیں۔ کچھ فاصلے پر برتن رکھے ہوئے تھے۔ چائے دانی سے بھاپ کی خوشبودار لکیر اُٹھ رہی تھی، ایک پلیٹ میں گرم پراٹھے دُوسری میں اصلی گھی سے بنی ترکاری، چائے کیلئے دو پیالے… اکرام خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔
’’ناشتہ کرو اکرام۔‘‘ میں نے پلیٹیں اس کی طرف سرکا کر کہا اور اکرام نے جلدی سے ہاتھ بڑھایا پھر خود ہی خجل ہوگیا۔
’’آپ، آپ لیجئے بھیّا۔‘‘
’’ہاں ہاں بسم اللہ۔‘‘ پھر میں خاموشی سے ناشتہ کرتا رہا۔ چائے کے پیالے بھی بھر لیے تھے۔ بعد میں ہم نے برتن صاف کر کے ایک جگہ رکھ دیئے اور میں اکرام کو ساتھ لے کر صحن میں آ بیٹھا۔ وہ بالکل خاموش تھا اور اس کے چہرے پر کشمکش تھی۔ ’’اکرام۔‘‘ میں نے اسے پکارا تو وہ اُچھل پڑا۔ ’’رات کو میں نے تمہیں سمجھایا تھا اکرام۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا تو اس کے چہرے پر خوف کے آثار پھیل گئے۔ وہ اُوپری سانسیں لینے لگا پھر اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے کر دیئے۔
’’معافی، معافی چاہتا ہوں مسعود بھائی، معافی چاہتا ہوں، غلطی ہو جاتی ہے معاف کر دیجئے۔‘‘ وہ رُندھی ہوئی آواز میں بولا۔
’’ارے پاگل بے وقوف ہے بالکل۔‘‘
’’بھیّا ناراض نہ ہو جانا مجھ سے واقعی غلطیاں ہو رہی ہیں۔‘‘
اس نے ہاتھ جوڑے جوڑے کہا۔
’’بالکل ناراض نہیں ہوں میں مگر کچھ سمجھانا چاہتا ہوں، غور سے سنو کیا سمجھے؟‘‘
’’جی بھیّا۔‘‘
’’اللہ کی بے شمار مخلوق کے بارے میں تمہیں رات کو بتایا تھا میں نے۔‘‘
’’جی۔‘‘ اس نے گردن ہلائی۔
’’ان میں کچھ ظاہر ہیں کچھ پوشیدہ اور کچھ جو ہم پر ظاہر نہیں ہوتے وہ بھی احکامات خداوندی کی تعمیل کرتے ہیں۔ جو وہ کرتے ہیں انہیں وہ کرنے دو جو ہمیں کرنا ہے وہ ہماری ذمّہ داری ہے۔ یہ مسجد اگر راتوں رات تعمیر ہوگئی تو حیرانی کی بات نہیں ہے۔ تمہیں اللہ نے یہ طاقت بخشی ہے۔ اگر کوئی ہمارا میزبان ہے تو اس کا شکریہ بیشک ادا کر دو، اس پر حیرت نہ کرو۔ اسی طرح اکرام آئندہ بھی بہت سے ایسے مواقع آئیں گے جن پر تمہیں حیرت ہوگی جو بتانے کی باتیں ہوں گی میں تمہیں ضرور بتا دوں گا۔ جہاں خاموش رہوں وہاں مجھے مجبور سمجھنا۔ ہاں جس کام کا تعلق تم سے ہوگا تمہیں اس کی اطلاع ضرور دوں گا۔ میرے ساتھ رہو گے تو بہت سے واقعات بہت سے سانحات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ان شاء اللہ محفوظ رہو گے۔ خوفزدہ یا فکرمند نہ ہونا اعتماد قائم رکھنا۔‘‘
’’جی مسعود بھیّا!‘‘
’’میری باتیں سمجھ میں آ گئی ہیں؟‘‘
’’جی بالکل آئندہ آپ کو شکایت نہیں ہوگی۔‘‘
’’کوئی بات تم سے متعلق ہوگی تو میں تمہیں ضرور اس سے آگاہ کروں گا۔‘‘ اکرام نارمل ہوگیا۔ دن کے کوئی گیارہ بجے ہوں گے کہ اچانک شور سنائی دیا۔ اس کے ساتھ ہی سامنے کے حصے سے بے شمار آوازیں سنائی دینے لگیں، صاف پتہ چل گیا کہ پتھرائو ہو رہا ہے۔ پتھر دیواروں اور دروازے پر لگ رہے تھے۔ اکرام اُچھل کر کھڑا ہوگیا۔ شور بڑھتا جا رہا تھا۔ میں بھی کھڑا ہوگیا۔ اب مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ میں کیا کروں، اندازہ ہوگیا تھا کہ بے شمار مجمع ہے جو مسجد پر پتھرائو کر رہا ہے۔ آن کی آن میں فیصلہ کرلیا۔ خاموشی سے بڑے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ اکرام نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا اور پھر فوراً بند کر لیا۔ اسے میری ہدایات کا خیال آ گیا تھا۔ پتھرائو مسلسل ہو رہا تھا۔ لوگ چیخ رہے تھے۔ میں نے دروازے کے پٹ کھولے اور باہر قدم رکھ دیا۔ لگ بھگ سو ڈیڑھ سو افراد تھے، جیسے ہی دروازہ کھولا ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ ان کے ہاتھوں میں پتھر تھے لیکن دروازہ کھلتے ہی وہ پلٹ کر بھاگ اُٹھے اور کافی پیچھے جا کر رُکے۔ یہ شاید یہاں کی روایات کا خوف تھا۔ ان کے درمیان کچھ پولیس والے بھی تھے۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے چیخ کر پوچھا۔ میری آواز کے ساتھ وہ دو قدم اور پیچھے ہٹ گئے۔ کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ’’تم لوگ یہ پتھر کیوں پھینک رہے ہو؟‘‘ لوگ پولیس والوں سے کچھ کہنے لگے، شاید وہ انہیں آگے بڑھنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ مگر پولیس والے بھی انسان تھے۔ کوئی بھی آگے نہ آیا۔ ’’جائو یہاں سے چلے جائو، عبادت گاہوں پر پتھر نہیں پھول پھینکتے ہیں۔‘‘
’’یہ زمین مول چند مہاراج کی ہے۔ مسجد کس نے بنائی ہے؟‘‘
’’کہاں ہے مول چند اسے بلائو۔‘‘
’’ہم اسے توڑ دیں گے، اسے توڑ دو۔ توڑ دو اسے۔‘‘ کسی نے پیچھے سے چیخ کر کہا اور مجمع پھر بپھر گیا، پتھروں کی بارش پھر ہوئی لیکن نتیجہ انہوں نے خود دیکھ لیا۔ پتھر پوری رفتار سے ان کے ہاتھوں سے نکلے، ایک لمحے تیرتے نظر آئے اور غائب ہوگئے۔ جتنے پتھر مجمع کے ہاتھوں میں تھے سب فضا میں ہی غائب ہوگئے۔ میں خاموشی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ سب ایک دوسرے کے شانے پر سے اُچک اُچک کر پتھر تلاش کر رہے تھے۔ میں نے پُرسکون لہجے میں کہا۔
’’اس کے بعد اگر تم میں سے کسی نے ایک بھی پتھر پھینکا تو وہ پلٹ کر اُسی کے لگے گا، مجھے الزام نہ دینا۔‘‘
’’زمین مول چند بابو کی ہے، ہم یہاں مسجد نہیں رہنے دیں گے۔‘‘ لوگ پھر چیخے۔
’’مسجد یہاں نہ رہی تو مول چند بھی نہ رہے گا یہ یاد رکھنا۔‘‘ میں نے کہا۔ ایک بہادر نے اس کے باوجود بہادری دکھائی، اس نے ایک پتھر پوری قوت سے پھینکا اور پتھر آدھے راستے پر آ کر پلٹ گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس شخص کی بھیانک چیخ سنائی دی اور وہ لہولہان ہوگیا۔ میں نے اسے چکرا کر گرتے ہوئے دیکھا۔ لوگ خوف سے چیخے اور پھر بھرّا مار کر دوڑ پڑے۔ اس کے بعد وہ نہیں رُکے تھے۔ میرا کلیجہ ہاتھ بھر کا ہوگیا۔ دل سے شکریہ نکلا تھا کہ میرے لفظوں کی لاج رکھی گئی۔ مجمع میں سب سے آگے بھاگنے والے پولیس مین تھے۔ اب وہاں صرف زخمی شخص پڑا رہ گیا تھا۔ اس کی پیشانی پھٹ گئی تھی میں نے تشویش سے اسے دیکھا پھر اکرام کو آواز دی۔
’’جی بھیّا۔‘‘ وہ پیچھے سے بولا۔
’’آئو۔‘‘ میں نے کہا۔ اکرام کے انداز میں اب خوف نہیں تھا۔ وہ پورے اعتماد سے میرے ساتھ زخمی شخص کے قریب آیا۔ زخمی کا پورا چہرہ خون میں ڈوبا ہوا تھا، تیس پینتیس سال کا شخص تھا۔ سر چکرا رہا تھا اس کا مگر ہوش میں تھا۔ مجھے دیکھتے ہی دہشت سے دونوں ہاتھ سامنے پھیلا کر چیخا۔
’’نا میاں جی نا، ارے مر جائوں گا۔ نا میاں جی تو کا بھگوان کا واسطہ۔ ارے ہمیں نا مارو ارے ہمارے چھوٹے چھوٹے بچہ ہیں۔ ارے نا مارو ہمیں بھگوان کے لیے۔‘‘ وہ دہشت کے عالم میں پیچھے ہٹ رہا تھا۔ اس کے کندھے پر باریک کپڑے کا انگوچھا پڑا ہوا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کا انگوچھا اُتار لیا، اس کے درمیان سے دو ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا اکرام کو دے کر کہا۔
’’اکرام وہ سامنے کھیت کی مینڈھ کے سہارے سہارے پانی بہہ رہا ہے، اس کپڑے کو اس میں بھگو لائو۔‘‘ اکرام کپڑا لے کر دوڑ گیا۔ زخمی ہراساں نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ ’’میں نے تمہیں سمجھا دیا تھا کہ پتھر مت پھینکنا، تم نہ مانے۔‘‘
’’ارے رام رام، بھول ہوگئی مہاراج بھول ہوگئی بس ایک بار معافی دے دو۔‘‘
’’اطمینان رکھو میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائوں گا۔‘‘ میں نے کہا۔ اکرام نے واپس آنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ بھیگے ہوئے کپڑے سے میں نے اس کا چہرہ اور زخم صاف کیا۔ پھر اس کے زخم پر کپڑے کی گدی بنا کر رکھی اور کپڑا کس کر باندھ دیا، وہ حیران نظر آ رہا تھا۔ ’’چکر آ رہا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں مہاراج۔‘‘
’’گھر جا سکتے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’جائو اور سنو عبادت گاہیں خدا اور تمہارے الفاظ میں بھگوان کا گھر ہوتی ہیں، انہیں نقصان پہنچانا گناہ یا پاپ ہے۔ انسان ہو انسان سے پیار کرو۔ ان نفرتوں میں کچھ نہیں رکھا۔ مسلمان اللہ کا نام لے کر مریں گے، تم بھگوان کو پکار کر مرو گے۔ مرنا دونوں کو ہے پھر آخر یہ جنون کیوں ہے، کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’رام بھروسے۔‘‘
’’جائو رام بھروسے، احتیاط سے جانا کہیں راستے میں تمہیں کوئی اور جنونی نہ مل جائے۔‘‘ میں نے اسے سہارا دے کر کھڑا کیا۔ وہ لڑکھڑایا پھر سنبھل گیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ کچھ دُور نکلنے کے بعد اس نے پلٹ کر ہمیں دیکھا، دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگائے اور پھر تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ جب وہ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا تو میں نے اکرام کو واپس چلنے کا اشارہ کیا اور ہم دونوں مسجد میں داخل ہوگئے۔ میں نے دروازہ اندر سے بند کرلیا، اس کے بعد اور کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جو قابل ذکر ہو۔ اکرام کی زبان پر بھی تالا لگا ہوا تھا۔ ہماری ضروریات پوری ہو رہی تھیں مگر میں بے اطمینانی کی سی کیفیت میں مبتلا ہوگیا تھا۔ نہ جانے کیوں ایک اضطراب سا دل میں جاگ اُٹھا تھا۔ شام کو میں نے جھنجھلا کر اکرام سے کہا۔
’’تمہیں کیوں چپ لگ گئی ہے؟‘‘
’’نہیں مسعود بھائی۔‘‘
’’ڈر رہے ہو؟‘‘
’’خدا کی قسم بالکل نہیں، اب تو ڈر کا شائبہ بھی نہیں ہے۔ اللہ نے مجھے آپ کی قربت دے کر بہت بڑا سہارا دیا ہے۔‘‘
’’پھر بھی زیادہ چپ اختیار کرلی ہے تم نے۔‘‘
’’آپ سے جھوٹ نہیں بول سکتا بھیّا، ایک خیال ہے میرے دل میں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’بھیّا آپ درویش ہیں اتنا دیکھا ہے میں نے کہ اب دیکھنے کے لیے کچھ باقی نہیں ہے۔ آپ اللہ کے حکم سے سب کچھ کر سکتے
ہیں، میں اپنی بہن کے لیے تڑپ رہا ہوں۔ میرا دل زخموں سے چور ہے مجھے اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ آپ، آپ اپنی روحانی قوتوں سے اسے تلاش کر سکتے ہیں۔ آپ میرے دل کے گھائو بھر سکتے ہیں پھر آپ ایسا کیوں نہیں کرتے بھیّا!‘‘ وہ سسک کر بولا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
میں نے گردن جھکا لی۔ کچھ دیر سوچتا رہا پھر میں نے کہا۔ ’’اکرام تم نے ابھی کہا ہے کہ آپ سب کچھ کر سکتے ہیں اللہ کے حکم سے، یہی کہا ہے نا تم نے؟‘‘
’’ہاں بھیّا۔‘‘
’’اللہ کا حکم ہونے دو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں کچھ نہیں ہوں اکرام، صرف ایک گناہ گار بندہ ہوں اللہ کا۔ جو خود بھی زندگی کے عذاب میں گرفتار ہے جو خود بھی زندگی سے دُور ہے، جو خود بھی اپنا سب کچھ لٹائے بیٹھا ہے۔ اکرام میری امی ہیں میرے ابو ہیں، ایک چھوٹی بہن ہے جسے کچھ لوگوں نے اغواء کرلیا ہے۔ میرا بھائی ہے اور میرے ایک ماموں ہیں محبت کرنے والے مگر سب چھن گئے ہیں مجھ سے، میں انہیں نہیں پا سکتا۔ میں انہیں نہیں تلاش کر سکتا۔ میں اکرام میں اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر رہا ہوں۔ میں سزا بھگت رہا ہوں۔ بس یہ دُعا مانگتا ہوں کہ میری سزا پوری ہو جائے، مجھے معافی مل جائے اور اور میں اپنوں میں پہنچ جائوں۔ میں طویل سفر پر ہوں اکرام اور اپنی منزل چاہتا ہوں۔ اللہ کے حکم کا منتظر ہوں۔ میری اوقات کچھ نہیں ہے میرے دوست!‘‘ غیراختیاری طور پر میری آواز رُندھ گئی۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
اکرام سکتے کے عالم میں مجھے دیکھ رہا تھا۔ میرے خاموش ہونے پر وہ بے اختیار آگے بڑھا اور مجھ سے لپٹ گیا۔ ’’معاف کر دو مسعود بھیّا معاف کر دو میں نے تمہارا دل دُکھا دیا ہے۔ بھیّا مجھے معاف کر دو۔‘‘
’’نہیں اکرام معافی کس بات کی، میں نے تو تمہیں اپنی اوقات بتائی ہے تاکہ تم مجھے بے حسی کا مجرم نہ سمجھو۔ تمہاری بہن تمہیں ضرور ملے گی۔ میرا خاندان بھی مجھے ملے گا مگر اس وقت جب اللہ کا حکم ہوگا۔‘‘
’’آئندہ کبھی کچھ نہ کہوں گا بھیّا وعدہ کرتا ہوں۔‘‘
اس کے بعد کیفیت کچھ خوشگوار ہوگئی تھی۔ غالباً دل کا غبار نکل گیا تھا۔ اکرام نے کہا۔ ’’اس کے بعد انہوں نے اُدھر رُخ نہیں کیا۔‘‘
’’مشکل ہی ہے۔‘‘
’’نہ جانے شہر کا کیا حال ہے؟‘‘
’’اللہ بہتر جانے۔‘‘
’’بے گناہ مر رہے ہیں۔‘‘
’’اللہ بہتر سبیل پیدا کرے گا۔‘‘ میں نے کہا۔ رات ہوگئی تھی۔ کوئی گیارہ بجے ہوں۔ گے ہو کا عالم طاری تھا، کسی پرندے کے پھڑپھڑانے کی آواز بھی نہ تھی۔ ہم دونوں آرام کر رہے تھے۔ بہت سی باتیں کی تھیں ہم نے اور اب خاموش تھے۔ دفعتاً مسجد کے بڑے دروازے پر دستک ہوئی اور ہم اُچھل پڑے۔ اکرام اُٹھ کر بیٹھ گیا اور سہمی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ دستک پھر ہوئی اور میں اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’میں دیکھتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا، اکرام بھی میرے پیچھے آ گیا تھا۔ میں نے بڑے اعتماد سے دروازہ کھولا، باہر تاریکی میں دو سائے نظر آ رہے تھے۔
’’کون ہو تم…؟‘‘ میں نے نرمی سے سوال کیا۔ ان کی صورتیں نہیں نظر آ رہی تھیں، ان میں سے ایک نے کچھ کہنا چاہا مگر عجیب سی آواز اس کے منہ سے نکلی۔ میں نے اندازہ لگایا تو احساس ہوا کہ بے انتہا خوف کی وجہ سے اس کے منہ سے الفاظ نہیں نکل پا رہے، وہ حد سے زیادہ ڈرا ہوا تھا۔ میں نے انتہائی نرم لہجے میں کہا۔
’’کیا بات ہے بھائی، کون ہو تم دونوں، کیسے یہاں آنا ہوا؟‘‘ آگے والے آدمی نے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے اور تقریباً دوزانو بیٹھتا ہوا بولا۔
’’مم مہاراج… مہاراج آپ کی سیوا میں حاضر ہوئے ہیں، مم مہاراج ہم… ہم… ہم…‘‘
’’ہاں ہاں کہو کیا بات ہے۔ کیا تم ہندو ہو؟‘‘ میں نے سوال کیا، پیچھے والا آدمی تھوڑا سا آگے آیا تو میں نے اس کا چہرہ جانا پہچانا محسوس کیا۔ پیشانی پر بندھی ہوئی سفید پٹّی نے بالآخر مجھے یاد دلا دیا کہ وہ رام بھروسے تھا۔ وہ زخمی جسے میں نے زخم صاف کرنے کے بعد واپس بھیج دیا تھا۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’ارے رام بھروسے تم…؟‘‘
’’مم مہاراج میں ہی ہوں۔ میں ہی ہوں۔‘‘ وہ بولا…
’’کیا بات ہے، بات بتائو…؟‘‘
’’یہ … یہ… یہ مول چند مہاراج ہیں۔ مول چند اس باغ کے مالک۔‘‘
’’اوہو اچھا اچھا۔ تو یہ بابو مول چند ہیں، کہئے مول چند مہاراج کیسے آناہوا آپ کا…؟‘‘
’’آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں مالک۔ بھگوان کے لیے میرے اس طرح آنے کو برا نہ سمجھیں، بڑی ہمت کی ہے میں نے اور رام بھروسے نے مجھے یہ ہمت دلائی ہے، مہاراج من کی کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں آپ سے۔ آپ جو بھی ہیں ہمارے دھرم کے نہیں ہیں مگر سارے دھرم ایک ہی ہوتے ہیں۔ زبان کا فرق ہے، ساری اچھی باتیں دھرم ہی سکھاتے ہیں۔ رام بھروسے نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا مہاراج تو میری ہمت پڑی۔ صبح کو جو کچھ ہوا ہے بھگوان کی سوگند اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے، میں نے کسی سے نہیں کہا تھا کہ جائو اور مسجد پر پتھرائو کرو۔ وہ سب وہ سب انہی پاپیوں کا کیا دھرا ہے مہاراج۔ آپ مجھے شما کر دیں، میرے من کی کچھ باتیں سن لیں۔ مجھے پورا واقعہ معلوم ہوا ہے پر یہ سب تو جگہ جگہ ہو رہا ہے، میں نے کچھ نہیں کرایا، بس مہاراج سن لیجئے میری۔ بڑا دُکھی ہوں میں۔ بس ایک بار میری ساری بپتا سن لیجئے۔‘‘
’’بیٹھ جائو مول چند، تم بھی بیٹھو رام بھروسے۔‘‘ میں نے کہا اور خود بھی سیڑھی پر بیٹھ گیا، وہ دونوں میرے سامنے بڑے اَدب سے بیٹھ گئے تھے۔ مول چند کہنے لگا…
’’سارے شہر میں یہی سب کچھ ہو رہا ہے مہاراج۔ رام بھروسے میرے پاس آیا۔ میرا ہی آدمی ہے، اس نے سارا واقعہ مجھے بتایا۔ میری ہمت تو نہیں پڑ رہی تھی مگر یہ کہنے لگا کہ کوئی ہرج نہیں ہے مہاراج سے مل لینے میں۔ بڑے اچھے انسان ہیں، انسانوں کی طرح جینے کا درس دیتے ہیں، بس مہاراج اپنا دُکھ لے کر آپ کے پاس آ گیا۔ یہاں جوالاپور میں جو کچھ ہو رہا ہے مہاراج اس کا ایک کارن ہے۔‘‘
’’پہلے یہ بتائو، بستی کےہندو اس وقت بھی انسانی شکار کی تلاش میں تو نہیں نکلے ہوئے ہیں…؟‘‘
’’یہاں سے جو لوگ واپس گئے ہیں مہاراج، ان کی تو میّا مر گئی ہے، دوبارہ کوئی اِدھر نہیں آئے گا، ویسے اس وقت بستی میں کہیں فساد نہیں ہے، سب اپنے اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں۔‘‘
’’ہوں اب کہو، کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کچھ ایسی باتیں بتانا چاہتا ہوں مہاراج جن کے بارے میں مجھے نہیں معلوم کہ آگے چل کر میرے لیے کیسی ہوں، پر یہ جانتا ہوں کہ کچھ نہ کچھ ہوگا ضرور کیونکہ گرج ناتھ سیوک کے ہزاروں کان ہیں۔ ہزاروں آنکھیں ہیں، وہ سب کی تاک میں رہتا ہے۔ اس کے قبضے میں بڑے بیر ہیں مہاراج اور وہ اپنے بیروں سے ساری بستی کی خبر رکھتا ہے۔ اسے ضرور پتہ ہوگا کہ ہم اس سمے آپ کے پاس آئے ہیں۔‘‘
’’فکر مت کرو۔ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔‘‘ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’آپ مہان ہیں مہاراج۔ یہاں جو کچھ ہوا میں سن چکا ہوں۔ میں نے ہی نہیں پوری بستی نے آپ کی اذان کی آواز سنی ہے۔ لائوڈ اسپیکر کے بغیر، کھلبلی مچ گئی کہ یہ آواز کہاں سے آئی۔ اور اس کے بعد بڑی بڑی باتیں لوگ کر رہے ہیں۔ میرے پاس بھی آئے تھے۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہیں لوگ۔‘‘
’’صبح صبح آئے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ ہندو دھرم پر آفت آنے والی ہے۔ کوئی آ گیا ہے اب کیا کریں۔‘‘
’’تم نے کیا کہا مول چند۔‘‘
’’میں کیا کہتا۔ یہی کہا کہ جائو گرج ناتھ کے پاس۔‘‘
’’پھر… وہ گئے…؟‘‘
’’ہاں گئے تھے۔‘‘
’’کیا کہا اس نے… تمہیں پتہ چلا۔‘‘
’’ہاں مہاراج۔ اس سمے تک کسی کو پتہ نہیں تھا کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ وہ بولا کہ جائو پتہ لگائو کہ آواز کہاں سے آئی۔ پھر لوگوں نے یہ مسجد دیکھ لی جو راتوں رات بن گئی ہے۔ بات پوری بستی میں پھیل گئی اور مت کے مارے دوڑ پڑے اس پر پتھرائو کرنے مگر اس سے ڈرتے بھی تھے۔‘‘
’’ڈرتے کیوں تھے؟‘‘
’’بس مہاراج، کیا بتائیں۔ بعد میں رام بھروسے نے مجھے پوری بات بتائی، بستی بھر میں شور مچا ہوا ہے کہ مسجد راتوں رات بن گئی۔‘‘
’’یہاں ایک مندر بھی تو راتوں رات بن گیا تھا۔‘‘
’’ہاں مگر اس کے بارے میں تو سب کو معلوم ہے۔‘‘
’’کیا معلوم ہے؟‘‘
’’یہی کہ وہ بھوانی کال کا مندر ہے اور کالے جادو سے بنا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ گرج ناتھ سیوک اگھوری ہے اوتار نہیں۔‘‘
’’لوگ یہ بات جانتے ہیں۔‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’کون نہیں جانتا۔‘‘
’’پھر بھی اس کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔‘‘
’’بھوت سے کون نا ڈرے ہے مہاراج۔‘‘ بابو مول چند نے بتایا۔
’’مجھے اس کے بارے میں پوری تفصیل بتائو مول چند۔‘‘
’’بتانے کے لیے ہی تو آئے ہیں مہاراج۔ جوالاپور کے آس پاس کی زمینیں ہماری ہیں یا پھر کنور صاحب کی۔ وہ ہیں رئیسوں کے دماغ والے۔ ہمیں انہوں نے کبھی برابر کا نہ مانا۔ اب مہاراج سب ہی بھگوان کا دیا کھاتے ہیں کون کسی کو مانے۔ ہم نے بھی آنکھیں بگاڑ لیں۔ اس سے پہلے کبھی جوالاپور میں ہندو مسلمان نہ لڑتے تھے مگر… کنور صاحب ہندوئوں کو نیچ سمجھتے تھے۔ پہلا جھگڑا انہوں نے کر دیا، تب ہندو بھی کھڑے ہوگئے اور اس کےبعد وہ دوستی ختم ہوگئی جو یہاں مثالی حیثیت رکھتی تھی۔ بات بات پر جھگڑے ہونے لگے۔ سب کے دلوں میں نفرت کا بیج پڑ گیا تھا۔ کنور کی زمینوں پر مندر تھا پرانا۔ ایک بار ہندوئوں نے اسے بنانا چاہا مگر کنور ریاست علی نے منع کر دیا۔ یہ جان علی کی مسجد ہے، ہم سے کہا گیا کہ مسجد بنانے دیں۔ ہم نے بھی منع کر دیا۔ چھوٹی چھوٹی باتیں چل رہی تھیں بڑی بات کبھی نہ ہوئی۔ پھر گرج ناتھ سیوک بستی میں آیا۔‘‘
’’کتنی پرانی بات ہے۔‘‘ میں نے درمیان میں ٹوکا۔ ’’کوئی سوا سال ہوگیا مہاراج…‘‘
’’وہ بستی میں آیا…؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں گودردھن کے چبوترے پر اس نے آسن لگایا۔ چھ دن چھ راتیں اُلٹی کیلوں پر بیٹھا رہا۔ نہ کھانا نہ پینا، لوگوں کے تو ٹھٹھ لگ گئے۔ کیا ہندو کیا مسلمان سب اسے دیکھنے جاتے تھے۔ پھر اچانک ساتویں صبح وہ نیچے اُترا۔ اس نے پہلی بات یہی پوچھی کہ سامنے کھڑے لوگوں میں کتنے ہندو کتنے مسلمان ہیں۔
’’خوب، پھر کیا ہوا۔‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’کوئی بیس آدمی تھے۔ سب نے اپنے بارے میں بتا دیا۔ وہ بولا کہ مسلمان وہاں سے بھاگ جائیں، ہندو کھڑے رہیں۔ مسلمانوں نے بُرا مانا۔ کچھ چلے گئے اور جو نہ گئے ان پر شہد کی مکھیاں دوڑا دیں اس نے…‘‘
’’کیسے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں تو وہاں نہیں تھا مہاراج۔ مگر لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے کہا کہ جہاں وہ کھڑے ہیں وہ زمین ہندوئوں کے باپ کی نہیں ہے، وہ نہیں جائیں گے۔ ہندو تو کچھ نہ بولے تھے مگر اس نے ہاتھ اُوپر کر کے مٹھی بند کی اور پھر اسے مسلمانوں کی طرف کر کے کھول دیا، شہد کی مکھیاں اس کی مٹھی سے نکلیں اور مسلمانوں کے چہروں سے چمٹ گئیں۔ خوب کاٹا، وہ چیختے ہوئے بھاگ گئے۔ تب اس نے ہنس کر کہا اب یہ اس بستی سے بھی بھاگ جائیں گے۔ جوالاپور بھوانی کال بنے گا۔ اس کا نام گرج ناتھ ہے اور وہ ہندو دھرم کا سیوک ہے۔ ہندوئوں کو جوالاپور میں رہنے کیلئے جگہ ملے گی اور ایک ایک مسلمان کو وہاں سے نکال دیا جائے گا۔ بھوانی کنڈ میں صرف گرج ناتھ سیوک کی حکومت ہوگی اور یہ علاقہ پورے ہندوستان سے الگ ہو جائے گا۔ یہاں کےرہنے والے ہندوستان کے بادشاہ کہلائیں گے۔ وہ اتنے دولت مند ہوں گے کہ سارے دیش میں ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکے گا، بس وہ گرج ناتھ سیوک کا ساتھ دیں اور مایامکنڈکی تعمیر میں حصہ لیں پھر اس نےزمین پر سے پتھر اُٹھا اُٹھا کر ان لوگوں میں بانٹے جو وہاں موجود تھے اور انہوں نے ان پتھروں کو سونے کے ڈلوں میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا۔ سارے کے سارے نہال ہوگئے تھے۔ پھر بھلا اس کی پوجا کیوں نہ شروع ہو جاتی۔ وہ مہان اوتار مان لیا گیا، بستی میں عجیب سی سنسنی پھیل گئی۔ لوگوں نے بھی آ کر کہانیاں سنائیں۔
’’جن لوگوں کو سونے کے وہ ٹکڑے ملے تھے، میں نے انہیں بلاکر سونے کے ان ٹکڑوں کو دیکھا، سچ مچ کا سونا تھا مہاراج۔ مگر اس کی باتیں سن کر مجھے عجیب سا احساس ہوا تھا اور خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ اب کوئی بُری بات ہونے والی ہے۔ خیر میری اتنی ہمت تو نہیں تھی کہ میں اس کے خلاف کچھ کہتا لیکن میں نے اس کے سامنے جانے سے گریز کیا۔ پھر مہاراج وہ اس مندر پر جا پہنچا، جو ٹوٹے مندر کے نام سے مشہور تھا۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے رہا کرتے تھے اور اس کے بڑے عقیدت مند ہو گئے تھے۔ ہر شخص اس کی سیوا کرنے میں لگا رہتا تھا تا کہ اسے کچھ مل جائے۔ آپ جانتے ہیں دولت کا لالچ کتنا بُراہوتا ہے۔ اس نے اپنے پیچھے لگےہوئے لوگوں سے کہا کہ پہلے مایا مکنڈ تعمیر ہو جائے پھر لوگ اس سے ملیں۔ اس سے پہلے وہ ان کے لئے کچھ نہیں کرے گا۔ ٹوٹا مندر کنور ریاست علی کی زمینوں پر تھا۔ کنور ریاست علی نے اپنے ہرکاروں کے ذریعے اسے وہاں سے نکلوا دیا اور کہہ دیا کہ وہ مندر بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
وہ کنور ریاست علی سے تو کچھ نہ بولا، کسی نے اسے میرے بارے میں بتایا اور پاپی سیدھا میرے پاس آ گیا۔ مہاراج اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نہ تو اوتار ہے نہ دیوتا نہ سادھو سنت، بس کالا جادو جانتا ہے اور اس کے بل پرکام کرتا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں مندر والی زمین خرید لوں اور وہاں مایا مکنڈ بنانے کی اجازت دے دوں۔ مہاراج بدنصیبی یہ ہوئی کہ جس سمے میں اس سے باتیں کر رہا تھا میری دھرم پتنی بھی وہاں پہنچ گئی۔ سوریہ کرن بہت سیدھی سادی عورت ہے، اس سے ایک دَم متاثر ہوگئی اور اس کی باتیں سننے لگی، پھر اس نے سفارش کی کہ میں کنور ریاست علی سے بات کر کے زمینیں خرید لوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں بات کروں گا۔ مہاراج انسان ہوں ڈر گیا تھا۔ پھرمیں نے کنور ریاست علی سے بات کی تو انہوں نے اپنی عادت کے مطابق بڑی حقارت سے میری اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ میں نے تو ان سے کہا تھا کہ مندر کے نام پر زمین دے دیں اور اگر مفت نہ دیں تو اس کا مول لے لیں، کہنے لگے مول چند اپنے آپ کو بھی بیچ دو گے تو اس زمین کا مول نہیں دے پائو گے۔ وہی باتیں کیں انہوں نے مہاراج جو بُری لگنے والی تھیں، مجھے بھی بُری لگیں۔ میں نے خاموشی اختیار کرلی، چاہتا تو اس وقت بھی ان کی بات کا جواب دے سکتا تھا لیکن نتیجہ فساد کے علاوہ کچھ نہ ہوتا۔ ان کے بھی بہت آدمی ہیں۔ یہاں صرف مسلمانوں کا ہی نقصان نہیں ہو رہا۔ ہندو بھی اتنے ہی مارے جا رہے ہیں جتنے مسلمان۔ سو یہ جھگڑا چل رہا تھا کہ اچانک ہی لوگوں نے مجھے بتایا کہ مندر کسی پُراسرار قوت نے تعمیر کر دیا ہے اور وہ پورے کا پورا بن گیا ہے۔ اس میں کوئی دروازہ نہیں رکھا گیا چاروں طرف اُونچی اُونچی دیواریں ہیں۔ پھر میں نے اور بھی بہت سی باتیں سنیں مہاراج۔ کنور ریاست علی نے اپنے آدمیوں کو کدالیں لے کر بھیجا اور کوئی سو آدمی مندر پر کدالیں چلاتےرہے لیکن مندر کی مٹّی تک نہ اُکھاڑ سکے یہاں تک کہ تھک گئے۔ کنور ریاست علی نے وہاں بارود کے دھماکے بھی کرائے مگر مندر ٹس سے مس نہیں ہوا اور انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ گرج ناتھ سیوک کوئی بہت بڑا رشی منی ہے۔ یہ جھگڑا چل رہا تھا کوئی سوا سال ہوگیا، حکومت اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہتی ہے مگر نجانے کیا ہو جاتا ہے۔ اب سے تھوڑے دن پہلے شاید گرج ناتھ سیوک ہی نےلوگوں کو حکم دیا کہ وہ فساد کریں۔ میرے پاس بھی یہی حکم آیا اور مہاراج میں بھی مجبور ہوگیا، میرے آدمی بھی اس کے حکم کی تعمیل کرنے پر مجبور ہوگئے…‘‘ میں نے چونک کر بابو مول چند کو دیکھا تو وہ گردن جھکا کر بولا۔ ’’اس کا بھی کارن ہے مہاراج۔‘‘ مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے کہا۔ ’’تو چلو وہ بھی بتا دو بابو مول چند…‘‘
مول چند گردن جھکا کر کچھ سوچنے لگا۔ پھر بولا۔ ’’میری دھرم پتنی، سوریہ کرن۔ مہاراج اس پاپی نے میرے گھر پر اپنا منحوس سایہ ڈال کر مجھے قابو میں کرلیا…‘‘
’’کیسے؟‘‘ کہانی اور دلچسپ ہوگئی تھی۔
’’سوریہ کرن، بھگوان کی سوگند، ایک سیدھی سادی عورت تھی بالکل گھریلو اس نے میری آنکھوں کے اشاروں کے بغیر کبھی کچھ نہیں کیا تھا لیکن وہ آہستہ آہستہ بدلتی جا رہی تھی۔ میں آپ کو کیسے بتائوں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ اس نے مجھ میں دلچسپی لینا چھوڑ دی تھی۔ میں کبھی اچانک اس کے کمرے میں چلا جاتا تو وہ چور سی بن جاتی۔ ایسے، جیسے مجھ سے کچھ چھپارہی ہو۔ میں نے ایک دن اس سے یہ بات کہی تو وہ بُری طرح بگڑ گئی۔ پہلی بار اس نے میرے سامنے گھر کی بہت سی چیزیں توڑ دیں۔ مجھے غصے سے زیادہ اچنبھا ہوا تھا مہاراج۔ وہ ایسی نہ تھی۔ میں خاموشی سے اس کی نگرانی کرنے لگا۔ کبھی کبھی اس کے بند کمرے سے کسی مرد کے بولنے کی آواز بھی سنائی دیتی تھی۔ میرے دستک دینے پر وہ دروازہ نہیں کھولتی تھی۔ ایک بار موقع پر میں نے دروازہ تڑوا دیا تو کمرے سے وہ اکیلی نکلی۔ ایک ایک کونا چھان مارا میں نے مگر چڑیا کا بچہ بھی نہیں نکلا۔ وہ تمسخرانہ نظروں سے مجھے دیکھتی رہی۔ وقت اسی طرح سے گزرتا رہا۔ جوالاپور کے حالات اچھے نہیں تھے۔ کنور صاحب یہ سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ میں نے تعصب میں کیا ہے۔ کئی بار ان کے آدمیوں نے میری تیار فصلیں اُجاڑیں، باغوں کو نقصان پہنچایا۔ انسان تو میں بھی ہوں۔ میں نے بھی جواب دیا۔ مگر معاملہ دُوسرا تھا۔ سوریہ کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے تھے۔ وہ اپنی عمر سے کم کی باتیں کرنے لگی تھی۔ ایسے ایسے بنائو سنگھار کرتی کہ اس نے بھری جوانی میں کبھی نہ کئے تھے۔ تنگ آتا جارہا تھا میں ان حالات سے مگر کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی پھر ایک دن مہاراج، ایک دن…‘‘
مول چند خاموش ہوگیا۔ اس کے چہرے پر خوف کے سائے چھا گئے، سانس تیز تیز چلنے لگی جیسے کوئی انتہائی خوفناک تصور اس کے ذہن میں جاگا ہو، کوئی بہت بھیانک خیال اس کے ذہن سے گزر رہا ہو۔ نہ صرف میں بلکہ اکرام بھی دم سادھے اس انوکھی داستان کو سن رہے تھے اور اس کے آگے بولنے کے منتظر تھے۔
مول چند کچھ دیر اسی کیفیت میں مبتلا رہا۔ پھر خود کو سنبھال کر بولا۔ ’’سوریہ کرن اس شام، سرشام ہی اپنے کمرے میں بند ہوگئی تھی۔ اس نے سب سے منع کردیا تھا کہ کوئی اس کے پاس نہ آئے۔ مجھے پتا چلا تو میں اندر گیا۔ مجھ سے بھی اس نے کہا کہ اس نے کل بھوگنا برت رکھا ہے اور چاند چمکے ہی وہ باہر نکلے گی اور سب سے پہلے چندرما کے درشن کرے گی۔ میرے لاکھ کہنے پر اس نے دروازہ نہیں کھولا تو میں بگڑ کر چلا آیا۔ مجھے بہت غصہ تھا۔ ساتھ ہی میں سوچ رہا تھا کہ بات بہت بگڑ گئی ہے، اب کچھ کرنا چاہیے۔ میں اوپر کے گھر میں چلا گیا اور غصے میں جاگتا رہا۔ گھر کے سارے لوگ سو چکے تھے اور چاروں طرف سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ چاند آہستہ آہستہ نکل رہا تھا۔ اچانک میرے کانوں میں بیلوں کی گھنٹیاں بجنے کی آواز پڑی اور میں اپنی جگہ سے اٹھ کر منڈیر پر آگیا۔ رات کے اس سمے کس کے بیل کھل گئے؟ میں نے یہ سوچ کر منڈیری سے باہر جھانکا تھا مگر یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا مہاراج کہ وہ تو ایک رتھ تھا جس میں جوڑی جتی ہوئی تھی، بیلوں پر ساز سجے ہوئے تھے مگر کوئی رتھ بان اس پر موجود نہیں تھا۔ اسی سمے دروازہ کھلا اور سوریہ کرن سجی بنی باہر نکل کر رتھ میں بیٹھ گئی۔ بیل مڑ کر واپس چل پڑے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی نظر نہ آنے والا جوڑی ہانک رہا ہو۔ میری حیرت غصے میں بدل گئی۔ کچھ بھی تھا، وہ میری استری تھی۔ میں آندھی طوفان کی طرح نیچے اترا، بغلی حصے سے گھوڑا کھولا اور اس پر زین کسے بغیر بیٹھ کر چل پڑا۔ سوریہ کرن کے اطوار حد سے بگڑ گئے تھے، اب میں اسے معاف نہیں کرسکتا تھا۔ رتھ کافی آگے نکل گیا تھا اور اب بھی چلا جارہا تھا مگر میں فاصلے سے اس کا پیچھا کررہا تھا۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ جاتی کہاں ہے اور مہاراج! میں نے رتھ کو کنور صاحب کی بغیا میں جاتے ہوئے دیکھا مگر جب وہ گرج ناتھ کے مایا کنڈل کے سامنے رکا تو میرے ہوش بگڑنے لگے۔ میں نے دور ہی گھوڑا روکا، کچھ سوچا اور پھر گھوڑے سے نیچے اتر آیا۔ گھوڑے کو میں نے وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور دبے پائوں آگے بڑھ گیا۔ سوریہ کرن نیچے اتر آئی تھی، پھر وہ چھن چھن کرتی آگے بڑھی، میں بھی اس کا پیچھا کرنے لگا۔ میں نے سوچا سسری اندر کیسے جائے گی، مندر کا تو کوئی دروازہ ہی نہیں ہے مگر مہاراج! چاند کی پوری روشنی میں، میں نے دیکھا کہ وہ دیوار کے پاس پہنچی اور پوری کی پوری دیوار میں سما گئی جیسے کسی کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگئی ہو۔ پہلے تو ڈر لگا۔ کسی اور کا معاملہ ہوتا تو وہاں سے بھاگ نکلتا مگر بات دھرم پتنی کی تھی۔ ہوسکتا ہے اس جگہ چور دروازہ ہو۔ آخر گرج ناتھ بھی تو کہیں نہ کہیں سے باہر آتا ہوگا؟ سو اس جگہ پر آنکھیں جمائے میں دیوار کے پاس پہنچ گیا۔ رتھ مڑ کر ایک طرف چلا گیا تھا۔ میں نے دیوار کو خوب ٹٹولا مگر مہاراج! کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئی جہاں سے کوئی اندر گھس سکے۔ غصے سے کلستا ہوا میں پلٹا تو ایک دم میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ بھگوان کی سوگند کھا کر کہہ رہا ہوں مہاراج۔ اس راستے سے چل کر آیا تھا، اسی جگہ کھڑا تھا اور پھر بہت سی بار یہاں آیا تھا مگر وہ کھائی کبھی وہاں نہیں تھی جو اب دیکھی تھی۔ مجھے سنبھلنے کی مہلت بھی نہ ملی اور میں کھائی میں گرنے لگا۔ چیخا بھی تھا خوب زور سے۔ ایسا لگا تھا جیسے پاتال میں گر رہا ہوں۔ یہی خیال آیا تھا کہ اب پران گئے مگر بچ گیا۔ پھچاک کی آواز ہوئی اور بدبو کے مارے میری ناک سڑ گئی۔ کسی گندی کیچڑ کے جوہڑ میں گرا تھا۔ اسی وجہ سے ہاتھ، پائوں ٹوٹنے سے بچ گئے تھے۔ کچھ دیر تو ہوش ہی نہ آیا مگر جیون سب کو پیارا ہوتا ہے، جوہڑ بھی زیادہ چوڑا نہیں تھا۔ ہاتھ پائوں مار کر باہر نکل آیا۔ چاند اب بھی چمک رہا تھا اور وہ جگہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ عقل ہی ساتھ نہ دے پا رہی تھی۔ کنور ریاست علی کا باغ، بھورتی مندر اور یہ کھائی۔ ساری باتیں عجیب تھیں۔ گندہ جوہڑ پیچھے تھا پھر سامنے کچھ نظر آیا۔ کچھ لوگ تھے۔ انہوں نے ایک تخت بچھایا، اس پر قالین بچھایا گیا۔ دوسرے نیچے قالین بچھا رہے تھے۔ بہت سے لوگ آآ کر اس قالین پر بیٹھ رہے تھے۔ بیچ میں جگہ چھوڑ دی گئی تھی۔ پھر کنارے کنارے سازندے آکر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد چار خوبصورت عورتیں زیوروں میں لدی ہوئی آئیں اور نیچے بیٹھ کر پیروں میں گھنگھرو باندھنے لگیں۔ پھر اچانک سارے کے سارے اٹھ کھڑے ہوئے اور مہاراج، میں نے دیکھا کہ وہ پاپی کالا جادوگر اوپری بدن سے ننگا، نچلے جسم پر کاریا کندی کی دھوتی منڈھے، سر پر سونے کا تاج پہنے، گلے میں ہیروں کی مالائیں ڈالے، اس سسری کا ہاتھ پکڑے، سینہ تانے چلا آرہا ہے اور وہ نرکھنی ایسے لجائی شرمائی اس کے ساتھ چل رہی ہے جیسے ابھی ابھی لگن منڈپ کے پھیرے پورے کرکے سیدھی آرہی ہو۔ دونوں آکر تخت پر بیٹھ گئے اور نچن ہاریاں کھڑی ہوگئیں۔ سازندوں نے ساز سنبھال لئے۔ جو کچھ تھا، اپنی جگہ تھا مگر اپنی استری کو یوں دیکھ کر ڈر، خوف من سے نکل گیا۔ غصے سے بدن کانپنے لگا اور میں دھاڑتا ہوا، اسے گالیاں بکتا ہوا آگے بڑھا۔ سازندوں کے ہاتھ رک گئے، نچن ہاریوں کے پائوں۔ سب کے سب مجھے دیکھنے لگے۔ گرج ناتھ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگا۔
’’سوریہ کرن… کیوں آئی ہے یہاں؟ کیا کررہی ہے تو…!‘‘ میں غصے سے دھاڑتا ہوا بولا۔
’’کون سوریہ کرن، بابو مول چند! کس کی بات کررہے ہو؟‘‘ گرج ناتھ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’یہ… یہ میری دھرم پتنی ہے گرج مہاراج۔ یہ میری استری ہے۔‘‘
’’آگے ایسا کہو گے تو مارے جائو گے۔ یہ تمہاری دھرم پتنی نہیں، کنسا بھوانی ہے۔ امر بھوانی… جے کنسا سروپا۔‘‘ اس نے کہا۔ پھر وہاں موجود لوگوں سے بولا۔ ’’کنٹھ سبھا میں یہ کالا چور کیسے گھس آیا؟ تم سارے کے سارے سسرو اندھے ہوگئے؟ سبھا خراب کردی اس نے، مار بھگائو اسے…‘‘ اور مہاراج وہ سب مجھ پر پل پڑے۔ خوب مارا مجھے… گھسیٹتے ہوئے بہت دور تک لائے اور پھر ایک جگہ ڈال دیا۔ اس کے بعد سب چلے گئے۔ یہ وہی جگہ تھی مہاراج جہاں میرا گھوڑا کھڑا ہوا تھا۔ سامنے ہی مایا مکنڈ نظر آرہا تھا۔ ویسے کا ویسا، دروازے کے بغیر۔ میں کراہتا ہوا اٹھا، گھوڑے کے پاس پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر ڈر گیا اور ہنہناتا ہوا سرپٹ ہولیا۔ یہ نئی بپتا پڑی تھی۔ غصہ تھا، تکلیف تھی۔ گرتا پڑتا گھر کو چل پڑا۔ نہ جانے کتنے گھنٹوں میں گھر پہنچا تھا۔ بھگوان کا شکر تھا کہ کوئی جاگتا نہ ملا۔ گھر میں آکر اشنان کیا۔ گندے بدبو بھرے کپڑوں کی گٹھری بنا کر دیوار سے دوسری طرف اچھال دی اور پھر اپنی چوٹوں کو سہلاتا ہوا کمرے کی طرف چل پڑا۔ سوریہ کرن کے بارے میں اب فیصلہ کرنا تھا، جو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، وہ بہت زیادہ تھا۔ اس کے بعد فیصلہ کرنا تھا، کوئی ٹھوس فیصلہ کرنا تھا مگر مہاراج! دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو اسے پلنگ پر سوتے پایا۔ بھیجہ ہل کر رہ گیا۔ وہ گھر کے عام کپڑے پہنے کروٹ لئے گہری نیند سو رہی تھی۔ لگتا ہی نہ تھا کہ گھر سے نکلی ہے۔ چہرہ بھی بنائو سنگھار سے صاف تھا، کہیں سے بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ گھر سے باہر نکلی ہے۔ مجھ پر بے ہوشی طاری ہونے لگی۔ پاگلوں کی طرح اسے دیکھتا رہا۔ یہ کیا تھا؟ کس جال میں پھنس گیا تھا میں۔ اسے یہاں سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا میں نے اور پھر وہ کالی سبھا میں بھی نظر آئی تھی۔ مجھے اتنا بڑا دھوکا تو نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر خیال آیا کہ یہ سب گرج ناتھ کے جال ہیں، اس کا کالا جادو ہے اور میری دھرم پتنی نردوش ہے۔ وہ بے چاری کالے جال میں پھنس گئی ہے مگر اب کیا کروں، اسے کیسے بچائوں؟
صبح کو وہ بالکل ٹھیک تھی مگر میرا بدن درد کررہا تھا۔ میرا چہرہ دیکھ کر بولی۔ ’’جی خراب ہے کچھ…؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’کل تم نے بھوگنا برت رکھا تھا؟‘‘
’’ہاں۔!‘‘
’’چندرما دیکھ کر برت توڑا تھا؟‘‘
’’ایں…؟‘‘ وہ سوچ میں ڈوب گئی۔ اس کے چہرے پر حیرت کے آثار پھیل گئے۔ پھر وہ الجھے ہوئے انداز میں بولی۔ ’’کہاں برت توڑا تھا میں نے… چاند نکلنے کے انتظار میں لیٹی، پھر سو گئی۔ ہائے رام! میرا برت تو بیکار گیا۔‘‘ اس کا لہجہ افسوس بھرا تھا۔
’’رات کو نہیں جاگیں…؟‘‘
’’کہاں جاگی… اور… اور… ارے تم نے دروازہ کیسے کھولا اندر سے؟‘‘
’’تم نے نہیں کھولا تھا…؟‘‘
’’بالکل نہیں… میں تو سو گئی تھی۔‘‘ میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر میں نے اچانک کہا۔ ’’یہ برت کیوں رکھا تم نے؟‘‘
اس نے میری بات کا جواب نہیں دیا تو میں نے پھر اس سے یہی سوال کیا۔ وہ کچھ دیر کے بعد بولی۔ ’’تمہیں نہیں بتا سکتی۔‘‘
’’بتائو۔‘‘
’’نہیں… یہ مشکل ہے۔‘‘
’’کیا گرج ناتھ کے کہنے سے؟‘‘ میں نے غصے سے پوچھا اور وہ چمک کر کھڑی ہوگئی۔
’’گرو دیو کا نام کیسے لے رہے ہو تم؟‘‘
’’گرو دیو… وہ تمہارے گرو دیو کیسے ہوگئے؟‘‘
’’اس گھر میں ان کا نام عزت سے لینا ناتھ، یہ میں تم سے کہے دیتی ہوں۔‘‘ اس نے سرد لہجے میں کہا۔
’’کیا تم اس سے ملتی رہی ہو…؟‘‘
’’میں جو کچھ کرتی ہوں، میں جانتی ہوں۔ مگر جو کچھ میں نے کیا ہے، اس کا الٹا نہ ہو۔‘‘
’’کیا بکواس کرتی ہو؟ وہ تمہارے لیے مجھ سے بڑا ہوگیا۔ وہ گندے دھرم والا… اور پھر تم نے اسے گرو بنانے کی آگیا کس سے لی؟‘‘
’’دیکھو بابو مول چند! میں تمہاری پتنی ہوں، باندی نہیں۔ تم صرف پتی رہو، پرمیشور نہ بنو۔ آخری بار کہہ رہی ہوں گرو جی کا نام عزت سے لو۔‘‘ اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔
’’لگتا ہے دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔ وہ چاہتی ہو جو میں نے کبھی نہیں کیا۔‘‘ میں نے کہا اور وہ مجھے گھورنے لگی۔ اس کی سرخ آنکھیں بے حد بھیانک لگ رہی تھیں۔ پھر وہ مسکرائی اور بولی۔
’’گزری رات بھول گئے مول چند جی۔ برے سمے کو اتنی جلدی نہیں بھولنا چاہیے۔‘‘ اور مہاراج میرے بدن میں چنگاریاں بھر گئیں۔ وہ روشنی میں آگئی۔ رات کو وہ گھر سے گئی تھی اور پھر واپس آگئی تھی۔ وہ معصوم نہیں ہے، وہ بہت گہری ہے۔ وہ سب کچھ جانتی ہے لیکن گزری رات بے حد بھیانک تھی۔ میں ابھی تک بدن کی دکھن محسوس کررہا تھا۔ اسے اور کچھ کہنے کی ہمت نہ پڑی۔ میں اس کے کمرے سے نکل آیا مگر مہاراج میں بہت پریشان تھا۔ میرا تو گھر ہی لٹ گیا تھا۔ بھگوان نے جو کچھ بھی دیا تھا، مزے سے گزر رہی تھی، پتنی سے پریم بھی تھا۔ یہ کیا ہورہا تھا؟ پھر مہاراج! ہر رات یہی ہونے لگا۔ رات گئے رتھ آتا، وہ جاتی پھر نہ جانے کب واپس آتی۔ دوبارہ اس کا پیچھا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے مہاراج۔ سوریہ کرن سے میرے سارے رشتے ختم ہوگئے تھے۔ اس کے کہنے سے میں نے اپنا کمرہ بھی الگ کرلیا تھا۔ میں بھسم ہوا جارہا تھا مگر بے بس تھا ،کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا اس کا۔ سوریہ کرن ہاتھ سے نکل گئ تھی۔ ادھر گرج ناتھ کے ہاتھ اور پھیلنے لگے۔ اب وہ جوالاپور میں مندر سے باہر بھی نظر آنے لگا تھا۔ وہ کیسے باہر آتا تھا، کسی کو نہیں معلوم تھا۔ رادھے چرن بزاز ہے۔ جوالا پور میں اس کا کپڑے کا سب سے بڑا کاروبار ہے، سو کھڈیاں چلتی ہیں اس کی اور اس کی بنائی ہوئی کھادی پورے ہندوستان میں مانی جاتی ہے۔ اس کا بیٹا امبھا چرن بیمار ہوگیا اور پھر ایک دن وہ چل بسا۔ رادھے چرن تو پاگل ہوگیا۔ امبھا اس کا اکلوتا تھا، جوان تھا۔ رادھے چرن آتم ہتھیا کرنے پر تل گیا، تب کہیں سے گرج ناتھ نمودار ہوگیا۔ امبھا چرن کی ارتھی تیار کی جارہی تھی۔ وہ ارتھی کے پاس آکھڑا ہوا اور اس نے کہا۔ ’’تجھے بیٹے کا جیون چاہیے رادھے چرن۔ بول اس کا جیون چاہیے تجھے…؟‘‘
رادھے چرن نے گرج ناتھ کے پائوں پکڑ لئے۔ ’’مل جائے گا تجھے تیرا بیٹا۔ جیتا مل جائے گا مگر ہمارا چیلا بنانا پڑے گا اسے۔ پھر وہ تیرا نہیں، ہمارا ہوگا۔ بول منظور ہے تجھے؟‘‘
’’منظور ہے مہاراج، مجھے منظور ہے۔ مجھے میرے بیٹے کا جیون دے دو اور کچھ نہیں چاہیے مجھے۔ بس میں اس کا جیون چاہتا ہوں۔‘‘
’’بھاگ جائو، پھر سارے کے سارے بھاگ جائو یہاں سے۔ جائو سب یہاں سے باہر بھاگ جائو۔‘‘ سب باہر نکل گئے اور تھوڑی دیر کے بعد گرج ناتھ بھی باہر نکل آیا۔ امبھا چرن اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ بہت سے لوگ ڈر کے یہاں سے بھاگ گئے، باقی گرج ناتھ کے چرنوں میں گر پڑے۔ بہت بڑا چمتکار تھا۔ اس نے بڑا چمتکار اور کیا ہوتا۔ امبھا چرن ہٹاکٹا ہوگیا۔ گرج ناتھ کے بارے میں ملے جلے تاثرات تھے۔ دوسرا واقعہ ٹھاکر کیداری ناتھ کا تھا۔ ان کے بیٹے کی پتنی نتھیا بڑی سندر تھی مگر اسے سوتے میں چلنے کی بیماری تھی۔ ایک رات وہ سوتے سوتے چل پڑی اور جوالاپور کے سب سے گہرے کنویں میں گر پڑی۔ صبح کو پنساریوں نے اس کی لاش کا پتا دیا۔ کہرام مچ گیا۔ نتھیا مر چکی تھی۔ پوری بستی کے کاروبار بند ہوگئے۔ کیا ہندو، کیا مسلمان، سب دکھ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ گرج ناتھ آیا، ہنستا ہوا اس کمرے میں گھس گیا جہاں اس کی ارتھی رکھی ہوئی تھی، پھر نتھیا کے ساتھ باہر نکل آیا مگر دونوں جینے والے گرج ناتھ کے چیلے بن گئے تھے۔ ان کے ماتا پتا اور سرپرست خوش تو تھے کہ انہیں جیون مل گیا تھا مگر ایک طرح سے وہ اپنے گھروں سے دور ہوگئے تھے۔ امبھا چرن، رادھے چرن کے کسی کام کا نہیں رہا تھا۔ گھر سے باہر نکل جاتا۔ نجانے کہاں کہاں مارا مارا پھرتا۔ وہ تو خیر مرد تھا لیکن نتھیا جو کچھ کررہی تھی، وہ سب کیلئے پریشان کن بات تھی۔ ٹھاکر کیداری ناتھ کی عزت دو کوڑی کی ہوگئی تھی۔ ان کا بیٹا جوالاپور چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ وہ یہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ اس کی سندر پتنی راتوں کو گھر سے غائب رہے اور سارے جوالاپور میں تلاش کرنے کے باوجود نہ ملے۔ خوب ہارسنگھار کرے، گھر واپس آئے تو ایسے جھومتی ہوئی جیسے نشہ کرلیا ہو۔ یہ دونوں ہمیشہ گرج ناتھ کے گن گاتے رہتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ سوامی ہری داس جو سال کے سال جوالاپور آتے تھے، اس سال بھی جوالا پور پہنچے۔ کیداری ناتھ کے ہاں ہی ٹھہرتے تھے۔ گھر کے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو الٹے پائوں واپس پلٹ گئے۔ حیرت سے کیداری ناتھ کو دیکھا اور بولے۔ ’’کیداری! یہ گھر میں تو نے کیا بسا لیا…؟‘‘
’’کیوں مہاراج! خیریت تو ہے۔‘‘
’’یہ گندگی تیرے گھر میں کہاں سے آگئی کیداری؟‘‘
’’کون سی گندگی مہاراج؟‘‘ ہری داس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوبارہ گھر میں واپس آئے، سارے کونے کھدروں کو چھانتے پھرے اور اس کے بعد ایک ایک سے ملے، یہاں تک کہ نتھیا سامنے آئی تو ہری داس کو دیکھ کر اس کی حالت خراب ہوگئی۔ الٹے پائوں گھر سے بھاگ گئی۔ ہری داس، کیداری ناتھ سے بولے۔ ’’یہ تو تیرے بیٹے کی بہو ہے ناں! نتھیا ہی ہے ناں یہ…؟‘‘
’’ہاں مہاراج۔‘‘ کیداری ناتھ نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
’’آگے بول، آگے کیداری ناتھ۔‘‘
’’اس بیچاری کے ساتھ بری ہوگئی تھی۔ مہاراج! آپ کو یہ تو پتا ہے کہ راتوں کو سوتے میں یہ چلنے کی عادی تھی۔‘‘ کیداری ناتھ نے پورا واقعہ ہری داس کو سنایا تو ہری داس سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر انہوں نے آہستہ سے کہا۔ ’’کیداری ناتھ! یہ نتھیا نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں مہاراج! یہ میری بہو ہی ہے۔‘‘
’’نہیں کیداری ناتھ! تیری بہو تو کنویں میں گر کر مرچکی تھی، اب تو اس کے شریر میں ایک گندی آتما رہتی ہے۔ تم اسے بیر کہہ سکتے ہو گرج ناتھ کا۔ وہ گرج بابو کا بیر ہے جو نتھیا کے شریر میں داخل ہوگیا ہے اور اسی کے بل پر اس کا شریر قائم ہے۔‘‘ کیداری ناتھ تو بھک سے رہ گیا تھا۔ نتھیا کی بہت سی حرکتیں اس کے علم میں تھیں جن سے ہری داس کے بیان کی تصدیق ہوتی تھی۔ پھر جب اس نے امبھا چرن کے بارے میں بتایا تو ٹھاکر ہری داس رادھے چرن کے گھر بھی گئے اور گھر کے دروازے کے قریب پہنچتے ہی بولے۔ ’’وہی بات ہے، وہی بات ہے۔ نہیں بھئی! تم لوگ اپنے آپ کو بھی دھوکا دے رہے ہو اور بستی جوالاپور کو بھی۔ ایک گندی آتما آگئی ہے یہاں جو کالے جادو کی ماہر ہے۔ اس نے اپنے بیر انسانوں کے شریر میں اتار دیئے ہیں۔ پتا نہیں سسرا کیا چاہتا ہے؟‘‘
’’اگر یہ سچ ہے مہاراج تو پھر تو کوئی بڑی بات بھی ہوسکتی ہے، آپ کچھ اپائے کریں۔‘‘
سوامی ہری داس سوچتے رہے۔ پھر انہوں نے بستی کے ایک ویران سے علاقے میں دھونی رمائی اور تین دن تک وہیں بیٹھے رہے۔ سب لوگ ان کی خبرگیری کررہے تھے ۔ جوالا پور میں ان کی بڑی عزت تھی۔ ہرسال آتے تھےاور لوگوں کو اچھی اچھی باتیں بتاتے تھے۔ سب ہی ان کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ تیسرے دن جب ان کی دھونی ختم ہوئی تو وہ چپ چاپ اٹھے اور بستی جوالاپور سے نکل گئے۔ پھر کسی نے انہیں جوالاپور میں نہیں دیکھا تھا مگر جو بات وہ چھوڑ گئے تھے، وہ لوگوں میں گشت کررہی تھی۔ کچھ نے ان کی بات کو سچ مانا، کچھ نے جھوٹ۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ پھر ایک دن امبھا چرن نے جوالاپور کے چوک میں کھڑے ہوکر ایک ایسی اشتعال انگیز تقریر کی جو پہلے کسی کے دماغ میں نہیں آئی تھی۔ اس نے کہا۔ جوالاپور کے ہندوئو! تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ تمہارے درمیان کتنا مہان پرش آگیا ہے، تمہاری تقدیریں بدلنے والی ہیں، وہ تمہارے لئے دولت کے انبار لگا دے گا۔ جوالاپور درحقیقت اکھنڈ ہندو استھان بنے گا اور سارا ہندوستان اس کے پیچھے ہوگا۔ تم لوگوں نے گرج ناتھ کو سمجھا نہیں ہے۔ بھوانی کنڈ کو پھیلائو، کنور ریاست علی سے اس کا باغ چھین لو، اس پورے باغ کے گرد چار دیواری بنوا دو اور اس کا ایک راستہ بنا دو تاکہ تم مایا مکنڈ کی سیوا کرسکو، اس کے درشن کرسکو، وہ بہت بڑا استھان ہے اور گرج ناتھ سیوک جی تمہارے جوالاپور کو تمہارے لئے سورگ بنا دینا چاہتے ہیں۔ یہی تقریر نتھیا نے بھی کی۔ لوگوں نے سنا، مسلمانوں کے خلاف ان دونوں نے باقاعدہ پروپیگنڈا شروع کر دیا اور بات کنور ریاست علی خان تک پہنچ گئی۔ ریاست علی خان نے فوری طور پر ردعمل کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا جلسہ ہوا جس میں ریاست علی خان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جوالاپور کے ہندو سرکشی کررہے ہیں، مسلمان اپنے اپنے ہتھیار سنبھال لیں۔ وہ سرکار سے رجوع کررہے ہیں۔ لیکن اگر سرکار سے رجوع کرنے کے باوجود جوالاپور میں کوئی ڈھنگ کی بات نہ ہوئی تو جوالا پور کے مسلمان، ہندوئوں کو خود منہ توڑ جواب دیں گے۔ جوالاپور کے سمجھداروں نے آپس میں بیٹھ کر اس سلسلے میں بات چیت کی۔ کنور ریاست علی خان کو اور مجھے آمنے سامنے کیا گیا۔ میں نے کنور ریاست علی خان سے کہا کہ یہ چند لوگوں کا کام ہے۔ سارے جوالاپور کے ہندو ایسی سوچ نہیں رکھتے تو کنور صاحب نے کہا کہ اگر میں جوالاپور سے ہمدردی رکھتا ہوں تو جا کر حکومت سے بات کروں اور کہوں کہ ان سرکشوں کی سرکشی دبانے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ ابھی تک مسلمانوں نے ایسی کوئی تقریر نہیں کی ہے لیکن جوابی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ میں نے سب کے سامنے وعدہ کیا کہ میں پہلے تو ان لوگوں کو سمجھائوں گا جو ایسی باتیں کرتے پھر رہے ہیں اور اگر یہ سمجھنے سے باز نہ آئے تو پھر سرکار کو درخواست دوں گا۔ میں نے جو وعدہ کیا تھا، وہ سچے من سے کیا تھا لیکن اس رات جب میں اپنے الگ کمرے میں سو رہا تھا، میرے کمرے کے دروازے پر آہٹیں ہوئیں اور پھر میں نے اپنی دھرم پتنی اور گرج ناتھ سیوک کو اندر آتے ہوئے دیکھا۔ گرج ناتھ سیوک لال لال آنکھوں سے مجھے گھور رہا تھا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’تو تم ہندو استھان بنانے سے روک رہے ہو جوالا پور کو۔ تم ہمارا ساتھ نہیں دو گے؟‘‘
میں نے ہمت کی اور گرج ناتھ سیوک سے کہا۔ ’’مہاراج! ہاتھ جوڑتا ہوں، آپ کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں میں، آپ کی شکتی کے سامنے لیکن مجھے ایک بات بتا دیجئے۔ ہندو، مسلمانوں کا ٹکرائو ہوگا تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ لاتعداد ہندو مارے جائیں گے، لاتعداد مسلمان مارے جائیں گے اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔‘‘
’’بک بک مت کر۔ تجھ سے زیادہ تو تیری پتنی سمجھدار ہے۔ وہ جوالاپور کو بھوانی کنڈ بنانے پر آمادہ ہے۔ ارے بائولے! تو ہمیں کیا سمجھتا ہے، ابھی تو نے دیکھا ہی کیا ہے۔ گرج ناتھ ہے ہمارا نام، کون سا بھید نہیں جانتے ہم۔ یہ محل تیرے پرکھوں کا ہے نا، یہ حویلی تیرے باپ دادا نے بنائی ہے نا۔ بول کیا وہ تجھے بتا گئے ہیں کہ اس حویلی کے نیچے ایک تہ خانہ چھپا ہوا ہے اور اس تہ خانے میں ایک عظیم الشان خزانہ ہے۔ اتنا بڑا خزانہ کہ تو سارے جنم بھی دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹتا رہے، تب بھی اتنا نہ کما پائے۔ ارے یہ ہم جانتے ہیں اور یہی نہیں جوالاپور میں ہی نہیں، آس پاس کی زمینوں میں جتنے خزانے دفن ہیں، ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ ہم سے کوئی کیا ٹکرائے گا…آ ہم تجھے دکھائیں وہ خزانہ جو تجھے معلوم نہیں ہے، اس کے بعد تجھ سے دوسری باتیں کریں گے۔‘‘
اور مہاراج اس کے بعد وہ میرا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل آیا۔ میں نے اب بھی اس سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’دیکھو گرج ناتھ مہاراج! اس دن سے میں تمہارے آڑے نہیں آیا، تم نے میری دھرم پتنی پر قبضہ جما لیا، تم نے میرا سنسار مجھ سے چھین لیا۔ میں کچھ نہیں بولا مگر مہاراج یہ سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ بہت سے بچے یتیم ہوجائیں گے، بہت سی عورتیں ودھوا ہوجائیں گی۔ ایسا نہ کرو۔ مجھے یقین نہ تھا کہ وہ واقعی مجھے کسی ایسے خزانے تک لے جائے گا بلکہ میں یہی سوچ رہا تھا کہ اب میں کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہونے والا ہوں، لیکن حویلی ہی کے ایک ایسے حصے میں جو پرانا بنا ہوا تھا اور اب کھنڈر کی شکل میں پڑا ہوا تھا، وہ ایک چھوٹے سے دروازے سے اندر لے گیا۔ اندر گھس کر میری دھرم پتنی سوریہ کرن نے ایک مشعل روشن کرلی اور اس کے بعد گرج ناتھ سیوک نے ایک دیوار میں کچھ ٹٹول کر ایک دروازہ دریافت کیا جسے میں نے واقعی پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہم اس دروازے سے اندر داخل ہوگئے۔ لمبی سی سرنگ تھی۔ ناگوں کی سی پھنکار سنائی دے رہی تھی اور میرا شریر خوف سے کانپ رہا تھا۔ میں اپنے جیون کے انت کا یقین کرچکا تھا لیکن لمبی سرنگ کا خاتمہ ایک بڑے سے چوکور کمرے پر ہوا جو لال اینٹوں ہی سے بنا ہوا تھا اور سیکڑوں سال پرانا معلوم ہوتا تھا۔ اس کمرے میں لکڑی کے بڑے بڑے صندوق رکھے ہوئے تھے جن کی لکڑی کے رنگ سے ان کے پرانے ہونے کا اندازہ ہوتا تھا۔ مشعل کی روشنی میں کمرے کا ماحول بڑا بھیانک نظر آرہا تھا۔ گرج ناتھ سیوک نے ایک صندوق کھول دیا اور پورا کمرا بھک سے روشن ہوگیا۔ سفید، نیلی، ہری، پیلی، لال روشنیوں کی کرنیں پورے کمرے کو منور کرنے لگیں۔ یہ ہیرے جڑے زیورات تھے جن کی بناوٹ اتنی پرانی تھی کہ اب ایسی بناوٹ کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ سونے کے یہ زیورات، گول گول گنیاں اور نجانے کیا کیا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مجھ پر بے ہوشی طاری ہونے لگی۔ مہاراج! دولت اس سنسار کی سب سے بڑی چیز ہے اور میرے سامنے سچ مچ اتنی دولت موجود تھی کہ میں خواب میں بھی اسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میں نے سپنوں میں بھی نہیں سوچا تھا اس کے بارے میں۔ گرج ناتھ سیوک نے کہا۔
’’یہ تیری ہے اور یہی کیا بلکہ یوں سمجھ لے کہ دھرتی کے اندر اتنا کچھ چھپا ہوا ہے کہ تو دیکھے تو حیران رہ جائے۔ ہم تجھے بھی یہ سب کچھ دکھا دیں گے۔ تیری دھرم پتنی تو ہمارے ساتھ دھرتی کی گہرائیوں میں سفر کرتی ہے۔ ہم نے اسے مہان بنا دیا ہے۔ وہ اکیلی ہی چاہے تو بہت کچھ کرسکتی ہے مگر اب وہ سمے آگیا ہے جب تجھے ہمارا یہ کام کرنا ہے۔ ہم تجھے مجبور نہ کرتے لیکن جو وعدہ تو کرکے آیا ہے، وہ تیرے پریوار کیلئے بڑا خراب ہوگا اور ہم نہیں چاہتے کہ سوریہ کرن کے من کو دکھ پہنچے۔ سوسن تو کچھ نہیں بولے گا اس سلسلے میں، نہ کسی کو سمجھائے گا، نہ کہیں باہر جائے گا بلکہ تو اب ہمارے لئے کام کرے گا۔ جوالاپور کا بہت بڑا آدمی بننے کیلئے اب تجھے ہمارے کام کرنے ہوں گے اور جو کام ہم تجھ سے لینا چاہتے ہیں، وہ تجھے بتائے دیتے ہیں۔ کیا سمجھا۔ اب ہندو مسلمانوں کی بات آگے بڑھ جانی چاہیے اور تو چنتا مت کر، ہم ان سارے سسروں سے نمٹ لیں گے، ٹھیک کردیں گے ایک ایک کو۔ جو مارے جائیں گے، وہ تو مارے جائیں گے، باقی جوالاپور چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور پھر جوالاپور بنے گا اکھنڈ ہندو جاتی۔ اکھنڈ بھوانی استھان، کیا سمجھا؟ وہ قہقہے لگانے لگا لیکن مجھ پر خزانے کا سحر طاری تھا۔ اس بھنڈار میں اتنا کچھ تھا کہ میری عقل ٹھکانے نہیں رہی تھی۔ وہ ہاتھ پکڑے مجھے وہاں سے باہر نکال لایا اور اس کے بعد میری دھرم پتنی سے بولا۔ ’’ہم جارہے ہیں سوریہ! ہمارے بعد تو اس بائولے کو سمجھانا۔ یہ کام اب تیرے سپرد ہے۔‘‘
بہت مہان بننے کی کوشش نہیں کررہا مہاراج۔ انسان تھا، انسان ہوں اور انسان رہوں گا۔ وہ خزانہ دیکھ کر مجھ پر ایسی بدحواسی طاری ہوگئی تھی کہ میری سوچنے، سمجھنے کی قوت ہی ختم ہوگئی تھی۔ سوریہ کرن مجھے اپنے کمرے میں لے آئی۔ بڑے پریم سے مجھے بٹھایا۔ بہت عرصے کے بعد اس نےمیرے اتنے قریب آکر مجھ سے بات چیت کی کہ میرا دل ڈانواں ڈول ہونے لگا۔ بولی۔ ’’سچ یہ ہے کہ مہاراج گرج ناتھ اتنے بڑے آدمی ہیں کہ ہم تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کے پاس مہان شکتی ہے اور وہ جو چاہے کر سکتے ہیں۔ یہ تو میری اور تمہاری خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے پہلے مجھے اور اب تمہیں اپنا سیوک چن لیا۔ یقین کرو ہم سنسار کے امیر ترین لوگ بن جائیں گے۔ جوالاپور میں رہنے والا ہر ہندو اتنی دولت حاصل کرلے گا کہ شہر کے شہر خرید سکے۔ مہاراج مجھے دھرتی کے سینے میں نجانے کتنی دور دور تک کا سفر کرا لائے ہیں۔ انہوں نے کھنڈروں میں اور زمینوں میں چھپے ہوئے ایسے ایسے خزانے دکھائے ہیں مجھے کہ تم دیکھو تو تمہاری آنکھوں کی روشنی چلی جائے۔ وہ یہ سارے خزانے اکٹھے کرکے اکھنڈ بھوانی مکنڈ میں لانا چاہتے ہیں۔ جوالاپور کے بھاگ جاگ رہے ہیں تو پھر تم ہندو جاتی ہوکر ہندوئوں کیلئے کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘ میں نے بے بسی سے کہا۔
’’مگر انسانوں کا جیون بھی تو کوئی حیثیت رکھتا ہے۔ جب لڑائی ہوگی تو کیا ہندو نہ مارے جائیں گے مسلمانوں کے ہاتھوں؟‘‘
’’دیکھو جو کچھ ہونا ہوگا، وہ تو ہوکر رہے گا مگر تم کیوں اپنے جیون کو روگ لگاتے ہو۔ تم وہی کرو جو گرج ناتھ بھگوان کہتے ہیں۔‘‘
’’مجھے کرنا کیا ہوگا؟‘‘
’’سب سے پہلے تمہیں ایک کام کرنا ہوگا۔ وہ جو مسلمان نواب ہیں نا، ارے میں اس کنور ریاست علی کی بات کررہی ہوں، تم اس سے گٹھ جوڑ کرو، میل ملاپ بڑھائو۔ اس کے بازو پر ایک تعویذ بندھا ہوا ہے، وہ تعویذ اسے کسی مسلمان جوگی نے دیا تھا۔ وہ تعویذ اسے سنسار کی ہر آفت سے محفوظ رکھتا ہے۔ اگر وہ اس کے ہاتھ پر نہ ہوتا تو اب تک تو اس کا کریاکرم ہوچکا ہوتا۔ تم اس سے اس بارے میں بات چیت کرو کہ تم امبھا چرن اور نتھیا کے بیانوں کے خلاف کام کررہے ہو اور ہندوئوں کو اپنا ہم آواز بنا رہے ہو۔ اس سلسلے میں تمہیں کنور ریاست علی کی مدد درکار ہوگی۔ اس سے کہو کہ پرانی رنجشیں بھلا کر پھر سے نئی دوستی کی جائے۔ جیسے بھی بن پڑے، اسے جھیل پر نہانے لے جائو اور جب وہ جھیل میں اترے تو اس کے بازو سے تعویذ کھول لو یا پھر اسے اس کے گھر میں یا پھر کہیں اور بلا کر نشے کی کوئی ایسی چیز دے دو کہ وہ بے ہوش ہوجائے اور پھر اس کا تعویذ اتار لو۔ یہ کام تمہیں جیسے تمہارا من کہے، کرنا ہے۔ تمہارا بس اتنا ہی کام ہے باقی کا ہم کرلیں گے۔‘‘
میں حیرت سے سوریہ کرن کو دیکھنے لگا۔ مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ وہ گرج ناتھ سیوک کے کاموں سے کتنی واقف ہوچکی ہے۔ ایک طرح سے مجھ سے تو وہ ہٹ ہی چکی تھی۔ سارا کچھ تھا مہاراج… مجھے خزانوں کا لالچ دیا گیا تھا مگر انسانوں کا جیون کھونے کو میرا من نہیں مانتا تھا اور پھر یہ بات بھی بڑی عجیب لگی تھی مجھے کہ وہ ریاست علی کے کسی تعویذ سے خوف زدہ تھا اور اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اس طرح کچھ امید بندھی تھی مہاراج کہ کوئی ایسی چیز ہے جو اسے اس کے کالے کرتوتوں سے روک سکتی ہے۔ دل میں، میں نے سوچ لیا کہ یہ کام میں کبھی نہیں کروں گا مگر چالاکی سے کام لینا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں نے سوریہ کرن سے کہا۔
’’یہ ساری باتیں تو اپنی جگہ سوریہ… مگر تمہیں کیا ہوگیا ہے؟‘‘
’’کیوں۔ مجھے کیا ہوگیا؟‘‘
’’تم تو مجھ سے بالکل ہٹ گئی ہو۔‘‘
’’جو گرج ناتھ کے سیوک ہوتے ہیں، وہ کسی اور کے کچھ نہیں ہوتے۔‘‘ اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔
کالے جادو کے ماہر بھوریا چرن سے ملاقات، مسعود کیلئے مشکلات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ثابت ہوئی۔ بھوریا اسے اپنا آلۂ کار بنانا چاہتا تھا لیکن مسعود کے انکار پر وہ اس کا بدترین دشمن بن گیا۔ اس نے مسعود کا جینا دوبھر کردیا تھا لیکن وہ ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کررہا تھا۔ مسعود کی اسی خوبی نے چند برگزیدہ ہستیوں کو اس کی جانب متوجہ کردیا، انہوں نے بھوریا کے چنگل سے نکلنے میں اس کی مدد کی اور روحانی طور پر بھی اسے نوازا۔ مسعود خدمت خلق میں مصروف ہوگیا تھا لیکن بھوریا نے اب بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ اسی آنکھ مچولی کے دوران مسعود کی ملاقات ثریا سے ہوئی تو وہ اسے دل دے بیٹھا۔ ثریا قوتِ گویائی سے محروم ایک بے سہارا لڑکی تھی اور ایک ہندو گھرانے کی پناہ میں تھی۔ بعد کے حالات سے معلوم ہوا کہ وہ بھی بھوریا کے عتاب کا شکار ہوئی تھی۔ بھوریا نے ثریا کے بھائی اکرام کو اپنا الۂ کار بنانے کے چکر میں انہیں جدا کرکے اسے اس حال تک پہنچایا تھا۔ اس نے اکرام کو مسعود کے قتل پر مامور کردیا تھا لیکن حالات نے اسے مسعود کا احسان مند بنادیا اور وہ بھوریا کے خلاف اس کا ساتھی بن گیا۔ اس دوران بھوریا، ثریا کو غائب کرچکا تھا۔ مسعود کو کچھ اشارے ملے تو وہ اس کی تلاش میں اکرام کے ہمراہ جوالا پور جا پہنچا۔ یہاں آنے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ شہر میں ہندو، مسلم فسادات جاری تھے۔ ان فسادات کا ذمہ دار کالے جادو کا ایک ماہر گرج ناتھ تھا جو جوالا پور کو اپنا ٹھکانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس نے یہاں کالے جادو کے زور سے ایک مندر تعمیر کرلیا تھا لیکن ایک مسجد کی تعمیر نو میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ جب مسعود نے مسجد کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا تو اس کام میں جنات نے اس کی مدد کی اور راتوں رات مسجد تعمیر ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد جوالا پور کے لوگ مسعود کی جانب متوجہ ہوگئے، شہر کا ایک دولت مند شخص مول چند مدد کیلئے اس کے پاس پہنچا کیونکہ گرج ناتھ نے اس کی بیوی کو اپنے قابو میں کرلیا تھا۔
(اب آپ آگے پڑھیے)