عالم استغراق میں مجھے ان قدموں کے نزدیک کوئی سیاہ شے پھڑکتی ہوئی نظر آئی تھی لیکن نظر کوئی بھی نہیں آرہا تھا۔ ہاں، خون کے چند دھبے نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے تھے حالانکہ ان کا اندازہ لگانا بھی مشکل تھا۔ میں نے الٹے ہاتھ سے خون کو تھوڑا سا رگڑ کر دیکھا تو وہ اپنی جگہ سے چھٹ گیا اور اس کے چھوٹے چھوٹے ذرات میری انگلی میں لگے رہ گئے اس کے بعد میں نے اس ہال کے ایک ایک گوشے کا جائزہ لیا۔ اندرونی سمت ایک دروازہ بنا ہواتھا، ہمت کرکے میں اس دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ چھوٹا سا ایک کمرہ تھا لیکن بالکل خالی! کوئی شے وہاں موجود نہیں تھی۔ وہاں سے باہر نکل آیا اور یوں لگا جیسے کوئی بھاگ کر دروازے سے باہر نکل گیا ہو۔ تیزی سے دوڑتا ہوا باہر آیا اور دور دور تک نگاہیں دوڑائیں لیکن اگر کوئی تھا بھی تو اسے تلاش کرنا ناممکن تھا کیونکہ آس پاس بکھری ہوئی جھاڑیوں میں تو اگر سیکڑوں انسان بھی چھپ جاتے تو ان کا سراغ لگانا مشکل ہوتا۔ یہ جگہ یقینی طوز پر بہت پراسرار تھی۔ بھاگتے ہوئے قدموں کا تعاقب کرتا ہوا میں باہر نکلا تھا لیکن ابھی وہاں بہت سی چیزیں جائزہ لینے کیلئے موجود تھیں چنانچہ پھر اندر داخل ہوگیا اور ایک بار پھر ہال میں ادھر ادھر دیواروں، کونوں، کھدروں کو تلاش کرنے لگا۔ صاف ظاہر ہوگیا تھا کہ یہ جگہ انسانی پہنچ سے دور نہیں ہے۔ دیوار میں دو مشعلیں گڑھی ہوئی تھیں جن میں نجانے کیا چیز جلائی جاتی تھی۔ روئی سے بنی ہوئی بتیاں ان مشعلوں میں تراشے ہوئے دیوں میں پڑی ہوئی تھیں اور ایک عجیب سے رنگ کا موم جیسا مادہ بھی موجود تھا۔ یہ بتیاں یقیناً روشن کردی جاتی ہوں گی۔ ہوسکتا ہے یہاں پوجا ہوتی ہو۔ ظاہر ہے مذہب کے متوالے اپنے اپنے دھرم کے مطابق یہ عمل کرتے ہی ہیں لیکن جگہ بے حد بھیانک اور پراسرار تھی۔ میں نے اس کا پورا پورا جائزہ لیا اور اس کے بعد وہاں سے بھی باہر نکل آیا۔ جھاڑیوں کے درمیان سے گزرتا ہوا ایک بار پھر کھیتوں کے قریب پہنچا۔ چار پانچ افراد پر مشتمل ایک گروہ نظر آیا جو ہاتھوں میں لاٹھیاں لئے چوکنے انداز میں آگے بڑھ رہا تھا۔ یہ سب غیر مانوس شکلیں تھیں لیکن وہ شاید مجھے جانتے تھے۔ تیکھی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگے اور میری طرف اشارہ کرکے باتیں کرنے لگے۔ میں خود ہی ان کے قریب پہنچ گیا تھا۔ میں نے کہا۔ ’’کیا کررہے ہو بھائی…؟‘‘
’’اسی چڑیل کو تلاش کررہے ہیں۔ ڈائن بچ کر کہاں جائے گی ہمارے ہاتھوں سے! ارے بستی میں آگ لگا دی ہے اس نے، ہر گھر میں رونا پیٹنا مچا ہوا ہے اس کی وجہ سے…! بھگوان کی سوگند نظر آجائے، جیتا نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ پھر مکانوں کے بیچ سے نکلا تھا کہ سامنے مکھیا کا گھر نظر آگیا۔ غالباً یہ عقبی راستہ تھا۔ یونہی ٹہلتا ہوا آگے بڑھا اور اس گھر کے قریب پہنچ گیا لیکن آج بھی وہاں تماشا ہورہا تھا۔ بیچارے تلسی کو دیکھا جسے دو آدمی پکڑے ہوئے لا رہے تھے اور چار پانچ اس کے پیچھے چل رہے تھے۔ چوپال کی جگہ ٹھاکر صاحب بدستور بیٹھے ہوئے تھے حالانکہ دوپہر کا وقت تھا لیکن ٹھاکر صاحب قصہ نمٹانے آگئے تھے۔ میں بھی تیز قدموں سے آگے بڑھتا ہوا ان کے قریب پہنچ گیا۔ ٹھاکر صاحب کسی قدر ناخوشگوار انداز میں ان لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔ وہ بولے۔ ’’ارے تم اس بیچارے کے پیچھے کاہے پڑ گئے ہو۔ آخر مار دو سسرے کو، دو لٹھیاں مارو بھیجہ نکال باہر کرو، جان تو چھوٹے!‘‘
’’ٹھاکر جی! جھوٹ نہیں کہہ رہے ہم لوگ، سوگند لے لو ہم سے بھی اور اس سے بھی! اس سے پوچھو رات کو بھاگ بھری اس کے پاس آئی تھی یا نہیں…؟‘‘
’’کیوں رے بتا بھائی بتا! کیا کریں تیرا ہم، ارے بستی چھوڑ کر ہی چلا جا پاپی! کہیں مارا جائے گا ان لوگوں کے ہاتھوں۔ دھت تمہارے کی۔ ارے آئی تھی وہ کیا تیرے پاس…؟‘‘
’’آئی تھی ٹھاکر!‘‘
’’تو پھر تو نے پکڑا اسے…؟‘‘
’’پکڑا تھا مگر ان لوگوں نے پتھر مارمار کر ہمارا ستیاناس کردیا۔ وہ ہمیں دھکا دے کر نکل بھاگی۔‘‘
’’یہ جھوٹ بولتا ہے ٹھاکر! اس نے اسے پتھروں سے بچانے کیلئے اپنے بدن کے نیچے چھپا لیا تھا۔‘‘
’’تو پاپیو، بھیا توہے نا کیا کرتا۔ ارے تم لوگوں کا بھگوان کا خوف ہے کہ نہیں۔ ساری بستی پر تباہی لائو گے۔ تم مجھے بتائو، ٹھنڈے من سے بتائو، سوچ کر بتائو۔ تمہاری بہن پاگل ہوجاتی۔ کوئی اس پر الزام لگا دے کہ وہ ڈائن ہے اور تم نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو تو کیا مروا دو گے اسے بستی والوں کے ہاتھوں، پتھر مارمار کر سر کھلوا دو گے اس کا! ارے اس نے اگر ایسا کیا بھی ہے تو کونسا برا کام کیا کیا۔ تم یہ بات کہنا چاہتے ہو کہ یہ بھی اپنی بہن کے ساتھ بچوں کو مارتا ہے۔ بولو جواب دو؟ اگر ایسا نہیں ہے تو اس بیچارے کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔ جائو پکڑ لو کہیں سے بھاگ بھری کو، لے آئو سسری کو میرے پاس! میں خود تم سے کہوں گا کہ جان نکال لو اس کی۔ ارے کسی نے ٹھیک سے دیکھا تو ہے نہیں اور پڑ گئے پیچھے۔ دیکھو میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا اور اب جیسے کہہ رہا ہوں، اسے سمجھ لو۔ تلسی کو اس کے بعد اگر کسی نے ہاتھ لگایا تو مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہوگا اور بھاگ بھری کے بارے میں بھی میں تم سے یہی کہتا ہوں۔ دیکھ لو، پکڑ لو تو جان سے مت مارنا۔ پہلے میرے سامنے لے آنا۔ وہ تم میں سے کسی کو نہیں کھا جائے گی۔ سمجھے سورمائو! اس بیچارے کو باربار پکڑ کر لے آتے ہو۔‘‘
’’یہ انصاف نہیں ہے ٹھاکر صاحب!‘‘ یہ آواز جنک رام کی تھی۔
’’ارے جنک رام! بھیا ہم جانیں ہیں تیرے من میں آگ لگی ہے پر ایسا تو نہ کر جیسا تو کررہا ہے۔ بھاگ بھری کو ایک بار بھی پکڑ کر لے آئے گا تو ہم تجھ سے کچھ نہیں کہیں گے۔ اس بیچارے کی جان کے پیچھے کیوں لگ گئے ہو تم لوگ، دیکھ تلسیا…! بھاگ بھری اگر تیرے پاس آجائے تو بھیا مت بنیو اس کا! پکڑ کر ہمارے پاس لے آنا۔ ارے ہم بھی تو دیکھیں ذرا ڈائن کو کھلی آنکھوں سے! پتا تو چل ہی جائے گا ،سسری کب تک چھپے گی۔ تم لوگوں نے تو بھیا مغز خراب کرکے رکھ دیا۔‘‘ ٹھاکر کوہلی رام دونوں ہاتھوں سے سر پیٹنے لگا۔
’’اسے کچھ نہیں کہو گے ٹھاکر…؟‘‘ جنک رام بولا۔
’’کیا کہیں اور کیا کہیں! بتائو اور کیا کہیں؟ ادھر آرے تلسیا! ادھر آ ہمارے پاس۔‘‘ تلسی آگے بڑھ کر اس کے پاس آگیا۔ ٹھاکر نے اس کا ہاتھ پکڑا اور چونک پڑا۔ ’’ارےتجھے تو تاپ چڑھا ہوا ہے۔‘‘
’’کل سے پٹ رہا ہوں ٹھاکر! دن بھر مارا، رات کو مارا، تاپ نہ چڑھے گا تو کیا ہوگا۔‘‘ تلسی مظلومیت سے بولا اور ٹھاکر کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔
’’پاپیو…! جان لئے بنا نا چھوڑو گے اسے! ارے کچھ شرم کرو، کچھ شرم کرو۔ سنو رے! کان کھول کر سن لو سب کے سب، جنک رام! تو بھی سن لے بھیا۔ تیرا دکھ اپنی جگہ مگر تم سب نے مل کر ہمیں مکھیا بنایا ہے تو مکھیا کا مان بھی دے دو۔ اس کے بعد تلسی کو کوئی ہاتھ نہ لگائے ورنہ ہم پولیس کو بلائیں گے اور پھر دیکھ لیں گے ایک ایک کو۔‘‘
’’اس کا پاٹ لے رہے ہو ٹھاکر!‘‘ کسی نے کہا۔
’’چورسیا او چورسیا!‘‘ ٹھاکر نے کسی کو آواز دی اور ایک قوی ہیکل آدمی آگے بڑھ آیا۔ ’’دیکھ تو کون سورما بولا۔ پکڑ لے اسے اور بیس جوتے لگا دے اس کی کھوپڑی پر! کون بولا تھا پاٹ والی بات…؟‘‘ ٹھاکر نے آنکھیں نکال کر مجمع کو گھورتے ہوئے کہا لیکن دوبارہ کوئی نہ بولا۔ ٹھاکر نے اس وقت شاید مجھے دیکھا تھا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’بات سمجھ میں آگئی ہو تو جائو، اپنے گھروں کو جائو۔ جو کہا ہے، اسے یاد رکھنا ورنہ ذمہ دار خود ہوگے۔ زبان چلائو ہو حرام خور ہم سے! جائو سب جائو۔‘‘ لوگ گردنیں جھکائے چل پڑے۔ میں بھی واپسی کیلئے مڑا تو ٹھاکر نے جلدی سے کہا۔ ’’ارے او داروغہ جی! تم کہاں چلے، ذرا ادھر آئو ہمارے پاس۔‘‘
میں جانتا تھا داروغہ کسے کہا گیا ہے، رک گیا۔ مڑ کر ٹھاکر کوہلی رام کے پاس پہنچ گیا۔ ’’جی ٹھاکر صاحب…؟‘‘
’’مہربانی تمہاری بھائی کہ عزت سے نام لے لیا۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ بھنگی چمار کہو گے ہمیں!‘‘
’’آپ یہ کیوں سمجھ رہے تھے ٹھاکر صاحب!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ایسا ہی لگے ہے ہمیں! بیٹھو… جمال گڑھی میں مہمان آئے ہو، ہم بھی یہیں کے رہنے والے ہیں۔‘‘
’’آپ حکم دے کر بلوا لیتے ٹھاکر صاحب! اللہ دین کی سرائے میں ٹھہرا ہوں۔‘‘
’’تم ہمارا حکم کاہے مانتے بھیا! دبیل میں بسو ہو ہماری کیا۔ دو پور سے سلام تو کیا نا تم نے!‘‘
’’سلام اپنی مرضی سے کیا جاتا ہے ٹھاکر! آپ کی بستی میں بھی مسلمان رہتے ہیں۔ آپ ضرور جانتے ہوں گے کہ مسلمان کسی کے حکم پر نہیں جھکتے۔‘‘
’’ارے بیٹھو تو، دوچار گھڑی کچھ جل پان کرو؟‘‘
’’شکریہ! میں بیٹھ جاتا ہوں۔‘‘
’’تم خوب پھنسے اس پھیر میں، بستی میں کسی سے ملنے آئے تھے یا ایسے ہی گزر رہے تھے؟‘‘
’’بس گزر رہا تھا ٹھاکر! پتا نہیں میری بدقسمتی تھی یا کسی اور کی کہ میں نے وہ منظر دیکھ لیا۔‘‘
’’بھگوان جانے کیا سچ ہے کیا جھوٹ! فیصلہ تو بھگوان ہی کرے گا۔ بھاگ بھری بائولی ہوگئی ہے۔ بچے مر گئے تھے اس کے، پتی بھی مر گیا بے چارہ…! مگر ایسا کیسے ہوگیا۔ ایسی عورت ڈائن کیسے بن گئی۔ وہ بائولی تو ہے۔ ہوسکتا ہے بچے کی لاش پڑی ہو اور وہ پاگل پن میں اس کے پاس بیٹھ کر اسے ٹٹولنے لگی ہو۔ تم نے غور سے اسے دیکھا تھا وہ بچے کو مار رہی تھی؟‘‘
’’پہلے بھی بتا چکا ہوں، اس کی پیٹھ تھی میری طرف!‘‘
’’بھگوان جو کرے، اچھا کرے۔ بستی والے اسے چھوڑیں گے نہیں۔ ہم تو کچھ اور سوچ رہے ہیں۔ پولیس لا کر بھاگ بھری کو پکڑوا دیں۔ پولیس جانے اور اس کا کام۔‘‘ ابھی ٹھاکر نے اتنا ہی کہا تھا کہ اندر سے ایک لمبی تڑنگی عورت نکل آئی اور کرخت لہجے میں بولی۔
’’تمہیں پنچایت لگانے کے علاوہ اور کوئی کام بھی ہے؟ جب دیکھو پنچایت لگائے بیٹھے ہو۔ کاکا بلا رہے ہیں اتی دیر سے۔‘‘ میں نے عورت پر نگاہ ڈالی اور دفعتاً دل دھک سے ہوگیا۔ یہ چہرہ اجنبی نہیں تھا۔ یہ وہی چہرہ تھا جسے میں نے مراقبہ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اچھے نقوش مگر کرختگی لئے ہوئے… ٹھاکر بوکھلا گیا۔ جلدی سے اٹھتا ہوا بولا۔
’’ہاں… ہاں! بس آہی رہے تھے۔ اچھا بھیا! پھر کبھی آئو، آدمی بھیجیں گے تمہارے پاس، کبھی جل پان کرو ہمارے ساتھ اچھا!‘‘ وہ اٹھ کر اندر چلا گیا لیکن میرا ذہن چکرایا ہوا تھا۔ وہی چہرہ تھا، سوفیصد وہی چہرہ…! مندر کی عمارت بھی نظر آگئی تھی اور وہ عورت بھی۔ اب کیا کروں، کیسے کروں، کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ سرائے واپس آکر بھی میں سوچتا رہا اور کئی دن سوچتا رہا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
جمال گڑھی میں قیام کی پانچویں رات تھی۔ میں پریشان تھا۔ بات کسی طور آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔ تین دن سے خاموشی تھی۔ بھاگ بھری بھی شاید دور نکل گئی تھی۔ تین دن سے اسے بستی میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ تلسی البتہ ملتا رہتا تھا۔ اداس اور ملول تھا۔ بات بات میں سسکنے لگتا تھا۔ مجھے اس پر بہت ترس آتا تھا لیکن میں کیا کرسکتا تھا بے چارے کیلئے۔ ٹھاکر کوہلی رام کے پاس بھی بہت سے چکر لگائے تھے۔ وہ اچھا آدمی تھا۔ ظاہری کیفیت سے بالکل برعکس… تلسی کیلئے خود بھی افسردہ تھا۔ ایک دن کہنے لگا۔
’’ہم اسے کسی دوسری بستی بھیج دیں گے۔ انتظام کررہے ہیں۔ یہاں رہا تو مارا جائے گا۔ بھگوان نہ کرے اور کوئی ایسا واقعہ ہوگیا تو پھر میں بھی شاید بستی والوں کو نہ روک سکوں۔‘‘
رات کے کوئی دس ہی بجے ہوں گے لیکن یوں لگتا تھا جیسے آدھی رات گزر چکی ہو۔ جمال گڑھی میں شام سات بجے ہی رات ہوجاتی تھی۔ پانچ چھ بجے تک سارے کاروبار بند ہوجاتے تھے اور لوگ اپنے گھروں میں جا گھستے تھے۔ بس بھولے بھٹکے مسافر آٹھ نو بجے تک نظر آجاتے تھے ورنہ خاموشی! سرشام ہی بادل گھر آئے تھے اور اس وقت بھی آسمان تاریک تھا۔ اللہ دین رات کے کھانے کے بعد مجھے خداحافظ کہہ کر اپنے کمرے میں جا گھسا تھا۔ وہ مضبوطی سے سارے دروازے بند کرکے سوتا تھا اور اس نے مجھ سے بھی کہہ دیا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے، رات کو اس کا دروازہ نہ بجائوں۔ وہ دروازہ نہیں کھولے گا۔ یہ زبیدہ بیگم کی ہدایت تھی۔
مجھ پر اکتاہٹ کا دورہ پڑا تھا۔ اس وقت عجیب سی بے کلی محسوس ہورہی تھی۔ چارپائی کاٹنے کو دوڑ رہی تھی۔ خاموشی سے سرائے سے باہر نکل آیا۔ دروازہ باہر سے بند کردیا۔ تلسی کا گھر بھی تاریک پڑا تھا۔ یہاں سے چل پڑا۔ سوچا کہاں جائوں اور اس ویران مندر کا خیال آیا۔ کوئی کتنا ہی بہادر ہو، اس وقت اس مندر کی طرف رخ کرنے کے تصور ہی سے خوف زدہ ہوجاتا لیکن دل اس سمت جانے کو چاہ رہا تھا۔ میں چل پڑا۔ پوری بستی شہر خموشاں بنی ہوئی تھی، کتے تک نہیں بھونک رہے تھے۔ فاصلہ کم نہیں تھا۔ بس چلتا رہا۔ راستے میں کسی ذی روح کا نشان بھی نہیں نظر آیا تھا۔ گھنی اور خوفناک جھاڑیاں خاموش کھڑی ہوئی تھیں۔ ان کے درمیان سے احتیاط سے گزرا تھا کیونکہ وہاں سانپ موجود تھے۔ رات میں تو وہ نظر بھی نہ آتے لیکن اس خوف سے اپنا ارادہ ترک نہیں کرسکا۔ کوئی انجانی قوت مجھے وہاں لے جارہی تھی۔ تاریک مندر، تاریکی میں اور بھیانک نظر آرہا تھا لیکن اس کے دروازے سے اندر قدم رکھتے ہی بری طرح چونک پڑا۔ کسی بچے کے سسک سسک کر رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’ماں… ماں! کھول دو، بھگوان کی سوگند اب باہر نہیں جائوں گا۔ ماں! بہت ڈر لگ رہا ہے۔ ماں! دیا جلا دو۔ تمہاری بات مانوں گا، باہر نہیں جائوں گا۔ ماں! رسی میرے پیر کاٹ رہی ہے۔ ماں! پیٹھ میں کھجلی ہورہی ہے، کھول دو ماں…!‘‘
دل دھاڑ دھاڑ کرنے لگا۔ اپنی جگہ ساکت ہوگیا۔ خون کی روانی طوفانی ہوگئی، کنپٹیاں آگ اگلنے لگیں۔ رکنا بہتر ہوا، اندر داخل ہوجاتا تو یقیناً وہ نہ ہوتا جو دوسرے لمحے ہوا۔ اندر یک بیک روشنی ہوگئی تھی۔ وہی دونوں مشعلیں روشن ہوئی تھیں جو اس دن دیکھی تھیں۔ میں فوراً ایک محراب کے ستون کی آڑ میں ہوگیا۔ روشنی نے اندر کا ماحول اجاگر کردیا تھا اور میں اس ماحول کو دیکھ سکتا تھا۔ ہنومان کا بت اسی طرح استادہ تھا۔ اس کے پیروں کے نزدیک ایک آٹھ نو سالہ بچہ رسی سے بندھا ہوا پڑا تھا۔ روشنی ہوتے ہی وہ سہم کر ساکت ہوگیا تھا۔ ہنومان کے بت سے کوئی پانچ قدم کے فاصلے پر کالے اور ڈھیلے ڈھالے لباس میں ملبوس ایک وجود سر نیہوڑاے بیٹھا ہوا تھا۔ کچھ فاصلے پر ایک مرد نظر آرہا تھا جس نے چہرے پر ڈھاٹا باندھا ہوا تھا۔ سیاہ لباس میں ملبوس وجود کا چہرہ بھی ڈھکا ہوا تھا۔ بے حد پراسرار اور خوفناک ماحول تھا۔ دم روک دینے والا سناٹا طاری تھا۔ بچے کی سہمی سفید آنکھیں گردش کررہی تھیں۔ وہ رونا بھول گیا تھا تب ایک آواز ابھری۔ ’’نندنا…!‘‘
’’جے دیوی…!‘‘ دوسری آواز ابھری۔ پہلی آواز نسوانی تھی اور میں نے اسے فوراً آشنا محسوس کیا تھا۔ دوسری بھاری مردانہ اور اجنبی آواز تھی۔
’’ہاتھ پائوں کھول دے اس کے!‘‘
’’ جے دیوی…!‘‘ مردانہ آواز نے کہا۔ روشنی میں ایک آبدار خنجر کی چمک ابھری اور ڈھاٹا باندھے ہوئے شخص آگے بڑھ کر بچے کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے ایک لمحے میں بچے کے ہاتھوں اور پیروں میں بندھی رسیاں کاٹ دیں۔ بچہ تڑپ کر اٹھا تو مرد نے خوفناک آواز میں کہا۔
’’لیٹا رہ اپنی جگہ لیٹا۔ ہلا تو گردن کاٹ کر پھینک دوں گا۔‘‘ سہما ہوا بچہ جیسے بے جان ہوگیا تھا۔ وہ اپنی جگہ لڑھک گیا۔ سیاہ پوش عورت اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ لمبے قدو قامت کی مالک تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر خنجر مرد کے ہاتھ سے لے لیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر بچے اور ہنومان کے بت کے قریب پہنچ گئی۔ پھر اس کی بھیانک آواز ابھری۔
’’جے بجرنگا…! ساتویں بلی دے رہی ہوں، اسے سوئیکار کر بجرنگ بلی! میری بھینٹ سوئیکار کر، میری منوکامنا پوری کردے، تیرا وچن ہے آخری بلی کے بعد میری گود ہری کردے۔ مجھے بچہ دے دے بجرنگ بلی! مجھے بیٹا دے دے… بجرنگ بلی…!‘‘
صورتحال سمجھ میں آگئی۔ پتا چل گیا کہ اس کے بعد کیا ہونے والا ہے اور تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ جس قدر بھیانک آواز بنا سکتا تھا، بنا کر چیخا۔ ’’بھاگ بھری… وہ مندر میں گھسی ہے، نہیں پکڑنا۔ وہ رہی، وہ رہی۔‘‘ ایک چھوٹا سنگی مجسمہ رکھا تھا جو میری ٹکر سے زور سے اپنی جگہ سے گرا اور نیچے آکر چور چور ہوگیا۔ اس کے ٹکڑوں کے گر کر بکھرنے کا چھناکا مندر میں گونج اٹھا۔ مجھے خود یوں محسوس ہوا جیسے میرے ساتھ بے شمار لوگ چیخ رہے ہوں اور نتیجہ نکل آیا۔ عورت سے پہلے مرد، باہر بھاگا اور اس کے پیچھے عورت قلانچیں لگاتی ہوئی باہر نکل گئی۔ وہ مشعلیں جلی چھوڑ گئے تھے، اپنے عمل کو پختہ کرنے کیلئے میں نے اور زور زور سے چیخنا شروع کردیا، رات کے پرہول سناٹے میں میری چیخیں دور دور تک پھیل گئیں۔ بچے نے دہشت سے دوبارہ رونا شروع کردیا۔ میں جلدی سے اس کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا تو وہ چیخ پڑا۔
’’مت مارو، مجے مت مارو… مت مارو مجھے!‘‘
’’اٹھ بیٹے…! میں تجھے نہیں ماروں گا۔ اٹھ! میں تو تجھے بچانے آیا ہوں۔‘‘ کوئی بڑا ہوتا تو شاید زندہ ہی نہ رہ پاتا خوف کے مارے لیکن بچہ تھا، اٹھ کھڑا ہوا۔
’’اب باہر نہیں کھیلوں گا۔ مجھے مت مارو چاچا!‘‘
’’بالکل نہیں ماروں گا۔ آ میرے ساتھ چل…!‘‘ میں نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ جانتا تھا کہ باہر خطرہ ہے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے دونوں جھاڑیوں میں چھپے ہوں اور اکیلا پا کر حملہ کریں۔ مندر میں رکنے سے اور خطرہ تھا۔ آسانی سے گھیر لیا جائوں گا۔ کسی نے اگر خبر کردی اور مجھے اس بچے کے ساتھ دیکھ لیا گیا تو حالات بگڑ سکتے تھے۔ نکل جانا ہر طرح سے بہتر ہے۔ اللہ کا نام لے کر باہر نکل آیا۔ رات کے بیکراں سناٹے میں کوئی آواز نہیں تھی۔ اس وقت تک خاموش رہا جب تک جھاڑیوں کے کھیت سے باہر نہ نکل آیا پھر میں نے بچے سے پوچھا۔ ’’کیا نام ہے تیرا بیٹے…؟‘‘
’’للو…!‘‘
’’پتا کا نام کیا ہے؟‘‘
’’گنگو!‘‘
’’تیرا گھر کہاں ہے؟‘‘
’’پچھائی پلے!‘‘
’’راستہ جانتا ہے اپنے گھر کا؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’یہاں تجھے کون لایا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ بچے نے کوئی جواب نہیں دیا تو میں نے دوبارہ وہی سوال کیا۔
’’معلوم نا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’تو کھیل رہا تھا کہیں؟‘‘
’’سو رہا تھا۔‘‘
’’کہاں…؟‘‘
’’اپنے گھر میں۔ ماتا جی نے کہا تھا کہ ڈائن پھر رہی ہے باہر، کلیجہ نکال کر کھا جائے گی۔ باہر مت کھیلیو۔ ہم تو سو رہے تھے چاچا!‘‘
’’پھر تو یہاں کیسے آگیا؟‘‘
’’بھگوان کی سوگند ہمیں نامعلوم ہم تو سمجھے ماتا جی نےپائوں باندھ دیئے ہیں۔ اس نے یہی کہا تھا کہ کھیلنے باہر گئے تو وہ ہاتھ، پائوں باندھ کر ڈال دے گی۔‘‘
میں نے گہری سانس لی۔ سمجھ گیا تھا کہ بچے کو بے ہوش کرکے لایا گیا تھا اور یقیناً وہی کھیل ہونے والا تھا جو پہلے پانچ بچوں کے ساتھ ہوا پھر چھٹے بچے کے ساتھ اور اب یہ ساتواں بچہ! بستی میں داخل ہوکر بچے سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا اور وہ بتانے لگا۔ گھر والوں کو ابھی تک اس کی گمشدگی کا علم نہیں ہوا تھا کیونکہ گھر خاموشی اور سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ یہ یقیناً ان لوگوں نے کھولا ہوگا جنہوں نے بچے کو اغواء کیا تھا۔ میں نے للو سے کہا۔
’’تیرے گھر والوں کو ابھی کچھ نہیں معلوم، جا دروازہ اندر سے بند کرلینا۔ جا اندر جا…!‘‘ بچہ اندر چلا گیا اور میں فوراً وہاں سے واپس چل پڑا۔ میری آج کی بے کلی نے بہت اہم انکشاف کیا تھا۔ ایک بچے کی جان بچ گئی تھی۔ میں بہت خوش تھا۔ یہاں سرائے میں بھی وہی کیفیت تھی۔ کسی کو نہ میرے جانے کی خبر ہوئی تھی، نہ واپس آنے کی! اپنے کمرے میں آگیا پھر بستر پر لیٹ کر اس بارے میں سوچنے لگا۔ ڈائن کا معمہ حل ہوگیا تھا۔ بھاگ بھری بے قصور تھی۔ اس پر جھوٹا الزام لگ گیا تھا۔ بستی والے اس کے دشمن ہوگئے تھے۔ جو آواز میں نے سنی تھی، اسے پہچان لیا تھا۔ میری سماعت نے مجھے دھوکا نہیں دیا تھا۔ یہ سو فیصد کوہلی رام کی بیوی کی آواز تھی۔ دوسرا نام نندا کا تھا جو اس کا شریک کار تھا۔ اس کے الفاظ یاد آرہے تھے۔ ساتویں بلی دے رہی ہوں، میری گود ہری کردے۔ مجھے بچہ دے دے۔ مجھے بیٹا دے دے۔ ’’تو یہ قصہ ہے۔ وہی کالا جادو، وہی مکروہ علم! کمبخت عورت نے ایک اولاد کی خاطر چھ چراغ گل کردیئے تھے۔ اب سب کچھ علم ہوگیا تھا۔ میری رہنمائی کی گئی تھی۔ پہلے مجھے جمال گڑھی بھیجا گیا اور پھر ہنومان مندر اور اس عورت کی شکل دکھائی گئی اور اب…! سارے انکشافات ہوگئے تھے اور اب اس برائی کا خاتمہ کرنا تھا مگر اس کیلئے کوئی عمل درکار تھا۔
باقی رات سوچوں میں گزر گئی تھی۔
صبح کو اللہ دین کے ساتھ چائے پیتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’تم نے ٹھاکر کوہلی رام کے بارے میں خوب کہانی سنائی تھی اللہ دین!‘‘
’’کونسی کہانی بھیا…؟‘‘
’’یہی کہ وہ کھرا ٹھاکر نہیں ہے۔‘‘
’’ہاں! وہ مگر کسی سے کہنا نہیں مسافر بھیا! دشمنی ہوجائے گی ٹھاکر سے۔‘‘
’’نہیں! مجھے کیا ضرورت ہے۔ ویسے کوئی بچہ نہیں ہے اس کا؟‘‘
’’نہیں! بچہ نہیں ہے۔‘‘
’’اسے آرزو تو ہوگی؟‘‘
’’ہاں ہوگی تو پوجا پاٹھ کراتا رہتا ہے۔ رشی منی آتے رہتے ہیں۔ ٹھکرائن گیتا نندی ٹونے ٹوٹکے کرتی رہتی ہیں۔‘‘
’’ہوں!‘‘ میں نے کہا اور خاموش ہوگیا۔ اس سے زیادہ کیا کہتا۔ اچانک میں نے کچھ یاد کرکے کہا۔ ’’یہ نندا کون ہے؟‘‘
’’نندا…!‘‘
’’کسی نندا کو جانتے ہو؟‘‘
’’نندا… ہاں تین نندا ہیں جمال گڑھی میں۔‘‘
’’کوہلی رام کے ہاں کوئی نندا ہے؟‘‘
’’جگت نندا…! ہاں نندا چمار نوکری کرتا ہے وہاں۔ کوئی کام ہے اس سے…؟‘‘
’’نہیں! بس ایسے ہی پوچھ لیا تھا۔ پتا نہیں بے چارے تلسی کا کیا حال ہے۔‘‘
’’بخار میں پڑا ہوا ہے۔ میں صبح منہ اندھیرے چائے، روٹی دے آیا تھا بیچارے کو۔‘‘
’’ارے اتنی صبح مجھے تو پتا ہی نہ چلا حالانکہ میں جاگ گیا تھا۔‘‘ اللہ دین مسکرانے لگا۔ پھر بولا۔ ’’کیا کریں مسافر بھیا! عورت چھوٹے دل کی ہووے ہے۔ بیوی کے ڈر کے مارے ایسے کام چھپ کر کرلیتے ہیں۔‘‘
’’اوہ اچھا! تم ڈرتے ہو اپنی بیوی سے؟‘‘
’’ارے کچھ تو ڈرنا ہی پڑے ہے۔‘‘ اللہ دین نے ہنستے ہوئے کہا۔ میں بھی ہنسنے لگا تھا۔
یہاں پڑے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ ایسے ہی گھومنے نکل گیا۔ پھر کسی خیال کے تحت کوہلی رام کے گھر کا رخ کیا۔ سامنے سے گزر رہا تھا کہ کوہلی رام نے کہیں سے دیکھ لیا۔ ایک آدمی اندر سے دوڑا آیا تھا۔
’’ٹھاکر جی بلا رہے ہیں۔‘‘ میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ کوہلی رام دروازے کے بعد بغلی سمت بنی ڈیوڑھی میں موجود تھا۔
’’آئو داروغہ جی! کہاں ڈولت گھومت ہو؟‘‘
’’بس آپ کی جاگیر میں گھوم رہے ہیں ٹھاکر!‘‘
’’بیٹھو… تم بھی ہمیں من موجی ہی لگو ہو کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘ میرے منہ سے بے اختیار اپنے شہر کا نام نکل گیا۔ طویل عرصے کے بعد یہ نام نہ جانے کیوں میری زبان پر آگیا تھا۔ کہہ تو دیا تھا مگر دل میں اینٹھن سی ہوئی تھی مگر ٹھاکر میرے ہر احساس سے بے نیاز تھا۔ کہنے لگا۔ ’’یہاں بستی میں کوئی جان پہچان ہے کیا؟ کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’بس ٹھاکر صاحب! ایسے ہی سیر سپاٹے کیلئے نکل آیا تھا۔ ہوسکتا ہے جمال گڑھی سےآگے بڑھ جاتا مگر یہاں جو واقعات دیکھے، دلچسپ لگے سو یہاں رک گیا۔ میں نے کبھی کوئی ڈائن نہیں دیکھی تھی۔ بڑا عجیب سا لگا مجھے اور میں یہ دیکھنے کیلئے رک گیا کہ دیکھیں اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔‘‘ ٹھاکر کے چہرے پر تشویش کے آثار پھیل گئے۔ اس نے کہا۔
’’بس داروغہ جی! کیا بتائیں۔ بستی پر آفت ہی آگئی ہے۔ ہماری تو کوئی اولاد ہی نہیں ہے۔ دل دکھتا ہے ان سب کیلئے جن کے بچے مارے گئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بھاگ بھری کو کیا ہوگیا۔ ارے انسان پاگل تو ہو ہی جاتا ہے۔ اس کے ساتھ تو بری بیتی تھی مگر اس کے بعد جو کچھ وہ کررہی ہے، وہ سمجھ میں نہیں آتا۔ ہم تو کہتے ہیں بھگوان اسے اپنی طرف سے موت دے دے۔ بستی والوں کے ہاتھ لگ گئی تو کچل کچل کر مار
دیں گے۔ بستی کی عورت ہے۔ اس کا پتی بھی برا آدمی نہیں تھا پر بیچاری کا گھر بگڑا تو ایسے کہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو نکل آتے ہیں، سوچ سوچ کر!‘‘
’’جی ٹھاکر صاحب! کیا کہا جاسکتا ہے۔ ویسے ٹھاکر صاحب! یہ بات تو آپ کو پتا ہی ہے کہ بھاگ بھری کو کسی نے یہ سارے کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں بھی بتاچکا ہوں کہ اس دن وہ پیٹھ کئے بیٹھی تھی میری طرف، پاگل ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لاش دیکھ کر بیٹھ گئی ہو، دماغ میں کچھ نہ آیا ہو۔‘‘ ٹھاکر خاموشی سے سنتا رہا۔ پھر وہی ہوا جس کی مجھے اُمید تھی اور جس کا شاید انتظار بھی تھا۔ ٹھکرائن اندر داخل ہوگئی۔ مجھے دیکھ کر ٹھٹکی۔ دیکھتی رہی اور میں نے یہ محسوس کیا کہ اس کے چہرے پر سوچ کے آثار نمودار ہوگئے ہیں لیکن ٹھاکر صاحب کسی قدر حواس باختہ ہوگئے۔ جلدی سے بولے۔ ’’آئو …آئو ان سے ملو، بستی کے مہمان ہیں۔ یہاں آئے ہوئے ہیں سیر سپاٹے کیلئے اور داروغہ جی! یہ ہماری دھرم پتنی ہیں۔ بڑی مہان ہیں یہ…!‘‘ میں نے گردن خم کی۔ ٹھکرائن کے چہرے پر خشونت کے آثار بکھرے ہوئے تھے۔ مسکرانا تو جیسے جانتی ہی نہیں تھی۔ میں نے خود ہی کہا۔ ’’ابھی ابھی ٹھاکر جی سے باتیں ہورہی تھیں۔ آپ کا کوئی بچہ نہیں ہے۔‘‘ وہ پھر چونکی اور مجھے دیکھنے لگی۔ میری بات کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور ٹھاکر سے بولی۔
’’آج لکشمی پوجا ہے۔ کچھ انتظام ونتظام بھی کیا تم نے…؟‘‘
’’ارے ہمیں کیا کرنا ہماری ٹھکرائن جیتی رہیں۔ بھلا گھر کے کام کاج میں ہم کبھی کوئی دخل دیتے ہیں۔‘‘
’’ہاں! بس بیٹھ کر باتیں بنانے لگتے ہو اس کے علاوہ اور کوئی کام کرنا آتا ہے تمہیں!‘‘ ٹھاکر عجیب سے انداز میں ہنسنے لگا۔ وہ پائوں پٹختی ہوئی واپس چلی گئی۔ میری طرف دیکھ کر بولا۔
’’دوش اس کا نہیں ہے۔ پہلے ایسی نہیں تھی مگر عورت جب تک ماں نہ بنے، اپنے آپ کو پورا نہیں سمجھتی۔ یہ بھی ادھوری ہے اور اپنے آپ کو ادھورا ہی سمجھتی ہے۔‘‘
’’ہاں !ہوسکتا ہے۔ میں اب چلوں۔‘‘
’’برا تو مان گئے ہوگے۔ یہ کہنا تو بیکار ہے کہ برا ہی نہ مانے ہوگے مگر معاف کردینا اسے! بس جو بھگوان کی مرضی۔ اچھا چلتے ہیں۔‘‘ ٹھاکر خود ہی اٹھ گیا۔ ٹھکرائن کے انداز سے یہ پتا چل گیا تھا کہ اس کے ذہن میں میرے لئے کوئی خاص بات ضرور گونجی ہے۔ میں خود بھی یہاں بے مقصد ہی آیا تھا لیکن اب دن کی روشنی میں ایک بار پھر اسے غور سے دیکھا تھا، اس کی آواز سنی تھی اور ہر طرح کا شبہ مٹ گیا تھا۔ ہنومان مندر میں اس کے علاوہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ میں وہاں سے باہر نکل آیا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ گھومتا پھرتا کھیتوں کی سمت نکل آیا۔ باجرہ پک رہا تھا اور کھیتوں کے رکھوالے ’’ہاہو‘‘ کی آوازیں نکال رہے تھے۔ میں ایک جگہ سے گزر رہا تھا کہ کھیتوں کی مینڈھ کے پیچھے سے ایک لمبا چوڑا آدمی باہر نکل آیا اور اس طرح میرے سامنے کھڑا ہوگیا جیسے میرا راستہ روکنا چاہتا ہو۔ وہ کڑی نظروں سے مجھے گھور رہا تھا۔ میں دو قدم آگے بڑھ کر اس کے سامنے پہنچ گیا۔
’’کوئی بات ہے بھائی…؟‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔
’’تم اللہ دین کی سرائے میں ٹھہرے ہوئے ہو نا…؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’ہاں…!‘‘
’’تلسی کا گھر تمہارے سامنے ہے؟‘‘
’’ہاں! اللہ دین نے یہ بتایا تھا۔‘‘
’’بھاگ بھری تو نہیں آئی وہاں…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں، کیوں…؟‘‘
’’بس! اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ تمہیں اس بات کا علم ہوگا ساری بستی بھاگ بھری کی تلاش میں لگی ہوئی ہے۔ وہ پاپی عورت ڈائن بن گئی ہے۔ میں بھی اس کی تلاش کرتا پھر رہا ہوں، سبھی کے بال بچے ہیں مسافر! تمہارا بستی میں رہنا اچھا نہیں ہے۔ کہیں کوئی نقصان نہ پہنچ جائے تمہیں!‘‘ میں ہنسنے لگا۔ میں نے کہا۔ ’’کیا بھاگ بھری میرا بھی کلیجہ نکال کر کھا جائے گی؟‘‘
’’نہیں اور کوئی بات ہوسکتی ہے۔ پچھلی رات تم ہنومان مندر کی طرف کیوں گئے تھے؟‘‘ ایک لمحے کیلئے میرے ذہن میں سنسناہٹ پیدا ہوگئی۔ میں نے اسے غور سے دیکھا اور بولا۔ ’’میں اور ہنومان مندر میں…! نہیں بھائی، میں مسلمان ہوں۔ تمہیں اسی سے اندازہ ہوگیا کہ میں اللہ دین کی سرائے میں ٹھہرا ہوں۔ میرا بھلا ہنومان مندر میں کیا کام اور یہ ہنومان مندر ہے کہاں…؟‘‘
’’ادھر سیدھے ہاتھ پر کھیتوں کے بیچ بیچ چلے جائو، کافی دور جاکر ہنومان مندر نظر آتا ہے۔ پرانا مندر ہے۔ بھوت پریت کا بسیرا ہے۔ کوئی نہیں جاتا اس طرف مگر میں نے تو رات کو تمہیں ادھر دیکھا تھا۔‘‘
’’بھول ہوئی ہوگی تم سے! میں تو آج تک اس طرف نہیں گیا لیکن کبھی دیکھوں گا ضرور جاکر یہ ہنومان مندر ہے کیسی جگہ!‘‘
’’بھول کر بھی نہ جانا۔ بھوت بہت سے لوگوں کو مار چکے ہیں۔‘‘
’’تمہارا شکریہ مگر تمہیں میرا مطلب ہے یہ خیال کیسے آیا کہ میں تمہیں بھاگ بھری کے بارے میں بتائوں گا؟‘‘
’’بس! ایسے ہی مجھے شبہ ہوا تھا کہ رات کو میں نے تمہیں ہنومان مندر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ وہ چلا گیا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ گویاان لوگوں کو مجھ پر شبہ ہوگیا ہے البتہ اب مجھے پورا پورا یقین ہوگیا تھا کہ ان وارداتوں کے پیچھے ٹھکرائن ہی ہے۔ سرائے پہنچا تو اللہ دین کہنے لگا۔
’’گنگو اور جنک رام دو دفعہ آچکے ہیں تمہیں پوچھتے ہوئے، نہ جانے کیا بات ہے۔ کہہ گئے ہیں کہ جیسے ہی تم آئو، میں تمہیں گنگو کے گھر لے آئوں۔ مجھے یاد آگیا کہ بچے نے اپنے باپ کا نام گنگو ہی بتایا تھا۔ میں نے ایک لمحے میں فیصلہ کرلیا کہ اب مجھے یہ بات کھول دینی چاہئے۔ اس کے علاوہ چارہ نہیں تھا۔ گنگو اور جنک رام نے ہمارا پرتپاک خیرمقدم کیا تھا۔ گنگو نے سیدھے سیدھے بچے کو میرے سامنے لاکھڑا کیا اور بچے نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
’’یہی تھے باپو!‘‘
’’تم نے میرے بچے کو بچایا ہے مسافر بھیا! یہ احسان تو مر کر بھی نہ بھولیں گے ہم مگر تمہیں یہ تو پتا چل گیا ہوگا کہ بھید کیا ہے؟‘‘ گنگو نے کہا۔ اللہ دین حیرت سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ بولا۔ ’’ارے ہمیں تو کچھ نہیں پتا، کچھ ہمیں بھی تو بتائو۔‘‘ جواب میں گنگو نے اسے پوری تفصیل بتائی اور بولا۔ ’’یہ کام تو دیوتا ہی کریں ہیں۔ مسافر بھیا ہمارے لئے تو دیوتا ہی ہیں۔ نہیں تو ہم بھی گئے تھے کام سے…! چھورا نے انہیں پہلے بھی دیکھا تھا، پہچان لیا۔ اس نے ہمیں ساری کتھا سنائی۔ انہوں نے تو دیوتائوں ہی جیسا کام کرا تھا خاموشی سے، احسان تک نہ جتایا ہم پر!‘‘
’’دوستو…! تم نے مجھ پر اعتماد کر ہی لیا ہے تو مجھے زبان کھولنی پڑ رہی ہے۔ بے چاری پاگل بھاگ بھری کو بلاوجہ ہی ڈائن سمجھ لیا گیا ہے۔ اصل ڈائن کوہلی رام کی بیوی گیتا نندی ہے۔ مجھے اس کے ڈائن بننے کی وجہ بھی معلوم ہوگئی ہے۔ پچھلی رات میں بے چین ہورہا تھا اس لئے ٹہلتا ہوا ہنومان مندر جا نکلا اور وہاں میں نے یہ کھیل دیکھا۔ قصہ یہ ہے کہ گیتا نندی کے ہاں اولاد نہیں ہوتی جس کیلئے وہ جادو، ٹونوں کا سہارا لے رہی ہے۔ اپنی آرزو پوری کرنے کیلئے اس نے چھ بچوں کی قربانی دے دی ہے اور ساتویں قربانی آخری ہوگی۔ میں اکیلا تھا ورنہ اسے اس جگہ پکڑ لیتا اس لئے میں نے بچے کی جان بچانے کیلئے شور مچا دیا اور وہ بھاگ گئی پھر میرے لئے یہ ثابت کرنا بھی مشکل ہوجاتا البتہ تم لوگ ایک بات ضرور دماغ میں رکھو، وہ ساتویں قربانی کیلئے دوبارہ کوشش کرے گی۔‘‘ میرے انکشاف سے سنسنی پھیل گئی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے تھے پھر جنک رام نے کہا۔
’’مسافر بھیا ٹھیک کہتے ہیں۔ بات سمجھ میں آگئی، بالکل سمجھ میں آگئی۔ ٹھکرائن بڑی ٹوٹکن ہے، یہ تو ہمیں پہلے ہی معلوم تھا مگر وہ ڈائن ایسا کرے گی، یہ نہیں سوچا تھا۔ ارے ہوگی ٹھکرائن اپنے گھر کی، ہم اس کا دیا کھاویں ہیں کیا؟ چلو گنگو! جمع کرو سب کو، لٹھیاں لے کر چلو، مارمار بھیجا نکال دیں گے اس کا، دیکھا جائے گا جو ہوگا۔ کوئی دبیل میں نہیں ہیں ہم۔ اٹھو ساروں کو بتا دیں جن کے کلیجے چھن گئے ہیں۔ دیکھ لیں گے سب کو…!‘‘
’’اگر تم میری بات سن لو تو اچھا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’بولو مسافر بھیا…!‘‘
’’دیکھو یہ بات میں نے تمہیں بتائی ہے۔ ٹھاکر کہہ دے گا مسافر جھوٹ بول رہا ہے، پھر کیا کرو گے؟‘‘
’’ارے ہمارا چھورا بتا دے گا۔ ہم اسے لے چلیں گے۔‘‘ گنگو نے کہا۔
’’میری کچھ اور رائے ہے۔ تم اسے ہنومان مندر میں پکڑو اس وقت جب وہ یہ عمل کررہی ہو۔ نندا چمار اس کیلئے بچوں کو اٹھاتا ہے۔ تمہیں کسی ایسے بچے کو چھوڑنا پڑے گا جسے نندا اٹھا لے۔ ہم سب ہوشیار ہوں گے، نندا پر نظر رکھیں گے۔ جیسے ہی نندا اس بچے کو اٹھائے گا، ہم اس کا پیچھا کریں گے اور عین اس وقت دونوں کو پکڑیں گے جب وہ اپنا کام کررہے ہوں گے۔‘‘
’’اور اگر چوک ہوگئی تو…؟‘‘ جنک رام بولا۔
’’چوک ہوگی کیسے؟ بڑا اچھا مشورہ دیا ہے یہ پھر کوئی کیا بولے گا۔‘‘ اللہ دین نے کہا۔
’’سو تو ٹھیک ہے مگر بچہ کونسا ہوگا؟‘‘
’’میرا بچہ ہوگا، میرا کلو ہوگا۔‘‘ اللہ دین سینہ ٹھونک کر بولا اور میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ اللہ دین نے کہا۔ ’’ارے ہم مسلمان ہیں، اللہ پر بھروسہ ہے۔ ہمیں جو کچھ ہوتا ہے، مولا کی مرضی سے ہوتا ہے۔ پیچھا تو چھوٹے اس ڈائن سے! ساری بستی مصیبت میں پھنسی ہے۔ میں تیار ہوں مسافر بھیا!‘‘
’’ہم سب جان لڑا دیں گے کلو کیلئے فکر مت کر اللہ دین بھیا!‘‘ جنک رام نے کہا۔ اس آمادگی کے بعد اس منصوبے کی نوک پلک سنواری جانے لگی۔ بالآخر تمام باتیں طے ہوگئیں۔ اس سنسنی خیز عمل کا آغاز آج ہی رات ہونے والا تھا۔
گنگو اور جنک رام کے انداز سے یوں لگتا تھا جیسے وہ سارے کام آج ہی نمٹا لینا چاہتے ہوں لیکن مجھے یقین نہیں تھا کہ گیتا نندی آج ہی دوبارہ یہ کوشش کرے گی۔ اگر ہمارے اندازے بالکل درست تھے اور وہی ان وارداتوں کے پس پشت تھی تو اس نے اس عمل میں جلدبازی نہیں کی تھی۔ ہنومان دیوتا کے چرنوں میں اس نے چھ بچوں کی بلی دی تھی۔ ان لوگوں سے گفتگو کے دوران میں ان وارداتوں کے درمیانی وقفے معلوم کر چکا تھا۔ ان میں دنوں کی کوئی ترتیب نہیں تھی۔ اسے جب بھی موقع ملا تھا اس نے یہ کام سرانجام دے ڈالا تھا لیکن اب شاید پہلی بار اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ وہ چالاک تھی۔ نہ جانے اسے مجھ پر شبہ کیسے ہوا تھا یا پھر ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے اندھیرے میں تیر پھینکا ہو۔ وہ نندا ہی تھا۔ خود جتنا ٗچالاک تھا، اس کا اندازہ اس کی بات سے ہو گیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اس نے مجھے ہنومان مندر کے پاس دیکھا تھا۔ اس سے پوچھا جا سکتا تھا کہ وہ خود وہاں کیا کر رہا تھا۔ اب یہ تو مجھے ہی معلوم تھا کہ وہ وہاں کیا کر رہا تھا۔ گنگو کے گھر سے واپسی پر اللہ دین نے کہا۔
’’واہ مسافر بھیا۔ اتنا بڑا کام کر لیا اور ہمیں خبر بھی نہ دی۔‘‘
’’کوئی اتنا بڑا کام بھی نہیں تھا اللہ دین۔‘‘
’’بے چارے گنگو کے بیٹے کو ڈائن کے منہ سے نکال لیا اور کہتے ہو بڑا کام ہی نہیں کیا۔‘‘
’’اللہ کو اس کی زندگی بچانی تھی، وہ بچ گئی۔ میں کیا اور میری اوقات کیا۔‘‘
’’مگر اتی رات گئے تم ادھر نکل کیسے گئے تھے۔‘‘
’’بس دل بے چین ہو رہا تھا۔ سوچا ذرا گھوم آئوں۔‘‘
’’اتی دور، ہنومان مندر کوئی یہاں دھرا ہے۔ بھیا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ ہمت والے ہو اور پھر ہمیں تو کچھ اور ہی لگے ہے۔‘‘
’’پیر فقیر لگو ہو ہمیں تو۔ راتوں کو نماز پڑھتے دیکھا ہے تمہیں۔‘‘ اللہ دین سادگی سے بولا۔
’’توبہ کرو اللہ دین، توبہ کرو۔ میں ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہوں!‘‘
’’ارے تم نے ہم سے نندا کا نام پوچھا تھا؟‘‘
’’ہاں، ہنومان مندر کا واقعہ تمہیں معلوم ہو چکا ہے۔ میں نے بلاوجہ ان دونوں کا نام نہیں لے دیا ہے۔‘‘ میں نے کہا اور اللہ دین سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر بولا۔ ’’سو تو ہے۔ ایک کام تم نے گنگو کے بیٹے کو بچا کر کرا، دوسرا بڑا کام اور کر رہے ہو بھیا۔ بہت بڑا۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’ارے تم نے بھاگ بھری کا جیون بچا لیا، تلسی بے چارے کو بچا لیا۔‘‘
’’یہ لوگ بھی عجیب ہیں۔ اپنی عقل سے کچھ نہیں سوچتے۔ بھاگ بھری اور تلسی کی جان کے دشمن ہو رہے تھے۔ ایک لمحے میں پلٹ گئے۔ اگر میں نہ روکتا تو شاید سوچے سمجھے بغیر لاٹھیاں لے کر چڑھ دوڑتے مکھیا کے گھر پر۔‘‘
’’برے نہیں ہیں مسافر بھیا۔ دن رات پریشان ہو رہے ہیں۔ بچوں کو چھپائے چھپائے پھر رہے ہیں۔ کیا کریں آخر اولاد سے بڑھ کر کون ہووے ہے۔ اس کے لئے پاگل ہو رہے ہیں۔‘‘
’’مجھے ایک خطرہ ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’وقت سے پہلے زبان نہ کھول دیں۔ وہ ہوشیار نہ ہو جائے ورنہ پھر اسے پکڑنا مشکل ہو گا۔‘‘
’’سمجھا تو دیا ہے۔ اتنے بائولے نہیں ہیں۔ ساری بات سمجھا دی ہے انہیں۔‘‘
’’اس کے علاوہ اللہ دین، زبیدہ بہن تو کلو کو سینے میں چھپائے چھپائے پھرتی ہیں، تم اسے اس خطرے میں ڈال دو گے؟‘‘
’’اللہ پر بھروسہ کریں گے بھیا۔ کون تیار ہوتا۔ بستی کے بچے مر رہے ہیں، سب ہی اپنے ہیں، وہ بھی جو مارے گئے اپنے ہی تھے۔‘‘
’’زبیدہ بہن تیار ہو جائیں گی؟‘‘
’’وہ عورت ہے، ماں ہے۔ اس سے چار سو بیسی کرنی ہو گی کوئی۔ ہم یہی سوچ رہے تھے۔‘‘ اللہ دین کے جذبے کو میں نے سراہا تھا۔ خود بھی مستعد رہنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ اور کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، معاملہ ہی ایسا تھا۔ سرشام اللہ دین کلو کو لے کر باہر نکل آیا۔ نہ جانے اس نے بیوی سے کیا کہا تھا۔ باہر نکلتے ہوئے اس نے مجھے آنکھ سے اشارہ کر دیا تھا، میں بھی احتیاط سے باہر نکل آیا اور سیدھے راستے پر چل پڑا۔ کافی فاصلے پر اللہ دین مجھے مل گیا، مسکرانے لگا۔
’’کیا کہا زبیدہ بہن سے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ارے بھیا دیہاتی عورتیں دیہاتی ہی ہووے ہیں، بس میاں نے جو کچھ کہا، مان لیا، ہم نے بھی بڑی چار سو بیسی کری۔ کلو کو چلتے ہوئے دیکھا تو ہم نے آنکھیں پھاڑ دیں اور ایسا منہ بنا لیا جیسے ہماری جان نکل گئی ہو۔ وہ سامنے ہی موجود تھی، ہم سے پوچھنے لگی کیا ہوا، تو ہم نے اسے کان میں بتایا کہ کلو کے پیر لڑکھڑا رہے ہیں اور لگتا ہے لقوہ مار جائے گا، بھیا ڈر گئی۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ہم نے اس سے کہا کہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، بچے اگر کھیلیں کودیں نہیں تو ایسا ہی ہو جاتا ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب آئے تھے ایک دفعہ ہماری بستی میں، پتہ نہیں کیا کہہ رہے تھے، وہ پولو پولو کا مرض، کوئی مرض ہووے ہے پولو کا…؟‘‘
’’پولیو کا…‘‘
’’ہاں ہاں بالکل وہی وہی… تو ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ بچوں کو یہ کرنا چاہئے، وہ کرنا چاہئے، ہم نے اسے وہی یاد دلا دیا، ڈر گئی۔ کہنے لگی کہ اب کیا کریں۔ باہر کھیلنے دینے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کو خطرہ ہو جائے۔ ہم نے کہا ہم کیا مر گئے ہیں، ہم خود ساتھ لے جائیں گے، کھیلنے کودنے کے لئے چھوڑ دیں گے… رو رو کر کہنے لگی۔ ذرا خیال رکھیو… ہم نے کہا بائولی وہ تیرا ہی بیٹا ہے کیا۔ ہمارا کچھ نہیں لگتا۔ یوں بہلا پھسلا کر نکال لائے۔‘‘ میں ہنسنے لگا۔ میں نے کہا۔
’’ویسے تم بہت ہمدرد انسان ہو اللہ دین، بہت بڑا خطرہ مول لے رہے ہو۔‘‘
’’بھیا سچی بات بتائیں تمہیں بستی کے رہنے والے ہندو ہوں یا مسلمان سارے کے سارے ایک دوسرے کا دکھ اپنا ہی دکھ سمجھے ہیں۔ ہم بھی کوئی ان سے الگ تھوڑی ہیں، ارے ستیاناس ہو اس ٹھکرائن کا، اپنے ہاں اولاد نہیں ہوئی، ایک بیٹا ہو گیا فرض کرو ٹونوں ٹوٹکوں سے تو سات مائوں کی گودیں اجاڑے گی وہ، ارے وہ انسان ہے۔ جی تو ہمارا بھی یہی چاہوے ہے بھیا کہ کچا چبا جاویں اس سسری کو دانتوں سے، نرکھنی کہیں کی، ایسی نہ ہوتی تو ماتا پتا گھر سے باہر نکال کر یوں جمال گڑھی میں کیوں پھنکوا دیتے، پتہ نہیں کہاں سے آ گئی ڈائن ہماری بستی میں، ہمارا تو جی چاہے ہے کہ ٹھاکر کو ساری باتیں بتا دیں اور اس سے کہیں اب بول، کیا کہہ وے ہے، مگر وہی تمہاری بات سچی ہے کہ وہ مکر جائے گی۔ بالکل ٹھیک کہا ہے تم نے سب کی سمجھ میں بات آ گئی۔ رنگے ہاتھوں پکڑیں تو پھر دیکھیں کہ کیسے مکرتی ہے ارے بھیجہ باہر نکال دیں گے اس کا، وہیں توڑ مروڑ کر پھینک دیں گے حرام خور کو۔‘‘ اللہ دین چلتا جا رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا۔ ’’باقی لوگوں سے ملاقات تو نہیں ہوئی ہوگی؟‘‘
’’سب کے سب لگے ہوں گے بھیا۔ معلوم ہے ہمیں، پوری بستی کی مصیبت ہے، کسی ایک آدمی کی تو نہیں ہے اور اللہ دین کا کہنا سچ ہی نکلا تھا۔ جنک رام اور گنگو ساتھ ہی تھے۔ دو آدمی اور بھی ان کے ساتھ تھے۔ جنک رام نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر قریب سے گزرتے ہوئے کہا۔
’’اللہ دین بھیا تمہاری یہ بات بستی والوں کو جیون بھر یاد رہے گی، لے آئے کلو کو…؟‘‘
’’ہاں بھیا، کوئی ایسی بات نہیں ہے، جو چھ بچھڑ گئے ہیں ہم سے، ہماری کیا مجال تھی کہ انہیں بچا لیتے، اللہ کی مرضی تھی مگر اب کسی اور کو نہ بچھڑنے دیں گے، اللہ کرے ہمارا کلو خیریت سے رہے مگر کام تو کرنا ہی تھا نا کسی کو، ہاں بس تم ایک بات بتا دو؟‘‘
’’پوچھو اللہ دین بھیا۔‘‘ گنگو بولا۔
’’سمجھا بجھا دیا ہے سب کو، ارے کہیں کوئی زبان نہ کھول دے، ٹھکرائن ہوشیار ہو جائے گی اور اس کے بعد الٹی گلے پڑ جائے گی، کون مانے گا؟‘‘
’’اس کی تو تم چنتا ہی مت کرو بھیا۔ دیکھو اصل بات بس ان لوگوں تک پہنچائی ہے جن کے سینوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ مطلب سمجھ گئے ہو گے اور ان سے کہہ دیا ہے کہ جب پہرے پر نکلیں تو سب سے یہی کہیں کہ بھاگ بھری کی تلاش ہو رہی ہے اور کوئی بات نہیں ہے۔ سب کو اچھی طرح بتا دیا ہے اور یہ بھی سمجھا دیا ہے انہیں کہ کہیں سے بے چاری بھاگ بھری مل جائے تو اسے کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ ارے ویسے ہی بڑے پاپ ہو چکے ہیں ہم سے، ایک بے زبان کو ستایا ہے ہم نے۔ بائولی تو تھی ہی بے چاری کیا کرتی، بول بھی تو نہیں سکتی اپنے بارے میں۔ ہرے رام ہرے رام۔ ویسے اب کدھر کا ارادہ ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے نجو کی بگیا ٹھیک رہے گی۔ ہنومان مندر کا راستہ بھی ادھر ہی سے پڑتا ہے۔‘‘ پھر اللہ دین نے آنکھ دبائی، کلو کو کچھ نہیں بتانا چاہتا تھا۔ پھر اس نے سرگوشی میں کہا۔ ’’اور نندا کا کیا کیا ہے تم لوگوں نے؟‘‘
’’اس کی تم بالکل چنتا نہ کرو۔ لچھمن اور شنکر اس پر نظر رکھ رہے ہیں۔ لچھمن کے بارے میں تو تمہیں پتہ ہے کہ نندا کا یار ہے مگر اس مسئلے میں اس نے ساری یاری ختم کر دی۔ لچھمن، شنکر کو اشارے دے گا۔ ظاہر ہے نندا جب اس طرف آئے گا تو لچھمن کو پتہ چل جائے گا۔ سارے کام پکے ہیں بھیا جو کچھ تم کر رہے ہو۔ ظاہر ہے ہم اس میں کسر تھوڑی چھوڑیں گے۔‘‘
بہرحال یہ لوگ اپنی اپنی جگہ مستعد تھے، میں اور اللہ دین آگے بڑھ گئے۔ جنک رام وغیرہ دوسری سمت مڑ گئے تھے۔ جس جگہ کو نجو کی بگیا کہا گیا تھا، وہ ایک چھوٹا سا باغ تھا، آموں کے درخت لگے ہوئے تھے۔ کلو تو آموں کے درختوں کو دیکھ کر ہی مچلنے لگا۔
’’ابا کیری کھالوں…؟‘‘
’’ارے ہاں ہاں جا مزے کر۔ گھوم پھر، کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ بچہ تھا۔ خوشی خوشی آگے بڑھ گیا اور اس کے آگے بڑھتے ہی اللہ دین کے چہرے پر تشویش کے آثار نظر آنے لگے۔ اس نے کپکپاتی آواز میں کہا۔ ’’بھیا ذرا نظر رکھیو… اللہ کے حوالے کر دیا ہے پر کیا کریں باپ کا دل ہے، ڈرتا تو ہے ہی۔‘‘
’’جگہیں بدل لو اللہ دین۔ تم ایک طرف ہو جائو۔ میں ایک طرف ہوا جاتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ درحقیقت ہم لوگوں نے بڑی مہارت سے کلو کو نظر میں رکھا تھا۔
چھٹپٹے تاریکی میں بدل گئے۔ کلو مزے سے کیریاں توڑ توڑ کر کھا رہا تھا۔ بہت دن کے بعد باہر نکلنے کا موقع ملا تھا، کھیلنے سے جی ہی نہیں بھرتا تھا۔ پھر جب اچھی خاصی رات ہو گئی اور کوئی واقعہ نہیں ہوا تو اللہ دین نے سیٹی بجائی۔ میں جواب میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ اللہ دین بولا۔ ’’کیا خیال ہے بھیا اور انتظار کریں…؟‘‘
’’میرا خیال ہے اب بیکار ہے مگر اب یہ کام سرشام ہی شروع ہو جانا چاہئے۔ رات کو تو خاص طور سے شبہ ہو سکتا ہے کہ آخر اتنی دیر تک ان حالات میں کلو باہر کیسے موجود ہے۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو مسافر بھیا۔ تمہارا دماغ بہت تیز ہے۔‘‘ غرض یہ کہ ہم واپس چل پڑے۔ سرائے میں ایک ایک کر کے کئی آدمی آئے۔ مشورے ہوئے اور یہ سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ پھر دوسرے دن شام کے چار بجے ہی کلو کو باہر لے آیا گیا۔ شام تک انتظار کیا گیا۔ آج مزید احتیاط برتی گئی تھی۔ میرے دل میں مایوسی پیدا ہوتی جارہی تھی، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہوشیار ہو گئی ہو اور اب اپنا عمل بدل دے۔ ویسے جنک رام، گنگو اور دوسرے چند لوگوں کی زبانی مجھے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ کچھ لوگوں نے مستقل ہنومان مندر کے گرد ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ایسی جگہوں پر پوشیدہ ہو گئے ہیں جہاں سے آنے جانے والے پر نظر رکھیں اور ان کے بارے میں کسی کو پتہ نہ لگے۔ یہ اطلاع بھی تسلی بخش تھی اور تیسرے دن وہ ہو گیا جس کے لئے پچھلے دو دنوں سے تگ و دو کی جا رہی تھی۔
اس وقت کلو کیریاں توڑ توڑ کر کھا رہا تھا۔ یہ جگہ اسے بہت پسند تھی۔ آتے ہوئے اس نے کئی دوسرے بچوں کو بھی دعوت دی تھی مگر بچے اسے حیران نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اپنے گھروں میں جا گھسے تھے۔ کسی نے کلو کا ساتھ دینے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا چنانچہ وہ خود ہی یہاں آ گیا تھا۔ میں اور اللہ دین ایک درخت پر چڑھے ہوئے تھے۔ کلو کو پتہ نہیں تھا کہ ہم درخت پر ہیں۔ وہ اس درخت سے صرف دو تین گز کے فاصلے پر کیریاں اکھٹی کر رہا تھا کہ دفعتاً ہی اللہ دین نے میرے کان میں سرگوشی کی۔
’’مسافر بھیا۔‘‘ اللہ دین کی آواز کانپ رہی تھی۔ میں نے اس طرف دیکھا جدھر اس نے اشارہ کیا تھا۔ ایک نظر میں پہچان لیا، نندا ہی تھا، وہ اسی سمت آ رہا تھا۔ کمبل اوڑھے ہوئے تھا لیکن صرف کاندھوں تک حالانکہ موسم کمبل کا نہیں تھا۔ میرے چہرے پر خون سمٹ آیا۔ نندا آہستہ آہستہ چلتا ہوا کلو کے پاس پہنچ گیا۔ ادھر ادھر نظریں دوڑائی تھیں اور کلو کے پاس جا کھڑا ہوا۔
’’ارے تو اللہ دین کا چھورا ہے نا؟‘‘
’’ہاں نندا چاچا مجھے نہیں پہچانتے؟‘‘
’’کیوں نہیں… مگر یہاں اکیلا کیا کر رہا ہے…؟‘‘
’’کیریاں چن رہا ہوں۔‘‘
’’اچھا اچھا… تجھے اکیلا چھوڑ دیا اللہ دین نے… تجھے پتہ ہے کہ بستی میں ڈائن پھرتی ہے۔‘‘
’’ڈائن کیا ہوتی ہے نندا چاچا؟‘‘
’’کتنی کیریاں جمع کر لیں تو نے…؟‘‘
’’بس یہ ہیں۔‘‘
’’اور جمع کرے گا؟‘‘
’’بس تھوڑی سی اور جمع کروں گا پھر تو رات ہونے ہی والی ہے۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہے۔ چل ٹھیک ہے اور جمع کر لے۔ وہ دیکھ وہ درخت کے نیچے پڑی ہوئی ہیں۔‘‘
’’کدھر؟‘‘ کلو نے معصومیت سے پوچھا اور اس سمت دیکھنے لگا اور اسی وقت نندا نے شانوں پر پڑا کمبل کلو پر ڈال دیا اور اسے بھینچ لیا۔ اللہ دین کے حلق سے آواز نکلنے ہی والی تھی کہ میں نے اس کا منہ بھینچ لیا۔ اللہ دین کا بدن ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ نندا، کلو کو دبوچے ہوئے تھا اور کلو کمبل میں ہاتھ پائوں مار رہا تھا۔ اللہ دین نے سرگوشی میں کہا۔ ’’بب بھیا۔ کک کہیں دم ہی نہ نکل جائے میرے بچے کا۔‘‘
’’نہیں۔ وہ لوگ بچوں کو زندہ رکھتے ہیں۔‘‘ اللہ دین کی آواز بری طرح کپکپا رہی تھی۔ میں نے اس کے بدن میں تھرتھری محسوس کی اور میرا دل دکھنے لگا۔ بہرحال ساری باتوں کو بھول کر میں بھی مستعد ہو گیا تھا۔ نندا، کلو کو کندھے پر ڈال کر تیزی سے ہنومان مندر کے راستے کی جانب چل پڑا۔ میں اور اللہ دین نیچے اترے ہی تھے کہ لچھمن اور شنکر پہنچ گئے۔ انہوں نے آہستہ سے کہا۔
’’ساری خبر تھی ہمیں، کام ہو گیا نا مگر چنتا نہ کرنا اللہ دین بھیا، بیس آدمی ہیں مندر کے آس پاس۔ سارے کے سارے لمبے لمبے چکر کاٹ کر وہاں پہنچ چکے ہیں۔ ایک ایک جگہ پر نظر رکھی جا رہی ہے، اور تو اور دو تین تو مندر کے اندر موجود ہیں اور ستونوں کے بیچ چھپے ہوئے ہیں۔ جیسے ہی نندا اس طرف چلا، لچھمن نے مجھے خبر کر دی اور اس کا پیچھا کرنے لگا۔ میں نے ان سارے آدمیوں کو جو تاک میں لگے ہوئے ہیں، تو پروا مت کریو اللہ دین بھیا۔ بال بیکا نہیں ہو گا ہمارے کلو کا۔ پہلے ہماری جان جائے گی۔‘‘
’’ارے بھیا خدا کرے۔ ڈائن سے ہمارا پیچھا چھوٹ جائے۔ چلیں؟‘‘
’’ایک ایک کر کے ادھر ادھر گھوم کر۔ نندا بڑا چالاک ہے اور سنو بات ابھی یہیں ختم تھوڑی ہوئی ہے۔ چلو چلو ہم بھی چل رہے ہیں۔‘‘ جنک رام نے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔ ہم لوگ بڑی احتیاط سے نندا کو نگاہوں میں رکھے ہوئے چل رہے تھے، وہ محتاط قدم اٹھاتا ہوا مندر کی طرف جا رہا تھا۔ جنک رام نے کہا۔
’’مکھیا جی کی حویلی پر بھی پہرہ لگا ہوا ہے اور سارے لوگ نگرانی کر رہے ہیں۔ جیسے ہی گیتا نندی باہر نکلے گی اس کی بھی خبر ہمیں مل جائے گی۔‘‘ ہم اس طرح باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ جھٹپٹے تیزی سے رات میں تبدیل ہو گئے۔ نندا مندر میں داخل ہو گیا تھا۔ ہمارے دل دھک دھک کر رہے تھے۔ اللہ دین بے چارہ تو ابھی تک تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے بدن کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔ آواز بھی اتنی مدھم ہو گئی تھی اس کی کہ مجھے حیرت تھی۔ غرض یہ کہ نندا تو مندر میں داخل ہو گیا۔ میں اور اللہ دین مندر کے بالکل قریب دیواروں کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔ دفعتاً اللہ دین نے ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ادھر ادھر… دیکھو۔‘‘ میں نے اللہ دین کا اشارہ سمجھ لیا۔ مندر کا اس سمت کا حصہ ٹوٹا ہوا تھا۔ اینٹیں ایک دوسرے پر ڈھیر کی شکل میں پڑی ہوئی تھیں اور ایک بڑا سا سوراخ تھا۔ میں خوشی سے اچھل پڑا۔ یہ تو مندر میں اندر جانے کا راستہ بھی ہو سکتا تھا۔ میں انتہائی محتاط قدموں سے آگے بڑھا۔ اللہ دین سے سرگوشی کر کے میں نے اسے بھی محتاط رہنے کے لئے کہا اور اللہ دین نے گردن ہلا دی۔ ہم لوگ ایک ایک انچ سرک رہے تھے کہ کہیں کوئی اینٹ اپنی جگہ سے سرک نہ جائے اور نندا ہوشیار نہ ہو جائے لیکن ایک بات اور بھی تھی کہ اگر نندا ہوشیار ہو گیا تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا، وہ بھاگنے کی کوشش کرے گا لیکن جتنے افراد کی اطلاع ملی تھی کہ وہ مندر کے گرد چھپے ہوئے ہیں، وہ اسے بھاگنے کہاں دیں گے۔ کوئی اور طریقہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ گیتا نندی کو یہاں کے بارے میں اطلاع مل جائے۔ بہرطور ٹوٹے ہوئے حصے سے ہم مندر کے ایک پتلے سے حصے میں داخل ہو گئے اور اس پتلی سی راہداری میں جہاں کوڑا کرکٹ کے انبار لگے ہوئے تھے اور چوہے ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔ آگے بڑھتے ہوئے ہم سامنے کے حصے میں پہنچ گئے جہاں سے تھوڑا سا فاصلہ طے کر کے اس علاقے میں داخل ہوا جا سکتا تھا جہاں ہنومان کا بت استادہ تھا۔ میں نے اللہ دین کے کان سے منہ جوڑ کر آہستہ سے کہا۔ ’’دیکھو اللہ دین بھیا ذرا سی بھی کمزوری دکھائی تو ساری قربانی بیکار جائے گی، سنبھل کر رہنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ اللہ دین نے کہا اور ہم ستونوں کی آڑ لیتے ہوئے ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے سامنے نظر ڈالی جا سکتی تھی لیکن ہمارے عقبی ستون میں بھی کچھ لوگ پوشیدہ تھے۔ تھوڑے فاصلے پر کچھ سرسراہٹیں سنائی دی تھیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ پوری طرح ہوشیار ہیں۔ نندا مزے سے بیٹھا بیڑی پی رہا تھا اور ہنومان کے بت کے قدموں میں کلو پڑا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور اس کی مدھم مدھم آواز سنائی دے رہی تھی۔ ہم نے اس آواز پر کان لگا دیئے۔ کہہ رہا تھا۔
’’نندا چاچا۔ نندا چاچا چھوڑ دو مجھے۔ کیوں لے آئے ہو یہاں۔ نندا چاچا یہ میرے ہاتھ پائوں، یہ میرے ہاتھ پائوں کیوں باندھ دیئے ہیں تم نے…؟‘‘
‘‘آواز بند کر۔ نہیں تو چھری پھیر دوں گا تیری گردن پر جیسے کہ رمضان بکرے کی گردن پر چھری پھیرتا ہے، بات سمجھ میں آئی۔‘‘
’’نہیں نہیں نندا چاچا چھوڑ دو مجھے، چھوڑ دو مجھے نندا چاچا۔‘‘
’’ارے چپ ہوتا ہے یا نہیں‘‘ نندا نے سچ مچ اپنے لباس سے وہ خنجر نکال لیا جس کا میں پہلے بھی دیدار کر چکا تھا۔ اللہ دین نے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لئے تھے۔ میں نے اس کے شانے پر آہستہ آہستہ تھپکیاں دیں اور وہ ایسی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگا جن میں بے کسی اور بے بسی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ یہ آنکھیں کہہ رہی تھیں کہ وہ اپنے بچے کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتا۔ کلو چیختا رہا۔ چیختے چیختے اس کا گلا بیٹھ گیا اور نندا مزے سے بیڑی پر بیڑی سلگاتا رہا۔ بڑا صبرآزما وقت تھا۔ ایسے لمحات گزارنا زندگی کا سب سے مشکل کام ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ جن لوگوں نے اس بات کا بیڑا اٹھایا تھا کہ ڈائن کو روشنی میں لا کر رہیں گے، وہ بھی بڑے صبر ہی سے وقت گزار رہے تھے۔ کیا مجال کہ کسی کو چھینک بھی آ جائے۔
پھر اچانک ہی سرسراہٹیں بلند ہوئیں۔ یوں لگا جیسے غیرمحسوس طریقے سے ایک نے دوسرے کو اور دوسرے نے تیسرے کو خبر دی ہو۔ لمحہ لمحہ سنسنی خیز تھا اور میرا یہ اندازہ درست ہی نکلا۔ یہ سرسراہٹیں درحقیقت ایک پیغام ہی تھیں اور اس کی تصدیق اس وقت ہو گئی جب گیتا نندی مندر کے احاطے میں داخل ہوئی۔ کالے رنگ کی ساڑھی باندھی ہوئے تھی۔ اوپر سے شال اوڑھی ہوئے تھی۔ اکیلی تھی اور بڑے پراعتماد قدموں سے اندر داخل ہو رہی تھی۔ نندا چونک کر سیدھا ہو گیا۔
’’جے دیوی۔‘‘ گیتا نندی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور قریب پہنچ گئی۔ اس نے بھاری آواز میں کہا۔ ’’نندا اگر آج ہمیں کامیابی نہ ہوئی تو یوں سمجھ لے کہ میری ساری تپسیا بیکار چلی جائے گی۔‘‘
’’میں جانتا ہوں دیوی۔‘‘ نندا نے کہا۔
’’سوامی ادھیرنا چندو ساتویں دن درشن دیں گے اور بس پھر میرا کام بن جائے گا۔‘‘
’’ہاں دیوی سات دن رہ گئے ہیں۔‘‘
’’بستی والے الگ ہوشیار ہیں۔ خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ نندا نے کہا۔
’’چل ہاتھ پائوں کھول دے اس کے۔‘‘ گیتا نندی نے کہا اور نندا نے خنجر نکال لیا۔ اس نے کلو کے ہاتھ پائوں کی رسیاں کاٹ دیں۔ کلو نے بھی اسی طرح تڑپ کر اٹھنے کی کوشش کی مگر نندا نے اسے بالوں سے پکڑ کر نیچے گرا دیا۔ گیتا نندی نے خنجر ہاتھ میں لے لیا تھا۔
’’اللہ دین درحقیقت صابر تھا۔ اس کی جو حالت ہورہی تھی مجھے اندازہ تھا مگر ضبط کئے ہوئے تھا۔ گیتا نندی کی آواز ابھری۔
’’جے بجرنگا۔ ساتویں بلی دے رہی ہوں۔ اسے سوئیکار کر بجرنگ بلی۔ میرے گود ہری کر دے۔‘‘
’’ٹھکرائن، کمینی، کتیا، میں تیری بلی دے دوں گا۔ ڈائن شیطان۔‘‘ اللہ دین کی بھیانک آواز سے مندر گونج اٹھا اور اس نے دیوانوں کی طرح لمبی چھلانگ لگائی۔ گیتا نندی اچھل پڑی۔ اس نے خونی نظروں سے اللہ دین کو اور پھر کلو کو دیکھا۔ پھر وہ بھیانک آواز میں بولی۔
’’تو بھی مارا جائے گا بھٹیارے۔ پیچھے ہٹ جا۔ مارا جائے گا میرے ہاتھوں۔ نندا اسے سنبھال۔‘‘ لیکن صبر کرنے والوں سے کہاں صبر ہوتا، وہ سب بیک وقت نکل پڑے۔ نندا کو انہوں نے دبوچ لیا۔ ٹھکرائن نے اللہ دین پر وار کیا مگر اللہ دین کی تقدیر اچھی تھی، اس کے سینے پر بس ہلکی سی خراش لگی۔ مشتعل لوگوں نے ٹھکرائن کے لمبے بال پکڑ کر اسے پیچھے سے گھسیٹ لیا تھا ورنہ اللہ دین ضرور مارا جاتا۔ گیتا نندی نے کئی لوگوں کو زخمی کر دیا مگر کیونکہ بے شمار افراد تھے اس لئے وہ زیادہ دیر خنجر نہ گھما سکی۔ کسی نے اس کے ہاتھ پر لاٹھی مار کر خنجر گرا دیا اور جونہی خنجر اس کے ہاتھ سے نکلا لوگ اس پر ٹوٹ پڑے۔ وہ بھول گئے تھے کہ وہ ٹھکرائن ہے۔ اس کے بال نوچ ڈالے گئے۔ کپڑے تار تار کر دیئے گئے۔ نندا کی تو شکل ہی نہیں پہچانی جا رہی تھی۔ باہر سے بہت سی آوازیں ابھریں۔
’’ٹھاکر جی آ گئے۔ کوہلی رام جی آ گئے۔‘‘ ٹھاکر بہت سے لوگوں کے ساتھ اندر آ گیا تھا۔
’’کیا ہے، کیا ہو رہا ہے۔ ارے یہ کیا ہو رہا ہے۔ ارے یہ گیتا نندی، چھوڑو اسے۔ چھوڑو ورنہ میں گولی چلوا دوں گا۔‘‘ ٹھاکر کے دو آدمیوں کے پاس بندوقیں تھیں۔
’’انصاف سے کام لو ٹھاکر۔ کتنی گولیاں چلائو گے۔ آخر میں تمہارے پاس گولیاں ختم ہو جائیں گی۔ پھر کیا ہو گا۔ جانتے ہو؟‘‘ پیچھے سے کسی نے کہا۔
’’ہم تمہیں گولیاں چلانے کے لئے نہیں لائے ٹھاکر، اس لئے بلا کر لائے ہیں کہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔
’’سب کچھ تو کر ڈالا تم نے۔ اب میں کیا دیکھوں۔’’ کوہلی رام بولا۔
’’اس بھول میں نہ رہنا ٹھاکر، یہ سب کچھ نہیں ہے۔ زندہ جلائیں گے ہم اس ڈائن کو اور اس چمار کو۔ بھگوان کی سوگند اسے زندہ نہ جلایا تو ماں کا دودھ حرام ہے ہم پر۔‘‘ رگھبیر نے کہا۔
’’دیکھو کتنوں کے گھائو لگائے ہیں اس نے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ ارے تم دھن والے سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو۔ چلوائو گولی۔ چلوائو ٹھاکر…!‘‘ رام پال نے کہا۔ اس کا بیٹا بھی مارا گیا تھا۔
’’گیتانندی کیا ہے یہ سب کچھ…؟ یہ سب کیا ہے گیتا…!‘‘
’’جھوٹے ہیں پاپی سارے کے سارے۔ سب کچھ اس مسافر کا کیا دھرا ہے۔ یہ سب اس کی سازش ہے۔‘‘ ٹھکرائن نے میری طرف اشارہ کر کے کہا۔
’’نام مت لینا اس دیوتا کا ٹھکرائن۔ بھگوان کی سوگند زبان کاٹ لیں گے تمہاری۔‘‘ گنگو دھاڑا۔
’’تم یہاں کیا کر رہی تھیں ٹھکرائن…؟‘‘ کوہلی رام نے پوچھا۔
’’ہنومان پوجا کرنے آئی تھی۔ سپنے میں درشن دیئے تھے، انہوں نے بلایا تھا مجھے، سو نندا کو ساتھ لے کر چلی آئی۔‘‘ گیتا نندی بولی۔
’’تمہارا منہ ہے ٹھاکر جو رکے ہوئے ہیں، نہیں تو لاٹھیاں مار مار کر بھیجہ باہر کر دیتے اس کا۔‘‘ ایک پرجوش آدمی بولا۔
’’ارے تم منہ دیکھو ٹھاکر کا۔ ہم نہیں دیکھیں گے، مارو اس حرام خور کو، جان سے مار دو…!‘‘ لوگ ایک بار پھر بے قابو ہو گئے۔ چند افراد نے بندوق برداروں پر
حملہ کر کے بندوقیں چھین لیں۔ صورتحال بگڑتے دیکھ کر میں نے ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر چیخ کر کہا۔
’’سنو بھائیو! کلو کی جان بچ گئی ہے۔ اللہ نے گنگو کے بیٹے للو کو بھی بچا لیا ہے۔ گیتا نندی اور نندا کو پکڑ کر حویلی لے چلو۔ پوری بات ٹھاکر کو بتائو پھر دیکھو وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
’’فیصلہ ہم کریں گے، ٹھاکر نہیں۔‘‘
’’پھر بھی کوہلی رام کو تفصیل تو بتائو۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ لے چلو اس ڈائن کو۔ لے چلو۔‘‘ لوگوں نے میری اتنی بات مان لی۔
’’کپڑے پھاڑ دیئے ہیں تم نے اس کے۔ یہ چادر اوڑھا دوں میں اسے۔‘‘ ٹھاکر نے کہا۔
’’بندوقیں اب دوسروں کے ہاتھوں میں تھیں اس لئے کوہلی رام بھی بے بس ہو گیا تھا۔ گیتا نندی اور نندا چمار کو مندر سے باہر لایا گیا۔ کافی لوگ جمع ہو گئے تھے اور پھر پورا جلوس ہی واپس چل پڑا۔ جنک رام، گنگو اور اللہ دین میرے ساتھ تھے۔ راستے میں جنک رام نے کہا۔
’’ہم کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ ٹھاکر پولیس کو بھی بلا سکتا ہے اور اگر پولیس آ گئی تو ٹھکرائن بچ جائے گی۔‘‘
’’سو تو ہے…‘‘
’’بستی میں گھستے ہی دس بیس آدمیوں کو دوڑا دو۔ پوری بستی جمع کر لو۔ سب کے سب ٹھاکر کی حویلی کو گھیر لیں، کسی کو بستی سے باہر نہ جانے دیا جائے۔ جس کے پاس جو ہتھیار ہے، لے کر آ جائے۔ ٹھاکر کوئی چال نہ چل جائے کہیں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک کہا تو نے جنکیا۔ میں دوڑ کر بستی جاتا ہوں۔ ارے آئو رے آئو، دو چار میرے ساتھ…‘‘ گنگو نے کہا۔ فوراً چند لوگ اس کے ساتھ ہو لئے اور گنگو جلوس سے آگے دوڑ گیا۔ پھر جب بستی میں داخل ہوئے تو بستی کے تمام گھر روشن ہو چکے تھے۔ لوگ چیختے پھر رہے تھے۔ ’’ڈائن پکڑی گئی بھائیو۔ سب کے سب گھروں سے نکل آئو۔ ٹھاکر کی حویلی کے سامنے جمع ہو جائو۔ ڈائن پکڑی گئی۔‘‘ جلوس ٹھاکر کی حویلی پہنچا تو وہاں کا منظر ہی بدلا ہوا ملا۔ گنگو حویلی کے دروازے پر بندوق لئے جما ہوا تھا۔ بیس پچیس آدمی اس کے ساتھ تھے۔ جو لوگ حویلی میں تھے، انہیں نہتا کر کے باہر جمع کر لیا گیا تھا اور دو آدمی ان پر بندوقیں تانے ہوئے تھے…! ٹھاکر آگے بڑھا تو گنگو نے اس پر بندوق تان لی۔
’’تم اندر نہیں جائو گے ٹھاکر۔ جب تک فیصلہ نہیں ہو جائے گا اندر نہیں جائو گے۔‘‘ گنگو نے کہا۔
’’تم لوگوں نے میرے گھر پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ جانتے ہو اس کے جواب میں پولیس کیا کرے گی۔‘‘
’’یہ کام اب پولیس نہیں کرے گی ٹھاکر، ہم کریں گے۔ بھول جائو پولیس کو، بچے ہمارے مارے گئے ہیں، پولیس کے نہیں۔‘‘ گنگو نے کہا۔
’’میں مکھیا ہوں تمہارا…!‘‘
’’یہیں پنچایت ہو گی۔ یہیں فیصلہ ہو گا۔ پھر اندر جائو گے تم…!‘‘
’’تو پھر فیصلہ تم ہی کر لو، میری کیا ضرورت ہے۔‘‘
’’فیصلہ تو ہو گیا ہے ٹھاکر۔ زندہ جلائیں گے ہم ان دونوں کو…!‘‘ کوہلی رام کو اندازہ ہو گیا کہ صورتحال بہت بگڑی ہوئی ہے۔ وہ پریشانی سے دوسروں کی صورت دیکھنے لگا۔ بستی کے لوگ چاروں طرف سے آ کر جمع ہو رہے تھے۔ کہرام مچا ہوا تھا۔ میں دل ہی دل میں اپنے آپ کو ٹٹول رہا تھا اور میرا دل جواب دے رہا تھا۔ کوئی شک نہیں ہے گیتا نندی کے مجرم ہونے میں۔ چھ معصوم بچوں کی جان لی ہے اس نے۔ اس کے ساتھ یہی سب ہونا چاہئے۔
’’اللہ دین۔ کلو کو گھر پہنچا دو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کلیجہ نکل گیا ہے مسافر بھیا۔ ہائے کیا حالت ہو رہی تھی میرے بچے کی، ارے میں تو چاہتا تھا وہیں مار ڈالتے ان دونوں کو۔ یہ ٹھاکر وہاں کیسے پہنچ گیا۔‘‘
’’یہ بات تو پہلے ہی طے کر لی گئی تھی کہ کچھ لوگ ٹھاکر کو بلا لائیں گے تاکہ وہ بھی دیکھ لے۔‘‘
’’اب کیسے رنگ بدل رہا ہے سسرا۔ گنگو نے ٹھیک کرا بھیا نہیں تو سسرا پولیس بلا لیتا اور پھر ہماری دال نہ گلتی، بچا لیتا وہ کسی نہ کسی طرح ٹھکرائن کو، ٹھیک ہے مسافر بھیا ہم کلو کو گھر پہنچا دیں۔ ابھی آتے ہیں۔‘‘ اور اللہ دین وہاں سے چلا گیا۔ مجھے صورتحال کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔ بستی والے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ وہ حیران تھے اس بات پر کہ ڈائن بھاگ بھری نہیں تھی اور اس کی طرف شبہ ایسے ہی چلا گیا تھا۔ ٹھکرائن اصل ڈائن ہے، بات آہستہ آہستہ کھلتی جا رہی تھی، لوگ ایک دوسرے کو تفصیل بتا رہے تھے، وہ لوگ سب سے زیادہ مشتعل تھے جن کے بچے ٹھکرائن کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا ورنہ سب کچھ وہیں کر ڈالتے لیکن جو تیاریاں ہو رہی تھیں ان سے اندازہ ہوتا تھا کہ کسی طرح ٹھکرائن اور نندا کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ بہت سے لوگ جنگل اور کھیتوں کی طرف بھی نکل گئے تھے، ان کی آمد کے بعد ان کے ارادوں کا پتہ چلا۔ لکڑیاں کاٹ کر لائے تھے اور حویلی کے سامنے ہی ایک صاف ستھرے حصے میں انبار کرنے لگے تھے۔ ٹھکرائن کو حویلی میں نہیں جانے دیا گیا تھا بلکہ وہیں ایک جگہ بٹھا دیا گیا تھا۔ نندا بھی تھوڑے فاصلے پر موجود تھا۔ گیتا نندی جتنا شور مچا سکتی تھی، مچا چکی تھی اور اب اس کے چہرے پر خوف کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ ٹھاکر کوہلی رام لوگوں سے صلاح و مشورے کر رہا تھا۔ تقریباً ساری بستی ہی امڈ آئی تھی بس عورتیں اور بچے ہی گھروں میں رہ گئے تھے۔ تلسی بھی موجود تھا مگر اتنے فاصلے پر کہ میں اس کے چہرے کا جائزہ نہیں لے سکتا تھا۔ بہرطور یہ ہنگامہ آرائیاں جاری رہیں۔ لوگوں کی زبانی ان فیصلوں کا پتہ چل رہا تھا جو کوہلی رام اور دوسرے لوگوں کے درمیان بات چیت کرنے سے ہوئے تھے۔ پتہ چلا کہ صبح کو پنچایت ہوگی اور ساری باتیں سننے کے بعد فیصلے کئے جائیں گے۔ بستی میں جیسے کوئی تہوار منایا جا رہا تھا۔ پوری بستی روشن تھی، لوگ آ جا رہے تھے۔ ٹھاکر کوہلی رام بھی ایک طرف بیٹھ گیا تھا تھک کر۔ غرض یہ کہ یہ ہنگامے ساری رات جاری رہے۔ اللہ دین میرے پاس واپس آ گیا تھا۔ اب وہ خاصی بہتر حالت میں نظر آ رہا تھا۔ جنک رام اور گنگو وغیرہ بھی میرے پاس ہی موجود تھے۔ ان دونوں کو مجھ سے بڑی عقیدت ہو گئی تھی خاص طور سے گنگو کو جس کا بچہ قربان ہوتے ہوتے بچ گیا تھا، اللہ دین کے لئے بھی بڑی عقیدت کے الفاظ ادا کئے جا رہے تھے کہ اس نے اپنے بیٹے کی زندگی خطرے میں ڈال دی تھی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو نہ تو ٹھاکر کوہلی رام یہ بات مانتا کہ اس کی دھرم پتنی ڈائن ہے اور نہ ہی ٹھکرائن رنگے ہاتھوں پکڑی جاتی۔ جن لوگوں نے اندر کا منظر دیکھا تھا وہ تو خیر کسی اور بات پر یقین کرنے کو تیار ہی نہیں تھے لیکن بعض لوگوں کے دلوں میں شک و شبہ بھی پایا جاتا تھا۔
رات آہستہ آہستہ گزرتی رہی۔ آخرکار صبح ہو گئی۔ ٹھاکر کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ چاروں طرف سے بندھ کر رہ گیا تھا وہ۔ پتہ نہیں اس کے اپنے دل میں کیا تھا۔ ٹھکرائن بھی اب مضمحل نظر آرہی تھی غالباً اب اسے اپنی تقدیر کا فیصلہ معلوم ہو گیا تھا۔ صبح کو لوگ منتشر ہوئے اور کچھ دیر کے بعد پنچایت جم گئی۔ جمال گڑھی کے بڑے بوڑھے ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ٹھاکر کو اس وقت مکھیا کا درجہ نہیں دیا گیا تھا لیکن پھر بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو اس کی عزت کرتے تھے۔ ٹھاکر کے ملازم اس بات پر حیران بھی تھے اور شرمندہ بھی کہ ٹھکرائن کی نوکری کرتے رہے تھے۔ اب ان کے خیالات بھی بدلے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ بالاخر لوگوں سے خاموش ہونے کے لئے کہا گیا اور پھر میری پکار پڑی۔ اللہ دین نے کہا۔
’’میں جانتا تھا بھیا، پنچایت تمہیں ضرور بلائے گی۔ گنگو، جنک رام اور وہ بہت سے آدمی جن کے بچے مرے تھے، میرے ساتھ ہی آگے بڑھے تھے۔ پنچایت والوں نے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا اور میں ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ ٹھکرائن غضب ناک آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ نندا کی حالت اب کافی خراب ہو گئی تھی۔ اس کی نظریں بار بار لکڑیوں کے اس ڈھیر کی جانب اٹھ جاتی تھیں، جسے اب چتا کی شکل دے دی گئی تھی۔ ایک راستہ رکھا گیا تھا ٹھکرائن اور نندا کو اندر پہنچانے کے لئے، باقی پوری چتا ایسے بنا دی گئی تھی جیسے مردوں کو جلانے کے لئے شمشان گھاٹ میں بنائی جاتی ہے۔ ایک بزرگ نے کہا۔
’’ٹھاکر کوہلی رام ساری باتیں ہمیں پتہ چل گئی ہیں اور اب فیصلہ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ تو اگر مکھیا کی حیثیت سے اس چوکی پر بیٹھنا چاہے تو اب بھی بیٹھ سکتا ہے لیکن فیصلہ انصاف سے کرنا ہو گا، کوئی ایسی بات نہیں مانی جائے گی جو جھوٹی ہو۔‘‘
’’تمہاری مرضی ہے دھرمو چاچا، جیسا من چاہے کرو۔‘‘ ٹھاکر کوہلی رام نے اداس لہجے میں کہا۔
’’مسافر بھیا تم کسی اور بستی سے ادھر آئے اور تم نے بھاگ بھری کو اس لاش کے پاس بیٹھے دیکھا۔ کیا یہ سچ ہے؟‘‘
’’ہاں بالکل سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ بھاگ بھری صرف بیٹھی ہوئی تھی جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ پاگل ہے، ایک پاگل عورت لاش کو دیکھ کر اس طرح بیٹھ بھی سکتی ہے، اسے ٹٹول بھی سکتی ہے اور یہی بات میں نے دوسروں سے کہی تھی۔‘‘
’’اچھا بھیا اب تم لوگ ہمیں یہ بتائو کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ ٹھکرائن گیتا نندی ہنومان مندر میں بچوں کی بلی دیتی ہے۔‘‘
’’میں بتاتا ہوں دھرمو چاچا۔ مسافر بھیا کو شبہ ہو گیا تھا کہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے اور بھاگ بھری ڈائن نہیں ہے۔ سو وہ ایک رات ہنومان مندر کی طرف نکل گئے جہاں انہوں نے گیتانندی اور نندا کو دیکھا۔ وہ میرے بچے کو پکڑ کر لے گئے تھے۔ اس کے ہاتھ پائوں باندھ رکھے تھے انہوں نے اور وہی سب کچھ ہو رہا تھا جو آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میرا بیٹا للو وہاں پڑا ہوا تھا، اس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے، مسافر بھیا اکیلا تھا اس لئے اس نے شور مچا دیا۔ گیتانندی اور نندا چمار بھاگ گئے وہاں سے اور میرا بچہ مسافر بھیا کی وجہ سے بچ گیا۔ وہی اسے لے کر آئے، اس سے گھر کا پتہ پوچھا اور چپ چاپ اسے گھر میں چھوڑ گئے۔ میرے گھر والوں کو اور مجھے تو اس کا پتہ بھی نہیں تھا لیکن صبح کو جب ہم نے للو کی حالت دیکھی تو وہ تیز بخار میں پھنک رہا تھا اور بار بار چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ مجھے نہ مارو۔ مجھے گھر جانے دو۔ بری حالت ہو گئی ہماری۔ بڑی مشکل سے ہم بچے کو سمجھا بجھا کر اس کی زبان کھلوانے میں کامیاب ہوئے تو اس نے یہ کہانی سنائی۔ مسافر بھیا کے بارے میں بھی بتایا۔ ہم نے معلومات کیں تو مسافر بھیا نے ہمیں اصل بات بتا دی۔ وہ باہر کے آدمی ہیں لیکن ہمارے لئے تو دیوتا سمان ہیں۔ میرے بچے کا جیون بچایا ہے انہوں نے۔ میں تو ان پر ہزار جیون قربان کر سکتا ہوں سمجھے دھرمو چاچا۔ بعد میں ہم سب نے مل کر یہ طے کیا کہ ایسا کام کیا جائے جس سے سب کو اصل بات معلوم ہو جائے۔
ایسے ہی اگر ہم کوہلی رام کو یہ باتیں بتاتے تو بھلا چلتی ہماری اور پھر جنک رام اور دوسرے کچھ سر جوڑ کر بیٹھے۔ اللہ دین نے اپنے بیٹے کی قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور ایسا موقع دیا کہ نندا، کلو کو اغوا کر لے اور ہم سب اس کی تاک میں لگ گئے۔ اس کی گواہی بہت سے لوگ دیں گے۔ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بس کچھ دیر ہی تھی کہ گیتانندی، کلو کو مار ڈالتی مگر ہم سب تیار تھے۔‘‘
’’گیتانندی ایسا کیوں کرتی تھی؟‘‘
’’اسی سے پوچھو۔‘‘
’’بتائے گی ٹھکرائن؟‘‘
’’جھوٹ بول رہے ہیں، سب کے سب جھوٹے ہیں۔ سب پاپی دشمن ہو گئے ہیں میرے، ایک ایک کو ٹھیک کر دوں گی۔ دیکھتے رہو تم سب۔ مہاراج ادھیرنا چندو، چلے میں نہ بیٹھے ہوتے تو…تو…!‘‘
’’ادھیرنا چندو…!‘‘ ٹھاکر کوہلی رام حیرت سے بولا۔
’’وہ کالا جادوگر…!‘‘ دھرمو چاچا نے کہا۔ ’’اس سے تیرا کیا واسطہ؟‘‘
’’گیتانندی۔ اس سے تیرا کیا سمبندھ ہے۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں بتائوں گی کسی کو!‘‘
’’نندا بتائے گا۔ ارے او پاپی روٹی کے کچھ ٹکڑوں کے لئے تو نے کتنے گھر اجاڑ دیئے، زبان کھول دے شاید بچ جائے نہیں تو زندہ پھونک دیا جائے گا، زبان کھول دے پاپی، اپنی چتا دیکھ رہا ہے تو۔‘‘
نندا کی قوت برداشت جواب دے گئی، دھاڑیں مارنے لگا۔ چیخ چیخ کر رونے گا۔ ’’ہم نردوش ہیں مکھیا جی۔ ہمارا دوش نہیں ہے۔ ہمیں تو… ہمیں تو ٹھکرائن نے مجبور کر دیا تھا۔‘‘ گیتا نندی چونک پڑی۔ اس نے گھور کر نندا کو دیکھا۔
’’کیا بک رہا ہے نندا؟‘‘
’’ارے ارے چتا تو بنوا دی تم نے ہماری ٹھکرائن اب بھی چپ رہیں۔‘‘
’’ادھیرنا چندو تجھے جیتا نہیں چھوڑیں گے۔ بھسم کر دیں گے تجھے۔‘‘
’’وہ تو بعد میں بھسم کریں گے، ابھی جو بھسم ہو رہے ہیں اسے کون روکے گا؟‘‘
’’ارے بولنے دے گیتا نندی۔ پنچایت کے بیچ دخل نہ دے۔‘‘
’’سب جھوٹے ہیں۔ سب کائر ہیں اور… اور تم دیکھ رہے ہو کوہلی رام… تم چپ دیکھ رہے ہو۔ بندوقیں نکالو، بھون دو سسروں کو۔‘‘ ٹھکرائن غضب ناک لہجے میں بولی۔
’’تو نے یہ کیا کر دیا ہے گیتا۔ جیون بھر مجھے دبائے رکھا۔ میں انہیں کیسے دبائوں؟‘‘ ٹھاکر نے بے بسی سے بولا۔
’’رہے نا نیچ ذات۔ اچھی ذات کے ہوتے تو بہادری دکھاتے۔ پتا جی نے سچ کہا تھا۔‘‘ ٹھکرائن نفرت سے بولی۔
’’ارے اونچی ذات والی تو نے اپنی ذات خوب دکھائی۔‘‘ ٹھاکر کو بھی غصہ آگیا۔ گیتانندی اسے خونی نظروں سے دیکھ کر خاموش ہو گئی۔ نندا مسلسل رو رہا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’ہم تو نوکر تھے بھائیو۔ مالکن نے جو کہا سو کیا۔ گود سونی تھی اس کی، ٹونے ٹوٹکے کرتی تھی۔ ہمیں کئی جگہ لے گئی نہ جانے کیا کیا کرم کرائے پھر ادھیرنا چندو مہاراج مل گئے۔ انہوں نے یہ کرم بتائے۔ سات بھینٹ دینی تھی ہنومان کے چرنوں میں۔ سو ہم سے یہ بھی کرایا مالکن نے۔ اپنی گود ہری کرنے کے لئے اس نے ہم سے چھ بچے اٹھوائے، ساتویں بلی گنگو کے چھورا کی تھی سو ہم لے گئے اسے اور مسافر نے دیکھ لیا، بلی نہ ہو سکی۔ دھیرنا جی چلے میں بیٹھے ہیں نہیں تو ضرور آ جاتے۔ بڑا سمبندھ ہے اس کا…!‘‘
’’اور کچھ سننا ہے ٹھاکر…‘‘ دھرمو چاچا نے کہا۔
’’میں کیا کہوں دھرمو چاچا، مجھے تو کچھ معلوم ہی نہ تھا۔‘‘
’’ختم کرو یہ پنچایت۔ اسے چتا میں لے جائو۔ نندا کو بھی بھسم کرنا ہوگا۔ اس نے مالکن کے کہنے پر جو کچھ کیا، کرنے سے پہلے خود نہ سوچا ؟ اسے بھی بھسم کردو، جلادو اسے۔‘‘ لوگ بے قابو ہوگئے تھے۔ تصدیق ہونے کے بعد لوگ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا نندا کو گھیر لیا گیا، لکڑیوں کو آگ لگادی گئی۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں، لوگوں نے نندا کو اٹھا کر آگ میں جھونک دیا تھا۔ پھر وہ گیتا نندی کی طرف بڑھے۔ گیتا نندی بھی خوف زدہ نظر آنے لگی تھی۔ نندا کے گوشت کی چراند فضا میں دور دور تک پھیل رہی تھی اور اسے اپنا حشر نظر آرہا تھا۔
دفعتاً عقب میں کچھ بھگدڑ سی مچی۔ لوگ چیخنے چلانے لگے۔ میں نے بھی چونک کر دیکھا۔ ایک بے نتھا بیل دوڑتا چلا آرہا تھا، اس کی ننگی پیٹھ پر سادھوئوں جیسا حلیہ بنائے ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ بہت سے لوگ بیل کی زد میں آکر کچل گئے تھے۔ گیتا نندی نے اسے دیکھا تو بے اختیار چیخ پڑی۔
’’مہاراج ادھیراج… ادھیرنا چندو… مجھے بچائو مہاراج، مجھے بچائو!‘‘
بپھرے ہوئے لوگ رُک گئے۔ ان کی نظریں بیل کی پیٹھ پر بیٹھے سادھو پر تھیں اور اس کی آمد پر وہ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ اس نے جس طرح لوگوں پر بیل دوڑا دیا تھا اس سے اس کی سنگدلی کا پتہ چلتا تھا اور سرکشی کا بھی، جیسے اسے کسی کا خوف نہ ہو اور وہ ان جیتے جاگتے انسانوں کو گھاس کوڑا سمجھتا ہو۔ آن کی آن میں وہ نزدیک آگیا۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب کیا ہو گا۔ گیتانندی نے اس کا نام لے کر مجھے اسے سے روشناس کرا دیا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں درود پاک کا ورد شروع کر دیا کیونکہ ہر مشکل کے حل کیلئے مجھے یہی بخشا گیا تھا۔ ادھیرناچندو نے خونی نگاہوں سے یہاں موجود لوگوں کو دیکھا اور لوگ دہشت سے کانپنے لگے۔ سفلی علوم کے اس ماہر کے بارے میں بستی بھر کے لوگ جانتے تھے۔ اس سے نفرت بھی کرتے تھے اور خوفزدہ بھی رہتے تھے۔
’’کیا ناٹک رچایا ہے رے کم ذات تو نے۔ کیا کہہ رہی ہے یہ …!‘‘ اس نے کوہلی رام کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’میں نے، میں نے نہیں مہاراج، سب بستی والوں نے…‘‘ کوہلی رام ہاتھ جوڑ کر کانپتا ہوا بولا۔ لوگ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہے تھے، دور تک ادھیرنا کے لئے جگہ چھوڑ دی گئی تھی۔
’’کاہے رے حرام خورو … کاہے موت کو آواز دی تم نے۔ جانتے ہو ہماری رن بیوتا ہے گیتا نندی، ہماری شکتی کے سائے میں ہے۔ ارے او بڈھے سرپنچ تو بتا کیا ہے یہ سب کچھ۔‘‘ ادھیرناچندو شاید بستی والوں کو جانتا تھا، اس نے دھرمو چاچا کو مخاطب کیا تھا۔
’’گیتا نندی ٹھکرائن، ڈائن بن گئی ہے مہاراج۔‘‘ دھرمو نے کپکپاتے ہوئے کہا۔
’’ارے او ڈائن کے سگے۔ بائولے بن گئے ہو کیا تم سارے کے سارے … ہنومان بلی دے رہی تھی وہ، اس کی گود بھی تو سونی تھی۔‘‘
’’ اس نے چھ پریوار سونے کر دیئے مہاراج ۔ چھ بچوں کو مار کر ان کے کلیجے چبا گئی۔‘‘ جنگ رام ہمت کر کے بولا۔
’’ارے پاپیو۔ ارے بائولو۔ ارے جنم کے اندھو، امر ہو گئے وہ ہنومان کے چرنوں میں بھینٹ ہو کر۔ تم سب بال بچوں والے ہو، ایک ایک کے گھر میں چھ چھ کھیل رہے ہیں۔ ایک کے چلے جانے سے کون سا فرق پڑ گیا۔ یہ چراندھ کیسے اُٹھ رہی ہے اگنی سے۔ کیا جلا رہے ہو تم اس میں ؟‘‘
’’انہوں نے نندا کو زندہ بھسم کر دیا ہے مہاراج۔ زندہ آگ میں جھونک دیا ہے اسے اور مجھے بھی یہ اگنی میں جھونکنے والے تھے۔ ’’گیتا نندی شیر ہونے لگی۔
’’تمہارا ستیاناس پاپیو، اپنا نرکھ تم نے دھرتی پر ہی بنا لیا۔ تمہیں معلوم نہیں تھا کہ نندا ہمارا سیوک تھا۔ ٹھیک ہے تم نے جو کیا اس کا پھل بھگتو گے۔ نندا نے بھوت بن کر تم سب کو ایسے ہی بھسم نہ کیا تو ہمارا نام بھی ادھیرناچندو نہیں ہے۔ کون سورما جھونکے گا اسے آگ میں آئو آگے بڑھو، اسے چھو کر دکھائو… اور تو زنخے، کم ذات کھڑا دیکھ رہا ہے سب کو۔ دیکھ لیا گیتا نندی، یہ فرق ہوتا ہے ذات کا۔ تیرے ماتا پتا کہتے تھے تجھ سے۔‘‘ ادھیرنا نے کوہلی رام کی طرف اشارہ کیا تھا۔
’’یہ انیائے ہے مہاراج۔ ہمارے من سلگ رہے ہیں۔ ہم بدلہ لیں گے۔ ہمیں بدلہ لینے دو…‘‘ کچھ لوگوں نے کہا اور ادھیرناچندو کی گردن ان کی طرف گھوم گئی۔
’’آئو آئو۔ آگے آئو، ہم نیائے کر دیں۔ یہ اگنی تم نے جلائی ہے۔ بہت بڑی چتا بنائی ہے تم نے۔ لائو پہلے اسے بجھا دیں۔ پھر تمہارے سلگتے من بھی بجھا دیں گے۔‘‘ ادھیرناچندو بیل کی پیٹھ سے اُتر آیا۔ اس نے تیزی سے بھڑکتے شعلوں کو دیکھا پھر ہونٹ سکوڑ کر ان پر پھونک مارنے لگا۔ تیز سنسناہٹ کے ساتھ آگ دبنے لگی۔ جلتی ہوئی موٹی لکڑیاں ہوا کے دبائو سے جگہ چھوڑنے لگیں اور لوگ گھبرا کر اس رُخ سے ہٹ گئے جدھر لکڑیاں سرک رہی تھیں۔ شعلے بجھنے لگے۔ لکڑیاں اس طرح بجھ گئیں جیسے ان پر اوس پڑ گئی ہو۔ نندا کی لاش بھی نظر آنے لگی تھی۔ کوئلہ ہو گیا تھا جل کر۔
میرے لئے اب عمل ضروری تھا۔ میں نے ایک تصوراتی حصار ادھیرناچندو کے گرد قائم کردیا۔ ادھیرنا نے آگ ٹھنڈی کر کے اپنا کام ختم کیا۔ پھر بولا۔ ’’اب بولو کس کس کا من سلگ رہا ہے۔‘‘ لوگوں کے چہرے فق تھے مگر بھاگا کوئی نہیں تھا۔ ممکن ہے پیچھے سے کچھ لوگ کھسک گئے ہوں یا پھر وہ چلے گئے تھے جو زخمی ہو گئے تھے۔ گیتا نندی کی نظر اچانک مجھ پر پڑی اور وہ میری طرف اشارہ کر کے بولی۔
’’یہ سب سے آگے آگے تھا مہاراج۔ مسلمان کا چھوکرا۔ اس نے بڑی ہتھیا مچائی ہے۔‘‘ ادھیرناچندو مجھے گھورنے لگا۔ پھر کسی قدر حیرانی سے بولا۔
’’یہ کون ہے؟ کون ہے رے تو؟‘‘
’’میری کہانی تو بہت لمبی ہے ادھیرناچندو مگر تو نے بہت برا کیا ہے۔ گیتا نندی کو تو نے ہی اس برے کام پر آمادہ کیا تھا۔‘‘
’’ہاں کیا تو تھا۔ سزا دے گا کیا تو مجھے۔‘‘ ادھیرنا کے لہجے میں غرور اور انداز میں تمسخر تھا۔
’’مجرم تو، تو بستی والوں کا ہے وہی تجھے سزادیتے تو اچھا تھا مگر یہ معصوم لوگ تجھ سے ڈرتے ہیں، مجبوراً مجھے یہ کام کرنا پڑے گا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ ادھیرنا مسکرا کر بولا۔ کیا جرم کیا ہے ہم نے مہاراج؟‘‘ وہ مذاق اُڑاتے ہوئے بولا۔
’’تم تینوں مجرم ہو، تم نے گیتا نندی کو گمراہ کیا اور گیتا نندی شیطان بن گئی۔ اس نے چھ بچوں کی جان نے لی۔ نندا نے اس کے ساتھ مل کر ان بچوں کو اغوا کیا۔ اسے تو سزا مل گئی تم دونوں باقی ہو۔‘‘
’’تو ہمیں بھی سزا دے دو مہاراج۔ تمہاری چتا تو بجھ گئی ۔‘‘
’’ایسی ایسی ہزاروں چتائیں بھڑک سکتی ہیں دھیرنا۔ تو نے اسے بجھا کر کوئی بہت بڑا کام کیا ہے؟‘‘
’’جے ہنومان گورما چوکیہ۔ یہ مہاراج ادھیراج کیا کہہ رہے ہیں۔ جائو مہاراج پہلے تو بجرنگ بلی کی لنکا کی سیر کرلو…‘‘ اس نے میری طرف رُخ کر کے ہونٹ گول کرلئے۔ تیز ہوا کی سنسناہٹ سنائی دی۔ غالباً وہ مجھے پھونکوں سے اُڑا دینا چاہتا تھا۔ لیکن اس کے ہونٹوں سے خارج ہونے والی ہوا کسی ٹھوس شے سے ٹکرا کر واپس ہونے لگی۔ یہ ٹھوس شے میرا قائم کیا ہوا حصار تھا۔ میرا دل خوشی سے اچھلنے لگا۔ ہمت بندھ گئی۔ تیز ہوا حصار میں گھٹ گئی تھی اور اندر منتشر ہو رہی تھی جس سے گیتا نندی اور خود ادھیرناچندو کے بال اور کپڑے اُڑنے لگے۔ ساتھ ساتھ اندر موجود کوڑا کرکٹ اور جلی ہوئی لکڑیوں کی راکھ بھی۔ اُدھیرنا حیران ہو کر رک گیا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر مجھے دیکھا تو میں نے کہا۔
’’بجرنگ بلی کی لنکا تو مجھے نظر نہیں آئی ادھیرنا۔ مگر اب تیرا یہ بیل تجھے سیر کرانے لے جا رہا ہے۔‘‘ میں نے بیل کو گھورتے ہوئے کہا۔ اچانک بیل کےتیور بگڑنے لگے۔ اس نے اپنی جگہ اچھلنا کودنا شروع کردیا اور اور ادھیرنا ایک طرف ہٹ گیا۔ بیل نے کھر زمین پر گھسے اورپھر گردن جھکا کر ادھیرنا پر حملہ آور ہو گیا۔ ادھیرنا بد حواس ہو کر ایک طرف ہٹ گیا۔ بیل آگے بڑھ کر حصار کی دیواروں سے ٹکرایا اور اس کاسر پھٹ گیا۔ اس کے سر سے خون بہا تو وہ شدت جوش سے دیوانہ ہو گیا اور پھر اس نے ادھیرنا کو تاک لیا اور پھنکاریں مار مار کر اس پر قلانچیں بھرنے لگا۔ گیتا نندی دہشت زدہ ہو کر بھاگی لیکن وہ حصار کے قیدی تھے، وہ بھی نادیدہ دیوار سے ٹکرائی اور چیخ مار کر گر پڑی۔ ادھر بیل نے ادھیرنا کو گھیر لیا اور سینگوں پراٹھا کر بری طرح رگیدنے لگا۔ ادھیرنا کا داہنا گال پھٹ گیا مگر بیل اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا۔ ادھیرنا جیسے ہی اٹھنے کی کوشش کرتا وہ اگلے پائوں اٹھا کر پوری قوت سے ٹکر مارتا اور ادھیرنا کئی کئی فٹ اُچھل کر گرتا۔ اِدھر گیتا نندی مسلسل کوششیں کر رہی تھی۔ بستی والے دم بخود کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ ادھیرناچندو کے حلق سے دلدوز چیخیں نکل رہی تھیں۔ پھر گیتا نندی بھی بیل کی لپیٹ میں آگئی۔ کوہلی رام کے منہ سے آواز نکل گئی جسے اس نے جلدی سے دبا لیا۔ بستی والوں کا سکوت ٹوٹ گیا، وہ شور مچانے لگے۔ خوشی سے اچھلنے لگے قہقہے لگانے لگے۔ شورکی آواز سے بیل اور بپھر گیا۔ اس نے ٹکریں مار مار کر ان دونوں کا قیمہ بنا دیا۔ وہ گوشت کے لوتھڑے بن گئے تھے۔ بیل بھی کئی بار حصار سے ٹکرایا تھا اور بری طرح زخمی ہو گیا تھا۔ پھر وہ بھی گر پڑا اور اس نے پائوں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیا۔
کچھ منٹ گزر گئے تو میں آگے بڑھا اور ان لاشوں کے قریب پہنچ گیا۔ بستی والے میرے قریب آنے کی ہمت نہیں کر رہے تھے۔ پھر ان کی ہمت بڑھ گئی اور دوسرے لمحے وہ ’’مسافر مہاراج کی جے، مسافر مہاراج کی جے!‘‘ کرتے ہوئے قریب آ گئے۔ وہ میرے پائوں چھو رہے تھے، ہاتھ چوم رہے تھے۔ انہیں روکنا میرے بس میں نہیں تھا۔ میں نے بے بسی سے دل میں کہا۔
’’معبود کریم… میں مجبور ہوں۔ کتنا ہی شور مچائوں، یہ میری نہیں سنیں گے۔ جس طرح ممکن ہو سکتا تھا ان سے بچ رہا تھا۔‘‘
جنک رام چیخ کر بولا۔’’رک جائو بھائیو۔ رُک جائو۔ پریشان نہ کرو مسافر مہاراج کو۔ بعد میں مل لینا ان سے… پریشان مت کرو۔‘‘ … لیکن کون مانتا۔ کوہلی رام اس بھیڑ میں نظر نہیں آرہا تھا۔ لوگ ادھیرنا سے بھی نفرت کرتے تھے چنانچہ چتا پھر جلادی گئی اور ان کے جسموں کے لوتھڑے گھسیٹ کر آگ میں پھینک دیئے گئے۔ اس عمل کے دوران مجھے ان سے بچ نکلنے کا موقع مل گیا اور میں وہاں سے سرائے کی طرف بھاگا۔ سرائے میں آکر دم لیا تھا لیکن اندازہ تھا کہ اب کیا ہو گا۔ کھیل ختم ہوگیا تھا۔ گیتا نندی ختم ہو گئی تھی اور اس کے ساتھ ایک خبیث بھی جو سفلی علوم کا ماہر تھا۔ نہ جانے مزید کتنے انسانوں کو اس کے ہاتھوں نقصان پہنچتا لیکن جو کچھ اس کے بعد ہوا تھا اور ہونے والا تھا وہ میرے لئے بھیانک تھا۔
اللہ دین آگیا۔ بیوی کو پکارتا ہوا اندر گھسا تھا۔ ’’زبیدہ اری نیک بخت کہاں گئی۔‘‘
’’کیا ہے؟‘‘ زبیدہ کی آواز ابھری۔
’’غضب ہو گیا۔ وہ مسافر شاہ صاحب تو بڑے پہنچے ہوئے ہیں۔ اری معمولی آدمی نہیں ہیں وہ۔ وہی ہیں، ساری بستی ان کا نام لے رہی ہے۔ مقدر پھوٹ گیا ہمارا۔ پیسے نہ لیتے ان سے یونہی خدمت کرتے تو بیڑا پار ہو جاتا۔ خوش ہو کر کچھ ایسی چیز دے دیتے ہمیں کہ وارے نیارے ہو جاتے۔‘‘
’’مسافر بھیاکی بات کر رہے ہو؟‘‘
’’تو اور کیا۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ زبیدہ نے پوچھا اور اللہ دین اسے کوہلی رام کے گھر پر پیش آنے والے واقعات بتانے لگا۔ یہ جگہ بھی مخدوش ہو گئی۔ بعد میں جب عقیدت مند یہاں پہنچیں گے تو نہ جانے کیسی کیسی مشکلیں پیش آئی گی۔ خود اللہ دین زبیدہ سے جو کچھ کہ رہا تھا اس سے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ زبیدہ کو میرے یہاں آنے کا علم تھا۔ چنانچہ بس کچھ دیر جا رہی تھی کہ وہ مجھ تک پہنچ جاتے۔ نکل جانا چاہئے۔ آج کے تین روپے زبیدہ کو دے چکا تھا۔ ایک روپیہ پاس موجود تھا۔ اٹھا اور خاموشی سے باہر نکل آیا۔ تیز تیز چلتا ہوا بستی سے باہر جانے والے راستے پر چل پڑا۔ چند لوگوں نے مجھے دیکھا لیکن یہ وہ تھے جنہیں میرے بارے میں معلوم نہیں تھا اس لئے وہ مشکل نہ بنے اور میں ان کے درمیان سے نکل آیا۔ کھیتوں وغیرہ کے درمیان سے گزر کر آگے بڑھا ہی تھا کہ کچھ فاصلے پر ہنومان مندر کی عمارت نظر آئی۔ ویران اور سنسان، اس عمارت میں بہت بھیانک ڈرامے ہوتے رہے تھے۔ رات یہاں گزاری جا سکتی ہے۔ بستی کے لوگ مجھے تلاش کرنے کم از کم یہاں نہیں آئیں گے۔ کل دن کی روشنی میں یہاں سے کسی سمت کا تعین کر کے نکل جائوں گا۔ حالانکہ بھیانک جگہ تھی لیکن میرے لئے بے حقیقت تھی۔ اندر داخل ہو گیا ایک پرسکون گوشہ منتخب کر کے آرام کرنے لگا۔
سامنے ہی ہنومان کا بت استادہ تھا، اسے دیکھتا رہا۔ بے جان پتھر جسے انسانی ہاتھوں نے تراشا تھا۔ ایک بے ضرر سی شے۔ ذہن نہ جانے کیا کیا سوچتا رہا۔ تاریکیاں گہری ہوتی گئیں۔ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دے رہا تھا۔ ہنومان کے بت کا ہیولا بھی نہیں نظر آ رہا تھا تو کسی نے ادھر آنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ ویسے بھی لوگ اس جگہ سے خوفزدہ رہتے تھے۔ چنانچہ سکون تھا۔ رات گزرتی رہی۔ نہ جانے کیا وقت تھا۔ کئی بار نیند کے جھونکے آئے تھے لیکن ہر بار آنکھ کھل جاتی تھی۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ آنکھیں پٹ سے کھل گئی تھی۔ چت لیٹا ہوا تھا۔ اس لئے مندر کی چھت سامنے تھی اور چھت پر دو ننھی ننھی آنکھیں متحرک تھیں۔ پیلی بدنما آنکھیں۔ شناسا آنکھیں۔ آنکھیں آہستہ آہستہ جگہ چھوڑ رہی تھیں۔ مکڑی… میرے ذہن میں خیال ابھرا۔ ایسی مکڑیاں بھوریا چرن ہی کی فرستادہ ہوتی تھیں۔ آہ کاش یہاں روشنی ہوتی۔ ایسی کوئی چیز ہوتی جسے روشن کر کے میں اس مکڑی کو دیکھ سکتا۔ یہ خیال دل میں گزرا تھا کہ اچانک ہی ماحول روشن ہونے لگا۔ دیواریں نظر آنے لگیں۔ ہنومان کا بت صاف نظر آنے لگا۔ ہر چیز اتنی نمایاں ہو گئی کہ عام حالات میں بھی نہیں ہوتی تھی لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ روشنی کہاں سے آرہی ہے۔ میں نے چھت کی طرف دیکھا۔ مکڑی روشنی ہوتے ہی تیز تیز چل پڑی اور پھر ایک سوراخ میں گھس کر روپوش ہو گئی۔ پیلے رنگ کی مکڑی تھی۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مکڑی تو غائب ہو گئی تھی لیکن روشنی بدستور تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ روشنی میرے دل سے پھوٹی ہے۔ میرے دل نے روشنی طلب کی میرے تو اطراف منور ہو گئے۔ یہ عطیۂ الٰہی تھا۔ یہ کرم نوازی تھی میری ذات پر… دل سرور سے بھر گیا۔ بڑے انعام سے نوازا گیا تھا مجھے۔ شکر نہیں ادا کر سکتا تھا۔ کچھ رقت سی طاری ہو گئی۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ مندر سے باہر کھلی جگہ پر نکل آیا۔ باہر سنسان خاموشی طاری تھی۔ ایک صاف سی جگہ دیکھی اور سجدہ ریز ہو گیا۔ دل شکر گزار تھا اور ذکر الٰہی نے ساری تنہائیاں دور کر دی تھیں۔ کسی کی آواز کانوں میں ابھری۔
’’تم تنہا کہاں ہو۔ ہم سب تو ہیں تمہارے ساتھ۔ کبھی خود کو تنہا نہ سمجھنا۔‘‘ دور دور تک کوئی نہ تھا لیکن لگ رہا تھا جیسے بہت سے لباس سرسرا رہے ہوں، بڑی تقویت ملی تھی اور اس احساس نے بہت خوشیاں بخشی تھیں کہ میری پذیرائی ہو رہی ہے۔ کیا کم تھا یہ سب کچھ، اتنا بڑا مرتبہ دے دیا گیا تھا۔ مجھ گناہ گار کو، دل سرشار ہو گیا تھا اور تھوڑی دیر پہلے جو کیفیت ہو گئی تھی وہ دور ہو گئی تھی۔ نجانے کب تک اسی جگہ سجدہ ریز رہا، یہ سجدئہ شکر تھا، یہاں تک کہ پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹیں سنائی دینے لگیں۔ صبح کا آغاز ہو گیا تھا اور فجر کی نماز کا وقت بھی، نماز پڑھی اس سے پہلے کہ بستی کے لوگ مجھے تلاش کرتے ہوئے اس طرف نکل آئیں، میرا یہاں سے نکل جانا ضروری تھا۔ چنانچہ نماز کے فوراً بعد چل پڑا اور تیز رفتاری سے اسی جانب بڑھتا رہا، جدھر رُخ ہو گیا تھا۔ منزل کے بارے میں تو پہلے بھی کبھی نہیں سوچا تھا۔ جانتا تھا کہ کوئی منزل نہیں ہے، سفر کرتے کرتے نجانے کتنا وقت گزر گیا۔ نجانے کون سے راستے تھے، نجانے کس سمت رخ تھا۔ ایک پیلی سی پگڈنڈی کے قریب پہنچا تو سامنے سے ایک بیل گاڑی آتی ہوئی نظر آئی۔ کوئی دیہاتی تھا جس نے پیچھے سبزیوں کا ڈھیر لاد رکھا تھا مجھے دیکھ کر گاڑی روک لی اور زور سے آواز دی۔
’’ارے او بھیا۔ بھیارے کدھر جا رہے ہو؟‘‘
اس کو دیکھ کر مجھے بھی خوشی ہوئی تھی۔ میں نے قریب پہنچ کر اس پر غور کیا اور پھر کہا۔ ’’بس بھیا مسافر ہوں، کسی بستی کی تلاش میں تھا۔‘‘
’’ کسی بستی کی کیوں؟‘‘
’’راستہ بھول گیا ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’پردن پور تو نہیں جانا …؟‘‘
’’کہاں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’پردن پور…‘‘
’’چلے جائیں گے اگر تم لے جائو تو…‘‘ میں نے مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’تو ہم کون سی اپنی کھوپڑی پر بٹھا کر لے جائیں گے بھیا۔ بیل گھسیٹ لیں گے تمہیں بھی۔ آجائو بیٹھ جائو۔‘‘ بیل گاڑی پر میں اس کے نزدیک بیٹھ گیا۔ خوش مزاج سا نوجوان معلوم ہوتا تھا کہنے لگا…‘‘ کہاں سے آرہے ہو، کہاں کا راستہ بھول گئے تھے؟‘‘
’’اللہ جانے کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں، بس چل پڑے تھے ایسے ہی۔‘‘
’’ارے گھر والی سے لڑکر بھاگے ہو یا ماں باپ سے ناراض ہو کر گھر چھوڑا ہے؟‘‘
’’ہاں بس ایسا ہی سمجھ لو، اپنی تقدیر سے ناراض ہو کر گھر چھوڑ دیا ہے بلکہ تقدیر نے گھر چھین لیا ہے۔‘‘
’’دیکھو بھائی ہم ٹھہرے دیہاتی آدمی، ہماری کھوپڑیا ہے چھوٹی، کھری کھری صاف صاف باتیں تو سمجھ میں آجاتی ہیں، باقی باتیں اپنی سمجھ میں نہیں آتیں۔ لوگ ویسے ہی للو کہتے ہیں، حالانکہ نام ہمارا رشید ہے، چونکہ باتیں ذرا کم سمجھ میں آتی ہیں اس لئے سارے کے سارے للو کہہ کر بلاتے ہیں۔‘‘
’’تم برا نہیں مانتے اس بات کا …‘‘
’’ارے نہیں بھیا، جو بھی کہتا ہے پیار سے کہتا ہے۔ برا ماننے کی کیا بات ہے۔ تمہارا کیا نام ہے؟‘‘
’’مسعود‘‘ … میں نے جواب دیا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی تھی کہ وہ مسلمان ہے، پھر میں نے اس سے کہا۔ ’’تم پردن پور میں رہتے ہو؟‘‘
’’نہیں بھیا۔ ہم تو کھیری بستی کے رہنے والے ہیں۔ سبزیاں اُگاتے ہیں اور پردن پور جا کر بیچ آتے ہیں، لگے بندھے گراہک ہیں اپنے کھرا مال دیتے ہیں، کھرے پیسے لیتے ہیں۔ اب پردن پور جائیں گے ان لوگوں کو سبزی دیں گے پیسے وصول کریں گے اور بھیا گھر کا سودا لے کر واپس چلے آئیں گے۔ رات تک کھیری پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’اچھا۔ رات تک کھیری پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’اچھا، عزت سے کمائی کرتے ہو۔ یہ عبادت ہے۔‘‘ میں نے کہا… اور وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر بولا۔ ’’بس بھیا اللہ کا کرم ہے روزی دے دیتا ہے اور سنو، اگلی عید میں ہماری شادی ہو رہی ہے، اس کا نام بشیرن ہے۔ بھیا بڑی نیک لڑکی ہے۔ پتہ ہے اس کا باپ پچھلے دنوں پالا لگنے سے معذور ہو گیا ہے۔ بے چارہ شریف آدمی ہے بخشو بھی۔ رونے لگتا ہے مجھے دیکھ کر، کہتا ہے کہ دل میں پتہ نہیں کیا کیا تھا بیٹی کے بیاہ کے لئے مگر اب کیا کر سکتا ہوں۔ میں نے بھی کہہ دیا۔ بھیا کہ لڑکی دے دے دو کپڑوں میں۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے تیرے للو کے پاس، عزت سے رکھے گا تری لونڈیا کو، بس بھیا انسان کو انسان سے محبت ہونی چاہئے، یہ روپیہ پیسہ ہے کیا چیز، آج کسی کا کل کسی کا، کیسے مریں ہیں لوگ اس پر … بھیا اپنی تقدیر لے کر آئے گی۔ دو روٹی کھائے گی، ہمارا بھی گھر بس جائے گا کیوں ہے کہ نا…؟‘‘
’’بالکل بالکل ٹھیک کہا تم نے رشید بھیا۔‘‘ میں نے جواب دیا تو وہ ہنسنے لگا۔ پھر کہنے لگا۔’’ جب کوئی ہمیں رشید کہتا ہے تو ہم ادھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں جیسے رشید ہمارا نام ہی نہ ہو، تم بھی للو ہی کہو۔‘‘
’’جیسی تمہاری مرضی۔‘‘
’’پردن پور میں کسی کے پاس جائو گے؟‘‘ باتیں کرنے کا شوقین معلوم ہوتا تھا، مجھے بھی برا نہیں لگ رہا تھا میں نے کہا۔ ’’کسی سرائے میں ٹھہروں گا جا کر۔‘‘
’’اچھا اچھا… کوئی ہے نہیں وہاں تمہارا…؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کوئی کام ہے وہاں کسی سے۔‘‘
’’ہاں بس ایسے ہی۔‘‘
’’ہماری مانو تو واپس ہمارے ساتھ کھیری چلو، تھوڑے دن ہمارے مہمان رہو، اچھے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ اور بھی یار دوست ہیں وہاں، ہمارے ساتھ مزہ آئے گا تمہیں۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ رشید بھیا لیکن مجھے وہاں سے کہیں اور بھی جانا ہے۔‘‘
’’اچھا اچھا تمہاری مرضی۔‘‘ اس نے کہا اور اس کے بعد خاموش ہو گیا جیسے اب اس کے پاس باتیں کرنے کے لئے کچھ نہ رہا ہو لیکن اتنی دیر کی خاموشی میں اس نے غالباً یہی سوچا تھا کہ اب آگے کیا باتیں کرے یا ہو سکتا ہے کچھ سو چ رہا ہو۔ بہرحال تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ پھر بولا ۔ ’’ارے ہاں تمہاری شادی ہو گئی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’ماں باپ، بہن بھائی تو ہوں گے‘‘؟
’’ہاں اللہ کا شکر ہے۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کچھ کھایا پیا؟ ارے لو… اصل بات تو بھول ہی گیا۔ ارے بھیا کچھ کھایا پیا تم نے یا نہیں …‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔‘‘ نہیں للو صبح سے کچھ نہیں کھایا۔‘‘
’’تو پھر کہا کیوں نہیں۔ ارے واہ بھیا اب ایسا بھی کیا کہ آدمی بھوکا ہو اور منہ سے کچھ نہ بولے۔‘‘ اس نے بیل گاڑی روکی۔
پیچھے ہاتھ کر کے کپڑے کی ایک پوٹلی سی اٹھائی، اسے کھولا، چار روٹیاں پکی رکھی تھیں۔ ساتھ ہی گڑ کی ڈلیاں بھی تھیں۔ اس نے دو روٹیاں میرے سامنے رکھ دیں اور دو اپنے سامنے رکھ لیں۔ گڑ بھی آدھا آدھا تقسیم کیا اور مسکرا کر بولا۔ ’’غریب کا کھاجا تو یہی ہے، چلو اللہ کا نام لے کر شروع ہو جائو۔‘‘ میں نے بسم اللہ کہا اور کھانے میں مصروف ہو گیا۔ مسلمان کے گھر کی پکی ہوئی روٹیاں تھیں، اس لئے کو ئی تکلف نہیں ہوا تھا۔ ہم دونوں نے کھانا کھایا پانی کا بھی اس نے بندوبست کر رکھا تھا چنانچہ پانی پینے کے بعد اس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
پردن پور اچھا خاصا بڑا قصبہ تھا بلکہ اسے چھوٹا موٹا شہر ہی کہنا درست تھا۔ آبادی میں داخل ہونے کے بعد میں اس سے رخصت ہو گیا۔ اللہ نے یہاں تک پہنچانے کا ذریعہ پیدا کر دیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ رزق سے بھی نوازا تھا لیکن یہاں اس علاقے میں میری آمد کا کوئی اہم مقصد نہیں تھا۔ جمال گڑھی کے بارے میں تو حکم ہوا تھا اور مجھے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہاں مجھے کس ئے بھیجا گیا تھا۔ ایک معصوم عورت مصیبت سے بچ گئی تھی اور دوسری شیطان صفت عورت جو چھ انسانوں کا خون کر کے ساتویں کی زندگی کی گاہک بنی ہوئی تھی، ایک گندے شیطان کے ساتھ فنا ہو گئی تھی۔ نندا، گیہوں کے ساتھ گھن کی حیثیت سے پس گیا تھا۔ ظاہر ہے شریک جرم بھی اتنا ہی مجرم ہوتا ہے جتنا کہ اصل مجرم، نندا نے صرف مالکن کی خوشنودی کے لئے ان چھ بچوں کو اغوا کیا تھا اور برابر کا اس جرم میں شریک رہا تھا۔ اس طرح تین شیطان کیفر کردار کو پہنچ گئے تھے۔ ادھیرناچندو بھی اپنے سفلی علم کے ذریعے نجانے کسے کسے نقصان پہنچاتا۔ گندے علوم کے یہ ماہر جو غلاظتوں کے ذریعے لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، اس روئے زمین پر بدنما دھبے ہیں۔ شیطانی جنتر منتر پڑھ کر وہ معصوم انسانوں کو نقصان پہنچاتے تھے چنانچہ ان کی سرکوبی ضروری تھی۔ اور اس کے لئے ضروری نہیں تھا کہ میں اشاروں کا انتظار کروں۔ ایک سپاہی کا فرض ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی جگہ قانون شکنی دیکھے تو اپنا فرض پورا کرے۔ قانون اسے اختیار اسی لئے دیتا ہے چنانچہ نگاہ رکھنا ضروری ہے۔
آبادی وسیع تھی کوئی جگہ ٹھکانہ بن سکتی تھی۔ شہر گردی کرنے لگا۔ ریلوے اسٹیشن کےقریب مسجد نظر آئی، ظہر کی نماز وہاں پڑھی۔ مسجد کے سامنے وسیع میدان تھا جہاں گھنے درخت بکھرے ہوئے تھے۔ ٹھکانہ ہی ٹھکانہ تھا۔ کوئی مشکل ہی نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دو روٹیاں عطا کر دی تھیں ۔ کام چل گیا تھا۔ رات کا کھانا ایک نانبائی کی دکان پر کھایا۔ ڈیڑھ روپیہ خرچ ہوا تھا۔ ادھر اُدھر دیکھا۔ دو افراد نظر آئے جو شاید بھکاری تھے اور کھانا کھانا چاہتے تھے۔ پچھلے کچھ پیسے پڑے ہوئے تھے، انہیں دے دیئے اور فراغت ہو گئی۔ مسجد کی قربت سے عمدہ جگہ اور کون سی ہو سکتی تھی چنانچہ وہیں ڈیرہ جمالیا۔ رات ہو گئی عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر آرام کرنے لیٹ گیا اور نیند آگئی۔ صبح ہی آنکھ کھلی تھی۔ دن بھر شہر کا گشت کیا شام کو راستہ بھول گیا۔ دیر تک چکراتا رہا لیکن اسٹیشن نہ پہنچ سکا۔ کسی سے پوچھ لینا مناسب سمجھا۔ کچھ فاصلے سے ایک شخص گزر رہا تھا لیکن لمبی داڑھی میلے کچیلے لباس میں ملبوس۔
’’سنئو بھائی۔‘‘ میں نے اسے پکارا اور وہ رُک گیا۔ میں اس کے قریب پہنچ گیا۔
’’ریلوے اسٹیشن جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’تو میں کیا کروں؟‘‘ وہ ترش لہجے میں بولا۔
’’رستہ بھول گیا ہوں۔‘‘
’’تو یہاں کیوں مر رہے ہو۔‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’یہاں تمہارا کوئی کام نہیں ہے سمجھے، وہ سامنے ریلوے اسٹیشن ہے ریل میں بیٹھو اور سالم نگر چلے جائو۔ باباشاہ جہاں کا عرس ہو رہا ہے۔‘‘ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا اور میں حیرت سے اس شخص کو دیکھنے لگا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نکالا اور پھر بند مٹھی میری طرف کرتے ہوئے بولا’’ ٹکٹ کے پیسے سنبھالو۔‘‘
’’آپ، آپ کون ہیں؟‘‘
’’کوتوال، سمجھے۔ جائو اپنا کام کرو زیادہ بک بک نہیں کرتے، لو پیسے لو۔‘‘ اس نے زبردستی پیسے میری جیب میں ٹھونسے اور تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ میں حیران نظروں سے اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ پھر جب وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا تو میں نے اس کے الفاظ پر غور کیا کہ یہاں تمہارا کوئی کام نہیں ہے۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ اور کیا ہوتے۔ سالم نگر چلے جائو وہ سامنے ریلوے اسٹیشن ہے۔ میں نے چونک کر اس سمت دیکھا اور ششدر رہ گیا۔ ریلوے اسٹیشن سامنے نظر آ رہا تھا۔ ماحول ہی بدل گیا تھا۔ میں دعوے سے کہہ سکتا تھا کہ یہ وہ جگہ نہیں تھی جہاں میں کچھ دیر قبل کھڑا تھا اور جہاں سے میں نے پہلے اسٹیشن کا پتہ پوچھا تھا۔ سوچنا بیکار تھا، آگے قدم بڑھا دیئے۔ ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔ سالم نگر کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ بکنگ ونڈو پر پہنچ گیا۔
’’سالم نگر جانا ہے۔‘‘ میں نے اندر جھانکتے ہوئے کہا جہاں چند لوگ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
’’خدا حافظ۔‘‘ ایک نے کہا اور دوسرے قہقہ مارکر ہنس پڑے۔
’’ریل کس وقت آئے گی؟‘‘
’’جب اللہ کی مرضی ہو گی۔‘‘
’’ٹکٹ مل جائے گا۔‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’پیسے دو گے تو ضرور مل جائے گا۔‘‘ وہ شخص مسلسل مذاق کر رہا تھا۔
’’کتنے پیسے ہوں گے۔‘‘
’’یار جان کو ہی آگیا تو تو … لطیفہ بیچ میں رہ گیا۔ تیس روپے نکالو۔‘‘ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ تیس روپے اسے دے دیئے اور اس نے چھبیس روپے کا ٹکٹ میرے حوالے کر دیا۔ ٹکٹ پر درج شدہ رقم دیکھ کر میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’اس پر چھبیس روپے لکھے ہیں۔‘‘
’’چار روپے ٹیکس ہوتا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کھڑکی چھوڑدی۔ تھوڑی ہی دور پہنچا تھا کہ اچانک اندر دھماکہ سنائی دیا۔ پتہ نہیں کیا ہوا تھا۔ میں آگے بڑھ آیا۔ ریلوے اسٹیشن پر بہت کم لوگ نظر آرہے تھے۔ میں ایک ستون کے سہارے بیٹھ گیا۔ ابھی لائن خالی پڑی ہوئی تھی۔ کسی سے پوچھ لوں گا ریل کے بارے میں۔ بیٹھے بیٹھے کوئی بیس منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک آدمی تیزی سے میرے قریب آگیا۔ میں نے سے غور سے دیکھ کر پہچان لیا، یہ وہی ریلوے بکنگ کلرک تھا۔ میرے قریب بیٹھ گیا۔ ’’معافی چاہتا ہوں معاف کر دیں گے۔‘‘
’’کیا ہو گیا بھائی۔‘‘
’’بس مجھے معاف کر دیں میں نے آپ سے بدتمیزی کی تھی مجھے سزا مل گئی۔ آپ نے بد دعا دی ہو گی مجھے۔‘‘
’’خدا نہ کرے اتنی سی بات پر کسی کو بددعا کیسے دی جا سکتی ہے۔‘‘
’’میرے دل نے یہی کہا۔ میں نے آپ سے مذاق کیا اور اور آپ سے چار روپے زیادہ لے لئے۔ یہ دیکھئے میرا ہاتھ زخمی ہو گیا اور دوسری مصیبت الگ گلے پڑ گئی۔‘‘
’’ارے یہ کیا ہو گیا۔‘‘ میں نے اس کے ہاتھ پر کسے ہوئے رومال کو دیکھ کر کہا جو خون سے سرخ ہو رہا تھا۔
’’بس بھائی صاحب ایک ریک گر پڑا، جو بالکل ٹھیک رکھا ہوا تھا۔ شیشے کا کچھ سامان رکھا ہوا تھا اس پر وہ بھی ٹوٹ گیا اور شیشہ میری کلائی پر لگا۔ اچھا خاصا خون بہہ گیا۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تین آدمیوں کے بھی اچھی خاصی چوٹ لگی ہے۔ ہم سب کے دل میں ایک ہی خیال آیا وہ یہ کہ ہم لوگوں نے آپ سے بلاوجہ مذاق کیا اور میں نے چار روپے زیادہ لے لئے۔ میں انتہائی عاجزی سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے معاف کر دیں اور یہ رہے آپ کے چار روپے۔ اس نے چار روپے میری جانب بڑھا دیئے میں نے شرمندہ سی نگاہوں کے ساتھ اسے دیکھا اور کہا۔ ’’آپ کے چوٹ لگنے کا مجھے افسوس ہے۔ اگر تھوڑی سی دل آزاری ہوئی ہے میری تو اس کے لئے میں آپ کو معاف کرتا ہوں۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ جناب میری طرف سے آپ ایک پیالی چائے ہی پی لیجئے، مجھے خوشی ہو گی۔‘‘
’’نہیں بھائی چائے کی حاجت نہیں ہے۔‘‘
’’میری خوشی کے لئے۔‘‘ وہ شاید بہت زیادہ متاثر ہو گیا تھا۔ تھوڑے فاصلے پر چائے بیچنے والے سے اس نے دو پیالی چائے کے لئے کہا میں نے اس سے پوچھا۔
’’اب اگر احسان ہی کرنا چاہتے ہیں تو مجھے یہ بتا دیجئے کہ سالم نگر جانے کے لئے ریل کتنی دیر میں آئے گی۔‘‘
’’بس اب سے تقریباً پونے گھنٹے کے بعد اگر لیٹ نہ ہوئی ہو تو۔‘‘
’’کدھر سے آئے گی۔‘‘ میں نے سوال کیا اور اس نے اشارے سے مجھے سمت بتا دی۔ اتنی دیر میں چائے آگئی تھی۔ میرے ساتھ بیٹھ کر اس نے چائے پی اور اٹھتا ہوا بولا۔ ’’میرے حق میں دعائے خیر کیجئے۔ آپ نے مجھے معاف تو کر دیا ہے۔‘‘
ریل ٹھیک پون گھنٹے کے بعد آگئی اور میں اس کے ایک ڈبے میں چڑھ گیا۔ مسافر زیادہ تر سو رہے تھے۔ ایک مسافر نے مجھے شی شی کر کے اپنی طرف مخاطب کیا اور جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔ ریل کا ڈبہ بھرا ہوا تھا۔ سونے والوں نے زیادہ تر جگہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس شخص نے مجھے اپنے قریب جگہ دیتے ہوئے کہا۔ ’’یہاں بیٹھ جائو تم نے ریلوے بابو سے یہ نہیں پوچھا کہ سالم نگر کا فاصلہ کتنا ہے اور تم کس وقت وہاں پہنچو گے۔‘‘ میں نے حیرانی سے اس شخص کو دیکھا، صورت شکل میرے لئے اجنبی تھی۔ سادہ سا چہرہ تھا۔ میں ششدر کھڑا ہی ہو ا تھا کہ وہ بولا۔
’’بیٹھ جائو یہ جگہ تمہارے لئے محفوظ رکھی گئی ہے اور ہاں سنو صبح فجر کی اذان جیسے ہی سنائی دے نیچے اتر جانا، وہی سالم نگر کا اسٹیشن ہو گا۔ مسجد اسٹیشن پر ہی ہے۔ صاف نظر آجائے گی اچھا خدا حافظ۔‘‘ وہ دروازے کی جانب بڑھا پھر وہاں سے رک کر پلٹا اور میری طرف رخ کر کے کہنے لگا۔
’’کسی سے اس کے بارے میں پوچھتے نہیں ہیں۔ ہاں جو لوگ تم سے متعارف ہونا چاہیں ان کی بات اور ہے ورنہ ان کی پیشانی پر اس چمک کر دیکھ لیا کرو جو انہیں اعزاز کے طور پر ملتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نیچے اتر گیا اور میں ایک عجیب سی کپکپی اپنے وجود میں محسوس کرنے لگا۔ یہ ساری رمز کی باتیں تھیں۔ اس شخص نے اپنے آپ کو کوتوال کی حیثیت سے متعارف کرایا تھا جس نے میری رہنمائی سالم نگر کی جانب کی تھی اور اب یہاں بھی میرے لئے انتظامات موجود تھے۔ ریل ایک جھٹکے سے آگے بڑھ گئی۔ سیٹیوں کی دو آوازوں پر میں نے غور نہیں کیا تھا۔ میری نگاہیں کھڑکی سے پرے تاریکی میں بھٹکنے لگیں لیکن کوئی اور مجھے نظر نہیں آیا۔ ایک عجیب سا احساس دل میں جاگزیں تھا۔ آنکھیں بند کرلیں اور ان دو رہنمائیوں کے بارے میں سوچتا رہا، دل کو وہی احساس ہوا تھا جو اس وقت میرے دل میں آبسا تھا، جب میں ہنومان مندر کے باہر ویران جگہ سربسجود تھا یعنی تنہا نہ ہونے کا احساس، ہر جگہ رہنمائی ہوئی تھی۔ دل سے دعا نکلی کہ اللہ ان محبتوں کو برقرار رکھے۔ میں تو لاچار ہوں سرکشی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سفر جاری رہا۔ سالم نگر کے بارے میں سوچتا رہا جہاں بابا شاجہاں کا عرس ہو رہا تھا اور مجھے وہاں عرس میں شریک ہونا تھا۔
رات کا وقت خاموشی، باہر دوڑتے اندھیرے، خیالات کی ریل چلتی رہی۔ وہ پیلی مکڑی یاد آئی جو مندر کی چھت پر نظرآئی تھی۔ یقیناً بھوریا چرن کی جاسوس ہوگی۔ بھوریا چرن طویل عرصے سے سامنے نہیں آیا تھا لیکن اس نے مجھے نظرانداز بھی نہیں کیا تھا، مسلسل میری تاک میں رہتا تھا۔ ہو سکتا ہے اس مکڑی کے بھیس میں وہی ہو اور ہو سکتا ہے یہاں کسی مقصد سے آیا ہو۔ شکر تھا میں مندر میں سویا نہیں تھا ورنہ اسے کامیابی حاصل ہو جاتی۔ ہر جگہ مجھ سے محتاط رہتا تھا۔ مہاوتی کو بھی اس نے مجھ سے ہوشیار کیا تھا۔ کمبخت میرا مسلسل دشمن تھا۔ اس کی وجہ سے کیا کچھ نہ چھن گیا تھا میرا، بھرا پرا گھر بہن بھائی، ماں باپ، سب برباد ہو گئے تھے۔ سب کے سب تباہ ہوگیا تھا۔ تمام شیرازہ منتشر ہو گیا تھا۔ دل میں پھر وہی احساسات ابھر آئے۔ آنکھیں تو آنسو برسانے کیلئے تیار رہتی تھیں۔ دل اُلٹنے لگا۔ اس احساس کی منادی تھی اس کے لئے رونا نہیں تھا۔ منہ پر تھپڑ مارنے لگا، خود کو سمجھانے لگا۔ آہ مجھے اس سے باز رہنا ہے۔ دعائیں مانگنے لگا، مدد مانگنے لگا اور یوں لگا جیسے کسی نے سینے پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ پھر یہ مہربانی وسیع ہو گئی۔ نیند آگئی تھی پھر بدن کو جھٹکا لگا، کانوں میں اذان کی آواز ابھری۔ بری طرح چونک پڑا۔ بدن کو جھٹکا ریل رکنے سے لگا تھا۔ اذان کی آواز اسٹیشن کی مسجد سے آرہی تھی اور مجھے یہی جگہ بتائی گئی تھی۔ دیوانوں کی طرح دروازے کی طرف بھاگا اور نیچے اتر گیا۔ فوراً ہی ریل کی سیٹی سنائی دی تھی۔ پلیٹ فارم پر کودا ہی تھا کہ ریل چل پڑی۔ اللہ نے مدد کی تھی۔ چند لمحے اور سوکر گزار دیتا تو سالم نگر نہ اتر پاتا۔ اس وقت کچھ اور سوچنا ممکن نہیں تھا۔ مسجد کے گنبد نظر آرہے تھے انہیں دیکھتا ہوا آگے بڑھا اور مسجد میں داخل ہو گیا۔ وضو کیا نمازی آنےشروع ہو گئے تھے۔ نماز فجر سے فراغت ہوئی تو باہر نکلتے ہوئے نمازیوں میں سے ایک سے پوچھا۔ ’’بھائی یہ سالم نگر ہے؟‘‘
’’ایں ہاں، ہے تو۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔
’’بہت بہت شکریہ۔‘‘
’’تمہیں نہیں معلوم تھا۔‘‘
’’ہاں مسافر ہوں کچھ دیر قبل ریل سے اترا ہوں۔‘‘
’’کہاں جارہے تھے؟‘‘
’’یہیں آیا تھا۔‘‘
’’کون سے محلے جا رہے ہو؟‘‘
’’مجھے بابا شاہجہاں کے مزار پر جانا ہے۔‘‘
’’اوہو عرس میں آئے ہو۔‘‘
’’ہاں !‘‘
’’میرا تانگہ باہر موجود ہے چلو گے۔‘‘
’’ضرور چلوں گا۔ کیا مزار شریف دور ہے؟‘‘
’’یہاں سے پانچ کوس کا فاصلہ ہے۔‘‘
’’کتنے پیسے لو گے؟‘‘
’’جو جی چاہے دے دینا۔‘‘
’’پھر بھی بتادو۔‘‘
’’ڈیڑھ روپیہ دےدینا۔ ویسے پورے تانگے کے چار روپے ہوتے ہیں مگر بابا جی کے مہمان ہو اس لئے ڈیڑھ روپیہ لوں گا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا، وہی چار روپے تھے جو بکنگ کلرک نے واپس دیئے تھے یعنی آج کا وظیفہ۔ بڑا کھرا حساب تھا۔ بے چارہ بکنگ کلرک میرا وظیفہ کیسے روک سکتا تھا۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ تانگے والے کے ساتھ باہر نکل آیا۔ تانگے میں بیٹھ کر میں نے پوچھا۔ ’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’نعمت خان!‘‘ اس نے گھوڑے کو ٹخٹخاتے ہوئے کہا اور تانگہ آگے بڑھا دیا۔
’’بابا شاہجہاں کے عقیدت مند ہو؟‘‘
’’کون نہیں ہے بھائی صاحب۔ کیا ہندو کیا مسلمان ان کے عقیدت مند تو سب ہیں۔‘‘
’’ہندو بھی؟‘‘
’’مسلمانوں سے زیادہ، بابا جی سب کے ہیں۔ ہندو پاک صاف ہو کر ننگے پائوں مزار پر جاتے ہیں چادریں چڑھاتے ہیں، منتیں مانگتے ہیں اور اللہ ان کی مرادیں بھی پوری کردیتا ہے۔ بڑا فیض ہے باباشاہجہاں کا سالم نگر پر ۔‘‘
’’ٹھیک‘‘ میں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا لیکن تانگے والا شروع ہوگیا تھا۔ راستے بھر وہ مجھے بابا شاہجہاں کی کرامتیں سناتا رہا اور بتاتا رہا کہ سالم نگر پر ہی نہیں بلکہ یہاں آنے والوں کو بابا صاحب کے مزار سے کیا کیا فیض حاصل ہوتے ہیں۔ پانچ کوس کا فاصلہ معمولی نہیں تھا۔ خوب سورج چڑھ گیا تب ہم بابا شاہ جہاں کے مزار پر پہنچے۔ درحقیقت پرنور مزار تھا۔ کسی قدر بلندی پر بنا ہوا تھا۔ اطراف میں گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا لیکن جنگل میں منگل ہو رہا تھا۔ دکانیں لگی ہوئی تھیں، جگہ جگہ خیمے اور چھولداریاں نصب تھیں۔ صاحب حیثیت لوگ اپنی اپنی گاڑیوں میں آئے تھے اور اپنے ساتھ چھولداریاں لائے تھے۔ ہرجگہ یہ چھولداریاں نصب تھیں۔ جو اپنےخیمے اور چھولداریاں نہیں لاسکے تھے انہوں نے گھنے درختوں کی چھائوں میں پناہ لی ہوئی تھی۔ چولہے گرم ہو رہے تھے، جگہ جگہ دھواں اٹھ رہا تھا۔ لوگ چہل قدمی میں مصروف تھے۔ زیارت کرنے والے مزار پر آجا رہے تھے اور ان کے چہرے سے عقیدت کا اظہار ہوتا تھا۔ بہت سے دھوتی برداروں کو بھی دیکھا۔ ننگے پائوں مزار سے نکل رہے تھے۔ مجھے بھلا کسی پناہ گاہ کی کیا ضرورت تھی۔ جہاں شب ہوتی وہیں شب بسری کی جا سکتی تھی۔ فوراً ہی مزار اقدس کی جانب بڑھ گیا اور سب سے پہلے مزار پر فاتحہ خوانی کی۔ بہت دیر تک دو زانو بیٹھا رہا اور صاحب مزار سے رہنمائی طلب کرتا رہا۔ اپنی آخرت کی بہتری کے لئے، اپنی عاقبت کے لئے پھر وہاں سے واپس پلٹا۔ بس وہی کھایا ہوا تھا جو پچھلی رات کو کھایا تھا۔ چنانچہ شدید بھوک لگ رہی تھی۔ پانی تک نہیں پیا تھا۔ جیب میں ڈھائی روپے تھے چنانچہ دوپہر کا کھانا ایک جگہ سے دو روٹی اور تلی ہوئی مچھلی لے کر کھائی پھر بھی جیب میں ایک روپیہ باقی بچ گیا تھا۔ اسی میں مجھے شب کی خوراک حاصل کرنی تھی۔ آرام کیلئے ایک جگہ منتخب کی اور گھنے درخت کے سائے میں جا بیٹھا۔ یہ سوچنے لگا کہ یہاں مجھے کیوں بھیجا گیا ہے۔ آنکھیں بند کر کے راہنمائی کا طلب گار ہوا لیکن کوئی بات نہ بتائی گئی چنانچہ خاموشی اختیار کرلی۔ وقت خود فیصلے کرے گا اور وقت پر ہی راہنمائی ہو گی۔ ابھی کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا اس لئے جلد بازی بھی نہیں کرنی چاہئے۔
دوپہر سر پر سے گزر گئی اور شام کی چہل پہل کا آغاز ہو گیا۔ مزار شریف پر قوالوں کا قبضہ تھا چنانچہ وسیع و عریض صحن میں قوالوں کی محفل جم گئی۔ ہر ایک اپنی اپنی عقیدت کا اظہار کرنے آیا تھا۔ میں خود بھی اندر داخل ہو گیا اور ایک سمت جا بیٹھا۔ قوالوں کو لوگ حسب توفیق کچھ نہ کچھ دے رہے تھے اور قوال بڑے جوش و خروش سے گا رہے تھے لیکن بدقسمتی سے میرے پاس صرف ایک روپیہ موجود تھا جس کے بارے میں میں دیر تک سوچتا رہا تھا۔ پھر نجانے کیوں جی چاہا اور میں نے وہ روپیہ نکال کر ایک قوال کو پیش کر دیا۔ زیادہ سے زیادہ رات کا فاقہ ہی ہو جائے گا۔ کیا فرق پڑتا ہے کل صبح وظیفہ ملے گا تو پیٹ بھرلوں گا۔ بہ آسانی گزارہ ہو سکتا ہے اور پھر بہت زیادہ کھانا پینا بھی انسان کے ذہن کو عبادت سے غافل کر دیتا ہے۔ اس احساس سے مطمئن ہو گیا۔
رات ہوگئی تقریباً دن بھر ہی یہاں لوگوں کے درمیان رہا تھا اور اب ساڑھے دس بج رہے تھے چنانچہ سو جانے کا فیصلہ کیا اور صحن مزار سے باہر نکل آیا۔ چاروں طرف چہل پہل تھی، سب کے اپنے اپنے چراغ روشن تھے۔ میں ایک بے چراغ درخت کے نیچے پہنچ گیا۔ یہیں تھوڑی سی جگہ ہاتھ سے صاف ستھری کی اور بازوئوں کا تکیہ بنا کر درخت کی ایک ابھری ہوئی جڑ پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا۔ اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کا خواہشمند تھا کہ سوچوں کو ذہن سے نکال سکوں۔ سوچیں تو بڑا الجھا دیتی ہیں اور ان سوچوں میں نجانے کیا کیا تصورات شامل ہوجاتے ہیں جو ذہن کو پراگندہ کر دیتے ہیں۔ دماغ کو ان آوازوں پر مرکوز کر دیا جو اندر سے آرہی تھیں، قوال گار ہے تھے۔
تیری خدائی میں ہوتی ہے ہر سحر کی شام
الٰہی میری سحر کی بھی شام ہو جائے
دل رو پڑا۔ الٰہی میری سحر کی بھی شام ہو جائے۔ جھلس گیا ہوں، اس دھوپ میں سارا وجود جل کر راکھ ہو چکا ہے اور کتنا جلتا رہوں گا اور کتنا… ہونٹ دانتوں میں دبا کر زخمی کر لئے۔ خون کا نمک زبان پر پھیل گیا۔ توبہ کرتے ہوئے بے چینی سے اٹھ کر بیٹھ گیا، کان بند کر لئے۔ کیسا شعر تھا دل پر ایسی ضرب پڑی تھی کہ کمبخت بے قابو ہو گیا تھا۔
الٰہی میری سحر کی بھی شام ہو جائے
کچھ لوگوں کی آمد نے سکون بخشا۔ مجھے بیٹھے دیکھ کر آگئے تھے۔ دو آدمی ایک بوری پکڑے ہوئے تھے، بوری پر دیگ رکھی ہوئی تھی۔ تیسرا آدمی دیگ سے کچھ نکال رہا تھا۔
’’لنگر کے چاول ہیں بھائی میاں، کوئی برتن ہے؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘ میں نے آواز سنبھال کر کہا۔
’’رکابی دیدو۔‘‘ اس نے کہا اور بوری پر رکھی ایک پلیٹ میں مجھے میٹھے چاول دے کر وہ لوگ آگے بڑھ گئے۔ بابا شاہجہاں کا مہمان تھا، بھوکا کیسے سونے دیتے۔ پیٹ بھرا تو ذہن بوجھل ہو گیا۔ پریشانی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر کے سو گیا۔ نہ جانے کتنی دیر ہو گئی تھی مجھے سوتے ہوئے کہ اچانک آنکھ کھل گئی۔ سینے پر ایک زبردست دبائو محسوس ہوا تھا۔ وحشت زدہ ہو کر آنکھیں پھاڑ دیں۔ ایک انسانی جسم سینے پر سوار تھا۔ اس نے مجھے اپنی رانوں میں دبوچ رکھا تھا۔ پھر آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی اور اس کے ساتھ ہی شانے کے قریب سینے کے گوشت میں بجلیاں اتر گئیں۔ کسی تیز دھار والے خنجر نے شانے کے قریب کا گوشت کاٹ دیا، شدید تکلیف کے باعث حلق سے ایک دلخراش چیخ نکل گئی۔
دماغ نیند میں ڈُوبا ہوا تھا۔ ہوش و حواس قائم نہیں ہوئے تھے۔ حلق سے آزاد ہونے والی چیخ تکلیف کی وجہ سے نکل گئی تھی۔ اس میں کوشش شامل نہیں تھی کیونکہ کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا تھا۔ اگر بغل میں آگ نہ سلگ اُٹھی ہوتی تو شاید اسے خواب ہی سمجھتا، لیکن تکلیف نے ایک لمحے میں حواس جگا دیئے۔ میرے سینے پر سوار شخص نے دوبارہ خنجر بلند کیا۔ وہ پوری طرح مجھ پر حاوی تھا اور یقیناً میں اس کا یہ وار نہیں روک سکتا تھا لیکن اسی وقت کچھ فاصلے سے چیخیں اُبھریں۔
’’ہرے رام، ہرے رام، خون، ہتھیا، خون ہوگیا۔ ارے دوڑو، پکڑو، خونی بھاگ نہ جائے، رام جی، ماتھر، دھرما، دوڑو پکڑو۔‘‘
ان آوازوں نے میرے سینے پر سوار دُشمن کو بوکھلا دیا۔ اور وہ دوسرا وار نہیں کر سکا۔ میں نے بھی اس کی گرفت سے نکلنے کیلئے جدوجہد شروع کر دی تھی چنانچہ وہ اُچھل کر کھڑا ہوا اور پھر قلانچیں بھرتا ہوا تاریکی میں گم ہوگیا۔ اس کے سینے سے اُترتے ہی میں نے اُٹھنے کی کوشش کی۔ زخم شدید تکلیف دے رہا تھا۔ میں نے اس پر ہاتھ رکھ دیا۔ خون بری طرح بہہ رہا تھا پورا ہاتھ چپچپا رہا تھا۔
جس طرف سے چیخیں اُبھری تھیں وہاں چہل پہل تو ہوگئی تھی مگر کوئی آگے نہیں بڑھا تھا۔ مجھ پر وار کرنے والا اگر سمجھ داری سے کام لیتا تو دُوسرا کامیاب وار کرنے میں اسے کوئی دقّت نہ ہوتی کیونکہ چیخنے والے بہادر اپنی جگہ سے آگے نہیں بڑھےتھے۔ البتہ کسی نے کئی بار ماچس کی تیلیاں روشن کیں اور پھر پیٹرومیکس روشن ہوگیا۔ اس کے مینٹل نے چند بار شعلے اُگلے پھر تیز روشنی بکھیر دی۔
’’ارے ہنڈا اُٹھائو، دھت تمہاری جوانی کی، ہتھیارا بھاگ گیا کوئی آگے نہیں بڑھا۔ ارے اب تو اسے دیکھو سورمائو۔ میرے پیچھے پیچھے تو آجائو۔ ہے رہے تمہاری…‘‘ کوئی کسی کو لعنت ملامت کرنے لگا، گیس کا ہنڈا اُٹھایا گیا اور چند افراد میری طرف بڑھنے لگے۔
یہ خاندان مجھ سے چند گز کے فاصلے پر ایک چھولداری میں مقیم تھا۔ یہاں قیام کرتے ہوئے میں نے کچھ لوگوں کو محسوس کیا تھا مگر ان پر غور نہیں کیا تھا۔ وہ سب میرے قریب آگئے۔ سب سے آگے دھوتی کرتے میں ملبوس ایک اُدھیڑ عمر شخص تھا اس کے پیچھے تین چار افراد اور تھے جن میں سے ایک پیٹرومیکس اُٹھائے ہوئے تھا۔ میں بھی ہمت کر کے اُٹھ گیا۔
’’ارے… ارے… زندہ ہے۔ ارے بچ گیا بے چارہ۔ ارے کون ہے بیرا تو۔ گھائو لگا ہے کیا؟‘‘ ہمدرد انسان نے پوچھا، پھر ہنڈا اُٹھانے والے سے کڑک کر بولا۔ ’’تیرا ستیاناس دھرما۔ روشنی تو آگے لا، دیکھنے تو دے۔ پوت گھائو لگا ہے کیا تیرے؟‘‘
’’ہاں چاچا جی۔ بغل کے پاس کٹ گیا ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ہیں…؟ ہاں اُٹھائو رے اسے۔ منڈوے میں لے چلو۔ ارے رکمنی او رُکمنی۔ جاگ گئی کیا بٹیا۔ ذرا اپنی ڈاکٹری نکال لے۔ اُٹھائو رے سنبھال کر اُٹھائو۔‘‘
’’وہ پھر نہ آ جائے گنگاجی۔‘‘ ہنڈے والے نے کپکپاتی آواز میں کہا۔
’’لات دیں گے سسر تیری کمر پر، اُچھل کر منڈوے میں جا کر گرے گا۔ سنبھال کے رام جی، سنبھال کے ماتھر۔‘‘
دو افراد نے مجھے سہارا دے کر اُٹھایا تھا اور پھر چھولداری کی طرف لے چلے تھے جہاں اندھیرے میں کچھ اور لوگ نظر آ رہے تھے۔ اُدھیڑ عمر شخص مسلسل چیخ رہا تھا۔ ’’رکمنی بٹیا، جاگ گئی تو۔ رکمنی… اری او رُکمنی۔‘‘
’’جاگ رہی ہوں تائو۔ کون ہے، کیاہوا…؟‘‘ ایک نسوانی آواز سنائی دی۔
’’اری ڈاکٹری نکال اپنی، گھائل ہے بے چارہ، کوئی پاپی ہتھیا کر رہا تھا اس کی، بھگوان نے بچا لیا، مگر گھائو لگ گیاہے۔‘‘
’’چیخو مت تائو جی، دُوسرے لوگ بھی آس پاس موجود ہیں۔ مجمع لگ جائے گا۔‘‘ میرے ساتھ چلنے والے ایک شخص نے کہا۔ اتنی دیر میں ہم چھولداری کے پاس آ گئے۔
’’اندر لے چلو اندر…!‘‘ اُدھیڑ عمر شخص نے کہا۔
’’چلو اندر قدم بڑھائو…‘‘ مجھے سنبھالنے والوں نے کہا۔ میں بادل ناخواستہ ان کے ساتھ چھولداری میں داخل ہوگیا۔ چھولداری کافی وسیع تھی۔ اس میں جگہ جگہ گدّے پڑے ہوئے تھے۔ ان گدّوں پر یہ لوگ سو رہے ہوں گے لیکن اب کوئی ان پر نہیں تھا البتہ سکڑی سمٹی چادریں پڑی ہوئی تھیں۔ تکیے رکھے ہوئے تھے۔ ہنڈے کی روشنی چھولداری میں پھیل گئی۔
عمر رسیدہ شخص نے کہا۔ ’’بیٹھ جا پوت بیٹھ جا۔ رکمنی۔ ارے کہاں ہے ری تو۔‘‘
’’یہ کیا ہوں تمہارے پیچھے تائو۔‘‘ کسی لڑکی نے جواب دیا۔
’’ارے کیا کہا تھا میں نے۔ اُونچا سننے لگی ہے کیا۔‘‘
’’آپ ہٹیں سامنے سے تو میں کچھ دیکھوں تائو۔‘‘ لڑکی بولی۔
’’ارے بٹھائو اسے، تو بیٹھ جا بیٹا، کیا تیرے بھی کان خراب ہیں۔ ارے یہ تم لڑکی لڑکوں کو کیا ہوگیا ہے۔ بیس بیس بیری کوئی بات کہو تو اکیسویں بیری سنتے ہو۔ ارے بیٹھ جا۔‘‘
’’گدا خراب ہو جائے گا، خون بہہ رہا ہے میرے بدن سے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’خون۔‘‘ ایک اور نسوانی آواز اُبھری۔
’’بیٹھ جا میرے بیٹا، بیٹھ جا، میری آواز بیٹھی جا رہی ہے۔‘‘ معمر شخص نے کراہتے ہوئے کہا اور میں بیٹھ گیا۔
’’لو ڈُوب گئی لُٹیا۔‘‘ دُوسری نسوانی آواز پھر سنائی دی۔
’’گیس لیمپ قریب لائو۔ دھرما آگے آ جا، نیچے بیٹھ جا۔‘‘ رکمنی نامی لڑکی نے کہا۔ وہ فرسٹ ایڈ بکس لے کر میرے پاس بیٹھ چکی تھی۔ دھرما نے پیٹرومیکس قریب رکھ دیا اور پیچھے ہٹ گیا۔ ’’اُوپر اُٹھا رے دھرما۔‘‘ لڑکی بولی، اور دھرما کی کپکپاتی آواز سنائی دی۔ ’’رام… رام جی… رام جی۔ تم اُٹھا لو۔ مم… مجھ سے خون نہیں دیکھا جاتا۔‘‘ دُوسرے آدمی نے پیٹرومیکس اُٹھا کر قریب کر لیا اور لڑکی میرا زخم دیکھنے لگی۔ پھر اس نے فرسٹ ایڈبکس سے بینڈیج کا سامان نکال لیا۔ مکمل ڈاکٹر معلوم ہوتی تھی پہلے اس نے کوئی محلول میرے زخم پر اور اس کے آس پاس اسپرے کیا۔ اس کے بعد خون صاف کر کے کوئی مرہم لگایا۔ پھر فل بینڈیج کرنے لگی۔ اس کے لیے میری قمیص اُتار دی گئی تھی۔ خود معمر آدمی ہر کام میں پیش پیش تھا۔
بینڈیج ہوگئی تو معمر آدمی بولا۔ ’’ثریا، اری ثریا بیٹی، دُودھ گرم کر لےچندو، ایک گلاس گرم گرم دُودھ پلائو اسے۔ جان پکڑے گا، بڑا خون بہہ گیا۔ رام رام… رام رام…!‘‘
’’مجھے بلایا گنگا جی…‘‘ رام جی نے کہا۔
’’ارے چپ بیٹھ نہیں تو… اتنا خون نکل گیا۔ تو لیٹ جا پوت۔‘‘
’’خون میں بھرا ہے پورے کا پورا۔ گدا خراب ہو جائے گا۔ ارے ثریا دُوسری دَری بچھا دے۔‘‘ عورت نے کہا۔
’’او دُوسری دری۔ تیری آواز پھر نکلی تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔‘‘ معمر شخص جسے گنگا جی کہہ کر پکارا جا رہا تھا، بگڑ کر بولا۔ پھر اس نے سینے پر دبائو ڈال کر مجھے لٹا دیا۔
میں نے شرمندہ لہجے میں کہا۔ ’’آپ لوگوں کو میری وجہ سے بڑی تکلیف ہوئی۔‘‘
’’صبح اُٹھ کر چار جوتے مار دینا ہمارے منہ پر … اور چلے جانا۔ احسان اُتر جائے گا۔‘‘ معمر شخص نے کہا۔
’’جی…!‘‘ میں حیرانی سے بولا۔
’’تائو جی، چپ رہنے دیں انہیں۔ زیادہ بولنا اچھا نہیں ہوگا، آپ دُودھ پی لیں پھر میں آپ کو انجکشن دوں گی۔ آپ آرام سے سو جایئے صبح تک بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ عورت کی آواز پھر اُبھری۔
’’پھر بولی۔‘‘ گنگا جی غرّائے، اتنی دیر میں دُودھ کا گلاس آ گیا اور مجھے سہارا دے کر اُٹھایا گیا۔ دل میں ہچکچاہٹ اُبھری تھی لیکن کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ دُودھ پینا پڑا۔ رکمنی انجکشن تیار کر چکی تھی۔ اس نے مجھے انجکشن لگایا اور پھر مجھے دوبارہ لٹا دیا گیا۔
’’بس آنکھیں بند کر لو۔ ابھی نیند آ جائے گی۔‘‘
’’نیند کا انجکشن ہے؟‘‘ گنگاجی نے پوچھا۔
’’ہاں خواب آور ہے۔‘‘ رکمنی بولی۔ میں نے اس کی ہدایت پر آنکھیں بند کرلیں۔ دماغ میں ہلکی سی سنسناہٹ ضرور اُبھری تھی لیکن نیند یا بے ہوشی کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ سب لوگ چھولداری ہی میں تھے لیکن رکمنی نے انہیں خاموش رہنے کی ہدایت کی تھی اس لیے ایک دم خاموشی طاری ہوگئی تھی۔ کوئی بیس منٹ گزر گئے لیکن مجھے نیند نہیں آئی۔ جاگ رہا تھا پوری طرح ہوش و حواس میں تھا۔ پھر رکمنی نے کہا۔ ’’بس ٹھیک ہے کام ہوگیا۔‘‘
’’ایں، کیا کام ہوگیا۔‘‘ معمر شخص کی چونکی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’اوہ، تائو جی، میرا مطلب ہے یہ گہری نیند سو گیا بلکہ بے ہوش ہوگیا۔‘‘
’’ارے بھیا، تو بے ہوش ہوگیا کیا۔ بتا رے بھائی۔ ارے بولے گا نا کیا؟‘‘
’’تائو جی، تائو جی۔ وہ بے ہوشی میں بولے گا کیا؟‘‘ اس بار نوجوان نے کہا۔
’’ایں، ہاں سو تو ہے۔‘‘ تائو جی نے کہا۔
’’بھگوان نے اتنی عقل دی ہوتی تو وارے نیارے نہ ہوگئے ہوتے۔ کچھ کما نہ کھاتے۔‘‘ نسوانی آواز نے کہا۔
’’ہاں تو تو جیسے کمنڈل ہاتھ میں لے کر بھیک مانگتی ہے سڑکوں پر اسی طرح سب کا پیٹ بھرتا ہے۔‘‘ معمر شخص نے کہا۔
’’ارے ارے، آپ لوگ پھر لڑنے لگے۔‘‘ یہ آواز رکمنی کی تھی۔
’’تو خود دیکھ رکمنی۔ اناتھ آشرم بنا رکھا ہے انہوں نے ایک کے بعد ایک کو بھرے لے رہے ہیں۔ گدا خون سے خراب کر دیا، چادر بھگو دی خون میں، نقصان پہ نقصان۔ اس کے سوا اور کیا کرتے ہیں یہ۔ ارے میں پوچھتی ہوں یہ ہے کون…؟‘‘
’’دیکھتی نہیں ہے انسان ہے۔‘‘
’’یہ تو آپ ہمیں بھی بتایئے تائو جی؟‘‘ نوجوان نے کہا۔
’’ارے ہمیں کیا معلوم بھیا۔ تم سب لوگ لمبے پڑے تھے منڈوے میں اور یہ گیّا بھیں بھیں کر رہی تھی، سوتے میں اتی زور سے خرّاٹے لے رہی تھی کہ ہماری نیند اُکھڑ گئی اور ہم باہر نکل آئے۔ ارے بھیا کیا دیکھا کہ ایک پاپی خونی چڑھ بیٹھا اس بے چارے چھورا پر، خنجر بھی دیکھ لیا ہم نے بس چل پڑے ہم اور بھگوان نے دیا کی کہ وہ اسے چھوڑ بھاگا۔ نہیں تو مارا گیا تھا بے چارہ۔ اور تم سسر، گٹی بیٹھ گئی تمہاری۔ ایک بھی آگے بڑھ کر نہ دیا۔ ارے واہ رہے جوانو، یہ ہے تمہاری جوانی ارے جوانی دیکھنی تھی تو ہماری دیکھتے سسر بیسیوں ڈکیٹ پکڑ پولیس کےحوالے کر دیئے۔ پچاسیوں خونی دبوچ کے پولیس کو دے دیئے۔‘‘
’’اے لالہ جی، اے لالہ جی، ذرا میری طرف دیکھیو۔‘‘ اس عورت کی طنزیہ آواز اُبھری جس سے گنگاجی کی مسلسل چل رہی تھی۔ غالباً وہ اس کی دھرم پتنی تھی۔
’’مر کر بھی نہ دیکھوں تیری صورت تو… صبح دیکھ لو تو دن بھر مصیبت اُٹھائو، رات کو دیکھو تو بگھرّے ہی اُٹھا لے جائیں۔‘‘
’’ہیں، میری طرف دیکھو گے تو شرم جو آئے گی، کونسے ڈکیٹ پکڑے تم نے، ذرا بتائیو، وہ ہندو مسلمانوں کا جھگڑا ہوا تھا تو کیا ہوا تھا۔ ذرا بتائو ان بچوں کو۔‘‘
’’اچھوت جاتی کی ہے تو پکی اچھوت جاتی کی، ایک بات پکڑ کر بیٹھ گئی۔ ہزار بار بتا چکے ہیں بچوں کو، جلاب لیا تھا وید جی کے کہنے سے، جنگل پانی کو گئے تھے۔ ہوگیا ہندو مسلمانوں کا جھگڑا۔ لٹھیاں چل رہی تھیں بھاگتے نہیں تو کیا کرتے۔ ایں، کالی کبوتری، بھگوان نے جیسی شکل دی ویسی ہی زبان بھی۔‘‘ لالہ جی بگڑ کر بولے۔
’’جلتی پر کیسا تیل پڑا اب… ہیں۔‘‘
’’بات پوری ہونے دیں تائی جی۔‘‘ نوجوان بولا۔ ’’پھر کیا ہوا تائو جی۔‘‘
’’لے پھر جو ہوا تمہارے سامنے نہیں ہے کیا۔‘‘
’’اوہ، اب کیا کریں گے۔‘‘ رکمنی بولی۔
’’کریں گے کیا، سونے دے بے چارے کو، صبح کو دیکھیں گے۔‘‘
’’اور چھورے چھوریاں کہاں سوئیں گے۔‘‘ دیوی جی بولیں۔
’’تیرے سر پر، ارے ایک گدا ہی تو ملا ہے بے چارے کو، میرے لیے دری بچھا دے اس کے پاس۔‘‘
’’صبح کو بھگا دینا اسے، کہے دے رہی ہوں، اچھا نہ ہوگا۔‘‘
’’جا تو جا پڑ کونے میں، صبح کی صبح دیکھی جائے گی۔‘‘
’’ہنڈا بجھا دوں گنگاجی؟‘‘
’’نا میرے سر پر پھوڑ دے۔ لے کھوپڑی جھکا رہا ہوں۔‘‘ لالہ جی بولے۔ دھرما نے ہنڈا بجھا دیا۔ پھر شاید ایک ایک کر کے سب لیٹ گئے۔ میں دم سادھے خاموش لیٹا ہوا تھا۔ رکمنی نے زخم پر بینڈیج کی تھی، غالباً اسے سن بھی کر دیا تھا کیونکہ کوئی تکلیف نہیں محسوس ہو رہی تھی لیکن اس کا لگایا ہوا انجکشن مجھ پر بے اثر تھا۔ نہ نیند آئی تھی نہ بے ہوشی طاری ہوئی تھی۔ مکمل سناٹا چھا گیا اور میں اس شخص کے بارے میں سوچنے لگا جو خنجر سے مجھ پر حملہ آور ہوا تھا۔ کون تھا وہ، کیا چاہتا تھا، کوئی چور، لٹیرا، لیکن یہ بات دل کو نہیں لگی، میں تو گہری نیند سو رہا تھا۔ میری جیبیں ٹٹول کر بھاگ جاتا۔ یہ جان لیوا حملہ کیوں کیا اس نے۔ نہ جانے کون تھا۔ کیا چاہتا تھا۔ میں تو صورت بھی نہیں دیکھ سکا تھا۔ پھر ذہن ان لوگوں کی طرف چلا گیا اور ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ پھیل گئی۔ معمر شخص دلچسپ انسان ہے۔ تلخ مزاج تلخ زبان لیکن ہمدرد۔ بیوی سے خوب چلتی ہے۔ نام شاید گنگا ہے، آگے پیچھے بھی کچھ ہوگا۔ خوب آدمی ہے مگر ایک نام دماغ میں چبھنے لگا۔ اس نے جس لڑکی سے دُودھ لانے کے لئے کہا تھا اس کا نام ثریا لیا تھا۔ یہ تو مسلمان نام ہے۔ اگر ایسا ہے تو ایک مسلمان لڑکی ان کے ساتھ کیوں ہے۔ دُوسری بات یہ بھی تھی کہ وہ ہندو ہونے کے باوجود بابا شاہجہاں کے مزار پر فروکش تھے۔ تانگے والے نے مجھے بتایا تھا کہ بابا صاحب کے عقیدت مندوں میں ہندو بھی ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہو… مگر وہ مسلمان لڑکی نہ جانے کون ہے۔
دماغ کی تھکن سے ہی نیند آئی تھی۔ نہ جانے کب تک سوتا رہا تھا۔ جاگا تو بدن پر کمبل ڈھکا ہوا تھا۔ معمر شخص کی آواز سنائی دی۔ ’’جاگ گیا رکمنی۔‘‘
’’آئی تائو…‘‘ چھولداری کے باہر سے آواز سنائی دی تھی۔ میں نے کمبل سمیٹ کر اُٹھنا چاہا تو معمر شخص نے جلدی سے کہا۔
’’ارے او… ارے او سورما، ارے لیٹا رہ بھائی۔ بڑا سورما ہے تو مان لیا ہم نے، لیٹا رہ کمبل نہ اُتار، ہوا لگ گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔‘‘
’’میں ٹھیک ہوں گنگا جی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں ہاں بالکل ٹھیک ہے تو… ایں … ارے۔ ارے تجھے ہمارا نام کیسے معلوم ہوگیا۔ ارے بھیا تو ہمیں کیسے جانتا ہے۔‘‘ معمر شخص نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر کہا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’رام جی نے آپ کو گنگا جی کہہ کر پکارا تھا۔‘‘
’’لے اور لے، رام جی کا نام بھی معلوم ہے۔ چل اس نے ہمیں گنگا کہہ کر پکارا تھا مگر رام جی کو تو کیسے جانے ہے۔‘‘
’’آپ نے اسے رام جی کہہ کر پکارا تھا۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ اس وقت ایک خوبصورت لڑکی جس نے سفید ساری باندھی ہوئی تھی۔ دراز قامت اور شوخ مسکراتا ہوا چہرہ تھا۔ ہاتھ میں دُودھ کا گلاس اور بسکٹوں کا پیکٹ لیے اندر آ گئی۔
گنگا جی نے آہستہ سے کہا۔ ’’اری رکمنی بٹیا یہ تو ہمارے پورے کٹم کو جانے ہے۔‘‘
’’کیسے۔‘‘ رکمنی میرے پاس بیٹھ کر بولی۔
’’سب کا نام لے کر بتا رہا ہے۔ اچھا اس بٹیا کا نام بتا۔‘‘ گنگا جی سے معصومیت سے رکمنی کی طرف اشارہ کر کے کہا اور مجھے پھر ہنسی آ گئی۔ رکمنی نے غور سے مجھ دیکھا، دیکھتی رہی پھر خود بھی ہنس دی۔ اور بولی۔ ’’کیا قصہ ہے۔‘‘
’’کچھ نہیں رکمنی جی۔ گنگا جی
اس بات پر حیران ہیں کہ میں سب کے نام کیسے جانتا ہوں حالانکہ وہ بار بار آپ کو رکمنی کہہ کر پکار رہے ہیں اور اب مجھ سے آپ کا نام پوچھ رہے ہیں۔‘‘
’’تائو جی بہت سادہ لوح ہیں، بہت معصوم، چلو تھوڑے سے اُٹھو یہ چائے اور دُودھ ملا ہوا ہے نہ خالص دُودھ ہے نہ چائے۔ کچھ بسکٹ کھا لو اس کے ساتھ پھر تمہیں دوا دوں گی۔ خالی پیٹ دوا نہیں دی جا سکتی…‘‘
’’آپ کو بہت تکلیف ہو رہی ہے میری وجہ سے، ویسے میں اب بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
’’ مجھے پتا ہے، صرف ایک سو چار بخار ہے آپ کو۔ چلئے اٹھئے بھوک نہیں لگی کیا؟‘‘
’’اوہو، بخار آگیا مجھے۔ تعجب ہے۔‘‘ میں نے اُٹھ کر دُودھ اور بسکٹ لے لیے۔ باقی لوگ چھولداری میں نہیں نظر آرہے تھے۔ کئی بسکٹ کھانے کے بعد میں نے دُودھ نما چائے پی لی۔ ایک بار پھر ان لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور پھر رکمنی سے پوچھا…! کیا وقت ہوگیا رکمنی دیوی…!‘‘
’’چار بجکر بیس منٹ ہوئے ہیں۔‘‘ رکمنی نے اپنی کلائی پر بندھی چھوٹی سی گھڑی میں وقت دیکھ کر کہا۔
’’جی۔‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’ہاں۔ آپ پورے سولہ گھنٹے سوتے رہے ہیں انجکشن کے اثر سے نہیں بخار کی غفلت سے۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’اوکے، دوائیں لے آئوں آپ کیلئے۔‘‘ رکمنی گلاس اور بسکٹ سنبھال کر اُٹھ گئی۔ گنگاجی نے کہا۔ ’’میں بات کر لوں اس سے ڈاکٹرنی صاحبہ؟‘‘
’’ضرور تائو جی۔‘‘ وہ باہر نکلتے ہوئی بولی۔ اور گنگاجی میری طرف متوجہ ہوگئے۔
’’تو بڑا گیانی ہے بھائی تجھے سب کے نام معلوم ہوگئے۔ ہم ٹھہرے بدھو کے بدھو، تو نے سن ہی لیا ہماری بٹیا کے منہ سے۔ ہمیں تیرا نام نہیں معلوم۔‘‘
’’میرا نام مسعود ہے گنگاجی۔‘‘
’’مسلمان ہے؟‘‘
’’الحمد للہ!‘‘
’’تیرا دُشمن کون تھا؟‘‘
’’میں بالکل نہیں جانتا۔‘‘
’’دُشمنی چل رہی ہے کسی سے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’پھر کوئی اُچکا ہوگا۔ سسرا جان لینے پر تل گیا تھا۔ وہ تو ہم نے دیکھ کر شور مچا دیا نہیں تو پاپی دوسرا وار کرتا۔‘‘
’’میں خلوص دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں گنگاجی۔‘‘
’’ارے نا بیرا بھگوان کو تیری جان بچانی تھی۔ ہمیں کارن بنا دیا اور پھر بہت بڑی سرکار دوارے آیا ہے تو۔ گھائو ضرور لگ گیا مگر بابا جی کسی کو ایسے مرنے دیتے۔ اس پاپی کو ضرور سزا ملے گی جس نے تجھے بابا جی کے در پر گھائل کیا۔ زیارت کو آیا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اکیلا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کہاں رہتا ہے؟‘‘ میں نے جواب میں اپنے شہر کا نام بتایا۔
’’بڑی دُور سے آیا ہے۔ مگر بابا شاہجہاں کے دوارے تو نہ جانے کہاں کہاں سے لوگ آتے ہیں اور ہم تو پرکھوں سے بابا جی کے داس ہیں۔ سال کے سال آتے ہیں عرس میں اور سال بھر کے لیے شانتی لے جاتے ہیں۔‘‘
’’آپ ہندو ہو کر اتنی عقیدت رکھتے ہیں باباجی سے؟‘‘
’’ارے بیٹا سارے کھیل سنسار کے ہیں۔ کون کہاں سے آتا ہے کہاں چلا جاتا ہے یہ کوئی اور ہی جانتا ہے، روتے ہوئے آتے ہیں کراہتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ہندو کہہ لو، سکھ کہہ لو، عیسائی کہہ لو، مسلمان کہہ لو۔ یہ ساری باتیں بس کہنے کیلئے ہوتی ہیں۔‘‘
’’بہت بڑے ہیں آپ گنگاجی، صرف انسان ہیں آپ! آپ کا پورا نام کیا ہے؟‘‘
’’تو بتا گیانی تو جانیں۔‘‘ گنگاجی نے مسکرا کر کہا۔
’’میں نے جتنا سنا ہے اتنا ہی جانتا ہوں۔‘‘
’’ہیں آ گیا نا راستے پر۔ ہمارا نام گنگا دھر ہے، پتا کا نام مرلی دھر تھا ہماری دھرم پتنی کا نام پریم وتی ہے۔ پریما دیوی کہتے ہیں سب اسے۔ ہری مرچ کے کھیت میں اُگی تھی۔ کیا ہوئی ہری مرچ۔ ہمیں پرلے سرے کا گدھا سمجھتی ہے۔ مہا کنجوس ہے دانے دانے پر جان دیتی ہے۔ دونوں بچّے ماتھر اور رکمنی ہمارے سور گباشی بھائی کے بچّے ہیں۔ پتی پتنی ریل گاڑی کے حادثے میں مارے گئے تھے۔ تب سے بچوں کو ہم نے پالا پوسا، پڑھایا، لکھایا۔ رکمنی ڈاکٹر بن چکی ہے اور اسپتال میں نوکر ہوگئی ہے۔ ماتھر انجینئرنگ کا امتحان پاس کر چکا ہے نوکری ڈھونڈ رہا ہے۔ منت مانگنے آیا ہے بابا شاہجہاں کے مزار پر۔ رام جی پرانے نوکر ہیں، ہم سب عزت کرتے ہیں ان کی۔ دھرمے بھی کوئی چھ سال سے نوکری کرتا ہے۔ سب سمجھ میں آ گیا یا کچھ رہ گیا؟‘‘
’’کچھ رہ گیا گنگاجی۔‘‘
’’کیا؟‘‘ گنگا جی غرّا کر بولے۔
’’آپ کہاں رہتے ہیں؟‘‘
’’ایں… ہاں۔ سچی مچی رہ گیا۔‘‘ گنگاجی مسکرا کر بولے۔ ’’خورجے کے رہنے والے ہیں ہم لوگ۔‘‘
’’اور بھی کچھ رہ گیا گنگاجی؟‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’ثریا کون ہے؟‘‘ میں نے پوچھا اور گنگا دھر کی آنکھیں پھر پھٹ گئیں۔
وہ مجھے گھورنے لگے پھر بولے۔ ’’بڑا بکٹ لگے ہے بھائی تو… اب کہہ دے کہ ثریا کا نام بھی لیا تھا ہم نے۔‘‘
’’لیا تھا۔‘‘ مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ رکمنی دوبارہ اندر داخل ہوئی تھی، ٹھٹھک کر رُکی … ایک لمحے مجھے دیکھا پھر آگے آ گئی۔
’’کس بات پر ہنسا جا رہا ہے۔ نام کیا ہے تمہارا؟‘‘ اس نے دوبارہ میرے قریب بیٹھ کر کہا۔
’’یہ ثریا کو بھی جانتا ہے۔ رات کو گھائل ہوا تھا۔ سب کے نام سن لیے تھے اس نے اور پھر تو نے اسے بے ہوش کر دیا مگر پھر بھی یہ سنتا رہا۔ اب ثریا کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔‘‘ گنگا دھرجی نے مخصوص انداز میں کہا۔
’’واقعی ثریا کا نام کہاں سے سن لیا تم نے؟‘‘ رکمنی بولی۔
’’رات کو گنگاجی نے یہ نام لے کر دُودھ منگوایا تھا۔‘‘ میں بدستور ہنستا ہوا بولا اور رکمنی بھی ہنس پڑی۔
’’ہاں تائو جی آپ نے دُودھ تو ثریا ہی سے منگوایا تھا۔ لو یہ گولیاں کھا لو یہ پانی پکڑو۔ نام نہیں بتایا تم نے؟‘‘
’’مسعود۔‘‘ میں نے جواب دیا اور گولیاں اس کے ہاتھ سے لے لیں۔ گولیاں معدے میں اُتار کر میں نے پانی کا گلاس واپس کر دیا پھر کہا۔ ’’گنگا دھرجی اب مجھے اجازت دیں گے؟‘‘
’’لام پر جانا ہے؟‘‘ وہ بولے۔
’’نہیں لیکن جانا تو ہے۔‘‘
’’اچار نہیں ڈالیں گے ہم تمہارا۔ اچھے ہو جائو تو چلے جانا۔ کیسا برا سمے آ گیا ہے رکمنی، اگر ہم مسلمان ہوتے تو یہ یہاں ضرور رُک جاتا۔ سوچ رہا ہوگا ہمارے ہاں کھائے پیئے گا تو دھرم بھرشٹ ہو جائے گا۔ ارے بھائی ثریا ہے ہمارے پاس، تیرے دھرم کی ہے وہی دو روٹی پکا دے گی تیرے لیے مت کھانا ہمار ہاتھ کا۔ سالن کسی مسلمان کی دُکان سے منگوا لینا، یہاں کیا کمی ہے اتنی جلدی تو نہ بھاگ۔‘‘
’’آپ مجھے اتنا گرا ہوا نہ سمجھیں گنگاجی۔ آپ کی محبت اور احسان کا تو میں صلہ بھی نہیں دے سکتا۔ لیکن مجھے احساس ہے کہ آپ سب کو میری وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے۔‘‘
’’ارے تو ہمیں ہو رہی ہے تکلیف، تجھے تو نہیں ہو رہی۔‘‘
’’تائو جی۔ ان کے کان بہت لمبے ہیں سب کچھ سن لیا ہے تو تائی جی کی باتیں بھی سن لی ہوں گی۔ لیکن مسٹر مسعود آپ کے ابھی یہاں سے جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ آپ کا زخم گہرا ہے، چلیں گے پھریں گے تو خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپ کمزور بھی ہوگئے ہیں۔ اسی لیے آپ کو بخار چڑھ گیا ہے۔ میں آپ کی ڈاکٹر ہوں اور ابھی آپ کو کہیں جانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔‘‘
’’ہیں… اب بول۔‘‘ گنگا دھر خوش ہو کر بولے۔
’’ٹھیک ہے۔ آپ سوچ لیں آپ کو کیسی پریشانی ہوگی۔‘‘
’’اگر آپ کے خیال میں ہماری پریشانی صرف تائی جی ہیں تو ہم آپ سے درخواست کریں گے کہ آپ ہماری طرح انہیں انجوائے کریں۔‘‘
’’بہتر ہے۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’رکمنی بٹیا!‘‘
’’جی تائو جی!‘‘
’’مزار شریف پر جائے گی کیا؟‘‘
’’آپ بتایئے۔‘‘
’’تو تو دن میں ہو آئی ہے۔ میں چلا جائوں تھوڑی دیر کے لیے۔‘‘
’’ضرور چلے جائیں تائو جی۔‘‘
’’ٹھیک ہے تو اسے سنبھالو سب کے ساتھ ہی واپس آئوں گا۔‘‘
’’اوکے۔‘‘
’’کیا؟‘‘گنگا دھر جی آنکھیں نکال کر بولے۔ اور رکمنی ہنس پڑی پھر بولی ٹھیک ہے تائو جی آپ جایئے۔ گنگادھر جی اُٹھ کر باہر نکل گئے تھے، رکمنی میری طرف دیکھ کر بولی۔ ویسے آپ کو یہ ماحول برا نہ لگا ہوگا مسعود۔ بڑے دلچسپ ہیں تائو جی۔ دن رات بولتے رہتے ہیں مگر من کے بڑے اچھے اور سچے ہیں۔ جو جی میں آیا زبان سے نکال باہر کیا دل میں کچھ نہیں رہ جاتا۔ ایسے لوگ برے نہیں ہوتے۔
’’یقیناً۔‘‘ میں نے اعتراف کیا۔ اس کے بعد رکمنی نے بھی مجھ سے میرے دُشمن کے بارے میں وہی سوالات کئے جو گنگادھر جی نے کئے تھے۔ وہ بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکی۔ کسی بات پر مجھے ہنسی آئی تو وہ پھر چونک کر مجھے دیکھنے لگی پھر بولی۔ ’’ایک بات کہوں۔‘‘
’’جی، ضرور کہیئے۔‘‘
’’کم ہنسا کرو اور اکیلے میں ہنسا کرو۔‘‘
’’سمجھا نہیں۔‘‘
’’یوں تو آپ نے اپنا حلیہ بگاڑ رکھا ہے۔ نہ جانے یہ کیا ناٹک ہے آپ کا مگر ہنستے ہیں تو بڑے پیارے لگتے ہیں۔ ایسے کہ انسان دیکھتا رہ جائے، نظر لگ جائے گی کسی کی۔ ایک بات اور ان الفاظ کو کچھ اور نہ سمجھنا بڑے مان سے دیدی کہہ سکتے ہیں مجھے۔ ماتھر سے الگ نہیں ہیں میری نگاہ میں کیا سمجھے؟‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے بادل ناخواستہ کہا۔
رکمنی کی بات پھر ادھوری رہ گئی۔ چھولداری کے باہر آوازیں اُبھریں۔ پہلے داخل ہونے والی پریما دیوی تھیں، مجھے دیکھا۔ رکمنی کو دیکھا پھر بولیں۔ ’’کہاں گئے تمہارے تائو؟‘‘
’’آپ کو نہیں ملے تائی جی۔‘‘
’’چلے گئے کیا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ ماتھر، رام جی اور دھرما آ گئے۔ پریما دیوی نے ایک دونا آگے کرتے ہوئے کہا۔ ’’لو پرساد لے لو۔ اس کا بخار کیسا ہے؟‘‘
’’کچھ کم ہے۔‘‘
’’آج بھی یہیں رہے گا کیا؟‘‘
’’ہاں تائو جی یہی کہہ رہے ہیں۔‘‘ رکمنی شرارت سے بولی۔
’’ٹھیک ہے۔ دھرما، رام جی اس کا گدا کونے میں کرا دو۔ اور چلو کھانے پینے کا ڈول بتائو۔‘‘ ماتھر اور رکمنی نے حیرانی سے ایک دوسرے کی شکل دیکھی پھر رکمنی بولی۔
’’آپ تائو جی سے بات کرلیں تائی جی۔ آخر نیا مہمان کب تک ہمارے ساتھ رہے گا اور پھر ہماری تو کوئی ناتے داری بھی نہیں ہے اس سے۔‘‘
’’ارے تو ہم پر کونسا بوجھ ہے، جو بھگوان دے گا کھا لے گا اپنے بھاگ کا۔ کیسا لوہے کی طرح تپتا رہا ہے بے چارا دن بھر، اری ثریا… ارے یہ ثریا کہاں رہ گئی۔‘‘ میری نظریں دروازے کی طرف اُٹھ گئیں۔ اس کردار کو دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ ثریا اندر آ گئی، دُبلی پتلی جسامت کی دراز قامت لڑکی۔ عمر کوئی بیس اکیس سال، اُلجھے بال لیکن گھٹائوں کی طرح اُمنڈتے ہوئے۔ بڑی بڑی انتہائی حسین آنکھیں، خوف میں ڈوبی ہوئی۔ ہونٹوں پر قدرتی گلاب کھلے ہوئے۔ ایسے جاذب نقوش کہ دل کی حرکت بند ہونے لگے لیکن مجسم حسرت و یاس، سارے جہاں کا کرب خود میں سمیٹے ہوئے۔ چال میں بھٹکا بھٹکا پن۔ سادہ سی قمیض شلوار میں ملبوس۔
’’ثریا بٹیا۔ مہمان والی چادر بدل دے۔ صبح کو اسے دھو ڈالیو۔‘‘
’’ہرے رام۔ ہرے کرشن۔ ہرے رام۔‘‘ ماتھر منہ ہی منہ میں گنگنانے لگا۔ ثریا ایک طرف چلی گئی مگر میں غیر اختیاری طور پر اسے دیکھتا رہا۔ رکمنی نے کہا۔
’’دھرما۔ ایک برتن میں پانی گرم کر کے لے آئو۔ میں بینڈیج تبدیل کروں گی۔‘‘
’’جی رکمنی بٹیا‘‘ پریما دیوی چھولداری سے باہر نکل گئیں تو ماتھر آلتی پالتی مار کر میرے سامنے آ بیٹھا۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگائے اور آنکھیں بند کر کے جے بھگوتی، جے پربھو کی گردان کرنے لگا۔
’’ماتھر بھیا کیا کر رہے ہو۔ تائی جی آ جائیں گی۔‘‘
’’ارے آنے دو۔ پربھو پدھارے ہیں ہماری کٹیا میں ایسے مہان پُرش دیکھے نہ سُنے۔ ارے ایک نظر میں پریم وتی دیوی کی کایا پلٹ دی انہوں نے۔ وہ جو چیونٹیوں کو ایک چٹکی آٹا نہ کھلاویں کہہ رہی ہیں کہ بھگوان دے گا کھا لے گا اپنے بھاگ کا۔ جے بھگوتی جے شنکر، جے بھگوتی! ماتھر پر شرارت سوار تھی۔ ثریا سوٹ کیس سے نئی چادر نکال لائی۔ مجھے سہارا دینے کیلئے دھرما اور رام جی آگے بڑھے لیکن میں خود ہی جلدی سے گدّے سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ رکمنی زور سے چیخی۔
’’ارے ارے سورما جی۔ زیادہ بہادری نہ دکھائیں زخم کھل جائے گا چکر آجائے گا گر پڑیں گے۔‘‘
’’نہ زخم کھلے گا نہ چکرآئیں گے۔ آپ بالکل فکر نہ کریں رکمنی جی۔‘‘
’’بالکل ٹھیک کہا مہاراج نے۔ جے بھولے ناتھ، آپ جو کچھ کہیں گے ہم مانیں گے پربھو، ہماری تائی جی نے آج جو کچھ آپ کیلئے کہہ دیا وہ ہم نے جیون بھر ان کے منہ سے نہ سُنا۔ آج پہلی بار جے بھگوتی۔‘‘
’’دھرما۔ ارے رام جی۔ کام ہوگیا اندر کا۔ اب باہر بھی آجائو۔‘‘ باہر سے پریما دیوی کی آواز سنائی دی۔
’’جائو جائو۔ اندر کے کام ہم کرلیں گے۔‘‘ رکمنی نے کہا۔ ثریا نے چادر بچھا دی اور پرانی چادر لے کر باہر نکل گئی۔ میں نے دوبارہ اس پر نظر نہیں ڈالی۔ یہ گناہ تھا لیکن نہ جانے کیا ہورہا تھا۔ یہ چہرہ میری آنکھوں میں بس گیا تھا۔ ایک ایک نقش اَزبر ہوگیا تھا۔
رکمنی نے ماتھر کو میرا نام بتا دیا تھا۔ چنانچہ وہ مجھے مسعود مہاراج کہہ کر مخاطب کررہا تھا۔ بڑے ہنس مکھ لوگ تھے کافی حد تک معلوم ہوگیا تھا ان کے بارے میں، ثریا کے بارے میں بعد میں یہی سوچا میں نے کہ وہ ان کے ہاں نوکری کرتی ہوگی۔ اس خیال سے دل میں عزت بھی ہوگئی ان لوگوں کیلئے۔ اوّل تو وہ بابا شاہجہان کے اتنے عقیدت مند تھے کہ ہر سال عرس میں آتے تھے۔ دوم انہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ میں مسلمان ہوں، مجھ سے احتراز نہیں کیا اور پھر کشادہ دلی کی یہ انتہا کہ ایک مسلمان لڑکی کو نوکر رکھا ہوا تھا۔
گنگا دھر مہاراج آ گئے۔ بگڑ کر بولے۔ ’’تم لوگوں نے انتظار بھی نہیں کیا میرا؟‘‘
’’جتنا انتظار کرنے کو کہا تھا اتنا کر لیا۔ کیا تمہارے لیے بیٹھے رہتے وہاں۔‘‘ پریما دیوی بولیں۔
’’پھیرے کرنے کیلئے تو پانچ سال بیٹھی رہی تھی۔ یہاں گھنٹہ بھر بھی انتظار نہ کیا۔‘‘
’’ارے وہی تو ایک غلطی ہوئی تھی جو آج تک بھگت رہی ہوں۔‘‘
’’تو بھگت رہی ہے کہ میں؟‘‘
’’تم کیا بھگت رہے ہو۔ ایک میرے ہی ماتا پتا بھولے تھے کہ آنکھیں بند کر لیں بعد میں سب نے کہا کہ بھاگ پھوڑ دیئے بیٹی کے۔‘‘
’’کسی ایک کہنے والے کا نام تو بتا ذرا۔‘‘
’’تائو جی، تائی جی، مہمان کا تو خیال کریں کیا سوچے گا وہ اپنے دل میں۔‘‘ رکمنی بولی۔
’’ارے ثریا۔ ثریا چندو، مسعود جی تیرے دھرم کے ہیں بیٹا۔ تو ان کے لیے کچھ پکا لے۔ ان کی مہمانداری تیرے سپرد۔ رکمنی تو بتا کیا کھلائے گی اپنے مریض کو؟‘‘ پریما دیوی چونک کر بولیں۔
’’ایں۔‘‘ گنگادھر جی چونک کر بولے۔
’’تائی جی دلیہ مل جائے یا کھچڑی، ہلکی غذا ہو تو اچھا ہے۔‘‘
’’دلیہ تو ہے۔ لو ان کے لئے برتن بازار سے منگوا لو، نہیں تو دیر ہو جائے گی۔‘‘ پریما دیوی نے پلو سے پیسے نکال کر دھرما کو دیئے۔
’’جے بھگوتی۔‘‘ ماتھر گردن پٹختا ہوا بولا۔ گنگا دھر جی بھاڑ سا منہ کھولے کھڑے تھے پھر وہ آہستہ سے بولے۔ ’’رکمنی۔ یہ تیری تائی ہے نا؟‘‘
’’رات ہوئی۔ سب نے کھانا کھا لیا۔ سب مجھ سے باتیں کر چکے تھے لیکن میں نے ثریا کو بالکل خاموش پایا تھا۔ اس نے کسی سے ایک بار بھی بات نہیں کی تھی۔ حالانکہ ان لوگوں کے انداز میں اس کےلیے محبت اور اپنائیت تھی لیکن وہ اُداس ملول اور خاموش تھی۔‘‘
’’دُوسرا اور تیسرا دن بھی گزر گیا یہ سب بہت اچھے تھے۔ بڑے سادہ لوح اور محبت کرنے والے۔ میرے ساتھ بہترین سلوک کیا انہوں نے لیکن ثریا بہت پراسرار تھی، خاموش اور بے سکون۔ نہ جانے کیوں۔ میں نے اسے راتوں کو مضطرب دیکھا تھا۔ مگر وہ بولتی بھی تو نہیں تھی۔ کئی بار میں نے براہ راست اس کا نام لے کر اس سے اپنے کام کرائے تھے۔ وہ بڑی خوش دلی سے میرے کام کر دیتی تھی لیکن اب تک میں نے اس کی آواز ایک بار بھی نہیں سنی تھی۔
رکمنی نے بینڈیج کھول کر میرا زخم دیکھا اور خوش ہو کر فخریہ انداز میں بولی۔ ’’دیکھیں تائو جی ہماری ڈاکٹری۔ تین دن میں زخم بھر دیا ہم نے۔ کوئی کر کے تو دکھا دے۔‘‘
’’یہ تو ہم مانتےہیں رکمنی دیوی۔‘‘
’’اب میں باہر جا سکتا ہوں رکمنی بہن۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کہاں باہر؟‘‘
’’مزار پر۔‘‘
’’ہوں۔ آہستہ آہستہ جا سکتے ہیں آپ۔ ابھی تیز چلنا منع ہے۔ اس کے علاوہ بھیڑ میں اس جگہ گھسنا منع ہے جہاں دھکم پیل کا امکان ہو۔ کسی طرح کی بھاگ دوڑ کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
’’خیال رکھوں گا۔‘‘
’’دھرما یا رام جی آپ کے ساتھ جائیں گے۔‘‘
’’میں چلا جائوں گا، مجھ سے زیادہ کون خیال رکھے گا۔‘‘ گنگا دھرجی بولے۔
’’یہ اجازت اس لیے دے دی گئی ہے کہ آپ کا دل گھبرا گیا ہوگا۔ ورنہ ابھی دو چار دن اور اجازت نہ ملتی۔‘‘ رکمنی بولی۔
’’بے حد شکریہ۔‘‘ میں نے کہا یہ سچ تھا ان لوگوں کی محبت کی وجہ سے میں نے ان کے احکامات مان لیے تھے ورنہ میں تو نہ جانے کیسے کیسے گھائو کھا چکا تھا۔ یہ معمولی زخم میرے لیے کیا حیثیت رکھتا تھا لیکن یہ سب کچھ ایسا تھا کہ مجھ سے روگردانی نہیں کی جا رہی تھی۔ گنگارام جی کے ساتھ باہر نکل آیا اور مزار شریف کی طرف چل پڑا۔ خوب چہل پہل تھی۔ میلہ سا لگا ہوا تھا۔ نئے نئے زائرین آ گئے تھے۔ مزار شریف کے پاس بھی خوب رونق تھی۔ رکمنی نے احتیاط کی ہدایت کی تھی لیکن حقیقتاً مجھے نہ تو کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور نہ ہی زخم میں تکلیف تھی۔ اطمینان سے مزار کے احاطے میں پہنچ گیا۔
’’آپ اندر جاتے ہیں گنگا دھرجی؟‘‘
’’کیوں نہیں، شاہجہاں بابا کے چرن چھونے جاتے ہیں۔‘‘
’’میں فاتحہ پڑھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’تو چلو تم فاتحہ پڑھ لینا۔ ہم چرن چھو لیں گے۔‘‘ جوتے اُتارے اور عقیدت سے مزار شریف کے احاطے میں پہنچ گئے۔ بہت سے لوگ موجود تھے۔ پھول اور چادریں چڑھائی جا رہی تھیں۔ مرد عورت بچّے سبھی موجود تھے۔ میں ایک گوشے میں جا کھڑا ہوا اور آنکھیں بند کر کے فاتحہ خوانی کرنے لگا۔ کچھ دیر بعدفراغت ہوئی تو میں نے گنگادھر کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ پہلی ہی نظر نے چونکا دیا۔ کچھ فاصلے پر ثریا نظر آئی تھی۔ تنہا سوگوار دونوں ہاتھ بلند کئے دُعا مانگ رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ سفید دھاریں اُمنڈی آ رہی تھیں۔ رُخسار جل تھل ہو رہے تھے۔ ایسا کرب سمٹا ہوا تھا اس کے چہرے پر کہ دیکھنے والے کا کلیجہ ہل جائے۔
میں پتھرا گیا۔ دل جیسے بند بند ہوگیا تھا۔ بدن میں رعشہ سا آ گیا تھا۔ آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ وہیں سے اسے دیکھتا رہا۔ عجیب سی کیفیت ہوگئی تھی۔ دل پھڑپھڑا رہا تھا۔ خواہش ہو رہی تھی کہ آگے بڑھوں اور … اور اس کا سارا کرب خود میں سمو لوں۔ اسے ہر دُکھ سے آزاد کر دوں لیکن ایک قدم آگے نہ بڑھا سکا۔ تبھی گنگادھر میرے پاس آ گئے۔
’’دُعا پڑھ لی پوت؟‘‘
’’ایں…‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’دُعا پڑھ لی؟‘‘
’’ہاں!‘‘ میں نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔
’’رُکو گے یہاں یا چلو گے۔‘‘
’’گنگا جی۔ وہ… وہ۔‘‘ میں نے اشارہ کیا اور گنگادھر میرے اشارے پر اس طرف دیکھنے لگے۔ ثریا آنسو خشک کر رہی تھی پھر وہ پلٹ کر تیزی سے چل پڑی۔
’’ثریا کی کہہ رہے ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’دُعا پڑھنے آئی ہوگی۔ آتی رہتی ہے کوئی منادی تھوڑی ہے اسے۔‘‘
’’آیئے چلیں۔‘‘ میں نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’ثریا کون ہے گنگاجی؟ آپ نے مجھے سب کے بارے میں بتا دیا اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ وہ آپ کے ہاں نوکری کرتی ہے۔‘‘
’’ارے رام، رام۔ نا بیرا وہ تو ہمارے لیے رکمنی جیسی ہے۔‘‘
’’کون ہے وہ؟‘‘
’’سچی بات یہ ہے بیرا کہ اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’رکمنی کے اسپتال میں داخل تھی۔ کسی پاپی نے اس کی زبان کاٹ دی تھی۔ اُنگلیوں کے پور بھی کاٹ دیئے تھے۔ رکمنی کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ لاوارث ہے، کوئی خبر گیری کرنے والا نہیں ہے۔ اُنگلیوں کے پوروں کا تو علاج ہوگیا مگر زبان ٹھیک نہ ہو سکی۔‘‘
’’گونگی ہے وہ؟‘‘ میں نے بے اختیار پوچھا
’’تو اور کیا تم نے اسے بولتے سنا ہے کبھی؟‘‘
’’پھر کیا ہوا۔‘‘
’’ٹھیک ہوگئی تو رکمنی اسے ساتھ لے آئی۔ اپنے گھر رکھ لیا ہم نے اسے۔ سنسار میں اس کا کوئی نہیں ہے اور اب تو وہ گھر کی سی ہوگئی ہے۔ ہماری طرف سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اسے۔ مگر…‘‘
’’مگر کیا؟‘‘
’’بے چین ہے۔ بے سکون ہے۔ نہ ہنستی ہے نہ مسکراتی ہے۔ حالانکہ سارے چھورے اسے ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر وہ ہنسنے کے بجائے رو پڑتی ہے، کوئی گہرا گھائو ہے من میں۔ آخر کسی نہ کسی نے تو اس کے ساتھ یہ سلوک کیا ہوگا۔ راتوں کو جاگتی رہتی ہے۔ کبھی کہیں بیٹھے بیٹھے تاریکیوں کو گھورتی رہتی ہے۔ کبھی رات رات بھر نماز پڑھتی رہتی ہے۔ گھنٹوں سجدے میں پڑی رہتی ہے۔‘‘
’’گنگارام جی بتا رہے تھے اور میرے بدن میں سرد لہریں دوڑ رہی تھیں۔ آج انکشاف ہوا تھا کہ وہ گونگی ہے۔ کون ہے وہ، کیا کہانی ہے اس کی… کیا مجھے علم نہیں ہو سکتا۔ اچانک ایک خیال آیا اور میں نے کہا۔
’’ان کا نام کیسے معلوم ہوا آپ کو؟‘‘
’’اس کےپاس ایک رومال تھا جس کے کونے پر تارکشی سے اس کا نام کڑھا ہوا تھا۔ اس نے اس پر اُنگلی رکھ کر اپنے سینے پر اشارہ کر کے بتایا تھا کہ یہ اس کا نام ہے۔‘‘ گنگاجی نے کہا اور پھر چونک کر بولے۔ ’’ارے یہ دھرما اور رام جی کیسے بھاگے بھاگے آ رہے ہیں۔ کوئی بات ہوگئی کیا؟ میں نے بھی ان کے اشارے پر دیکھا۔ دونوں بری طرح گھبرائے ہوئے لگ رہے تھے۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔۔‘‘
’’ضرور کچھ ہوگیا۔‘‘ گنگا دھر ان کی طرف لپکے۔ میں بھی تیز تیز قدموں سے ان کے پیچھے چل پڑا۔ نہ جانے کیا ہوگیا تھا۔
دھرما اور رام جی تو گنگا دھرجی کو نہیں دیکھ سکے تھے لیکن ہم ہی ان کے قریب پہنچ گئے۔ گنگاجی قریب پہنچ کر دھاڑے۔ ’’ارے او بیل کے دیدے والوں کہاں اونٹ کی طرح منہ اُٹھائے اُٹھائے پھر رہے ہو۔‘‘ دونوں اُچھل پڑے ایک ساتھ پلٹے اور پھر ایک ساتھ بولے۔ ’’گنگاجی وہ… وہ سادھو مہاراج۔‘‘
’’جٹا دھاری…‘‘ دھرما بولا۔
’’کالا کمنڈل ہاتھ میں لیے۔‘‘ رام جی نے کہا۔
’’گلے میں مالائیں اور…‘‘ دھرما آگے بولنا چاہتا تھا کہ گنگا دھرجی غصّے سے لال پیلے ہونے لگے۔ انہوں نے غرّا کر کہا۔
’’سسرو جوتی اُتاروں گا اور بیس ماروں گا سر پر… ارے بھجن گا رہے ہو کیا تم دونوں۔ ایک آدمی بات کیوں نہیں بتاتا۔‘‘
’’میں بتاتا ہوں گنگاجی۔‘‘ رام جی بولا۔ ’’ہم سب بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دَم ایک سادھو مہاراج منڈوے میں گھس آئے۔ ماتھر جی نے غصّے سے کہا کہ وہ منہ اُٹھائے اندر کیوں گھس آئے تو سادھو مہاراج نے گھور کر انہیں دیکھا اور اپنا کمنڈل آئے بڑھا کر بولے۔ ’’اسے دیکھ بالکا۔‘‘ اور مہاراج اچانک ماتھر جی چیخ کر پیچھے ہٹ گئے۔ پتہ نہیں انہیں اس میں کیا نظر آیا جبکہ کمنڈل میں کچھ نہیں تھا۔‘‘
’’تمہیں کیسے پتہ چلا کہ کمنڈل میں کچھ نہیں تھا۔‘‘ گنگادھر نے پوچھا۔
’’بعد میں انہوں نے کمنڈل پھر لٹکا لیا اور وہ اُلٹا ہوگیا۔ کوئی چیز ہوتی تو اس سے گرتی نا۔‘‘
’’ارے تو آگے تو بولو رام جی۔ بک بک لگائے ہوئے ہو۔‘‘
’’سنت مہاراج نے دیوی جی سے کہا کہ کل صبح یہاں سے گھوڑی آگے بڑھا دیں۔ نہیں تو نقصان کی ذمے دار خود ہوں گی۔‘‘
’’گھوڑی آگے بڑھا دیں…؟‘‘
’’مطلب یہ تھا کہ سالم نگر سے چلے جائیں۔‘‘
’’کہاں چلے جائیں…؟‘‘
’’یہ نہیں بتایا۔‘‘
’’دھت تیرے کی۔ ارے آگے تو بولو بھگوان کے داس۔‘‘
’’بس آگے کیا بولیں۔ دھمکیاں دیں اور چلے گئے۔‘‘
’’تو پھر تم یہاں کیوں آ گئے…؟‘‘
’’پریما دیوی بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ کو تلاش کر کے فوراً واپس بلا لائیں۔‘‘
’’کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ آئو مسعود چلیں۔‘‘ اور ہم واپس چل پڑے کچھ دیر کے بعد چھولداری پر پہنچ گئے۔ پریما دیوی کا منہ اُترا ہوا تھا۔
’’نکل چلو جلدی۔ نہیں تو کچھ ہو جائے گا۔ تمہیں بتایا ان لوگوں نے۔‘‘ وہ بولیں۔
’’ہاں بتا دیا۔ مگر بات کیا تھی تو نے پوچھا نہیں بھاگوان۔‘‘
’’خود ہوتے تو پوچھ کر دیکھ لیتے۔‘‘ پریما دیوی نے کہا۔
’’کیوں… کیا تیرے میکے سے آئے تھے…؟‘‘
’’نہیں سسرال سے آئے تھے۔ ورنہ ایسے نہ ہوتے۔‘‘
’’کیسے…؟‘‘ گنگادھرجی نے کہا
’’آنکھیں چیپڑ بھری ہوئی۔ دانت پیلے، گنجی کھوپڑی، سوکھا بدن، چہرے سے بُھتنے لگ رہے تھے پورے۔‘‘ پریما دیوی نے کہا اور گنگا رام جی جھینپ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے پھر بولے۔ ’’زبان بہت لمبی ہوگئی ہے تیری۔ تھوڑی سی کاٹنی پڑے گی… ہیں۔‘‘
’’وہ بھی کاٹ لینا۔ مگر بسترا سمیٹو۔‘‘
’’اری چپ بیٹھ، تو بائولی ہوگئی ہے تو کیا سب بائولے ہوگئے ہیں۔ رکمنی بٹیا تو بتا کون تھا وہ…؟‘‘
’’عجیب سا تھا تائو۔ صورت سے واقعی شیطان نظر آتا تھا۔‘‘
’’ارے نا بٹیا نا… ایسے نہیں کہتے حلیہ تو سادھوئوں جیسا تھا۔ ارے ہاں ماتھر بیٹا… تو نے اس کے کمنڈل میں کیا دیکھا تھا…؟‘‘
’’ایں… ہاں تائو جی… اس کا کمنڈل مکڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ پیلی پیلی زندہ بجبجاتی ہوئی مکڑیاں۔ رام رام…‘‘ ماتھر نے کراہیت سے ناک سکوڑتے ہوئے کہا۔ مگر میں چونک پڑا۔
’’مکڑیاں…؟‘‘
’’ہاں مسعود بھیّا۔ ابھی تک من اُلٹ رہا ہے۔‘‘ ماتھر سینہ ملتا ہوا بولا۔
’’بڑی عجیب بات ہے۔ مگر تم لوگوں سے بھولے سے بھی عقل کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ ارے جب ہمیں بلایا تھا تو انہیں روک لیتے کسی طرح بہلا پھسلا کر۔ ہم بھی ملتے ان سے پوچھتے کہ مہاراج یہاں سے جانے کو کیوں کہہ رہے ہو۔ کوئی بھول ہوئی ہے ہم سے، کوئی کشٹ پڑنے والا ہے ہم پر… آخر تمہاری اس چتائونی کا کارن کیا ہے۔ مگر تم لوگوں کو اتنی عقل ہو تب نا۔‘‘
’’عقل تو سب تمہارے حصے میں آگئی۔ ہم میں کہاں سے ہوگی۔ ارے وہ تو خود ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔ یواں آئے اور یوں چلے گئے۔ چلو یہاں سے ورنہ کچھ ضرور ہو جائے گا۔‘‘ پریما دیوی بولیں۔
’’یوں آئے… یوں چلے گئے اور اب ہم چلیں یہاں سے۔ عرس ختم ہونے سے پہلے کوئی نہیں جائے گا۔ سادھو سنتوں کی سیوا کرنی چاہئے۔ مگر تو نے سوچا ہوگا خرچہ ہوگا۔‘‘ گنگاجی نے منہ بگاڑ کر کہا۔ پھر خاموش ہو کر ثریا کو دیکھنے لگے جو جھجھکتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی۔
’’دیکھو، میں کہتی ہوں چلنا اچھا ہوگا۔ کہیں کچھ اور نہ ہو جائے۔‘‘
’’تیرے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ دوبارہ ملیں گے وہ مہاراج تو ان سے پوچھ لیں گے۔‘‘
وہ باتیں کر رہے تھے مگر میرا ذہن کہیں اور تھا۔ مکڑیاں، پیلی پیلی مکڑیاں، بھوریا چرن کا نشان تھیں اور جو حلیہ بتایا گیا تھا وہ بھی اس کے علاوہ اور کسی کا نہیں تھا۔ لیکن وہ ناپاک جادوگر یہاں… اور … پھر اس کا اس جگہ آنا۔ یقیناً وہ میری یہاں موجودگی سے واقف ہوگا۔ کیا اس نے میری وجہ سے ان لوگوں کو یہاں سے جانے کو کہا ہے۔ پریما دیوی اور گنگادھرجی حسب عادت لڑ رہے تھے۔ رکمنی نے کہا۔
’’حد ہے تائو جی… آپ لوگوں میں تو جنم جنم کا بیر ہے۔ بس کوئی بات مل جائے لڑنے کیلئے۔‘‘
’’ہاں سارا دوش میرا ہوتا ہے۔ اس سادہ تری کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ اری ثریا تو چائے کا پانی چڑھا جا کر… اس عورت نے تو بھیجہ پگھلا کر رکھ دیا ہے۔‘‘
’’ہم واپس چلیں گے بس…!‘‘ پریما دیوی نے کہا۔
’’اکیلی چلی جائو… ہم میں سے کوئی نہیں جائے گا۔ کہہ دیا ہم نے۔‘‘ گنگادھر نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
’’اکیلی ہی چلی جائو۔‘‘
’’سیدھی میکے جانا۔ میرے گھر میں وہ رہے گا جو میری مرضی پر چلتا ہو۔‘‘ بات آگے بڑھنے لگی تھی۔ ماتھر گنگادھر کو چھولداری سے باہر لے گیا۔ رکمنی نے مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’پسند آئے ہمارے تائو اور تائی۔ ساری باتیں کرلیں گے مگر ایک دوسرے کے بنا پل بھر نہیں جی سکیں گے۔ ارے آپ ہی ہنس دیں۔ رُت بدل جائے گی۔‘‘
’’بات سوچنے کی ہے رکمنی جی…!‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں ہے تو… خود میری سمجھ میں بھی کچھ نہیں آیا۔‘‘
’’میرے خیال میں گنگارام جی کو مان لینا چاہئے۔ کوئی بات بلاوجہ نہیں ہوتی آخر اس سادھو کے آنے کا کوئی مقصد تو ضرور ہوگا۔‘‘
’’یہی تو میں کہتی ہوں۔ مگر… دیکھ لیا تم لوگوں نے۔ کیا سلوک ہوتا ہے میرے ساتھ۔‘‘ پریما دیوی بسورتے ہوئے بولیں۔
’’آپ چنتا نہ کریں ہم تائو جی کو سمجھائیں گے۔‘‘
’’ارے جسے بھگوان نہ سمجھا سکا اسے کون سمجھائے گا۔‘‘ پریما دیوی نے بدستور بسورتے ہوئے کہا۔ اتنی دیر میں ثریا چائے لے کر آ گئی۔ میری نگاہیں بے اختیار اس کے چہرے کی طرف اُٹھ گئیں۔ وہ میرے سامنے ٹرے لے کر آ گئی جس میں تین پیالے رکھے ہوئے تھے۔ مجھ سے نگاہیں ملیں تو وہ کپکپا سی گئی جس کا احساس پیالوں سے چائے چھلکنے سے ہوا تھا۔ میں نے اپنا پیالہ اُٹھا لیا۔ ثریا نے پریما دیوی اور رکمنی کو چائے دی اور کسی قدر لڑکھڑاتی ہوئی باہر نکل گئی۔
’’میں باہر جائوں رکمنی جی…!‘‘
’’ہاں ضرور… میں بھی آ رہی ہوں۔‘‘ رکمنی نے کہا اور میں پیالہ سنبھالے ہوئے باہر نکل آیا۔ کچھ فاصلے پر ماتھر، دھرما اور رام جی گنگادھرجی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ گنگادھر پرجوش لہجے میں کہہ رہے تھے۔
’’چلے جاتے مگر ہم بھی ہٹ کے پکے ہیں۔ اب تو عرس کے ختم ہونے کے بعد ہی جائیں گے۔‘‘
’’عرس بھی ختم ہونے والا ہے گنگاجی۔‘‘ میں نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
’’دیکھ رے بھائی۔ تو آیا ہے اندر سے۔ کان بھرے ہوں گے تیرے، گنگاجی اگر ضدی نہ ہوتے تو آج نہ جانے کیا ہوتے۔ اب تو عرس ختم ہونے کے بعد ہی جائیں گے۔ کوئی بھیج کے تو دیکھ لے ہمیں۔‘‘ ایسا لہجہ تھا گنگارام کا کہ اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی۔ پریما دیوی نے بھی ساری کوششیں کرلیں مگر گنگادھر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ سب ہار گئے۔
رات ہوگئی۔ کھانا وغیرہ کھایا گیا۔ ماتھر اور رکمنی خوب شرارتیں کرتے تھے۔ وہ شرارتیں کرتے رہے۔ پریما دیوی کو گنگادھر سے لڑاتے رہے میں بھی ہنس رہا تھا۔ کھانے وغیرہ سے فراغت حاصل کر کے دیر تک باتیں ہوئیں مکڑیوں والے سادھو کے بارے میں قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ وہ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے لیکن میرے ذہن میں کچھ اور ہی خیال تھا۔ میری چھٹی حس بتا رہی تھی کہ وہ سادھو بھوریا چرن کے سوا کوئی نہیں تھا۔ کمبخت نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ ہو سکتا ہے مجھ پر حملہ بھی اسی کی کوئی سازش ہو۔ اب وہ میری موت کے سوا اور کیا چاہتا تھا۔ مہاوتی اور اس کی باتیں میں سن چکا تھا۔ اس کے کہنے کے مطابق میری وجہ سے کالا علم خطرے میں پڑ گیا تھا۔ وہ لوگ اپنے طور پر باتیں کرتے رہے اور میں بھوریا کے بارے میں سوچتا رہا۔ سب سونے لیٹ گئے۔ میں اُلجھا ہوا تھا۔ کسی قدر بے چین تھا۔ کچھ دیر کے بعد میں اُٹھا اور چھولداری سے باہر نکل آیا۔ دھرما اور رام جی باہر گہری نیند سو رہے تھے۔ میں وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ مزار شریف پر قوالیاں ہو رہی تھیں۔ قوالوں کی آواز ہوا کے دوش پر آ رہی تھی۔ سو جانے کو جی نہ چاہا فاصلہ کافی تھا۔ پھر بھی کافی دُور نکل آیا اور بے مقصد گھومتا رہا۔ بھوریا چرن اگر یہاں موجود ہے تو میرے سامنے نہیں آئے گا۔ نہ جانے ان لوگوں کو یہاں سے بھگانے کا کیا مقصد ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ میں ہی ہوں۔ مگر بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ کوئی ایک گھنٹہ بے مقصد گھومتا رہا پھر واپس چل پڑا۔ چھولداری سے کچھ فاصلے پر تھا کہ کسی سائے کو متحرک دیکھا اور ایک دَم ساکت ہوگیا۔ کون ہے؟ میں نے گھاس پر
نگاہیں جما دیں پھر اسے پہچان لیا۔ ثریا تھی۔ نماز پڑھ رہی تھی۔ یہ آخر کون ہے، کس کے ظلم کا شکار ہوگئی ہے۔ قدم خودبخود آگے بڑھ گئے اور اس سے کچھ فاصلے پر پہنچ کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ دو زانو بیٹھ گی۔ دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور دیر تک اسی عالم میں رہی پھرمیں نے اس کی سسکیاں سُنیں۔ وہ بری طرح سسک رہی تھی۔ میرا دل پگھلنے لگا۔ اس کا درد سینے میں محسوس ہو رہا تھا۔ دل بری طرح اس کی طرف کھنچ رہا تھا۔ وہ ہاتھ اُٹھائے سسکتی رہی۔ میں بے اختیار ہو کر اس کے قریب جا کھڑا ہوا۔ اسے جب میری موجودگی کا احساس ہوا تو وہ ایک دَم سہم کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے انداز میں وحشت تھی۔
’’نہیں ثریا۔ ڈرو نہیں۔ میں مسعود ہوں۔‘‘
اس نے گھبرائی ہوئی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ میں ایک قدم اور آگے بڑھ آیا۔ ’’میں تمہارے لیے بے حد افسردہ ہوں ثریا۔ کاش میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا۔ میں… میری سمجھ میں نہیں آتا کیا کہوں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہیں کیا دُکھ ہے۔ ثریا میرا دل چاہتا ہے کہ تمہارے تمام دُکھ دُور کر دوں۔ میں نے تمہیں مزار پر بھی دیکھا تھا۔ تمہارے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم مجھے۔ نہ جانے کون ظالم تھے جنہوں نے تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا۔ کاش مجھے ان کے بارے میں معلوم ہو جائے۔‘‘
قریب سے میں اسے دیکھ سکتا تھا۔ اس کے رُخساروں پر آنسوئوں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔ میں اس کے بالکل قریب آ گیا۔ ’’مجھے بتائو ثریا کیا کروں میں تمہارے لیے۔‘‘ وہ روتی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی کیفیت تھی۔ پھر اس کا سر آہستہ آہستہ جھکا۔ اس نے اپنی پیشانی میرے سینے سے ٹکا دی۔ دل پھٹنے لگا۔ ایک دَم خواہش پیدا ہوئی کہ اسے سینے میں چھپا لوں، کچھ بھی نہیں تھا میں اس کا۔ پہلی بار براہ راست مخاطب ہوا تھا۔ مگر اس طرح میرے سینے سے سر ٹکانے میں بڑی اپنائیت تھی۔ نہ جانے اس کے دل میں کیا ہے۔ مگر میرے ہاتھ نہ اُٹھ سکے۔ وہ اپنی آنکھیں میرے سینے سے رگڑتی رہی پھر ایک دم چونکی گردن اُٹھا کر مجھے دیکھا۔
’’ثریا… تم لکھنا پڑھنا جانتی ہو۔‘‘ اس نے آہستہ آہستہ اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’تم نے لکھ کر کسی کو اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا؟‘‘ اس نے نفی میں گردن ہلا دی۔ ’’کیوں…؟‘‘ میں نے پوچھا… اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر سامنے کر دیئے۔ ’’ہاں مجھے معلوم ہے۔ گنگادھرنے مجھے بتایا تھا کہ تمہاری اُنگلیاں بھی کاٹ دی گئی تھیں۔ کیا اس لیے کہ تم کسی کو لکھ کر کچھ نہ بتا سکو۔‘‘ اس نے پھر ہاں میں گردن ہلائی۔ ’’مگر اب تو تمہاری اُنگلیاں ٹھیک ہیں۔ اب تو تم بتا سکتی ہو۔‘‘ وہ مجھے خاموشی سے دیکھتی رہی۔ پھر زور زور سے نفی میں گردن ہلانے لگی۔ ’’کیوں… خود پر ظلم کرنے والوں سے ڈرتی ہو؟‘‘ اس نے گردن جھکا لی۔ ’’انہیں جانتی ہو تم…؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اور اس نے انکار کر دیا۔ ’’اوہ…‘‘ میں آہستہ سے بولا۔ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر میں نے کہا۔ ’’تمہیں ایک کام کرنا ہوگا ثریا۔ کل میں تمہیں لکھنے کا سامان فراہم کروں گا۔ تم پر جو بیتی ہے وہ لکھ کر مجھے بتا دینا۔ ثریا مجھ پر بھروسہ کرو۔ میں تمہارے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے دُکھ دُور کر کے رہوں گا۔‘‘ وہ سیاہ چمکدار آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہی۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑا اسے آنکھوں سے لگایا اور تیزی سے مڑ کر چھولداری میں چلی گئی۔
میرے ہاتھ کی پشت میں آگ لگ گئی تھی۔ اس کی آنکھوں کی جلن جیسے میرے ہاتھ سے چپک گئی تھی۔ میں اپنا ہاتھ پکڑ کر مسلنے لگا۔ ایک انوکھی لذت پوشیدہ تھی اس جلن میں۔ دُنیا سے بے خبر ہوگیا تھا۔ پتھرا گیا تھا۔ دل کی دھڑکن بری طرح بے ترتیب ہوگئی تھی۔ ایک بالکل اجنبی احساس جاگا تھا سینے میں۔ اس سے پہلے کبھی یہ کیفیت نہیں ہوئی تھی۔ کون ہے۔ نہ جانے کون ہے۔ خاموش تھی۔ ساکن تھی۔ میری طرف متوجہ بھی نہیں تھی۔ یہ اچانک کیا ہوگیا۔ کیا ان چند دنوں میں اس کے سینے میں کوئی جذبہ جاگا تھا۔ کونسا جذبہ تھا وہ۔ اس نے اپنا سر میرے سینے سے لگایا تھا۔ کیا مجھے اس کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔ کیا اس کے بارے میں میری رہنمائی ہو سکتی ہے۔ خیال ہی نہیں آیا تھا اس بات کا۔ یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ خود پر حملہ کرانے والے کے بارے میں کلام الٰہی سے رہنمائی حاصل کروں۔ کوئی حرج تو نہیں ہے اس میں۔ خود سے سوال کیا اور پھر آنکھوں میں اس کا چہرہ اُبھر آیا۔ نہ جانے کتنی دیر اس کے بارے میں سوچتارہا۔ دل مچل رہا تھا اس کے لئے۔ آرزو کر رہا تھا کہ وہ دوبارہ باہر آ جائے۔ اسے زبان مل جائے وہ مجھ سے باتیں کرے۔ آہ شاید اس بار کوئی اور ہی جذبہ جاگا تھا سینے میں۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ میرے دل کی گہرائیوں میں اُتر گئی تھی۔ ہاں ایسا ہوگیا تھا۔ ایک انوکھی بے کلی طاری ہوگئی۔ ایک گوشہ منتخب کیا، وہاں بیٹھ گیا۔ درود شریف کا ورد کیا۔ آنکھیں بند کرلیں۔ دل سے آواز اُبھری۔
مناسب نہیں ہے۔ نافرمانی کے راستے اپنا رہا ہے۔ کیا تجھے اجازت ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات پوری کرے۔ اپنے لیے کچھ کرے۔ اگر کسی کیلئے تیرے دل میں آگ اُبھرے تو وہ تیرے ماں باپ بہن بھائی ہوں کہ… وہ اوّل ہیں۔ ان سے گریز کر کے اپنی خواہشوں کی طرف لپک رہا ہے۔ پھر بھٹک رہا ہے۔
پورے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا۔ آنکھیں خوف سے کھل گئیں۔ دل اُچھل رہا تھا۔ خود کو سنبھالے نہ سنبھال پا رہا تھا۔ اچانک کانوں میں ایک چیخ اُبھری۔
’’آگ۔‘‘ دماغ بھک سے اُڑ گیا۔ آواز اندر سے آئی تھی۔ پھر فوراً ہی نتھنوں سے کپڑا جلنے کی بو ٹکرائی اور چھولداری سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ’’آگ لگ گئی۔ آگ ارے اُٹھو۔ دھرما، رام جی۔ ماتھر۔ ارے اُٹھو۔ آگ… آگ۔‘‘ آواز پریما دیوی کی تھی۔
اعصاب پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ ایک طرف دل میں اُبھرنے والی آواز، دُوسری طرف پریما دیوی کی چیخیں۔ عجیب اعصاب شکن ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ اندر مدھم لیمپ ہمیشہ جلتا رہتا تھا۔ اس وقت بھی روشنی تھی۔ دھرما اور رام جی بدحواس ہو کر اندر بھاگے۔ میں بھی خود کو کسی نہ کسی طرح سنبھال کر اندر داخل ہوگیا۔ عجیب منظر تھا۔ آگ کا ایک شعلہ بھی نہیں تھا لیکن آگ لگی ہوئی تھی۔ بالکل ایسے جیسے جلی ہوئی ماچس کی تیلی سلگتی ہے۔ یہ آگ ہر طرف تھی۔ گدے جل رہے تھے۔ سوٹ کیس پگھل رہے تھے۔ بدبو پھیل رہی تھی لیکن شعلہ نہ تھا۔ سب دہشت سے آنکھیں پھاڑے یہ آگ دیکھ رہے تھے اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔
’’بجھائو۔ ارے بجھائو۔ ہائے سب جل گیا۔ ارے سب جل گیا۔‘‘ پریما دیوی چیخیں۔
’’تو نے آواز بند نہ کی تو تیری منڈیا پکڑ کر اسی سوٹ کیس پر رکھ دوں گا۔ آس پاس کے لوگوں کو جمع کرےگی کیا۔‘‘
’’ارے کر لو ظلم، جتنا من چاہے کر لو۔ ہائے سب جل گیا۔ ارے آگ تو بجھا دو۔ سب کھڑے منہ دیکھ رہے ہو۔‘‘
سب کو جیسے ہوش آ گیا۔ رام جی، ماتھر اور دھرما پانی لینے دوڑے اور پھر ہر چیز پر پانی اُنڈیل دیا گیا۔ آگ بجھ گئی۔ مگر سچ مچ سب تباہ ہو گیا تھا۔ گدّے جل گئے، سوٹ کیسوں میں رکھے کپڑے جل گئے۔ شکر تھا چھولداری بچ گئی تھی۔ پریما دیوی رونے لگیں۔
’’دیکھا نتیجہ ضد کا۔ دیکھ لیا۔ نہ جائو۔ جمے رہو یہاں۔ جل مرو سب کے سب۔ بھسم ہو جائو میرا کیا ہے۔ ارے ایسی آگ دیکھی نہ سنی۔ دیکھو یہ دیکھو ہر چیز جل گئی۔ ارے اب بھی سوچو گے کیا۔ اب بھی سوچو گے۔ ارے رام جی۔ دھرما رے۔ ارے چل بھیّا۔ میکے میں پہنچا دے مجھے۔ ارے آگے ناتھ نہ پیچھے پگا۔ اکیلی جی لوں گی۔ ہائے سب جل گیا۔ میری ساڑھیاں بچوں کے کپڑے۔ اور ضد کرو۔‘‘
’’رام رام رام۔ بھیّا عورت ہے کہ بھونپو، رُکے بغیر بولے جا رہی ہے۔ کیا دُشمنی ہے آخر ان سادھو مہاراج سے ہماری۔ ارے کوئی کارن تو بتائے، ایسے ہی چل پڑیں۔‘‘ گنگا جی بولے۔
’’گیانی مہاراج۔ اے گیانی مہاراج۔ تم پوچھتے رہو دُشمنی دوستی۔ چلو رے بچو۔ چلو سب کو مروا دیں گے۔‘‘
’’تو کترنی کو لگام دے گی کہ نہیں۔ تم بھی تو کچھ بولو رے۔ مگر یہ بولنے دے تب نا۔‘‘
’’چلنا چاہئے تائو جی۔ ایسی آگ دیکھی نا سُنی۔‘‘
’’ٹھیک ہے رہے مہان آتما۔ ٹھیک ہے صبح ہوتے ہی چلے جائیں گے۔ بس سورج نکل آنے دو۔‘‘ گنگادھر نے ہاتھ جوڑ کر سر سے اُوپر کرتے ہوئے کہا۔ میں خاموشی سے ثریا کو دیکھ رہا تھا۔ خاموش کھڑی تھی۔ میرا دل اس کی طرف کھنچ رہا تھا۔ رو رہا تھا اس کیلئے۔ تڑپ رہا تھا، سسک رہا تھا۔ کیا ہوگیا ہے مجھے۔ کیا ہوگیا ہے۔ سب کچھ چھنا جا رہا ہے۔ سرکشی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ سب کچھ فراموش کرنا تھا۔ سب کچھ بھول جانا تھا۔ آنکھوں میں نمی اُتری ہوئی تھی۔
گنگادھر جی باہر نکل گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ باہر نکل گیا۔ گنگادھر نہ جانے کیا بڑبڑا رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر بولے۔ ’’تو ہمارے ساتھ چلے گا پوت۔‘‘
’’میں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تو کہاں جائے گا، تجھے کیا چنتا۔‘‘
’’ہاں میں یہاں رُکوں گا۔‘‘
’’اچھے بھگائے جارہےہیں ہم۔ ارے کیا بگاڑ رہے تھے کسی کا۔ جانا تو تھا آرام سے جاتے۔ چلو ٹھیک ہے جو بابا کی مرضی۔‘‘ اندر اُٹھا پٹخ ہو رہی تھی۔ ویسے میں دیکھ چکا تھا سارا سامان جل چکا تھا، بے چاروں کو یہ نقصان میری وجہ سے اُٹھانا پڑا تھا۔
’’تم خورجے آئو گے مسعود۔ آئو تو ہمارے پاس ضرور آنا۔‘‘
گنگادھر نے نہ جانے کیا کیا کہا۔ میں کچھ نہیں سمجھ رہا تھا۔ بس سوچ رہا تھا کہ یہاں رُکنے سے کیا فائدہ۔ جانا ہے تو انتظار کیسا۔ ابھی چلا جائے۔ بیکار ہے رُکنا۔ کچھ نہیں ہے۔ یہ دُنیا میرے لیے نہیں ہے۔ سب کچھ چھن گیا ہے مجھ سے۔ سب کچھ چھن گیا ہے۔ بیکار ہے سب بیکار ہے وہیں سے پلٹا اور آگے بڑھ گیا۔ گنگادھر سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ میں اس طرح چل پڑوں گا۔ وہ یہی سمجھے ہوں گے کہ کہیں آس پاس جارہا ہوں۔ واپس جائوں گا۔ مگر میں چلتا رہا۔ بہت دُور نکل آیا۔ اتنا دُور کہ کوئی تلاش نہ کر سکے۔ مزار کے عقب میں پہنچ گیا۔ اس طرف کبھی نہیں آیا تھا۔ ایک گوشے میں پناہ لی۔ یہاں بھی ڈیرے جمے ہوئے تھے۔ خلقت ہر جگہ موجود تھی۔ ایک جگہ زمین پر لیٹ گیا۔ رونے کو جی چاہ رہا تھا، بلک بلک کر روتا رہا۔ ثریا یاد آ رہی تھی۔ سینے پر اس کے سر کا لمس، ہاتھ پر اس کی آنکھوں کا لمس زندہ تھا۔ بے کلی ساتھ نہیں چھوڑ رہی تھی۔ اُٹھا اور نماز پڑھنے کھڑا ہو گیا۔ ساری رات پڑھتا رہا۔ سورج نکل آیا۔ دُھوپ نکل آئی۔ دوپہر ہوگئی۔ اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ پھر کسی نے شانہ ہلایا۔
’’میاں صاحب یہ لے لیجئے۔‘‘ آنکھیں کھول کر دیکھا۔ بینائی ساتھ نہ دے پا رہی تھی۔ دُھندلا نظر آ رہا تھا۔ چند خاکے سامنے کھڑے تھے۔
’’کیا ہے؟‘‘ بمشکل کہا۔
’’دال دلیا ہے میاں صاحب۔‘‘
’’شکریہ بھائی۔ حاجت نہیں ہے۔‘‘
’’لے لو میاں صاحب۔ غریب کا دل نہ توڑو۔‘‘
’’بھائی بہت شکریہ۔ ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں میاں صاحب۔ رات سے اسی طرح بیٹھے ہو۔ ہلے بھی نہیں ہو اپنی جگہ سے۔ انتڑیاں اینٹھ گئی ہوں گی ایمان کی قسم۔‘‘
’’ایں۔‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’ہاں رات کو قوالیوں سے لوٹا تو دیکھا تھا تمہیں۔ تین بار آنکھ کھلی تو ایسے ہی دیکھا۔ صبح سے ایسے ہی بیٹھے ہو۔ لو میاں صاحب لے لو۔ ہم بھی مسلمان بھائی ہیں۔‘‘
’’جی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’لے لو میاں صاحب۔ تمہیں بابا شاہجہاں کا واسطہ۔ اماں اتنی خوشامد کر رہے ہیں مان لو۔ ہماری بھی خوشی ہو جائے گی۔‘‘
دل ڈُوبا ڈُوبا سا تھا۔ پیٹ بے شک خالی تھا لیکن کچھ کھانے کو جی نہیں چاہتا تھا لیکن وہ شخص اس طرح اصرار کر رہا تھا کہ مجبور ہوگیا۔ جو دیا کھانے لگا اور کچھ دیر کے بعد شکم سیر ہوگیا۔ اس نے پانی بھی پلایا تھا۔
’’ہمارے حق میں دُعائے خیر کرنا میاں صاحب۔ اٹھارہ سال ہوگئے تھے بیاہ کو، اولاد نہیں ہوئی تھی۔ بابا جی کے مزار پر منت مانی، بیٹا مل گیا اللہ کے فضل سے۔ منت پوری کرنے آئے تھے۔ لونڈے کا نام فضل الدین رکھا ہے۔ ہمارا نام کمال الدین پہلوان ہے۔ خورجے کے رہنے والے ہیں۔ نام ہے اپنا۔ ہماری دُعا سے خورجے کے اسٹیشن پر اُتر کر کمالے پہلوان کا اکھاڑہ پوچھ لو، سیدھے پہنچ جائو گے اور کوئی ضرورت ہو تو بتا دو۔‘‘
’’نہیں بھائی۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔‘‘
’’دُعا ضرور کرنا۔ بس چلتے ہیں۔‘‘ وہ سلام کر کے واپس مڑ گیا۔ میں نے اس کی آواز سنی۔ ’’اماں عمر چھوٹی ہے تو کیا۔ دیکھتے نہیں کتنے عبادت گزار ہیں۔ پہنچے ہوئے ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ اس کی آواز دُور ہوگئی۔ پیٹ بھرا تو آنکھوں میں کچھ روشنی جاگی۔ دل کو سنبھالنے لگا۔ کیا ہو رہا ہے یہ کیا ہو رہا ہے۔ دل اتنا بے اختیار کیوں ہوگیا تھا۔ ایک صورت آنکھوں میں بسی تو اتنا بے بس ہوگیا لیکن اس دل کو سنبھالنا تھا، اس دشت ویراں میں کسی کا بسیرا نہیں ہونا چاہئے۔ جو کیا گیا درست ہی تو ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی کیلئے تو دل کو سمجھا لیا مگر اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ سارے کئے دھرے پر پانی پھر جائے گا۔ ثریا کیلئے دل میں صرف ہمدردی نہیں تھی۔ جس طرح بے اختیار ہوگیا تھا اس سے کچھ اور ہی احساس ہو رہا تھا۔
کراہتا ہوا اپنی جگہ سے اُٹھ گیا اور مزار شریف کی طرف چل پڑا۔ بابا صاحب کے قدموں میں ہی سکون مل سکتا تھا۔ چلتا رہا سوچتا رہا۔ گنگادھر نے سوچا ہوگا کہ خودغرض اور ناسپاس ہوں، بے مروت ہوں، ملے بغیر خاموشی سے چلا آیا۔ مگر ان سے رُخصت ہونے کے لمحات شاید کچھ اور زخم لگا دیتے۔ نہ جانے کس طرح بے اختیار ہو جاتا۔ کچھ اور گناہ ہو جاتے۔ اور … اور نہ جانے نہ جانے ثریا نے کیا سوچا ہوگا۔ رفتار تیز کر دی۔ جلد از جلد بابا جی کے قدموں میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ پہنچ گیا۔ بیٹھ گیا۔ آنکھیں بند کرلیں۔ دہائی دینے لگا۔ سکون مانگ رہا تھا۔ رفتہ رفتہ قرار آنے لگا۔ زائرین جوق در جوق آ رہے تھے۔ رات ہوگئی۔ خوب رات ہوگئی۔ قوالی جم گئی۔ لوگ مزار سے ہٹ گئے۔ ہارمونیم اور ڈھولک کی ملی جلی آوازوں کے ساتھ قوالوں کے سُر سنائی دینے لگے۔ کیا گا رہے تھے کچھ اندازہ نہیں تھا۔ ٹوٹا ٹوٹا تھا، خود پر سے اعتماد اُٹھ گیا تھا۔ سب
کچھ جانے کے بعد سب کچھ کھونے کا خوف دل میں بیدار ہوگیا تھا۔ تھک گیا تو اُٹھ گیا۔ ایک پرسکون گوشہ تلاش کیا۔ لیٹ گیا۔ نیم غشی سی طاری تھی۔ سو جانا چاہتا تھا۔ بڑی مشکل سے نیند آئی۔ صبح کو جاگا۔ حالت کسی قدر بہتر ہوگئی تھی۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو چار روپے موجود تھے۔ بڑا کھرا حساب کتاب تھا، جن دنوں گنگادھر جی کے ذمے کھا رہا تھا۔ وظیفہ نہیں ملا تھا مگر آج چار روپے موجود تھے۔ ایک دم دل میں خوشی جاگ اُٹھی۔ وظیفہ ملا ہے اس سے یہ اندازہ ہوا کہ ناخوشی نہیں ہے۔ قابل معافی ہوں، بروقت سنبھل گیا ہوں۔ حکم ماننے والوں میں تصور کیا گیا ہوں۔
’’باباجی ناشتہ کرو گے؟‘‘
’’نہیں بھائی فقیر نہیں ہوں۔‘‘ جواب دیا۔ اپنی جگہ سے اُٹھا چائے ڈبل روٹی خریدی، ناشتہ کیا۔ کل بارہ آنے خرچ ہوئے تھے۔ دن آسانی سے گزرے گا کوئی اور حکم نہیں ملا تھا۔ جب تک دُوسرا حکم نہ ملے۔ یہیں رہنا ہے کوئی کام نہیں سونپا گیا تھا۔ رہنمائی ضرور ہوگی یقین تھا۔ دن گزرا، کوئی شام کے پانچ بجے ہوں گے آس پاس لوگ موجود تھے۔ سب اپنے اپنے مشاغل میں لگے ہوئے تھے۔ اچانک عقب میں ایک سایہ سا محسوس ہوا، پلٹ بھی نہیں پایا تھا کہ ذہن پر دھماکہ سا ہوا۔ ایک آواز سنائی دی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ دُوسرا دھماکہ ہوا۔ کوئی شے دوسری بار سر پر لگی تھی۔ ایک دم شور مچا کچھ لوگ دوڑے۔ میں بادل ناخواستہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ تب میں نے اسے دیکھا۔ نوجوان آدمی تھا۔ ہاتھ میں چری ہوئی لکڑی کا بڑا سا کندہ تھا، آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا۔ اس نے تیسری بار اس کے کندے سے میرے سر کا نشانہ بنایا۔ اس سے پہلے بھی شاید اس نے دو بار مجھ پر اس لکڑی سے بھرپور وار کیا تھا مگر اللہ کو بچانا مقصود تھا۔ دونوں وار خالی گئے تھے۔ تیسرا وار ان لوگوں نے روک لیا جو میری مدد کو پہنچے تھے۔ ایک آواز اُبھری۔
’’ابے پیچھے سے وار کرتا ہے بزدل کی اولاد۔ لکڑی پھینک دے بھوتنی والے، نئیں تو قینچی لگا کر گچی اُتار دیں گے۔ زندگی بھر گردن سیدھی نہیں کر سکے گا۔ ابے کمالے پہلوان کی قینچی ہے۔ ایرے غیرے کی نہیں۔‘‘ آواز بھی پہچان لی تھی، صورت بھی۔ کمال الدین پہلوان خورجے والے تھے۔ مجھے کھانا کھلا چکے تھے مگر یہ نوجوان کون ہے۔ میں نے کمال الدین پہلوان کے شکنجے میں پھنسے نوجوان کو دیکھا۔ انوں نے اس کی دونوں بغلوں میں ہاتھ ڈال کر گردن پر ہاتھ جما رکھے تھے اور نوجوان بے بس ہو گیا تھا۔ مگر یہ شکل، یہ صورت جانی پہچانی تھی۔ اسے پہلے بھی کہیں دیکھا تھا مگر کہاں؟
’’ابے گدُّا ابھی تک نہیں گرایا، کام کر ہی دیں تیرا کیا۔‘‘ کمالے پہلوان نے کہا۔ پھر برابر کھڑے ہوئے شخص سے بولا۔ ’’اماں چمن بھائی گدُّا لے لو اس کے ہاتھ سے ورنہ میرے کو غصہ آ رہا ہے۔‘‘ دُوسرے آدمی نے نوجوان کے ہاتھ سے لکڑی چھین لی اور کمالے پہلوان نے نوجوان کو جھٹکا دے کر چھوڑ دیا۔ وہ اوندھے منہ گرا تھا اوراس کے بعد سیدھا نہیں ہوا تھا۔ ’’جان ہوتی نہیں سسروں میں اور خون خرابہ کرنے نکل پڑتے ہیں۔‘‘ پھر کمالے پہلوان نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میاں صاحب تم سے کیا دُشمنی ہوگئی اس کی۔ تم تو بڑے اللہ والے ہو؟‘‘
’’اللہ جانے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’اماں دیکھو چمن میاں، کیا ہوگیا اسے۔ منکا تو نہیں ٹوٹ گیا کہیں۔‘‘ پہلوان نے کہا۔ لکڑی چھیننے والے صاحب آگے بڑھ کر اوندھے پڑے ہوئے نوجوان کو سیدھا کرنے لگے مگر بجلی سی چمک گئی۔ نوجوان سیدھا ہوتے ہی اُچھلا اور اُٹھ کر بری طرح بھاگا۔
’’پکڑ لو۔‘‘ چمن میاں چیخے، مگر میں نے ان کا راستہ روک لیا۔
’’جانے دیجئے۔ بھاگ گیا۔ بھاگ جانے دیجئے۔‘‘
’’ہاں چھوڑو چمن میاں۔ مگر جھگڑا کیا تھا میاں صاحب؟‘‘
’’عرض کیا نا اللہ ہی جانتا ہے۔‘‘
’’تمہیں نہیں معلوم؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’عجیب بات ہے حالانکہ لکڑی اس نے ایسی تاک کر ماری تھی کہ اگر پڑ جاتی کہیں تو کتر گئے تھے قسم اللہ کی۔ کمال ہے لوگ اللہ والوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔‘‘
جمع ہونے والے منتشر ہوگئے۔ مگر میرا ذہن بری طرح اُلجھ گیا۔ وہ رات یاد آئی جی مجھ پر خنجر سے حملہ ہوا تھا۔ کیا اس رات بھی حملہ آور یہی نوجوان تھا۔ وہ حملہ بھی جان لیوا تھا۔ اگر گنگادھر جی شور نہ مچاتے تو سوتے میں دوسرا وار ضرور کارگر ہو جاتا۔ اس وقت بھی اس نے اپنی دانست میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ کیوں آخر کیوں…؟ اس کی آنکھوں میں نفرت تھی۔ خون تھا۔ جیسے وہ مجھے ہر قیمت پر ختم کر دینا چاہتا ہو۔ اور اس کا چہرہ۔ وہ چہرہ دیکھا دیکھا کیوں لگ رہا تھا۔ کہاں دیکھا تھا میں نے اسے؟ کچھ یاد نہیں آیا۔ ذہن اس طرف سے ہٹا لیا۔ خود بھی وہاں سے ہٹ گیا۔
رات ہوگئی، حملہ آور بھاگ گیا تھا۔ وہ پھر کوشش کرے گا۔ زندگی ہوئی تو پھر اللہ بچنے کے اسباب پیدا کر دے گا اور اگر موت اسی طرح کسی کے ہاتھوں لکھی ہے تو کیا بری ہے، البتہ کھا پی کر لیٹا تو ذہن متضاد خیالات میں اُلجھا ہوا تھا۔ ثریا کی یاد دل میں کسکی، پھر اس نوجوان کا چہرہ آنکھوں میں اٹک گیا۔ اچانک کچھ مناظر اُجاگر ہوئے یہ کونسی جگہ ہے۔ غالباً کالی کنڈ تھا۔ مہاوتی کا کالی کنڈ…! مہاوتی ہاتھ میں خنجر لیے آگے بڑھ رہی تھی اور کالی کے مجسمے کے قریب کوئی گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا تھا پھر بھوریا چرن نظر آیا۔
’’لنگڑی پورنی… سسری کچوندی ہے نری… اے چھورا… ہوش ٹھکانے آئے تیرے۔ اُٹھ کھڑا ہو… یہ اماوس کی رات پیدا ہوا ہے اور پائل ہے… میرے پاس سے بھاگا ہوا ہے یہ … اسے تلاش کرتے ہوئے یہاں آ گئے۔‘‘
دماغ کو اتنے زور کا جھٹکا لگا کہ پورا بدن ہل گیا۔ ایک دم اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ دل سینہ توڑ کر باہر نکلنے کیلئے بے تاب تھا۔ پہچان لیا تھا میں نے اسے۔ اچھی طرح پہچان لیا تھا۔ وہی نوجوان تھا جسے میں نے کالی کنڈ میں مہاوتی کا قیدی دیکھا تھا اور بھوریا چرن اسے وہاں سے لے گیا تھا۔
’’کمنڈل میں مکڑیاں بھری ہوئی تھیں۔ پیلی پیلی بے شمار مکڑیاں۔‘‘ ماتھر نے یہی کہا تھا۔ وہ بھوریا چرن ہی تھا۔ وہ یہاں موجود ہے۔ سب کچھ سمجھ میں آ گیا۔ میں نے اُٹھ کر پاگلوں کی طرح دوڑنا شروع کر دیا۔ رُخ مزار کی طرف تھا۔ پیروں میں کسی طاقتور گھوڑے جیسی قوت آ گئی تھی اور میں قلانچیں بھر رہا تھا۔ مزار پر قوالیاں ہو رہی تھیں۔ لوگ قوالوں کے گرد جمع تھے میں مزار مبارک کے پاس جا پہنچا۔ بے چین نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ قرب و جوار میں کوئی موجود نہیں تھا۔ سب قوالیوں میں مگن تھے۔ میں نے ایک ایسے ستون کی آڑ میں جگہ بنا لی جہاں سے مزار پر نظر رکھی جا سکے۔ مزار شریف کے عقب میں طاق بنے ہوئے تھے۔ میری نگاہوں نے ان طاقوں کا طواف کیا۔ تمام طاق خالی تھے۔ دل میں بہت کچھ تھا۔ یہاں آ کر سکون ہوا تھا۔ وقت سے پہلے آ گیا تھا۔ یقیناً وقت سے پہلے آ گیا تھا۔ سب کچھ سمجھ میں آ گیا تھا۔ سانسیں درست کرتا رہا۔ رات گزر گئی صبح ہوگئی۔ اپنی جگہ سے نہیں ہٹا۔ ایک لمحہ نہیں ہٹنا چاہتا تھا۔ انتظار کروں گا خواہ کتنا ہی وقت گزر جائے۔ شام ہوگئی۔ بھوکا پیاسا تھا مگر فکر نہیں تھی عادت تھی، کوئی پریشانی نہیں تھی بس نگرانی کر رہا تھا۔ وقت آ گیا۔ میرا خیال دُرست نکلا۔
مغرب کا وقت تھا۔ نمازیوں نے کچھ فاصلے پر صفیں بنا لیں تھیں۔ ایک شخص اذان کہہ رہا تھا۔ میں نے اس جگہ نماز ادا کی اور پھر آخری رکعت کے بعد سلام پھیرا ہی تھا کہ میں نے اسے آتے ہوئے دیکھا۔ سفید رنگ کی ملگجی چادر اوڑھے ہوئے۔ شبہے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اکثر ایسے لوگ مزار پر آتے تھے، لیکن میرے دل نے کہا کہ انتظار ختم ہوگیا ہے عمل کا وقت آ گیا ہے۔ اس کا پورا جسم چادر میں ڈھکا ہوا تھا۔ ہاتھ بھی چادر کے اندر تھے۔ مزار مقدس کے عقب میں پہنچ کر اس نے اِدھر اُدھر دیکھا، میں نے اسے اچھی طرح پہچان لیا تھا۔ میں اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے کسی بھوکے عقاب کی مانند پرتول لیے اور پھر جونہی اس نے اپنا ایک ہاتھ چادر سے باہر نکالا۔ میرے حلق سے ایک غضب ناک چیخ نکل گئی۔ میں برق کی طرح اس کی طرف لپکا۔ اس نے مجھے دیکھ لیا۔ پہچان لیا اور پھر ایک سمت چھلانگ لگا دی۔ وہ اپنا عمل مکمل نہیں کر سکا تھا۔ سامنے کی سمت بھاگنے کے بجائے وہ مزار کے عقبی حصے ک طرف دوڑا تھا۔ ایک پتلی سی جگہ مزار کے عقب میں جانے کیلئے بنی ہوئی تھی۔ پیچھے ایک چھوٹا سا احاطہ تھا چونکہ مزار ایک بلند ٹیلے پر بنا ہوا تھا، اس لئے احاطے کے بعد ڈھلان پھیلے ہوئے تھے۔ اس سمت بلندی تک آنے کیلئے سیڑھیاں نہیں بنائی گئی تھیں تاکہ لوگ اس طرف سے نہ آ سکیں۔ احاطے میں کوئی دروازہ بھی نہیں تھا۔ اس نے گردن گھما کر مجھے دیکھا۔ پھر اُچھل کر احاطے کی دیوار پر چڑھ گیا۔ پلک جھپکتے وہ دُوسری طرف ڈھلان میں کود گیا۔ میں جس جگہ تک پہنچا تھا۔ وہیں سے احاطے کی دیوار پر چڑھ گیا اور وہاں سے میں نے اسے ڈھلان میں لڑھکتے ہوئے دیکھا۔ بدحواسی کے عالم میں نیچے کودتے ہوئے وہ اپنا توازن نہیں قائم رکھ سکا تھا اور بری طرح گرا تھا۔ لیکن میں نے اس کی طرح بدحواسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مناسب جگہ دیکھ کر نیچے کودا اور تیزی سے اس کے عقب میں اُترنے لگا۔ دوسرے لوگوں کو اس بھاگ دوڑ کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہوا تھا۔ اس لیے کوئی ہماری طرف متوجہ نہیں تھا۔ میں قدم جما کر نیچے اُترتا رہا اور اس کے ساتھ ساتھ دامن میں پہنچ گیا۔ وہ جس طرح گرا تھا اس سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ بری طرح زخمی ہو جائے گا۔ ایسا ہی ہوا تھا۔ ٹیلے کے دامن میں پہنچ کر وہ ساکت ہوگیا مگر میں نے اس پر توجہ دینے کے بجائے اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ اس کے ہاتھ خالی تھے اور اس سے کچھ فاصلے پر وہی منحوس گڈا پڑا ہوا تھا۔ وہی گڈا جو میری تباہی کا باعث بنا تھا۔ بھوریا چرن کا وہ ناپاک پتلا جسے وہ مزار مقدس پر پہنچانا چاہتا تھا۔ ناقابل شکست سفلی قوتوں کے حصول کے لئے۔ خدا کا احسان تھا کہ اسے ایک بار پھرناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میں نے شدت غضب سے دانت بھینچ کر اس پتلے کی طرف دیکھا۔ میں اس کے ناپاک وجود کو فنا کر دینا چاہتا تھا لیکن وہ میرے ارادے سے واقف ہوگیا۔ دوسرے لمحے اس ننھے سے پتلے نے اپنی جگہ سے چھلانگ لگا دی۔ وہ بہت تیزی سے بھاگ رہا تھا مگر میں بھی کسی گھوڑی کی رفتار سے اس کا پیچھا کرنے لگا۔ میں نے بھاگتے بھاگتے جھک کر ایک پتھر اُٹھایا ار نشانہ لے کر اس پر دے مارا، نشانہ ٹھیک لگا اور وہ اُچھل کر گرا۔
لیکن نیچے گرتے ہی وہ بری طرح لوٹنے لگا۔ میں یہی سمجھا کہ اس کے شدید چوٹ لگی ہے لیکن لوٹتے لوٹتے اس کا حجم گھٹنے لگا اور چشم زدن میں اس نے پیلے رنگ کی ایک بدشکل مکڑی کا رُوپ دھار لیا اور پھر تیزی سے رینگتا ہوا وہ قریب کی چٹان کے ایک ننھے سے سوراخ میں داخل ہوگیا تب میں اس کی شیطنیت سمجھا۔ میں سوراخ کے قریب پہنچ گیا۔ نیچے جھک کر میں نے سوراخ میں اُنگلی داخل کر دی مگر سوراخ بہت گہرا تھا۔ مجھ پر دیوانگی طارری تھی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کچھ فاصلے پر پڑا ہوا ایک وزنی پتھر اُٹھا کر میں اس سوراخ میں مارنے لگا۔ میں ہر قیمت پر اسے باہر نکالنا چاہتا تھا مگر اس پتھر کی ضربیں چٹان پر اثرانداز نہ ہو سکیں اور میرے ہاتھ میں دبا پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اس ناکامی پر مجھے شدید جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔ آہ کاش کچھ ہو سکتا۔ کیا کروں۔ اس سوراخ کے قریب آگ جلا دوں مگر کیسے، کوئی چیز نہیں تھی۔ پھر اتنا ضرور کیا میں نے کہ ٹوٹے پتھروں کے ٹکڑے سوراخ کے منہ پر رکھ کر اسے مضبوطی سے بند کر دیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
آس پاس کوئی نہیں تھا۔ کسی نے اس بھاگ دوڑ پر توجہ نہیں دی تھی۔ کوئی سمجھ ہی نہیں پایا ہوگا کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں سوراخ کو گھورتا رہا۔ بھوریا چرن کو باہر نکالنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اور پھر کمبخت پراسرار شیطانی علوم کا ماہر ہے، نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا ہوگا۔ وہ تو صرف میری پہنچ سے نکلنے کیلئے اس نے سوراخ کی پناہ حاصل کی تھی ورنہ اور بھی بہت کچھ کر سکتا تھا۔ پھر مجھے اس شخص کا خیال آیا جسے اس نے اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کاذریعہ بنایا تھا۔ وہ زخمی ہوگیا تھا۔ پلٹ کر نگاہ دوڑائی تو اسے وہیں ساکت پایا۔ میں پلٹ کر اس کی طرف چل پڑا اور چند لمحات کے بعد اس کے قریب پہنچ گیا۔
میں نے وہاں بیٹھ کر اس کے زخموں کو دیکھا۔ نیچے گرنے کی وجہ سے جگہ جگہ سے بدن چھل گیا تھا۔ کپڑے خون میں ڈُوب گئے تھے۔ سر میں بھی چوٹ لگی تھی اور پیشانی سے خون بہہ رہا تھا۔ اپنے لباس سے کچھ پٹیاں پھاڑ کر میں نے اس کے زخموں پر باندھیں۔ ابھی اس کام سے فارغ بھی نہیں ہوا تھا کہ اُوپر سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ شاید کسی نے ادھر دیکھ لیا تھا۔ چند افراد سنبھل سنبھل کر نیچے اُترنے لگے۔
’’کیا ہوا… کیا ہوگیا۔‘‘ بہت سی آوازیں سنائی دیں۔
’’گر پڑا ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’غلطی سے اس طرف آ گیا تھا…!‘‘ میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا تھا۔
’’ہڈّیاں ٹوٹ گئی ہیں کیا۔‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘
’’ہٹو… میں دیکھتا ہوں۔‘‘ ایک شخص نے کہا اور لڑکے کے قریب بیٹھ کر اس کا بدن ٹٹولنے لگا۔ اس کے ہاتھ ماہرانہ انداز میں لڑکے کے بدن کو ٹٹول رہے تھے۔ پھر وہ بولا۔
’’نہیں ہڈّی نہیں ٹوٹی۔‘‘
’’تمہارا کون ہے یہ…؟‘‘
’’بھائی ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ادھر آ کیسے گیا تھا…؟‘‘
’’دماغی توازن خراب ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ اور بہت سے انسانوں کی ہمدردیاں حاصل ہوگئیں۔ میں نے جھوٹ نہیں بولا تھا۔ وہ مذہب کے رشتے سے میرا بھائی تھا اور اسی مشکل کا شکار ہوا تھا جس سے میں عرصہ دراز سے گزر رہا تھا۔ اس کے علاوہ وہ بھوریا چرن کے طلسم کا شکار تھا اور اس کا ذہن اس کے قبضے میں نہیں تھا۔
سب ہمدردی کا اظہار کرنے لگے۔ بے ہوش نوجوان کو اُٹھایا گیا اور ایک لمبا چکر کاٹ کر وہاں سے دُور مزار شریف کے سامنے والے حصے میں لے آیا گیا، اس کے تمام زخم دیکھ کر ان پر پٹیاں کی گئیں جس شخص نے اس کی ہڈّیاں دیکھی تھیں وہ ہڈّیوں کا علاج کرنے والا ایک پہلوان تھا۔ اس نے اپنے طور پر نوجوان کی دیکھ بھال کی اور دوائیں اور پتے وغیرہ اس کے زخموں پر کس دیئے۔ اسی اثنا وہ ہوش میں آ گیا۔ مجھے دیکھ کر اس کے انداز میں وحشت اُبھری لیکن میں نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر بڑی نرمی اورشفقت سے کہا۔
’’آرام سے لیٹے رہو۔ تمہارے چوٹیں لگی ہیں۔ شاباش، کوئی فکر مت کرو… سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کے بدن پر کپکپی طاری ہوگئی تھی۔ میں نے لوگوں سے درخواست کی کہ وہ میرے بھائی کو تنہا چھوڑ دیں ان کی مہربانیوں کا شکریہ۔ ایک ایک کر کے لوگ چلے گئے اور میں نوجوان کا جائزہ لینے لگا۔ اس کی ذہنی کیفیت کے بارے میں اندازہ لگا رہا تھا کہ وہ کس کیفیت میں ہے۔ آیا اس وقت بھی بھوریا چرن کے سحر کا شکار ہے یا آزاد ہے۔ اس کا جسم مسلسل کپکپا رہا تھا۔ ’’سردی لگ رہی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے دیکھنے لگا۔ منہ سے کچھ نہ بولا۔ ’’کچھ کھائو گے۔‘‘ میں نے پھر سوال کیا۔
’’مار دو… مار دو۔‘‘ تم ہی مجھے مار دو… خدا کیلئے… خدا کے لیے مجھے اس اَذیت سے نجات دلا دو۔ خدا کے لیے، خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو… مجھے مار دو مجھے ہلاک کر دو۔ ’’تمہارا بھلا ہوگا۔ ثواب ہوگا تمہیں۔ مجھے مار دو۔‘‘ وہ کپکپاتی آواز میں ہولے ہولے رو رہا تھا۔ حد سے زیادہ سہمے ہوئے انسان کی مانند جسے کسی سے ہمدردی کی توقع نہ ہو، جسے کہیں سے زندگی کی اُمید نہ ہو۔
میں محبت بھرے انداز میں اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ میں نے نرم اور شفیق لہجے میں کہا۔ ’’اگر تمہیں یاد ہے کہ اس رات تم نے خنجر سے حملہ کر کے مجھے شدید زخمی کر دیا تھا تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ان دونوں حملوں کیلئے میں نے خلوص دل سے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے اور میں تم سے کوئی بدلہ نہیں لوں گا۔ مکمل اطمینان رکھو۔ دُوسری بات یہ کہ کسی کی زندگی لینے سے کبھی ثواب نہیں ملے گا۔ کیا تم مسلمان ہو؟‘‘
’’ہاں، ہاں میں ایک مسلمان کا بیٹا ہوں مگر، مگر…‘‘ وہ رُک کر ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔
’’کلمۂ طیبہ یاد ہے؟‘‘
وہ اس طرح کانپ رہا تھا جیسے سردی سے بخار چڑھ رہا ہو لیکن اس نے غلط نہیں کہا تھا۔ بے شمار ننھی ننھی سُرخ چنگاریاں ٹمٹماتی نظر آ رہی تھیں۔ وہ زمین پر رینگتی اس سمت بڑھ رہی تھیں۔ میرے منہ سے حیران سے لہجے میں نکلا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’پیلے رنگ کی زہریلی مکڑیاں۔ یہ… یہ سب میرےپورے بدن سے چمٹ جائیں گی، اور … اور میرے… آہ…سوئیاں۔ میرا گلا بند ہو جاتا ہے۔ آواز… آواز نہیں نکلتی۔ یہ میرا خون پیتی ہیں۔ آہ بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ دیکھ لو۔ بس اب…‘‘ وہ نڈھال ہونے لگا۔
بے اختیار میرے منہ سے درود شریف جاری ہوگیا۔ صرف تین بار درود شریف پڑھ کر میں نے اُنگلی سے زمین پر ایک وسیع دائرہ بنا دیا۔ وہ میری طرف متوجہ نہیں تھا، پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ان مکڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔
’’اب وہ تمہارے قریب نہیں آئیں گی۔‘‘ میں نے پُریقین آواز میں کہا۔
’’کوئی نہیں۔ کوئی نہیں روک سکتا انہیں۔ وہ… آہ دیکھو وہ آ گئیں۔‘‘
’’وہ آگے نہیں آئیں گی اکرام۔ جہاں تک وہ پہنچی ہیں وہاں سے آگے نہیں آئیں گی۔ دیکھ لو وہ میرے بنائے ہوئے حصارکو عبور نہیں کر پا رہیں۔ دیکھا…!‘‘ مکڑیاں رُک گئی تھیں وہ ایک دائرے کی شکل میں پھیل گئی تھیں اور حصار کی لکیر کو واقعی عبور نہیں کر رہی تھیں حالانکہ ان میں سخت اضطراب پایا جاتا تھا۔ وہ اندر گھس آنے کے لیے بے چین تھیں۔
’’یہ تو واقعی رُک گئیں۔‘‘ اکرام کے منہ سے نکلا۔ ’’اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔‘‘
’’تمہیں ان کاحشر دکھائوں۔‘‘ میں نے بے خیالی کے عالم میں کہا۔ پھر میرے ہونٹ دائرے کی شکل میں سکڑ گئے اور میرے ہونٹوں سے ہوا خارج ہونے لگی۔ حالانکہ ہونٹوں سے خارج ہونے والی ہوا تھی ہی کتنی لیکن جہاں ہوا لگی تھی وہاں کی مکڑیاں روئی کے گالوں کی طرح اُڑ گئی تھیں۔ میں نے رُخ بدل کر پھونک ماری اور مکڑیوں کی صفیں اُکھڑ گئیں۔ باقی مکڑیاں سہم کر بھاگنے لگیں اور میں مسلسل ان پر پھونکیں مارتا رہا۔ پھر وہاں کسی مکڑی کا نشان بھی نہیں رہ گیا تھا اور اچانک ہی مجھے ایک عجیب سا خیال آیا۔ بہت انوکھا خیال۔ مکڑیوں کو دیکھ کر حصار بنانے کا خیال میرے دل میں نہیں آیا تھا بلکہ اچانک ہی سوچے سمجھے بغیر میرے ہونٹوں سے درود پاک جاری ہو گیا تھا۔ اس میں میری کسی سوچی سمجھی کوشش کا دخل نہیں تھا۔ اس کے بعد میں نے پھونکیں مار کر ان مکڑیوں کو اُڑا دیا تھا۔ ایسا بھی جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔ یہ خودبخود ہوا تھا اور اس سے ایک نتیجہ اخذ ہو رہا تھا۔ میری رہنمائی ہو رہی تھی خدا کےفضل سے۔ مجھے جو کرنا ہوتا تھا وہ مجھ سے خودبخود سرزد ہو جاتا تھا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو میں زخمی ہونے کے بعد خود پر حملہ کرنے والے کے بارے میں جاننے کی کوشش ضرور کرتا اور ممکن تھا کہ مجھے اس کے بارے میں معلوم بھی ہوجاتا لیکن مجھے اس کی اجازت نہیں تھی، میری اپنی ذات کا معاملہ تھا۔ جب وقت آیا تو سب کچھ منکشف ہوگیا۔ آہ یہ تو بڑا احسان ہے اس ذات باری کا۔ دل کو خوشی ہوئی تھی۔
’’مسعود بھائی۔‘‘ اکرام کی لرزتی ہوئی آواز اُبھری اور میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ پھر خوف زدہ ہو گیا۔
>’’کہو…!‘‘ میں نے بھاری لہجے میں کہا۔
’’آپ نے۔ آپ نے خود مجھے اجازت دی تھی۔‘‘
’’کیسی اجازت؟‘‘
’’آپ نے کہا تھا کہ … کہ میں آپ کے چھوٹے بھائی کی مانند ہوں۔ اس لیے میرے منہ سے مسعود بھائی نکل گیا۔‘‘ وہ پژمردہ لہجے میں بولا۔
’’تو پھر…؟‘‘ میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
’’آپ میرے مسعود بھائی کہنے سے ناراض ہوئے ہیں نا…!‘‘
’’پاگل ہو تم…؟‘‘ میں مسکرا کر بولا۔
’’آپ ناراض نہیں ہوئے؟‘‘
’’یہ ناراض ہونے کی بات ہے بھلا۔‘‘
’’آپ نے میری مجبوری پر یقین کرلیا۔‘‘ وہ کسی قدر خوش نظر آنے لگا۔
’’ہاں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تمہارے ساتھ میرا رویہ مختلف ہوتا۔‘‘
’’خدا کی قسم مسعود بھائی، خدا کی قسم، میں ایک شیطان کے زیراثر تھا۔ میں یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن… لیکن…‘‘ وہ سسکی لے کر بولا۔
’’میں جانتا ہوں اکرام مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’میں نے اسے پہلی بار ناکام دیکھا ہے۔ یہ شیطان مکڑیاں میری آنکھوں کےسامنے کئی زندہ انسانوں کو پلک جھپکتے ہڈّیوں کا پنجر بنا چکی ہیں۔ یہ اس کے اشارے پر عمل کرتی ہیں۔ اگر وہ انہیں حکم دیتا ہے کہ انسانی گوشت کھا جائو تو یہ مکڑیاں اسے نوچ نوچ کر کھا جاتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ کسی کا خون پی لو تو… آہ… میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے مسعود بھائی۔ انسانی جسم میں خون کا ایک قطرہ باقی نہیں رہتا اور یہ پیلی سے سُرخ ہو جاتی ہیں۔ ان کا حجم بڑھ جاتا ہے۔ یہ خون پی کر پھول جاتی ہیں۔ میں اس سے ذرا بھی انحراف کرتا تھا تو یہ مکڑیاں میرے بدن میں اپنے ڈنک چبھوتی تھیں اور… آہ… آہ۔‘‘ وہ کراہنے لگا۔
’’اب یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’میں نے دیکھ لیا ہے۔ مجھے اپنی پناہ میں لے لیں مسعود بھائی۔ آپ اللہ والے ہیں خدا کے لیے مجھے اپنی پناہ میں لے لیں۔‘‘ اس نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں بھائی۔ بُری بات ہے توبہ کرو۔ اللہ کے سوا کسی سے پناہ نہ مانگو۔ کسی میں کسی کو پناہ دینے کی قوت نہیں ہے سوائے اللہ کے۔‘‘
’’میں تھک گیا ہوں۔ آہ میں اس سے بچنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اپنے دل سے اس کا خوف بالکل نکال دو۔ اب وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ آئو یہاں سے چلتے ہیں، آئو۔‘‘ میں نےاسے دلاسہ دیا اور پھر اسے ساتھ لے کر مزار سے بہت دُور نکل آیا۔ اتفاق سے وہاں پہنچ گیا تھا جہاں گنگا دھرجی کی چھولداری لگی ہوئی تھی۔ وہ جگہ خالی تھی صرف چند نشان نظر آ رہے تھے۔ میرے قدم وہیں رُک گئے اور پھر میں وہیں بیٹھ گیا۔ میں نے اکرام کو دیکھا۔ اس کا چہرہ خوف سے سفید ہو رہا تھا۔ وہ بولا۔ ’’اب میں کیا کروں مسعود بھائی…؟‘‘
’’یہیں آرام کرو…!‘‘
’’آپ، آپ اب سو جائیں گے اور اگر وہ آ گیا تو… تو مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا!‘‘
’’میں تمہارے گرد حصار بنائے دیتا ہوں۔ انشاء اللہ تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا۔ نماز آتی ہے تمہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’نماز پڑھا کرو۔ ہر بلا تم سے دُور رہے گی۔ ٹھہرو پہلے میں تمہارے گرد حصار بنا دوں۔ میں نے درود پاک کا تحفظ اپنے اور اس کے لیے حاصل کیا اور پھر پورے اعتماد کے ساتھ حصار میں بیٹھ گیا۔ مجھے خوش دلی سے اپنے بارے میں کچھ بتائو گے اکرام احمد…؟‘‘
’’آپ حکم دیں گے تو ضرور بتائوں گا۔‘‘
’’حکم نہیں۔ اگر تمہارا دل چاہے تو… ورنہ کوئی مجبوری نہیں ہے۔‘‘
’’میرا دل چاہتا ہے۔ کیونکہ، کیونکہ میں نے اس کے طلسم میں گرفتار ہو کر دو بار آپ کی جان لینے کی کوشش کی ہے۔‘‘
’’میں نے تمہیں بے گناہ قرار دیا ہے۔‘‘
’’شکریہ مسعود بھائی۔ آپ نے مجھ پر اعتبار کرلیا ورنہ آپ کی جگہ اور کوئی ہوتا تو نہ جانے میرا کیا حال کرتا۔ اپنا نام بتا چکا ہوں۔ میں نے اور میری بہن نے بچپن ہی سے دُکھ اُٹھائے ہیں۔ بڑی انوکھی کہانی ہے میری۔ میں بستی جوناپوری کا رہنے والا ہوں۔ میرے والد نظام احمد مرحوم ایک مسجد کے پیش امام تھے۔ اپنے اُصولوں میں بہت سخت تھے وہ۔ پھر گھروالوں کے ساتھ بھی ان کا یہی سلوک تھا۔ ہولی کے موقع پر کسی ہندو نے ان پر رنگ پھینک دیا۔ انہوں نے اسے اتنا مارا کہ وہ مر گیا۔ والد صاحب گرفتار ہوگئے اور انہیں موت کی سزا ہوگئی۔ ان کی موت کے بعد ہم بے سہارا ہوگئے۔ ہمارے جینے کا اور کوئی سہارا نہیں تھا۔ ماں، والد صاحب کی گرفتاری کے بعد سے ہی بیمار رہنے لگی تھیں۔ فاقہ کشی اور بے کسی کی زندگی گزرنے لگی اور ہم بستی کےہندوئوں کی نفرت کا الگ شکار تھے۔ رشتے کے ایک ماموں بھٹنڈہ میں رہتے تھے مجبور ہو کر ہم بھرسنڈہ چلے گئے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔ بھٹنڈہ کے نام کے ساتھ مجھے مہاوتی یاد آ گئی تھی مگر پھر یہ بھی یاد آ گیا کہ عالم استغراق میں اس نوجوان کو میں نے مہاوتی کی قید میں دیکھا تھا۔
’’بھٹنڈہ …‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ہوں۔ پھر؟‘‘
’’ماموں خود غریب آدمی تھے بال بچوں والے تھے۔ ہمارے ساتھ مہربانی سے پیش آئے مگر ہمارے لیے کچھ کر نہ سکے۔ ماں کا انتقال ہوگیا۔ کچھ عرصہ کے بعد ماموں بھی مر گئے اور میں محنت مزدوری کر کے اپنی بہن کا پیٹ بھرنے لگا۔ بھرسنڈہ ماموں کی وجہ سے آیا تھا۔ نہ وہ رہے نہ ماں رہی، چنانچہ میں بہن کو لے کر جوناپوری واپس آ گیا۔ یہاں زندگی کچھ بہتر گزرنے لگی مگر بہن کا خیال دل میں چٹکیاں لیتارہتا تھا۔ وہ اب میری ذمّے داری تھی اور اس کے مستقبل کے لیے میں پریشان رہتا تھا مگر کچھ نہیں بن پا رہا تھا۔ وقت گزرتا رہا مگر میرے حالات خراب تر ہوتے گئے۔ جہاں نوکری کرتا تھا، وہاں کچھ دوست بن گئے تھے۔ یہ جوا اور سٹّہ کھیلتے تھے۔ انہوں نے مجھے بھی سٹّہ کھیلنے کی لت لگا دی اور میں باقاعدہ سٹّہ کھیلنے لگا۔ کبھی تھوڑا بہت جیت بھی جاتا تھا مگر اس طرح کہ بعد میں سب برابر ہو جاتا تھا۔ دیوان لال میرا دوست تھا، وہ سٹّے کا نمبر معلوم کرنے کے لیے جنتر منتر کرتا رہتا تھا۔ جوگیوں، سنیاسیوں اور سادھو سنتوں کے پھیرمیں پڑا رہتا تھا۔ ایک دن شمشان گھاٹ پر ایک سادھو دھونی رمائے نظر آ گیا۔ بڑا بدشکل آدمی تھا۔ دیوان لال وہاں جا کر بیٹھ گیا۔
سادھو مہاراج کی آنکھیں بند تھیں اور وہ کوئی منتر پڑھ رہے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر ایک نئی جلی ہوئی چتا موجود تھی۔ جس میں بہت سی انسانی ہڈیاں نظر آ رہی تھیں، سادھو مہاراج کچھ دیر تک منتر پڑھتے رہے۔ پھر انہوں نے بند مٹھی کھولی اور چتا کی طرف ہاتھ اُٹھا دیا۔ ہم نے دیکھا کہ جلا ہوا مردہ جس کی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں، اپنی ہڈّیاں سمیٹ کر اُٹھنے لگا اور پھر چتا سے نکل کر سادھومہاراج کےسامنے پہنچ گیا۔ دیوان لال تو دہشت سے چیخ مار کر بھاگ گیا تھا لیکن میرے اعصاب شل ہوگئے تھے۔ میں وہاں سے بھاگنے کی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا اور وہیں بیٹھا تھر تھر کانپنے لگا لیکن دیوان لال کی چیخ پر سادھو مہاراج چونک پڑے اور انہوں نے بھاگتے ہوئے دیوان لال کو دیکھا۔ پھر ان کی نظریں مجھ پر آ کر ٹک گئیں۔ ان کی آنکھوں میں شدید غصّے کے آثار تھے اور وہ بری طرح سُرخ ہو رہی تھیں، لیکن رفتہ رفتہ میں نے محسوس کیا کہ ان کی آنکھوں کا غصّہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور ان کے چہرے پر حیرت کے آثار بکھر گئے ہیں۔ پھر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور انہوں نے سیدھا ہاتھ اُٹھا کر سامنے کھڑے ہوئے مؤدب مردے کو اشارہ کیا اور بولے۔ ’’جا، بھاگ جا، بھاگ جا۔‘‘ اور مردہ خاموشی سے واپس جاکر اپنی چتا میں لیٹ گیا۔ سادھو مہاراج دلچسپی کی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ پھرانہوں نے کہا۔
’’کیا باتن ہے بالکا، کیسے آ بیٹھا میرے پاس اور کون تھا وہ کم دلا جو بھاگ گیا…‘‘ میرے منہ سے خوف کے مارے آواز نہیں نکل پا رہی تھی، بمشکل تمام میں نے ہاتھ اُٹھائے اور انہیں جوڑ کر عاجزی سے بولا۔
’’معافی چاہتا ہوں سادھو مہاراج معافی چاہتا ہوں۔ وہ کم بخت دیوان لال مجھے اپنے ساتھ لے آیا تھا ورنہ… ورنہ میں آپ کو پریشان نہ کرتا…‘‘
’’نہیں نہیں کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔ سٹّے کا نمبر معلوم کرنے آیا ہے نا…؟‘‘
’’جی جی… جی مہاراج‘‘
’’دولت کمانا چاہتا ہے ایں… دولت کمانا چاہتا ہے۔‘‘ سادھو مہاراج ہنستے ہوئے بولے۔ میری ہمت بندھ گئی، وہ مجھ سے مہربانی سے پیش آرہے تھے، میں نے گردن جھکا کر کہا…
’’بہت غریب آدمی ہوں مہاراج۔ اگر آپ مہربانی کر دیں تو میری مشکل دُور ہو سکتی ہے۔‘‘
’’مشکل تو ہماری بھی دُور ہو سکتی ہے بالک، چل ٹھیک ہے نام کیا ہے تیرا…؟‘‘
’’اکرام احمد۔‘‘ میں نے جواب دیا اور سادھو مہاراج کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ بڑی مکروہ اور خوفناک ہنسی تھی ان کی، مجھے بے حد ڈر لگا لیکن میں نے خود کو سنبھالے رکھا۔ ہو سکتا ہے دیوان لال کی تقدیر میں دولت نہ ہو اور میرا کام بن جائے، ایسے لاتعداد واقعات سنے تھےمیں نے۔ اور اس وقت سادھو مہاراج کی نرمی یہی بتا رہی تھی کہ میرا کام بننے والا ہے۔ ان کی ہنسی کی وجہ اس وقت میری سمجھ میں بالکل نہیں آئی تھی۔ انہوں نے کہا۔
’’سات اور نو کھیل لے، جا سات اور نو کھیل لے، اور یہ لے پیسے، تیرے پاس تو بہت تھوڑے پیسے ہوں گے۔ یہ سارے پیسے سات اور نو پر لگا دے، جا چل بھاگ جا۔ یاد رکھنا ہمیں، یاد رکھنا…‘‘
میں نے اپنے دل میں بے پناہ خوشی محسوس کی، سادھو مہاراج نے مجھے مٹھی بھر کے چاندی کے روپے دیئے تھے، جنہیں میں نے بڑی عقیدت سے قبول کر لیا تھا۔ اتنے روپے سچی بات یہ ہے کہ سالہا سال سے نہیں دیکھے تھے میں نے، سٹّے کا نمبر نہ بھی لگاتا تو یہ روپے ہی میرے لیے بہت دن تک کام دے سکتے تھے۔ وہاں سے پلٹا، خوشی سے قدم بوجھل ہو رہے تھے، بنواری لال کی دُکان پہ آ کر میں نے سات اور نو کے نمبر لگا دیئے، سارے روپے لگا دیئے اور وہ بھی جو اپنے پاس موجودتھے۔ اس خیال کےتحت کہ شاید میرا کام بن ہی جائے۔
اور یہی ہوا، نمبر نکلا اور اتنی دولت مل گئی مجھے کہ میں نیم بے ہوشی کی کیفیت میں گھر میں داخل ہوا۔ بہن کے سامنے دولت کے انبار لگا دیئے تو اس پر بھی نیم غشی کی سی کیفیت طاری ہوگئی، اس نے کہا۔
’’بھیّا کہاں سے لے آئے یہ پیسے، خدا کے لیے سچ بتائو، کہیں، کہیں کوئی غلط کام تو نہیں کیا…؟‘‘
’’پاگل ہے تو، بس یہ سمجھ لے، ہمارے دلدّر دُورہوگئے، تو بھی عیش کرے گی اور اب دیکھنا کہ میں بھی کیا کرتا ہوں۔ کھانے پینے کا سامان لایا۔ مجھے وہ شام یاد ہے مسعود بھائی، میری بہن بہت خوش تھی، میں بھی بے پناہ خوش تھا۔ ہم نے پیسے زمین میں ایک ہنڈیا میں رکھ کر دفن کر دیئے، بس اتنے نکال لیے کہ ہمارا کام چلتا رہے۔ تھوڑے سے پیسے میں نے دیوان لال کے لیے بھی نکال لیے تھے اور دوسرے دن دیوان لال میرے پاس آگیا۔ اسے پتہ چل گیا تھا کہ میں سٹّے میں بہت بڑی رقم جیتا ہوں۔ وہ افسوس کرنے لگا کہ وہ ڈر کر کیوں بھاگ آیا۔ بہرحال اچھا آدمی تھا، کوئی خاص بات نہ کی اس نے بلکہ پیسے لینے سے بھی انکار کیا جو میں نے اس کے لیے نکالے تھے۔ لیکن میں نے اپنے دوست کو محروم نہیں رکھا اور اسے کو مجبور کردیا۔ دُوسرا اور تیسرا دن گزر گیا، سٹّے کا نمبر ایک بار لگ گیا تھا اور میرے دل میں یہ آرزو تھی کہ خدا کرے سادھو مہاراج پھر سے مل جائیں۔ وہاں پہنچا جہاں سادھو مہاراج کو دیکھا تھا لیکن شمشان گھاٹ کے پاس وہ جگہ خالی پڑی ہوئی تھی۔ البتہ دیوان لال مجھے وہاں مل گیا تھا، مجھے دیکھ کر کھسیانی سی ہنسی ہنس کر خاموش ہوگیا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ سادھو مہاراج کی تلاش میں آیا ہے لیکن اب وہ موجود نہیں تھے۔ رات کے تقریباً ساڑھے آٹھ بجے ہوں گے۔ سردیوں کی راتوں میں ساڑھے آٹھ بجے کا مقصد یہ ہے کہ رات آدھی کے قریب ہوگئی۔ بستی سنسان پڑی تھی کسی نے ہمارے دروازے پر دستک دی… میں نے دروازہ کھولا اور سادھو مہاراج کو دیکھ کر حیرت سے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ مسکرا دیئے اور بولے…
’’اندر آنے کو نہیں کہے گا بالک…؟‘‘
’’آپ… آیئے… آیئے سادھو مہاراج۔ مجھے اُمید نہیں تھی کہ آپ میرے اس غریب خانے پر بھی تشریف لے آئیں گے…‘‘ سادھو مہاراج اندر آ گئے، دالان سے گزر کر انہوں نے کوٹھے کے دروازے سے قدم رکھا اور پھر اُچھل کر پیچھے ہٹ گئے۔ یوں لگا کہ جیسے ان کےبدن کو بجلی کا جھٹکا لگا ہو… ایک لمحے کے لیے ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار پھیل گئے۔ پھر وہ آہستہ سے بولے…
’’آ باہر آ، تجھ سے بات کرنی ہے۔‘‘
’’آپ اندر آ جایئے مہاراج۔ آپ کا گھر ہے۔ آ جایئے اندر۔‘‘ مگر مہاراج اندر آنے کےبجائے گھر کے دروازے سے باہر نکل گئے تھے۔ میں ان کے ساتھ باہر آ گیا تھا۔ کافی دُور پہنچ کر وہ ایک پلیا پر بیٹھ گئے۔ پھر مجھے دیکھ کر بولے۔ ’’نمبر لگا تھا؟‘‘
’’ہاں مہاراج۔ آپ کی مہربانی سے میرے دن پھر گئے۔‘‘
’’ہونہہ۔ دن پھر گئے۔ تو انہیں دن پھرنا کہتا ہے۔ چار پیسوں میں کہیں دن پھرتے ہیں۔‘‘ سادھو مہاراج نے کہا۔
’’ہم بہت غریب لوگ ہیں مہاراج۔ ہمارے لیے تو یہ پیسے بڑا خزانہ ہیں۔‘‘
’’ماتا پتا مر چکے ہیں تیرے؟‘‘
’’ہاں مہاراج۔‘‘
’’اور کون ہے گھر میں؟‘‘
’’بس ایک بہن ہے۔‘‘
’’ہوں۔ بہت محبت کرتا ہوگا تو اس سے؟‘‘
’’جی سادھو جی، دُنیا میں اب میرا اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ آپ اندر آیئے۔ بیٹھئے مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
’’نہیں۔ وہاں تیری عبادت کی کتاب رکھی ہے، دھرم کتاب۔ تیرے پتا کیا کرتے تھے؟‘‘
’’مسجد میں پیش امام تھے۔‘‘
’’چل چھوڑ، ایک بات بتا۔‘‘
’’جی مہاراج۔‘‘
’’جنتر منتر سے لگائو ہے تجھے۔ کوئی چلّہ کھینچے گا، کچھ سکھائوں تو سیکھے گا؟ یہ بھاگ ہیں تیرے کہ ہم تجھے کچھ سکھانا چاہتے ہیں ورنہ ہزاروں ہمارے پیچھے ہاتھ باندھے پھرتے ہیں۔‘‘
’’چلّے سے کیا ہوگا سادھو مہاراج؟‘‘
’’پھر تجھے کسی سے سٹّے کا نمبر نہیں پوچھنا پڑے گا۔ لکشمی تیری داسی ہوگی۔ جدھر اُنگلی اُٹھاوے گا سونے کے انبار لگ جائیں گے۔ راج رانی ہوگی تیری بہن، جیون سوارت ہو جائے گاتیرا۔ اس کے بدلے میں تجھے ہمارے کچھ کام کرنے ہوں گے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ بعد میں بتا دیں گے تجھے۔‘‘
’’میں منتر سیکھنا چاہتا ہوں مہاراج۔‘‘
’’ہاتھ دے ہمارے ہاتھ میں…‘‘ سادھو نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ بولا۔ ’’بہت بڑے کام کا بیڑا اُٹھایا ہے تو نے، نبھا سکے گا؟‘‘
’’کیوں نہیں مہاراج۔‘‘
’’بیچ سے تو نہیں بھاگے گا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پھر یوں کرنا۔ کل شمشان گھاٹ آ جانا۔ دن کے بارہ بجے سے کچھ پہلے، ٹھیک بارہ بجے ہم تجھ سے وچن لیں گے اور سن اپنی بہن سے کہہ آنا کہ کچھ دنوں کے لیے کہیں جا رہا ہے۔ کوئی چالیس دن لگ جائیں گے واپسی میں۔‘‘
’’چالیس دن…!‘‘ میں نے گھبرا کر کہا۔
’’پورے چالیس دن‘‘۔
’’مگر میری بہن اکیلی رہے گی!‘‘
’’سو تو ہے مگر اس کے بعد تو کیا ہوگا یہ سوچ بھی نہیں سکتا تو… جتنی چاہے گا دولت حاصل کر لے گا۔ جس طرف نظر اُٹھاوے گا لوگ نظریں جھکادیں گے تیرے سامنے۔ تیرا بڑا مقام ہوگا۔ غریبوں کو امیر اور امیروں کو پلک جھپکتے غریب بنا دے گا تو… کوئی دَم نہ مارے گا تیرے سامنے۔ بہن کو اپنی پسند سےجہاں چاہنا بیاہنا۔ بول کیا کہتا ہے؟‘‘
میری آنکھوں میں نہ جانے کیا کیا خواب سما گئے تھے۔ میں نے جلدی سے کہا۔ ’’میں تیار ہوں۔‘‘
’’کل تک اور سوچ لینا!‘‘
’’میں نے سوچ لیا ہے۔‘‘
’’وچن دینا پڑے گا تجھے، سوگند کھانی پڑے گی اور جب سوگند کھائے گا تو اسے نبھانا پڑے گا۔ نہیں نبھائے گا تو مصیبتوں میں پھنس جائے گا پھر چھٹکارا مشکل ہوگا۔‘‘
’’میں تیار ہوں مہاراج…‘‘
’’کل بارہ بجے آ جانا…!‘‘
’’آ جائوں گا۔‘‘ میں نے جواب دیا اور سادھو ایک دم واپسی کے لیے مڑ گیا۔ میں نے اس کے پیچھے قدم اُٹھانے چاہے مگر ہل بھی نہیں سکا۔ میرے قدم جم گئے تھے پھر جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تو میرے پائوں کھل گئے۔ مجھے بڑا خوف محسوس ہوا تھا مگر میں نے خود کو سنبھال لیا اور گھر کے اندر آ گیا۔ بہن کو میں نے اصل صورت حال نہیں بتائی تھی اور سادھو مہاراج کے بارے میں یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ دیوان لال کے رشتے دار تھے اور میری نوکری کے لیے آئے تھے۔
’’نوکری کے لیے؟‘‘ میری بہن نےپوچھا۔
’’ہاں دیوان لال کے کہنے پر انہوں نے میرے لیے ایک بڑی اچھی نوکری تلاش کی ہے۔‘‘
’’سچ بھیّا۔ یہ تو بڑی اچھی خبر ہے۔‘‘
’’ہاں کل مجھے جانا ہوگا۔ بستی کے باہر شاید چندوسی۔ واپسی میں مہینہ سوا مہینہ لگ جائے گا۔‘‘
’’اور میں اکیلی رہوں گی کیا؟‘‘
’’شمشاد چچا سے کہہ جائوں گا۔ حسینہ چچی تیری خبر رکھیں گی۔ پیسے تیرے پاس موجود ہیں کسی کو ہوا تک لگنے نہ دینا۔ آرام سے نکال نکال کر خرچ کرتی رہنا۔ سوا مہینے کے بعد میں واپس آ جائوں گا اور اگر نوکری اچھی ہوئی توتجھے بھی ساتھ لے جائوں گا۔‘‘ میری معصوم بہن تیار ہوگئی۔ شمشاد چچا اور حسینہ چچی ہمارے پڑوسی تھے اور بڑےہمدرد لوگ تھے۔ ہمارا بہت خیال رکھتے تھے۔ میں نے ان دونوں کو بھی یہی کہانی سنائی اور اس طرح اپنی بہن کے لیے بندوبست کر دیا۔ ساری رات خوشی کے مارے نیند نہیں آئی تھی۔ نہ جانے کیا کیا سوچتا رہا تھا میں مسعودبھیّا۔ خوبصورت کوٹھیاں، شاندار کاریں اور نہ جانے کیا کیا۔ دوسرے دن اسی طرح تیاریاں کیں جیسے شہر سے باہر جا رہا ہوں۔ بارہ بجے سے پہلے شمشان گھاٹ پہنچ گیا۔ مگر وہاں بہت سے لوگ موجود تھے۔ نئی چتا بنائی گئی تھی اور کسی مردے کی ارتھی لائی جا رہی تھی۔ میں وہاں سے دُور ہٹ گیا اور ایک سنسان گوشے میں جا بیٹھا۔ ٹھیک بارہ بجے اچانک میرے پیچھے آہٹ ہوئی اور میں نے سادھو کو وہاں کھڑے پایا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرا دیا۔‘‘
’’آ گیا بالک؟‘‘
’’ہاں مہاراج۔‘‘
’’ادھر تو مردہ جلایا جا رہا ہے۔‘‘
’’ہاں۔ میں تو پریشان ہو گیا تھا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’سوچ رہا تھا کہ کہیں ان کی وجہ سے آپ یہاں نہ آئیں۔‘‘ جواب میں سادھو نے قہقہہ لگایا اور بولا۔
’’تماشا دیکھے گا؟‘‘
’’تماشا؟‘‘
’’ہاں۔ میری شکتی کا تماشا۔ شاید تو مجھے کوئی معمولی جوگی یا سنیاسی سمجھتا ہے۔ بائولے میں شنکھا ہوں۔ پدم شنکھا۔ بھوریا چرن ہے میرا نام۔ کالے جادو کے سنسار کا سب سے بڑا نام ہے یہ۔ دیکھ تجھے تماشا دکھاتا ہوں، ادھر دیکھ۔‘‘ اس نے مجھے ان لوگوں کی طرف متوجہ کیا جو چتا کے قریب تیاریوں میں مصروف تھے۔ ارتھی چتا کے قریب رکھی ہوئی تھی۔ پنڈت اشلوک پڑھ رہا تھا۔ اچانک ارتھی پر پڑے ہوئے مردے نے ایک چنگھاڑ ماری اور آس پاس کھڑے لوگ چونک کراُسےدیکھنے لگے۔ یہاں سے مردہ صاف نہیں نظر آ رہا تھا لیکن اس کے بدن میں جنبش محسوس ہو رہی تھی۔ پھر اس نے اپنے بدن پر چمٹے ہوئے کپڑے کے بند توڑ دیئے اور دوسری چنگھاڑ مار کر کپڑے اُتار پھینکے۔ قریب کھڑے لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ وہ چیختے چلّاتے ایک دوسرے کو پھلانگتے جدھر منہ اُٹھا دوڑ پڑے۔ اس طرح سر پر پائوں رکھ کر بھاگے تھے وہ کہ بتا نہیں سکتا۔ مردہ ارتھی کے قریب کھڑا ہوا تھا۔ آن کی آن میں لوگوں کا صفایا ہوگیا۔ اب وہاں چڑیا کا بچہ بھی نہیں نظر آ رہا تھا۔ بس اکیلا مردہ ساکت کھڑا تھا۔ سادھو نے ہنس کر کہا۔
’’اب بول…!‘‘ مگر میں کیا بولتا۔ خوف کے مارے خود میرا بدن پسینہ چھوڑ رہا تھا۔ ’’انہیں بھگا دینا کچھ مشکل ہوا ہمارے لیے۔‘‘
’’نن۔ نہیں مہاراج… مگر وہ مردہ… کیا وہ زندہ ہے؟‘‘
’’بالکل نہیں۔‘‘
’’پھر…؟‘‘
’’ہماری شکتی سے کھڑا ہے۔ اس کے اندر ہمارا بیر گھس گیا ہے اس نے سب کو ڈرا کر بھگا دیا۔‘‘ وہ ہنس کر بولا۔
’’اب کیا ہوگا؟‘‘
’’اسے چتا میں پہنچائے دیتے ہیں۔ اس بے چارے کی چتا چھیننے سے کیا فائدہ۔‘‘ وہ بولا۔ میری نظریں اس طرف تھیں۔ اچانک میں نے مردے کے بدن میں جنبش دیکھی وہ جھکا اور اپنے کپڑے وغیرہ سمیٹنے لگا۔ پھر اس نے خود ہی انہیں اپنے بدن پر لپیٹا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا چتا میں داخل ہوگیا۔ اس کے بعد وہ چتا پر لیٹ گیا۔ پھر اچانک سادھو کے منہ سے آگے کا ایک شعلہ نکلا اور پرواز کرتا ہوا چتا کی لکڑیوں سے جا ٹکرایا۔ میں نے لکڑیوں کو آگ پکڑے دیکھا۔ سادھو مسلسل منہ سے شعلے اُگل رہا تھا اور میں چتا میں ہر طرف آگ لگتے دیکھ رہا تھا۔ خوف سے میری بری حالت تھی۔ یہ سادھو تو میری توقع سے کہیں زیادہ تھا۔
اوّل تو مجھے کالے جادو جیسی کسی چیز سے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا، اس قسم کے سٹّے کے نمبر بتانے والے سادھو اور سنیاسی تو کبھی کبھی سڑکوں پر بھی مل جاتے ہیں، میں اسے ایسا ہی کوئی سادھو سمجھا تھا لیکن اب جوکچھ میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں وہ ناقابل یقین تھا۔ وہ کالی قوتوں کا مالک تھا اور اس کا مجھے بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔ کہیں کسی مصیبت میں نہ پھنس جائوں، میں سوچ رہا تھا لیکن جو کچھ اس نے مجھ سے کہا تھا اور جو سبز باغ دکھائے تھے اگرواقعی میری کوششوں سےوہ مجھے حاصل ہو جائے تو کتنا لطف آ جائے گا، زندگی کا رنگ ہی بدل جائےگا۔ اس خیال کےتحت اپنے آپ کو سنبھالا اور چتا کاجائزہ لینے لگا جس نے مردے کو جلا کر خاک کر دیا تھا۔ سادھو کہنے لگا۔
’’اب چھوڑ ان باتوں کو، تو نے کہا تھاکہ ان لوگوں کے آ جانے کی وجہ سے کہیں ہمارا کام بھنگ نہ ہو جائے، سو میں نے تجھےیہ بتا دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میری مہان شکتی ہر وہ کام کر سکتی ہے جو میں چاہوں۔ سو بالکا اب جوکچھ میں تجھے بتا رہا ہوں وہ کر، تاکہ تو میری پناہ میں آ جائے… تو مسلمان کا بیٹا ہے نا…؟‘‘
’’ہاں مہاراج…‘‘
’’تیرے دھرم نے تجھے کیا دیا…؟‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’بس یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ دین دھرم ڈھکوسلے ہوتے ہیں اور منش بس ان کی لکیر پر چلتا رہ جاتا ہے۔ اصل دھرم کالی شکتی ہے جس سے منش کو طاقت حاصل ہوتی ہے۔ دین دھرم بعد کی باتیں کرتے ہیں کہ یہ ملے گا وہ ملے گا۔ مگر کالی شکتی وہ چیز ہے جس سے فوراً ہی منوکامنا پوری ہو جاتی ہے۔ تو بتا وہ بڑی یا یہ…‘‘ مسعود بھیّا میری معلومات بہت زیادہ نہیں تھیں، کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا تھا ایسی معلومات سے، یہ بات اس وقت میرے ذہن میں نہیں آئی کہ شیطان اسی طرح تو بہکاتا ہے۔ اسی طرح تو وہ انسان کو مذہب سے منحرف کرتا ہے۔ یہی تو شیطینت ہے، انسان اسی سے بچ جائے تو انسان رہتا ہے ورنہ شیطان بن جاتا ہے اور اس وقت میں ایک شیطان کے قبضے میں تھا مکمل طور پر۔ اس کی باتیں میرے دل میں تو نہیں اُتر رہی تھیں لیکن میں سوچ ضرور رہا تھا ان باتوں پر۔ اس نے کہا۔
’’بیٹھ جا، جیسے ہم بیٹھے ہیں ویسے بیٹھ جا۔ اب ہم اپنا کام شروع کرتے ہیں۔‘‘ سورج آسمان کے بیچوں بیچ اَٹکا ہوا تھا، دُھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے سادھو کو پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے دیکھا۔ غالباً اس انداز سے بیٹھنے کو آسن رمانا کہتے ہیں، اس نے آسن رمایا۔ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے، گردن سیدھی کی، سینہ تانا اورمجھ سے بھی ایسے ہی بیٹھنے کیلئے کہا۔ میں نے اس کے حکم کی تعمیل کی تھی۔ وہ میری آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ بڑی مقناطیسی چمک تھی اس کی آنکھوں میں، مجھے ان سے شعلے اُگلتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔ بدن میں بار بار تھرتھری پھیل جاتی تھی لیکن میں خود کو سنبھالنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ اس نے کہا۔
’’بول سوچے لم…‘‘ میں نے اپنے منہ سے وہی الفاظ ادا کئے۔ پھر اس نے کچھ اور ایسے ہی الفاظ میرے منہ سےنکلوائے اور اس کےبعد کہنے لگا۔
’’سوگند کھا سات سڑی ہوئی لاشوں کی، ساتھ پورنیوں کی، راجہ اندر کی، دھیرنا مکندی کی کہ آج سے تو میرے چیلوں میں شامل ہوا اور جو کچھ میں کہوں گا اس پر آنکھیں بند کر کے عمل کرے گا۔ منہ سے بول جو میں کہہ رہا ہوں…‘‘
میں اس کے کہنے کے مطابق دُہرانے لگا۔ اس نے تین بار مجھ سے یہ الفاظ کہلوائے اور پھر مسکرا کر بولا۔
’’اس طرح تو میرا چیلا بن گیا۔ اب میں تیرے ماتھے پر یہ تلک لگاتا ہوں اس نے زمین پر تھوکا۔ پیلے پیلے رنگ کا یہ بُودار تھوک تھا، اس نے انگوٹھا ڈبویا اور میرے ماتھے پر لکیر کھینچ دی۔ مجھے اپنی پیشانی جلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے کوئی جلتی ہوئی چیز میرے ماتھے سے لگا دی ہو، وہ مسکرا کر بولا…‘‘
’’تو رہے گا تو مسلمانوں کے بھیس میں مگر ہو جائے گا شدھی۔ نہ ہندو نہ مسلمان، کالی شکتی کا پجاری، کالے علم کا خادم، تو ہمیشہ بیر چتروں کی سیوا کرے گا۔ انہی کے کرموں پر چلے گا سمجھا۔
لوگ تجھے مسلمان سمجھیں گے پر تو کچھ اور ہی ہوگا۔ مسلمانوں کی طرح نمازیں پڑھے گا۔ دیکھنے والے یہی سمجھیں گے کہ تو مسلمان ہے مگر تو ہوگا کالی شکتی کا سیوک، سمجھا بالک تو کالی شکتی کا سیوک بن چکا ہے۔ اب اپنے آپ پرمان کر بہت سی طاقتیں تیری مٹھی میں آنے والی ہیں۔ اچانک ہی دل اندر سے کہنے لگا، جوکچھ وہ کہہ رہا تھا یہ تو مجھے قبول نہیں ہے، میرے کانوں میں تو پیدا ہوتے ہی اذان کی آواز پڑی تھی۔ میں نے تو ناہوشی کے عالم میں اللہ کا نام سنا تھا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کی ذات کو دھوکا دوں۔ نماز کیلئے جائے نماز پر کھڑا ہوں اور میرا دل گندگی میں ڈُوبا ہوا ہو۔ اندر شدید ترین ہلچل پیدا ہونے لگی۔ میں نے بے بسی سے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر میری نگاہیں اس پر گڑھ گئیں۔ وہ مسکرا رہا تھا، میری اندرکی کیفیت سے بے خبر اپنی کامیابی پر۔ پھر وہ مجھ سے بولا۔ ’’اسی طرح بیٹھ جا۔ اس طرح بیٹھا رے۔‘‘
’’مم مگر مہاراج…‘‘
’’نہیں بالک، اس سمے تک اب تو کچھ نہیں بولے گا جب تک میں تجھے بولنے کو نہ کہوں۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر ایک سمت چلا گیا۔ کچھ فاصلے پر پہنچ کر اس نے اپنے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کئے اور انہیں آہستہ آہستہ نیچے اُتارنے لگا۔ پھرمیں نے دیکھا کہ زمین پر ایک سفید رنگ کی گائے آ کھڑی ہوئی ہے۔ ساتھ ہی کچھ اور چیزیں بھی۔ پیتل کی ایک چمکدار گڑوی قریب رکھی ہوئی تھی۔ اس نے گائے کے سر پرہاتھ پھیرا اور پھر اسے اس کی کمر تک پھیرتا چلا گیا۔ گائے نے پیشاب کر دیا تھا۔ اس نے وہ گڑوی نیچے رکھ دی اور اس میں غلاظت بھرلی۔ پھر وہ مسکراتا ہوا گڑوی لیے میرے قریب پہنچ گیا۔‘‘
’’لے… اَمرت جل کچھ نہیں ہے اس کے سامنے، ہزار اَمرت مل جائیں گے تجھے۔ لے پی جا اسے…‘‘
’’دُوسرے لمحے میرے بدن میں جیسے چنگاریاں بھر گئیں۔ اچانک ہی میری پیشانی کی لکیر جلنے لگی، اچانک ہی میرے پورے وجود میں گڑگڑاہٹ پیدا ہوگئی۔ اچانک ہی میری آنکھوں سے شرارے اُبلنے لگے۔ اچانک ہی میں اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ چونک کرمجھے دیکھنے لگا تھا۔ میں نے غراتے ہوئے کہا…؟ کیا بک رہا ہے تو، یہ گائے کا پیشاب ہے۔‘‘
’’یہ امرت جل ہے، یہ ساری شکتیوں سے زیادہ شکتی مان ہے، اسے پی کر تو اَمر ہو جائے گا سمجھا… یہیں سے تو کالی شکتی کی ابتدا ہوتی ہے، بائولے اس کا اپمان کر رہا ہے تو…؟‘‘
’’سنو سادھو، لعنت بھیجتا ہوں میں تمہاری اس کالی طاقت پر۔ لعنت بھیجتا ہوں اس کالے جادو پر، تھوکتا ہوں اس دولت پر جو مجھ سے میرا ایمان چھین لے، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ خبردار اگر تم نے اس قسم کی کوئی بات مجھ سے کی۔‘‘ میں نے اُچھل کر اس کے ہاتھوں پر لات ماری اور پیتل کی چمکدار گڑوی اُچھل کر کافی دُور جا گری۔ وہ ایک دَم خونخوار ہوگیا تھا۔ میں نے اپنی پیشانی سے اس کا غلیظ تھوک بھی صاف کر دیا اور اُچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے اس سے کہا۔
’’نہیں سادھو، دُنیا کی ہر چیز دے سکتا ہوں اپنے دین کے علاوہ۔ میں اپنے مذہب سے کسی بھی طرح نہیں ہٹ سکتا۔ میں اپنے دھرم کوکبھی بھی فریب نہیں دے سکتا۔ کیا ہے میرے پاس، زندگی ہی گزارنی ہے نا گزار لوں گا، غریب رہ کر ، محنت مزدوری کر کے۔ سوکھے ٹکڑے کھا کر، لیکن وہ نہیں کروں گا جو تو کہہ رہا ہے۔ تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا۔ ان سونے چاندی کے ٹکڑوں کے عوض تو مجھ سے میرا ایمان چھیننا چاہتا ہے، لعنت ہے تیری شکل پر، غلطی میری ہی تھی شیطان کے بچّے کہ میں دولت کی وجہ سے تیرے فریب میں آ گیا۔ اب مجھے یہ دولت نہیں چاہئے۔‘‘
اس کا چہرہ سُرخ سے سُرخ تر ہوتا جا رہا تھا اور آنکھیں خون اُگلنے لگی۔ تھیں اس نے غرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’دھت تیرے کی۔ سارے کے سارے ایسے ہی کمینے نکلتے ہو تم۔ سارے کے سارے ایسے ہی ہو۔ ایک وہ تھا جس نے جیون ختم کر لیا اپنا آج تک کتوں کی طرح سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا ہے مگر دھرم شکتی چاہئے دھرم شکتی، کالی شکتی چھوڑ کر دھرم شکتی چاہئے۔ ٹھیک ہے رے ٹھیک ہے۔ دیکھوں گا تم لوگ کب تک مجھے شکست دیتے رہتے ہو، ارے تم ہی ہو کمینے، کسی کا احسان نہیں مانتے۔ میں نے تجھے سوکھے ٹکڑوں کے سنسار سے نکال کر عیش و عشرت کی دُنیا میں لانا چاہا مگر، مگر…‘‘
’’اس وقت مجھے کچھ نہیں معلوم تھا مسعود بھیّا کہ وہ یہ بکواس کس کے بارے میں کر رہا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ جس کا وہ تذکرہ کر رہا ہے وہ تم ہو۔‘‘
’’یہ کیسے پتہ چلا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’حالات سے…‘‘
’’حالات کیا تھے۔‘‘
’’تھوڑی سی کہانی اور رہ گئی ہے۔ اس سے پتہ چل جائے گا۔‘‘
’’ایں۔ ہاں ٹھیک ہے۔‘‘ اکرام چند لمحات خاموش رہا پھر بولا۔ وہ گرجتا برستا رہا۔ پھر اچانک خاموش ہوگیا، کچھ سوچنے لگا۔ پھر ایک دَم ہنس پڑا۔
’’واہ رہے واہ۔ واہ رہے واہ۔‘‘ تو نے تو ایک نیا راستہ دکھا دیا مجھے۔ پہلے میں نے سوچا تھا کہ ’’تجھے ایک نیا رُوپ دوں۔ اُوپر سے مسلمان، اندر سے کچھ اور، پھر جب تو اس پاپی کے سامنے آئے تو وہ آسانی سے تجھ سے دھوکا کھا جائے۔ تیرے ہاتھوں ماروں اسے۔ مگر نہ سہی، تو مسلمان رہ، پکا مسلمان۔ بس میرا ایک کام کرنا ہوگا تجھے۔‘‘
’’میں اب تجھے سمجھ چکا ہوں شیطان، کوئی کام نہیں کروں گا میں تیرا۔ یہاں رُکوں گا بھی نہیں۔‘‘
’’کرے گا، کرے گا، کرنا پڑے گا تجھے۔ نہ رُک، بھاگ جا… ٹھیک ہے بھاگ جا۔‘‘ وہ خود ایک طرف چل پڑا۔ میں نے بھی بستی کی طرف رُخ کیا۔ خود پر لعنت ملامت کر رہا تھا۔ لالچ نے اندھا کر دیا تھا۔ ایمان کھونے جا رہا تھا۔ تھو ہے ایسی دولت پر۔ بستی میں داخل ہوگیا۔ اپنے گھر کی طرف چل پڑا لیکن نہ جانے کیوں سر چکرا رہا تھا۔ سب کچھ اجنبی اجنبی لگ رہا تھا اور میرا گھر ہی یہاں موجود نہیں تھا۔ سب کچھ بدلا بدلا لگ رہا تھا۔ نہ جانے میرا گھر کہاں گیا۔ پاگلوں کی طرح اپنا گھر ڈھونڈنے لگا۔ پھر ایک آدمی کو روک کر پوچھا۔ ’’بھائی صاحب۔ یہ کون سا محلّہ ہے؟‘‘
’’گاچھی ٹولہ…‘‘
’’یہاں میرا گھر تھا۔‘‘
’’کہاں۔‘‘
’’وہ سامنے۔ یہی جگہ ہے۔ برابر میں چچا شمشاد رہتے تھے…!‘‘
’’کتنے سال پہلے کی بات ہے۔‘‘
’’سال نہیں، ابھی تھوڑی دیر پہلے تک۔‘‘
’’اس گھر میں رہتے ہیں پنڈت سادھا شنکر۔ برابر میں لالہ امرناتھ بزاز۔ کوئی بیس سال سے تو ہم دیکھ رہے ہیں۔ کہیں اور ہوگا تمہارا گھر۔‘‘ وہ شخص مجھے پاگل سمجھ کر آگے بڑھ گیا۔ آہ میرا گھر کھو گیا تھا۔ میرے دوست کھو گئے تھے۔ پورے جوناپوری میں کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ دیوان لال کے گھر گیا وہ بھی نہ ملا… اس کے گھر میں بھی کوئی اور رہتا تھا۔ خون کے آنسو رویا مسعود بھیّا۔ جوناپوری میں پیدا ہوا تھا، وہیں پلا بڑھا تھا مگر کوئی جاننے والا نہیں تھا وہاں۔ بہن بھی کھو گئی تھی میری، سب کچھ گم ہوگیا تھا۔ مہینہ گزر گیا پورا، حلیہ بدل گیا ایک دن اس ظالم سادھو کا خیال آیا۔ شمشان گھاٹ چل پڑا۔ وہ وہاں موجود تھا۔ مجھے دیکھ کر مسکرایا۔
’’آگئے مکتی میاں۔‘‘
’’میرا گھر کہاں گیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہمیں کیا معلوم…؟‘‘
’’تجھے معلوم ہے، تجھے سب کچھ معلوم ہے ذلیل۔‘‘
’’اوہو۔ ابھی تک بگڑے ہوئے ہو، ہم تو سمجھے تھے کہ دماغ ٹھکانے آ گیا۔ ہم سے سمجھوتہ کرنے آئے ہو۔‘‘
’’تو نے اپنے مکروہ علم سے میرا گھر گم کر دیا ہے۔ مجھے بتا میرا گھر کہاں ہے۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے ہم نے ایسا کر دیا ہے۔ کیا کر لو گے تم ہمارا۔‘‘
’’میں تجھے جان سے مار دوں گا۔‘‘ میں نے غیظ کے عالم میں کہا اور وہ ہنسنے لگا۔ ’’پھر بولا ٹھیک ہے پہلے تم ہمیں جان سے مار دو۔ پھر تم سے بات کریں گے۔‘‘
’’میری بہن کا پتا تو بتا دے ظالم، کچھ تو بتا دے مجھے۔‘‘
’’سب کچھ بتا دیں گے۔ جو کہو گے کریں گے تمہارے لیے۔ مگر ابھی نہیں، اس وقت جب تم ہمارا کام کر دو گے۔‘‘
’’کیا کام ہے تمہارا۔‘‘
’’ایسے نہیں بتائیں گے۔ جب تک تم من سے تیار نہ ہو جائو گے اور اب تو تمہیں سمجھنا پڑے گا۔ سسرے کچھ کئے بنا سب کچھ حاصل کر لینا چاہتے ہیں۔ وہ کمینہ بھی ایسے ہی آیا تھا گھوڑے دوڑانے۔ ریس جیتنے، سٹّہ جیتنے، ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آئے۔ سن رے… تجھے ایسے سارے کام کرنے پڑیں گے جو تیرے دھرم کے خلاف ہوں۔ چھوڑوں گا نہیں، کیا سمجھتا ہے تو مجھے۔ بھوریا چرن ہے میرا نام۔ شنکھا ہوں میں۔ تجھے سب کچھ کرنا پڑے گا ہمارے لیے ورنہ اس بار وہ کریں گے ہم جو پہلے نہ کیا تھا۔ وہ بھی تیری طرح تھا بالکل تیری طرح۔ ہم نے کہا پیر پھاگن دوارے پہنچا دے پر دھرم مہانتا اُبھر آئی، کتا بنا دیا سسرے کوہم نے بھی۔ یہی حشر تیرا ہوگا۔‘‘ اور مسعود بھیّا اس نے اس وقت مجھے تمہارے بارے میں تفصیل بتائی پھر بولا۔
’’پہلے ہم نے سوچا تھا کہ تجھے مسلمان بنائے رکھیں اور کالی شکتی سے ماریں پھر تو مسلمان بن کر اسے مارے۔ لوہے کو لوہا کاٹے۔ مگر تو نے ایک نیار راستہ دکھا دیا ہمیں۔ جوکام وہ نہ کر سکا وہ تو کر سکتا ہے کیونکہ تو اماوس کی رات کو پیروں کی طرف سے پیدا ہوا ہے۔‘‘
’’دیکھ بھوریا چرن میرا پیچھا چھوڑ دے۔ کوئی بھی مسلمان، اگر اس کےدل میں خدا کا خوف ہے تو ایسا غلیظ کام نہیں کرے گا۔ کالا جادو کفر ہے۔ ہم اسے نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کسی اور سے اپنا کام کرالے۔ میں یہ سب کچھ نہیں کروں گا۔‘‘
’’ارے چل پاجی۔ تو ہمارا کام نہیں کرے گا
تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے تیرے کام آنے کی۔ جا دفع ہو یہاں سے۔‘‘
’’مجھے میرا گھر بتا دے بھوریا چرن۔ ورنہ میں تجھے مار ڈالوں گا۔ پتھر مار مار کر ہلاک کر دوں گا تجھے۔‘‘ میں نے زچ ہو کر روتے ہوئے کہا اور ایک بڑا سا پتھر اُٹھا کر اس پر کھینچ مارا۔ مگر پتھر اس کے بدن سے گزر کر دُور جا گرا۔ پھر جتنے پتھر آس پاس پڑے تھے میں اُٹھا اُٹھا کر اس پر مارنے لگا مگر سارے پتھر اس میں سے گزر گئے اور وہ ہنستا رہا۔
’’اب ہمارا کھیل دیکھ۔‘‘ وہ بولا۔ ’’یہ ہے تیرا گھر… ہے نا…! اس نے کہا اور منظر بدل گیا۔ میں نے اپنا گھر دیکھا۔ اپنی بہن کو دیکھا۔ وہ گھر کے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی۔‘‘ اور یہ رہے ہم… اس نے کہا۔ میں نے بھوریا چرن کو دیکھا جو اچانک میری بہن کے سامنے پہنچا تھا اور وہ اسے دیکھ کر دہشت سے کھڑی ہوگئی تھی۔ پھر میں نے بھوریا چرن کو… میں نے مسعود بھیّا میں نے دیکھا کہ … کہ اس نے میری بہن کو دبوچ کر… اس کا منہ کھولا اور اور اس کی زبان چھری سے کاٹ دی۔ اس نے مزاحمت کی تو… اس نے چھری اس کے ہاتھوں پر ماری اس کے ہاتھوں کی اُنگلیاں کٹ گئیں۔ میری بہن کے منہ سے…‘‘ اکرام پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور اچانک میرے ذہن میں چھنّاکا سا ہوا۔ کٹی ہوئی اُنگلیاں کٹی ہوئی زبان… میں ایسی ایک شخصیت کا شناسا تھا۔
صرف شناسا ہی نہیں تھا بلکہ زندگی سے نفرت کرنے کے باوجود، کائنات کی ہر خوشی سے دور ہونے کے باوجود، وہ میرے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی۔ وہ ہر سانس کے ساتھ میرے دل میں کسکتی تھی۔ ماں، باپ، بہن، بھائی سے جدائی ہی میرے لئے کیا کم تھی کہ وہ میری زندگی میں ایک اور دکھ بن گئی تھی۔ مجھے متنبہ کیا گیا تھا، مجھے اس کی طرف بڑھنے سے روکا گیا تھا۔ مجھے احساس دلایا گیا تھا کہ خود کو سنبھالوں اور میں نے سینے پر پتھر رکھا تھا لیکن، لیکن مشکل لگ رہا تھا۔ آہ! بڑا مشکل لگ رہا تھا۔ اکرام کے منہ سے یہ سن کر ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تھے۔
اکرام نے بمشکل خود کو سنبھالا اور بولا۔ ’’یہ سب کچھ دیکھ کر میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ بہت بڑا جادوگر ہے۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور وہ مکروہ آواز میں ہنس پڑا۔
’’نراش ہوگئے تھے ہم مگر تو نے ہمارے من میں نئی جوت جگا دی ہے۔ کرم بھنڈار سے ایک موقع اور مل گیا ہے کھنڈولا بننے کا! ایک پائل یہ کام کرسکتا ہے۔‘‘
’’بھوریا چرن…!‘‘ میں نے لرزتی آواز میں کہا۔
’’بول… بول کیا کہتا ہے؟‘‘
’’جونا پوری سے میرا گھر کہاں گیا؟‘‘
’’گھر کہاں جاسکتا ہے بائولے! بس تجھے نہیں ملے گا۔ چاہے جیون بھر کوشش کرتا رہے۔‘‘
’’اور وہ جو میں نے دیکھا…؟‘‘
’’کیسا لگا؟‘‘ وہ ہنس کر بولا۔
’’کیا وہ سچ تھا…؟‘‘
’’کیا سچ ہے، کیا جھوٹ! ایسے تو نہیں پتا لگتا بالک۔ سچ ہے بھی اور نہیں بھی…! اگر ہے تو ’’نہیں‘‘ میں بدل سکتا ہے اور اگر نہیں ہے تو ’’ہے‘‘ میں بدل سکتا ہے۔ جیسے تو جہاں تھا، وہاں نہیں ہے اور جہاں نہیں تھا، وہاں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا لینا ہے اور کیا دینا ہے۔‘‘
’’میں تیری باتیں سمجھ نہیں سکتا بھوریا چرن!‘‘
’’ہائے یہی تو رونا ہے۔ بھاگ پھوٹے تو کس نسل کے ہاتھوں میں… مگر کوئی کیا کرے کالی شکتی اپنا دھرم کھونے سے نہیں مل جاتی۔ کھنڈولا بننے کیلئے کسی مہان دھرمی کے دوار بھرشٹ کرنے پڑتے ہیں، کسی کا دھرم چھیننا پڑتا ہے۔ خود یہ کام کرسکتے تو ہزار بار کرلیتے پاپیو! یہ کام تمہارا ہے۔ ارے سنسار میں اربوں ایسے ہیں جو ٹکے ٹکے کیلئے دھرم بیچتے پھرتے ہیں، ہر طرح سے دھرم بیچتے ہیں مگر مجھے ملے تو سسرے سب ایک جیسے!‘‘
’’میں اب بھی کچھ نہیں سمجھا بھوریا چرن!‘‘
’’اپنے چاروں طرف دیکھ!‘‘
’’کیا ہے؟‘‘ میں حیرت سے بولا۔
’’ارے دیکھ تو، کھوپڑی مت گھما ہماری!‘‘ وہ جھلا کر بولا اور میں نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ آہ نہ شمشان گھاٹ تھا اور نہ وہ جگہ جہاں میں اس کے ساتھ کھڑا تھا۔ یہ کوئی اور ہی جگہ تھی۔ چاروں طرف ٹنڈمنڈ درخت کھڑے تھے، بھوری بھوری چٹانیں نظر آرہی تھیں۔ میرا سر چکرا گیا، مجھ سے کھڑا نہ رہا گیا اور میں بیٹھ گیا۔ بھوریا چرن پھر ہنسنے لگا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’اب یقین آگیا ہوگا تجھے! جو ہے، وہ نہیں میں بدل سکتا ہے اور جو نہیں ہے، وہ ہوسکتا ہے۔ تو نہ مان ہماری اور نتیجہ دیکھتا رہ۔‘‘
’’میری جان بخش دے بھوریا چرن!‘‘
’’بڑی آسان بات ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’ہمارا ایک کام کردے سچے من سے! جو چاہے مانگ لے ہم سے! راج کھوتی کی سوگند کھا کر وچن دیتے ہیں جو مانگے گا، سو دیں گے۔‘‘
’’میں گائے کا پیشاب نہیں پیوں گا۔‘‘
’’کون پاپی کہتا ہے۔‘‘
’’میں نماز پڑھ کر کسی کو دھوکا نہیں دوں گا۔‘‘
’’سچے من سے اپنے دھرم کے مطابق عبادت کر، ہم تجھے نہ روکیں گے۔‘‘
’’پھر کیا کام کرنا ہوگا مجھے!‘‘
’’اپنے دھرم کی سوگند کھا کر کہہ کہ ان دونوں کاموں کے علاوہ ہم جو کہیں گے، کردے گا۔ بول کھائے گا سوگند…؟‘‘
’’میں کوئی قسم نہیں کھا سکتا۔ تو جادوگر ہے، مجھ سے کوئی ایسا ہی کام کرائے گا جو ایمان کے خلاف ہوگا۔‘‘ میں نے کہا اور بھوریا چرن غصے سے سرخ ہوگیا۔ کچھ دیر مجھے گھورتا رہا پھر بولا۔
’’چل آگے بڑھ! بعد میں باتیں ہوں گی۔‘‘ مسعود بھیا! بری طرح پھنس گیا تھا اس کے جال میں! اس کے سوا چارئہ کار نہیں تھا کہ اس کے کہنے سے آگے بڑھوں۔ نہ جانے کونسی جگہ تھی۔ میں اس سے بہت خوف زدہ تھا۔ سورج ڈھلے تک وہ چلتا رہا پھر ایک جگہ رک گیا۔ کچھ دیر کیلئے میری نظروں سے غائب ہوگیا پھر واپس آگیا۔ ’’بھوکا ہے؟‘‘
’’نہیں…!‘‘
’’مرتا رہ مجھے کیا۔ بھوک لگے تو مجھے بتا دینا۔‘‘
’’بھوریا چرن! مجھے میری بہن کے بارے میں بتا دے جو کچھ میں نے دیکھا، وہ کیا تھا؟‘‘
’’نوکر لگ ہوں تیرے پتا کا! یہ کردے، وہ کردے اور تو میرا ایک کام بھی نہ کرے۔‘‘
’’آخر کیا کام ہے تیرا، مجھے بتا تو سہی؟‘‘
’’دھرم کی سوگند کھا، تب بتائوں گا۔‘‘
’’نہیں بھوریا چرن! ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ کام پوچھے بغیر میں قسم نہیں کھائوں گا۔‘‘
وہ مجھے گھورتا رہا پھر آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔ کچھ دیر کے بعد اٹھا اور بولا۔ ’’صبح کو ہم یہاں سے چلیں گے آگے ایک بستی ہے، شاہ گڑھی۔ وہاں ملنگ شاہ کا مزار ہے۔ تجھے ایک چیز ملنگ شاہ کے دوار پہنچانی ہے۔‘‘
شاہ گڑھی کے بابا ملنگ شاہ کے بارے میں، میں نے بہت کچھ سنا تھا۔ بڑے پہنچے ہوئے بزرگ تھے، بڑی کراماتیں ان کے نام سے منسوب تھیں۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کیا چیز ہے وہ…؟‘‘
’’ارے بس ہمارا دھرم دوسرا ہے، ان کا دوسرا! مگر ہم بھی انہیں کچھ بھینٹ دینا چاہتے ہیں۔‘‘
’’تو پھر…؟‘‘ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’بری بات ہے بالکا! انسان کے اندر اتنی کھوج نہیں ہونی چاہئے۔ ہر بات میں کیا، پھر، کیوں…! ارے تیرا فائدہ ہی ہوگا۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ ہمارا کام کردیا تو سمجھ لے کہ پار لگ گیا۔ ہم گندے ہیں۔ تیرا دھرم اور ہے، ان کا اور! ہم گندے لوگ ایسی جگہ کب جاسکتے ہیں۔ تو مسلمان ہے تیرے لئے یہ کام مشکل نہیں ہوگا، ہماری منو کامنا پوری ہوجائے گی۔‘‘
’’وہ کیا چیز ہے بھوریا چرن! اور مجھے کیا کرنا ہوگا؟‘‘ میں نے کسی قدر آمادہ ہوتے ہوئے کہا اور وہ بھی ایک دم نرم ہوگیا۔
’’تو کہے تو ابھی چلیں، تو تھکا ہوا نہ ہو تو؟ ایسا کرلو ہم شاہ گڑھی چلتے ہیں۔ تو وہاں سے پہلے اپنی پیٹ پوجا کریو اور پھر ہم تجھے بتا دیں گے وہ جگہ جہاں تجھے جانا ہے اور جو کرنا ہے۔ ارے تو تیار تو ہو اور پھر دیکھ تماشا!‘‘
میں نے گردن جھکا لی اور سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ اگر ایسی کوئی بات ہے تو مجھے اعتراض نہیں لیکن اب اس وقت شاہ گڑھی یہاں سے ہے کتنی دور…؟‘‘
جواب میں بھوریا چرن ہنسنے لگا۔ پھر وہ دو قدم آگے بڑھا اور اس نے میری کمر پہ ہاتھ رکھ کر مجھے زور سے دھکا دے دیا۔ اس کی یہ حرکت میری سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ گرتے گرتے بچا۔ زمین پر ہاتھ ٹکا دیئے تھے ورنہ چہرے پر چوٹ لگ جاتی۔ میں نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا۔ اس حرکت کا مقصد جاننا چاہتا تھا۔ اس نے خود ہی میرے بازو کو سہارا دے کر مجھے کھڑا کردیا اور ہنستا ہوا بولا۔
’’لے آگیا تو شاہ گڑھی! بس اتنی سی بات تھی۔ ایسے ہی پریشان ہورہا تھا۔ ارے بائولے! تیرے سارے کام ایسے ہی پورے ہوجائیں گے، پلک بھی نہ جھپک پائے گی اور دیکھے گا کہ جو تیرے دل میں آیا، وہ پورا ہوگیا۔‘‘
میں نے ادھر ادھر دیکھا اور سر چکرا گیا۔ کہاں تو ایک ایسا ویران علاقہ تھا جہاں کوئی انسانی وجود ہی نہیں تھا اور کہاں اب میرے چاروں سمت آبادی نظر آرہی تھی۔
اس بھیانک جادوگر کی بھیانک جادوگری کا تو پہلے ہی قائل ہوگیا تھا۔ جانتا تھا کہ بری طرح اس کے جال میں جکڑ چکا ہوں۔ بہت دور سے شاہ گڑھی کے شاہ بابا کا مزار نظر آرہا تھا۔ یہاں اچھے خاصے لوگ ہوا کرتے تھے۔ کبھی آیا تو نہیں تھا اس مزار شریف پر لیکن باپ، دادا سے اس کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا۔
بھوریا چرن نے کہا۔ ’’جیب میں ہاتھ ڈال، پیسے موجود ہیں تیری جیب میں۔ ہم دیں گے تو برا مانے گا۔ جا سامنے دکانیں پھیلی ہوئی ہیں، کھا پی لے۔‘‘ بھوک واقعی لگ رہی تھی اور ذہنی طور پر بھوریا چرن سے سمجھوتہ کرنے پر تیار ہوگیا تھا۔ جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو واقعی اچھے خاصے پیسے پڑے ہوئے نظر آئے۔ میں نانبائی کی دکان پر پہنچ گیا۔ سالن، روٹی خرید کر کھائی، پانی پیا، خدا کا شکر ادا کیا اور اس کے بعد وہاں سے باہر نکلا تو بھوریا چرن میرے ساتھ ساتھ چل پڑا۔ ایک سنسان سی جگہ پہنچ کر اس نے مجھے رکنے کیلئے کہا اور پھر بولا۔
’’دیکھ وہ جو سامنے پیڑ نظر آرہا ہے، اس کے پیچھے لکڑی کا ایک صندوقہ رکھا ہوا ہے۔ صندوقچے کے اندر ایک پتلا رکھا ہوا ہے۔
اس پتلے کو چپ چاپ شاہ بابا کے مزار کے پیچھے جو بھی ایسی جگہ ہو جہاں کوئی چیز رکھی جاسکے، رکھ کر چلا آ۔ بس اتنا سا کام ہے تیرا اور بات ختم!‘‘
’’پتلا کیسا ہے…؟‘‘
’’اب دیکھ تو نے پھر وہ باتیں شروع کردیں جس سے دماغ خراب ہوجائے۔ بائولے! یہ کام کرکے آ پھر بتائیں گے تجھے کہ پتلا کیسا تھا اور ہم نے ملنگ بابا کو کیا بھینٹ دی ہے۔‘‘ بھوریا چرن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے آمادگی کا اظہار کردیا تھا۔ اس کے اشارے پر میں درخت کے عقب میں پہنچ گیا۔ دیکھا تو واقعی لکڑی کا ایک صندوقچہ رکھا ہوا تھا۔ اسے کھولا تو اس میں ربڑ جیسا ایک پتلا رکھا ہوا تھا۔ چہرے کے قریب کرکے دیکھا تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ یہ پتلا بالکل بھوریا چرن کی شکل تھا۔ آنکھیں بند کئے ہوئے لیٹا تھا۔ میں نے چند لمحات سوچا۔ کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ پتلا لے کر آگے بڑھا تو یوں لگا جیسے پیروں میں کانٹے چبھ رہے ہوں۔ جیسے جیسے مزار اقدس کی جانب بڑھتا چلا جارہا تھا، نجانے کیسی کیسی کیفیتوں کا شکار ہوتا جارہا تھا۔ کوئی آواز نہیں سنائی دی تھی، کوئی احساس نہیں ہوا تھا جو الفاظ کی شکل اختیار کرسکتا لیکن مجھے یہ محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کوئی انجانی قوت مجھے اس کام سے باز رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ تھوڑی دیر تک میں ان کیفیتوں کو برداشت کرتا رہا لیکن پھر بے چینی عروج کو پہنچ گئی تو میں رک گیا۔ میرا دل الٹ رہا تھا اور مسلسل یہ آوازیں آرہی تھیں کہ مجھے آگے نہیں بڑھنا چاہئے۔ یہ ایک ناپاک وجود ہے۔ مزاروں پر تو پھول چڑھائے جاتے ہیں، چادریں چڑھائی جاتی ہیں، عقیدت کے آنسو نچھاور کئے جاتے ہیں۔ یہ بت پرستی ہے۔ کسی انسانی پتلے کو مجھے مزار شریف تک نہیں پہنچانا چاہئے۔ یہ گناہ عظیم ہے۔ میں نے رک کر صندوقچی کھولی اور اس میں رکھے ہوئےپتلے کو دیکھنے لگا۔ تب ہی وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔وہ اپنی ننھی ننھی آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے مجھے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس کی غرائی ہوئی باریک سی آواز سنائی دی۔
’’کتے کے پلے! جو میں کہہ رہا ہوں، وہ کر۔ یہاں تک آگیا ہے تو اب بیکار باتوں میں نہ پھنس۔ ابے آگے بڑھ پاپی! کیوں بہکاوے میں آرہا ہے۔‘‘ وہ بول رہا تھا اور میرا دل خوف و دہشت سے کانپ رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ بھوریا چرن خود اس پتلے کی شکل میں موجود ہے۔ جب میں درخت کے پیچھے پہنچا تھا اور وہاں سے باہر نکلا تو وہ موجود نہیں تھا۔ یقینی طور پر وہ اس صندوقچی میں یہ شکل اختیار کرگیا تھا۔ میرے دل نے آخری فیصلہ کرلیا اور میں نے صندوقچی کو پوری قوت سے دور پھینک دیا۔ دل ہی دل میں، میں نے فیصلہ کرلیا کہ یہ غلیظ کام میں نہیں کروں گا۔ کسی مزار مقدس کی بے حرمتی کسی مسلمان کے ہاتھوں ممکن نہیں ہے اور میں اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان ہوں۔ میرے اس عمل کا کوئی ردعمل تو نہیں ہوا، صندوقچی دور پڑی تھی اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا کہ بھوریا چرن کا کیا ہوا۔
میں وہاں سے تیزی سے بھاگا اور بھاگتا رہا۔ نجانے کہاں کہاں، نجانے کب تک!
صبح ہوگئی پھر دوپہر! تب ایک آبادی نظر آئی اور میں اس کی طرف بڑھ گیا۔ آبادی میں داخل ہوگیا۔ یہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ یہ بھٹنڈہ ہے۔ گھنی آبادی تھی مگر میرا کوئی شناسا نہیں تھا۔ میں کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھا جو میری مدد کرسکے مگر بدقسمتی نے میرا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ ایک بوڑھا سا آدمی نظر آیا اور میں نے اسے آواز دی۔ وہ رک گیا تھا۔
’’بھائی صاحب! میری مدد کریں۔ میں ایک مجبور مسافر ہوں۔ بھائی صاحب…!‘‘ اس شخص نے ناگواری سے مجھے دیکھا اور پھر چونک سا پڑا۔ وہ مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگا تھا۔ اچانک وہ نرم لہجے میں بولا۔
’’کیا بات ہے، کیا پریشانی ہے تجھے؟‘‘
’’مجھے کوئی ٹھکانہ چاہئے ،کچھ پیسے چاہئیں۔ میں اپنے گھر جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کہاں ہے تیرا گھر…؟‘‘ میں نے اسے اپنے بارے میں مختصر الفاظ میں بتایا لیکن بھوریا چرن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ ہمدردی سے سنتا رہا اور پھر نرم لہجے میں بولا۔ ’’آمیرے ساتھ!‘‘ میں اس کے ساتھ چل پڑا لیکن آبادی میں جانے کے بجائے وہ آبادی کے باہر جانے والے راستے پر چل پڑا تھا۔ میں کسی قدر گھبرا گیا۔
’’سنئے بابا جی…!‘‘
’’کیا ہے…؟‘‘
’’کہاں جارہے ہیں آپ؟‘‘
’’مہاوتی کا نام سنا ہے کبھی تو نے؟‘‘
’’نہیں…!‘‘
’’رانی مہاوتی کا نام نہیں سنا…؟‘‘
’’افسوس نہیں!‘‘
’’بہت بڑی سرکار ہے، ان کے پاس لے جارہا ہوں، تیرے سارے دلدر دور ہوجائیں گے۔‘‘
’’مگر میں…!‘‘
’’خاموش رہ۔ تیری تقدیر اچھی ہے کہ مجھے مل گیا۔ رانی تیری ساری پریشانیاں دور کردے گی۔ بڑی مہان، بڑی نرم دل ہے وہ!‘‘ بوڑھے نے کہا۔ میں ایک ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہوگیا تھا۔ پھر وہ مجھے لئے ہوئے ایک عجیب سی جگہ پہنچ گیا۔ یہاں بدنما اور بدصورت پہاڑی ٹیلے بکھرے ہوئے تھے، جنگل سا پھیلا ہوا تھا، سوراخ بھی نظر آرہے تھے۔ یہ پہاڑی غار تھے اور ایک پہاڑی غار کے دہانے سے وہ اندر داخل ہوگیا۔ مجھے بے حد خوف محسوس ہورہا تھا مگر مرتا کیا نہ کرتا، اس کے ساتھ اندر چلا گیا۔ اندر داخل ہوا تو دماغ کو شدید جھٹکا لگا۔ یہ تو ایک عظیم الشان غار تھا۔ جو جگہ باہر سے بس ایک ٹیلہ نظر آتی تھی، وہ اندر سے اتنی کشادہ تھی کہ یقین نہ آئے۔ غار کے بیچوں بیچ طلسم کی دیوی، کالی دیوی کا ایک بھیانک مجسمہ استادہ تھا اور اطراف کا ماحول بے حد خوفناک تھا۔ میں نے گھبرا کر کہا۔ ’’بابا صاحب! یہ کونسی جگہ ہے؟‘‘
’’مکتی کنڈ…!‘‘ بوڑھے نے مسکرا کر کہا۔ اس کی مسکراہٹ میں صاف شیطینت جھلک رہی تھی۔
’’میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘
’’یہ عجیب سی جگہ ہے، مجھے وحشت ہورہی ہے۔‘‘
’’کالی کنڈ ہے یہ بائولے! یہاں مکتی ملتی ہے۔ ہر پریشانی سے مکتی مل جاتی ہے یہاں! یہ مہاوتی نواس ہے۔‘‘
’’مگر میرا تو تھوڑا سا کام ہے میں… میں یہاں نہیں رک سکتا۔‘‘
’’مہاوتی سے نہیں ملے گا؟‘‘
’’کہاں ہے مہاوتی…؟‘‘
’’وہ ہے رانیوں کی رانی، مہارانی مہاوتی…!‘‘اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔ ایک بڑے سے پتھر کے چبوترے پر میں نے ایک عجیب اور خوفناک چیز دیکھی۔ تم نے کالا چیتا دیکھا ہے مسعود بھیا! ایک نگاہ میں مجھے ایسا ہی لگا جیسے کوئی کالا چیتا بیٹھا ہو مگر وہ چیتا نہیں، انسان تھا۔ ایک عورت، کالی بھجنگ۔ لال لال خوفناک آنکھوں والی! جو اس انداز میں پتھر پر بیٹھی ہوئی تھی جیسے بلی بیٹھتی ہے۔ خوف سے میری چیخ نکل گئی۔
’’میں جانا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے وحشت میں کہا اور غار کے دہانے کی طرف چھلانگ لگا دی مگر دہانہ غائب ہوچکا تھا۔وہاں اب سپاٹ پہاڑی دیوار نظر آرہی تھی۔ بوڑھے شیطان کا مکروہ قہقہہ غار میں گونج اٹھا۔ وہ ہنستا ہوا بولا۔ ’’یہ کالی کنڈ ہے بائولے! یہاں لوگ آتے ہیں، جاتے نہیں۔ تو بھی نہیں جائے گا۔‘‘
’’مجھے جانے دو بابا جی! میں بہت مظلوم ہوں، میں پہلے ہی بہت ستایا ہوا ہوں۔‘‘
’’اسی لئے تو میں تجھے مکتی نواس لایا ہوں، یہاں ساری مصیبتوں سے مکتی مل جاتی ہے۔‘‘
اس وقت ایک پائیدار نسوانی آواز سنائی دی۔ ’’کیا بات ہے شمبھو ناتھ…! کون ہے یہ…!‘‘ میری گردن گھوم گئی۔ شاہانہ جھلملاتے ہوئے لباس میں مجھے ایک حسین اور بلند و بالا قامت کی عورت نظر آئی جو صورت سے ہی رانی معلوم ہوتی تھی۔
’’تیرے لئے ایک تحفہ لایا ہوں مہاوتی!‘‘
’’کون ہے یہ…؟‘‘
’’اماوس کی رات کا پائل…! مہا کالی کیلئے تیری بھینٹ!‘‘ بوڑھا مسکراتا ہوا بولا۔ میری نگاہ اس چبوترے کی طرف اٹھ گئی جہاں وہ کالی بلی بیٹھی ہوئی تھی۔ اب وہاں کچھ نہیں تھا اور چبوترہ خالی پڑا ہوا تھا۔ بوڑھے کی بات میری سمجھ میں بالکل نہیں آئی تھی مگر عورت کی آنکھوں میں عجیب سی چمک نظر آئی۔ وہ بولی۔ ’’ارے ہاں شمبھو جی! کہتے تو ٹھیک ہو… کہاں سے مل گیا یہ…؟‘‘
’’بس! مل گیا۔ ہم نے کھوجا ہے۔‘‘ بوڑھا بولا۔
’’کون ہے یہ…؟‘‘
’’مصیبتوں سے نجات مل جائے گی۔ اسے بالکل نجات مل جائے گی۔‘‘ وہ بھی ہنس کر بولی۔ عجیب ماحول تھا۔ وحشت سے دل بند ہوا جارہا تھا، پائوں لرز رہے تھے۔ میں زمین پر بیٹھ گیا۔ دونوں کی ہنسی میرے کانوں میں گونجی تھی اور پھر وہ دونوں غائب ہوگئے۔ آہ مسعود بھیا…! آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گیا تھا۔ باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ جب تک بدن میں جان رہی، راستہ تلاش کرتا رہا پھر تھک کر بیٹھ گیا۔ نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ ایک بار پھر وہ دونوں مجھے نظر آئے۔ کچھ تیاریاں کررہے تھے۔ پھر نہ جانے کیا ہوا، اس نے گردن اٹھا کر دیکھا تو وہاں بھوریا چرن موجود تھا۔ عورت کے اور اس کے درمیان باتیں ہورہی تھیں۔ بھوریا چرن عورت کو بتا رہا تھا کہ میں اس کا مفرور قیدی ہوں۔ پھر وہ مجھے اس غار سے نکال لایا اور میں تیورایا ہوا اس کے ساتھ چل پڑا۔ کہانی بے حد طویل ہے مسعود بھیا! وہ مجھے کئی مزاروں پر لے گیا۔ اس نے مجھے اسی مکروہ عمل پر مجبور کیا۔ اب اس نے ایک اور اذیت دینا شروع کردی تھی مجھے۔ میں کہیں بھی ہوتا، جونہی سورج چھپتا، نہ جانے کہاں سے پیلے رنگ کی بے شمار مکڑیاں آجاتیں اور میرے بدن سے چمٹ جاتیں۔ آہ! ان کے زہریلے ڈنک میرے بدن میں آگ روشن کردیتے۔ وہ مجھے کاٹتیں، میرا خون چوستیں اور میں اذیت سے دیوانہ ہوجاتا۔
بھوریا چرن کہتا۔ ’’سوگند کھا کتے! سوگند کھا میرا کام کردے گا۔‘‘ مگر میرا دل نہیں چاہتا تھا۔ وہ مجھے لئے مارا مارا پھرتا رہا اور ایک دن اس اذیت کے سامنے میں نے سر جھکا دیا۔ میں نے کہا۔ ’’بھوریا چرن! میں تمہارا کام کردوں گا مگر میں کیا کروں۔ میں نے اس وقت مزار پاک کی طرف قدم بڑھائے تھے تو میرا دل الٹنے لگا تھا۔‘‘
’’سوگند کھا لے، سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ اور میں نے قسم کھا لی۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ اب میں اس کاکام کردوں گا۔
’’ایک مسلمان کا وعدہ ہے یہ…!‘‘ بھوریا چرن نے پوچھا۔
’’ہاں…!‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’پگلے…! بلاوجہ اتنی مصیبت اٹھائی۔‘‘ وہ نرمی سے بولا۔
’’اب بتا میں کیا کروں؟‘‘
’’پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کر! دیکھ کتنا کمزور ہوگیا ہے ۔ ایک بار پھر شنکھا تجھے یقین لاتا ہے کہ تجھے مہان بنا دے گا۔ سنسار میں جو خواہش کرے گا، وہ پوری ہوجائے گی۔‘‘
’’میری بہن مل جائے گی مجھے…؟‘‘
’’راج کرے گی وہ راج…! بادشاہوں کی بیٹیوں کی طرح بیاہ کرنا اس کا اور اس کے بعد مسعود بھیا! اس نے میرا حلیہ بدل دیا۔ خوب عیش کرائے مجھے پھر وہ مجھے لے کر یہاں آگیا۔ یہاں مجھے وعدے کے مطابق اس کا منحوس پتلا مزار پاک پر پہنچانا تھا۔ آہ! میں بالکل بے بس تھا اس کے سامنے! وہ خونخوار مکڑیاں مجھ سے میرا حوصلہ، میرا صبر چھین چکی تھیں۔ وہ اتنا خوف زدہ کرچکی تھیں مجھے کہ راتوں کو خوابوں میں ان کے تصور سے میں دہشت زدہ ہوجاتا تھا اور اس کے بعد مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ اتنا سہم گیا تھا میں ان مکڑیوں سے اور اس کی ہر بات ماننے پر آمادہ تھا۔ غرض یہ کہ اب میں اس کے کام کیلئے تیار ہوگیا تھا اور اس نے مجھ پر عنایتوں کی بارش کردی تھی۔ پھر یہاں پہنچنے کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ میں تھوڑا آرام کروں۔ عرس ہورہا ہے یہاں ان بزرگ کا اس لئے بہت زیادہ رش رہتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ عرس ختم ہوجائے، زائرین چلے جائیں تو اس کے بعد اپنا کام سرانجام دوں۔‘‘
میں تو اس کی ہر خواہش پر آمادہ ہو ہی گیا تھا چنانچہ اس پر بھی میں نے اعتراض نہ کیا اور وقت گزرتا رہا۔ دل خون کے آنسو رو رہا تھا مگر مجبوریاں دامن گیر تھیں۔ اگر دل میں بھی خیال لاتا کہ اس کی خواہش پر عمل نہیں کروں گا تو مکڑیاں آنکھوں کے سامنے کلبلانے لگتی تھیں۔ اچانک ہی ایک دن بھوریا چرن میرے پاس بڑا سہما سہما سا آیا اور کہنے لگا۔
’’سن رے تجھے ایک اور کام بھی کرنا ہے۔ مجبوری ہوگئی ہے۔ یہ مت سمجھنا کہ میں کام پر کام تیرے ذمے ڈالے جارہا ہوں۔ مجبوری ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیا بھوریا چرن!‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’وہ پاپی یہاں بھی آگیا ہے۔ وہ کمینہ یہاں بھی پہنچ گیا ہے اور… اور…! وہ ہمارے راستے ضرور روکے گا۔ ضرور روکے گا وہ ہمارے راستے…!‘‘
’’کون ہے وہ…؟‘‘ میں نے حیرت سے سوال کیا۔ بھوریا چرن کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے اور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس جیسا منحوس شیطان کسی سے خوف زدہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس نے جھلا کے کہا۔ ’’ارے وہی پاپی… مسعود… مسعود کا بچہ!‘‘
’’وہ کون ہے؟‘‘ میں نے پھر سوال کیا۔
’’کہہ تو دیا دشمن ہے میرا دشمن نمبر ایک…!‘‘
’’مجھے کیا کام کرنا ہے؟‘‘
’’تو اس کو مار دے گا۔ یہ کام تو کرسکتا ہے۔ مار دے اس کو سمجھا؟ مار دے اسے۔‘‘
’’مگر بھوریا چرن…!‘‘
’’اگرمگر کچھ نہیں۔ جو میں نے کہا، وہی کرنا ہے تجھے! مار ڈال اسے۔ لے یہ چھرا لے لے… میں تجھے بتا دوں گا کہ وہ کون ہے۔ رات کو وہ جہاں بھی سوئے، یہ چھرا اس کے سینے میں گھونپ دیجیو اور سن! اگر تو نے یہ کام نہ کیا تو میں… میں تیرا وہ حشر کروں گا کہ تو سوچ بھی نہیں سکتا رے…! دیکھ میں گھبرایا ہوا ہوں، جھلایا ہوا ہوں اور مجبوری میں یہ بات کہہ رہا ہوں تجھ سے! مارنا ہے اسے، ہر قیمت پر مارنا ہے اسے! سمجھا…؟‘‘
’’ٹھیک ہے بھوریا چرن! جب میں ایک گندا کام کرنے پر آمادہ ہوگیا ہوں تو دوسرے گندے کام پر مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔‘‘
’’ارے کہہ لے جو تیرا من چاہے۔ گندا کہہ لے، اگھور کہہ لے مگر اس کے بعد تجھے جو کچھ مل جائے گا، جیون بھر یاد کرے گا۔‘‘ میں نے افسردگی سے کہا۔
’’ہم جیون کی بات نہیں کرتے بھوریا چرن! ہماری اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ ہمارے مذہب میں یہ چند لمحاتی زندگی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ہم تو عاقبت کی زندگی کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ یہ زندگی اگر مجھےعیش و عشرت دے بھی دے گی تو ہے ہی کتنی! نہ اپنی مرضی سے آیا، نہ اپنی مرضی سے جائوں گا لیکن اپنی عاقبت خراب کر جائوں گا یہاں رہ کر… خیر اگر تقدیر میں یہی لکھا ہے تو یہی سہی۔‘‘
’’زیادہ عالموں کی سی بات نہ کر! عالموں کا کام عالموں پر چھوڑ دے۔ سنسار میں سب ہی اپنا من پسند جیون گزار رہے ہیں۔ تو بہت مہان بن رہا ہے۔ ارے جو کچھ میں نے کہا ہے، وہی کر اور مسعود بھیا! اسی رات میں نے آپ پر اس چھرے سے حملہ کیا۔ میرے دل میں یہ سب کچھ نہیں تھا۔ میرا دل رو رہا تھا مگر خوف نے مجھے یہ سب کچھ کرنے پر مجبور کردیا اور میں اس گناہ کا مرتکب ہوا مگر ڈرا ہوا تھا، دوسرا وار نہیں کرسکا آپ پر… اور اللہ کے فضل و کرم سے آپ زندہ بچ گئے۔ اس بات پر وہ مجھ سے بہت ناراض ہوا تھا مگر یہ بھی جانتا تھا کہ میرا قصور نہیں ہے پھر اس کے بعد سے وہ مسلسل گھبرایا ہوا ہی رہا۔ کبھی کچھ کہتا تھا، کبھی کچھ! مجھے بھی آپ سے خوف زدہ کرتا رہتا تھا۔ کہتا تھا آپ بہت خطرناک ہیں۔ پھر وہ دوسرا مرحلہ آیا۔ آپ بچ گئے اور وہ اور زیادہ پریشان ہوگیا۔ خود وہ آپ کے قریب نہیں آتا تھا۔ بالآخر اس نے کہا کہ اب میں آپ کا خیال چھوڑ دوں اور اس کا کام کردوں چنانچہ یہ سب کچھ ہوا۔ یہ سب کچھ ہوگیا آہ… یہ میری کہانی ہے مسعود بھائی! یہ میری کہانی ہے۔‘‘
میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ مجسم آنسو تھا۔ بہت تھوڑا سا فرق تھا اس کی اور میری داستان میں… ہم دونوں ایک ہی شیطان کے شکار تھے۔ مجھ سے زیادہ اس کا درد اور کون محسوس کرسکتا تھا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے کہا۔ ’’اب تم کیا چاہتے ہو اکرام…؟‘‘
’’کیا بتائوں مسعود بھائی! کیا کہوں۔‘‘
’’تمہاری بہن کا کیا نام تھا؟‘‘
’’ثریا!‘‘ اس نے جواب دیا اور میرے دل میں پھر کسک ہونے لگی۔ میرا خیال درست ہی نکلا تھا۔ ثریا ہی تھی اور اس کتے بھوریا چرن نے اس کی زبان کاٹ دی تھی۔
’’تمہارے دل میں کوئی خیال تو ہوگا اکرام…!‘‘
’’میری کہانی سن لی ہے آپ نے مسعود بھائی! بہن کے سوا اور کیا ہے میری زندگی میں مگر میرا گھر ہی کھو گیا ہے۔‘‘
’’بہن کو تلاش کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’اس کے بعد کیا کرو گے؟‘‘
’’اللہ جانے مگر کیا وہ مل سکتی ہے؟‘‘
’’اللہ کیلئے کیا مشکل ہے۔‘‘
’’مگر بھوریا چرن…!‘‘
’’وہ کچھ نہیں ہے اکرام! شیطان کو ایک حد تک قوتیں دی گئی ہیں۔ اس سے آگے وہ کچھ نہیں ہے۔ تم اس کی فکر مت کرو۔‘‘
’’آہ…! خدا مجھے اس سے نجات دے دے۔ آہ میری بہن مجھے مل جائے۔ بس، اس کے سوا مجھے کچھ نہیں چاہئے۔‘‘
’’انشاء اللہ ایسا ہوجائے گا۔‘‘
’’مسعود بھیا! ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’پوچھو…!‘‘
’’آپ کون ہیں؟‘‘
’’تمہیں میرا نام معلوم ہے؟‘‘
’’وہ تو ہے مگر… کیا آپ اس کے دشمن ہیں؟‘‘
’’ہاں! کائنات میں مجھے صرف اس سے دشمنی ہے اور تم دیکھ لینا اس کا خاتمہ میرے ہی ہاتھوں ہوگا۔‘‘
’’آپ کی اس سے دشمنی کیوں ہوئی؟‘‘
’’وہ کافر ہے، کالے جادو کا ماہر ہے۔ میں اللہ کے فضل سے مسلمان ہوں اور اس کا شیطانی علم ختم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’آپ عالم ہیں…؟‘‘
’’نہیں اکرام! جسے علم مل جائے، اس سے زیادہ خوش نصیب اس کائنات میں اور کون ہوسکتا ہے۔ بس مجھے کچھ سہارے حاصل ہیں، انہی پر چل رہا ہوں۔‘‘
’’وہ… وہ آپ سے ڈرتا ہے، بہت ڈرتا ہے وہ آپ سے! آپ کے سائے سے بھی بھاگتا ہے مگر اب وہ میری تاک میں رہے گا۔ مجھے نہیں چھوڑے گا وہ…! آپ کب تک مجھے اس سے بچائیں گے؟‘‘
’’پہلے بھی تم سے کہہ چکا ہوں اکرام! تحفظ کرنے والی ذات اللہ کی ہے۔ وہی سب کا محافظ ہے۔ ان شاء اللہ وہ تمہیں اس کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ دنیا ایک شیطان کے وجود سے پاک رہے گی۔ نماز پڑھتے ہو؟‘‘
’’نہیں…!‘‘ اس نے شرمندگی سے سر جھکا کر کہا۔ ’’آج سے شروع کردو۔ دن میں پانچ مرتبہ تم اللہ کے حضور حاضری دو گے اور اس شیطان کو اس کا احساس رہے گا پھر وہ تمہارے قریب آنے سے کترائے گا۔‘‘
’’مجھے آپ کی رہنمائی چاہئے۔‘‘